12.06.2015 Views

حرف ہائے وفا

حرف ہائے وفا تدوین کار ڈاکٹر محمد ریاض انجم پیش کار ڈاکٹر کنورعباس حسنی ڈیکن یونی ورسٹی اسٹریلیا کمپوزنگ الندیم کمپوزرز -٥٢جی راجہ سنٹر قصور


حرف ہائے وفا

تدوین کار
ڈاکٹر محمد ریاض انجم

پیش کار
ڈاکٹر کنورعباس حسنی
ڈیکن یونی ورسٹی
اسٹریلیا

کمپوزنگ
الندیم کمپوزرز -٥٢جی راجہ سنٹر قصور

SHOW MORE
SHOW LESS
  • No tags were found...

You also want an ePaper? Increase the reach of your titles

YUMPU automatically turns print PDFs into web optimized ePapers that Google loves.

<strong>حرف</strong> <strong>ہائے</strong> <strong>وفا</strong><br />

تدوین کار<br />

ڈاکٹر دمحم ریاض انجم<br />

پیش کار<br />

ڈاکٹر کنورعباس حسنی<br />

ڈیکن یونی ورسٹی<br />

اسٹریلیا<br />

الندیم کمپوزرز<br />

کمپوزنگ<br />

-٥٢ جی راجہ سنٹر لصور<br />

تحریرات<br />

ڈاکٹر انور سدید<br />

ڈاکٹر تبسم کاشمیری<br />

ڈاکٹر اختر شمار


ڈاکٹر غالم شبیر رانا<br />

ناصر زیدی<br />

پروفیسر امجد علی شاکر<br />

ڈاکٹرریاض انجم


مکاتیب معاصرین بنام پروفیسر سید ممصود حسنی<br />

پروفیسر سید ممصود حسنی گزشتہ چار عشروں سے<br />

پرورشِ‏ لوح و للم میں مصروف ہیں<br />

۔ ان کا شمار پاکستان کے صفِ‏ اول کے دانشوروں میں<br />

ہوتا ہے جنہوں نے وطن اور اہلِ‏ وطن کو الوام عالم کی<br />

صف میں معزز و معتبر کر دیا ۔ اپنے طویل تخلیمی سفر<br />

میں انہوں نے دنیا بھر کے ادیبوں سے معتبر رابطہ کی<br />

صورتیں تالش کیں ۔ کسی سے فون پر گفتگو ہورہی ہے<br />

تو کسی کو ای میل ارسال کی جارہی ہے۔ کسی کو موبائل<br />

بھیجا جارہا ہے تو کسی کو مکتوب بذریعہ SMS فون پر<br />

ڈاک روانہ کیا جارہا ہے۔ ان کے پاس ممتاز ادیبوں کے<br />

مکاتیب کا بیش بہا ذخیرہ موجود ہے۔ میں نے کئی بار ان<br />

کی توجہ ان نادر خطوط کی اشاعت کی طرف مبذول کروائی<br />

مگر ہر لسم کی ستائش ، نمود و نمائش اور صلے کی تمنا<br />

سے بے نیاز یہ عظیم درویش منش انسان چُپ چاپ اپنے<br />

کام میں مگن رہنے ہی میں سکون محسوس کرتا۔<br />

میرے لیے یہ امر الئك صد افتخار ہے کہ لصور میں ممیم<br />

مایہ ناز ادیب،‏ محمك اور نماد ڈاکٹر دمحم ریاض انجم نے


پروفیسر سید ممصود حسنی کے نام لکھے جانے والے<br />

مشاہیر کے مکاتیب کی علمی و ادبی اہمیت کا احساس و<br />

ادراک کرتے ہوئے ان کی تدوین و اشاعت کی ذمہ داری<br />

لبول کی۔ یہ ان کی علم دوستی،‏ ادب پروری اور تحمیك و<br />

تنمید سے دلچسپی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ڈاکٹر دمحم ریاض<br />

انجم نے اپنے اشہبِ‏ للم کی جوالنیوں سے پوری دنیا کو<br />

ورطہءحیرت میں ڈال دیا ہے جس موضوع پر تحمیك کر<br />

تے ہیں اس کی ثمافت کو سب تسلیم کرتے ہیں ۔ان کے<br />

اسلوب کی ندرت،‏ صدالت،‏ پختگی اور دیانت کا کرشمہ<br />

دامن دل کھینچتا ہے۔ انہوں نے پروفیسر سید ممصود<br />

حسنی کے نام مشاہیرادب کے خطوط کو یک جا کر کے اس<br />

کی اشاعت کا اہتمام کرکے علم و ادب کی جو خدمت کی ہے<br />

اس کے بار احسان سے ادب کے طلبہ اور اساتذہ کے سر<br />

ہمیشہ خم رہیں گے۔<br />

اُردو زبان میں مکتوب نگاری کوبہ طور ‏ِصنف ادب متعارف<br />

کروانے میں اولیت کا اعزاز مرزا رجب علی بیگ سرور<br />

کو ملتا ہے۔ تاریخ ادب میں اگرچہ یہ خطوط اپنی لدامت<br />

اور اولیت کی بدولت لابل ذکر ہیں لےکن تخلیمی اعتبار<br />

سے یہ خطوط اسلوب کی چاشنی اور موضوعاتی تنوع کا<br />

کوئی لابلِ‏ لدر پہلو سامنے نہ ال سکے۔<br />

تاریخِ‏ ادب اُرد و سے دلچسپی رکھنے والے لارئین ادب


اس حمیمت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اردو زبان میں مکتوب<br />

نگاری کو بہ حیثیت ایک ہر دل عزیز صنفِ‏ ادب متعارف<br />

کرانے کا سہرا مرزا اسدا ہلل خان غالب ‏)پ‎1797‎ م<br />

کے سر ہے۔ مرزا اسدہللا خان کے مکاتیب گلشن<br />

اُردو میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئے،‏ جن کی عطر<br />

بیزی سے صحنِ‏ چمن مہک اُٹھا اور اس صنفِ‏ ادب کی<br />

مہک سے آج بھی لریہ ء جاں معطر ہے۔ غالب نے اردو<br />

میں مکتوب نگاری کا آغاز‎٦٤٨١‎ یا ٨٤٨١ کے دوران<br />

کیا۔ اس طرح اردو زبان کو اس مکتوب نگاری کی اعجاز<br />

سے نئے آفاق تک رسائی کی نوید ملی۔ غالب کی مکتوب<br />

نگاری اُردو نثر کے فروغ میں سنگ میل کی حیثیت<br />

رکھتی ہے۔ اپنے دلکش اسلوب سے غالب نے مراسلے کو<br />

مکالمہ بنا دیا۔ مشاہیر کے مکاتیب تاریخ،‏ تہذیب،‏ ثمافت اور<br />

درخشاں الدار و روایات کے امین ہوتے ہیں ۔ غالب نے<br />

اپنے مکاتیب میں اپنی دلی کیفیات،‏ سچے جذبات اور<br />

حمیمی احساسات کے اظہار کے لیے جس طرزِ‏ خاص کا<br />

انتخاب کیا وہ بعد میں آنے والوں کے لیے الئكِ‏ تملید بن<br />

گئی۔ یہ ایک مسلمہ صدالت ہے کہ ہر صنف ادب میں<br />

رنگ،‏ خوش بُو اور حسن و خوبی کے بے شمار استعارے،‏<br />

ال تعداد رنگینیاں ، رعنائیاں ، دلچسپیاں اور دلکشیاں<br />

موجود ہوتی ہیں ۔ ہر زیرک تخلیك کار جب للم تھام کر مائل<br />

بہ تخلیك ہوتا ہے تو اپنے افکار کی جوالنیوں سے وہ<br />

محسور کن فضا پیدا کرتا ہے جس کا کرشمہ دامن دل<br />

)1869


کھینچتا ہے۔ مطالعہء ادب سے کار زار ہستی کے بارے<br />

میں متعدد نئے امکانات،‏ ارتعاشات اور ممکنات کا اندازہ<br />

لگایا جا سکتا ہے۔ ادب کے وسیلے سے راحتیں ، چاہتیں ،<br />

<strong>وفا</strong> اور جفا ، ہجر وفراق ، منزلیں او ر راستے،‏ نشیب و<br />

فراز اور طرز فغاں کے متعلك الشعور کی توانائی کو<br />

متشکل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ہر صنف ادب کی دلکشی<br />

اپنی جگہ لیکن جو تاثیر،‏ بے تکلفی اور محسور کن اثر<br />

آفرینی مکاتیب میں پنہاں ہے اس میں کوئی اور صنف<br />

ادب اس کی شریک و سہیم نہیں ۔ صالحہ عابد حسین نے<br />

: لکھا ہے<br />

ادب میں سےکڑوں دلکشیاں ہیں ۔ اس کی بے شمار ’’<br />

راہیں اور ان گنت نگاہیں ہیں لیکن خطوں میں جو<br />

جادو ‏)بشرط یہ کہ لکھنا آتا ہو(‏ وہ اس کی کسی ادا میں<br />

‘‘ نہیں ۔<br />

١)<br />

زبان و بیان پر خاللانہ دسترس رکھنے واال ہر دور میں<br />

غالب کے مکاتیب کی نثر کو اپنے اسلوب کی اساس بنائے<br />

گا۔ اگر اُردو زبان و ادب کے شیدائی یہ چاہتے ہیں کہ اردو<br />

کی ایسی تحریروں کا مطالعہ کریں جن کی شگفتگی<br />

ہجوم ‏ِیاس میں دل کو سنبھالنے اور مسکراتے ہوئے<br />

کٹھن حاالت کا خند ہ پیشانی سے ممابلہ کرنے پر مائل


کرے تو انہیں بال تامل غالب کے مکاتیب کا مطالعہ کرنا<br />

چاہےے۔ مکاتیب کے سحر سے بچنا محال ہے۔ ایک<br />

باصالحیت مکتوب نگار ذاتی اور شخصی رویے کو جس<br />

فنی مہارت سے آفالی نہج عطا کرتا ہے وہ اسے ابد آشنا<br />

بنانے کا وسیلہ ہے۔ مرزا اسدا ہلل خان کے بعد جن مشاہیرِ‏<br />

ادب نے مکتوب نگاری پر توجہ دی ان میں سرسید<br />

احمدخاں ، دمحم حسین آزاد،‏ خواجہ الطاف حسین<br />

حالی،عالمہ شبلی نعمانی،‏ محسن الملک،‏ ولار الملک،‏ ڈپٹی<br />

نذیر احمد ، سید اکبر حسین اکبر الہ آبادی،داغ دہلوی،امیر<br />

مینائی،‏ ریاض خیرآبادی اور سید علی ناصر کے نام لابلِ‏<br />

ذکر ہیں ۔اُردو میں مکتوب نگاری کو ایک مضبوط،‏<br />

مستحکم اور درخشاں روایت کا درجہ حاصل ہے۔اس کے<br />

ابتدائی نموش تو غالب کے ہاں ملتے ہیں لیکن ولت<br />

گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں متعدد نئے لکھنے والے<br />

شامل ہوتے چلے گئے۔ اُردو مکتوب نگاری کی روایت کو<br />

استحکام دینے اور مکاتیب کے ذریعے اُردو زبان و ادب<br />

کی ثروت میں اضافہ کرنے کے سلسلہ میں ، بعد میں جن<br />

نامور ادیبوں نے حصہ لیا ان میں ابوالکالم آزاد،‏ عالمہ<br />

دمحم البال،‏ مہدی افادی،‏ مولوی عبدالحك،‏ سید سلیمان<br />

ندوی،‏ نیاز فتح پوری،‏ موالنا دمحم علی جوہر،‏ خواجہ حسن<br />

نظامی،‏ عبدالماجد دریا بادی اور دمحم علی ردولوی کی<br />

خدمات تاریخِ‏ ادب میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ اُردو<br />

مکتوب نگاری کے ارتما میں ان تمام مشاہیرِ‏ ادب نے خون


بن کر رگ سنگ میں اترنے کی جو سعی کی وہ تاریخ ‏ِادب<br />

میں آبِ‏ زر سے لکھنے کے لابل ہے۔<br />

ترلی پسند تحریک جو ‎1936‎ء میں شروع ہوئی اس کے<br />

واضح تبدیلی دیکھنے میں زیرِ‏ اثر فکر و نظر میں ایک<br />

آئی۔ برصغیر میں افکار تازہ کے وسیلے سے جہان ‏ِتازہ<br />

تک رسائی کے امکانات کا جائزہ لیا جانے لگا۔ اُردو زبان<br />

کے ادیبوں نے جدید علوم اور تصورات پر توجہ دی۔ اس<br />

زمانے میں نفسیات کے زیرِ‏ اثر حمیمت نگاری اور فطرت<br />

نگاری کا عمیك مطالعہ تخلیمی عمل کی اساس بن گیا۔ اُردو<br />

مکتوب نگاری پر اس کے دوررس اثرات مرتب<br />

ہوئے۔تخلیك ادب کے نئے رحجانات سامنے آئے ۔ان کے<br />

زیر اثر اُردو کے جن نابغہ روزگار ادیبوں نے مکتوب<br />

نگاری کے ذریعے تزکیہ نفس کے امکانات سامنے النے<br />

کی سعی کی ان میں جوش ملیح آبادی،‏ فراق گورگھ<br />

پوری،‏ سید سجاد ظہیر،‏ صفیہ اختر اور ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر<br />

کے نام ممتاز حیثیت کے حامل ہیں ۔ اُردو ادب میں مکتوب<br />

نگاری کو ہمیشہ کلیدی اہمیت کی حامل صنف ‏ِادب سمجھا<br />

جاتا رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے<br />

کہ برصغیر کے اعلیٰ‏ معیار کے ادبی مجالت نے مختلف<br />

اولات میں جو مکاتیب نمبر شائع کےے انہیں بے حد<br />

: پذیرائی ملی۔ ان میں سے کچھ حسبِ‏ ذیل ہیں


ادبی مجلہ ایشیائی ، مکاتیب نمبر،‏ بمبئی،‏‎١٤٩١‎ ء ۔‎١‎<br />

ادبی مجلہ آج کل،‏ خطوط نمبر،‏ دہلی،‏‎٤٥٩١‎ ء ‎٢‎۔<br />

ادبی مجلہ نموش،‏ مکاتیب نمبر،‏ الہور،‏ جلد ‎٣‎۔<br />

اول‎٧٥٩١‎ ء<br />

ادبی مجلہ نموش،‏ مکاتیب نمبر،الہور،‏ جلد دوم،‏‎٨٦٩١‎ ء ‎٤‎۔<br />

بادی النظرمیں یہ حمیمت واضح ہے کہ مکتوب نگار کو<br />

اپنے جذبات،‏ احساسات اور داخلی کیفیات کو<br />

صفحہءلرطاس پر منتمل کرنے کے جو موالع میسر ہوتے<br />

ہیں ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دل کی بات للم و لرطاس<br />

کے معتبر حوالے سے بال خوف و خطر کر سکتا ہے۔<br />

مراسلہ ایک طرح کا مکالمہ بن جاتا ہے اور اس تخلیمی<br />

عمل کے معجز نما اثر سے مکتوب نگار اپنی افتاد طبع<br />

کے مطابك مکتوب الیہ سے بہ زبان للم باتیں کرکے جاں<br />

گُسِل تنہائیوں کے کرب سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔<br />

اگر مکتوب نگاری میں خلوص اور دردمندی کا عنصر<br />

شامل ہو تو مکتوب نگار ہجرو فراق کی عموبت سے بچ کر<br />

خط کے ذریعے وصال کے نشاط آمیز لمحات سے فیض<br />

یاب ہو سکتا ہے۔


نفسیاتی اعتبار سے تحلیل نفسی کے سلسلے میں کسی<br />

بھی شخصیت کی داخلی کیفیات،‏ ہیجانات اور طور طریموں<br />

کے جملہ اسرار و رموز کی تفہیم میں مکتوبات بہت اہمیت<br />

رکھتے ہیں ۔مکاتیب ہی دراصل مکتوب نگار کی شخصیت<br />

کے سربستہ رازوں کی کلید ہیں ۔ شخصیت کی تمام گتھیاں<br />

سلجھانے میں خطوط کا بڑا اہم کردار ہے۔ یہ مکاتیب ہی<br />

ہیں جو کسی شخصیت کی زندگی کے پنہا ں پہلو سامنے<br />

النے میں ممدو معاون ثابت ہوتے ہیں ۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا<br />

کہ مکتوب نگار اپنی زندگی کے تمام نشیب و فراز،‏ جذباتی<br />

میالنات،‏ مستمبل کے اندیشہ <strong>ہائے</strong> دور دراز اور اس جہاں<br />

کے کاردراز کے متعلك مکتوب کی سطور کے ذریعے جو<br />

کچھ پیغام ارسال کرتا ہے ، وہ نوائے سروش کی صورت<br />

میں مکتوب الیہ تک پہنچ جاتا ہے۔ مکتوب نگاری ایک<br />

ایسا فن ہے جو زندگی کی کلیت پر محیط ہے۔ حیات و<br />

کائنات کے تمام پہلو مکاتیب کا موضوع بن سکتے ہیں<br />

یہی ان کی ممبولیت کا راز ہے۔ یہ ایک مسلمہ صدالت ہے<br />

کہ مکاتیب زندگی کی حرکت و حرارت کے آئینہ دار ہوتے<br />

ہیں ۔مکاتیب کا زندگی کے حمائك سے گہرا تعلك ہے۔ ڈاکٹر<br />

‏:خورشید االسالم نے لکھا ہے<br />

زندگی اپنی راہیں خود بنا لیتی ہے۔ خط اپنی باتیں خود ’’<br />

پیدا کر لیتا ہے۔


زندہ رہنے کے لیے اور خط لکھنے کے لیے زندگی کا<br />

احترام ضروری ہے۔‘‘‏<br />

٢ (<br />

)<br />

انسانی زندگی میں مدو جزر کی کیفیت ہمیشہ برلرار رہتی<br />

ہے۔ ایک تخلیك کار کا رویہ عجیب ہوتا ہے۔کبھی سوز و<br />

ساز رومی تو کبھی پیچ و تاب رازی واال معاملہ دکھائی<br />

دیتا ہے ۔ ایسے متعدد عوامل ہوتے ہیں جو کہ تخلیك کار<br />

کی زندگی میں اس کا اوڑھنا بچھونا بن کر اسے ہمہ ولت<br />

اپنی گرفت میں لیے رکھتے ہیں ۔ اس کے بعد ایسا بھی<br />

ہوتا ہے تمام حمیمتیں خیال و خواب بن جاتی ہیں اور<br />

جنہیں ہم دیکھ کر جیتے ہیں وہی لوگ آنکھوں سے<br />

اوجھل ہوجاتے ہیں۔ صدالتوں پر سراب کا گمان گزرتا ہے<br />

لیکن دراصل یہ سب سیل زماں کے تھپیڑوں کی زد میں<br />

آکر پس منظر میں چلی جاتی ہیں اور اس طرح وہ باالٓخر<br />

ہمارے اجتماعی ال شعور کا حصہ بن جاتی ہیں۔اس حمیمت<br />

کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اجتماعی الشعور کا حصہ<br />

بن جانے کے باوجود پس منظر میں چلی جانے والی<br />

صدالتیں ایک لمحے کے لیے بھی غائب نہیں ہوتیں<br />

بلکہ ہمیشہ اپنے وجود کا اثبات کرتی رہتی ہیں ۔ مکاتیب<br />

بھی اس کی ایک صورت پیش کرتے ہیں ۔ ان کی اساسی<br />

خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اگر چہ ان کا تعلك ایک فرد کی<br />

نجی زندگی سے ہوتا ہے لیکن یہ اس انداز سے زندگی کی


کلیت اور جامعیت کی عکاسی کرتے ہیں کہ پڑھنے والے<br />

کو ان میں اپنی زندگی کے تمام موسم اُترتے محسوس<br />

ہوتے ہیں ۔<br />

دل سے جو بات نکلتی ہے اس کی اثر آفرینی بہ ہر حال<br />

مسلمہ ہے ۔ مکتوب نگار کی تاب سخن کے اعجاز سے<br />

فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے<br />

ہیں اور للب و روح کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلنے والے<br />

پُر خلوص جذبات کا یہ سیلِ‏ رواں ، آالم روزگار کو خس و<br />

خاشاک کے مانند بہا لے جاتا ہے۔ پُر خلوص جذبات سے<br />

مزین مکاتیب کی صدا پوری انسانیت کے مسائل کی<br />

ترجمانی پر لادر ہے۔ مکتوب نگار اپنے شعوری غور و<br />

فکر کو اپنے اسلوب کی اساس بناتا ہے۔ بادی النظر میں<br />

مکتوب نگاری کی حدیں جذبہ ئ انسانیت نوازی سے<br />

ملتی ہیں ۔ ان دونوں میں مماصد کی ہم آہنگی فکر و نظر<br />

کے متعدد نئے دریچے وا کرتی چلی جاتی ہے۔ مکتوب<br />

نگار جہاں اپنی داخلی کیفیات کو صفحہ ء لرطاس پر<br />

منتمل کرتا ہے وہاں زندگی کے تلخ حمائك کو بھی منصہ<br />

شہود پر التا ہے ۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مکتوب نگار<br />

تخلیكِ‏ ادب کے حوالے سے زندگی کی حرکت و حرارت کی<br />

عکاسی کرنے والے جملہ پہلو سامنے التا ہے اور اس<br />

طرح زندگی کی جدلیاتی حرکت کے بارے میں کوئی ابہام<br />

نہیں رہتا۔ وہ جانتا ہے کہ خزاں بہار کے آنے جانے سے


یہ مترشح ہوتا ہے کہ فرد کی زندگی اور للب و روح پر<br />

اترنے والے تمام موسم دل کے کھلنے اور مرجھانے سے<br />

عبارت ہیں ۔ مکتوب نگاری ذوقِ‏ سلیم کی مظہر ہے۔ ایک<br />

زیرک اور باشعور مکتوب نگار اپنے اسلوب کے ذریعے<br />

دلوں کو مسخر کرلیتا ہے۔ مرزا اسد ہللا خان غالب نے<br />

اپنے ذوقِ‏ مکتوب نگاری کے متعلك ایک شعر میں<br />

‏:صراحت کی ہے<br />

یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخ مکتوب<br />

ستم زدہ ہوں مگر ذوق خامہ فرسا کا<br />

اُردو ادب میں مکتوب نگاری نے اب ایک مضبوط اور<br />

مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لی ہے۔ مرزا اسد ہللا<br />

خان غالب سے لے کر عہدِ‏ حاضر تک اُردو ادیبوں نے<br />

اپنے خطوط کے وسیلے سے مثبت شعور و آگہی کو پروان<br />

چڑھانے کی ممدور بھر سعی کی ہے۔ سادگی و سالست،‏<br />

خلوص و دردمندی اور انسانی ہمدردی خطوط کا امتیازی<br />

وصف لرار دیا جاتا ہے ۔ مکتوب نگاری میں تکلف،‏ تصنع<br />

، مافوق الفطرت عناصر،‏ ریا کاری اور مولع پرستی کی<br />

کوئی گنجائش نہیں ۔ مراسلے کو مکالمہ بناتے ولت دل کی<br />

بات للم کے وسیلے سے صفحہ ء لرطاس پر منتمل کرنا<br />

ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ <strong>حرف</strong> صدالت لکھنا اس تخلیمی عمل<br />

کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ حمیمت فراموش نہیں کرنی چاہیے


کہ خط کے مندرجات اور موضوعات کا تعلك براہِ‏ راست<br />

زندگی سے ہوتا ہے۔ جس طرح زندگی کے تلخ حمائك سے<br />

چشم پوشی ممکن نہیں اسی طرح مکاتیب کی اثر آفرینی<br />

سے شپرانہ چشم پوشی احسان فراموشی کے مترادف ہے۔<br />

مکتوب نگار اپنی ذات کو پس منظر میں رکھتے ہوئے<br />

حاالت کی محسور کن انداز میں عکاسی کرتا ہے کہ لاری<br />

پر تمام حمائك خود بہ خود منکشف ہوتے چلے جاتے ہیں ۔<br />

خطوط کے ذریعے احساس،‏ ادراک،‏ وجدان اور عرفان کی<br />

جو متاع بے بہا نصیب ہوتی ہے کوئی اور صنف ادب اس<br />

کی برابری نہیں کر سکتی۔ تخلیك کار،‏ اس کے تخلیمی<br />

عمل اور اس کے پس پردہ کار فرما ال شعوری محرکات کی<br />

اساس پر جب تحلیل نفسی کا مرحلہ آتا ہے تو نماد کو<br />

تخلیك کار کے مکاتیب کا سہارا لینا پڑتا ہے۔جب بھی کسی<br />

تخلیك کار کی حیات و خدمات پر تحمیمی کام کا آغاز ہوتا<br />

ہے تو محمك اس کے مکاتیب کو اولین ماخذ کے طور پر<br />

اپنے تحمیمی کام کی اساس بناتا ہے۔ مکاتیب میں<br />

شگفتگی،‏ شائستگی،‏ صدالت ، خلوص ، دردمندی اور<br />

انسانی ہمدردی ان کے موئ ثر ابالغ کو یمینی بنانے والے<br />

عناصر ہیں ۔ ولت گزرنے کے ساتھ ساتھ الدار و روایات<br />

کے معائر بدلتے رہتے ہیں لےکن مکاتیب کی دلکشی اور<br />

دل پذیری کا معیار ہرد ور میں مسلمہ رہا ہے۔ محبتوں ،<br />

چاہتوں ، لربتوں اور عہدو پیماں کے امین خطوط کی<br />

اہمیت ہر دور میں موجود رہے گی۔ دورِ‏ جدید میں برلی


ذرائع ابالغ نے حاالت کی کایا پلٹ دی ہے۔ ای میل ، ایس<br />

ایم ایس،‏ ٹیلی فون اور فیکس نے فاصلوں کی طنابیں<br />

کھینچ دی ہیں ۔ اس کے باوجود خطوط کی ترسیل کا سلسلہ<br />

جاری ہے اور یہ سلسلہ اس ولت تک جاری رہے گا جب<br />

‏:تک جذبوں کی صدالت کا بھرم لائم ہے<br />

خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہیں<br />

ہم تو عاشك ہیں تمہارے نام کے<br />

پروفیسر سید ممصودحسنی صاحب کے نام لکھے جانے<br />

والے خطوط جہاں ان مشاہیر کے اسلوب کے آئینہ دار ہیں<br />

وہاں ان خطوط کے ذریعے مکتوب الیہ کی شخصیت کے<br />

بارے میں بھی متعدد اُمور کی گرہ کشائی ہوئی ہے۔ان<br />

تمام مکتوب نگاروں نے اپنے مکاتیب میں عصری آگہی<br />

کو پروان چڑھانے کی ممدور بھر سعی کی ہے۔ ان خطوط<br />

میں مشاہیر ادب نے پروفیسر سید ممصود حسنی کی<br />

زندگی کے جملہ نشیب و فراز کے بارے میں نہایت دلکش<br />

انداز میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔<br />

پروفیسر سید ممصود حسنی کی ہفت اختر شخصیت کو<br />

سمجھنے کے لےے یہ مکاتیب کلیدی کردار ادا کرتے ہیں<br />

۔ انہوں نے ان تمام خطوط کو جس سلیمے اور محنت سے<br />

سنبھال کر رکھا وہ اُن کے ذوقِ‏ سلیم کی دلیل ہے۔ سیلِ‏


زماں کی مہیب موجیں سب کچھ بہا کر لے جاتی ہیں<br />

لےکن لفظ کی حرمت کو کبھی گزند نہیں پہنچ سکتا۔<br />

آالمِ‏ روزگار کے تالطم میں تخت وکالہ و تاج کے سب<br />

سلسلے نیست و نابود ہو جاتے ہیں لےکن زندہ اور جاندار<br />

الفاظ ان حوادث سے محفوظ رہتے ہیں ۔ یہ تمام مکاتیب<br />

ادیبوں کے اور آشنا اسلوب کے مظہر ہیں ۔ ان خطوط میں<br />

اپنے عہد کے تمام آفتاب وماہتاب اپنی پوری تابانیوں کے<br />

ساتھ ضوفشاں ہیں ۔<br />

ہللا ہللا!‏ کس لدر عظیم لوگ تھے جنہوں نے زندگی کی<br />

حمیمی معنویت کو اُجاگر کرنے میں للم بہ کف مجاہد کا<br />

کردار ادا کیا۔ یہ بات بال خوف و تردد کہی جا سکتی ہے کہ<br />

عظیم لوگ محشر خیال نہیں محشر عمل تھے ، جنہوں<br />

نے ایک دانش ور کے ساتھ اپنی للبی وابستگی،‏ والہانہ<br />

محبت ، خلوص اور درد مندی کے جذبات کا برمال اظہار کیا<br />

اور اسے اپنا محرم راز بنا کر اپنے دل کا حال ان مکاتیب<br />

میں بیان کیا۔<br />

ان تمام مکاتیب میں جہاں مکتوب نگار کی شخصیت کی<br />

بالواسطہ عکاسی ہوتی ہے وہاں<br />

بالواسطہ طور پر لاری مکتوب الیہ کے بارے میں بھی<br />

تمام حمائك سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ پروفیسر سید ممصود


حسنی گزشتہ چار عشروں میں جن حاالت سے گزرے ان<br />

کے بارے میں انہوں نے اپنے تمام احباب کو مطلع کیا<br />

اور اس کے بعد ان سے درد کا رشتہ استوار رکھنے والوں<br />

نے ان سے عہدِ‏ <strong>وفا</strong> نبھاتے ہوئے عالج گردش لیل و نہار<br />

کے لیے نہایت پُر خلوص مشورے دیے۔ ان مکاتیب کی<br />

مسحور کن صدالت لاری پر فکر و نظر کے لیے دریچے وا<br />

کرتی چلی جاتی ہے۔ ان مکاتیب کے پس منظر میں<br />

پروفیسر سید ممصود حسنی کے وہ مکاتیب بھی لاری چشمِ‏<br />

تصور سے دیکھ لیتا ہے جو کہ ان مکاتیب کے لکھنے کا<br />

محرک ثابت ہوئے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ڈاکٹر دمحم ریاض انجم<br />

ان تمام مکاتیب کا سُراغ لگانے کی کوشش کریں جو کہ<br />

پروفیسر سید ممصود حسنی نے مختلف اولات میں دنیا<br />

کے ممتا زادیبوں اور دانش وروں کو ارسال کیے۔ اگر یہ<br />

تمام مکاتیب یا ان کی عندیہ تعداد کو جمع کیا جاسکے تو<br />

یہ بہت بڑی ادبی خدمت ہوگی۔ اگر اس یگانہ روزگار نے<br />

اپنے مکاتیب کی کوئی نمل محفوظ رکھی ہو تو اسے بھی<br />

محفوظ کر لینا چاہیے۔ بِال شبہ یہ کام بہت محنت طلب ہے<br />

مگر ڈاکٹر دمحم ریاض انجم کی خطر پسند طبیعت میں<br />

ستاروں پر کمند ڈالنے کا جو جذبہ موجود ہے وہ ایسے<br />

کار<strong>ہائے</strong> نمایاں انجام دےنے کی یمینا استطاعت رکھتی<br />

ہے۔ اس سے پہلے کہ ابلك ایام کے سموں کی گرد میں<br />

یہ بیش بہا ادبی اثاثہ اوجھل ہو جائے اسے کتابی صورت<br />

میں شائع کرنا چاہیے۔اس بات کا لوی یمین ہے کہ اگر


پروفیسر سید ممصود حسنی کے خطوط شائع ہو جائیں تو<br />

ان کی عظیم شخصیت کی تفہیم میں بے پناہ مدد مل سکتی<br />

ہے۔<br />

پروفیسر سید ممصود حسنی کے ساتھ میرا للبی تعلك<br />

گزشتہ چار عشروں پر محیط ہے۔ اس عرصے میں انہوں<br />

نے میرے استحماق سے کہیں بڑھ کر میری پذیرائی<br />

فرمائی جو کہ ان کی عظمت فکر اور انسان دوستی کا<br />

ثبوت ہے۔ وہ ایک کثیر التصانیف ادیب ہیں ۔ میرا یہ اعزاز<br />

و افتخار کہ جب بھی ان کی کوئی تصنیف شائع ہوئی انہوں<br />

نے مجھے اس سے نوازا اور ساتھ ہی مجھ ناچیز سے<br />

رائے بھی طلب کی۔ احباب کی آرائی<br />

کو وہ ہمیشہ لدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ خاص طور<br />

پر صحت مند تنمید کو وہ اصالح کے لیے ناگزیر سمجھتے<br />

ہیں ۔ادبی مجالت میں ادیبوں کے شائع ہونے والے<br />

مضامین پر انہوں نے نہ صرف مدیران جرائد کو اپنی<br />

رائے سے مطلع کیا بلکہ تخلیك کاروں کو الگ سے خط<br />

لکھا۔ ان کے اسلوب کی تحسین کی۔ یہ سب کچھ اُن کی<br />

تنمیدی بصیرت،‏ تحمیمی ثمابت اور تخلیمی وجدان کا ثمر<br />

ہے۔<br />

آخر میں مجھے یہ عرض کرتے ہوئے خوشی محسوس


ہورہی ہے کہ ڈاکٹر دمحم ریاض انجم نے جس سعادت مندی<br />

کا ثبوت دےتے ہوئے ایک بزرگ ادیب کے کام کو زیور<br />

طباعت سے آراستہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے وہ خود<br />

ان کے لےے بھی نیک نامی کا وسیلہ ثابت ہو اہے۔ زندہ<br />

لومیں اپنے محسنوں اور عظیم بزرگوں کی اسی طرح<br />

پذیرائی کرتی ہیں ۔ ہللا تعالیٰ‏ آپ کو سدا شاد و آباد رکھے<br />

اور بُلھے شاہ کی دھرتی سے علم و آگہی کی عطر بیز<br />

ہوائیں ہمیشہ لریہ جاں کو معطر رکھیں ۔<br />

‏:مآخذ<br />

:<br />

:<br />

صالحہ عابد حسین یادگارِ‏ حالی،‏ (١)<br />

آئینہ ء ادب،‏ الہور،‏‎1966‎ء،‏ صفحہ ٠١٣ ۔<br />

فرمان فتح پوری،‏ ڈاکٹر اُردو نثر کافنی ارتما،‏ (٢)<br />

الولار پبلی کیشنز ، الہور،‏‎1997‎‏،‏ صفحہ‎٦٩٣‎ ۔<br />

پروفیسر ڈاکٹر غالم شبیر رانا<br />

مصطفی آباد ، جھنگ


ممصود حسنی:‏ خوش بُو کے امین<br />

کسی لیامت کے یہ نامے مِرے نام آتے ہیں ؟ پہلے<br />

مصرعے کی ضرورت نہیں ، اتنا بتانا ہی کافی ہے کہ یہ<br />

لیامت کے نامے دراصل محبت بھرے پیام پر مشتمل ہیں<br />

اور ان مکاتیب کے مکتوب الیہ پروفیسر ممصود حسنی ہیں<br />

، جو مصنف،‏ مولف،‏ مرتب متعدد کتب کے ہیں ۔ لصور میں<br />

رہتے ہیں ‏،جس کی وجہ شہرت مختلف ادوار میں مختلف<br />

شخصیات رہی ہیں بابا بلھے شاہ ہوں یا نور جہاں یہ وہ<br />

شخصیات ہیں جن سے لصور کو اعزاز و اعتبار مال<br />

ہواہے،‏ ویسے تو لصور کی میتھی بہت مشہور ہے۔ کہنے<br />

کا مطلب دراصل یہ ہے کہ اب لصور میں ایک لابل ذکر<br />

شخصیت ممصود حسنی کی بھی ہے،‏ جو ظاہر ہے کہ اس<br />

ادبی لد کاٹھ کے یمینا ہوں گے کہ انہیں ممتدر لکھنے<br />

والے ادیبوں ، شاعروں ، نمادوں ، محمموں اور ماہرینِ‏<br />

تعلیم نے گاہے بَہ گاہے خط لکھنے کا سزاوار جانا۔ تمام<br />

موصولہ خطوط کو پروفیسر ممصود حسنی نے حرز جاں<br />

‏!بنا کے رکھا<br />

!<br />

‘‘<br />

آمدم برسر مطلب ذرا بعد میں … تمہید طوالنی اس لیے ’’<br />

ہے کہ حکایت دل پذیر و لذیذ ہے کہ موضوع ‏’’خط ہے<br />

‘‘


جس کے بارے میں سوال و جواب کے پیرائے میں<br />

‏:شاعری میں یوں بھی اظہار ملتا ہے<br />

خط کبوتر کس طرح لے جائے بامِ‏ یار پر؟<br />

پَر کترنے کو لگی ہیں لینچیاں دیوار پر<br />

‏:اور جواب مالحظہ ہو<br />

خط کبوتر اس طرح لے جائے بامِ‏ یار پر<br />

خط کا مضموں ہو پَروں پر،‏ پر کٹیں دیوار پر<br />

ہمارے شہر ‏ِزندہئ دالں ، الہور،‏ میں ایک شاعر ہوا کرتے<br />

تھے اکبر الہوری۔ وہ اُردو پنجابی کے بے بدل شاعر تھے۔<br />

پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے۔ ایک بار حلمہ ارباب<br />

ذوق کے اجالس کے اختتام پر غیر رسمی طور پر ایک<br />

پنجابی غزل سنائی،‏ اس کا ایک شعرہنوز ذہن کے نہاں<br />

خانے میں محفوظ ہے۔ مطلع کی صورت میں یہ شعر<br />

‏:دماغ پر چپکا ہوا ہے<br />

جدوں اَج دا نشہ لہہ جاوے اودوں ساہنوں خط لکھنا<br />

جدوں یاد اساں دی آوے اودوں ساہنوں خط لکھنا<br />

اس کے برعکس ہر عہد پر غالب مرزا اسد ہللا خان غالب


‏:کا عمومی رویہ یہ تھا کہ<br />

‏!خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو<br />

ہم تو عاشك ہیں تمہارے نام کے<br />

خط خواہ کبھی کسی موسم میں لکھا جائے،‏ وصول کنندہ<br />

کا غنچہء دل اسے پاکر ضرور کِھلتا ہے،‏ اگرچہ کہا جاتا<br />

‏:ہے<br />

آدمی آدمی سے ملتا ہے<br />

دل مگر کم کسی سے ملتا ہے<br />

مگر خط ایک ایسی چیز ہے،‏ جس میں دل سے دل ملتا<br />

ہے۔ اس آدھی ماللات کے عمل میں بے تکلفانہ انداز میں<br />

کھل کر دل کی بات کہی جا سکتی ہے۔ اس آدھی ماللات<br />

دور کے آج کے نوجوان SMS کے لطفِ‏ بے پایاں کو<br />

‏:کیا جانیں ، کیا سمجھیں ؟ بمول حضرتِ‏ داغ دہلوی<br />

لُطفِ‏ مَے تجھ سے کیا کہوں زاہد<br />

<strong>ہائے</strong> کم بخت تُو نے پی ہی نہیں<br />

آج کے مشینی دور میں خط لکھنے نہ لکھنے کے گلے<br />

شکوے بھرے ایسے خوبصورت اشعار بھی اپنی معنویت


‏:کھو بیٹھے ہیں کہ<br />

مدت ہوئی کہ آپ نے خط تک نہیں لکھا<br />

اس بے رُخی کا کوئی سبب تو بتایے<br />

‏(ناصر زیدی)‏<br />

اور<br />

‏!آج بھی اس نے خط نہیں لکھا<br />

آج بھی دیکھ لی کنول نے ڈاک<br />

‏(کنول فیروز)‏<br />

آج کے مشینی دور کی لباحتوں کو مفکر پاکستان،‏ شاعر<br />

مشرق حضرت عالمہ البال نے بہت پہلے محسوس کر لیا<br />

تھا اور انہوں نے بجا طور پر یہ حمیمت بہ زبان شعر بیان<br />

کر دی تھی کہ<br />

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت<br />

احساسِ‏ مروت کو کچل دیتے ہیں آالت<br />

کی الکھوں خوبیاں کیوں نہ ہوں ، SMS موبائل فون اور


سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ خط لکھنے لکھانے کی<br />

خوشگوار روایت کو اس مشینی سہولت نے یکسر فراموش<br />

کر ا دیا ہے۔’’خطوط نویسی شکن‘‘‏ ماحول میں لصور کے<br />

ڈاکٹر دمحم ریاض انجم صاحب کو عجب سوجھی۔ انہوں نے<br />

لصور میں ممیم مشہور ادیب،‏ نماد،‏ محمك اور ماہرِ‏ تعلیم<br />

پروفیسر ممصود حسنی کے نام آئے ہوئے سیکڑوں<br />

خطوط کا پلندہ ان سے حاصل کرکے تحمیك و تدوین کے<br />

عمل سے گزارا۔ یوں ڈاکٹر دمحم ریاض انجم کے اس<br />

تحمیمی و تدوینی عمل نے صاحبانِ‏ ذوق کی ادبی تسکین کا<br />

وافر سامان فراہم کر دیا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر ممصود حسنی<br />

‏’’لسانیاتِ‏ غالب‘‘‏ کے حوالے سے بھی اپنی منفرد شناخت<br />

رکھتے ہیں ، وہ لگ بھگ دو درجن متنوع ِ کتب کے<br />

مصنف،مولف،‏ اور مرتب ہیں ‏،وہ ہمہ جہت للم کار ہیں ۔<br />

افسانہ نویسی اور طنز و مزاح نگاری میں بھی درک<br />

‏!…رکھتے ہیں اور نثری نظم کہنے میں بھی<br />

اس ہمہ جہت اہلِ‏ للم کے نام موصولہ خطوط میں بہت سی<br />

نامور شخصیات بے تکلفانہ بولتی چالتی،‏ جیتی جاگتی،‏<br />

چلتی پھرتی نظر آتی ہیں ۔ ان شخصیات میں بہت سوں<br />

سے میری بھی نیاز مندی رہی ہے یا تعلكِ‏ خاطر رہا ہے،‏<br />

مثالً‏ مشفك خواجہ،‏ ڈاکٹر آغا سہیل،‏ پروفیسر حمید یزدانی،‏<br />

بیدل حیدری اور ڈاکٹر <strong>وفا</strong> راشدی جنہیں میں عموماً‏ بڑے<br />

پیار اور احترام سے اپنے اس خود ساختہ مصرع کو االپ


‏:کر مخاطب کیا کرتا تھا<br />

‏‘‘بے <strong>وفا</strong> راشدی !… بے <strong>وفا</strong> راشدی ’’<br />

اس کا ایک پس منظر یہ تھا کہ سابك مشرلی پاکستان سے<br />

حضرت <strong>وفا</strong> راشدی مجھے بَہ طور ایڈیٹر ادب لطیف الہور<br />

اپنی تحریروں سے نواز اکرتے تھے اور کثرت سے خط<br />

بھی لکھا کرتے تھے۔ پھر وہ جب کراچی آگئے اور میں<br />

‏’’ادبِ‏ لطیف‘‘‏ کی ادارت چھوڑ بیٹھا تو ان کا وہ تعلكِ‏ خاص<br />

‏:مفمُود ہو گیا<br />

کوئی آتا ہے وہاں سے نہ کوئی جاتا ہے<br />

مدتیں گزریں رہِ‏ مہر و <strong>وفا</strong> بند ہوئے<br />

اس اجنبیت کی فضا کو میں بہ ولتِ‏ ماللات ‏’’بے <strong>وفا</strong><br />

بے <strong>وفا</strong> راشدی‘‘‏ کے االپ میں گم کرنا چاہتا۔<br />

مرحوم میری صدائے بے درماں برداشت کر لیتے اور<br />

‏!سنجیدگی کے باوجود مسکرا کر معانمہ کرتے<br />

راشدی‘‘‏ ’’<br />

زیرِ‏ نظر مجموعہ خطوط ‏’’خوش بُو کے امین‘‘‏ کو پڑھنے<br />

اور ان سے بھرپور استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی<br />

ذاتی الئبریری میں سجا کر رکھنے پر ہی اکتفا نہیں کیا<br />

جانا چاہیے،‏ بلکہ اپنی شب خوابی کے کمرے میں تکیے


‘‘<br />

‏:کے نیچے رکھنا چاہیے کہ<br />

دل کے آئینے میں ہے تصویرِ‏ یار<br />

‏!جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی<br />

تصویرِ‏ یار کے بجائے اس مرلعِ‏ احباب اور مرلعِ‏ دانش ’’<br />

وروں کو جب جی چاہے ہاتھ بڑھا کر کہیں سے بھی<br />

کھول کر کسی بھی شخصیت سے ماللات کی جا سکتی<br />

‏:ہے<br />

اے ذوق!‏ کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا<br />

بہتر ہے ماللات مسیحا و خِ‏ ضر سے<br />

خاطر جمع رکھیے!‏ یہ ماللات یمینا سود مند ثابت ہوگی،‏<br />

ایک نیا لطف ملے گا۔ آزمائش شرط ہے۔ یعموب پرواز نے<br />

‏:ٹھیک ہی کہا ہے کہ<br />

پسندیدہ تریں ہے شغل،‏ ترویجِ‏ ادب اس کا<br />

رہِ‏ تحمیك کا ہر دم جیاال ہے ریاض انجم<br />

اور آخر میں اپنا ایک شعر نذرِ‏ لارئین کرکے اجازت چاہتا<br />

: ہوں


تیری باتیں ، تیری یادیں ، تیرے رنگین خطوط<br />

اپنے ہمراہ یہی زادِ‏ سفر رکھتے ہیں<br />

ناصر زیدی<br />

کالم نگار<br />

بَہ شکریہ روزنامہ ‏’’پاکستان‘‘‏ الہور<br />

جلد ‎٤٢‎‏،شمارہ‎٢١،٧٠١‎ جون‎٣١٠٢‎ ء بروز بدھ<br />

<strong>حرف</strong> شاکر<br />

ہمارے ایک عزیز اتفاق سے ان پڑھ تھے اور ان کے ’’<br />

چھوٹے بھائی پڑھے لکھے تھے۔ وہ ایک گائوں میں<br />

رہتے تھے جہاں کے دیہاتی چھوٹے سے خط لکھوانے<br />

آتے ۔ بڑے بھائی چھوٹے کو ڈانٹتے اور فخر سے کہتے<br />

‏:کہ<br />

ہم نے پڑھا ہے نہ ہمیں کوئی خط لکھنے کی بیگار کرنا ’’<br />

‏‘‘پڑتی ہے لو تُم اور پڑھو اور خط لکھنے کی مشمت کرو۔


یہ چھوٹے بھائی خط لکھنے کی مشمت بھی کرتے تھے<br />

اور کبھی کبھی اپنی ہونے والی بیوی کو خط بھی لکھتے<br />

تھے۔ ایک دو خط منظر عام پر آگئے اور خاصے مزے لے<br />

لے کر پڑھے گئے۔ یہ دونوں لسم کے خط دراصل خطوط<br />

کو دو السام میں تمسیم کر دیتے ہیں ۔ مشمت والے خط تو<br />

سیکرٹریٹ سے روزانہ جاری ہوتے ہیں جن میں کبھی<br />

کبھی گورنر صاحب کسی افسریا مالزم کو نوکری سے<br />

بخوشی برخاست کرتے ہیں اور کبھی کسی کو مالزمت پر<br />

فائز کرتے ہیں ۔ دونوں صورتوں میں گورنر صاحب کی<br />

خوشی میں کوئی فرق نہیں آتا۔ یہ میکانکی لسم کی<br />

خوشی ان پر ہر خط میں طاری رہتی ہے جس کاانہیں پتا<br />

بھی نہیں چلتا۔ گویا خطوں میں ان کی شخصیت کا کوئی<br />

گوشہ بھی شامل نہیں ہوتا۔<br />

غالب کے خطوں کو اردو ادب میں کالسیک کا درجہ<br />

حاصل ہو گیا ہے اب کسی خط کا کمال یہی ہے کہ وہ<br />

خطوط غالب کی ہمسری کرے۔ غالب کے خطوں نے ایک<br />

عجیب مصیبت ڈال دی ہے کہ ان کی خصوصیات سے خط<br />

کی تعریفات متعین ہوتی ہیں ۔ اب ہر پروفیسر خط کی<br />

تعریف میں مراسلہ کی بجائے مکالمہ،‏ بے تکلفی،‏ شوخی،‏<br />

شرارت،‏ تنمید،‏ نظریہ،‏ شعر وغیرہ وغیرہ کو ضرور شامل<br />

کر لیتا ہے مگر کیا یہ سب کچھ مال جال دیا جائے تو خط


بن جائے گا۔ ظاہر ہے نہیں بنے گا۔ پھر کیا غالب سے<br />

پہلے لکھے جانے والے لوگوں کے لکھے ہوئے خطوں<br />

کو خط شمار کیا جائے یا نہ کیاجائے۔<br />

ہم نے بعض بزرگوں کے پُرتکلف خطوط میں ادب<br />

محسوس کیا اور بعض خوردوں کے خطوں میں ادب کا<br />

شائبہ بھی نہ دیکھا۔ یہ بزرگ جان بوجھ کر پر تکلف نہیں<br />

ہوئے تھے۔ اُن کی تربیت ہی اس انداز کی تھی۔ ہمارے والد<br />

مرحوم ساری عمر گلے کا بٹن بند رکھتے تھے۔ ظاہر ہے<br />

اپنے جذبات بھی چھپا کر رکھتے تھے۔ وہ ہر کسی سے<br />

بے تکلف کیسے ہوتے۔ شوخی و شرارت کیسے کرتے۔<br />

غالب نے اگر کہیں گلے کا بٹن کھول لیا ہے تو کیا ہوا۔<br />

انہوں نے تو جیل بھی دیکھی تھی۔ زندگی نے جس لدر<br />

بے تکلفی سے غالب پر حملے کےے،‏ غالب نے کہیں نہ<br />

کہیں بے تکلف ہونا ہی تھا۔ شاعری میں نہ سہی خطوں<br />

میں ہی سہی ۔ شاعری میں اگر کہیں بے تکلف نہیں<br />

ہوتے تو کیا ہم ان کے شعروں کو ادب کے زمرے سے<br />

خارج کر دیں ۔ایسا نہیں کیاجاسکتا تو کیوں ؟<br />

اصل میں شاعری اور ادب اس لدر محدود شے نہیں<br />

ہوتے کہ ہم انہیں ایک آدھ صنعت سے ممید کردیں ۔ غالب<br />

کے خطوط بے تکلفی کا نمونہ ہو کر ادب ہیں مگر<br />

ابوالکالم آزاد کے خطوط بے تکلفی کا نمونہ نہ ہو کر بھی


ادب ہیں ۔ نظیربھی شاعر ہے اور غالب بھی ۔ حاالنکہ ایک<br />

عوام کی زبان لکھتا ہے دوسرے خواص کیا کبھی کبھی<br />

اخص الخواص کی زبان لکھ رہا ہے۔ اسی طرح خط سے<br />

جب تک لکھنے واال ال تعلك اور بے نیاز ہے ۔ خط<br />

میکانکی عمل ہے،مشمت ہے،‏ ولتی شے ہے۔ جونہی اس<br />

میں لکھنے والے کی ذات شامل ہوئی۔ یہ ادب بن گیا۔ اب<br />

اس کے ادبی ممام ومرتبہ کا انحصار اس بات پر ہے کہ<br />

لکھنے والے کی ذات کتنی بڑی ہے۔ بعض اولات یہ بھی<br />

تو ہوا کہ ادیب نے اپنی ذات کی کائنات صغرمیں کائنات<br />

کبیر کا جلوہ دیکھ لیا۔ اب اتنی بڑی ذات جب کسی تحریر<br />

میں داخل ہوتی ہے تو وہ کائنات کبیر کی جلوہ گاہ بن<br />

جاتی ہے۔ میرے پائیں باغ کی طرف کھلنے والی کھڑکی<br />

کھولے بغیر ایک عالم کی سیر اور دنیا بھر کے باغوں کا<br />

عکس دیکھ لیا۔<br />

صوفی کا دل اگر عرش ہللا تعالیٰ‏ ہوتا ہے تو ادیب کا دل<br />

بھی جلوہ گاہ ہی ہوتا ہے۔ کبھی حنا کی،‏ کبھی کائنات کی<br />

اور کبھی انسان کی۔ اب ظاہر ہے کہ ہر دل ایک سا تو نہیں<br />

ہوتا۔ مے کا ملنا طرف لدح خوار پر منحصر ہے۔ برق<br />

تجلی شاعر یا ادیب کی ذات سے گزر کر لفظوں کا روپ<br />

دھارتی ہے۔ برق تجلی جب لفظوں کا روپ دھارتی ہے تو<br />

یہاں معاشرہ مداخلت کرتا ہے کیونکہ لفظ تو معاشرے کے<br />

عطائ کردہ ہیں ۔ یوں تخلیمی عمل اور خاصا پیچیدہ نظر


آتا ہے،‏ مگر تخلیك پیچیدہ ذرا کم ہوتی ہے تہہ دار زیادہ<br />

ہوتی ہے۔ یہ تخلیك کی خامی ہے کہ وہ تہہ دار تو نہ ہو<br />

مگر پیچیدہ ہو۔<br />

ممصود حسنی یمینا اپنے نامے آنے والے خطوں کو ذاتی<br />

ملکیت سے لومی ملکیت بنا رہے ہیں ۔ انہوں نے انتخاب<br />

کرتے ہوئے کچھ معیار سامنے رکھے ہوں گے۔ مجھے<br />

اس سے غرض نہیں ۔ میرا ممصد یہ ہے کہ یہ خط کہاں<br />

تک ادب ہیں ۔ بعض خط تو دور اور دیر تک ادبی لدروں<br />

کا ساتھ نبھاتے ہیں اور بعض ذرا کم۔ بعض تیر نیم کش<br />

ہیں اور بعض خطوط نگاہِ‏ یار کی طرح دل سے جگر تک<br />

اُتر جاتے ہیں اور دونوں کو ایک ساتھ رضا مند کر لیتے<br />

ہیں ۔زیر ‏ِنظر خطوط کے مکتوب نگار ادیب ہیں ، شاعر ہیں<br />

، عالم ہیں یا صرف انسان۔<br />

زیرِ‏ نظر خطوط کے مکتوب نگار ادیب ہیں ، شاعرہیں ،<br />

عالم ہیں یا صرف انسان ‏،اُن سب کے خطوط میں بعض<br />

سخت ممام آتے ہیں ، بعض باتیں تو فساد خلك کا باعث بن<br />

سکتی ہیں مگر حسنی کو فساد خلك کا کوئی خوف نہیں ۔<br />

اس لیے اُن کے خطوں میں ہر بات نہفتہ رہنے کی بجائے<br />

شگفتہ روپ میں ہمارے سامنے ہے۔ حسنی مدت سے آزاد<br />

غزل اور آزاد ہائیکو لکھنے جیسے دلیرانہ بلکہ جرآ ت<br />

رندانہ کے حامل کام کر رہا ہے۔ اس سے کوئی بھی دلیری


بعید نہیں ۔ ان خطوط کی اشاعت ان کی جرات ہمت کا<br />

امتحان تھا۔اُس سے یہ کامران گزرے ہیں اب مکتوب<br />

نگاروں پر کیا گزرتی ہے شاید وہی گزرے جو لطرے پر<br />

گہر ہونے تک کے عمل میں گزرتی ہے یا اس سے زیادہ۔<br />

حسنی اپنی جرآ ت میں کامران ہیں جس پر میں انہیں<br />

مبارکباد دیتا ہوں اور خطوط کا خلوص دل اور گرم جوشی<br />

‏‘‘سے استمبال کرتا ہوں ۔<br />

پروفیسر امجد علی شاکر<br />

ستمبر 14 1993<br />

نمش اولین<br />

پروفیسر ممصود حسنی کا ادبی سفر کٹھن بھی ہے اور بے<br />

مثال بھی۔ وہ ادبی دنیا میں ‎٥٦٩١‎ء سے بسم ہللا<br />

کرکے‎٢١٠٢‎ء تک ٦٤ برس خدمات انجام دے کر ٧٤ ویں<br />

برس میں داخل ہو چکے ہیں ۔ ان کا مدامت عمل تاحال<br />

جاری و ساری ہے ۔ ان کے بیتے ماہ و سال کا جائزہ لینے<br />

سے معلوم پڑتا ہے کہ وطن عزیز پاکستان کی عمر ابھی


چار برس بھی نہ ہونے پائی تھی جب وہ اس جہانِ‏ فانی<br />

میں تشریف الئے۔ انہوں نے ایک ایسے علمی وادبی سید<br />

گھرانے میں جنم لیا جن کے بزرگ نسل در نسل نظم و نثر<br />

سے وابستہ تھے۔ گویا للم کے ساتھ ان کا چولی دامن کا<br />

ساتھ رہا ہے۔ اس امر کا منہ بولتا ثبوت ان کے پردادا سید<br />

عبدالرحمن المعروف امام شاہ،‏ دادا سید علی احمد اور باپ<br />

سید غالم حضور کی تحریریں ‏)مطبوعہ اور غیر مطبوعہ(‏<br />

حسنی صاحب کے پاس موجود ہیں ۔<br />

پروفیسر ممصود حسنی کے آباؤ اجداد متحدہ ہندوستان کے<br />

ایک چھوٹے سے گائوں نوشہرہ ‏)امرتسر(کے رہنے<br />

والے تھے۔اُن کی پیدائش سے تمریباً‏ بیس اکیس برس<br />

پہلے اُن کے والد گرامی اپنے آبائی گائوں کو چھوڑ کر<br />

بستی اسالم پورہ لصور میں آکر آباد ہوگئے۔یہاں انہوں<br />

نے یکم جون ‎١٥٩١‎ء کو اپنے گھر سیدہ سردار بیگم کے<br />

بطن سے جنم لےنے والے بیٹے کا نام ممصود حسین رکھا<br />

مگر والدہ محترمہ نے اپنے اس نومولود لختِ‏ جگر کا نام<br />

ممصود صفدر پسند کیا۔ یوں اُن کا نام ممصود صفدر کمیٹی<br />

ریکاڑ میں تاریخ کا حصہ بن گیا۔<br />

پروفیسر ممصود حسنی نے ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنے گھر<br />

سے کیا۔ اُن کی والدہ محترمہ نے انہیں لرآنی تعلیم اور<br />

والد گرامی نے کتابی تعلےم سے آراستہ کیا۔ بعد ازاں اُن


کو ایم سی پرائمری سکول پرانی سبزی منڈی،‏ لصورمیں<br />

داخل کروا دیا گیا۔ یہاں سے انہوں نے پرائمری کا امتحان<br />

پاس کیا پھر ثانوی تعلیم کے حصو ل کے لیے انہیں<br />

اسالمیہ ہائی سکول،‏ لصور میں داخل کروا دیا گیا۔ یہاں<br />

بھی وہ علم جیسے انمول زیور سے آراستہ ہوئے۔ عمر<br />

کے اسی حصے میں انہوں نے ستلج دریاسے آنے والے<br />

سیالبی ریلوں اور ٦ ستمبر‎٥٦٩١‎ء کو ہونے والی پاک<br />

بھارت جنگ کے ہاتھوں اپنے خاندان کو بہت حد تک<br />

متاثر ہوتے ہوئے دیکھا۔ ےہی وجہ تھی کہ متوسط طبمہ<br />

سے تعلك ہونے کے باوجود بھی ان کے والد محترم سکول<br />

میں فیس معافی کی درخواست گزارنے پر مجبور ہوئے۔<br />

باالٓخر اسی سکول سے انہوں نے ‎٧٦٩١‎ء میں میٹرک کا<br />

امتحان پاس کیا۔<br />

جوانی کے وہ ایام جب اکثر طلبہ امتحان سے فارغ ہو کر<br />

لطف اندوز ہونے کی ٹھان چکے ہوتے ہیں ۔انہیں<br />

حصول ‏ِروزگار کے لیے سفر کی مشمت سے دوچار ہونا<br />

پڑا۔<br />

میٹرک کے نتائج بھی ابھی منصہ شہود پر جلوہ گر نہیں<br />

ہوئے تھے کہ انہیں فیصل آباد میں ایک پرائیویٹ<br />

ٹرانسپورٹ کمپنی میں کلرکی کرنا پڑی۔انہوں نے ان<br />

کٹھن حاالت میں بھی صبر کا دامن نہ چھوڑا بلکہ اپنا وہ


ادبی سفر جوانہیں وراثت میں عطا ہوا تھا جس کا آغاز وہ<br />

زمانہ طالب علمی میں کر چکے تھے اسے جاری رکھا۔<br />

انہوں نے علمی و ادبی میدان میں لدم رکھتے ہی اپنا للمی<br />

نام مخدوم ایم اے زاہد گیالنی منتخب کیا۔ کچھ عرصہ کے<br />

بعدلاضی جرار حسنی،‏ پھر ممصود ایس اے حسنی اور آخر<br />

کار ممصود حسنی کے نام سے شہرت عام حاصل کی۔<br />

کلرکی چھوڑ کر‎٨٦٩١‎ء میں آرمی میڈیکل کور ایبٹ آباد<br />

میں بَہ طورنرسنگ اسسٹنٹ میں داخلہ لیا۔ امتحان پاس<br />

کرنے کے بعدانہوں نے ایبٹ آباد،‏ کھاریاں ، حیدرآباد،‏<br />

بہاولپور اور ملتان کے آرمی میڈیکل کور کے اسپتالوں<br />

میں بَہ طور نرسنگ اسسٹنٹ خدمات سرانجام دیں ۔ اس<br />

دوران وہ اپنی تحریروں میں اپنے للمی نام کے ساتھ<br />

ڈاکٹر بھی لکھتے رہے۔آرمی میڈیکل کور کی مالزمت<br />

چھوڑ کر چناب رینجرز میں بطورنرسنگ اسسٹنٹ کام کرنا<br />

شروع کر دیا۔ اس دوران دوسری پاک بھارت جنگ چھڑ<br />

گئی۔انہوں نے اس جنگ میں ٹکو چک،‏ کشمیر کے محاذ<br />

پر بطور نرسنگ اسسٹنٹ خدمات انجام دیں ۔<br />

پروفیسر ممصود حسنی نے اپنے معاشی سفر کے دوران<br />

اپنا ادبی اور تعلےمی سفر جاری رکھا۔‎٦٧٩١‎ء میں انہوں<br />

نے ایف اے اور ‎٨٧٩١‎ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔


بعد ازاں وہ مالزمت ترک کرکے گھر لوٹ آئے۔ یہاں<br />

انہوں نے ‎٠٨٩١‎ء میں ایم اے اردو کی ڈگری پنجاب<br />

یونیورسٹی الہور سے حاصل کی۔ عالوہ ازیں انہوں نے<br />

‎٣٨٩١‎ء میں ایم اے معاشیات اور ‎٥٨٩١‎ء میں ایم اے<br />

تاریخ کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی الہور سے حاصل کی۔<br />

مختلف محکموں میں خدمات انجام دینے کے بعد آخر<br />

کاروہ ‎٥٨٩١‎ء میں لےکچراراُردو ایڈہاک منتخب ہوئے۔ان<br />

کی پہلی تمرری گورنمنٹ کالج نارنگ منڈی،‏ ضلع<br />

شیخوپورہ میں ہوئی۔ ‎٧٨٩١‎ء میں وہ پنجاب پبلک<br />

سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے لیکچر اراُردو ریگولر<br />

ہو گئے۔ یکم نومبر‎٧٨٩١‎ء کو ان کا تبادلہ ان کے آبائی<br />

شہر کے اکلوتے اسالمیہ کالج لصور میں ہوگیا۔ یہاں وہ<br />

ترلی کی منازل طے کرتے ہوئے ایسوسی ایٹ پروفیسر<br />

ہوئے اور آخر ١٣ مئی ‎١١٠٢‎ء کو اپنی سروس مکمل<br />

کرکے ریٹائر ہو گئے۔ وہ کالج کے وائس پرنسپل اور کالج<br />

میگزین االدب کے مدیر اعلیٰ‏ بھی رہے۔<br />

پروفیسر ممصود حسنی نے دوران درس و تدریس اپنا<br />

تعلےمی سفر جاری رکھا۔ ‎٢٩٩١‎ء میں انہوں نے اپنے<br />

استاد مکرم احمد یار خان مجبور کی شخصیت،‏ فن اور<br />

شاعری پر ممالہ لکھ کر عالمہ البال اوپن یونی ورسٹی<br />

اسالم آباد سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی پھر انہوں نے<br />

پی ایچ ڈی کرنے کا عزمِ‏ صمیم کیا۔ ان کے ممالے کے


نگران پروفیسرڈاکٹرسید معین الرحمن تھے۔ انہوں نے<br />

ممالے کی منظوری دے دی تاہم ممالہ جمع ہونے سے لبل<br />

ہی وہ انتمال کر گئے۔ ان کی <strong>وفا</strong>ت کے بعد ممالے کے<br />

نگران ڈاکٹر نثار لریشی ممرر ہوئے۔ انہوں نے بھی ممالہ<br />

دیکھ کر منظوری دے دی مگر وہ بھی رحلت کر گئے۔ اس<br />

طرح دو نگران ممالہ ہذا کے <strong>وفا</strong>ت پا جانے کے بعد انہوں<br />

نے ممالہ جمع نہ کروایا۔<br />

عالمہ البال اوپن یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے کا<br />

ارادہ ترک کرکے یو ایس اے کی ایشوڈ یونیورسٹی سے<br />

بذریعہ خط کتابت ‎٥٠٠٢‎ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل<br />

کی۔ مئی ‎٦٠٠٢‎ء کو یو ایس اے کی بیورنز وک یونی<br />

ورسٹی سے بذریعہ خط کتابت پوسٹ پی ایچ ڈی کی ڈگری<br />

حاصل کی۔ بعد ازاں مالئیشیائ کی انسٹیڈ یونیورسٹی سے<br />

بھی بذریعہ خط کتابت پی ایچ ڈی لسانیات کی ڈگری حاصل<br />

کی۔ یو ایس اے میں بَہ طور چےئر دی فارن ڈیپارٹمنٹ<br />

آف لینگوئج میں خدمات انجام دیں ۔<br />

پروفیسر ممصود حسنی نے تمریباً‏ نصف صدی ادبی خدمات<br />

انجام دیں ۔ انہوں نے اپنا ادبی سفر روزنامہ ‏’’کوہستان‘‘‏<br />

الہور کے بچوں کے صفحہ سے شروع کیا۔ پھر دیکھتے<br />

ہی دےکھتے اُن کے مضامین نامی گرامی ادبی رسائل و<br />

جرائد میں شائع ہوتے رہے۔ عالوہ ازیں اُن کی تمریباً‏


١٢ کتب منظرِ‏ عام پر آکر لارئین کی توجہ کا مرکز بنیں ۔<br />

: کتب کی فہرست پیش ‏ِخدمت ہے<br />

شاعری<br />

سپنے اگلے پہر کے ١<br />

‏(نثری ہائیکو)‏<br />

1986<br />

سورج کو روک لو ۔‎٢‎<br />

نثری غزلیں)‏<br />

1991<br />

اوٹ سے ۔‎٣‎<br />

) نثری نظمیں)‏<br />

1993<br />

افسانے<br />

زرد کاجل ‎١‎۔<br />

1991<br />

وہ اکیلی تھی ۔‎٢‎<br />

1992


جس ہاتھ میں الٹھی ۔‎٣‎<br />

1993<br />

طنزو مزاح<br />

بیگمی تجربہ ‎١‎۔<br />

1993<br />

ترجمہ<br />

ستارے بُنتی آنکھیں ‎١‎۔<br />

ترکی نظمیں<br />

1991<br />

تحمیك و تنمید<br />

غالب اور اس کا عہد ‎١‎۔<br />

1993<br />

تخلیمی و تنمیدی زاویے ۔‎٢‎<br />

1993


جرمن شاعری کے فکری زاویے ۔‎٣‎<br />

1993<br />

اُردو میں نئی نظم ۔‎٤‎<br />

1993<br />

منیر الدین احمد کے افسانے ۔‎٥‎<br />

تنمیدی جائزہ<br />

1995<br />

٦ ۔شعریاتِ‏ خیام<br />

1996<br />

شعریات شرق و غرب ۔‎٧‎<br />

1996<br />

تحریکات اُردو ادب ۔‎٨‎<br />

1996<br />

لسانیات غالب ۔‎٩‎<br />

1996


اُردو شعر ۔فکر ی و لسانی زاویے ٠١ ۔<br />

1997<br />

اُصول اور جائزے ١١ ۔<br />

1998<br />

زبان ِ غالب کا لسانی و ساختیاتی مطالعہ ١٢ ۔<br />

2013<br />

ادب سے گہری وابستگی کے باعث اُن کا نا صرف وطن<br />

عزیز پاکستان بلکہ کچھ دوسرے ممالک کے اہل للم کے<br />

ساتھ بھی خطوط کا سلسلہ رہا۔ اُن کے نام موصول ہونے<br />

والے خطوط اگرچہ تبدیلی مکان اور مختلف محکموں میں<br />

تعیناتی کے باعث حوادث زمانہ کا نشانہ بنے۔ تاہم ریکارڈ<br />

‏:میں موجود خطوط کی تفصیل درج ذیل ہے<br />

ا<br />

آسی ضیائی<br />

‏(ادارہ علم و ادب پاکستان،‏ منصورہ ملتان روڈ،‏ الہور)‏<br />

آشا پربھات<br />

‏(شاعرہ،‏ ناول نگار،سیتا مڑھی،‏ بھارت)‏


آغا سہیل،ڈاکٹر،‏ پروفیسر<br />

‏(چیئرمین شعبہ اُردو،‏ ایف سی کالج الہور)‏<br />

آل عمران<br />

‏(مصنف)‏<br />

ابو سعادت جلیلی<br />

‏(محمك،‏ نماد،‏ گلشن البال کراچی)‏<br />

ابو سلمان شاہ جہان پوری،ڈاکٹر<br />

موالنا ابوالکالم پاکستان ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پاکستان،‏ (<br />

‏(علی گڑھ،‏ کراچی<br />

احمد خاں علیگ‘‏ چودھری<br />

‏(صدر تحریک نفاذ اُردو،‏ غالب کالونی سمن آباد،‏ الہور)‏<br />

احمد ریاض نسیم<br />

‏(فلمی صحافی،‏ ناول نگار،‏ افسانہ نگار،‏ حیدرآباد سندھ)‏<br />

احمد ندیم لاسمی<br />

شاعر،‏ افسانہ نگار،ایڈیٹر ‏’’فنون (<br />

‘‘ الہور<br />

)<br />

اختر،‏ سید


‏(ایڈیٹرماہنامہ ‏’’ادبی محور‘‘‏ کراچی (<br />

اختر حسین<br />

‏(سعودی عرب)‏<br />

اختر حسین عزمی<br />

منتظم،‏ مجلس علوم اسالمیہ گورنمنٹ انٹر کالج،‏ بھائی (<br />

‏(پھیرو<br />

اختر شمار،‏ ڈاکٹر،‏ پروفیسر<br />

‏(ایڈیٹر بجنگ آمد الہور)‏<br />

اختر علی میرٹھی ڈاکٹر،‏ پروفیسر<br />

‏(سابك پرنسپل گورنمنٹ اسالمیہ ڈگری کالج،‏ لصور)‏<br />

ارشاد علی تالپور<br />

‏(طالب علم بی ایس سی آنرز سندھ یونیورسٹی،‏ حیدر آباد (<br />

ارشد جاوید<br />

‏(اردو شاعر،‏ ایڈووکیٹ ، رحیم یار خان)‏<br />

ارشد عالمگیر<br />

‏(کانسٹیبل نیو سنٹرل جیل ملتان (


اسلم ثالب،‏ ڈاکٹر<br />

‏(شاعر،‏ ادیب،‏ نماد،‏ مالیر کوٹلہ ‏،بھارت)‏<br />

اشرف عامر<br />

الفتح الئبریری،‏ ریلوے روڈ پڈ عیدن ضلع نواب شاہ (<br />

‏(،سندھ<br />

اعجاز احمد بھٹی<br />

‏(ایڈیٹر ‏،ماہنامہ تڑپ ‏،پیرس)‏<br />

اظہر کاظمی،‏ پروفیسر،سید<br />

‏(صدر شعبہ اُردو گورنمنٹ اسالمیہ کالج ‏،لصور)‏<br />

اظہر زعیم جاوید بھٹی<br />

‏(الئل پور)‏<br />

اعظم یاد<br />

‏(ایڈووکیٹ،‏ کہانی نویس)‏<br />

افتخار احمد حسن،‏ سید<br />

‏(روحانی بزرگ،‏ منڈیر سیداں ، سیال کوٹ)‏


افتخار عارف<br />

‏(صدر نشین ممتدرہ لومی زبان،‏ اسالم آباد)‏<br />

البال حسین<br />

‏(ایڈیٹر ماہنامہ اردو ادب ، اسالم آباد)‏<br />

البال سحرا نبالوی<br />

‏(ایڈیٹر ماہنامہ ‏’’رشحات‘‘‏ تاجپورہ سکیم ‏،الہور (<br />

اکبر حمیدی<br />

‏(استاد شعبہ اردو،‏ اسالم آباد کالج برائے طلبہ،‏ اسالم آباد (<br />

اکبر کاظمی<br />

‏(شاعر،‏ الہور<br />

اکرم کامل<br />

ایڈیٹر ہفت روزہ ‏’’ممتاز‘‘‏ (<br />

) الہور<br />

الہٰ‏ بخش بلوچ<br />

طالب علم،‏ گورنمنٹ ٹیچرز ٹریننگ سکول مستونگ،‏ (<br />

‏(بلوچستان<br />

امتیاز احمد بھٹی


‏(ایڈیٹر ماہنامہ ‏’’تڑپ‘‘‏ پاکستان برانچ ، لصور (<br />

امجد علی شاکر<br />

‏(پرنسپل گورنمنٹ اسالمیہ کالج،‏ الہور)‏<br />

انعام الحك،‏ رانا<br />

‏(ممبر یونائیٹڈ اسالمک ورلڈ کونسل آف پاکستان)‏<br />

انعام الحك جاوید،‏ ڈاکٹر<br />

چیئرمین لیگوئیجز عالمہ البال اوپن یونیورسٹی،‏ اسالم (<br />

‏(آباد<br />

انور جمال،‏ پروفیسر<br />

چیئرمین شعبہ اُردو،‏ گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج سول (<br />

‏(الئنز،‏ ملتان<br />

انیس شاہ جیالنی،‏ سید<br />

‏(انچارج مبارک اُردو الئبریری،‏ دمحم آباد،‏ تحصیل صادق آباد)‏<br />

ایس اے محسن سیال<br />

‏(کہانی نویس،‏ ڈسٹرکٹ جیل ملتان)‏<br />

ایم آر شفیك


) تماشا‘‘‏ اسماعیل آباد،‏ ملتان<br />

ایڈیٹر ’’ (<br />

ایم ارشد خالد<br />

‏(مالزم حبیب بنک کوٹ سمایہ)‏<br />

ایم عمر فاروق<br />

‏(خادم دربار عالیہ،‏ موہڑہ شریف)‏<br />

ایم محبوب ساجد<br />

‏’’رلص<br />

‏(ایڈیٹر ‘‘ الہور (<br />

ایم یونس شیخ ‏،ڈاکٹر<br />

‏(فیملی فزیشن،‏ دی رائل کلینک ‏،الہور)‏<br />

ب<br />

بدر انجم<br />

‏(شاگرد،‏ استاد بیدل حیدری،‏ خانیوال)‏<br />

بشارت علی لادری<br />

‏(آفس سیکرٹری ‏،ادارہ منہاج المرآن ‏،الہور)‏<br />

بشیر احمد


‏(ممبر یونائیٹڈ اسالمک ورلڈ کونسل آف پاکستان)‏<br />

بہرام طارق<br />

‏(شاعر،‏ اسالم آباد)‏<br />

بیدل حیدری،ڈاکٹر،‏ عالمہ<br />

‏(استاد ، شاعر،‏ نماد،‏ کبیر واال)‏<br />

ت<br />

تاج پیامی<br />

‏(داراالدب،‏ مہادیو،‏ محلہ آرہ،‏ بہار،‏ بھارت)‏<br />

تبسم کاشمیری،‏ پروفیسر،‏ ڈاکٹر<br />

‏(استاد شعبہ اُردو،‏ اوساکا یونیورسٹی،‏ جاپان)‏<br />

تحسین فرالی،‏ پروفیسر،‏ ڈاکٹر<br />

چیئرمین شعبہ اُردو ‏،اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی،‏ (<br />

‏(الہور<br />

تنویر عباسی<br />

‏(سرمد،‏ جو گھر،‏ خیر پور،سندھ)‏


ج<br />

جاوید،‏ لاضی<br />

‏(ریذیڈنٹ ڈائریکٹر اکادمی ادبیات پاکستان،‏ الہور)‏<br />

جاوید البال لزلباش<br />

رایزنی فرہنگی سفارت اسالمی جمہوری اسالمی ایران،‏ (<br />

‏(اسالم آباد<br />

جمشید مسرور<br />

چیئرمین ایشین آرٹس کونسل اوسلو،‏ چیف ایڈیٹر بازگشت،‏ (<br />

‏(ناروے<br />

جمیل جالبی،‏ ڈاکٹر<br />

‏(صدر نشین،‏ ممتدر لومی زبان،‏ اسالم آباد)‏<br />

جی کے تاج ایڈووکیٹ<br />

‏(مصنف،‏ تاج چیمبرز،‏ میرپور خاص)‏<br />

ح<br />

حامد غازی آبادی<br />

‏(ممبر یونائیٹڈ اسالمک ورلڈ کونسل آف پاکستان،‏ الہور)‏


حسن ملک،‏ پروفیسر<br />

‏(صدر ڈیرہ بلھے شاہ مصطفی آباد،‏ للیانی ‏،لصور)‏<br />

حسین احمد،لاضی<br />

‏(امیر جماعت اسالمی پاکستان،‏ الہور)‏<br />

حسین سحر،‏ پروفیسر<br />

‏(پرنسپل گورنمنٹ والیت حسین ڈگری کالج،‏ ملتان)‏<br />

حفیظ صدیمی،‏ پروفیسر<br />

ایڈیٹر ماہنامہ تحریریں (<br />

) ’’ ‘‘ الہور<br />

حمید یزدانی،پروفیسر،‏ ڈاکٹر،‏ خواجہ<br />

‏(اُستاد شعبہ فارسی گورنمنٹ کالج الہور)‏<br />

حمید الدین احمد،‏ خاکسار<br />

‏(امیر ، خاکسار تحریک الہور)‏<br />

خ<br />

خالد البال یاسر<br />

‏(چیف ایڈیٹر،‏ اکادمی ادبیات پاکستان)‏


خلیل جبران<br />

ممبر یونائیٹڈ اسالمک ورلڈ کونسل آف پاکستان،‏ حیدرآباد،‏ (<br />

‏(سندھ<br />

خورشید افسر بسوانی<br />

‏(شاعر،‏ بسوان سیتا پور،‏ بھارت)‏<br />

ذ<br />

ذوالفمار دانش<br />

‏(پروفیسر،‏ شاہ عبداللطیف گورنمنٹ کالج ‏،میر پور خاص)‏<br />

ذوالفمار شاہد<br />

‏(لریبی دوست،‏ لصور)‏<br />

ذوالفمار علی بھٹی<br />

) رحیم یار خاں)‏<br />

رازول احمد مسرور<br />

حوالدار فیڈرل سیکورٹی فورس روزنامچہ محرر ہیڈ (<br />

کوارٹر رینج<br />

‏(،کوئٹہ،‏ بلوچستان iv


رب نواز مائل،‏ پروفیسر<br />

دانشور،‏ کوچہ لادر شہید،‏ کوئٹہ<br />

رضا ہاشمی،‏ ڈاکٹر<br />

‏(لریبی دوست)‏<br />

رفیك سندیلوی<br />

‏(محمك،‏ دانشور،‏ ادیب،‏ اسالم آباد)‏<br />

رمضان موسوی<br />

‏(پی آر او خانہ فرہنگ اسالمی جمہوریہ ایران،‏ الہور)‏<br />

رئیس امروہوی<br />

‏(شاعر،‏ کالم نگار،‏ گارڈن ایسٹ ‏،کراچی)‏<br />

ریاض احمد ریاض<br />

) جناب عرض‘‘‏ رحیم یار خاں<br />

ایڈیٹر ’’ (<br />

س<br />

ساجد غوری<br />

‏(کہانی نویس،‏ گوجرانوالہ)‏


ساجد نجمی<br />

‏(نگران اعلیٰ‏ ، پکار المرتضیٰ‏ ‏،کبیر واال)‏<br />

سجاد حیدر پرویز<br />

صدر سرائیکی سٹوڈنٹس فیڈریشن گورنمنٹ کالج،‏ مظفر (<br />

‏(گڑھ<br />

سعید بدر<br />

ایڈیٹر پندرہ روزہ ‏’’مخزن البال‘‘‏ (<br />

) الہور<br />

سلطان رشک<br />

ایڈیٹر ماہنامہ نیرنگ خیال‘‘‏ (<br />

) ’’ راولپنڈی<br />

سلیم اختر<br />

‏(پروفیسر شعبہ اردو گورنمنٹ کالج،‏ الہور)‏<br />

سلیم راشد<br />

‏(ایڈیٹر ماہنامہ آداب پبلی کیشنز الہور)‏<br />

ش<br />

شاکر فضلی


‏(کہانی نویس،‏ ریلوے اسٹیشن ملتان کینٹ)‏<br />

شاہد عمران رانا<br />

مینجنگ ایڈیٹر ماہنامہ ‏’’باز گزشت‘‘‏ (<br />

) الہور<br />

شاہد محمود<br />

ایڈیٹر ہفت روزہ ‏’’اُجاال‘‘‏ (<br />

) الہور<br />

شاہد محمود کاہلوں<br />

‏(کہانی نویس،جامعہ پنجاب نیو کیمپس،‏ الہور)‏<br />

شاہ سوار علی ناصر،‏ ملک<br />

‏(کہانی نویس،‏ سرگودھا)‏<br />

شاہ عالم زمرد<br />

‏(صدر بزم ادب محلہ ڈھوک دالل،‏ راولپنڈی)‏<br />

شبیر بیگ ساجد،‏ مرزا<br />

ایڈیٹر ماہنامہ ‏’’سالم عرض‘‘‏ (<br />

) الہور<br />

شبیر ساجی خان،‏ ڈاکٹر<br />

‏(کہانی نویس،‏ نواں کوٹ،‏ خان پور)‏


شکیل احمد خاں<br />

‏(مدیر،‏ سہ ماہی لوح ادب،‏ حیدرآباد (<br />

شمیم مس<br />

‏(کہانی نویس،‏ نرس،‏ نشتر ہسپتال،‏ ملتان)‏<br />

شہزاد احمد<br />

‏(شاعر،‏ اُردو)‏<br />

ص<br />

صابر آفالی،‏ پروفیسر،‏ ڈاکٹر<br />

شعبہ اُردو آزاد کشمیر یونیورسٹی مظفر آباد<br />

صبیحہ تمکین<br />

‏(مسز لیصر تمکین)‏<br />

صدالت علی ناز<br />

‏(کہانی نویس،‏ راولپنڈی)‏<br />

صدیمہ بیگم<br />

‏(ایڈیٹر ماہنامہ ادب لطیف ‏،الہور)‏


صفدر حسین برق<br />

‏(بانی و سرپرست بزم جنوں،وہاڑی)‏<br />

صفدر حسین طاہر،‏ رانا<br />

‏(ممبر یونائیٹڈ اسالمک ورلڈ سکول آف پاکستان)‏<br />

صفدر علی خاں<br />

‏(ایڈیٹر سہ ماہی انشائ،‏ کراچی (<br />

ض<br />

ضیا شاہدلصوری<br />

‏(لریبی دوست،‏ کوٹ عثمان خان لصور)‏<br />

ظ<br />

ظہور احمد چودھری،‏ پروفیسر،ڈاکٹر<br />

اُستاد شعبہ سیاسیات گورنمنٹ اسالمیہ کالج سول الئنز (<br />

‏(،الہور<br />

ع<br />

عابد،‏ لاضی


‏(اُستاد شعبہ اُردو بہائو الدین زکریا یونی ورسٹی،‏ ملتان)‏<br />

عابد انصاری<br />

‏(شاعر،‏ اسالم آباد)‏<br />

عباس تابش<br />

‏(شاعر،‏ انٹر کالج ‏،اللہ موسیٰ‏ (<br />

عبداالعلیٰ‏ ، موالنا<br />

‏(جمعیت اہل حدیث پاکستان،‏ الہور)‏<br />

عبدالحك خاں حسرت کاسگنجوی،‏ ڈاکٹر<br />

سینئر ماہر مضمون سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ،‏ جام شورو<br />

عبدالحکیم،‏ پروفیسر<br />

ناظم اعلیٰ‏ الجماعہ الدمحمیہ المدوسیہ کوٹرادھاکشن،‏ (<br />

‏(لصور<br />

عبدالرحمن<br />

‏(ممبر یونائیٹڈ اسالمک ورلڈ سکول آف پاکستان)‏<br />

عبدالعزیز چشتی<br />

‏(شاعر،‏ صحافی،‏ شور کوٹ شہر ضلع جھنگ)‏


عبدالعزیز ساحر،‏ پروفیسر،‏ ڈاکٹر<br />

رابطہ کار : شعبہ اُردو،‏ عالمہ البال اوپن یونی ورسٹی (<br />

‏(،اسالم آباد<br />

عبدالموی دسنوی<br />

‏(بھارت)‏<br />

استاد شعبہ تاریخ،‏ کینیڈا۔ ‏)عبدالموی ضیا،‏ پروفیسر،‏ ڈاکٹر<br />

‏(صدر برگ فوک آرٹس کونسل<br />

عبدالمجید<br />

‏(انجمن پبلیکشنز ایبک روڈ،‏ انار کلی،‏ الہور)‏<br />

عبدالمہیمن<br />

‏(استاد کریسنٹ ماڈل ہائی سکول ایبٹ روڈ،‏ سیالکوٹ)‏<br />

عبدالواحداسرار لاری<br />

‏(بیرون دہلی گیٹ اورنگزیب روڈ،‏ ملتان)‏<br />

عذرا اصغر<br />

‏(ایڈیٹر ماہنامہ تجدید نو،‏ اسالم آباد)‏


علی اکبر گیالنی،‏ سید<br />

‏(برائے اسکرپٹس ایڈیٹر،‏ پاکستان ٹیلی ویژن،‏ اسالم آباد)‏<br />

علی دیپک لزلباش/‏ علی کمیل لزلباش<br />

کوئٹہ،‏ بلوچستان<br />

عندلیب معراج،‏ سیدہ<br />

‏(خیرپورسندھ)‏<br />

عنصر خان کاکڑ<br />

ایڈیٹر،‏ ماہنامہ ‏’’نوائے پٹھان‘‘‏ (<br />

) الہور<br />

غ<br />

غازی علم الدین،‏ پروفیسر<br />

‏(گورنمنٹ کالج میر پورآزاد کشمیر)‏<br />

غضنفر علی ندیم<br />

‏(سیکرٹری حلمہ تصنیف ادب،‏ الہور)‏<br />

غالم حسین ذوالفمار،‏ ڈاکٹر<br />

‏’’اعزازی البال‘‘‏<br />

‏(مدیر الہور (


غالم سرور ‏،لاضی،‏ ڈاکٹر<br />

ممبر یونائیٹڈورلڈ کونسل آف پاکستان،‏ چک ویرم تحصیل (<br />

،( کھاریاں<br />

غالم سرور جٹ<br />

ممبر یونائیٹڈورلڈ کونسل آف پاکستان،‏ چک‎96‎سرس (<br />

‏(تحصیل جڑانوالہ<br />

غالم شبیر رانا،پروفیسر،‏ ڈاکٹر<br />

‏(چیئرمین شعبہ اُردو جی سی یونی ورسٹی ‏،فیصل آباد)‏<br />

غالم فریدبھٹی،‏ ڈاکٹر،‏ کرنل<br />

‏(ادارہ علم و ادب پاکستان،‏ بہاولپور)‏<br />

غالم مصطفی<br />

‏(ممبر یونائیٹڈ اسالمک ورلڈ کونسل آف پاکستان)‏<br />

غالم مصطفی بسمل<br />

‏’’چناب‘‘‏<br />

‏(ایڈیٹر گوجرانوالہ (<br />

ف<br />

فضل حیات ‏،شیخ


صدر،‏ الشیخ ویلفےئر ایسوسی ایشن رجسٹرڈبھمباں ، (<br />

‏(الہور<br />

فلک شیر لیل،‏ ملک<br />

‏(استاد ، شعبہ اُردو گورنمنٹ کالج،‏ بھکر)‏<br />

فرمان فتح پوری،‏ ڈاکٹر<br />

چیف ایڈیٹر اینڈ سیکرٹری<br />

اُردو ڈکشنری بورڈ منسٹری آف ایجوکیشن گورنمنٹ آف<br />

پاکستان،‏ کراچی<br />

فہیم اعظمی،‏ ڈاکٹر<br />

ایڈیٹر ماہنامہ ‏’’مدیر‘‘‏ (<br />

) کراچی<br />

ق<br />

لمر المدوس مشائی سلہری<br />

آرگنائزر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن،‏ چوبارہ سیالکوٹ<br />

لیصر تمکین<br />

‏(افسانہ نگار،‏ ادیب،‏ ہوٹل بیجنگ ‏،ٹورنٹو)‏<br />

ک


کلیم شہزاد<br />

‏(شاعر،‏ ایڈووکیٹ،‏ بورے واال)‏<br />

کوکب مظہر خاں<br />

‏(کہانی نویس؛ کونسلر سٹریٹ،‏ ریلوے روڈ سیالکوٹ)‏<br />

گ<br />

گجندر سنگھ<br />

‏(سنٹرل جیل،‏ سیکورٹی وارڈ ، کوٹ لکھپت ‏،الہور)‏<br />

گلزار حسین<br />

‏(اُستاد گورنمنٹ کالج،‏ شیخوپورہ)‏<br />

گوپی چند نارنگ<br />

‏(محمك ، نماد،‏ واشنگٹن)‏<br />

گوہر نوشاہی،‏ ڈاکٹر<br />

‏(ممتدرہ لومی زبان ‏،اسالم آباد)‏<br />

م


مبارک علی ، ڈاکٹر<br />

‏(ڈائریکٹر،‏ گوئٹے انسٹی ٹیوٹ،‏ الہور)‏<br />

ماجد مشتاق رائے<br />

اُردو ٹیچر،‏ سینئر سیکشن بیکن ہائوس سکول سسٹم (<br />

‏(،الہور<br />

دمحم ابرار<br />

‏(آفس سیکرٹری،‏ جماعت اسالمی پاکستان،‏ منصورہ ‏،الہور)‏<br />

دمحم ارشد جاوید<br />

‏(اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ کالج آف اےجوکیشن ‏،الہور)‏<br />

دمحم افضل صفی<br />

‏(لیکچرار اُردو ، گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج ‏،چکوال)‏<br />

دمحم البال انجم،‏ لاری<br />

ناظم اعلیٰ‏ ، عوامی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی (<br />

‏(شاہدرہ،‏ الہور<br />

دمحم البال جاوید<br />

‏(کہانی نویس،‏ پریس کوارٹرز پی آئی بی کالونی ‏،کراچی ( ٥


دمحم البال یاسر<br />

‏(الہور)‏<br />

دمحم اکرام ہوشیار پوری،‏ پروفیسر<br />

وائس پرنسپل،‏ صدر شعبہ اُردو گورنمنٹ اسالمیہ کالج (<br />

‏(،لصور<br />

دمحم الیاس چوہان<br />

‏(گوجرہ)‏<br />

دمحم امین،‏ ڈاکٹر<br />

‏(اُستاد،‏ گورنمنٹ کالج سول الئنز،‏ ملتان)‏<br />

دمحم انعام الحك کوثر،ڈاکٹر<br />

بلوچستان<br />

دمحم بابر شفیك،‏ خواجہ<br />

‏(چیئرمین شاہین ادب اکیڈمی بھلوال،‏ پاکستان)‏<br />

دمحم بشیر<br />

) پی اے ٹو پارٹی پریذیڈنٹ ایئر مارشل دمحم اصغر خاں)‏<br />

دمحم حسین شہزاد<br />

‏(شاگردِ‏ رشید بیدل حیدری)‏


دمحم خان اشرف،‏ پروفیسر<br />

استاد شعبہ اُردو گورنمنٹ کالج،‏ الہور<br />

دمحمرضا زیدی<br />

اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ اسالمیہ کالج سول الئنز (<br />

‏(،الہور<br />

دمحم ریاض شاہد<br />

‏(سیکرٹری لوکل سپر چوئل اسمبلی،‏ الہور)‏<br />

دمحم سعید،‏ پروفیسر<br />

‏(استاد شعبہ اُردو جی سی یونی ورسٹی،‏ الہور)‏<br />

دمحم سعید نمشبندی،‏ سید<br />

اسٹیشن ڈائریکٹر،‏ پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (<br />

‏(،اسالم آباد<br />

دمحم سلیم اختر<br />

‏(کہانی نویس،‏ وزیر آباد)‏<br />

دمحم شبیر ساجد<br />

‏(ممبر یونائیٹڈ اسالمک ورلڈ کونسل آف پاکستان)‏


دمحم شریف انجم<br />

‏(پنجابی شاعر،‏ لصور)‏<br />

دمحم شفیك بھٹی،‏ ڈاکٹر<br />

‏(فزیشن اینڈ سرجن،‏ حك پور،‏ ڈسکہ)‏<br />

دمحم شریف رحمانی<br />

‏(سماجی کارکن،‏ چوک صحابہ کنجاہ ضلع گجرات)‏<br />

دمحم شریف انجم<br />

‏(لریبی دوست)‏<br />

دمحم شفیع ساجد<br />

‏(کہانی نویس،‏ واپڈا سروے پارٹی پشین بلوچستان)‏<br />

دمحم شوکت خاں<br />

‏(ممبر یونائیٹڈ اسالمک ورلڈ کونسل آف پاکستان)‏<br />

دمحم صادق جنجوعہ،‏ پروفیسر،‏ ڈاکٹر<br />

‏(صدر شعبہ پنجابی گورنمنٹ اسالمیہ کالج ‏،الہور کینٹ)‏<br />

دمحم صادق لصوری


(<br />

موئ رخ،‏ محمك،‏ ناظم اعلیٰ‏ مرکزی مجلس امیر ملت،‏ (<br />

‏(برج کالں ، لصور<br />

دمحم صدیك اعوان<br />

‏(مدیر مسئول مجلہ راوی گورنمنٹ کالج ‏،الہور)‏<br />

دمحم صدیك چودھری<br />

‏(نمائندہ،‏ روزنامہ ‏’’نوائے ولت‘‘‏ ٹانڈہ،‏ ضلع گجرات (<br />

دمحم طاہر المادری،‏ حافظ<br />

) ممبر یونائیٹڈ اسالمک ورلڈ کونسل آف پاکستان<br />

دمحم عالم خاں حسنی،‏ ڈاکٹر<br />

افغان مہاجرین کیمپ ‏،مسلم باغ<br />

دمحم عزیز الرحمن عاصم،لاضی<br />

ممتدرہ’’لومی زبان‘‘‏ الہور<br />

دمحم لاسم دہلوی،‏ پروفیسر،ڈاکٹر<br />

دہلی یونی ورسٹی،‏ بھارت<br />

دمحم منیر سبحانی،‏ ڈاکٹر<br />

میڈیکل آفیسر پرائمری ہیلتھ سنٹر لنڈیانوالہ،‏ ضلع فیصل (


‏(آباد<br />

دمحم نمیب ہللا شاہ،‏ صوفی<br />

‏(روحانی بزرگ،‏ نمیب آباد،لصور)‏<br />

دمحم نور العالم،‏ ڈاکٹر سید<br />

) ممبر یواین او ، نیو یارک)‏<br />

دمحم یونس خشک<br />

‏(شاہ عبدالطیف یونیورسٹی ، خیر پور سندھ)‏<br />

دمحم یٰسین خان،‏ ڈاکٹر<br />

ممبر یونائیٹڈ اسالمک ورلڈ کونسل آف پاکستان جھنگ (<br />

‏(صدر<br />

محمود احمد ، لاضی<br />

افسانہ نگار،‏ کہانی نویس،‏ ملت کالونی راہوالی (<br />

‏(گوجرانوالہ<br />

مسرت جہاں<br />

ایڈیٹر ماہنامہ ‏’’عفت‘‘‏ (<br />

) الہور<br />

مسرور احمد زئی


‏(مدیر سہ ماہی ‏’’عبارت‘‘‏ حیدرآباد (<br />

مسعود حسن زبیری<br />

‏(الہور)‏<br />

مسکان فارولی<br />

معرفت ڈاکٹر بید ل حیدری،‏ سلطانیہ محلہ عبدالحکیم (<br />

‏(،تحصیل کبیر واال ضلع خانیوال<br />

مشتا ق احمد سیال<br />

‏(انچارج ڈیفنس ہیلتھ سنٹر گوجرہ روڈ،‏ جھنگ صدر (<br />

مشفك خواجہ<br />

‏(محمك،‏ مورخ،‏ کراچی)‏<br />

مطلوب طالب<br />

‏(رکن حلمہ اربابِ‏ سخن فتح جنگ ضلع اٹک)‏<br />

مطلوب علی<br />

‏(پنجابی سیوک،‏ نیو ماڈل ٹائون نزد کچہری روڈ ‏،دیپالپور)‏<br />

مظفر عباس،‏ پروفیسر،ڈاکٹر<br />

چیئرمین شعبہ اُردو ایف سی کالج،‏ الہور


’’<br />

معراج جامی،‏ سید<br />

‏(ایڈیٹر سہ ماہی سفیر اُردو لٹن،‏ یوکے)‏<br />

معین الرحمن،‏ سید ، پروفیسر،ڈاکٹر<br />

چیئرمین شعبہ اُردو گورنمنٹ کالج،‏ الہور<br />

معین حیدر جواال مکھی<br />

انمالبی جدوجہد پاکستان،‏ گارڈن ٹائون شیر شاہ روڈ،‏ (<br />

‏(ملتان<br />

منصور احمد،‏ رانا<br />

) نائب صدرمسلم لیگ تحصیل چونیاں)‏<br />

منظور الحك طاہر،‏ رانا<br />

ممبر یونائیٹڈ اسالمک ورلڈ کونسل آف پاکستان،‏ ڈھڈیوالہ (<br />

‏(،ضلع فیصل آباد<br />

منیر الدین احمد ، ڈاکٹر<br />

‏(افسانہ نگار،‏ مترجم،‏ ہمبرگ،‏ جرمنی)‏<br />

منیر انجم<br />

‏(ایڈیٹر ہفت روزہ اُجاال بیڈن روڈ،‏ الہور (<br />

‘‘


مہر کاچیلوی<br />

ایڈیٹر ہفت روزہ ‏’’عورت‘‘‏ کراچی،‏<br />

سرپرست اعلیٰ‏ بزم مہرمیر پور،‏ خاص سندھ<br />

ن<br />

‏\ناصر علی لریشی<br />

‏(کہانی نویس،‏ ٹنڈو ال ٰ ہ یار)‏<br />

ناصر ندیم،‏ رانا<br />

‏(ممبر یونائیٹڈ اسالمک ورلڈ کونسل آف پاکستان،جھنگ)‏<br />

ناظم حسین،‏ سید<br />

‏(صدر پنجاب لےکچرار،‏ پروفیسرایسوسی ایشن ‏،الہور)‏<br />

نثار احمد لریشی،پروفیسر،‏ ڈاکٹر<br />

چیئرمین شعبہ اُردو،عالمہ البال اوپن یونی ورسٹی ‏،اسالم<br />

آباد<br />

نجیب جمال،‏ پروفیسر،ڈاکٹر<br />

ڈین آف آرٹس/‏ چیئرمین شعبہ اُردو بہائوالدین زکریا<br />

یونی ورسٹی،‏ بہاولپور


ندیم خواجہ<br />

‏(لیکچرار گورنمنٹ اسالمیہ کالج ‏،لصور (<br />

ندیم شعیب<br />

‏(نماد،‏ دانشور،‏ ملتان)‏<br />

نصیر احمد ناصر<br />

‏(شاعر،‏ ادیب،‏ میرپور آزاد کشمیر)‏<br />

نصیر محمود شاد<br />

آفیسر انچارج،‏ محترمہ بےنظیر بھٹو چیئرمین پاکستان (<br />

‏(پیپلز پارٹی<br />

نعیم اشفاق<br />

‏(دانشور،‏ پریتم نگر کالونی سلیم سرائے ال ٰ ہ آباد،بھارت)‏<br />

نعیم صدیمی،‏ موالنا<br />

‏(ادارہ معارف اسالمی منصورہ،‏ الہور)‏<br />

نموش رضوی<br />

‏(ایڈیٹر ماہنامہ سخن ور ‏،کراچی)‏


نگہت سلیم<br />

‏(مدیر اعلیٰ‏ ڈپٹی ڈائریکٹر اکادمی ادبیات پاکستان (<br />

نواز انور<br />

‏(صحافی،‏ بصیر پور ‏،اوکاڑہ)‏<br />

نور خاں نور<br />

‏(سول جج وہاڑی)‏<br />

نور دمحم<br />

‏(نگرا ن آستانہ عالیہ حضرت بابا بلھے شاہ لصوری<br />

نوریہ بیلیک،‏ ڈاکٹر<br />

استاد شعبہ اُردو،)‏<br />

‏(لونیہ یونی ورسٹی،‏ ترکی<br />

نوید سروش<br />

ادبی چوپال (<br />

‏(میر پور خاص ‏،سندھ<br />

نیر زیدی<br />

‏(کالم نگار،‏ کہانی نویس ، الہور)‏


و<br />

وسیم جبران<br />

سول الئنز،‏ گورنمنٹ اسالمیہ ڈگری کالج روڑ،‏ (<br />

‏(خانیوال<br />

وصی مظہرندوی<br />

وزیر،مضمون نگار،‏ دانشور،‏ (<br />

‏(شارع فاطمہ جناح ، حیدر آباد سندھ<br />

<strong>وفا</strong>ر اشدی،‏ ڈاکٹر<br />

‏(معتمد اعزازی دائرہ علم و ادب پاکستان،‏ کراچی)‏<br />

ولار احمد رضوی،پروفیسر،‏ ڈاکٹر<br />

اُستاد شعبہ اُردو ، کراچی<br />

والیت حسین حیدری<br />

‏(ایڈووکیٹ،‏ نظام آباد،‏ الہور)‏<br />

ی ‏/ے<br />

یٰسین آفالی<br />

اُستاد شعبہ اُردوگورنمنٹ ڈگری سائنس کالج فرید آباد ، (


۔‎٢‎<br />

‏(ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ<br />

یونس جاوید<br />

‏(دانش ور)‏<br />

سید ممصود حسنی ان خطو ط کو بیس برس پہلے شائع<br />

کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ جس کا واضح ثبوت ان کے<br />

کالج کے پروفیسر ساتھی امجد علی شاکر کا لکھا ہوا پیش<br />

لفظ ہے جو انہوں نے ٤١ ستمبر 1993 کو رلم کیا اگر<br />

کا پیش لفظ بیس برس پہلے یہ خطوط شائع ہوتے تو ان<br />

امجد علی شاکر کا لکھا ہوتا<br />

برس پہلے اگر یہ خطوط شائع ہو جاتے تو دو ٠٢<br />

: صورتیں ہوتیں<br />

١<br />

۔ خطوط حوادث زمانہ کا شکار نہ ہوتے۔<br />

1993 کے بعد کے خطو ط شامل نہ ہو پاتے۔<br />

آج مارچ 2013 میں گوشہ گوشہ چھان کرمیں اُن کے نام<br />

خطوط میں سے چند موصول ہونے والے سیکڑوں<br />

ایک خالصتاً‏ ادبی خطوط لارئین کی خدمت میں پیش کرنے<br />

کی سعادت حاصل کر رہا ہوں ۔لابل ذکر بات یہ ہے کہ ان<br />

خطوط کے مطالعے سے نجی طرز اظہار ہی سامنے نہیں


آتا بلکہ ماضی کی بہت سی داستانیں کھل کر سامنے آجاتی<br />

ہیں ۔ لصہ مختصر یہ خطوط خزینہ معلومات ہیں جو<br />

شاعروں ، ادیبوں اور دانش وروں کے ساتھ ان کے<br />

تعلمات کو واضح کرتے ہیں ۔ اُمید واثك ہے کہ یہ خطوط نا<br />

صرف اُردو ادب میں اضافے کا باعث بنیں گے بلکہ ادبی<br />

حلموں میں پذیرائی حاصل کریں گے۔ اس کتاب کو مکمل<br />

کرنے میں محبوب عالم،‏ عبدالرئوف ، اسلم حبیب ، ایم<br />

مشتاق رانا اور عمیر انصاری نے تعاون کیا۔<br />

میں ان کا ممنون ہوں ۔ دوسرے ایڈیشن کے لیے آپ کی<br />

آرا کا منتظر رہوں گا۔<br />

ڈاکٹر دمحم ریاض انجم<br />

صدر'‏ بُلھّے شاہ ادبی سنگت لصور<br />

اذعان چوک،‏ سعید آباد کالونی،‏ پیرو واال روڈ،‏<br />

لصور ‏)پنجاب(‏ پاکستان

Hooray! Your file is uploaded and ready to be published.

Saved successfully!

Ooh no, something went wrong!