28.03.2016 Views

takhliqaat

Transform your PDFs into Flipbooks and boost your revenue!

Leverage SEO-optimized Flipbooks, powerful backlinks, and multimedia content to professionally showcase your products and significantly increase your reach.

مقصود حسنی کی تخلیقات<br />

اور<br />

اہل قلم کی خامہ فرسائی<br />

پیش کار<br />

پروفیسر نیامت علی مرتضائی<br />

ابوزر برقی کتب خانہ


مارچ 2016<br />

مندرجات<br />

اردو انجمن اور مقصود حسنی کی افسانہ نگاری -1<br />

مقصود حسنی اور برصغیر کا مضافاتی اور مغربی ادب -2<br />

مقصود حسنی کی مزاح نگاری‘‏ ایک اجمالی جائزہ -3<br />

ڈاکٹر مقصود حسنی بطور ماہر لسانیات -4<br />

مقصود حسنی کی شاعری۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک جائزہ -5<br />

حضرت بلھے شاہ قصوری کی اردو شاعری -6<br />

بلھے شاہ کا مور۔۔۔۔۔۔۔ ایک ادبی تعارف -7<br />

فرہنگ غالب ایک نادر مخطوطہ -8<br />

ڈاکٹر مقصود حسنی بطور ایک اسلمی مفکر اور -9<br />

اسکالر<br />

مقصود حسنی کے تنقیدی جائزے۔۔۔۔۔ ایک تدوینی -10<br />

مطالعہ<br />

مقصود حسنی اور اردو زبان -11


ڈاکٹر مقصود حسنی بطور مترجم -12<br />

مقصود حسنی کی شعری و نثری تخلقات اور اردو -13<br />

انجن کے اہل نقد و نظر<br />

نثر اور شعر کے امتیازات اور لوازمات -14<br />

مقصود حسنی کے چند شعری مرکبات -15<br />

مقصود حسنی کے کلم میں مشرقی تلمیحات کا -16<br />

استعمال<br />

مقصود حسنی کی شاعری میں ہندی تلمیحات کا -17<br />

استعمال<br />

مقصود حسنی کے کلم میں مغربی تلمیحات کا -18<br />

استعمال<br />

مقصود حسنی بطورL تجزیہ نگار -19<br />

پروفیسر ڈاکٹر مقصود حسنی'‏ ایک رجحان ساز ادیب -20<br />

مقصود حسنی اور برصغیر کا مضافاتی اور مغربی ادب


محبوب عالم ۔۔۔۔۔۔۔ قصور<br />

-١<br />

-٣<br />

-٢<br />

-٣<br />

-٥<br />

پروفیسر مقصود حسنی اردو کے جدید وقدیم شعری و نثری<br />

ادب کے مطالعہ تک محدود نہیں ہیں۔ انہوں نے برصغیر<br />

سے باہر بھی دیکھا ہے۔ ان کے ہاں اس ذیل کے مختلف<br />

ذائقے نظر آتے ہیں۔ وہ ان تمام عوامل کا بھی جائزہ لیتے<br />

ہیں جو اس کے بنیادی فکر اور زبان سے تعلق رکھتے<br />

ہیں۔ اس مطالعے کی پانچ صورتیں دیکھنے کو ملتی ہیں<br />

انفرادی<br />

مجموعی<br />

تقابلی<br />

رجحانی<br />

تشریحی اور وضاحتی<br />

اردو ادب سے متعلق ان کی خدمات نمایاں اور مختلف<br />

گوشوں پر پھیلی ہوئی ہیں جنھیں اردوادب کے نامورمحقق<br />

سند پذیرائی عطا کر چکے ہیں۔<br />

برصغیر سے باہر کے ادب کے مطلعہ کی دو صورتیں ہیں


ایشیائی شعر وادب<br />

مغربی شعر وادب<br />

ڈیوڈ کوگلٹی نوف نمائندہ روسی شاعر ہے۔ اس کی شاعری<br />

کے مطلعہ کا باباجی مقصود حسنی کے ہاں حاصل مطلعہ<br />

کچھ یہ ہے<br />

ڈیوڈ شر کے مقابل خیر کی حمایت کا قائل ہے۔ اس کے<br />

نزدیک خیر کی حمایت ہی<br />

حقیقی زندگی ہے۔ خیر کی حمایت کرنے والے بظاہر لمبی<br />

عمر نہیں پاتے۔ دار ورسن ان کا مقدر ہوتا ہے لیکن خیر<br />

کی حمایت میں گزرے لحمے ہی تو ابدیت سے ہم کنار<br />

ہوتے ہیں۔<br />

شعریات شرق وغرب ص‎٢٢٧‎<br />

روس میں ترقی پسندی کے نام سے اٹھنے والی تحریک کو<br />

بھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔ اس ذیل میں ایک بھرپور<br />

مقالہ۔۔۔۔۔۔ترقی پسند تحریک۔۔۔۔۔۔ ان کی کتاب تحریکات اردو<br />

ادب میں شامل ہے۔


فینگ سیو فینگ چینی زبان کا خوش فکر شاعر ہے۔ باباجی<br />

مقصود حسنی نے ناصرف اس کی شاعری کا تنقیدی<br />

مطالعہ پیش کیا ہے بلکہ اس کی کچھ نظموں کا ترجمہ بھی<br />

کیا ہے۔ فینگ سیو فینگ کی شاعری کے متعلق ان کا کہنا<br />

ہے<br />

فینگ سیو فینگ کی شاعری کرب ناک لمحوں کی عکاس<br />

ہے۔ اس کے کلم میں جہاں لہو لہو سسکیاں ہیں تو وہاں<br />

امید کے بےشمار دیپ بھی جلتے نظرآتے ہیں۔<br />

روزنامہ نوائے وقت لہور<br />

-٧ اپریل ١٩٨٨<br />

بطور نمونہ ایک نظم کا ترجمہ ملحظہ ہو<br />

شاعر:‏ فینگ سیو فینگ<br />

مترجم:‏ مقصود حسنی<br />

میں بد قسمتی پہ اک نظم لکھنے کو تھا<br />

مری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے<br />

کاغذ بھر گیا


اور میں نے قلم نیچے رکھ دیا<br />

کیا اشکوں سے تر کاغذ<br />

لوگوں کو دکھا سکتا تھا؟<br />

وہ سمجھ پاتے<br />

یہی تو بد قسمتی ہے<br />

زائی زی لیو چینی مصور تھا۔ باباجی مقصود حسنی کواس<br />

کی مصوری نے متاثر کیا۔ انہوں نے اس کےتصویری ورک<br />

کو قدر کی نظر سے دیکھا اوراسے خراج تحسین پیش کیا۔<br />

ان کا اس کی مصوری سے متعلق مضمون رزنامہ مشرق<br />

لہور میں شائع ہوا۔<br />

چین سے باباجی کی فکری قربت کااندازہ ان کے<br />

مضمون۔۔۔۔۔چین دوستی علقہ میں مثبت کردار ادا کر سکتی<br />

ہے۔۔۔۔۔ سے لگایا جا سکتا ہے۔<br />

یہ مضمون روزنامہ مشرق لہور ٩ اپریل<br />

اشاعت میں شامل ہے۔<br />

١٩٨٨ کی<br />

صادق ہدایت فارسی کا ناول نگار تھا۔ اس کے ناول۔۔۔۔ بوف<br />

کور۔۔۔۔۔ کا مطالعہ پیش کیا۔ ان کا یہ مضمون ماہنامہ تفاخر


لہور کے مارچ ١٩٩١ کے شمارے مینشائع ہوا۔<br />

فارسی کے پاکستانی زبانوں پر اثرات۔۔۔۔ تین اقساط میں<br />

اردو نیٹ جاپان پر شائع ہوا۔<br />

-١<br />

-٢<br />

عمر خیام فارسی کے شعری ادب میں نمایاں مقام رکھتا<br />

ہے۔ باباجی نے اس پر بھرپور قسم کا کام کیا ہے۔ یہ کام<br />

چھے حصوں پر مشتمل ہے<br />

عمر خیام سوانح و شخصیت اوراس کا عہد<br />

رباعیات خیام کا تنقیدی و تشریحی مطالعہ<br />

-٣<br />

-٤<br />

رباعیات خیام کے شعری محاسن<br />

عمر خیام کے نظریات واعتقادات<br />

-٥<br />

عمر خیام کا فلسفہءوجود<br />

٦- سہ مصرعی اردو ترجمہ رباعیات خیام<br />

ان کے اس ترجمے کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی نامور اہل<br />

قلم نے اپنی رائے کا اظہار کیا-‏ مثل


ڈاکٹر عبدالقوی ضیا کینیڈا<br />

ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی<br />

ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی<br />

ڈاکٹر ابوسعید نورالدین‘‏ ڈھاکہ‘‏ بنگلہ دیش<br />

ڈاکٹراسلم ثاقب‘‏ مالیر کوٹلہ‘‏ بھارت<br />

ڈاکٹر اختر علی<br />

ڈاکٹر وفا راشدی<br />

ڈاکٹر صابر آفاقی<br />

ڈاکٹر منیرالدین احمد‘‏ جرمنی<br />

پروفیسر کلیم ضیا‘‏ بمبئی‘‏ انڈیا<br />

پرفیسر رب نواز مائل<br />

پروفیسراکرام ہوشیار پوری<br />

پروفیسرامجد علی شاکر<br />

پروفیسر حسین سحر<br />

پروفیسر عطاالرحمن<br />

ڈاکٹر رشید امجد


ڈاکٹر محمد امین<br />

علی دیپک قزلباش<br />

سید نذیر حسین فاضل<br />

بطور نمونہ ایک رباعی کا ترجمہ ملحظہ ہو<br />

وہ زندگی‘‏ کیا خوب زندگی ہو گی<br />

مری مٹی سے تعمیر ہو کر<br />

جام‘‏ جب مےکدے سے طلوع ہو گا<br />

بوعلی قلندر کا اسی دھرتی سے تعلق تھا۔ باباجی نے ان<br />

کی مثنوی کا عہد سلطین کے حوالہ سے مطالعہ کیا۔ ان<br />

کایہ مقالہ پیام آشنا میں شائع ہوا جو بعد ازاں بابا جی کی<br />

کتاب ۔۔۔۔۔شعریات شرق وغرب۔۔۔۔۔۔<br />

کا حصہ بنا۔<br />

اقبال اور علمہ رازی کی فکر۔ کا تقابلی مطالعہ۔۔۔۔۔۔یہ مقالہ<br />

بابا جی کی محنت وکاوش کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔


یہ مقالہ اردو انجمن اور کئی دوسرے فورمز پر موجود ہے۔<br />

ان کا ایک مقالہ۔۔۔۔۔عربی کے پاکستانی زبانوں پر اثرات۔۔۔بڑا<br />

شاندار مقالہ ہے اور یہ<br />

www.scribd.com<br />

پر موجود ہے۔<br />

انہوں نے جاپانی آوازوں کے نظام پر تفصیلی مقالہ تحریر<br />

کیا۔ اس مقالے کا کچھ حصہ اردو میں بھی منتقل کیا۔ اصل<br />

مقالہ<br />

www.scribd.com<br />

پر موجود ہے۔ اس کا اردو ترجمہ تین قسطوں میں اردو<br />

نیٹ جاپان پر شائع ہوا۔ اس مقالے کی نگرانی وغیرہ<br />

پروفیسر ڈاکٹر ماسا آکی اوکا نے کی۔ اس مقالے کا اصل<br />

کمال یہ ہے کہ جاپانی آوازوں کے ساتھ برصغیر کی<br />

آوازوں کے اشتراک کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ ہر جاپانی<br />

آواز کے ساتھ اردو کی آوازوں کا موازناتی اوراشتراکی<br />

مطالعہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔<br />

مطلعہ کی پیاس انہیں دور مغرب میں بھی لے گئی۔ باباجی


نے اپنے مطالعہ میں آنے والے اہل قلم کی فکر کو اپنی<br />

آراء کے ساتھ اردو دان طبقے کے سامنے بھی پیش کیا۔<br />

اس حوالہ سے باباجی کو کسی ایک کرے تک محدود نہیں<br />

کیا جا سکتا۔ انہوں نےمغرب کا مطالعہ ارسطو سے شروع<br />

کیا۔۔۔۔ شاعری پر ایک عام اور بالموازنہ نظر۔۔۔۔۔ مقالہ ان<br />

کی کتاب اصول اور جائزے میں شامل ہے۔<br />

مغرب کے مطالعہ کے حوالہ سے ان کے درج ذیل مضامین<br />

قابل ذکر ہیں<br />

ایلیٹ اور ادب میں روایت کی اہمیت۔۔۔۔۔۔مسودہ<br />

شیلے کا نظریہءشعر۔۔۔۔۔۔ مشمولہ شعریات شرق وغرب<br />

جان کیٹس کا شعور شعر۔۔۔مشمولہ شعریات شرق وغرب<br />

شارل بودلیئر کا شعری شعور۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق<br />

وغرب<br />

شارل بودلیئر اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات<br />

شرق وغرب<br />

ژاں پال سارتر اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔مشمولہ شعریات<br />

شرق وغرب<br />

کروچے اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق


وغرب<br />

ورڈزورتھ اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق و<br />

غرب<br />

مغربی اہل سخن پر بات کرتے ہوئے اردو شعرا کے حوالے<br />

بھی درج کرتے ہیں۔ اکثر موازناتی صورت پیدا ہو جاتی<br />

ہے۔ یہ امر بھی غالب رہتا ہے کہ اردو شعر و ادب مغرب<br />

کے شعر ادب سے زیادہ جان دار اور زندگی کے دکھ سکھ<br />

کو واضح کرنے میں کامیاب ہے۔<br />

-١<br />

-٢<br />

باباجی مقصود حسنی مغربی شعر و ادب کا جائزہ لیتے<br />

ہوئے صرف شخصی محاکمے تک محدود نہیں رہتے۔ وہ<br />

مجموعی مطالعہ بھی پیش کرتے ہیں۔ اس ذیل میں ان کے<br />

یہ مقالے قابل توجہ ہیں<br />

مغرب میں تنقید شعر------مشمولہ شعریات شرق و<br />

غرب<br />

ناوریجین شاعری کے فکری و سماجی زاویے------‏<br />

مشمولہ شعریات شرق و غرب<br />

٣- شاعری اور مغرب کے معروف ناقدین۔۔۔۔۔۔۔۔مسودہ<br />

-٤<br />

اقبال اور مغربی مفکرین---------مسودہ


اکبر اور مغربی تہذیب۔۔۔۔۔روزنامہ وفاق لہور ٢٥-<br />

جولئی<br />

٢٦<br />

١٩٩١<br />

-٥<br />

اکبر اقبال اور مغربی زاویے۔۔۔۔۔ہفت روزہ فروغ حیدرآباد<br />

١٦ جوائی ١٩٩١<br />

شیلے اور زاہدہ صدیقی کی نظمیں۔۔۔۔ ماہنامہ تحریریں لہور<br />

دسمبر ١٩٩٣<br />

انگریزی اور اردو کا محاورتی اشتراک ۔۔۔۔۔سہ ماہی لوح<br />

ادب حیدرآباد اپریل تا جون ٢٠٠٤<br />

جرمن شاعری کے فکری زاویے<br />

باباجی کی یہ کتاب ١٩٩٣ میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب سات<br />

حصوں پر مشتمل ہے۔<br />

اس کی تفصیل کچھہ یہ ہے<br />

ا-‏ جرمن شاعری اور فلسفہء جنگ<br />

ب-‏ جرمن شاعری اور تصور انسان<br />

ج-‏ جرمن شاعری کا نظریہء محبت<br />

د۔ جرمن شاعری کا نظریہءزندگی<br />

ھ-‏ جرمن شاعری اور فلسفہءفنا<br />

و۔ جرمن شاعری اور امن کی خواہش


ظ-‏ جرمن شاعری اور انسانی اقدار<br />

جرمن قوم کے حوالہ سے ان کا ایک مضمون بعنوان جرمن<br />

ایک خودشناس قوم‘‏ کے نام سے روزنامہ مشرق لہور کی<br />

اشاعت ١٩٨٨ میں شائع ہوا۔ اس سے اندازہ ہوتا<br />

کہ وہ جرمن قوم کو فکری اعتبار سے کس قدر اپنے قریب<br />

محسوس کرتے تھے۔<br />

٥ مئی<br />

اس کے علوہ بابا جی مقصود حسنی نے مغربی ادب میں<br />

اٹھنے والی معروف تحریکوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا۔<br />

اس حوالہ سے ان کی کتاب تحریکات اردو ادب میں حسب<br />

ذیل مقالے موجود ہیں۔ یہ کتاب ١٩٩٧ میں شائع ہوئی۔<br />

شعور کی رو اور اردو فیکشن<br />

فطرت نگاری اور اردو فیکشن<br />

علمتی تحریک اور اردو شاعری<br />

امیجزم اور اردو شاعری<br />

ڈاڈا ازم اور اردو شاعری<br />

سریلزم اور اردو شاعری<br />

نئی دنیا اور رومانی تحریک


وجودیت ایک فلسفہ ایک تحریک<br />

ساختیات کے حوالہ سے باباجی نے بہت کام کیا ہے۔ دو<br />

مقالے ان کے پی ایچ ڈی کے مقالہ میں موجود ہیں جب کہ<br />

ایک مقالہ ان کی کتاب۔۔۔۔۔زبان غالب کا لسانی و ساختیاتی<br />

مطالعہ۔۔۔۔۔۔ میں موجود ہے۔ مقالہ پی ایچ ڈی اور<br />

کتاب۔۔۔۔۔زبان غالب کا لسانی و ساختیاتی مطالعہ۔۔۔۔۔۔ میں<br />

نشانیات غالب کا ساختیاتی مطالعہ بھی پیش کیا گیا ہے۔<br />

حضرت بلھے شاہ قصوری کا اردو کلم علیحدہ کرتے<br />

ہوئےانہوں نے حضرت بلھے شاہ قصوری کی زبان کا<br />

لسانی مطالعہ پیش کیا ہے۔ ان کے اس مطالعے کو ڈاکٹر<br />

محمد امین نے کسی شاعر کا باقاعدہ پہل ساختیاتی مطالعہ<br />

قرار دیا ہے۔<br />

اردو شعر-‏ فکری و لسانی رویے<br />

١٩٩٧ ص ١١٥<br />

باباجی مقصود حسنی کی کتاب اردو میں نئی نظم مغربی<br />

شاعری کے تناظر میں قلم بند ہوئی۔ اس میں ایک طرح<br />

سے مغربی نظم اور اردو نظم کا تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا


ہے۔ ان کی یہ کتاب مئی ١٩٩٣ میں شائع ہوئی۔<br />

منیرالدین احمد ایک اردو افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوں<br />

کی زبان اردو ہے لیکن مواد یہاں کی معاشرت سے متعلق<br />

نہیں ہے۔ کردار ماحول مکالمے نقطہءنظر وغیرہ قطعی<br />

الگ تر ہیں۔ اس ضمن میں باباجی نے منیر کا حوالہ بھی<br />

کوڈ کیا ہے جو کتاب کے پیش لفظ میں موجود ہے۔ منیر کا<br />

کہنا ہے:‏ اردو میں لکھے جانے والے یہ جرمن افسانے<br />

ہیں جو جرمن روایت کے تحت لکھے گئے ہیں۔ گویا سب<br />

کچھ جرمن ہے۔ منیرالدین احمد کے افسانوں سے متعلق<br />

باباجی کی کتاب۔۔۔۔منیرالدین احمد کے افسانے-‏ تنقیدی<br />

جائزہ میں شائع ہوئی۔ ابتدا میں منیرالدین احمد کے<br />

دس نمائندہ افسانوں کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کے بعد<br />

تین عنوان قائم کئےگئے ہیں<br />

١٩٩٥<br />

منیر کے چند افسانوی کردار<br />

منیر کے افسانوں میں ثقافتی عکاسی<br />

منیر اپنے افسانوں میں<br />

منیرالدین احمد کےافسانوں کا مطالعہ گویا جرمن افسانوں<br />

کا مطالعہ ہے۔


باباجی کی ان کاوش ہا کے متعلق معروف اسکالر ڈاکٹر<br />

سعادت سعید کا کہنا ہے:‏ مقصود حسنی نے معاصر مغرب<br />

کے نظریاتی تنقیدی جوہروں سے گہری شناسائی رکھنے کا<br />

مظاہرہ بھی کیا ہے۔ اس پس منظر میں یہ یاد رکھنا چاہیے<br />

کہ وہ ادب شناسی کے حوالے سے مشرق و مغرب کی<br />

تفریق کو کار عبث جانتے ہیں۔ نئی مغربی تنقید کے پس<br />

پشت جو عوامل کار فرما ہیں ان کا بھی انھیں بخوبی اندازہ<br />

ہے۔ یوں انہوں نے پوسٹ کلونیل یا مابعد نوآبادیاتی تنقید<br />

کے میکانکی رویوں سے نسبت رکھنے سے زیادہ اپنے<br />

مشرقی علم بیان کی سحر انگیریوں پر توجہ دی ہے۔ اس<br />

تناظر میں مقصود حسنی کی تاثراتی اور اظہاری تنقید کو<br />

پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ جس میں ان کے شعری و<br />

ادبی ذوق کے عکسی مظاہرے موجود ہیں۔ اردو نیٹ جاپان‘‏<br />

٧ جنوری ٢٠١٤<br />

ان کے اس نوعیت کے مطلعے سےمتعلق بہت سے اہل قلم<br />

نے قلم اٹھایا۔ چند ایک اندراج کر رہا ہوں<br />

آشا پربھات<br />

ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری<br />

ڈاکٹر ابوسعید نورالدین


ادیب سہیل<br />

پروفیسرامجد علی شاکر<br />

ڈاکٹر بیدل حیدری<br />

پروفیسر رب نواز مائل<br />

پروفیسر حفیظ صدیقی<br />

ڈاکٹر سعادت سعید<br />

شاہد حنائی<br />

ڈاکٹر صابرآفاقی<br />

ڈاکٹر صادق جنجوعہ<br />

علی دیپک قزلباش<br />

ڈاکٹر قاسم دہلوی‘‏ دہلی<br />

پروفیسر نیامت علی<br />

ڈاکٹر مظفر عباس<br />

ڈاکٹر منیرالدین احمد‘‏ جرمن<br />

ندیم شعیب<br />

ڈاکٹر وفا راشدی


ڈاکٹر وقار احمد رضوی<br />

پروفیسر یونس حسن<br />

درج بال تفصیلت سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ<br />

باباجی مقصود حسنی اپنی تحقیقی اور تنقیدی بصیرت کے<br />

سبب ہمہ وقت مختلف ادبی کروں کے نمائندہ حرف کار ہیں۔<br />

ہر کرے میں ان کی ایک شناخت وجود پذیر ہوتی ہے۔ اسی<br />

تناظر میں انہیں ادب کی دنیا کا لیجنڈ قرار دینا‘‏ کسی بھی<br />

حوالہ سے غلط نہ ہو گا۔ آتے کل کو ان کی ادبی شناخت<br />

کے لیے مروجہ اور مستعمل پیمانوں سے انحراف کرنا<br />

پڑے گا۔<br />

http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?<br />

id=51087<br />

مقصود حسنی کی مزاح نگاری‘‏ ایک اجمالی جائزہ<br />

محبوب عالم۔۔۔۔۔۔۔۔قصور


پروفیسر مقصود حسنی ادبی دنیا میں ایک منفرد نام و مقام<br />

رکھتے ہیں۔ وہ یک فنے نہیں ہیں بلکہ مختلف اصناف ادب<br />

میں کمال رکھنا ان کا طرہءامتیاز ہے۔ طنز و مزاح بھی ان<br />

کی دسترس سے باہر نہیں رہا۔ اکثر مزاح نگار تحریر کے<br />

عنوان سے ہی عیاں ہو جاتا ہے کہ اس تحریر میں مزاح کا<br />

مواد کس نوعیت کا رہا ہو گا۔ باباجی مقصود حسنی کے ہاں<br />

یہ چیز شاز ہی ملتی ہے۔ عنوان سے قطعی اندازہ نہیں ہو<br />

پاتا کہ تحریر میں کس موضوع کو زیر بحث لیا گیا ہو گا۔<br />

ان کے ہاں مزاح بھی سنجیدہ اطوار لیے ہوئے ہے۔ گویا<br />

قاری حیرانی میں حظ اٹھاتا ہے۔ وہ ورطہءحیرت میں مبتل<br />

ہو جاتا ہے کہ مصنف نے طنز کا شائبہ بھی ہونے نہیں<br />

دیا‘‏ پھر گدگدا بھی دیا ہے۔ سنجیدگی سے بات کرتے کرتے<br />

لطیفہ کرنے کا فن انہیں خوب آتا ہے۔ روزمرہ یا پھر<br />

شائستہ سا ایس ایم ایس کا استعمال بخوبی جانتے ہیں۔ بات<br />

سے بات نکالنے کے فن پر انہیں بلشبہ ملکہ حاصل ہے۔<br />

کسی عوامی محاورے یا مرکب سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔<br />

یہ محاورے یا مرکب‘‏ کسی نہ کسی سماجی رویے کے<br />

عکاس ہوتے ہیں۔<br />

لفظ‘‏ پروفیسر مقصود حسنی کے ہاتھوں میں دیدہ زیب


کھلونوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ لفظوں کو مختلف تناظر<br />

میں استعمال کرکے نئے مفاہیم دریافت کرتے ہیں۔ لفظوں<br />

کے استعمال کی یہ صورت غالب کے بعد کسی کے ہاں<br />

پڑھنے کو ملتی ہے۔ وہ غالب کے معنوی شاگرد بھی ہیں۔<br />

ان کے مزاح میں زندگی متحرک نظرآتی ہے۔ وہ اپنے<br />

اردگرد کو بڑے غور سے دیکھنے کے عادی ہیں۔ وہ<br />

متحرک زندگی کو اپنے فکری ردعمل کے ساتھ پیش کرتے<br />

ہیں۔ ان کے اسلوب سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ<br />

کب اور کس وقت طنز کا کوئی تیر چھوڑ دیں گے۔<br />

معاشرتی خرابیاں ان کا موضوع گفتگو رہتی ہیں۔ وہ اپنے<br />

مزاج کے ہاتھوں مجبور نظر آتے ہیں۔ دفتر شاہی بھی ان<br />

کے طنز سے باہر نہیں رہی۔ پروفیسر مقصود حسنی کسی<br />

بھی موضوع پر قلم کو جنبش دیتے وقت حالت و واقعات کا<br />

ایسا نقشہ کھنچتے ہیں کہ معاملے کے جملہ پہلو آنکھوں<br />

کے سامنے گھومنے لگتے ہیں۔ ان کی کسی تحریر کو<br />

پڑھتے وقت قاری کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ پڑھ رہا<br />

ہے یا دیکھ رہا ہے۔<br />

باباجی مقصود حسنی زندگی کے خانگی حالت و واقعات کو<br />

بھی نظر انداز نہیں کرتے۔ وہ دہلیز کے اندر کے


موضوعات پر گفتگو کرکے شخص کی خانگی حیثیت اور<br />

کارگزاری پر بھی بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔ اس انداز سے<br />

کہہ جاتے ہیں کہ قاری کو ہر ممکن لطف میسر آتا ہے۔<br />

خانگی حالت و واقعات بیان کرتے وقت وہ صیغہ متکلم<br />

استعمال کرتے ہیں حالنکہ ایسے مزاح کا ان کی ذات سے<br />

دور دور تک تعلق نہیں ہوتا۔ بعض تحریریں فرضی ناموں<br />

کے ساتھ بیان کرکے اپنے فن کو کمال درجہ تک لے جاتے<br />

ہیں۔<br />

باباجی مقصود حسنی کی مزاح نگاری کو روایتی قرار نہیں<br />

دیا جا سکتا۔ انھوں نے روایت سےبغاوت کرکے نیا طرز<br />

اظہار دریافت کیا ہے۔ مزاح اور سنجیدگی دو الگ سے طرز<br />

اظہار ہیں۔ سنجیدگی سے مزاح کا اظہار متضاد عمل ہے<br />

لیکن یہ ان کے ہاں ملتا ہے۔ اس لیے یہ بات دعوعے کے<br />

ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ وہ سنجیدگی میں مزاح لکھتے<br />

وقت نئی زبان بھی متعارف کرواتے ہیں۔<br />

اس مختصر سے جائزے سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے<br />

کہ باباجی مقصود حسنی کی مزاح نگاری اردو ادب میں<br />

انفرادیت کی حامل ہے جو اب تک اردو کے کسی دوسرے<br />

مزاح نگار کے حصہ میں نہیں آ سکی کیونکہ روایت کی


پاسداری کرنے والے انفرادیت کے دعوی دار نہیں ہو<br />

سکتے۔<br />

ان کی مزاح نگاری کے چند نمونے ملحظہ ہوں<br />

ایک پکی پیڈی بات ہے کہ چوہا بلی سے‘‏ بلی کتے سے‘‏<br />

کتا بھڑیے سے‘‏ بھیڑیا چیتے سے‘‏ چیتا شیر سے‘‏ شیر<br />

ہاتھی سے‘‏ ہاتھی مرد سے‘‏ مرد عورت سےاورعورت<br />

چوہے سے ڈرتی ہے۔ ڈر کی ابتدا اور انتہا چوہا ہی ہے۔<br />

میرے پاس اپنے موقف کی دلیل میں میرا ذاتی تجربہ شامل<br />

ہے۔ میں چھت پر بیھٹا تاڑا تاڑی کر رہا تھا۔ نیچے پہلے<br />

دھواندھار شور ہوا پھر مجھے پکارا گیا۔ میں پوری پھرتی<br />

سے نیچے بھاگ کر آیا۔ ماجرا پوچھا۔ بتایا گیا کہ صندوق<br />

میں چوہا گھس گیا ہے۔ بڑا تاؤ آیا لیکن کل کلیان سے ڈرتا‘‏<br />

پی گیا۔ بس اتنا کہہ کر واپس چل گیا کہ تم نے مجھے بلی<br />

یا کڑکی سمجھ کر طلب کیا ہے۔ تاہم میں نے دانستہ چوہا<br />

صندوق کے اندر ہی رہنے دیا۔<br />

غیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم<br />

ہم بڑے مذہبی لوگ ہیں کسی سکھ کی سیاسی شریعت<br />

تسلیم نہیں کر سکتے۔ راجا رنجیت سنگھ اول تا آخر مقامی


غیر مسلم تھا اس لیے اس کا کہا کس طرح درست ہو سکتا<br />

ہے۔ راجا رنجیت سنگھ اگر گورا ہوتا تو اس کی سیاسی<br />

شریعت کا مقام بڑا بلند ہوتا۔ گورا دیس سے آئی ہر چیز<br />

ہمیں خوش آتی ہے۔<br />

علم عقل اور حبیبی اداروں کا قیام<br />

استاد کی باتوں کا برا نہ مانئیے گا۔ میں بھی اوروں کی<br />

طرح ہنس کر ٹال دیتا ہوں۔ اور کیا کروں مجھے محسن<br />

کش اور پاکستان دشمن کہلنے کا کوئی شوق نہیں۔ بھل یہ<br />

بھی کوئی کرنے کی باتیں ہیں کہ کتے کے منہ سے نکلی<br />

سانپ کے منہ میں آ گئی۔ سانپ سے خلصی ہونے کے<br />

ساتھ ہی چھپکلی کے منہ میں چلی گئی۔<br />

ہم زندہ قوم ہیں<br />

دو میاں بیوی کسی بات پر بحث پڑے۔ میاں نےغصے میں آ<br />

کر اپنی زوجہ ماجدہ کو ماں بہن کہہ دیا۔ مسلہ مولوی<br />

صاحب کی کورٹ میں آگیا۔ انہوں نے بکرے کی دیگ اور<br />

دو سو نان ڈال دیے۔ نئی شادی پر اٹھنے والے خرچے<br />

سے یہ کہیں کم تھا۔ میاں نے مولوی صاحب کے ڈالے<br />

گیے اصولی خرچے میں عافیت سمجھی۔ رات کو میاں<br />

بیوی چولہے کے قریب بیٹھے ہوئے تھے۔ بیوی نے اپنی


فراست جتاتے ہوئے کہا<br />

‏"اگر تم ماں بہن نہ کہتے تو یہ خرچہ نہ پڑتا۔"‏<br />

بات میں سچائی اپنے پورے وجود کے ساتھ موجود تھی۔<br />

میاں نےدوبارہ بھڑک کر کہا<br />

‏"توں پیو نوں کیوں چھیڑیا سی"‏<br />

مولوی صاحب کا فتوی اور ایچ ای سی پاکستان<br />

کچھ ہی پہلے‘‏ اندر سے آواز سنائی دی‘‏ حضرت بےغم<br />

صاحب حیدر امام سے کہہ رہی تھیں‘‏ بیٹا اپنے ابو سے<br />

پیسے لے کر بابے فجے سے غلہ لے آؤ۔ عید قریب آ رہی<br />

ہے‘‏ کچھ تو جمع ہوں گے‘‏ عید پر کپڑے خرید لئیں گے۔<br />

بڑا سادا اور عام فیہم جملہ ہے‘‏ لیکن اس کے مفاہیم سے<br />

میں ہی آگاہ ہوں۔ یہ عید پر کپڑے لنے کے حوالہ سے بڑا<br />

بلیغ اور طرح دار طنز ہے۔ طنز اور مزاح میں زمین اور<br />

آسمان کا فرق ہے۔ طنز لڑائی کے دروازے کھولتا ہے جب<br />

کہ مزاح کے بطن سے قہقہے جنم لیتے ہیں۔ جب دونوں کا<br />

آمیزہ پیش کیا جائے تو زہریلی مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے<br />

اور ایسی جعلی مسکراہٹ سے صبر بھل‘‏ دوسرا بات گرہ<br />

میں بندھ جاتی ہے۔<br />

لٹھی والے کی بھینس


ان کی ایک مزاح پر مشتمل کتاب بیگمی تجربہ ١٩٩٣ میں<br />

شائع ہوئی جو اس سے پہلے نقد و نقد کے نام سے منظر<br />

عام پر جلوہ گر ہوئی۔ اس کتاب کو اہل ذوق نے پسند کیا۔<br />

چند آراء ملحظہ ہوں<br />

آج ہمارا معاشرہ جس فتنہ و فساد اور پرآشوب دور سے<br />

گزر رہا ہے جس کو بدقسمتی سے تہذیب و ترقی سے تعبیر<br />

کیا جاتا ہے اس کی شدت کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ<br />

رویہ اختیار کرنے سے زیادہ لطیف طنز و مزاح کے نشتر<br />

چبھونا موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ مصنف موصوف نے اس<br />

حقیقت کو بخوبی سمجھ لیا ہے اور معاشرے کے ان<br />

زخموں سے فاسد مادہ کو طنزومزاح کے نشروں سے<br />

نکالنے کی کوشش کی ہے۔<br />

ثناءالحق صدیقی<br />

ماہنامہ النسان کراچی مئی<br />

١٩٩٤ صفحہ نمبر<br />

٣٢<br />

مقصود صاحب بڑے ذہین معاملہ شناس مدبر اور نئی سوچ<br />

کے مالک ہیں۔ بڑی بات یہ کہ آپ سچے اور منفرد انداز<br />

کے بادشاہ ہیں۔ میں تو کہوں گا کہ میں نے ساٹھ ہزار کتب<br />

کا مطالعہ کیا ہے ان میں ایسی معیاری کتب کوئی ایک<br />

درجن ہوں گی۔ اس کتاب نے مجھے بڑا متاثر کیا ہے۔ میں


اسے سندھ کے شاہ جو رسالو کی طرح اپنے سفر میں بھی<br />

ساتھ رکھوں گا اور بار بار پڑھوں گا۔<br />

مہر کاچیلوی<br />

بیگمی تجربہ پر اظہار خیال‘‏ ہفت روزہ عورت میرپور<br />

خاص سندھ<br />

١٨ نومبر ١٩٩٣<br />

ان کی زبان میں لطافت ہے‘‏ ظرافت ہے‘‏ سحر آفرینی ہے۔<br />

انھوں نے جس ہنرمندی سے باتوں سے باتیں نکالی ہیں‘‏<br />

وہ ان ہی کا حصہ ہے۔ انھوں نے مزاحیہ طرز سے پژمردہ<br />

دلوں میں زندگی اور زندہ دلی کی روح پھونک دی ہے۔<br />

خشک ہونٹوں پر پھول نچھاور کیے ہیں۔<br />

ڈاکٹر وفا راشدی<br />

سہ ماہی انشاء حیدرآباد جنوری تا ستمبر ٢٠٠٥ بیگمی<br />

تجربہ پر اظہار خیال<br />

بیگمی تجربہ میں کل ٣١ مضمون شامل تھے جن کی<br />

تفصیل درج خدمت ہے<br />

بچوں کی بددعائیں نہ لیں<br />

عقل بڑی یا بھینس<br />

1<br />

2


بیمار ہونا منع ہے 3<br />

حاتم میرے آنگن میں<br />

4<br />

کاغذی قصے اور طاقت کا سرچشمہ<br />

شادی+معاشقہ:جمہوری عمل<br />

مجبور شرک<br />

5<br />

6<br />

7<br />

ترقی‘‏ ہجرین اور عصری تقاضے<br />

دمدار ستارہ اور علمتی اظہار<br />

ویڈیو ادارے اور قومی فریضہ<br />

چھلکے بکریاں اور میمیں<br />

پہل ہل اور برداشت کی خو<br />

بیگمی تجربہ اور پت جھڑ<br />

8<br />

9<br />

10<br />

11<br />

12<br />

13<br />

انسانی ترقی میں جوں کا کردار<br />

اصلح نفس اور برامدے کی موت<br />

سنہری اصول اور دھندے کی اہمیت<br />

بش شریعت اور سکی نمبرداری<br />

14<br />

15<br />

16<br />

17<br />

نیل کنٹھ‘‏ شیر اور محکمہ ماہی پروری<br />

18


بہتی گنگا اور نقد و نقد 19<br />

ملوٹ اور کھپ کھپاؤ<br />

20<br />

سپاہ گری سے گداگری تک<br />

یار لوگ اور منہگائی میمو<br />

سچ آکھیاں بھانبڑ مچدا اے<br />

ہدایت نامہ خاوند<br />

ہدایت نامہ بیوی<br />

ادھورا کون<br />

21<br />

22<br />

23<br />

24<br />

25<br />

26<br />

محنت کے نقصانات<br />

محاورے کا سفر<br />

27<br />

28<br />

کتےاور عصری تقاضے<br />

جواز<br />

ظلم<br />

29<br />

30<br />

31<br />

مزاح سے متعلق ان کے بہت سے مضمون انٹرنیٹ کی<br />

مختلف ویب سائٹس پر پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔ ان کے ان<br />

مضامین کو سراہا گیا ہے۔ اس ذیل میں صرف اردو انجمن<br />

سے متعلق چند اہل قلم کی آراء ملحظہ ہوں


آپ کا یہ نہایت دلچسپ انشائیہ پڑھا اور بہت محظوظ و<br />

مستفید ہوا۔ جب اس کے اصول کا خود پر اطلق کیا تو<br />

اتنے نام اور خطاب نظر آئے کہ اگر ان کا اعلن کر دوں تو<br />

دنیا اور عاقبت دونوں میں خوار ہوں۔ سو خاموشی سے<br />

سر جھکا کر یہ خط لکھنے بیٹھ گیا ۔ انشا ئیہ بہت مزیدار<br />

ہے شاید اس لئے کہ حقیقت پر مبنی ہے۔ اس آئنیہ میں<br />

سب اپنی صورت دیکھ سکتے ہیں۔<br />

اکتوبر<br />

10:43:43 شام<br />

,2013<br />

,20<br />

مشتری ہوشیار باش<br />

سرور عالم راز<br />

آپ کے انشائیے پر لطف ہوتے ہیں۔ خصوصا اس لئے بھی<br />

کہ آپ ان میں اپنی طرف کی یا پنجابی کی معروف عوامی<br />

اصطلحات ‏(میں تو انہیں یہی سمجھتا ہوں۔ ہو سکتا ہوں<br />

کہ غلطی پر ہوں)‏ استعمال کرتے ہیں جن کا مطلب سر<br />

کھجانے کے بعد آدھا پونا سمجھ میں آ ہی جاتی ہے جیسے<br />

ادھ گھر والی یا کھرک۔ یا ایم بی بی ایس۔ اس میں تو کوئی<br />

شک نہیں کہ کھرک جیسا با مزہ مرض ابھی تک جدید<br />

سائنس نے ایجاد نہیں کیا ہے۔ وا بعض اوقات تو جی<br />

چاہتا ہے کہ یہ مشغلہ جاری رہے اور تا قیامت جاری رہے۔<br />

اس سے یہ فائدہ بھی ہے کہ صور کی آواز کو پس پشت<br />

ڈال کر ہم ‏:کھرک اندازی:‏ میں مشغول رہیں گے۔ ا ا خیر


اگست<br />

سل۔<br />

میری ناچیز بدعا<br />

09:00:12 ,2013 ,14 صبح<br />

سرور عالم راز<br />

مجھے علم نہیں ہے کہ محترمہ زھرا کون ہیں،‏ قرین قیاس<br />

یہی ہے کہ انکا تعلق بزم سے ہوسکتا ہے۔ ملقات کی<br />

روداد میں گھریلو ماحول کی عکاسی بہت عمدگی سے کی<br />

گی ہے،‏ اور یہ وہ کہانی ہے جو گھر گھر کی ہے۔ اہل خانہ<br />

پر گھبراہٹ کا عالم اور اندیشہ ہاے دور دراز،‏ گھر کے<br />

سربراہ کی واقعی جان پر بن آتی ہے۔ ایک لطیف تحریر<br />

جس سے لطف اندوز ہونے کا حق ہر قاری کو ہے<br />

خلش<br />

آپ کا انشائیہ حسب معمول نہایت دلچسپ اور شگفتہ تھا۔<br />

پڑھ کر لطف آ گیا۔ اس زندگی کی بھاگ دوڑ اور گھما گھمی<br />

میں چند لمحات ہنسنے کے مل جائیں تو ا کا شکر ادا<br />

کرنا چاہئے۔ ہاں یہ پڑھ کرانتہائی حیرت ہوئی کہ زہرا<br />

صاحبہ برقعہ میں آئین!‏ یا میرا چشمہ ہی خراب ہو گیا ہے؟<br />

ایک نہایت پر لطف اور دل پذیر تحریر کے لئے داد قبول<br />

کیجئے۔


نومبر<br />

قصہ زہرا بٹیا سے ملقات کا<br />

03:25:04 صبح<br />

,2013<br />

,03<br />

سرور عالم راز<br />

جیسے جیسے آپ کی تحریر پڑھتا گیا ہنسی کا ضبط کرنا<br />

ناگزیر ہوتا چل گیا اور آخر میں میری حالت پاکستان میں<br />

کسی زمانے میں جی ٹی روڈ پر چلنے والی اس کھچاڑا جی<br />

ٹی ایس<br />

) گورننمٹ ٹرانسپورٹ سروس)‏<br />

کی طرح ہوگئی جو رک جانے کے بعد بھی ہلتی رہتی تھی ،<br />

بڑی دیر تک لطف اندوز ہونے کے بعد سوچا اپنی اندرونی<br />

کیفیت کا اظہار کر ہی دیا جائے<br />

وہ کہتے ہیں ناں کہ جس سے پیار ہوجائے تو اس کا اظہار<br />

کر دو کہ مبادا دیر نہ ہو جائے<br />

تو جناب ڈاکٹر صاحب میری جانب سے ڈھیروں داد آپ کے<br />

قلم کے کمال کی نذر کہ جس سے چہروں پر مسکراہٹیں<br />

بکھر جائیں<br />

جولئی<br />

لٹھی والے کی بھینس<br />

09:45:29 شام<br />

,2013<br />

,12<br />

اسماعیل اعجاز


اردو نیٹ جاپان‘‏ اردو انجمن‘‏ ہماری ویب‘‏ فرینڈز کارنر‘‏<br />

پیغام ڈاٹ کام‘‏ فورم پاکستان اور فری ڈم یونی ورسٹی سے‘‏<br />

میں نے ٦٩ مضامین تلش کیے ہیں۔ ان کی تفصیل درج<br />

ذیل ہے<br />

بھگوان ساز کمی کمین کیوں ہو جاتاہے<br />

غیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم<br />

1<br />

2<br />

عوامی نمائیندے مسائل'‏ اور بیورو کریسی<br />

علم عقل اور حبیبی اداروں کا قیام<br />

3<br />

4<br />

امریکہ کی پاگلوں سے جنگ چھڑنے والی ہے<br />

لوڈ شیڈنگ کی برکات<br />

ہم زندہ قوم ہیں<br />

5<br />

6<br />

7<br />

طہارتی عمل اور مرغی نواز وڈیرہ<br />

رول رپا توازن کا ضامن ہے<br />

8<br />

9<br />

آدم خور چوہے اور بڈھا مکاؤ مہم<br />

10<br />

پی ایچ ڈی راگ جنگہ کی دہلیز پر<br />

سیاست دان اپنی عینک کا نمبر بدلیں<br />

11<br />

12


قانون ضابطے اور نورا گیم 13<br />

خودی بیچ کر امیری میں نام پیدا کر<br />

خدا بچاؤ مہم اور طلق کا آپشن<br />

غیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم<br />

14<br />

15<br />

16<br />

جرم کو قانونی حیثیت دینا ناانصافی نہیں<br />

17<br />

ہمارے لودھی صاحب اور امریکہ کی دو دوسیریاں<br />

لوٹے کی سماجی اور ریاستی ضرورت<br />

اس عذاب کا ذکر قرآن میں موجود نہیں<br />

بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟<br />

عوام شاہ کے ڈراموں کی زد میں رہے ہیں<br />

دنیا کا امن اور سکون بھنگ مت کرو<br />

رشوت کو طلق ہو سکتی ہے<br />

عوام بھوک اور گڑ کی پیسی<br />

18<br />

22<br />

19<br />

20<br />

21<br />

23<br />

24<br />

25<br />

رمضان میں رحمتوں پر نظر رہنی چاہیے<br />

جمہوریت سے عوام کو خطرہ ہے 27<br />

سیری تک جشن آزادی مبارک ہو<br />

26<br />

28


دو قومی نظریہ اور اسلمی ونڈو 29<br />

گھر بیٹھے حج کے ایک رکن کا ثواب کمائیں<br />

مولوی صاحب کا فتوی اور ایچ ای سی پاکستان<br />

لٹھی والے کی بھینس<br />

30<br />

31<br />

32<br />

دمہ گذیدہ دفتر شاہی اور بیمار بابا<br />

33<br />

انشورنس والے اور میں اور تو کا فلسفہ<br />

34<br />

غیرملکی بداطواری دفتری اخلقیات اور برفی کی چاٹ<br />

حقیقت اور چوہے کی عصری اہمیت زندگی<br />

تعلیم میر منشی ہاؤس اور میری ناچیز قاصری<br />

محاورہ پیٹ سے ہونا کے حقیقی معنی<br />

آزاد معاشرے اہل علم اور صعوبت کی جندریاں<br />

دیگی ذائقہ اور مہر افروز کی نکتہ آفرینی<br />

ایجوکیشن‘‏ کوالیفیکیشن اور عسکری ضابطے<br />

وہ دن ضرور آئے گا<br />

صیغہ ہم اور غالب نوازی<br />

35<br />

36<br />

37<br />

38<br />

39<br />

41<br />

40<br />

43<br />

42<br />

پروف ریڈنگ‘‏ ادارے اور ناصر زیدی<br />

44


ناصر زیدی اور شعر غالب کا جدید شعری لباس 45<br />

قصہ زہرا بٹیا سے ملقات کا<br />

مشتری ہوشیآر باش<br />

مدن اور آلو ٹماٹر کا جال<br />

46<br />

48<br />

47<br />

احباب اور ادارے آگاہ رہیں<br />

کھائی پکائی اور معیار کا تعین<br />

بابا بولتا ہے<br />

بابا چھیڑتا ہے<br />

50<br />

49<br />

51<br />

لوارثا بابا اور تھا<br />

فتوی درکار ہے<br />

53<br />

52<br />

54<br />

ڈینگی‘‏ ڈینگی کی زد میں<br />

55<br />

حضرت ڈینگی شریف اور نفاذ اسلم<br />

یہ بلئیں صدقہ کو کھا جاتی ہیں<br />

اب دیکھنا یہ ہے<br />

56<br />

57<br />

58<br />

سورج مغرب سے نکلتا ہے<br />

59<br />

یک پہیہ گاڑی منزل پر پہنچ پائے گی<br />

60


حجامت بےسر کو سر میں لتی ہے 61<br />

انھی پئے گئی اے<br />

62<br />

امیری میں بھی شاہی طعام پیدا کر<br />

وہ دن کب آئے گا<br />

63<br />

64<br />

آزادی تک‘‏ جشن آزادی مبارک<br />

رشتے خواب اور گندگی کی روڑیاں<br />

66<br />

65<br />

پنجریانی اور گناہ گار آنکھوں کے خواب<br />

میری ناچیز بدعا<br />

67<br />

68<br />

طاقت اور ٹیڑھے مگر خوبصورت ہاتھ<br />

انسان کی تلش<br />

69<br />

70<br />

معاشی ڈنگر اور کاغذ کے لوارث پرزے<br />

صبح ضرور ہو گی<br />

71<br />

72<br />

قیامت ابھی تک ٹلی ہوئی ہے<br />

73<br />

وہ دن گیے جب بن دیے بھل ہوتا تھا<br />

عین ممکن ہے<br />

کھائی بھلی کہ مائی<br />

74<br />

76<br />

75


دفتر شاہی میں کالے گورے کی تقسیم کا مسلہ 77<br />

درج بال مختصر تفصیلت سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا<br />

ہے کہ باباجی مقصود حسنی اس صنف ادب میں<br />

بھی کامیاب و کامران رہے ہیں۔ آخر میں پروفیسر یونس<br />

حسن کی رائے درج کر رہا ہوں جس سے باباجی کے اس<br />

ادبی کام کی نوعیت و حیثیت کا اندازہ ہو جاتا ہے<br />

مقصود حسنی نے مزاح کے میدان میں تقلید کو گوارہ نہیں<br />

کیا‘‏ اپنے لیے ایک علیحدہ اور جداگانہ رستہ نکال ہے۔ ان<br />

کی یہی انفرادیت ان کے پورے مزاح پر محیط نظر آتی ہے۔<br />

ان کا مزاح وقتی یا لمحاتی نہیں اور نہ ہی گراوٹ کا شکار<br />

ہوتا ہے بلکہ اپنی جدت طرازی کی بنا پر ایک علیحدہ<br />

شناخت اور پہچان رکھتا ہے۔ ان کے مزاح کی جڑیں ہماری<br />

سماجی زندگی کے اندر پیوست نظر آتی ہے۔<br />

پروفیسر یونس حسن<br />

سہ ماہی انشاء حیدرآباد جنوری تا ستمبر ٢٠٠٥ بیگمی<br />

تجربہ پر اظہار خیال<br />

http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?


id=51092<br />

ڈاکٹر مقصود حسنی بطور ماہر لسانیات<br />

) ‏,پرفیسر یونس حسن)‏<br />

ڈاکٹر مقصود حسنی ایک منفرد اور نامور ماہر لسانیات ہیں۔<br />

ان کے درجنوں مقالے رسائل و جرائد اور انٹر نیٹ کی<br />

مختلف ویب سائٹس پر پڑھنے کو ملتے ہیں۔ غیر مطبوعہ<br />

مقالت دیکھنے کا مجھے اتفاق ہوا ہے۔ ان مقالت پر<br />

سرسری نظر ڈالنے سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ<br />

لسانیات میں غیر معمولی قدرت رکھتے ہیں۔ ان مقالت میں<br />

موضوعات کا تنوع اور رنگا رنگی ملتی ہے۔ راقم اپنے<br />

بےلگ مطالعے اور جائزے سے اس نتیجے پر پہنچا ہے<br />

کہ یہ مقالت لسانیات کے باب میں ایک اہم اضافہ ہیں۔<br />

ان مقالت میں زبان کے جو موضوعات زیر بحث لئے گئے<br />

ہیں ان میں آوازوں کا نظام بڑی خصوصیت کا حامل ہے۔<br />

زبانوں میں آوازیں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔


الفاظ کی تشکیل میں آوازیں کلیدی کردار کی حامل ہوتی<br />

ہیں۔ اس کے علوہ انہوں نے لفظیات‘‏ صوتیات‘‏ معنویات‘‏<br />

ہیت‘‏ ساخت‘‏ گرائمر اور بناوٹ کو بھی موضوع بنایا ہے۔<br />

انہوں نے لفظوں کی سماجیات اور نفسیات پر بھی قلم اٹھایا<br />

ہے۔<br />

ڈاکٹر صاحب نے ساختیات اور پس ساختیات پر بھی نمایاں<br />

کام کیا ہے۔ انہوں باباجی بلھے شاہ صاحب کا لسانی مطالعہ<br />

کیا ہے جسے ڈاکٹر محمد امین نے کسی شاعر کے کلم کا<br />

پہل ساختیاتی مطالعہ قرار دیا ہے۔ مرزا غالب کی لفظیات<br />

کےساختیاتی مطالعہ کے ساتھ ساتھ ساختیات پر بھی تین<br />

مقالے تحریر کیے ہیں۔<br />

ان کےاس کام سے کئی لسانی اور ساختیاتی جہتیں سامنے<br />

آتی ہیں۔<br />

مزید براں ان کے دستیاب مقالت میں زبانوں کے وجود<br />

میں‘‏ آنے ترقی کرنے یا بعض الفظ کے متروک ہو جانے<br />

کے حوالہ سے بھی بہت سا مواد میسر آتا ہے۔ اردو زبان<br />

کے وہ عاشق ہیں اس لیے وہ کسی مقام پر اسے نظرانداز<br />

نہیں ہوتی۔ اردو پر گفتگو کے دوران اس کی موجودہ


صرتحال پر بھی گفتگو کرتے ہیں۔<br />

عربی فارسی اور انگریزی کےاردو پر اثرات کو بھی اپنی<br />

تحقیق کا حصہ بنایا ہے۔ تقابلی مطالعے کے دوران اردو<br />

سے مثالیں ضرور پیش کرتے ہیں۔<br />

انہوں نے جاپانی کے لسانی نظام پر بھی گفتگو کی ہے۔<br />

اس کا کچھ حصہ ترجمہ ہو کر اردو نیٹ جاپان پر قسطوں<br />

میں شائع ہو چکا ہے۔<br />

ڈاکٹر مقصود حسنی نے اردو کی ذاتی آوازیں اور بدیسی<br />

آوازوں کے دخول پر بھی گفتگو کی ہے۔ مہاجر زبانوں کے<br />

الفاظ کا مقامی زبانوں میں دخول اور اشکالی اور ان کی<br />

معنوی تبدیلی پر بھی گفتگو کی ہے۔ وہ بھاری آوازوں کو<br />

بھی زیر بحث لئے ہیں۔<br />

غالب پر ان کے لسانی کام کو دیکھتے ہوئے علمہ اقبال<br />

اوپن یونیورسٹی نےمحمد لطیف لیکچرار اردو پاکپتن کو ایم<br />

فل اردو کا مقالہ بعنوان مقصود حسنی اور غالب شناسی<br />

تفویض کیا ہے۔


ان کے کچھ مقالت کی فہرست درج کر رہا ہوں۔ مجھے<br />

یقین ہے کہ یہ تفصیل لسانیات سے شغف رکھنے والوں<br />

کے لیے خصوصی دل چسپی کا موجب بنے گی۔<br />

اردو مضامین کی فہرست دستیاب<br />

-٢<br />

-١<br />

-٣<br />

-٤<br />

اردو ہے جس کا نام<br />

لفظ ہند کی کہانی<br />

ہندوی تاریخ اور حقائق کے آئینہ میں<br />

ہندوستانی اور اس کے لسانی حدود<br />

-٥<br />

-٧<br />

-٦<br />

اردو میں مستعمل ذاتی آوازیں<br />

اردو کی چار آوازوں سے متعلق گفتگو<br />

اردو اور جاپانی آوازوں کی سانجھ<br />

-٨<br />

-٩<br />

اردو میں رسم الخط کا مسلہ<br />

انگریزی کے اردو پر لسانی اثرات<br />

١٠- سرائیکی اور اردو کی مشترک آوازیں


-١١<br />

-١٣<br />

اردو اور انگریزی کا محاوراتی اشتراک<br />

-١٢<br />

-١٤<br />

-١٥<br />

-١٦<br />

اردو سائنسی علوم کا اظہار<br />

قومی ترقی اپنی زبان میں ہی ممکن ہے<br />

اردو‘‏ حدود اور اصلحی کوششیں<br />

قدیم اردو شاعری کا لسانی مطالعہ<br />

بلھے شاہ کی زبان کا لسانی مطالعہ<br />

١٧- شاہی کی شاعری کا لسانی مطالعہ<br />

-١٨<br />

خواجہ درد کے محاورے<br />

١٩- سوامی رام تیرتھ کی اردو شاعری کا لسانی مطالعہ<br />

-٢٠<br />

-٢١<br />

-٢٢<br />

الفاظ اور ان کا استعمال<br />

آوازوں کی ترکیب و تشکیل کے عناصر<br />

الفاظ کی ترکیب‘‏ استعمال اور ان کی تفہیم کا مسلہ<br />

-٢٣<br />

-٢٤<br />

زبانوں کی مشترک آوازیں<br />

پاکستان کی زبانوں کی پانچ مخصوص آوازیں<br />

-٢٦<br />

-٢٥<br />

عربی زبان کی بنیادی آوازیں<br />

عربی کی علمتی آوازیں


-٢٧<br />

دوسری بدیسی آوازیں اور عربی کا تبادلی نظام<br />

٢٨- پ کی متبادل عربی آوازیں<br />

٢٩- گ کی متبادل عربی آوازیں<br />

٣٠- چ کی متبادل عربی آوازیں<br />

-٣١<br />

-٣٣<br />

-٣٢<br />

مہاجر اور عربی کی متبادل آوازیں<br />

بھاری آوازیں اور عربی کے لسانی مسائل<br />

-٣٤<br />

-٣٥<br />

-٣٧<br />

-٣٦<br />

-٣٨<br />

-٣٩<br />

چند انگریزی اور عربی کے مترادفات<br />

پنجابی اور عربی کا لسانی رشتہ<br />

چند انگریزی اور عربی مشترک آوازیں<br />

انٹرنیٹ پر عربی میں اظہار خیال کا مسلہ<br />

عربی کے پاکستانی زبانوں پراثرات<br />

عربی اور عہد جدید کے لسانی تقاضے<br />

-٤٠<br />

-٤١<br />

فارسی کے پاکستانی زبانوں پراثرات<br />

پشتو کی چار مخصوص آوازیں<br />

آتے کل کو کرہء ارض کی کون سی زبان ہو گی<br />

-٤٢<br />

انگریزی دنیا کی بہترین زبان نہیں


-٤٣<br />

-٤٤<br />

-٤٥<br />

انگریزی اور اس کے حدود<br />

انگریزی آج اور آتا کل<br />

تبدیلیاں زبانوں کے لیے وٹامنز کا درجہ رکھتی ہیں<br />

-٤٦<br />

-٤٧<br />

-٤٨<br />

زبانیں ضرورت اور حالت کی ایجاد ہیں<br />

معاون عناصر کے پیش نظر مزید حروف کی تشکیل<br />

برصغیر میں بدیسیوں کی آمد اور ان کے زبانوں پر<br />

اثرات<br />

-٤٩<br />

کچھ دیسی زبانوں میں آوازوں کا تبادل<br />

-٥٠<br />

-٥١<br />

-٥٣<br />

-٥٢<br />

جاپانی میں مخاطب کرنا<br />

جاپانی اور برصغیر کی لسانی ممثالتیں<br />

اختر حسین جعفری کی زبان کا لسانی جائزہ<br />

لسانیات کے متعلق کچھ سوال و جواب<br />

انگریزی مضامین کی دستیاب فہرست<br />

1- Urdu has a strong expressing power<br />

and a sounds system


2- Word is to silence instrument of<br />

expression<br />

3- This is the endless truth<br />

4- The words will not remain the same<br />

style<br />

5- Language experts can produce new<br />

letters<br />

6- Sound sheen is very commen in the<br />

world languages<br />

7- Native speakers are not feel problem<br />

8- Languages are by the man and for the<br />

man<br />

9- The language is a strong element of<br />

pride for the people<br />

10- Why to learn Urdu under any<br />

language of the world<br />

11- Word is nothing without a sentence


12- No language remain in one state<br />

13- Expression is much important one<br />

than designates that correct or wrong<br />

writing<br />

14- Student must be has left liberations<br />

in order to express his ideas<br />

15- Six qualifications are required for a<br />

language<br />

17- Sevevn Senses importence in the life<br />

of a language<br />

18- Whats bad or wrong with it?!<br />

19- No language remains in one state<br />

20. The common compound souds of<br />

language<br />

21- The identitical sounds used in Urdu<br />

22- Some compound sounds in Urdu<br />

23- Compound sounds in Urdu (2)<br />

24- The idiomatic association of urdu


and english<br />

25- The exchange of sounds in some<br />

vernacular languages<br />

26- The effects of persian on modern<br />

sindhi<br />

27- The similar rules of making plurals in<br />

indigious and<br />

foreign languages<br />

28- The common compounds of<br />

indigious and foreign<br />

languages<br />

29- The trend of droping or adding<br />

sounds<br />

30- The languages are in fact the result<br />

of sounds<br />

31- Urdu and Japanese sound’s<br />

similirties<br />

32- Other languages have a natural link<br />

with Japanese’s


sounds<br />

33- Man does not live in his own land<br />

34- A person is related to the whole<br />

universe<br />

35- Where ever a person<br />

36- Linguistic set up is provided by<br />

poetry<br />

37- How to resolve problems of native<br />

and second language<br />

38- A student must be instigated to do<br />

something himself<br />

39- Languages never die till its two<br />

speakers<br />

40- A language and society don’t delovp<br />

in days<br />

41- Poet can not keep himself aloof from<br />

the universe<br />

42- The words not remain in the same<br />

style


43- Hindustani can be suggested as<br />

man's comunicational language<br />

44- Nothing new has been added in the<br />

alphabets<br />

45- A language teacher can makea lot for<br />

the human society<br />

46- A language teacher would have to be<br />

aware<br />

47- Hiden sounds of alphabet are not in<br />

the books<br />

48- The children are large importence<br />

and sensative resource of the sounds<br />

49- The search of new sounds is not<br />

dificult matter<br />

50- The strange thought makes an<br />

odinary to special one<br />

51- For the relevation of expression man<br />

collects the words from the different<br />

caltivations


52- Eevery language sound has has then<br />

two prononciations<br />

53- Language and living beings<br />

http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?<br />

id=51084<br />

مقصود حسنی کی شاعری۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک جائزہ<br />

محبوب عالم ‏--۔۔ قصور<br />

پروفیسر مقصود حسنی ملکی اور بین الاقوامی سطح پر<br />

اپنی الگ سے شناخت رکھتے ہیں۔ تخلیقی میدان میں ان کی<br />

شخصیت کثیرالجہتی ہے۔ یہ ہی صورت تحقیق و تنقید کے<br />

میدان کی ہے۔ نثر ہی نہیں‘‏ شاعری کے میدان میں بھی<br />

نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے طالب علمی کے<br />

ابتدائی دنوں میں ہی شعر کہنا شروع کر دیے۔ ان کی<br />

١٩٦٥ کی شاعری دستیاب ہوئی ہے۔ اس وقت وہ جماعت<br />

ہشتم کے طالب علم تھے۔ بطور نمونہ ابتدائی دور کے چند<br />

‏:شعر ملحظہ کریں


پھوٹا ناسور بن کرزخم جگر<br />

سزا ملی مجھے گناہ کئے بغیر<br />

١٩٦٥ مئی ٢٥<br />

آس کے دیپ جلنے نکلو<br />

جاگ کر اب جگانے نکلو<br />

١٩٦٦ اپریل ٢٩<br />

٣<br />

زخم کھا کر جو زخم کھانے کی رکھے ہوش<br />

انداز اس کے تڑپنے پھڑکنے کا ذرا دیکھ<br />

١٩٦٧ فروری<br />

ہر صدف کی قسمت میں گوہر کہاں<br />

ہزار پرند میں‘‏ اک شہباز ہوتا ہے<br />

١٩٦٨ جون ٢٧


عریاں پڑی ہے لش حیا بے گور وکفن<br />

لوگ لیتے ہیں گل‘‏ گلستاں رہے نہ رہے<br />

١٩٦٩ اکتوبر ٢٥<br />

٥<br />

مولں کو ہو گی جنت سے محبت زاہد<br />

بار ہا گزریں گے دشت پرخار سے ہم<br />

١٩٧٠ مارچ<br />

:١٩٧٠ میں لکھی گئی یہ نظم بھی بطور نمونہ ملحظہ ہو<br />

مجھے اب<br />

میں اپنی تلش میں تھا<br />

گلب سے انگارے نکلے<br />

خوشبو سے شرارے اٹھے<br />

‏‘میرا چہرا


کوئی لے گیا<br />

چوڑیاں مجھے دے گیا<br />

چوڑیوں کی کھنک میں<br />

مجھے اب<br />

بےچہرہ جیون<br />

جینا ہے<br />

اس نمونہء کلم سے ان کے فکری اور تخلیقی سفر کا<br />

اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے ہاں مجازی عشق و محبت<br />

شجر منوعہ سے لگتے ہیں۔ پروفیسر مقصود حسنی کے<br />

والد سید غلم حضور پنجابی صوفی شاعر تھے۔ ان کے<br />

دادا سید علی احمد پنجابی اردو اور فارسی کے شاعر تھے۔<br />

یہ سلسلہ اس سے پیچھے تک جاتا ہے۔ پروفیسر موصوف<br />

کے پاس اپنے دادا کا کلم مخطوطوں کی شکل میں موجود<br />

ہے۔ گویا یہ شوق انہیں وراثت میں مل ہے۔ وہ اردو کے<br />

علوہ انگریزی پنجابی اور پوٹھوہاری میں بھی کہتے رہے<br />

ہیں۔<br />

ان کے کلم میں ردعملی کی سی صورت ہر سطح پر غالب


رہتی ہے۔ چلتے چلتے ناصحانہ اور صوفیانہ ٹچ ضرور دے<br />

جاتے ہیں۔ ان کے کلم میں سیکڑوں مغربی مشرقی اسلمی<br />

اور ہندی تلمیحات پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ہر تلمیح کا بڑا<br />

برمحل استعمال ہوا ہے۔ یہ تلمیحات بین الاقومی تناطر میں<br />

استعمال ہوئی ہیں۔ پروفیسر علی حسن چوہان ان کی مغربی<br />

تلمیحات پر بھرپور تحقیقی مقالہ بھی تحریر کر چکے ہیں۔<br />

١٩٩٣<br />

میں ڈاکٹر صادق جنجوعہ نے بہ عنوان۔۔۔۔۔۔ مقصود<br />

حسنی کی شاعری‘‏ تنقیدی مطالعہ۔۔۔۔۔۔ شائع کی۔ مقصود<br />

حسنی کی شاعری پر مشتمل تین کتب منصہءشہود پر آ<br />

چکی ہیں۔<br />

سپنے اگلے پہر کے نثری ہائیکو<br />

اوٹ سے نثری نظمیں یہ مجموعہ دو بار شائع ہوا۔<br />

سورج کو روک لو نثری غزلیں<br />

کاجل ابھی پھیل نہیں اشاعت کے مراحل میں ہے۔<br />

اس کے علوہ بھی ان کا کلم رسائل میں شائع ہوتا رہا<br />

ہے۔ ان کا بہت سارا کلم انٹرنیٹ کی مختلف ویب سائیٹس<br />

پر پڑھنے کو ملتا ہے۔ آمنہ رانی ان کی نظموں کو ڈازائین<br />

کر رہی ہیں۔ جو ان کی شاعری کی پذیرائی میں خوب<br />

صورت اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے۔<br />

مقصود حسنی کی شاعری کے مختلف زبانوں میں تراجم


بھی ہوئے۔<br />

پروفیسر امجد علی شاکر نے۔۔۔۔۔۔ اوٹ سے۔۔۔۔۔۔۔ کی نظموں<br />

کو پنجابی روپ دیا۔<br />

بلدیو مرزا نے ان کے ہائیکو کا انگریزی میں ترجمہ کیا‘‏<br />

جو سکائی لرک میں شائع ہوا۔<br />

نصرا صابر مرحوم نے ان کے ہائیکو کا پنجابی میں<br />

ترجمہ کیا۔<br />

مہر کاچیلوی مرحوم نے ان کے ہائیکو کا سندھی میں<br />

ترجمہ کیا۔<br />

ڈاکٹر اسلم ثاقب مالیر کوٹلہ‘‏ بھارت نے ان کے ہائیکو کا<br />

گرمکھی میں ترجمہ کیا۔<br />

عالمی رنگ ادب کراچی نے پورا مجموعہ ۔۔۔۔۔۔۔ سپنے اگلے<br />

پہر کے۔۔۔۔۔۔۔ کو شاعر علی شاعر کے مضمون کے ساتھ<br />

شائع کیا۔<br />

پروفیسر نیامت علی نے ان کی انگریزی شاعری پر ایم فل<br />

سطح کا مقالہ تحریر کیا۔<br />

اردو ادب کے جن ناقدین نے ان کی شاعری کو خراج<br />

تحسین پیش کیا‘‏ اس کی میسر تفصیل کچھ یوں ہے


ڈااکٹر آغا سہیل<br />

آآفتاب احمد مشق ایم فل اردو<br />

ڈاکٹر ابو سعید نور الدین<br />

احمد ریاض نسیم<br />

ڈاکٹر اسلم ثاقب<br />

اسلم طاہر<br />

ڈاکٹر احمد رفیع ندیم<br />

احمد ندیم قاسمی<br />

ڈاکٹر اختر شمار<br />

ڈاکٹر اسعد گیلنی<br />

اسماعیل اعجاز<br />

اشرف پال<br />

اطہر ناسک<br />

اکبر کاظمی<br />

پروفیسر اکرام ہوشیار پوری


ایاز قیصر<br />

ڈاکٹر بیدل حیدری<br />

پروفیسر تاج پیامی<br />

تنویر عباسی<br />

جمشید مسرور<br />

ڈاکٹر ہومیو ریاض انجم<br />

خواجہ غضنفر ندیم<br />

ڈاکٹر فرمان فتح پوری<br />

ڈاکٹر صابر آفاقی<br />

ڈاکٹر صادق جنجوعہ<br />

صفدر حسین برق<br />

ضیغم رضوی<br />

طفیل ابن گل<br />

ڈاکٹر ظہور احمد چودھری<br />

عباس تابش<br />

ڈاکٹر عبدا قاضی


علی اکبر گیلنی<br />

پروفیسر علی حسن چوہان<br />

ڈاکٹر عطاالرحمن<br />

فیصل فارانی<br />

کفیل احمد<br />

ڈاکٹر گوہر نوشاہی<br />

ڈاکٹر مبارک احمد<br />

محبوب عالم<br />

مشیر کاظمی<br />

ڈاکٹر محمد امین<br />

پرفیسر محمد رضا مدنی<br />

مہر افروز کاٹھیاواڑی<br />

مہر کاچیلوی<br />

ڈاکٹر منیرالدین احمد<br />

پروفیسر نیامت علی<br />

ندیم شعیب


ڈاکٹر وزیر آغا<br />

ڈاکٹر وفا راشدی<br />

ڈاکٹر وقار احمد رضوی<br />

وی بی جی<br />

یوسف عالمگیرین<br />

پروفیسر یونس حسن<br />

ان ناقدین نے متوازن انداز میں حسنی کی شاعری پر اظہار<br />

خیال کیا ہے۔ ان حضرات گرامی کےعلوہ محمد اسلم طاہر<br />

نے مقصود حسنی کی شخضیت ادبی خدمات کے عنوان<br />

سے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایم فل کا مقلہ<br />

تحریر کیا جس میں ان کی شاعری کے متعلق باب موجود<br />

ہے۔ راقم کے ایم فل کے مقالہ۔۔۔۔۔۔ قصور کی علمی و ادبی<br />

روایت۔۔۔۔۔۔ میں حسنی کی شاعری پر رائے موجود ہے۔ ۔<br />

‏:ان کی شاعری پر چند اہل قلم کی آراء ملحظہ ہوں<br />

جناب محترم ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب<br />

آپ کا یہ کلم پڑھن کے نال ہی دماغ کے بوہے پہ جینویں<br />

کسی نے آکر دستک دینڑ کے بجائے کسھن ماریا ‏،وجا جا<br />

کے ٹھا کرکے بڑا ای سواد آیا ، کیا ای بات ہے ہماری


طرف سے ایس سوہنی تے من موہنی تحریر سے فیض یاب<br />

فرمانڑ کے واسطے چوہلیاں پرھ پرھ داد پیش ہےگی<br />

تواڈا چاہنے وال<br />

اسماعیل اعجاز<br />

1<br />

‏:ڈاکٹر بیدل حیدری کا کہنا ہے<br />

مقصود حسنی کی نثری غزلیں موضوع کے اعتبار سے<br />

کتنی اچھوتی ہیں‘‏ لہجے کی کاٹ اور طنز کی گہرائی کا کیا<br />

معیار ہے‘‏ قاری کیا محسوس کرتا ہے‘‏ استعارے اور<br />

علمتیں کتنے خوب صورت انداز میں آئی ہیں۔ مستقبل میں<br />

اتنی فرصت کسے ہو گی کہ فرسودہ طویل غزلوں اور<br />

نظموں کو پڑھے۔ اگلی صدی تو مقصود حسنی جیسے<br />

مختصر اور پراثر شعر گو کی صدی ہے۔<br />

........................<br />

ڈاکٹر عطاءالرحمن بھی اسی مجموعے پر یوں رقم طراز<br />

‏:ہیں<br />

ان کی سبھی نظمیں خوب صورت ہیں جن کے بھنور میں<br />

کھو کر انسان اپنے اردگرد کے ماحول سے بےخبر ہو جاتا<br />

ہے لیکن قتل‘‏ ہم کب آزاد ہیں‘‏ آسمان نکھر گیا ہے‘‏ میں


نے دیکھا۔۔۔۔ خوب ترین نظمیں ہیں جن میں انسانی<br />

درندگی‘فرعونیت‘‏ ظلم و جبر‘‏ استبدادیت‘‏ بےبسی و<br />

بچارگی‘‏ آہیں اور سسکیاں غرض اک آتش فشاں پنہاں ہے<br />

جو اگر پھٹتا ہے تو اس کا لوا راہ میں مزاحم ہر شے کو<br />

جل کر خاکستر کر ڈالتا ہے۔<br />

.............................<br />

ڈاکٹر فرمان فتح پوری۔۔۔۔اوٹ سے۔۔۔۔ پراپنی رائے کچھ یوں<br />

‏:دیتے ہیں<br />

یوں تو اس مجموعے کی ساری نظمیں خوب نہیں‘‏ خوب تر<br />

ہیں لیکن ۔۔۔۔ وہ لفظ کہاں اور کدھر ہے‘‏ سورج دوزخی ہو<br />

گیا تھا‘‏ فیکٹری کا دھواں‘‏ ہم کب آزاد ہیں‘‏ کی بات ہی کچھ<br />

اور ہے۔ کاش یہ نظمیں باشعور قارئین تک پہنچیں اور ان<br />

میں دہکتے ہوئے خواب شرمندہءتعبیر ہوں۔<br />

.............................<br />

واہ...‏ ڈاکٹر صاحب ! آپ نے ہمارے معاشرے کے اس<br />

نوحے کو بہت عمدگی سے بیان کیا ہے<br />

باپ کی بے حسی اور<br />

جنسی تسکین کا بین


بہت کم الفاظ میں آپ نے اشارہ دیا ہے کہ قصور صرف<br />

معاشرے یا اربابL اختیار کا نہیں ہے بلکہ اس جرم میں وہ<br />

لوگ بھی برابر کے شریک ہیں جو اپنے وسائل کو دیکھے<br />

بنأ ہی اپنی نفسانی خواہشات کا گھوڑا سرپٹ سرپٹ دوڑائے<br />

چلے جاتے ہیں اور ساتھ میں اپنی ‏(مذہبی)‏ جاہلیت کی وجہ<br />

سے بچوں کی ایک قطار کھڑی کر دیتے ہیں-‏ 2<br />

فیصل فارانی<br />

.................................<br />

جناب مقصود حسنی صاحب سلم مسنون<br />

واہ واہ بہت خوب چبھتی ہوئی نظم ہے۔ آپ نے چہرہ کو<br />

گرد سے صاف کرنے کو کہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ<br />

ہمارا چہرہ اتنا مسخ ہو چکا ہے کہ اس کو صاف کرنے کی<br />

نہیں بلکہ ایک بڑے اپریشن کی ضرورت ہے کہ جس سے<br />

وہ چہرہ نکھرے جو کہ ہمارا اصلی اور بے مثالی چہرہ<br />

سامنے ائے۔ 3<br />

طالب دعا<br />

کفیل احمد


......................................<br />

محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب!‏ اسلم علیکم<br />

اپ کی نظموں پر اج پہلی بار نظر پڑی۔ ہم نے اLنھیں بہت<br />

ہی فLکر انگیز اور ولولہ انگیز پایا۔ یہ نظم ہمیں بہت پسند<br />

ائی ہے۔ اگرچہ ہم اپ کے عLلم کے مقابلے میں شائید اLسے<br />

ان معنوں تک سمجھ نہ پائے ہوں۔ جہاں تک ہم سمجھے<br />

ہیں اپ اLس میں اLنسان سے مخاطL ب ہیں اور کہہ رہے ہیں<br />

کہ اLنسان صرف قدرت کی عطا کی ہوئی چیزوں سے کچھ<br />

حاصل کرتا ہے۔ اگر اLس سے سب کچھ چھین لیا جائے تو<br />

اLنسان کے اپنے پاس کچھ بھی نہیں،‏ فقط مٹی کا ڈھیر ہے۔<br />

اLنسان کو قدرت کی تراشی چیزیں بہت کچھ دیتی ہیں،‏ لیکن<br />

اLنسان اLن مخلوقات کو کچھ نہیں دے سکتا۔ البتہ جبرائیل<br />

والی بات ہم سمجھ نہیں سکے ہیں اور اپنی کم عLلمی پر<br />

نادم ہیں۔<br />

اگر ہم سمجھنے میں کلی یا جزوی طور پر غلط ہوں تو<br />

مہربانی فرما کر اLس ناچیز کی بات پر خفا نہ ہوئیے گا۔<br />

ہمارا عLلم و ادراک فقط اLتنا ہی ہے،‏ جL س پر ہم مجبور ہیں<br />

اور شرمسار بھی۔ 4


طالبL دعا<br />

وی بی جی<br />

درج بال آرء کے تناظر میں برمل کہا جا سکتا ہے کہ<br />

پروفیسر مقصود حسنی کی شاعری ناصرف اپنا الگ سے<br />

مقام رکھتی ہے بلکہ اپنے عہد کے سماجی‘‏ معاشی اور<br />

سیاسی حالت کی منہ بولتی گواہی کا درجہ رکھتی ہے۔<br />

صوفی مزاج ہونے کے سبب ایک مثالی معاشرت کی ہر<br />

موڑ پر خواہش نمایاں نظر آتی ہے۔<br />

http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?<br />

id=50246<br />

حضرت بلھے شاہ قصوری کی اردو شاعری<br />

محبوب عالم<br />

قصور جہاں اپنی قدامت اور مخصوص ثقافت کے حوالہ


سے اپنی پہچان رکھتا ہے وہاں اپنی الگ سے تاریخی<br />

حثیت بھی رکھتا ہے۔ شہزادہ کسو‘‏ امیر خسرو‘‏ اخوند<br />

سعید‘‏ راجہ ٹوڈر‘‏ مل شہزادہ سلیم عرف شیخو وغیرہ کی<br />

اس شہر سے نسبت رہی ہے۔ استاد امانت علی اور نور<br />

جہاں کو کیوں کر فراموش کیا جا سکے گا۔ کھانے کے<br />

شوقین حضرات کے لیے اندرسے‘‏ قصوری میتھی‘‏ فالودہ<br />

خاص دل چسپی کا سامان ہیں۔ لو قصوری جتی کو تو میں<br />

بھول ہی رہا تھا۔<br />

ان تمام چیزوں سے ہٹ کر‘‏ وراث شاہ اور بلھے شاہ تو<br />

ادبی دنیا میں کسی بھی سطح پر فراموش نہیں کیے جا<br />

سکتے۔ ان ادبی شخصیتوں سے تحقیقی حوالہ سے وابستہ<br />

لوگ بھی کبھی فراموش نہ کیے جا سکیں گے۔ قصور کی<br />

ادب روایت کم زور نہیں یہ الگ بات ہے کہ اس جانب کسی<br />

کی خصوصی توجہ نہیں گئی۔ ایک سے ایک بڑھ کر علمی<br />

اور ادبی شخصیات پڑی ہیں۔<br />

قصور حضرت بلھے شاہ قصوری کی وجہ سے دنیا بھر<br />

میں شہرت رکھتا ہے۔ صوفیا اور بھی ہیں لیکن حضرت<br />

بلھے شاہ قصوری اپنے صوفیانہ کلم کی وجہ سے<br />

معروف ہیں۔ انھوں نے اپنے کلم میں جہاں صوفیانہ


معاملت کو پیش کیا ہے وہاں سماجی امور کو بھی<br />

نظرانداز نہیں کیا۔ سماجی رویوں کی بھی عکاسی کی ہے۔<br />

عصری سیاسی قوتوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا<br />

کلم علمتوں استعاروں کے ذریعے ہی سہی اپنے عہد کی<br />

عکاسی کرتا ہے۔ بعض جگہ کھل کر بھی تنقید کرتے ہیں۔<br />

غالبا یہی وجہ رہی ہو گی کہ ان کے عہد کے مخصوص<br />

طبقے ان سے نالں تھے۔<br />

حضرت شاہ حسین لہوری نے پنجابی شاعری میں کافی کو<br />

متعارف کرایا اور اسے عروج دیا۔ ان کی کافیاں راگ پر<br />

لکھی گئیں۔ ہر کافی کسی نہ کسی راگ پر ہے۔ حضرت شاہ<br />

حسین لہوری نے کافی کو جو مقام بخشا اسے حضرت<br />

بلھے شاہ قصوری شہرت کی بلندیوں پر لے گیے۔ ان کی<br />

کافیاں راگ کے علوہ مروجہ میٹر پر ہیں۔ ان میں غنائیت<br />

کا عنصر بدرجہ اتم موجود ہے۔ حضرت بلھے شاہ قصوری<br />

کی کافیوں کو ملک کے ممتاز گلوکاروں نے گا کر شہرت<br />

اور عزت حاصل کی۔ عابدہ پروین‘‏ حامد علی بیل‘‏ نصرت<br />

فتح علی خاں‘‏ پٹھانے خاں وغیرہ ان میں شامل ہیں۔ یہاں<br />

تک کہ بھارتی گلوکاروں نے بھی ان کی کافیوں کو شوق<br />

اور عقیدت سے گایا ہے۔ بعض بول تو عوامی سطح پر<br />

محاورے کا درجہ اختیار کر گیے ہیں۔


ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے بڑی محنت‘‏ لگن اور دیانت داری<br />

سے ان کا کلم اکھٹا کیا اور اسے کلیات کی شکل دے کر<br />

زبان و ادب پر بہت بڑا احسان کیا۔ بلشبہ ان کی کوشش<br />

عوامی سطح پر مقبولیت کے درجے پر فائز ہوئی۔ اسے آج<br />

بھی اساسی ماخذ کا درجہ حاصل ہے۔ باباجی مقصود حسنی<br />

کے خصوصی مطالعہ میں حضرت بلھے شاہ قصوری رہے<br />

ہیں۔ انھوں نے اپنے مقالہ۔۔۔۔۔بلھے شاہ کی شاعری کا<br />

لسانی مطالعہ۔۔۔۔ میں ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے مرتب کردہ<br />

کلیات کو ہی اساسی ماخذ کے طور پر استعمال کیا ہے۔<br />

باباجی مقصود حسنی نے اس لسانیاتی مطالعے سے یہ بات<br />

واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ پنجابی کلم میں حضرت<br />

بلھے شاہ قصوری کے اردو کلم کو بھی شامل کر دیا گیا<br />

ہے۔ ان کے اس مطالعے سے حافظ شیرانی کے نظریے۔۔۔۔<br />

پنجاب میں اردو۔۔۔۔ کو تقویت ملتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ<br />

باباجی مقصود حسنی اس نظریے سے قطعی متفق نہیں۔<br />

اردو کے حوالہ سے ان کا اپنا الگ سے نقطہءنظر ہے۔<br />

انھوں نے ۔۔۔۔۔اردو ہے جس کا نام۔۔۔۔۔ میں اپنا نظریہ پیش<br />

کر دیا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے حضرت بلھے شاہ<br />

قصوری کے کلم میں اردو شاعری کی نشاندہی کی تھی۔


باباجی مقصود حسنی نے اسے عملی شکل دے کر اردو<br />

والوں کو خوشخبری کا سندیسہ دیا ہے۔<br />

انھوں نے اپنے اس لسانیاتی مطالعہ میں اس کی پانچ<br />

صورتیں بتائی ہیں۔<br />

-١<br />

-٢<br />

مکمل اردو کلم<br />

پنجابی کلم میں اردو کلم کی آمیزش<br />

-٣<br />

-٤<br />

ہندی نما اردو کلم<br />

پنجابی کلم میں اردو مصرعے<br />

-٥<br />

ا اردو نما پنجابی کلم<br />

ب مکمل پنجابی کلم<br />

ڈاکٹر ریاض شاہد نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں<br />

باباجی کے مقالے کو بنیادی ماخذ کے طور پر استعمال کیا<br />

ہے اور ان کے موقف کو دہرایا ہے۔<br />

باباجی نے اپنے اس تحقیقی کام کو بڑی باریک بینی سے<br />

انجام دیا ہے۔ سارے کلم کو الگ الگ جزیات میں تقسیم<br />

کرکے دیکھنا واقعی بڑے دل گردے اور محنت کا کام ہے۔


ان کی اس محنت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا تاہم اس<br />

تحقیقی کاوش کو اس کا جائز مقام حاصل نہیں ہو سکا۔<br />

شاید اس کی وجہ بھی ہے کہ وہ اشتہاربازی نہیں کرتے۔<br />

ایک کام کی تکمیل کے بعد کسی دوسرے کام میں جھٹ<br />

جاتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد امین کا کہنا ہے<br />

یہ پہلی کتاب ہے جس میں کسی کا باقاعدہ ساجتیاتی مطالعہ<br />

کیا گیا ہے۔<br />

اردو شعر فکری و لسانی رویے ص:‏ ١١٥<br />

-١<br />

انھوں نے اپنے اس مطالعے کو سات حصوں میں تقسیم کیا<br />

ہے<br />

مذکر اسما کے خاتمے کی آواز<br />

اردو میں جمع بنانے کے اصول<br />

فعلی صورتیں<br />

حاصل مصدر بنانے کے اصول<br />

فعلی مادوں کے مختلف اصول<br />

یو اور ئیو کا لحقہ چند مخصوص مرکبات<br />

ضمائر کا استعمال<br />

اسم صفت ٢-


-٣<br />

-٤<br />

حروف<br />

حروف عطف‘‏ حروف اضافت‘‏ حرف استفہام‘‏ حرف استثنی‘‏<br />

حرف شرط‘‏ حروف جار‘‏ حروف تردید<br />

آوازوں کا ہیر پھیر<br />

نوں غنہ کا حشوی استعمال<br />

نوں غنہ کا حذف<br />

قدیم اردو امل<br />

تلمیحات<br />

لفظوں کے نئے روپ<br />

چند اردو مصادر<br />

قدیم اردو پر مقامی زبانوں کی چھاپ<br />

-٥<br />

تجزیاتی مطالعہ<br />

-٦<br />

-٧<br />

چند الفاظ<br />

اردو کلم<br />

جو کتاب میں شامل نہیں‘‏ باباجی کے پاس مسودے کی<br />

صورت میں موجود ہے۔


باباجی نے اپنے موقف کی تائید میں اردو جدید و قدیم کلم<br />

سے مثالیں پیش کی ہیں ساتھ حضرت بلھے شاہ قصوری<br />

کے کلم سے بھی مثالیں دی ہیں۔ اس طرح ثابت کرنے کی<br />

کوشش کی ہے کہ پنجابی کلم میں اردو کلم بھی شامل<br />

ہے۔<br />

انھوں نے اس مطالعے کے لیے بائیس کتب سے استفادہ<br />

کیا ہے۔<br />

http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?<br />

id=51304<br />

بلھے شاہ کا مور۔۔۔۔۔۔۔ ایک ادبی تعارف<br />

مرتبہ:‏ محبوب عالم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قصور<br />

پروفیسر مقصود حسنی اردو ادب کا وہ دمکتا آفتاب ہے


جس کی ضیا پاشیاں حدود میں نہیں آ سکتیں۔ ان کی ادبی<br />

کرنوں کی تحسین نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ ہر صنف ادب کا یہ<br />

سیاح اپنے سفر نامے کی ہر چھوٹی بڑی کہانی لکھتا چل آ<br />

رہا ہے۔ یہ ان کی بلجواز مداح سرائی نہیں بلکہ روز<br />

روشن کی طرح عیاں حقیقت بیان کرنے کی ادنی سی<br />

کوشش ہے۔ ادب کا شاید ہی کوئی گوشہ ہو گا جہاں انھوں<br />

نے طبع آزمائی نہ کی ہو گی۔ انہوں نے تو کینسر اور<br />

ڈینگی جیسے امراض پر بھی تحقیقی کام کیا ہے۔ اس<br />

سلسلے میں اردو نیٹ جاپان اور سکربڈ ڈاٹ کام پر ان کا<br />

مواد موجود ہے۔ وہ ایسے آل راؤنڈر کی حیثیت اختیار کر<br />

گیے ہیں جو کسی بھی صنف کے ماتھے کا جھومر ہو<br />

سکتے ہیں۔ ان کی زندگی کے سالوں کو دنوں میں تبدیل کر<br />

دیا جائے تو کوئی دن بل ادبی خدمت نہیں نکلے گا۔ گویا وہ<br />

ہمہ وقت اور ہمہ جہت ادبی شخصیت ہیں۔<br />

پروفیسر مقصود حسنی کی ادبی خدمات پر ملکی و غیر<br />

ملکی مداحوں نے انہیں متعدد ادبی خطابات سے نوازا ہے۔<br />

اس تحریر کا عنوان بھی بین الاقومی شہرت کے مالک<br />

پروفیسر ڈاکٹر تبسم کاشمیری کے عطا کیے گیے خطاب<br />

سے لیا گیا ہے۔ پیش نظر سطور میں ان کا مختصر مختصر<br />

ادبی تعارف پیش کیا گیا ہے۔ احباب کو میری ادنی سی


کوشش ضرور پسند آئے گی۔<br />

بنیادی کوائف<br />

نام:‏ مقصود صفدر علی<br />

معروف:‏ مقصود حسنی<br />

ولدیت:‏ سید غلم حضور<br />

‏:گھر کا پتا<br />

شیر ربانی کالونی‘‏ قصور‘‏ پاکستان<br />

maqsood5@mail2world.com ‏:ای پوسٹ<br />

maqsood_hasni@yahoo.com<br />

تعلیم<br />

ایم اے:‏ ارو‘‏ سیاسیات‘‏ معاشیات‘‏ تاریخ<br />

ایم فل‘‏ اردو<br />

ڈاکٹریٹ‘‏ لسانیات


پوسٹ ڈاکٹریٹ‘‏ لسانیات<br />

تجربہ<br />

تدریس اردو ادب‎٣٠‎ سال<br />

تخلیق ادب:‏<br />

تحقیق ادب:‏<br />

٤٠ سال<br />

٣٤ سال<br />

انتظامی:‏ ٠٥ سال<br />

خدمات<br />

برانچ سپرنٹنڈنٹ ایم آئی ٹی برانچ‘‏ زون اے‘‏ پنجاب<br />

ممبر بورڑ آف سٹیڈی پنجاب یونیورسٹی لہور<br />

تجزیہ نگار خاکہ پی ایچ ڈی‘‏ پنجاب یونیورسٹی<br />

وائس پرنسپل<br />

ریٹائرڈ:‏ ایسوسی ایٹ پروفیسراردو زبان و ادب<br />

ادارہ فراغت ملزمت:‏ گورنمنٹ اسلمیہ کالج‘‏ قصور<br />

ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ‘‏ حکومت پنجاب‘‏ پاکستان<br />

ادبی خدمات


٢٢<br />

کتب مطبوعہ<br />

سیکڑوں مضامین مختلف ادبی رسائل و جرائد میں شائع<br />

ہوئے۔<br />

سیکڑوں مضامین اور کئی کتب انٹرنیٹ پر موجود ہیں‘‏<br />

جنھیں کسی بھی ریسرج انجن کے حوالہ سے<br />

ملحظہ کیا جا سکتا ہے۔<br />

ایوارڈز<br />

ستارہ صد سالہ جشن ولدت قائد اعظم‘‏ حکومت پاکتان<br />

بیدل حیدری ایوارڑ‘‏ کاروان ادب ملتان<br />

مسٹر اردو‘‏ فورم پاکستان<br />

بابائے گوشہءمصنفین‘‏ فرینڈز کارنر<br />

ادبی میدان<br />

لسانیات<br />

تحقیق<br />

تنقید


افسانہ<br />

مزاح<br />

شاعری<br />

سماجیات<br />

تاریخ<br />

ترجمہ<br />

میڈیکل<br />

اقبالیات<br />

غالبیات<br />

تعلیم<br />

صحافت<br />

تخلیق و تخلیق پر ہونے والے تحقیقی کام کی تفصیل<br />

پرفیسر نیامت علی‘‏ انگریزی شاعری پر ایم فل سطع کا<br />

تحقیقی کام کر چکے ہیں۔<br />

ڈاکٹر ارشد شاہد‘‏ پنجابی شاعری پر‘‏ ایم فل سطع کا تحقیقی


کام کر چکے ہیں<br />

اسلم طاہر‘‏ ‏‘مقصود حسنی-‏ شخصیت اور ادبی خدمات‘‏ کے<br />

عنوان سے‘‏ ایم فل سطع کا تحقیق مقالہ تحریر کرکے‘‏<br />

بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی‘‏ ملتان سے ڈگری حاصل کر<br />

چکے ہیں۔<br />

پروفیسر محمد لطیف‘‏ ‏‘مقصود حسنی کی غالب شناسی-‏<br />

تحقیقی و تنقیدی و مطالعہ‘‏ موضوع پر ایم فل سطع کا<br />

علمہ اقبال اوپن یونیورسٹی‘‏ اسلم آباد سےتحقیقی کام کر<br />

رہے ہیں۔<br />

رانا جنید‘‏ ایف سی کالج سے‘‏ ان کے افسانوں پر‘‏ بی اے<br />

آنرز سطع کا‘‏ تحقیقی کام کرنے میں مصروف ہیں۔<br />

ڈاکٹر ریاض شاہد نے‘‏ اپنے پی ایچ ڈی سطع کے تحقیقی<br />

مقالے میں‘‏ کتاب ‘ اردو شعر-‏ فکری و لسانی زاویے‘‏ کو<br />

بطور بنیادی ماخذ استعمال کیا۔<br />

علمہ بیدل حیدری‘‏ پر ہونے والے ایم فل سطع کے کام<br />

میں‘‏ بنیادی حوالہ سے تذکرہ کیا گیا ہے۔<br />

محبوب عام‘‏ زیب النسا اور زبیدہ بیگم کے ایم فل سطع کے<br />

مقالہ جات میں‘‏ غالب حصہ موجود ہے۔ پی ایچ ڈی اور ایم<br />

فل سطح کی اسائنمنٹس بھی ہوتی رہی ہیں۔


مختلف سطع کی ڈگری کے تحقیقی کام میں‘‏ تحقیق کاروں<br />

کے کام میں تعاون کر چکے ہیں‘‏ جس کا اظہار‘‏ وہ اپنے<br />

تحیقیقی مقالوں میں کر چکے ہیں۔ دستیاب تفصیل کچھ یوں<br />

ہے۔<br />

سید اختر عباس<br />

مقالہ ایم ایڈ میں تعاون کیا<br />

ڈاکٹر ارشد شاہد<br />

مقالہ پی ایچ ڈی میں تعاون کیا<br />

پروفیسر شرافت علی<br />

مقالہ ایم فل میں تعاون کیا<br />

پروفیسر طلعت رشید<br />

مقالہ ایم فل میں تعاون کیا<br />

ڈاکٹر عطاءالرحمن<br />

مقالہ ایم فل میں تعاون کیا<br />

پروفیسر یونس حسن<br />

مقالہ ایم فل میں تعاون کیا


ڈاکٹر صادق جنجوعہ نے‘‏ ١٩٩٣ میں‘‏ ‏‘مقصود حسنی کی<br />

شاعری کا تنقیدی جائزہ‘‏ کے عنوان سے‘‏ کتاب تحریر کی۔<br />

ڈاکٹر ریاض انجم نے‘‏ ‏‘مسٹر اردو-‏ اسرا زیست اور ادبی<br />

خدمات‘‏ کے عنوان سے مقالہ تحریر کیا‘‏ جو روزنامہ<br />

معاشرت‘‏ لہور میں‘‏ پچاس قسطوں میں شائع ہوا۔<br />

عالمی رنگ ادب نے‘‏ پورے مجموعے سپنے اگلے پہر<br />

کے‘‏ کو ٢٠١٣ میں شائع کیا۔<br />

پروفیسر یونس حسن نے‘‏ ٣٠ سے زیادہ تحقیقی مقالے<br />

تحریر کئے‘‏ جو مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے<br />

ہیں۔<br />

پروفیسر محمد رفیق ساگر نے‘‏ تیس کے قریب مضامین<br />

تحریر کئے‘‏ جو ابھی غیر مطبوعہ ہیں۔<br />

پی ایچ ڈی اور ایم فل سطح کی اسائنمنٹس بھی ہوتی رہی<br />

ہیں۔<br />

درج ذیل اہل قلم نے مضامین لکھے یا اپنی آراء دیں۔<br />

ڈاکٹر ابو سعید نور الدین‘‏ ڈاکٹر اختر شمار‘‏ ڈاکٹر اسلم<br />

ثاقب‘‏ ڈاکٹر اسعد گیلنی‘‏ ڈاکٹر انور سدید ڈاکٹر انعام الحق


جاوید‘‏ ڈاکٹر انعام الحق کوثر‘‏ ڈاکٹر اختر علی میرٹھی‘‏<br />

ڈاکٹر اختر سندھو‘‏ پروفیسر اکرام ہوشیارپوری‘‏ پروفیسر<br />

امجد علی شاکر‘‏ پروفیسر اطہر ناسک‘‏ پروفیسر انور جمال‘‏<br />

اکبر حمیدی‘‏ اقبال سحر انبالوی ‘ ادیب سہیل‘‏ انیس شاہ<br />

جیلنی‘‏ اکبر کاظمی‘‏ اعظم یاد‘‏ اسماعیل اعجاز‘‏ اشرف پال‘‏<br />

ڈاکٹر بیدل حیدری‘‏ بہرام طارق‘‏ ڈا کٹر تبسم کاشمیری‘‏ تاج<br />

پیامی‘‏ تنویر بخاری‘‏ ثناءالحق حقی‘‏ ڈاکٹر جمیل جالبی‘‏<br />

جمشید مسرور‘پروفیسر حسین سحر‘‏ حسن عسکری<br />

کاظمی‘‏ پروفیسر حفیظ صدیقی‘‏ ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی‘‏<br />

ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی‘‏ ڈاکٹر ذوالفقار دانش‘‏ ڈاکٹر<br />

ذوالفقار علی رانا‘‏ پروفیسر رب نواز مائل‘‏ رانا سلطان<br />

محمود‘‏ ڈاکٹر سعادت سعید‘‏ سرور عالم راز‘‏ میاں سعید بدر‘‏<br />

سید اختر علی‘‏ شاہد حنائی‘‏ ڈاکٹر صابر آفاقی‘‏ ڈاکٹر صادق<br />

جنجوعہ‘‏ ڈاکٹر ظہور احمد چوہدری‘‏ ڈاکٹر عبدالقوی ضیا‘‏<br />

ڈاکٹر عطاالرحمن‘‏ ڈاکٹر عبدالعزیز سحر‘‏ عباس تابش‘‏<br />

عبدالقوی دسنوی‘‏ پروفیسر عقیل حیدری‘‏ علی دیپک<br />

قزلباس‘‏ علی اکبر گیلنی‘‏ ڈاکٹر غلم شبیر رانا‘‏ ڈاکٹر<br />

فرمان فتح پوری‘‏ فہیم اعظمی‘‏ قیصر تمکین‘‏ ڈاکٹر قاسم<br />

دہلوی‘‏ پروفیسر کلیم ضیا‘‏ کوکب مظہر خاں‘‏ ڈاکٹر گوہر<br />

نوشاہی‘‏ ڈاکٹر مظفرعباس‘‏ ڈاکٹر محمد امین‘‏ ڈاکٹر مبارک<br />

علی‘‏ ڈاکٹر سید معین الرحمن‘‏ ڈاکثر منیر الدین احمد‘‏ ڈاکٹر<br />

محمد ریاض انجم‘‏ پروفیسر محمد رضا مدنی‘‏ مشفق


خواجہ‘‏ مشیر کاظمی‘‏ مسرور احمد زائی‘‏ محمود احمد<br />

مودی‘‏ مہر کاچیلوی‘‏ مسعود اعجاز بخاری‘‏ ڈاکٹر نجیب<br />

جمال‘‏ ڈاکٹر نثار قریشی‘‏ ڈاکٹر نوریہ بلیک‘‏ نیر زیدی‘‏<br />

ناصر زیدی‘‏ ندیم شعیب‘‏ ڈاکٹر وفا راشدی‘‏ ڈاکٹر وقار احمد<br />

رضوی‘‏ وصی مظہر ندوی‘‏ ولیت حسین حیدری‘‏ پروفیسر<br />

یونس حسن‘‏ وغیرہ وغیرہ<br />

سے کلم دستیاب ہوتا ہے۔ شاعری پر بہت سے لوگوں نے<br />

اظہار خیال کیا۔ جند ایک کے نام درج ہیں۔ ١٩٦٥<br />

ڈااکٹر آغا سہیل<br />

آفتاب احمد<br />

ڈاکٹر ابو سعید نور الدین<br />

احمد ریاض نسیم<br />

ڈاکٹر اسلم ثاقب<br />

اسلم طاہر<br />

ڈاکٹر احمد رفیع ندیم<br />

احمد ندیم قاسمی<br />

ڈاکٹر اختر شمار<br />

ڈاکٹر اسعد گیلنی


اسماعیل اعجاز<br />

اشرف پال<br />

اطہر ناسک<br />

اکبر کاظمی<br />

پروفیسر اکرام ہوشیار پوری<br />

ایاز قیصر<br />

ڈاکٹر بیدل حیدری<br />

پروفیسر تاج پیامی<br />

تنویر عباسی<br />

جمشید مسرور<br />

ڈاکٹر ریاض انجم<br />

سرور عالم راز<br />

خواجہ غضنفر ندیم<br />

ڈاکٹر فرمان فتح پوری<br />

ڈاکٹر صابر آفاقی<br />

ڈاکٹر صادق جنجوعہ


صفدر حسین برق<br />

ضیغم رضوی<br />

طفیل ابن گل<br />

ڈاکٹر ظہور احمد چودھری<br />

عباس تابش<br />

ڈاکٹر عبدا قاضی<br />

علی اکبر گیلنی<br />

پروفیسر علی حسن چوہان<br />

ڈاکٹر عطالرحمن<br />

فیصل فارانی<br />

ڈاکٹر گوہر نوشاہی<br />

ڈاکٹر مبارک احمد<br />

محبوب عالم<br />

مشیر کاظمی<br />

ڈاکٹر محمد امین<br />

پرفیسر محمد رضا مدنی


مہر افروز کاٹھیاواڑی<br />

مہر کاچیلوی<br />

ڈاکٹر منیرالدین احمد<br />

پروفیسر نیامت علی<br />

ندیم شعیب<br />

ڈاکٹر وزیر آغا<br />

ڈاکٹر وفا راشدی<br />

ڈاکٹر وقار احمد رضوی<br />

وی بی جی<br />

یوسف عالمگیرین<br />

پروفیسر یونس حسن<br />

اردو شاعری سے تراجم کرنے والے محترم حضرات<br />

انگریزی<br />

بلدیو مرزا<br />

پنجابی


پروفیسر امجد علی شاکر<br />

نصرا صابر<br />

پشتو<br />

علی دیپک قزلباش<br />

سندھی مہر کاچیلوی<br />

شاعری ڈازائین کی<br />

آمنہ رانی<br />

رباعیات خیام کے سہ مصرعی ترجمے کو بڑی پذیرائی<br />

‏-حاصل ہوئی نامور اہل قلم نے اپنی رائے کا اظہار کیا<br />

مثل<br />

ڈاکٹر عبدالقوی ضیا کینیڈا<br />

ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی<br />

ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی<br />

ڈاکٹر ابوسعید نورالدین‘‏ ڈھاکہ‘‏ بنگلہ دیش<br />

ڈاکٹراسلم ثاقب‘‏ مالیر کوٹلہ‘‏ بھارت


ڈاکٹر اختر علی<br />

ڈاکٹر وفا راشدی<br />

ڈاکٹر صابر آفاقی<br />

ڈاکٹر منیرالدین احمد‘‏ جرمنی<br />

پروفیسر کلیم ضیا‘‏ بمبئی‘‏ انڈیا<br />

پرفیسر رب نواز مائل<br />

پروفیسراکرام ہوشیار پوری<br />

پروفیسرامجد علی شاکر<br />

پروفیسر حسین سحر<br />

ڈاکٹر عطاالرحمن<br />

ڈاکٹر رشید امجد<br />

ڈاکٹر محمد امین<br />

علی دیپک قزلباش<br />

سید نذیر حسین فاضل<br />

حرفی ایوارڈز


آل عمران<br />

بہت زبردست آدمی<br />

ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری<br />

اہل نظر<br />

ڈاکٹر محمد امین<br />

خلق ذہن‘‏ فعال شخصیت‘‏ جدت پسند<br />

ڈاکٹر انور سدید<br />

اردو کے مایہءناز ادیب<br />

انیس شاہ جیلنی<br />

کمال بزرگ


ڈاکٹر ایلن جان<br />

ہائی لی موٹی وئیٹڈ<br />

ایم ارشد خالد<br />

بڑے کام کا آدمی<br />

پرفیسر اکرام ہوشیارپوری<br />

بیدار مغز ادیب وشاعر<br />

بدر انج میاں<br />

بڑا لکھاری<br />

ثقلین احمد<br />

عطر فروش<br />

ڈاکٹر تبسم کاشمیری


گودڑی کا لعل‘‏ بلھے کا مور<br />

جی کے تاج<br />

نرم دل انسان<br />

ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی<br />

ہمہ جہت ادیب'‏ تحقیق پسند<br />

ڈاکٹر ذوالفقار دانش<br />

ہمہ جہت شخصیت<br />

رانا سلطان محمود<br />

عظیم قومی سرمایہ<br />

پروفیسر رمضانہ برکت<br />

چلتا پھرتا انسکلوپیڈیا


ریسا کیسٹل<br />

مین وڈ ویزڈم<br />

رینجنا ڈس<br />

سویث پرسن<br />

ڈاکٹر سعادت سعید<br />

‏‘استادالساتذہ<br />

اردو کی ترویج و ترقی میں ڈاکٹر سید عبدا کے بعد کا<br />

شخص<br />

شاہ سوار علی ناصر<br />

گامو سوچیار<br />

سوی عباس<br />

گریٹ مین


ڈاکٹر صفدر حسین برق<br />

شعر کی دنیا میں<br />

ایک شخص<br />

پیغمبر نکل<br />

ڈاکٹر صابر آفاقی<br />

معروف محققوں میں‘‏ سرفہرست<br />

ضیغم رضوی<br />

روایت شکن<br />

ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر<br />

فرد فرید<br />

ڈاکٹر عبداالقوی ضیا علیگ


شخصیت میں مقصدیت اور معروضیت<br />

پروفیسر علی حسن چوہان<br />

اپنی ذات میں ایک انجمن<br />

ڈاکٹر غلم شبر رانا<br />

عظیم داشور‘‏ ہمالہ کی سر بہ فلک چوٹی<br />

ڈاکٹر کرنل غلم فرید بھٹی<br />

باصلحیت ساتھی<br />

غلم مصطفے بسمل<br />

بلند پایہ حقائق نگار<br />

کالمنگ میلوڈی<br />

فراخ طبیعت اور مزاج‘‏ فراخ دل


کرشنا دیو<br />

ہمیشہ الگ سے سوچنے وال<br />

ڈاکٹر گوہر نوشاہی<br />

باشعور تخلیق کار<br />

پروفیسر محمد رضا مدنی<br />

بگ گن<br />

ڈاکٹر مظفر عباس<br />

ہمہ جہت شخصیت‘‏ ہمہ جہت تخلیق کار<br />

مثل سر سید<br />

معراج جامی سید<br />

فعال اور متحرک شخصیت


ڈاکٹر معین الرحمن‘‏ سید<br />

معنی یاب اور محنتی متن شناس<br />

ڈاکٹر مقصود الہی شیخ<br />

بڑے ملپڑے<br />

نابغہءروزگارشخصیت<br />

ناصر زیدی<br />

قابل ذکر شخصیت‘‏ ہمہ جہت اہل قلم<br />

ڈاکٹر نجیب جمال<br />

نایاب شخص ' آزمودہ کار محقق و نقاد<br />

ڈاکٹر نوریہ بلیک<br />

شفیق اور مہربان انسان


پروفیسر نیامت علی<br />

لوجک اور ریسرچ سے روایت شکنی کرنے وال<br />

واہیو سورنو<br />

ویری گڈ لیڈر<br />

ڈاکٹر وقار احمد رضوی<br />

ادیب شہیر<br />

ڈاکٹر وفا راشدی<br />

محنتی حرف کار‘‏ دائروں سے باہر کا شخص<br />

پروفیسر یاسمین تبسم<br />

عدیم المثال شخصیت<br />

وغیرہ وغیرہ<br />

http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?


id=51215<br />

فرہنگ غالب ایک نادر مخطوطہ<br />

‏(,پروفیسر یونس حسن (<br />

ڈاکٹر مقصود حسنی عصر حاضر کے ایک نامور غالب<br />

شناس ہیں۔ غالب کی لسانیات پر ان کی متعدد کتابیں چھپ<br />

چکی ہیں۔ جناب لطیف اشعر ان پر اس حوالہ سے ایم فل<br />

سطح کا تحقیقی مقالہ بھی رقم کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر مقصود<br />

حسنی نے لفظیات غالب کے تہذیبی‘‏ تمدنی‘‏ اصطلحی‘‏<br />

ساختیاتی اور لسانیاتی پہلووں پر نہایت جامع اور وقع کام<br />

کیا ہے۔ ان کا کام اپنی نوعیت کا منفرد اور جداگانہ کام ہے۔<br />

ابھی تک غالب کی لسانیات پر تحقیقی کام دیکھنے میں<br />

نہیں آیا۔ ان کے کام کی انفرادیت اس حوالے سے بھی ہے<br />

کہ آج تک غالب کی تشریحات کے حوالہ سے ہی کام ہوا<br />

ہے جبکہ غالب کی لسانیات پر ابھی تک کسی نے کام نہیں<br />

کیا۔<br />

لسانیات غالب پر ان کا ایک نادر مخطوطہ۔۔۔۔فرہنگ غالب۔۔۔۔<br />

بھی ہے۔ یہ مخطوطہ فرہنگ سے زیادہ لغات غالب ہے۔ اس


مخطوطے کے حوالہ سے لفظات غالب کی تفہیم میں شارح<br />

کو کئی نئے گوشے ملتے ہیں اور وہ تفہیم میں زیادہ<br />

آسانی محسوس کر سکتا ہے۔ غالب کے ہاں الفظ کا<br />

استعمال روایت سے قطعی ہٹ کر ہوا ہے۔ روایتی اور<br />

مستعمل مفاہیم میں اشعار غالب کی تفہیم ممکن ہی نہیں۔<br />

ڈاکٹر صاحب نے یہ لغات بھی عجب ڈھنگ سے ترتیب دی<br />

ہے۔ لفظ کو عہد غالب سے پہلے‘‏ عہد غالب اور عہد غالب<br />

کے بعد تک دیکھا ہے۔ ان کے نزدیک غالب شاعر فردا<br />

ہے۔ لفظ کے مفاہیم اردو اصناف شعر میں بھی تلش کیے<br />

گیے ہیں۔ یہاں تک کہ جدید صنف شعر ہائیکو اور فلمی<br />

شاعری کو بھی نظرانداز نہیں کیا گیا۔ امکانی معنی بھی<br />

درج کر دیے گیے ہیں۔<br />

اس مخطوطے کے مطالعہ سے ڈاکٹر مقصود حسنی کی<br />

لفظوں کے باب میں گہری کھوج اور تلش کا پتا جلتا ہے۔<br />

اس تلش کے سفر میں ان کی ریاضت‘‏ مغز ماری‘‏ لگن اور<br />

سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے لفظ کی تفہیم کے<br />

لیے‘‏ اردو کی تمام شعری اصناف کو کھنگال ڈال ہے۔ ایک<br />

ایک لفظ کے درجنوں اسناد کے ساتھ معنی پڑھنے کو<br />

ملتے ہیں۔ ماضی سے تادم تحریر شعرا کے کلم سے<br />

استفادہ کیا گیا ہے۔ گویا لفظ کے مفاہیم کی گرہیں کھلتی


چلی جاتی ہیں۔<br />

اس نادر مخطوطے کا سرسری جائزہ بھی اس جانب توجہ<br />

مبذول کراتا ہے کہ غالب کو محض سطعی انداز سے نہ<br />

دیکھیں۔ اس کے کلم کی تفہیم سرسری مطالعے سے ہاتھ<br />

آنے کی نہیں۔ اسے سمجھنے کے لیے سنجیدہ غوروفکر<br />

کرنا پڑتا ہے۔ پروفیسر حسنی کی یہ کاوش فکر و تلش<br />

اسی امر کی عملی دلیل ہے۔ انہوں غالب کے قاری کے لیے<br />

آسانیاں پیدا کرنے کے لیے اپنی سی جو کوششیں کی ہیں<br />

وہ بلشبہ لیق تحسین ہیں۔<br />

ماضی میں غالب پر بڑا کام ہوا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ وہ<br />

آج بھی ادبی حلقوں میں تشریح طلب مصرعے کا درجہ<br />

رکھتا ہے۔ تشنگی کی کیفیت میں ہرچند اضافہ ہی ہوا ہے۔<br />

اس صورت حال کے تحت بڑے وثوق سے کہا جا سکتا ہے<br />

کہ غالب مستقبل قریب و بعید میں اپنی ضرورت اور اہمیت<br />

نہیں کھوئے گا یا اس پر ہونے والے کام کو حتمی قرار<br />

نہیں دے دیا جائے گا۔ جہاں تفہیم غالب کی ضرورت باقی<br />

رہے گی وہاں ڈاکٹر مقصود حسنی کی فرہنگ غالب کو<br />

بنیادی ماخذ کا درجہ بھی حاصل رہے گا۔ اسے تفہیم غالب<br />

کی ذیل میں نظر انداز کرنے سے ادھورہ پن محسوس کیا


جاتا رہے گا۔<br />

اس مخطوطے کی اشاعت کی جانب توجہ دینا غالب فہمی<br />

کے لیے ازبس ضروری محسوس ہوتا ہے۔ جب تک یہ<br />

مخطوطہ چھپ کر منظر عام پر نہیں آ جاتا غالب شناسی<br />

تشنگی کا شکار رہے گی۔ لوگوں تک اس میں موجود<br />

گوشوں کا پہنچنا غالب شناسی کا تقاضا ہے کیونکہ جب<br />

تک یہ نادر مخطوطہ چھپ کر سامنے نہیں آ جاتا اس کی<br />

اہمیت اور ضرورت کا اندازہ نہیں ہو سکے گا۔ یہ بھی کہ<br />

غالب کے حوالہ سے پروفیسر حسنی کی لسانی بصیرت کا<br />

اندازہ نہیں ہو سکے گا۔ وہ گویا لسانیات غالب پر کام کرنے<br />

والوں میں نقش اول کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ لغت آ سے<br />

شروع ہو کر لفظ یگانہ کی معنوی تفہیم تک جاتی ہے۔<br />

ڈاکٹر مقصود حسنی بطور ایک اسلمی مفکر اور اسکالر<br />

مرتبہ:‏ پروفیسر یونس حسن


ڈاکٹر مقصود حسنی بلشبہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے<br />

مالک ہیں۔ وہ مختلف ادبی سائنسی سماجی صحافتی وغیرہ<br />

فیلڈز میں اپنے قلم کا جوہر دکھلتے چلے آ رہے ہیں۔ ان<br />

کے دوجنوں مقالے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہو<br />

چکے ہیں۔ بیس سے زائد کتب بھی منظر عام پر آ چکی<br />

ہیں۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ ان کا تخلیقی اور تحقیقی<br />

سفر نت نئی منزلوں کی جانب رواں دواں رہا ہے۔ ان کے<br />

اس سفر میں ہر سطح پر تنوع اور رنگا رنگی کی صورت<br />

نطر آتی ہے۔ ڈاکٹر اختر شمار انہیں ادبی جن کہتے ہیں۔<br />

راقم نے حال ہی میں ان کے اسلم سے متعلق کچھ<br />

مضامین کا سراغ لگایا ہے۔ یہ مختلف اخبارات میں شائع ہو<br />

چکے ہیں۔ یہ کل کتنے ہوں گے ٹھیک سے کہہ نہیں سکتا<br />

تاہم ستر کا میں کھوج لگا سکا۔<br />

ان مضامین کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ<br />

ڈاکٹر صاحب کا اسلم کے بارے مطالعہ سرسری اور عام<br />

نوعیت کا نہیں۔ انہوں نے اپنے مضامین میں انسان اور<br />

عصر حاضر کے مسائل کو موضوع گفتگو بنایا ہے۔ ان کے<br />

موضوعات ان کی گہری تلش اور سنجیدہ غور و فکر کا<br />

مظہر ہیں۔ وہ روایت سے ہٹ کر کفتگو کرتے ہیں۔ انہوں<br />

نے فلسیفانہ موشلفیوں کو چھوڑ کر نہایت سادہ اور


دلنشین انداز میں اپنی بات قاری تک پہنچائی ہے۔ اسلم کا<br />

موڈریٹ اور روشن چہرا دکھایا ہے۔ انہوں نے ہر قسم کے<br />

تعصبات تنگ نظری اور رجعت پسندی کی نفی کرتے ہوئے<br />

حقیقت اور انسانیت سے محبت کے پہلو کو اجاگر کیا ہے۔<br />

ان کے نزدیک ہر انسان قابل قدر ہے اور اسے معاشی<br />

سماجی عزت اور انصاف مہیا ہونا چاہیے۔ اسلم کے گوناں<br />

گوں موضوعات اور پہلووں پر لکھے ہوئے مضامین میں<br />

رواداری ایثار اور قربانی کا پیغام ملتا ہے۔ ان کے نزدیک<br />

انسان کو دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کیے تخلیق<br />

کیا گیا ہے۔ اسے ان کی مشکلت مصائب اور المیوں کے<br />

تدارک کے لیے اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ ان کے نزدیک<br />

اختلف رائے پرداشت کرنے کا مادہ پیدا کرنا چاہیے۔ دلیل<br />

سے بات کرنے کی طرح ڈالنا ہی آج کی ضرورت ہے۔<br />

اسلم کے گونا گوں موضوعات پر ڈاکٹر مقصود حسنی کے<br />

مضامین اور کالم اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ وہ صرف<br />

اردو ادب کی یگانہء روزگار شخصیت نہیں ہیں بلکہ<br />

اسلمی امور کے بھی ایک اہم اسکالر ہیں۔ ان کی شخصیت<br />

کا یہ شیڈ اور زاویہ شاید ان کے بہت سے پڑھنے والوں پر<br />

وا نہ ہوا ہو گا۔ راقم نے بصد کوشش ستر مضامین کا کھوج


لگایا ہے۔ ہو سکتا ہے میری یہ کوشش کسی کے کام کی<br />

نکلے۔ ان مضامین کے تناظر میں ان کی اسلمی سوچ کی<br />

ندرت اوراپج انہیں سمجھنے میں اپنا کردار ادا کر سکتی<br />

ہے۔ ان کا یہ اسلوب روانی دلکشی اور مخصوص رعنائی<br />

رکھتا ہے۔ ذیل میں ان کے مضامین کی فہرست قارئین کی<br />

نذر کی جاتی ہے۔<br />

-١<br />

-٢<br />

تعبیر شریعت‘‏ قومی اسمبلی اور مخصوص صلحیتیں<br />

روزنامہ مشرق لہور<br />

٢٠ دسمبر ١٩٨٦<br />

شریعت عین دین نہیں‘‏ جزو دین ہے روزنامہ مشرق<br />

لہور<br />

٥ جنوری ١٩٨٧<br />

-٣<br />

اسلم کا نظریہء قومیت اور جی ایم سید کا موقف<br />

روزنامہ مشرق لہور<br />

١٥ فروری ١٩٨٧<br />

-٤<br />

غیر اسلمی قوتیں اور وفاق اسلم کی ضرورت روزنامہ<br />

مشرق لہور<br />

٢٩ اپریل ١٩٨٧<br />

-٥<br />

غیر اسلمی قوانین اور وفاق اسلم روزنامہ مشرق<br />

لہور<br />

٢٨ اپریل ١٩٨٧<br />

-٦<br />

اسلم ایک مکمل ضابطہءحیات روزنامہ وفاق لہور<br />

جنوری<br />

٧<br />

١٩٨٨


-٧<br />

اسلم مسائل و معاملت کے حل کے لیے اجتہاد کے در<br />

وا کرتا ہے<br />

روزنامہ مشرق لہور<br />

٧ جنوری ١٩٨٨<br />

-٨<br />

اسلم سیاست اور جمہوریت روز نامہ جنگ لہور<br />

جنوری<br />

٢٦<br />

١٩٨٨٨ -<br />

-٩<br />

اسلم میں سپر پاور کا تصور روزنامہ مشرق لہور<br />

فروری<br />

٥<br />

١٩٨٨<br />

-١٠<br />

پاکستان اور غلبہءاسلم دو اقساط ہفت روزہ الصلح<br />

لہور<br />

١٩ فروری ١٩٨٨<br />

‘١٢<br />

-١١<br />

-١٢<br />

مسلمانوں کی نجات اسلم میں ہے ہفت روزہ الصلح<br />

لہور ٢٢ فروری ١٩٨٨<br />

انسان کی ذمہ داری خیر و نیکی کی طرف بلنا اور<br />

برائی سے منع کرنا ہے<br />

روزنامہ مشرق لہور<br />

‎٢٢‎فروری<br />

١٩٨٨<br />

-١٣<br />

خداوند عالم‘‏ انسان دوست حلقے اور انسانی خون<br />

روزنامہ مشرق لہور<br />

٧ مارچ ١٩٨٨<br />

-١٤<br />

-١٥<br />

اسلمی دنیا اور قران و سننت روزنامہ مشرق لہور<br />

٢٦ مارچ ١٩٨٨<br />

جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی


روزنامہ مشرق لہور ٢٩ مارچ<br />

١٩٨٨<br />

-١٦<br />

ربط ملت میں علمائے امت کا کردار ہفت روزہ<br />

الصلح لہور<br />

١٥ اپریل ١٩٨٨<br />

-١٧<br />

غلبہءاسلم کے لیے متحد اور یک جا ہونے کی<br />

ضرورت روزنامہ مشرق لہور‎٣٠‎ اپریل<br />

١٩٨٨<br />

-١٨<br />

اسلم کا پارلیمانی نظام رائے پر استوار ہوتا ہے<br />

روزنامہ مشرق لہور<br />

٧ مئی ١٩٨٨<br />

-١٩<br />

-٢٠<br />

نفاذ اسلم اور عصری جمہوریت کے حیلے روزنامہ<br />

نوائے وقت لہور ١٤ مئی ١٩٨٨<br />

اسلم انسان اور تقاضے ہفت روزہ الصح لہور<br />

مئی<br />

٢٧<br />

١٩٨٨<br />

-٢١<br />

-٢٢<br />

-٢٣<br />

بنگلہ دیش میں اسلم یا سیکولرازم روزنامہ مشرق<br />

لہور ‎١‎جون ١٩٨٨<br />

بنگلہ دیش میں اسلم۔۔۔۔۔اسلمی تاریخ کی درخشاں<br />

مثال روزنامہ مشرق لہور ٢٠ جون ١٩٨٨<br />

اسلم کا نظریہءقومیت اور اسلمی دنیا روزنامہ امروز<br />

لہور<br />

٢٠ جون ١٩٨٨<br />

-٢٤<br />

اسلم کا نظریہءقومیت روزنامہ مشرق لہور<br />

جولئی<br />

١٥<br />

١٩٨٨


-٢٥<br />

ہماری نجات اتحاد اور لہو سے مشروط ہے روزنامہ<br />

مشرق لہور<br />

٣٠ اگست ١٩٨٨<br />

-٢٦<br />

-٢٧<br />

-٢٨<br />

-٢٩<br />

اسلم اور کفر کا اتحاد ممکن نہیں روزنامہ وفاق لہور<br />

٣٠ اگست ١٩٨٨<br />

انسان زمین پر خدا کا خلیفہ ہے روزنامہ امروز لہور<br />

٣٠ اگست ١٩٨٨<br />

جمہوریت اشتراکیت اور اسلم روزنامہ مشرق لہور<br />

٣٠ اگست ١٩٨٨<br />

حضور کا پیغام ہے برائی کو طاقت سے روک دو<br />

روزنامہ مشرق لہور<br />

٣١ اگست ١٩٨٨<br />

-٣٠<br />

امت مسلمہ رنگ و نسل‘‏ علقہ زبان اور نظریات کے<br />

حصار میں مقید ہے<br />

روزنامہ مشرق لہور<br />

٣١ اگست ١٩٨٨<br />

-٣١<br />

آزاد مملکت میں اسلمی نقطہءنظر اور آزادی روزنامہ<br />

وفاق لہور<br />

٥ ستمبر ١٩٨٨<br />

-٣٢<br />

اسلمی دنیا سے ایک سوال روز نامہ وفاق لہور<br />

ستمبر<br />

٥<br />

١٩٨٨<br />

-٣٣<br />

پاکستان میں نفاذاسلم کا عمل روزنامہ وفاق لہور<br />

اکتوبر<br />

٢<br />

١٩٨٨


-٣٤<br />

اسلم میں عورت کا مقام روزنامہ وفاق لہور<br />

اکتوبر<br />

٢٥<br />

١٩٨٨<br />

-٣٥<br />

-٣٦<br />

-٣٧<br />

انسانی فلح اسلم کےبغیر ممکن نہیں روزنامہ وفاق<br />

لہور ٢٨ اکتوبر ١٩٨٨<br />

اسلم کی پیروی کا دعوی تو ہے مگر!‏ روزنامہ آفتاب<br />

لہور ٢٨ اکتوبر ١٩٨٨<br />

پاکستان میں نفاذ اسلم کیوں نہیں ہو سکا روزنامہ<br />

وفاق لہور<br />

٣١ اکتوبر ١٩٨٨<br />

-٣٨<br />

نفاذ اسلم میں تاخیر کیوں روزنامہ آفتاب لہور<br />

نومبر<br />

٨<br />

١٩٨٨<br />

-٣٩<br />

اسلمی دنیا کے قلعہ میں داڑاڑیں کیوں ہفت روزہ<br />

جہاں نما لہور<br />

١٠ نومبر ١٩٨٨<br />

-٤٠<br />

اعتدال اور توازن کا رستہ عین اسلم ہے روزنامہ<br />

مشرق لہور<br />

٢٠ نومبر ١٩٨٨<br />

-٤٢<br />

-٤١<br />

اسلم کا نظام سیاست و حکومت روزنامہ مشرق لہور<br />

٢٢ نومبر ١٩٨٨<br />

شناخت‘‏ اسلمائزیشن کا پہل زینہ روزنامہ مشرق<br />

لہور<br />

٣٠ نومبر ١٩٨٨<br />

-٤٣<br />

اسلم کے داعی طبقے کی شکست کیوں روزنامہ


مساوات لہور ٥ دسمبر<br />

١٩٨٨<br />

-٤٤<br />

کیا اسلم ایک قدیم مذہب ہے روزنامہ وفاق لہور<br />

جنوری<br />

١٠<br />

١٩٨٩<br />

-٤٥<br />

ملت اسلمیہ کی عظمت رفتہ روزنامہ وفاق لہور<br />

فروری<br />

٢<br />

١٩٨٩<br />

-٤٦<br />

اسلم اور عصری جمہوریت چار اقساط روزنامہ وفاق<br />

لہور<br />

فروری‘‏<br />

٣ مارچ‘‏ ٢٨ اگست ١٩٨٩<br />

-٤٧<br />

-٤٨<br />

اہل اسلم کے لیے لمحہءفکریہ روز نامہ وفاق لہور<br />

٨ مارچ ١٩٨٩<br />

اسلم دوست حلقوں کے لیے لمحہءفکریہ روزنامہ<br />

وفاق لہور<br />

١٩ مارچ ١٩٨٩<br />

-٤٩<br />

-٥٠<br />

-٥١<br />

-٥٢<br />

غیر اسلمی دنیا کے خلف جہاد کرنے کی ضرورت<br />

روزنامہ وفاق لہور ١٩ مارچ ١٩٨٩<br />

اسلمی دنیا‘‏ ذلت و خواری کیوں روزنامہ وفاق لہور<br />

٢٢ مئی ١٩٨٩<br />

امور حرامین میں اسلمی دنیا کا کردار ماہنامہ وحدت<br />

اسلمی اسلم آباد محرم ‎١٣١١‎ھ<br />

حج کی اہمیت عظمت اور فضیلت روزنامہ وفاق لہور


جولئی ١٩٨٩<br />

-٥٣<br />

اسلمی مملکت میں سربراہ مملکت کی حیثیت روزنامہ<br />

وفاق لہور<br />

٦ جولئی ١٩٨٩<br />

-٥٤<br />

-٥٥<br />

نفاذ اسلم کی کوششیں روز نامہ وفاق لہور ٣ اگست<br />

١٩٨٩<br />

اسلم عصر جدید کے تقاضے پورا کرتا ہے روزنامہ<br />

مشرق لہور ٤ اگست ١٩٨٩<br />

اسلم اور عصری ے جمہوریت چار اقساط روزنامہ وفاق<br />

لہور<br />

فروری‘‏<br />

٣ مارچ‘‏ ٢٨ اگست ١٩٨٩<br />

-٥٦<br />

مسلم دنیا کی نادانی جوہرقسم کی ارزانی ہفت روزہ<br />

جہاں نما لہور<br />

١٧ ستمبر ١٩٨٩<br />

-٥٧<br />

اسلم میں جہاد کی ضرورت و اہمیت روزنامہ وفاق<br />

لہور<br />

٣٠ ستمبر ١٩٨٩<br />

-٥٨<br />

ورقہ بن نوفل کا قبول روزنامہ وفاق لہور<br />

١٥ اکتوبر<br />

١٩٨٩<br />

-٥٩<br />

اسلم میں جرم و سزا کا تصور روزنامہ مشرق لہور<br />

١٥ اکتوبر ١٩٨٩


-٦٠<br />

پاکستان اسلمی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے<br />

کے لیے حاصل کیا گیا تھا<br />

روزنامہ مشرق لہور<br />

١٥ اکتوبر ١٩٩٠<br />

-٦١<br />

ہم اسلم کے ماننے والے ہیں پیروکار نہیں اردو نیٹ<br />

جاپان<br />

-٦٢<br />

-٦٣<br />

ہم مسلمان کیوں ہیں اردو نیٹ جاپان<br />

مذہب اور حقوق العباد کی اہمیت اردو نیٹ جاپان<br />

-٦٤<br />

-٦٥<br />

آقا کریم کی آمد ورڈز ولیج ڈاٹ کام<br />

ا انسان کی غلمی پسند نہیں کرتا فورم پاکستان ڈاٹ<br />

کام<br />

-٦٦<br />

مسلمان کون ہے سکربڈ ڈاٹ کام<br />

٦٧- سکھ ازم یا ایک صوفی سلسلہ اردو نیٹ جاپان<br />

-٦٨<br />

-٦٩<br />

شرک ایک مہلک اور خطرناک بیماری<br />

اسلمی سزائیں اور اسلمی و غیراسلمی انسان اردو<br />

نیٹ جاپان<br />

-٧٠<br />

پہل آدم کون تھا سکربڈ ڈاٹ کام


مقصود حسنی کے تنقیدی جائزے۔۔۔۔۔ ایک تدوینی مطالعہ<br />

محبوب عالم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قصور<br />

تخلیق‘‏ تنقید اور تحقیق انسانی فطرت کا حصہ ہیں۔ کچھ<br />

لوگ ان سے زیادہ قربت اختیار کرتے ہیں اور اپنی<br />

کاوششوں کو کاغذ پر منتقل کر دیتے ہیں یا انہیں عملی<br />

جامہ پہنا دیتے ہیں۔ ان کے برعکس کچھ لوگ ان<br />

صلحیتوں کا بہت ہی کم استعمال کرتے ہیں تاہم ان سے<br />

کچھ نہ کچھ نادانستہ طور پر ہوتا رہتا ہے۔ جس طرح<br />

سائنسی ایجادات زندگی میں آسودگی یا عدم تحفظ کا سبب<br />

بنتی ہیں‘‏ بالکل اسی طرح ادبی تخلیقات بھی انسانی زندگی<br />

پر اپنے اثرات چھوڑتی ہیں۔ انسانی رویوں‘‏ رجحانات اور<br />

ترجیحات میں تبدیلی لتی ہیں۔ تخلیق ادب کے لیے جہاں<br />

ایک فکر انگیز احساس اور شعور کی ضرورت ہوتی ہے<br />

وہاں اس ادب کی جانچ اور پرکھ کے لیے اس سے قریب<br />

تر تنقیدی شعور بھی ہونا چاہیے۔ ادبی سرمائے کی صحیح<br />

تفہیم کے لیے تنقیدی شعور کا معقول ہونا ضروری ہے۔<br />

تنقید اپنی اصل میں مطالعہ کا سلیقہ سکھاتی ہے۔


پروفیسر مقصود حسنی نے اپنی تمام عمر ادب کی خدمت<br />

کرتے گزاری ہے۔ انہوں نےتقریبا ہر صنف ادب پر عقابی<br />

نظر رکھی ہے۔ تنقید بھی ان کا میدان عشق رہا ہے۔ شرق و<br />

غرب کے اہل قلم کی کاوشوں کو جانچا اور پرکھا ہے۔ ان<br />

کی نہ صرف ادبی حیثیت و اہمیت کا تعین کیا ہے بلکہ اس<br />

کے ممکنہ سماجی اثرات کا بھی اندازہ پیش کیا ہے۔ یہ بھی<br />

کہ وہ کس سماجی رویے یا رجحان کا نتیجہ ہیں‘‏ کا بھی<br />

ذکر کیا ہے۔ ادبی کاوشوں پر ان کا اظہار خیال کسی سطح<br />

پر نظر انداز نہ کیا جا سکے گا۔<br />

باباجی مقصود حسنی کسی ادبی گروپ یا گروہ سے منسلک<br />

نہیں رہے۔ وہ کسی انسلک کے قائل بھی نہیں ہیں۔ انہوں<br />

نے جس تخلیق پر بھی اظہار خیال کیا ہے اپنا بندہ ہے‘‏<br />

سے ہٹ کر کیا ہے۔ انہوں نے وہی لکھا ہے جو نظرآیا ہے<br />

یا جو انہوں نے محسوس کیا ہے۔ وہ ان تخلیقات کے<br />

سماجی معاشی اور نظریاتی حوالوں کو بھی دوران مطالعہ<br />

نظر میں رکھتے ہیں۔ وہ ان عوامل تک اپروچ کی کوشش<br />

کرتے ہیں جو وجہءتخلیق بنے ہوتے ہیں۔


تاریخ سے بھی باباجی شغف رکھتے ہیں‘‏ اس لیے وہ یہ<br />

بھی دیکھتے ہیں کہ زیر مطالعہ کاوش ادبی تاریخ کے کس<br />

مقام و مرتبے پر کھڑی ہے۔ مطالعہ کے دوران تقابلی<br />

صورت کو بھی زیر بحث لتے ہیں۔ ادبی تخلیق کے فکری‘‏<br />

فنی اور لسانی متوازن احاطہ باباجی کے تنقیدی رویوں کا<br />

امتیازی پہلو ہے اور انہیں دوسرے نقادوں سے ممتاز کرتا<br />

ہے۔<br />

باباجی مقصود حسنی کی نظر فن پارے کے تخلیقی تحرک<br />

پر مرتکز رہتی ہے۔ وہ اس کھوج میں رہتے ہیں کہ کون<br />

کون سے عوامل تھے‘‏ جو اس کاوش کی تخلیق کا سبب<br />

بنے۔ وہ اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کرتے کہ اس<br />

تخلیق کے اضافے سے ادب کا چہرا کیسا دکھائی دے گا۔<br />

لسانیات چونکہ ان کی پسند کا میدان ہے‘‏ اس لیے وہ اس<br />

تخلیق کو لسانی حوالہ سے ضرور پرکھتے ہیں اور اس کی<br />

لسانی خوبیوں وغیرہ پر گفتگو کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک<br />

کوئی جملہ چاہے کسی جاہل کے منہ ہی سے کیوں نہ نکل<br />

ہو‘‏ لسانی حوالہ سے بےکار نہیں۔ اس میں کچھ نہ کچھ نیا<br />

ضرور ہوتا ہے۔ کوئی اصطلح میسرآ سکتی ہے جو پہلے<br />

استعمال میں نہیں آئی ہوتی۔ اس کا مقامی اور نیا تلفظ<br />

سامنے آ سکتا ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ وہ اس تخلیق کے


لسانی پہلو پر بھی نظر ڈالتے ہیں۔<br />

ادب کی تنقیدی روایت میں جہاں انہوں نے انفرادی طور پر<br />

ادیبوں کی تخلیقات کو موضوع بنایا ہے وہاں تحقیقی اور<br />

تنقیدی کتب پر بھی احسن انداز میں گفتگو کی ہے۔ نفاست<br />

اور رکھ رکھاؤ کو ان کے مضامین کا طرہءامتیاز قرار دینا<br />

غلط نہ ہو گا۔ میں نے بصد کوشش ان کے پچاس سے زائد<br />

مطبوعہ و غیر مطبوعہ مضامین کو تلش کیا ہے۔ ممکن<br />

ہے ادبی تحیقیق کرنے والوں کے لیے کام کے ثابت ہوں۔<br />

ان مضامین پر تحقیقی کام کرنے کی ضرورت کو بھی<br />

نظرانداز نہیں کیا جا سکےگا۔<br />

-١<br />

بوف کور۔۔۔ایک جائزہ ماہنامہ تفاخر لہور مارچ<br />

١٩٩١<br />

-٣<br />

-٢<br />

اکبر اقبال اور مغربی زاویے ہفت روزہ فروغ حیدرآباد<br />

١٦ جولئی ١٩٩١<br />

اکبر اور تہذیب مغرب۔۔۔۔۔۔روزنامہ وفاق لہور<br />

جولئی<br />

٢٥<br />

١٩٩١<br />

-٤<br />

نذیر احمد کے کرداروں کا تاریخی شعور ماہنامہ صریر<br />

کراچی مئی ١٩٩٢


-٥<br />

-٦<br />

-٧<br />

-٨<br />

-٩<br />

-١٠<br />

کرشن چندر کی کردار نگاری ماہنامہ تحریریں لہور<br />

جون۔جولئی ١٩٩٢<br />

اسلوب‘‏ تنقیدی جائزہ سہ ماہی صحیفہ لہور جولئی تا<br />

ستمبر ١٩٩٢<br />

پطرس بخاری کے قہقہوں کی سرگزشت ماہنامہ تجدید<br />

نو لہور اپریل ١٩٩٣<br />

شیلے اور زاہدہ صدیقی کی نظمیں ماہنامہ تحریریں<br />

لہور دسمبر ١٩٩٣<br />

شوکت الہ آبادی کی نعتیہ شاعری ماہنامہ الانسان<br />

کراچی دسمبر ١٩٩٣<br />

میرے بزرگ میرے ہم عصر‘‏ ایک جائزہ ماہنامہ اردو<br />

ادب اسلم آباد اپریل۔جون<br />

١٩٩٦<br />

-١١<br />

-١٢<br />

-١٣<br />

-١٤<br />

یا عبدالبہا‘‏ تشریحی مطالعہ ماہنامہ نفحات لہور<br />

جولئی ١٩٩٦<br />

ڈاکٹر محمد امین کی ہائیکو نگاری ماہنامہ ادب لطیف<br />

لہور اکتوبر ١٩٩٦<br />

بیدل حیدری اردو غزل کی توانا آواز مشمولہ شعریات<br />

شرق و غرب ١٩٩٦<br />

کثرت نظارہ۔۔۔ایک منفرد سفرنامہ پندرہ روزہ ہزارہ


-١٦<br />

-١٥<br />

ٹائمز ایبٹ آباد یکم جولئی ١٩٩٧<br />

داستان وفا۔۔۔۔ایک مطالعہ ماہنامہ اردو ادب اسلم آباد<br />

نومبر۔ دسمبر ١٩٩٧<br />

شاہی کی کی شاعری کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ<br />

مشمولہ کتاب اردو شعر۔۔۔فکری و لسانی رویے<br />

١٩٩٧<br />

-١٧<br />

-١٨<br />

-١٩<br />

ڈاکٹر بیدل حیدری کی اردو غزل مشمولہ کتاب اردو<br />

شعر۔۔۔فکری و لسانی رویے ١٩٩٧<br />

پروفیسر مائل کی اردو نظم مشمولہ کتاب اردو شعر۔۔۔<br />

فکری و لسانی رویے ١٩٩٧<br />

علمہ مشرقی اور تسخیر کائنات کی فلسفی ہفت روزہ<br />

الصلح لہور<br />

٥ تا ١٨ مئی ١٩٩٨<br />

-٢٠<br />

-٢١<br />

-٢٢<br />

-٢٣<br />

ڈاکٹر منیر احمد کے افسانے اور مغربی طرز حیات<br />

ماہنامہ ادب لطیف لہور جنوری ١٩٩٩<br />

ڈاکٹر منیر احمد کا ایک متحر کردار ماہنامہ لہور<br />

دسمبر ١٩٩٩<br />

حفیظ صدیقی کے دس نعتعہ اشعار ماہنامہ تحریریں<br />

لہور جولئی ١٩٩٩<br />

رئیس امروہوی کی قطعہ نگاری ماہنامہ نوائے پٹھان<br />

لہور جون ٢٠٠٢


-٢٤<br />

-٢٦<br />

-٢٥<br />

-٢٧<br />

-٢٨<br />

-٢٩<br />

-٣٠<br />

-٣١<br />

-٣٢<br />

ڈاکٹر وفا راشدی شخصیت اور ادبی خدمات ماہنامہ<br />

نوائے پٹھان لہور جون ٢٠٠٢<br />

ڈاکٹر معین الرحمن۔۔۔ ایک ہمہ جہت شخصیت۔۔ مشمولہ<br />

نذر معین مرتب محمد سعید ٢٠٠٣<br />

قبلہ سید صاحب کے چند اردو نواز جملے نوائے<br />

پٹھان لہور جولئی ٢٠٠٤<br />

مہر کاچیلوی کے افسانے۔۔۔۔۔تنقدی مطالعہ سہ ماہی<br />

لوح ادب حیدرآباد اپریل تا ستمبر ٢٠٠٤<br />

اردو شاعری کا ایک خوش فکر شاعر ماہنامہ رشحات<br />

لہور جولئی ٢٠٠٥<br />

عابد انصاری احساس کا شاعر ماہنامہ رشحات لہور<br />

مارچ ٢٠٠٦<br />

پروفیسر مائل کی غزل کی فکر اور زبان ماہنامہ<br />

رشحات لہور اگست ٢٠٠٦<br />

دل ہے عشقی تاج کا ایک نقش منفرد کتابی سلسلہ<br />

پہچان نمبر‎٢٤‎<br />

جدید اردو شاعری کے چند محاکاتکر ہماری ویب ڈاٹ<br />

کام<br />

-٣٣<br />

اردو میں منظوم سیرت نگاری اردو نیٹ جاپان


-٣٤<br />

-٣٥<br />

-٣٦<br />

-٣٧<br />

اختر شمار کی اختر شماری کتابت شدہ مسودہ<br />

سرسید اور ڈیپٹی نذیر احمد کی ناول نگاری کتابت<br />

شدہ مسودہ<br />

سرسید اردو۔ معروضی حالت کے نظریے اساس<br />

کتابت شدہ مسودہ<br />

اردو داستان۔۔ تحقیقی و تنقیدی مطالعہ کتابت شدہ<br />

مسودہ<br />

-٣٨<br />

-٣٩<br />

تاریخ اردو۔۔۔ایک جائزہ کتابت شدہ مسودہ<br />

اکبر الہ آبادی تحقیقی وتنقدی مطالعہ کتابت شدہ<br />

مسودہ<br />

٤٠- سروراور فسانہءعجائب ایک جائزہ کتابت شدہ مسودہ<br />

-٤١<br />

-٤٣<br />

کرشن چندرایک تعارف کتابت شدہ مسودہ<br />

٤٢- صادق ہدایت کاایک کردار۔ کتابت شدہ مسودہ<br />

اختر شمار کی شاعری کے فکری زاویے کتابت شدہ<br />

مسودہ<br />

-٤٤<br />

-٤٥<br />

دیوان غاب کے متن مسلہ کتابت شدہ مسودہ<br />

سرسید تحریک اور اکبر کی ناگزیریت کتابت شدہ<br />

مسودہ


-٤٦<br />

ڈاکٹر سعادت سعید کے ناوریجین شاعری سے اردو<br />

تراجم کتابت شدہ مسودہ<br />

٤٧- سوامی رام تیرتھ کی شاعری کا لسانی مطاعہ مسودہ<br />

-٤٨<br />

اور شمع جلتی رہے گی روزنامہ مشرق لہور<br />

ستمبر<br />

١٨<br />

١٩٨٨<br />

-٥٠<br />

-٤٩<br />

-٥١<br />

دو علما کی موت پر لکھا گیا ایک تاثراتی مضمون جو<br />

اسلوبی اعتبار سے بڑا جاندار ہے۔<br />

پیاسا ساگر۔۔۔ گلوکار مکیش کی موت پر لکھا گیا<br />

مضون ہفت روزہ اجال لہور میں شائع ہوا<br />

کرشن چندر‘‏ منفرد ادیب۔۔۔ کرشن چندر کی موت پر<br />

لکھا گیا۔ ہفت روزہ ممتاز لہور<br />

١٨ مئی ١٩٧٧<br />

-٥٢<br />

ڈاکٹر گوہر نوشاہی الدب گوگڈن جوبلی نمبر<br />

ادبی مجلہ گورنمنٹ اسلمیہ کالج قصور<br />

١٩٩٧<br />

-٥٣<br />

٥٤<br />

علمہ طالب جوہری کی مرثیہ نگاری پروفیسر محمد<br />

رضا‘‏ شعبہءاردو گورنمنٹ اسلمیہ کالج سول لئنز لہور<br />

میجک ان ریسرچ اور میری چند معروضات اردوانجمن<br />

ڈاٹ کام<br />

http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?<br />

id=51094


مقصود حسنی اور اردو زبان<br />

) قاضی جرار حسنی)‏<br />

قاضی جرار حسنی<br />

پروفیسر مقصود حسنی کا اردو سے جنم جنم کا پیار ہے۔<br />

اس کی ترویج و ترقی کے لیے زندگی بھر کوشش کی۔<br />

افسانہ‘‏ شاعری‘‏ مزاح‘‏ لسانیات‘‏ تنقید‘‏ تحقیق‘‏ مشرق و<br />

مغرب کے شعر و ادب‘‏ تراجم وغیرہ پر کام تو کیا ہی ہے‘‏<br />

لیکن اس کے نفاذ کے لیے بھی کوششیں کی ہیں۔ اس کے<br />

لیے‘‏ اردو سوسائٹی پاکستان قائم کی‘‏ درخواستیں گزاریں‘‏<br />

علما سے فتوے لیے‘‏ قراردادیں منظور کروائیں‘‏ مقتدرہ<br />

حلقوں سے رابطے کیے‘عدالت دیکھی‘‏ پتا نہیں کیا کچھ<br />

کیا۔<br />

ان تمام باتوں سے ہٹ کر‘‏ اردو کے بارے مضامین تحریر<br />

کیے۔ یہ مضامین جہاں اردو کی تاریخ سے متعلق ہیں‘‏<br />

وہاں اردو کے ابلغی دائرے پر بھی‘‏ روشنی ڈالتے ہیں۔ ان<br />

مضامین میں اردو کے لسانی نظام پر بھی گفتگو کی گئی


ہے۔ ان مضامین میں دیگر زبانوں سے تقابلی صورت بھی<br />

ملتی ہے۔ تقابل میں ابلغ‘‏ آوازوں کا نظام اور اس زبان کی<br />

لچک پذری کو باطورخاص‘‏ زیر بحث لیا گیا ہے۔ ان تینوں<br />

کے تحت اردو کو اس قابل بتایا ہے‘‏ کہ وہ انسانی رابطے<br />

کی زبان‘‏ بننے کی اہلیت رکھتی ہے۔<br />

پروفیسر مقصود حسنی نے‘‏ اس کے تینوں رسم الخط پر<br />

بھی گفتگو کی ہے۔ انہوں نے خواندگی کی صورتوں پر بھی<br />

گفتگو کی ہے۔ دلئل سے ثابت کیا ہے‘‏ کہ اردو اپنے لسانی<br />

نظام اور آوازوں کی کثرت کے حوالہ سے‘‏ دنیا کی بہتریں<br />

زبان ہے۔ اسے استعمال میں آنے کے حوالہ سے‘‏ چینی<br />

کے قریب قریب کی زبان قرار دیا۔<br />

انہوں نے اپنے مضامین میں‘‏ انگریزی کے لسانی نقائص<br />

پر بھی گفتگو کی ہے۔ آوازوں کی کمی اور نقائص کو بھی<br />

صرف نظر نہیں کیا۔ ان کی تحریریں اخبارات و رسائل میں<br />

چھپنے کے علوہ‘‏ انٹرنیٹ پر بھی موجود ہیں۔ دستیاب<br />

پچاس تحریروں کی فہرست درج خدمت ہے۔ ہر عنوان<br />

تحریر کی نوعیت و حیثیت کو واضح کر رہا ہے۔ اب<br />

مضامین کی فہرست ملحظہ ہو۔


-١<br />

-٢<br />

-٣<br />

اردو کی ترویج کا ترجیحی بنیادوں پر اہتمام لزم ہے<br />

روزنامہ امروز لہور ٦ ستمبر ١٨٨٧<br />

اردو کو اپنا مقام کیوں نہیں مل روزنامہ مشرق لہور<br />

١٧ جون ١٩٨٩<br />

انگریز کی اردو نوازی کیوں روزنامہ امروز لہور<br />

‘ ٢٤<br />

٢٧ جولئی ١٩٩٠<br />

‘٢٦<br />

‘٢٥<br />

-٤<br />

اردو کا تاریخی سفر روزنامہ جہاں نما لہور<br />

٢ دسمبر<br />

١٩٩٠<br />

-٥<br />

سرسید تحریک نے اردو کو مسلمانوں کی زبان کا درجہ<br />

دیا روزنامہ مشرق لہور<br />

٢٧ جنوری ١٩٩١<br />

-٦<br />

اردو اور عصری تقاضے روزنامہ جہاں نما لہور ١٩<br />

اگست<br />

-<br />

١٩٩١<br />

-٧<br />

اردو کی ترقی آج کی ضرورت روزنامہ وفاق لہور<br />

مارچ<br />

روزنامہ مشرق لہور<br />

١٨<br />

١ اپریل ١٩٩٢<br />

١٩٩٢<br />

-٨<br />

-٩<br />

اردو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں کی اپنی زبان روزنامہ وفاق<br />

لہور ١٧ مارچ ١٩٩٢<br />

اردو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عالم اسلم کی ضرورت ہے روزنامہ<br />

مشرق لہور ٥ فروری ١٩٩٢


-١٠<br />

اردو کو لزمی زبان اور مضمون کا درجہ دیا جائے<br />

روزنامہ مشرق لہور<br />

٩ فروری ١٩٩٢<br />

-١١<br />

-١٢<br />

اردو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عالم انسانی کی ضرورت کیوں روزنامہ<br />

مشرق لہور ١٩ فروری ١٩٩٢<br />

انگریزی زبان۔۔۔۔۔فروغ کیسے ہو روزنامہ پاکستان<br />

لہور<br />

١ مارچ ١٩٩٢<br />

-١٣<br />

-١٤<br />

اردو سے نفرت ایک نفسیاتی عارضہ روزنامہ مشرق<br />

لہور ٩ اپریل ١٩٩٢<br />

اردو برصغیر کے مسلمانوں کی زبان روزنامہ جہاں<br />

نما لہور<br />

١٠ اپریل ١٩٩٢<br />

-١٥<br />

اردو دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے روزنامہ وفاق<br />

لہور<br />

١٩ اپریل ١٩٩٢<br />

-١٦<br />

انگریزی کی مقبولیت میں کمی کیوں روزنامہ مشرق<br />

لہور<br />

٢٧ اپریل ١٩٩٢<br />

-١٧<br />

-١٨<br />

اردو پر چند اعتراضات اور ان کا جواب روزنامہ وفاق<br />

لہور ٢٠ مارچ ١٩٩٢<br />

انگریزی قومی ترقی کی راہ پتھر ماہنامہ اخبار اردو<br />

اسلم آباد نومبر ١٩٩٢<br />

-١٩<br />

اردو کی مختصر کہانی اہل قلم ملتان<br />

١٩٩٦


-٢٠<br />

-٢١<br />

اردو میں مستعمل ذاتی آوازیں ماہنامہ نوائے پٹھان<br />

لہور جون ٢٠٠٦<br />

اردو بالمقابلہ انگریزی روزنامہ وفاق لہور س ن<br />

-٢٢<br />

زبان اور قومی یک جہتی مسودہ<br />

-٢٣<br />

اردو ہے جس کا نام<br />

اردو کے متعلق انٹرنیٹ پر ملنے والے مضامین<br />

-٢٤<br />

-٢٥<br />

-٢٦<br />

لفظ ہند کی کہانی<br />

ہندوی تاریخ اور حقائق کے آئینہ میں<br />

-٢٧<br />

-٢٩<br />

-٢٨<br />

ہندوستانی اور اس کے لسانی حدود<br />

اردو میں مستعمل ذاتی آوازیں<br />

اردو کی چار آوازوں سے متعلق گفتگو<br />

اردو اور جاپانی آوازوں کی سانجھ<br />

-٣٠<br />

-٣١<br />

اردو میں رسم الخط کا مسلہ<br />

انگریزی کے اردو پر لسانی اثرات<br />

٣٢- سرائیکی اور اردو کی مشترک آوازیں


-٣٣<br />

اردو اور انگریزی کا محاوراتی اشتراک<br />

-٣٤<br />

-٣٦<br />

-٣٧<br />

-٣٨<br />

-٣٥<br />

اردو سائنسی علوم کا اظہار<br />

قومی ترقی اپنی زبان میں ہی ممکن ہے<br />

اردو‘‏ حدود اور اصلحی کوششیں<br />

قدیم اردو شاعری کا لسانی مطالعہ<br />

انگریزی دنیا کی بہترین زبان نہیں<br />

-٤٠<br />

-٤٩<br />

-٤١<br />

-٤٢<br />

انگریزی اور اس کے حدود<br />

انگریزی آج اور آتا کل<br />

آتے کل کو کرہء ارض کی کون سی زبان ہو گی<br />

رسم الخط کے مباحث اور دنیا کی زبانیں ‏'اردو<br />

43- Lets learn urdu<br />

44- Urdu has a strong expressing power and a<br />

sounds system<br />

45- Why to learn Urdu under any language of the<br />

world<br />

46- The identitical sounds used in Urdu<br />

47- Some compound sounds in Urdu<br />

48- Compound sounds in Urdu (2)


49- Urdu and Japanese sound’s similirties<br />

50- Urdu can be suggested world's language<br />

http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?<br />

id=51562<br />

ڈاکٹر مقصود حسنی بطور مترجم<br />

از پروفیسر یونس حسن<br />

ڈاکٹر مقصود حسنی ایک نامور محقق‘‏ نقاد اور ماہر<br />

لسانیات ہونے کے ساتھ ایک کامیاب مترجم بھی ہیں۔ انہوں<br />

نے جن فن پاروں کا ترجمہ کیا ہے ان پر طبع زاد ہونے کا<br />

گمان گزرتا ہے۔ ان کے تراجم سادگی سلست اور رونی کا<br />

عمدہ نمونہ ہیں۔ ایک کامیاب مترجم کے لیے ضروری ہوتا<br />

ہے کہ وہ اصل کے مفاہیم کو خوب ہضم کرکے ترجمے کا<br />

فریضہ انجام دے تا کہ ترجمہ اصل کے قریب تر ہو۔<br />

موصوف کے تراجم کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے


اصل کی تفہیم پر دسترس حاصل کرنے کے بعد ہی یہ کام<br />

کیا ہے۔<br />

ان کے تراجم روایت سے ہٹ کر ہیں۔ یہاں تک کہ متعلقہ فن<br />

پارے کی ہیئت سے بھی تجاوز کیا ہے۔ اس کی مثال<br />

رباعیات کا سہ مصرعی ترجمہ ہے جسے برصغیر کے<br />

نامور علما نے پسند کیا اور حسنی صاحب کو اس کام پر<br />

داد بھی دی۔ ان کے تراجم میں ایک ندرت اور چاشنی پائی<br />

جاتی ہے۔ ان کے تراجم کو جہاں ایک نئی جہت عطا ہوئی<br />

ہے وہاں الفاظ پر ان کی غیر معمولی گرفت کا بھی اندازہ<br />

ہوتا ہے۔<br />

حسنی صاحب کے تراجم کے مطالعہ سے یہ بھی کھلتا ہے<br />

کہ مترجم لفظ کے نئے نئے استعمالت سے آگاہ ہے۔ ڈاکٹر<br />

ابو سعید نورالدین نے ان تراجم پر بات کرتے ہوئے درست<br />

‏:کہا تھا<br />

واقعی تعجب ہوتا ہے۔ آپ نے رباعیات کا اردو ترجمہ چہار<br />

مصرعی کی بجائے سہ مصرعی میں اتنی کامیابی کے ساتھ<br />

کیسے کیا۔ یہ آپ کا کمال ہے۔


ترجمے کے لیے لزمی ہوتا ہے کہ مترجم کی اس میں<br />

مکمل دلچسپی ہو ورنہ اس کی ساری محنت اکارت چلی<br />

جائے گی۔ حسنی صاحب نے ترجمے کا کام پوری دلچسپی<br />

اور بھرپور کمٹ منٹ کے ساتھ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان<br />

کے تراجم اصل کی بھرپور نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے<br />

رباعیات خیام کے تراجم کے حوالہ سے پروفیسر کلیم ضیا<br />

‏:نے کہا تھا<br />

سہ مصرعی ترجمے ماشاءا بہت عمدہ ہیں۔ ہر مصرعہ<br />

رواں ہے۔ ابتددائی دونوں مصرعے پڑھ پڑھ لینے کے بعد<br />

مفہوم اس وقت تک واضح اور مکمل نہیں ہو سکتا جب تک<br />

کہ مصرع سوئم پڑھ نہ لیا جائے۔ یہی خوبی رباعی میں<br />

‏:بھی ہے کہ چوتھا مصرع قفل کا کام کرتا ہے۔<br />

ان کے تراجم کا یہی کمال نہیں کہ وہ اصل کے مطابق ہیں<br />

بلکہ ان میں جازبیت اور حسن آفرینی کو بھی شامل کیا گیا<br />

ہے۔ بڑھتے جائیں طبیعت بوجھل نہیں ہوتی۔ ان کے تراجم<br />

میں پایا جانے وال فطری بہاؤ قاری کو اپنی گرفت میں لے<br />

لیتا ہے۔ شاید اسی بنیاد پر ڈاکٹر عبدالقوی ضیاء نے کہا


‏:تھا<br />

حسنی صاحب ماہر تیراک اور غوطہ خور ہیں ان کے سہ<br />

مصرعوں میں اثرآفرینی ہے‘‏ روانی ہے‘‏ حسن بیان ہے‘‏<br />

تازہ کاری اور طرحداری ہے۔ قاری کو مفہوم سمجھنے میں<br />

کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی بلکہ لطف آتا ہے۔<br />

گویا ان کا مخصوص اسلوب تکلم اور طرز ادا ترجمے کو<br />

کہیں بھی خشک اور بےمزہ نہیں ہونے دیتا بلکہ اس کی<br />

اسلوبی اور معنوی سطح برقرار رہتی ہے۔<br />

انہوں نے عمر خیام کی چوراسی رباعیات کا اردو ترجمہ<br />

کیا۔ یہی نہیں اپنی کتاب۔۔۔۔۔ شعریات خیام۔۔۔۔۔ میں خیام کی<br />

سوانح کے ساتھ ساتھ چار ابواب میں ان کا تنقیدی و لسانی<br />

جائزہ بھی پیش کیا۔<br />

پچاس ترکی نظموں کا اردو ترجمہ کیا اس ترجمے کو ڈاکٹر<br />

نوریہ بلیک قونیہ یونیورسٹی نے پسند کیا۔<br />

یہ ترجمہ ۔۔۔۔۔ستارے بنتی آنکھیں۔۔۔۔۔ کے نام سے کتابی<br />

شکل میں پیش کیا گیا۔


‘٧<br />

انہوں نے فینگ سیو فینگ کے کلم پر تنقیدی گفتگو کی۔<br />

ان کا یہ تنقیدی مضمون۔۔۔۔۔ فینگ سیو فینگ جذبوں کا<br />

شاعر۔۔۔۔۔۔ کے عنوان سے روزنامہ نوائے وقت لہور کی<br />

اشاعت اپریل ١٩٩٨ میں شائع ہوا۔ اس کی نظموں کے<br />

ترجمے بھی پیش کیے۔<br />

اس کے علوہ معروف انگریزی شاعر ولیم بلیک کی<br />

نظموں کا بھی اردو ترجمہ کیا۔ ان کے یہ تراجم تجدید نو<br />

میں شائع ہوئے۔<br />

قراتہ العین طاہرہ کی غزلوں کا پنجابی اور انگریزی آزاد<br />

ترجمہ کیا۔<br />

سو کے قریب غالب کے اشعار کا پنجابی ترجمہ کیا۔ ان کے<br />

یہ تراجم انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔<br />

http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?<br />

id=52683


اردو انجمن اور مقصود حسنی کی افسانہ نگاری<br />

محبوب عالم<br />

دور جدید کی مفید ترین ایجاد کمپیوٹر جہاں دیگر شعبہ<br />

ہائے زندگی میں اپنے کمالت دکھا رہا ہے وہاں انٹرنیٹ کی<br />

دنیا میں شعر وادب کے فروغ میں بھی اپنے حصہ کا کردار<br />

ادا کر رہا ہے۔ اب ادب کتابوں رسالوں یا پھر اخبارات کے<br />

ادبی ایڈیشنوں تک محدود نہیں رہا۔ چلتے پھرتے‘‏ سفر<br />

کرتے یا دفتر میں بیٹھے ادبی حظ اٹھایا جا سکتا ہے۔ دنیا<br />

کی دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو بھی انٹرنیٹ پر رواں<br />

دواں ہے۔ اردو کی بہت سی ویب سائٹس اس وقت یہ<br />

فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ ان ویب سائٹس پر سنجیدہ اور<br />

غیر سنجیدہ لوگوں کے ساتھ ساتھ شاعر اور ادیب بھی آ<br />

رہے ہیں۔ جہاں ادب تخلیق ہو رہا ہے وہاں عمومی اور<br />

غیرعمومی آراء بھی پڑھنے کو مل رہی ہیں۔ ان غیرعمومی<br />

آراء کو کسی طرح صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ ادب قارئین<br />

کے لیے ہوتا ہے۔ قارئین مختلف نوعیت کے ہو سکتے<br />

ہیں۔ وہ معاملت کو اپنے حوالے سے دیکھتے ہیں اور ان<br />

کے حوالہ ہی سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ کسی بھی<br />

رائے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ رائے تو رائے<br />

ہوتی ہے اور اپنے سیٹ اپ کی عکاس ہوتی ہے۔ ان


عمومی آراء کے ساتھ ساتھ اہل نقد کی آراء بھی پڑھنے کو<br />

مل رہی ہیں۔<br />

ان فورمز بورڈز کی خدمات اپنی جگہ پر لیکن اردو انجمن<br />

بڑی سنجیدگی اور ادبی دیانت کے ساتھ اردو کی خدمت<br />

انجام دے رہی ہے۔ یہاں سنجیدہ اور پختہ کار تخلیق کار<br />

اور نقاد حضرات سے ملقات کا موقع میسر آتا ہے۔ یہ<br />

انجمن محدود دائروں میں مقید نہیں۔ یہ پچیس سے زائد<br />

گوشوں پر مشتمل ہے۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے<br />

گلہائے عقیدت<br />

حمد،‏ نعت اور دعا<br />

ناظمین:‏ محمد خاور,‏ سالم باشوار<br />

اصلح L سخن<br />

نئے شعراء کے کلم کی اصلح اور رہنمائی<br />

ناظم:‏ سرور عالم راز


اندازL غزل<br />

اساتذہ اور مشاہیر کی غزلیات<br />

ناظمین:‏ سرور عالم راز,‏ زرقا مفتی<br />

موج L غزل<br />

آپ کی غزلیات جو بحر میں ہوں<br />

ناظمین:‏ ضیاء بلوچ,‏ سہیل ملک,‏ خورشید الحسن نیر<br />

قافیہ الفاظ<br />

رنگL غزل<br />

نئے شعراء کی غزلیات<br />

ناظمین:‏ محمد خاور,‏ حشمت عثمانی<br />

اندازL سخن<br />

اساتذہ اور مشاہیر کی منظومات


ناظمین:‏ عاکف غنی,‏ صدف<br />

موج L سخن<br />

اراکینL انجمن کی پابند منظومات<br />

ناظمین:‏ زاہدہ رئیس راجی,‏ سہیل ملک<br />

طرزL سخن<br />

جدید شاعری اور زبان و بیان کے نئے تجربات<br />

رنگL سخن<br />

اراکینL انجمن کی آزاد اور نثری منظومات<br />

ناظمین:‏ صدف,‏ سمن شاہ<br />

ذیلی بورڈ<br />

لطفL بیان


افسانے،‏ خاکے اور انشائیے<br />

ناظمین:‏ شاہکار,‏ صالح اچھªا<br />

اندازL بیان<br />

نامور نثر نگاروں کی تحاریر<br />

ناظمین:‏ زاہدہ رئیس راجی,‏ سرور عالم راز<br />

ذیلی بورڈ<br />

موج L بیان<br />

آپ کی تحاریر<br />

ناظمین:‏ زاہدہ رئیس راجی,‏ زرقا مفتی<br />

مزاحیہ مضامین اور خاکے<br />

ناظمین:‏ شاہکار,‏ صالح اچھªا<br />

ذیلی بورڈ


مزاحیہ منظومات<br />

ناظمین:‏ ضیاء بلوچ,‏ صالح اچھªا<br />

لطائف و ظرائف<br />

ناظمین:‏ عاکف غنی,‏ حشمت عثمانی<br />

خبر نامہ<br />

ادبی خبرنامہ اور تقریبات کا احوال<br />

نیا بورڈ<br />

تفہیمL سخن<br />

آسان عروض<br />

آسان عروض اور شاعری کی بنیادی باتیں


ناظم:‏ سرور عالم راز<br />

ذیلی بورڈ<br />

طرحی مشاعرہ<br />

‏﴾ماہانہ طرحی مشاعرہ ‏﴿انجمن کا ایک سلسلہ<br />

ناظمین:‏ زاہدہ رئیس راجی,‏ زرقا مفتی<br />

بیت بازی<br />

اردو شاعری کو فروغ دینے کے لئے ایک دلچسپ سلسلہ<br />

‏:ناظمین<br />

عامر عباس<br />

balvinder<br />

صوتی مشاعرہ<br />

‏﴾آپ کی اپنی آواز میں مشاعرہ ‏﴿سہ ماہی سلسلہ


ناظمین:‏ زاہدہ رئیس راجی,‏ ضیاء بلوچ<br />

بزبانL شاعر<br />

آپکا کلم آپکی آواز میں<br />

آپ کی پسند<br />

اقوالL زریں،‏ دلچسپ باتیں،‏ تصاویر اور ویڈیوز<br />

ناظمین:‏ زاہدہ رئیس راجی,‏ سرور عالم راز<br />

گوشہء خاص<br />

اردو انجمن سے متعلق اعلنات احباب کے سوالت<br />

جان پہچان<br />

خوش آمدید اور تعارف<br />

ناظمین:‏ سرور عالم راز,‏ زرقا مفتی


خزانہ<br />

ناظم:‏ زرقا مفتی<br />

تجرباتی بورڈ<br />

غور فرمائیں‘‏ ان گوشوں میں اردو کی تمام اصناف زیر<br />

مطالعہ آ جاتی ہیں۔ ہر گوشے میں اچھا خاصا مواد دستیاب<br />

ہے۔ اس مواد کو شخصی حوالہ سے مرتب کر دیا جائے تو<br />

کئی تحقیقی مقالے ہو سکتے ہیں۔ اگر مغربی‘‏ بھارتی اور<br />

پاکستنی جامعات اس جانب توجہ دیں تو قدیم لوگوں کے<br />

ساتھ عصر رواں کے متعلق لوگوں کی ادبی خدمات کو بھی<br />

تصرف میں لیا جا سکتا ہے۔ یہاں میں انجمن کے صرف<br />

ایک رکن کے افسانوں کے متعلق تفصیلت درج کرنے کی<br />

جسارت کر رہا ہوں۔ میری اس کوشش سے اندازہ ہو جائے<br />

گا کہ انجمن اپنے ادبی جثے میں کتنی مضبوط اور فراخ<br />

ہے۔<br />

باباجی مقصود حسنی کی انجمن پر مختلف نوعیت کی<br />

تحریریں ملتی ہیں۔ ان میں افسانے بھی شامل ہیں۔ ریکارڈ<br />

کے مطابق موصوف ١٩٦٩ سے افسانے لکھ رہے ہیں۔<br />

رسائل میں چھپنے کے علوہ ان کے افسانوں کے تین


مجموعے<br />

١- کاجل ابھی پھیل نہیں<br />

٢- وہ اکیلی تھی<br />

- ٣ جس ہاتہ میں لٹھی<br />

شائع ہو چکے ہیں۔ تیسرا مجموعہ ١٩٩٣ میں شائع ہوا<br />

تھا۔ اب تک وہ دو سو سے زائد افسانے قلم بند کر چکے<br />

ہیں۔ اختصار ان کے افسانوں کی بنیادی خصوصیت ہے۔ ان<br />

کے افسانوں میں تصوف‘‏ اخلقیات‘‏ روحانیت اور سماجی<br />

پہلو غالب رہتے ہیں۔ میں نے یہاں صرف انجمن کی اعلی<br />

کارگزاری کے ثبوت کے لیے مواد صرف انجمن کے<br />

گوشوں سے حاصل کیا ہے ورنہ ان کے افسانے انٹر نیٹ<br />

کی مختلف ویب سائٹس پر بھی پڑے ہیں۔ اہل قلم<br />

نیچے پیش کیا گیا جملہ مواد میں نے صرف اور صرف<br />

اردو انجمن سے حاصل کیا ہے۔<br />

مقصود حسنی کے افسانوں میں اخلقی‘‏ روحانی اور<br />

تصوف کے عناصر کے چند نمونے ملحظہ ہوں<br />

ہاں‘‏ جب رات کو‘‏ چارپائی پر لیٹا‘‏ تو حق حق حق کے<br />

نعروں نے‘‏ مجھے دیر تک سونے نہ دیا۔ میں نے بڑی


کوشش کی‘‏ کہ دھیان ادھر ادھر کرکے‘‏ ان نعروں سے‘‏<br />

خلصی پا لوں‘‏ مگر کہاں جی۔ میری ایما کے برعکس‘‏<br />

میرے منہ سے بھی‘‏ حق حق حق کے آوازے نکلنے کو ہی<br />

تھے‘‏ کہ میں نے‘‏ سورت اخلص پڑھنا شروع کر دی‘‏ شاید<br />

خدا سے‘‏ عشق کا‘‏ میرا یہ پہل قدم تھا۔ یہ پہل موقع تھا‘‏<br />

جو اثرآفرینی کے لیے‘‏ دم والے پانی اور تعویزوں کا<br />

مرہون منت نہ ہوا۔ اس کے لیے‘‏ مجھے ایک اکنی بھی نہ<br />

دینا پڑی۔<br />

پٹھی بابا<br />

حمادی اسی لیے زندہ ہے‘‏ کہ اس نے‘‏ منصور کے قتل کا<br />

فتوی دیا تھا‘‏ ورنہ سیکڑوں مولوی‘‏ مفتی اور قاضی ہو<br />

گزرے ہیں‘‏ انہیں کون جانتا ہے۔ وہ دکھنے والے منصور<br />

کو پہچانتا تھا‘‏ اگر وہ اناالحق کا نعرہ لگانے والے‘‏ قیدی<br />

منصور کو جانتا ہوتا‘‏ تو اس کے قتل کا کبھی فتوی نہ دیتا۔<br />

وہ مدعی کا‘‏ اس کے دعوے کی سطح کا‘‏ امتحان کرتا‘‏ تو<br />

ہی دودھ کا دودھ‘‏ پانی کا پانی ہو یاتا۔<br />

میرے اندر بھی‘‏ ارتعاش پیدا ہوا تھا‘‏ لیکن میں رقص نہ کر<br />

سکا‘‏ میں اپنے آپے میں تھا۔ میں ابھی اسلم ہی تھا‘‏ ریحانہ<br />

نہیں ہوا تھا ۔اگر ریحانہ ہو گیا ہوتا‘‏ تو دنیا کی پرواہ کیے<br />

بغیر‘‏ ملنگ بابے کے ساتھ رقص کر رہا ہوتا۔


میں ابھی اسلم ہی تھا<br />

بابو صابر کا طرز عمل‘‏ اسے کچکوکے لگاتا رہا۔ وہ بے<br />

آب ماہی کی طرح‘‏ دیر تک چارپائی پر کروٹیں بدلتا رہا۔ پھر<br />

اس نے طے کیا‘‏ کہ وہ ہر معاملے کے بابو کو کھانا ضرور<br />

کھلئے۔ حرام تو پہلے کماتے ہیں۔ وہ حرا م کا کھانا کھل<br />

کر‘‏ انہیں ڈبل حرامی بنانے کا چارہ کرے گا۔ اس سوچ نے‘‏<br />

شاید اس کی انا کو تسکین بخش دی تھی۔ یہ ہی وجہ تھی‘‏<br />

کہ وہ تھوڑی ہی دیر بعد‘‏ گہری نیند میں چل گیا۔<br />

انا کی تسکین<br />

جنگل کا شروع سے‘‏ یہ ہی وتیرا رہا ہے۔ جہاں میں بسیرا<br />

رکھتا تھا‘‏ وہاں رہتے توانسان تھے‘‏ لیکن ان کے اطوار<br />

اور قانون‘‏ جنگل کے قانون سے‘‏ کسی طرح کم نہ تھے۔<br />

اس جبر کی فضا‘‏ اور ماحول میں‘‏ ایک بات ضرور موجود<br />

تھی‘‏ کہ بچانے وال‘‏ چوتھی مرغی کو‘‏ بچا ہی لیتا ہے۔ اس<br />

کی نسل‘‏ آتے وقتوں میں‘‏ اس کے ہونے‘‏ اور بچانے والے<br />

محاکاتکر‘‏ کی گواہی دیتی رہتی ہے۔<br />

چوتھی مرغی


آہ۔۔۔۔۔ کتنی بدنصیب تھی وہ صبح‘‏ ویر جی کو‘‏ موت کے<br />

حوالے کر دیا۔ وقت کا سرمد‘‏ چل تو گیا‘‏ لیکن محبتوں کی<br />

یادیں چھوڑ گیا۔ ملک زوراور کے کوئی نہ منہ آ سکا۔ ملک<br />

پھر سے دوسرے علقوں کے وسائل پر تسلط وتصرف کی<br />

سوچ میں پڑ گیا۔ اسے یاد تک نہ رہا کہ اس نے کتنا بڑا<br />

ظلم ڈھا دیا ہے۔<br />

تنازعہ کے دروازے پر<br />

وہ یہ بھی جانتا تھا‘‏ کہ یہ تپسوی‘‏ برہما سے بردان حاصل<br />

کیے بغیر‘‏ یہاں سے نہیں ٹلے گا‘‏ کیوں کہ جو دھار کر<br />

آتے ہیں‘‏ کٹ جاتے ہیں‘‏ قدم پیچھے نہیں رکھتے۔ یہ اصول<br />

بھی ہے‘‏ اور ویدی کا ویدان بھی‘‏ یہ ہی چل آتا ہے۔<br />

کامنا<br />

نمرود کو‘‏ اپنی جاہ وحشمت پر ناز تھا۔ وہ سمجھتا تھا‘‏ کہ<br />

زندگی اسی کے دم قدم سے‘‏ رواں دواں ہے۔ اگر وہ نہ رہا‘‏<br />

تو چار سو بربادی پھیل جائے گی۔ اسے یہ بھی گمان تھا‘‏<br />

کہ وہ ہر اونچ نیچ پر قادر ہے۔ وہ کچھ بھی‘‏ کر سکتا ہے۔<br />

اس کے رستے میں آنے وال‘‏ ذلت ناکی سے دوچار ہو گا۔<br />

وہ بلشبہ‘‏ شیطان کی بدترین لعنت تھا۔


کمل کہیں کا<br />

جس پیٹ میں‘‏ رزق حرام چل گیا‘‏ وہ حلل دا کس طرح رہا۔<br />

حرام لقموں سے بننے وال خون‘‏ سر سے پاؤں تک‘‏<br />

گردش کرتا ہے۔ جس جسم میں؛ حرام خون دوڑ رہا ہوتا<br />

ہے‘‏ اس پیٹ والے کے‘‏ جسم کے جملہ کل‘‏ کس طرح<br />

درست اور فطری اصولوں پر‘‏ استوار ہو سکتے ہیں۔ حرام<br />

کھانے والے‘‏ شرعی واجبات کے ذریعے‘‏ خود کو حلل دا<br />

ثابت کرنے کی‘‏ کوشش کرتے ہیں۔<br />

شیدا حرام دا<br />

آج بڑھاپے نے شاید ہوش غارت کر دئے ہیں‘‏ تب ہی تو<br />

سوچتی ہوں‘‏ کہ دینو کی پسینہ آمیز کمائی میں‘‏ بےحد<br />

سواد تھا۔ اس وقت مجھے کوئی بیماری لحق نہ تھی۔ یہاں<br />

حللے کے دو ماہ پعد ہی معدہ کی بیماری لحق ہوگئی۔ اس<br />

کے بعد شوگر نے آ گھیرا۔ کمردرد تو معمول کا معاملہ ہے۔<br />

بی پی کی کسر رہ گئی تھی‘‏ وہ بھی گلے کا ہار بن گئی<br />

ہے۔ مولوی صاحب کسی کی جیب تو نہیں کاٹتے‘‏ اس کے<br />

باوجود ان کا لیا ہوا رزق‘‏ ذائقہ میں‘‏ دینو کے لئے سا<br />

نہیں۔


حللہ<br />

آج میں بڑا اور صاحب حیثیت آدمی ہوں‘‏ مگر کب تک‘‏ بس<br />

سانسوں کے آنے جانے تک۔ اس کے بعد‘‏ کسی کے خواب<br />

وخیال میں بھی نہیں رہوں گا۔ مزے کی بات یہ کہ‘‏ لوگ<br />

میرے سامنے اور پشت پیچھے‘‏ مجھے بڑا آدمی کہتے ہیں<br />

اور سمجھتے بھی ہیں۔ سوچتا ہوں‘‏ یہ کیسا بڑاپن ہے‘‏ جو<br />

سانسوں سے مشروط ہے۔ بڑا تو سقراط تھا‘‏ جو مر کر<br />

بھی‘‏ مرا نہیں۔ وقت کا فیصلہ بھی کتنا عجیب ہے‘‏ کہ شاہ<br />

حسین سے بھوکے ننگے‘‏ آج بھی زندہ اورلکھوں دلوں<br />

میں‘‏ اپنی عزت اور محبت رکھتے ہیں۔ قارون کے سوا‘‏<br />

مجھ سے لکھوں لکھ پتی‘‏ جو وقت کے بہت بڑے آدمی<br />

تھے‘‏ آج کسی کو یاد تک نہیں ہیں۔ یہ بڑاپن کیسا ہے‘‏ جو<br />

کیڑوں مکوڑوں سے مختلف نہیں۔<br />

بڑا آدمی<br />

عوفی نے موت کا رستہ چن کر‘‏ ٹیپو کی حکمت عملی پر‘‏<br />

درستی کی مہر ثبت کر دی تھی۔ یہ کوئی ایسی معمولی بات<br />

نہ تھی۔ عوفی فاتح جرنیل ناسہی‘‏ لیکن کوئی تجزیہ نگار<br />

اسے ناکام جرنیل بھی نہیں قرار دے گا۔ کاشف اور پنکی


جیت کر بھی ہار چکے تھے۔ عوفی نے انھیں عبرت ناک<br />

شکست دی تھی۔ یہ ہی حقیقت اور یہ ہی وقت کا انصاف<br />

ہوگا۔ ہر کیے کا‘‏ کوئی ناکوئی‘‏ پرینام تو ہوتا ہی ہے۔<br />

کاشف‘‏ باپ ہو کر‘‏ ماموں کا رشتہ استوار کرنے پر مجبور<br />

ہو گا اور پنکی کا آنچل پچھتاوے کی آگ میں جلتا رہے<br />

گا۔۔۔۔۔۔۔ ہاں جلتا رہے گا۔<br />

آنچل جلتا رہے گا<br />

مسجد سے ا اکبر کی صدا گونجی۔ میں کانپ کانپ گیا۔<br />

اس سے پہلے بھی یہ آواز کئی بار سن چکا تھا لیکن اج<br />

تو اس آواز نے گھائل کر دیا۔ ا مجھے واپس لوٹنے کے<br />

لئے کہہ رہا تھا۔ میں تیزی سے مسجد کی جانب بڑھ گیا۔<br />

جانے کتنی دیر سجدہ میں رہا لیکن جب سر اٹھایا سارا<br />

غبار چھٹ چکا تھا۔<br />

بیوہ طوائف<br />

فقیر بابا کو میں بھی پاگل سمجھتا تھا۔ میں نے اس کے<br />

کہے کے مفاہیم دریافت کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی<br />

تھی۔ ہوٹل پر کام کرتے بچے کو دیکھ کر احساس ہوا ہے<br />

کہ فقیر بابا غلط نہیں کہتا۔ وہ پاگل نہیں‘‏ اس نے تو دنیا کی


گل پا لی ہے۔ اسی لیے ہر پوچھنے والے کو دنیا کا حقیقی<br />

چہرا دیکھاتا ہے کہ انسان تنہا ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔تنہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں<br />

یکسر تنہا۔<br />

فقیر بابا<br />

یہ سب اس نے جاگتی آنکھوں سے دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

کیسے بھول پاتا۔ کربناک لحموں کی بازگشت تازیست یادوں<br />

کے نہاں گوشوں میں اپنا تمثالی وجود برقرار رکھتی ہے۔<br />

یادوں کا تمثالی وجود نیند کے جھونکوں کا انتظار نہیں<br />

کرتا۔ موقعہ بہ موقعہ اپنے اٹوٹ وجود اور قلبی رشتے کا<br />

اظہار کرتا رہتا ہے۔ اسے اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی<br />

کہ کسی پر کیا گزرے گی۔ بازگشت کا رشتہ اگر مٹی ہو<br />

جائے تو گزرا کل اپنی معنویت کھو دے اور صیغہ تھا<br />

لیعنی ہو کر رہ جائے۔<br />

بازگشت<br />

اسے اپنی موت کا رائی بھر دکھ نہ تھا۔ اس نے خود یہ<br />

رستہ منتخب کیا تھا۔ اب یہ درندہ کبھی کسی کمزور کا<br />

وحشیانہ تعاقب نہ کر سکے گا اور اس کی ٹانگوں سے<br />

ہمیشہ اف اف اف کے بزدل نعرے بلند ہوتے رہیں گے۔


آخری کوشش<br />

سقراط اور حسین نے‘‏ اس مروجہ طور کو‘‏ جان دے کر‘‏<br />

غلط قرار دیا۔ ہم سقراط اور حسین کے راستے کو‘‏ درست<br />

مانتے ہیں اوراس رستے کا‘‏ زبانی کلمی احترام بھی کرتے<br />

ہیں۔ عملی طور پر‘‏ ہمارا پرنالہ وہیں پر ہے۔<br />

معالجہ<br />

مجھے اپنی موت کا رائی بھر دکھ نہیں۔ ایک دن‘‏ مرنا تو<br />

ہے ہی‘‏ دو دن آگے کیا‘‏ دو دن پیچھے کیا۔ مجھے تین<br />

باتوں کا رنج ہے‘‏ کہ میں حمیدے کو بچا نہ سکا۔ وہ ابھی<br />

زندہ تھا اور آخری سانسوں پر نہ تھا۔ افسوس‘‏ وہ قانونی<br />

تقاضوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ قانون اس کا قاتل نہیں‘‏ قانونی<br />

تقاضوں کے علم بردار‘‏ اس کے قاتل ہیں اور انہیں کوئی<br />

پوچھنے وال نہیں۔ دوسرا جیرے کا جھاکا کھلنے پر‘‏ تاسف<br />

ہے‘‏ اب تو وہ اور انھی مچائے گا۔ اس ذیل میں تیسری بات<br />

یہ ہے‘‏ کہ پتا نہیں‘‏ منافقت کا دیو‘‏ کب بوتل میں بند ہو کر‘‏<br />

دریا برد ہو گا۔<br />

ابھی وہ زندہ تھا


سچائی کا حسن‘‏ بار بار نمودار ہونے کے لیے‘‏ ہوتا ہے۔<br />

اسے نمودار ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہاں اس کی<br />

جڑوں کا پھیلنا اور مضبوط ہونا ضروری ہوتا ہے۔ یہ سب<br />

ا کے اختیار میں ہے۔ زمین کے اندر‘‏ ہم دخل اندازی نہیں<br />

کر سکتے۔ سچائی کی زمین‘‏ حد درجہ ذرخیز ہوتی ہے۔ اس<br />

کی ازل سے موجود جڑیں‘‏ کسی ناکسی پودے کو سطح<br />

زمین پر لتی رہیں گی۔<br />

سچائی کی زمین<br />

رمضان میں ہی‘‏ سب سے زیادہ خرابی سر اٹھاتی ہے۔<br />

روپے کی چیز کے‘‏ پانچ روپے وصولے جاتے ہیں۔ اس<br />

نے سوچا‘‏ شیطان کے قید ہو جانے کے بعد‘‏ اس کے انڈے<br />

بچے‘‏ شیطان سے بڑھ کر‘‏ اندھیر مچاتے ہیں۔ اسے اپنے<br />

منصوبے کے‘‏ ناکام ہو جانے کا اعتراف کرنا پڑا۔ وہ اپنی<br />

ذات سے‘‏ شرمندہ تھا۔ اس منصوبے کی کام یابی کے لیے‘‏<br />

برائی کا لروا‘‏ پہلے تلف ہونا چاہیے۔ لروا ختم ہو جائے‘‏<br />

تو ہی آتا کل محفوظ ہو سکتا ہے۔<br />

لروا اور انڈے بچے<br />

گامو سوچیار کے ان لفظوں نے‘‏ میری نیند اور سکون


چھین لیا ہے۔ میں کئی بار‘‏ اپنے ضمیر کو مطمن کرنے کی<br />

کوشش کر چکا ہوں۔ کم بخت‘‏ مطمن ہونے کا نام نہیں لے<br />

رہا۔ گامو سوچیار جیسے لوگوں کو‘‏ مصلوب کیا جاتا رہا<br />

ہے‘‏ اس کے باوجود‘‏ کوئی ناکوئی‘‏ ہر عہد میں‘‏ ان کی<br />

جگہ لے ہی لیتا ہے۔ گامو سوچیار کا کہا‘‏ درست ہے‘‏ یا<br />

نہیں‘‏ یہ بات غور طلب ہے‘‏ تاہم یہ طے ہے‘‏ کہ اس گھر<br />

‏-میں ہنستے مسکراتے دو منافق رہتے ہیں<br />

دو منافق<br />

ہر زبان پر‘‏ اس کی اچھائی اور شریف النفسی کے‘‏ کلمے<br />

تھے۔ وہاں سے‘‏ معلوم ہوا‘‏ اس کی بیوہ‘‏ کسی وقت رشیدہ<br />

خانم تھی۔ حالت اور وقت نے‘‏ اسے شیداں کپتی بنا دیا تھا<br />

اور رشتہ‘‏ حضرت سید حیدر امام صاحب نے کروایا تھا۔<br />

سید صاحب بھی تشریف لئے تھے۔ وہ گوشہ نشین بزرگ<br />

تھے۔ پورا علقہ‘‏ ان کی عزت کرتا تھا۔ وہ کچھ ہی دیر‘‏<br />

وہاں رکے۔ چہرے پر جلل تھا‘‏ ہاں‘‏ ساتھ چھوٹ جانے<br />

پر‘‏ ان کی آنکھوں سے‘‏ خاموش آنسو رواں تھے<br />

ان پڑھ<br />

سروے کے مطابق‘‏ یہاں کے شرفا بڑے نیک اور حاجی


ثناءا ہیں لیکن عملی اعتبار سے‘‏ حرام خور ہیں۔ مانیں نہ<br />

مانیں‘‏ آپ کی مرضی۔ حقیقت یہ ہی ہے‘‏ کہ ہم کسی ناکسی<br />

سطح پر‘‏ حرام خور ہیں۔۔۔۔۔ حرام خور۔۔۔۔۔۔۔اسی وجہ سے ہم<br />

پوری دنیا میں ذلیل وخوار ہیں۔<br />

پاخانہ خور مخلوق<br />

ا جانے‘‏ شخص کے ذاتی حقوق کو‘‏ کیوں گول کر دیا جاتا<br />

ہے۔ ذاتی حقوق‘‏ پہلی ترجیع پر ہوتے ہیں۔ جو شخص‘‏<br />

اپنے حقوق ادا کرے گا‘‏ وہی ا اور اس کی پوری کائنات<br />

کی مخلوق کے‘‏ حقوق ادا کر سکے گا۔۔ جو شخص‘‏ اپنی<br />

ذات سے انصاف نہیں کرتا‘‏ للچ اور خوف کے زیر اثر‘‏<br />

ضمیر کی نہیں کہتا‘‏ یا کہہ سکتا‘‏ رزق حلل‘‏ اپنے وجود<br />

کو مہیا نہیں کرتا‘‏ دوسروں کو کیسے کر سکے گا۔ ا کا<br />

بےنیاز اور ہر حاجت سے بال ہونا‘‏ مسلم ہے۔ اس کی<br />

خوشی‘‏ اسی میں ہے‘‏ کہ شخص‘‏ اس کی مخلوق کے<br />

حقوق پوری دیانت داری سے ادا کرے۔ حقوق کا معاملہ<br />

ذات سے‘‏ ا کی طرف پھرتا ہے۔<br />

دائیں ہاتھ کا کھیل<br />

موسی خود کو جانتے تھے۔ انہیں‘‏ اس امر سے خوب آگہی


حاصل تھی‘‏ کہ انہیں ا کی تائید حاصل ہے۔ اگر انہیں یہ<br />

اگہی حاصل نہ ہوتی‘‏ تو وہ دریا میں‘‏ اتنے لوگوں کو‘‏ ساتھ<br />

لے کر‘‏ سفر جاری نہ رکھتے۔ فرعون کو‘‏ اپنی خدائی کا<br />

پورا پورا یقین تھا‘‏ یا یقین دلوا دیا گیا تھا‘‏ تب ہی تو‘‏ اس<br />

نے دریا میں فوجیں ڈال دیں۔ اس سے‘‏ وہ ناصرف فوج<br />

سے‘‏ ہاتھ دھو بیٹھا بلکہ عزت بھرم اور پہلے سی شان و<br />

شوکت سے بھی گیا۔ یہ عبرت‘‏ آتی نسلوں کے لیے‘‏ حجت<br />

بنی رہی۔ ذاتی گمان اور چیلوں چمٹوں کی لیعنی اور مطلبی<br />

جی حضوری‘‏ اندھی اور بے لگام طاقت نے‘‏ کچھ باقی نہ<br />

رہنے دیا۔<br />

پنگا<br />

کسی انسانی ماں کی اولد‘‏ کسی دوسری ماں کی اولد پر‘‏<br />

ظلم کی اس حد تک جا ہی نہیں سکتی۔ بندوق کی نوک‘‏ سر<br />

جھکانے پر مجبور کر سکتی ہے‘‏ لیکن اس سے‘‏ دل فتح<br />

نہیں ہو سکتے۔ قبضہ و تصرف کی ہوس‘‏ تصادم کے<br />

دروازے کھولتی ہے۔ ماں کی محنت‘‏ مشقت اور پیار سے‘‏<br />

پروان چڑھنے والے بچوں کو لہو میں نہلتی ہے۔ تلوار کی<br />

فتح کو‘‏ فتح کا نام دینا‘‏ کھلی جہالت ہے۔ ہاں ماں کے سے‘‏<br />

پیار سے‘‏ دل جیتو‘‏ تاکہ کمزور طبقے‘‏ سکھ کا سانس لے<br />

سکیں اور انسانیت‘‏ سسکنے بلکنے سے‘‏ مکتی حاصل کر


سکے۔<br />

وہ کون تھے<br />

سوچوں کے گہرے سائے تلے‘‏ آہستہ آہستہ چلتا ہوا‘‏ اپنے<br />

گھر کے دروازے تک‘‏ پہنچ گیا۔ دروازے سے دروازے تک<br />

کا یہ سفر‘‏ اسے صدیوں کا سفر محسوس ہوا۔ قدسیہ کا<br />

گرجنا برسنا‘‏ یقینا غلط نہ ہو گا۔ اس نے سوچا‘‏ میں بھی<br />

کیسا شخص ہوں‘‏ صدیاں لیعنیت میں گزار کر‘‏ گھر خالی<br />

ہاتھ لوٹ آیا ہوں۔ مجھے غیر تو یاد رہے‘‏ یہ یاد نہ رہا‘‏ کہ<br />

بچوں کے لیے‘‏ چکی سے آٹا لینے نکل تھا۔ پھر وہ سر<br />

جھکائے‘‏ گھر میں داخل ہو گیا۔<br />

دروازے سے دروازے تک<br />

ناں ناں‘‏ ناں یہ سب بکواس‘‏ اور ا کے رازق ہونے سے‘‏<br />

انکار کے مترادف ہے۔ ہر پیدا ہونے وال‘‏ اپنا رزق لے کر<br />

پیدا ہوتا ہے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا‘‏ کہ اس کا رزق‘‏ اس<br />

کے ساتھ نہ آئے۔ اس کا رزق ارم بنانے والوں‘‏ یا اس کا<br />

رزق کھا کر‘‏ مر جانے والوں کو‘‏ فراہم کیا جاتا ہے۔ ماسٹر<br />

صاحب‘‏ یہاں شخص ہزاروں سال سے‘‏ بھوکا پیاسا ہے۔<br />

ایسے حالت میں‘‏ کوے کی پیاس کون دیکھتا ہے۔ اسے


پیاسا ہی رہنا ہے۔ ا نے‘‏ اس کے حصہ میں پیاس نہیں<br />

رکھی۔ معاشی ڈسپلن کو‘‏ تباہ کرنے کے باعث‘‏ کوے کی<br />

پیاس نہیں بجھ رہی۔<br />

اسے پیاسا ہی رہنا ہے<br />

میرا مارا جانا‘‏ ایسی کوئی بڑی بات نہیں۔ پریشان ہونے کی<br />

کوئی ضرورت نہیں‘‏ ایسا ہوتا آیا ہے‘‏ ہوتا رہے گا۔ یہ<br />

معمول کا مسلہ ہے۔ محسن کشی‘‏ پہلے سے چلی آتی ہے۔<br />

محسن کشوں سے‘‏ قدرت سب کچھ چھین لیتی ہے‘‏ اور<br />

زمین و آسمان پر‘‏ ذلت و رسوائی‘‏ ان کا مقدر بن جاتی ہے۔<br />

حضرت ابراہیم‘‏ نمرود کے خیر خواہ تھے‘‏ اس نے صلہ<br />

میں اذیت دی۔ حضرت موسی‘‏ فرعون کے ہم درد تھے‘‏<br />

لیکن وہ محسن کش نکل۔ سقراط‘‏ خیر کی چلتی پھرتی<br />

علمت تھا‘‏ اسے زہر پلیا گیا۔ حضرت عیسی‘‏ کوئی<br />

معمولی شخص نہ تھے۔ وہ‘‏ جن کا وہ بھل کر رہے تھے‘‏<br />

وہ ہی انہیں صلیب تک لے آیا۔ حضرت محمد کو‘‏ اچھا<br />

کرنے کے جرم میں‘‏ پتھر مارے گیے۔ ہر طرح کی ازیت دی<br />

گئی۔ حضرت حسین‘‏ خیر کے رستے پر تھے‘‏ جن کی<br />

بھلئی کر رہے تھے‘‏ اور انہیں جہنم کی آگ سےبچانے<br />

کے لیے‘‏ کوشش کر رہے تھے وہ ہی پرلے درجے کے<br />

بدکردار نکلے۔ منصور خیر کا پرچارک تھا‘‏ کتنی اذیت ناکی


سے‘‏ اسے قتل کیا گیا۔ سرمد میں‘‏ ہند سچائی کا سورچ تھا‘‏<br />

اس کے ساتھ کیا گیا‘‏ ہند کا بچہ بچہ جانتا ہے۔<br />

پہل قدم<br />

بابا جی کی باتوں کو‘‏ سب نے سنا اور پسند کیا۔ ادریس<br />

صاحب کی سوئی‘‏ قربانی کے گوشت پر‘‏ اٹکی ہوئی تھی۔<br />

اتنی دیر میں‘‏ پانچ لوگوں کا کھانا‘‏ اندر سے آ گیا۔ چار<br />

لوگوں کے لیے چٹنی ملی لسی‘‏ جب کہ ایک کے لیے‘‏<br />

گوشت سے بھری پلیٹ آئی۔ سب نے‘‏ باطور تبرک چٹنی<br />

ملی لسی سے روٹی‘‏ جو اماں جی کے ہاتھوں کی پکی<br />

ہوئی تھی‘‏ کھائی اور کھانے کو پرذائقہ قرار دیا۔ ادریس<br />

صاحب کا‘‏ موڈ اب بھی خراب تھا۔ انہیں پکائی کے‘‏ ناقص<br />

ہونے کا‘‏ گلہ تھا۔ وہ کیا جانیں‘‏ گھر میں تو گوشت پکا ہی<br />

نہ تھا۔ گوشت کی پلیٹ اور روٹیاں‘‏ چوہدھری صاحب نے‘‏<br />

بجھوائی تھیں۔ وہ ہی سفید آٹے کی روٹیاں‘‏ ادریس صاحب<br />

کے پیٹ میں گئی تھیں۔<br />

ادریس شرلی<br />

رحمو‘‏ نیکی کے رستے سے‘‏ رائی بھر ادھر ادھر نہ ہوا۔<br />

میں انسان تھا‘‏ نادانستہ سہی‘‏ مجھ سے غلطیاں تو ہوتی


رہتی تھیں۔ ا نے‘‏ دو سال مجھے معافی مانگنے کا‘‏ موقع<br />

دیا۔ آخری تین ماہ‘‏ لوگوں نے‘‏ میرے لیے دعائیں کیں۔ ان<br />

کی دعاؤں نے‘‏ مجھے ا کی رحمت سے‘‏ مایوس ہونے<br />

سے بچایا۔ میں ہر لمحہ‘‏ ا کی عطا و رحمت کا امید وار<br />

رہا۔ آخری پندرہ دن‘‏ یقینا بڑے درد ناک اور کرب ناک<br />

تھے۔ جانتے ہو‘‏ یہ ہی میری پوری زندگی کا حاصل تھے۔<br />

میری حالت پر‘‏ لوگوں کو ترس آنے لگا۔ لوگوں نے‘‏<br />

خلوص نیتی سے میرے گناہوں کی بخشش کے لیے‘‏ دعا<br />

کی۔ ا انہیں اجر دے۔ میری موت اور راحت مرزا کی موت<br />

کا موازنہ کرو‘‏ لوگ تو لوگ‘‏ اسے خود‘‏ اپنے گناہوں کی<br />

توبہ کا موقع نہ مل سکا۔ دنیا میں‘‏ راحت مرزا سے زیادہ<br />

بدنصیب‘‏ اور کون ہو گا۔ ذرا غور تو کرو۔<br />

موازنہ<br />

وہ اسے وقت ضائع کرنے کے مترادف سمجھتا تھا۔ اس کا<br />

زیادہ تر‘‏ بیبیاں پاک دامناں اور حضرت شاہ حسین لہوری<br />

کے درباروں پر‘‏ آنا چانا تھا۔ وہ دیر تک‘‏ وہاں بیٹھا اکیل<br />

ہی‘‏ باتیں کرتا رہتا۔ اسے واپسی کوئی جواب ملتا یا نہ ملتا‘‏<br />

کوئی نہیں جانتا۔ اگر کوئی پوچھتا‘‏ تو جواب میں ہنس دینا۔<br />

اس کے اس ہنسنے میں‘‏ اثبات اور نہی کا‘‏ دور تک نام<br />

ونشان تک نہ ہوتا۔


سرگوشی<br />

کتنی عجیب بات ہے‘‏ ان میں سے کسی کو اپنی اخلقی و<br />

روحانی بیماریوں کا علم تک نہیں۔<br />

عللتی استعارے<br />

حضرت پیر صاحب کی باتوں میں حقیقت رقصاں تھی۔ وہ<br />

بےچارے دعا ہی کر سکتے تھے۔ وہ علی رضا کے لیے<br />

کیا کر سکتے تھے۔ ان کی باتیں‘‏ ان کے علقہ کے<br />

چوہدری صاحب کو‘‏ گولی کی طرح لگتی تھیں۔ حالں کہ وہ<br />

کسی کا نقصان نہیں کرتے تھے۔ وہ تو‘‏ اپنے منہ کا لقمہ‘‏<br />

حاجت مندوں کو دے دیتے تھے۔<br />

دوسری بار<br />

آراء دہندگان اردو انجمن<br />

جناب اسماعیل اعجاز<br />

جناب اظہر


جناب تنویرپھول<br />

جناب خلش<br />

جناب ساجد پرویز آنس<br />

جناب سرور عالم راز<br />

جناب ضیا بلوچ<br />

جناب مشیر شمسی<br />

جناب وی بی جی<br />

افسانے جن پر رائے دستیاب ہوئی ہے۔ اس میں کوتاہی یا<br />

غلطی ممکن ہے۔ جس کے لیے پیشگی معذرت چاہوں گا۔<br />

ادریس شرلی<br />

آخری کوشش<br />

چار چہرے<br />

سرگوشی<br />

موازنہ<br />

پہل قدم


اسے پیاسا ہی رہنا ہے<br />

یہ کوئی نئی بات نہ تھی<br />

دروازے سے دروازے تک<br />

وہ کون تھے<br />

پنگا<br />

دائیں ہاتھ کا کھیل<br />

ا جانے<br />

پاخانہ خور مخلوق<br />

ان پڑھ<br />

لروا اور انڈے بچے<br />

سچائی کی زمین<br />

ابھی وہ زندہ تھا<br />

حللہ<br />

بازگشت<br />

فقیر بابا<br />

بیوہ طواءف


بڑا آدمی<br />

کریمو دو نمبری<br />

معالجہ<br />

میں ابھی اسلم ہی تھا<br />

پٹھی بابا<br />

جواب کا سکتہ<br />

ماسٹر جی<br />

بڑے ابا<br />

گناہ گار<br />

گناہ گار<br />

انا کی تسکین<br />

انگریزی فیل<br />

چوتھی مرغی<br />

تنازعہ کے دروازے پر<br />

کامنا<br />

ابا جی کا ہم زاد


دو دھاری تلوار<br />

شیدا حرام دا<br />

عللتی استعارے<br />

بیوہ طوائف<br />

آراء<br />

جون<br />

ادریس شرلی<br />

2014<br />

,23<br />

بہت عمدہ جناب۔ ایسی تحریروں کی معاشرے کو بہت شدت<br />

سے ضرورت ہے۔ لوگوں کو ہر پہلو سے ائینہ دکھاتے رہنا<br />

ہی اپ کی تحریروں کا مقصد ہے اور وہ اپ بہترین طریقے<br />

سے کر رہے ہیں۔<br />

ادریس صاحب میں وہ وہ خصلتیں پائی جاتی ہیں جو اکثر<br />

عورتوں میں پائی جاتی ہیں،‏ لیکن کچھ مردوں میں بھی یہ<br />

خصلتیں پائی جاتی ہی ہیں۔ ہمارا ذاتی خیال کچھ اس بارے<br />

میں یہ ہے کہ ہمیں نیکی اور بدی کے فرق کو بہتر طور پر<br />

سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کئی ایسی نام نہاد نیکیاں<br />

معاشرے میں عام ہیں جس سے بہت نقصان ہو رہا ہے۔


جس کی مثال ہم کچھ یوں دیں گے کہ کئی غیر قانونی<br />

سرکاری مراعات یہ کہہ کہ جائز قرار دے دی جاتی ہیں<br />

‏:چھوڑیں جی،‏ یہ غریب ادمی ہے،‏ اس کا بھل ہو جائے گا:‏<br />

۔۔۔ سرکاری مال ، مالL مفت اور دLل بے رحم۔<br />

دوسری مثال ان عمر رسیدہ لوگوں کی بھی ہے جنہیں ہم<br />

اپنے بچوں سے چاچا اور انکل کہلواتے ہیں۔ بچوں کو یہ<br />

احساس ضرور ہونا چاہیئے کہ عمر کے ساتھ لزماø زندگی<br />

کا وسیع تجربہ منسلک ہوتا ہے،‏ لیکن اس کا ہر گز یہ<br />

مطلب نہیں ہوتا کہ ہر بات میں وہ درست ہوں۔ بقول ہمارے<br />

دیرینہ دوست شیخ سعدی مرحوم کے،‏ ‏:بزرگی بہ عقل<br />

ہست،‏ نہ بہ سال:۔<br />

اندھی تقلید چاہے مذہب کی ہی کیوں نہ ہو،‏ ہم ذاتی طور پر<br />

اس کے حق میں نہیں ہیں۔ سو ہمارے خیال میں کہانی کے<br />

مرکزی کردار جیسے لوگوں کو ان کے منہ پر اپنے دل کی<br />

بات مناسب انداز میں بتا دینی چاہیئے اور ہر کسی کی عزت<br />

اتنی ہی کرنی چاہیئے جتنے اس کے اعمال کا حق ہو۔<br />

ہمارے ہاں تو اپ جانتے ہی ہیں کہ کسی کی تعظیم اور اس<br />

کا مقام،‏ اج بھی لوگ،‏ یا تو اس کی دولت کے حساب سے<br />

کرتے ہیں یا پھر عمر کے حساب سے۔ ہماری نظرمیں یہ<br />

پیمانہ درست نہیں۔ بڑی گاڑی سے اترے والے شخص کی<br />

خدمت بھاگ بھاگ کر کی جاتی ہے،‏ چاہے وہ خود نہ بھی


چاہے،‏ جبکہ اس ناچیز جیسا کوئی شخص سنیارے کی<br />

دکان میں جانا چاہے تو محافظ دروازے پر ہی روک کر<br />

پوچھ گچھ شروع کر دیتا ہے۔ دوسری طرف اگر کوئی<br />

بزرگ،‏ بقول اپ ہی کے،‏ اپنا لچ بیچ میں تلنے کی کوشش<br />

کرے ‏(ویسے یہ محاورہ بھی کیا ہی خوب کسی نے بنایا<br />

ہے،‏ ہمیں بہت پسند ہے)‏ تو اس پر خاموشی اختیار کر لی<br />

جاتی ہے۔<br />

سو ہمارے خیال میں جب تک تعظیم کا معیار درست نہیں<br />

ہوتا،‏ معاشرتی نا انصافیاں بڑھتی ہی چلی جائیں گی۔ لوگوں<br />

کو ہر پہلو سے ائنہ اپ خوب دکھاتے رہتے ہیں تاکہ لوگ<br />

اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے اندر موجود برائی کو<br />

جان پائیں۔ اور اگر وہ جان گئے تو اس میں سب کا بھل ہو<br />

گا۔<br />

ایک بات ہم سے کہنا رہ گئی تھی۔ اپ کی تحریروں میں<br />

محاوراتی زبان کا عنصر نمایاں ہے۔ اسے پڑھ کر ہمارے<br />

علم میں بہت اضافہ ہوتا ہے اور یقیناø اس کے اثر سے ہم<br />

بھی اپنی بات کو بہتر،‏ پر اثر اور با معنی بنا سکا کریں<br />

گے۔ جس پر شکر گزار ہیں۔<br />

ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ۔<br />

وی بی جی


جولئی<br />

آخری کوشش<br />

2013 ,15<br />

فی زمانہ نثر نگاری کا فن زنگ آلود ہو چلہے۔ کوئی!‏<br />

رسالہ بھی اٹھا کر دیکھئے توسوائے چند اوسط درجہ کے<br />

افسانوں اور چند منظومات ‏(غزل اور آزاد نظمیں)‏ کے<br />

علوہ کچھ اور نظر نہیں آتا۔ ماضی میں رسالوں میں ادبی،‏<br />

علمی اور تحقیقی مضامین کثرت سے ہوا کرتے تھے۔ تنقید<br />

و تبصرہ فن کی حیثیت سے سیکھے اور سکھائے جاتے<br />

تھے اورافسانہ نگاری بھی اونچے معیار کی حامل تھی۔ اب<br />

ادب پر ایک عمومی زوال تو طاری ہے ہی نثر نگاری<br />

خصوصا اضمحلل کا شکار ہے۔ غزل کہنا لوگ آسان<br />

سمجھتے ہیں ‏(حالنکہ ایسا نہیں ہے)۔ غزل میں وقت کم<br />

لگتا ہے اور نظم میں اور نثر میں زیادہ ۔ نثر مطالعہ اور<br />

تحقیق بھی چاہتی ہے جس سے ہماری نئی نسل بیگانہ ہو<br />

کر رہ گئی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ کوئی زبان بھی صرف ایک<br />

صنف سخن کے بل بوتے پر پھل پھول نہیں سکتی لیکن<br />

اردو والے اس معمولی سی حقیقت سے یا تو واقف ہی نہیں<br />

ہیں یا دانستہ اس سے صرف نظر کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی<br />

اردو محفلیں بھی اسی مرض کا شکار ہیں اور وہاں بھی


سوائے معمولی غزلوں کے ‏(جن میں سے بیشتر تک بندی<br />

ہوتی ہیں)‏ کچھ اور نظر نہیں آتا۔ آپ کی نثرنویسی میں<br />

مختلف کوششیں اس حوالے سےنہایت خوش آئند ہیں۔ آپ<br />

مطالعہ کرتے ہیں ‏،سوچتے ہیں اور انشائیے لکھتےہیں۔<br />

اس جدو جہد کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ میں اپی مثال<br />

کسی خودستائی کی شہ پر نہیں دیتا بلکہ دوستوں کو یہ<br />

بتانا چاہتا ہوں کہ شوق،محنت اور لگن ہو تو بہت کچھ ہو<br />

سکتا ہے۔ میں نے انجینیرنگ پر نصابی کتابیں لکھی ہیں۔<br />

ان کے علوہ غزل،‏ نظم،‏ افسانے،‏ ادبی مضامین،‏ تحقیقی<br />

مضامین،‏ ادبی تنقید وغیرہ سب ہی لکھا ہے۔ یقینا سب کچھ<br />

اعلی معیار کا نہیں ہے لیکن بیشتر اچھے معیار کا ہے اور<br />

ہندو پاک کے معتبر اور موقر رسالوں میں شائع ہوتا ہے۔<br />

میں آپ کی انشائیہ نگاری کا مداح ہوں اور درخواست کرتا<br />

ہوں کہ برابر لکھتے رہہئے۔زیر نظر انشائیہ اچھا ہے لیکن<br />

یہ مزید بہتر ہو سکتا تھا سو اپ وقت کے ساتھ خود ہی کر<br />

لیں گے۔ خاکسار کی داد حاضر ہے ۔ باقی راوی سب چین<br />

بولتا ہے۔<br />

سرور عالم راز<br />

سلم اس تحریر پر ہم کچھ نہ لکھیں گے۔ فقط یہی کہ اسے<br />

پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور تحریر کے اختتام


کے قریب سانسیں رک جاتی ہیں۔ اور پھر منہ کھل کا کھل<br />

رہ جاتا ہے۔ اس کے اندر جو کرب ہے اور جو کچھ یہ<br />

انگلیاں لکھنے کو دوڑ رہی ہیں،‏ اسے بصد مشکل روکتے<br />

ہوئے،‏ ایک بار پھر سے بھرپور داد ۔۔۔دعا گو<br />

وی بی جی<br />

نومبر<br />

چار چہرے<br />

2013 ,26<br />

Pehla chehra yaqeenan sab se mumtaaz<br />

hai. Hairangi ki baat yeh hai keh iss taraf<br />

koi jaata he nahi. Danish ka barqaraar<br />

rehna aur usske liye apne aap ko qurban<br />

karna buhot baRi baat hai aur yehi baat<br />

pehle chehre ko dosrooN se mumtaz<br />

karti hai.<br />

Fikr angaiz khayyal aur umah tahreer.<br />

خلش<br />

آپ کا مختصر انشائیہ دیکھا تو مجھ کو ١٩۴٨ کے آس


پاس والد مرحوم کا لکھا ہوا ایک مضمون ‏:عورت کی<br />

فطرت:‏ یاد آ گیا جس کالب لباب یہ تھا کہ یہ معمہ اب تک<br />

حل ہوا ہے اور نہ آئندہ اس کے حل ہونے کی کوئی امید<br />

ہے۔ آپ کاانشائیہ دیکھا کہ آخری چند سطروں میں آپ نے<br />

خیال ظاہر کیے ہے کہ ان چار چہروں کے مطالعہ سے یہ<br />

گتھی سلجھ سکتی ہے۔ میں صرف جذباتی طور پر ہی نہیں<br />

بلکہ فکری سطح پربھی والد مرحوم سے زیادہ متفق ہوں۔<br />

آپ جب اس معمہ کو سمجھ لیں تو اپنے ارادت مندوں کو<br />

ضرور حل سے آگاہ کیجئے گا!‏ باقی رہ گیا راوی تو وہ<br />

چین بولتا ہے۔<br />

سرور عالم راز<br />

احباب من سلم مسنون<br />

میرا بھی یہی خیال ہے کہ محترم راز چاند پوری نے درست<br />

فرمایا تھا ویسے یہ بھی پیش نظر رہے کہ ایک حدیث کا<br />

مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ عورت پسلیکی ہڈی سے پیدا<br />

ہوئی ہے ‏،اسے بالکل سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرو ورنہ<br />

توڑ بیٹھو گےاس کی کجی کے ساتھ اس سے فائدہ اٹھاتے<br />

رہو<br />

والسلم<br />

تنویرپھول


جولئی<br />

سرگوشی<br />

2014 ,06<br />

آپ کاانشائیہ ‏"سرگوشی"‏ آپ کے مخصوص طرز فکر<br />

وبیان کا اعلی نمونہ ہے۔ ایک ایک جملہ میں ایک داستان<br />

پوشیدہ ہے۔ بین السطور کیا کیا نہیں کہہ دیا گیا ہے۔ پنجابی<br />

سے میں نا واقف ہوں پھر بھی سیاق و سباق سے کچھ<br />

سمجھ ہی گیا۔ اگر آپ پنجابی اشعار،‏ کہاوتوں اور فقروں کا<br />

ترجمہ بھی لکھ دیا کریں تو ہماری مشکل آسان ہو جائے<br />

گی۔ اس سے قبل بھی آپ کے کئی انشائیے نظر آئے لیکن<br />

اپنی بد تقدیری کے ہاتھوں ان سے مستفید نہ ہو سکا۔ اب<br />

واپس جا کر ان کو پڑھنے کا ارادہ ہے۔ رمضان چل رہے<br />

ہیں۔ اس مبارک ماہ میں ایسے مضامین اور بھی دل پذیر ہو<br />

جاتے ہیں۔ جزاک ا خیرا۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔<br />

سرور عالم راز<br />

جون<br />

موازنہ<br />

2014 ,27


جناب عزت افزائی کا بہت شکریہ۔ ہمارے لیئے اعزاز کی<br />

بات ہے کہ اپ کے قلم نے ہمیں اس لئق سمجھا ہے۔ لیکن<br />

ایک گزارش کرنا چاہیں گے کہ صاحب!‏ یہ تعریفیں ہم سے<br />

برداشت نہیں ہوتیں۔ سمجھ لیجے کہ تعریفیں وی بی جی<br />

کی موت ہیں۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اپ نے کس<br />

قدر خلوص اور محبت سے ہمارے بارے میں اپنے خیالت<br />

کا اظہار فرمایا ہے۔ اور یقیناø اپ نے حق گوئی کا مظاہرہ<br />

کیا ہو گا۔ جیسا محسوس ہؤا ویسا بیان کیا ہو گا۔ ہم شکر<br />

گزار ہیں کہ اس لئق سمجھا اپ نے۔اپ نے بہت ہی<br />

خوبصورت انداز میں جواب عنایت فرمایا ہے۔ اپ قلم کار<br />

ہیں سو اپ بات کہنے کا فن جانتے ہیں۔ لیکن اس گہرائی<br />

سے مشاہدہ کرنا ظاہر ہے کہ گہری سوچ اور سلجھا ہؤا<br />

ذہن چاہتا ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔<br />

جواب بھی ہمیں بہت پسند ایا ہے۔ دراصل کئی ایسے سوال<br />

ہوتے ہیں،‏ جن کے ذہن میں اتے ہی،‏ لوگ انہیں جھٹلنا<br />

شروع کر دیتے ہیں کہ یہ تو سوچنا بھی گناہ ہے۔ اور اس<br />

طرح گویا یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ ان سوالوں کا کوئی<br />

جواب نہیں ہے جو انسان دے سکے۔ اور نتیجہ یہ کہ اپنے<br />

اپ کو دھوکہ دیتے رہتے ہیں اور ایمان کی کمزوری کا<br />

شکار رہتے ہیں۔ ہمارے خیال میں تمام سوالت کے جواب<br />

موجود ہوتے ہیں۔ ا پاک اور اس دنیا کا وجود ہمیں غیر


منطقی نہیں نظر اتا۔ اگر ہم سوچنے پر ہی پابندی لگا دیں،‏<br />

تو جواب کہاں سے ائیں گے۔ ایمان پختہ ہونا چاہیئے،‏ راز<br />

کھلتے چلے جاتے ہیں۔تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد۔۔۔<br />

بہت ہی عمدہ تحریر ہے۔ ظاہر ہے کہ کئی سوالوں کے<br />

جواب دیتی ہے۔ سلجھا ہؤا انداز تحریر ہے۔ایک بار پھر<br />

بھرپور داد کے ساتھ ۔<br />

وی بی جی<br />

جون<br />

پہل قدم<br />

2014<br />

,22<br />

بہت عمدہ جناب۔ بہت ہی اعلی تحریر ہے۔ بھرپور داد۔ اپ<br />

کو بات کہنے کا فن اتا ہے،‏ اور ظاہر ہے کہ یہی ایک قلم<br />

کار کے فن کا مظہر ہے۔یہ تحریر جس راستے پر چلنے کا<br />

سبق دے رہی ہے جناب،‏ وہ بہت ہی مشکل راستہ ہے۔ اس<br />

قدر مشکل کے تصور کرنا بھی محال۔ کاش کہ ہم لوگ اس<br />

مقام تک پہنچ سکیں۔مشکلت صرف یہی نہیں جو تحریر<br />

سے عیاں ہیں،‏ بلکہ کچھ برعکس بھی ہیں۔ اپ نے تاریخ<br />

میں سے کچھ مثالیں قلمبند کی ہیں،‏ لیکن سچ پوچھیں تو<br />

ہم ایسی ہزاروں مثالیں پیش کر سکتے ہیں،‏ جہاں برا


کرنے والے کو اس کے کیئے کے برابر سزا نہیں ملی۔ کئی<br />

ایسی مثالیں بھی ہیں جن میں سرے سے سزا ملی ہی نہیں،‏<br />

بلکہ ظلم کرنے والے اخری سانس تک عیاشی اور ظلم<br />

کرتے رہے۔ کئی مثالیں تو ہمارے سامنے ہی موجود ہیں<br />

جہاں شرفا مہینوں چارپائی پر کھانس کھانس کر اور ایڑیاں<br />

رگڑ رگڑ کر مرتے ہیں،‏ جبکہ ظالم لوگوں کے لیئے قدرت<br />

نے قدرے اسان طریقہ موت بھی ایجاد کر رکھا ہے جیسے<br />

دل کا دورہ پڑنے سے اچانک دنیا سے اٹھ گیا۔ ہمیں یقین<br />

ہے کہ اگر دنیا میں انصاف ہو رہا ہوتا اور ہر ظالم کو حق<br />

کے مطابق سزا مل رہی ہوتی،‏ تو،‏ نہ تو یہاں ظلم عام ہوتا،‏<br />

اور نہ ہی جنت اور دوزخ کے وجود کی کوئی ضرورت<br />

تھی۔جب یہ سب انسان دیکھتا ہے،‏ کہ دنیا میں انصاف نہیں<br />

ہے۔ اچھا کرتا اور برا نتیجہ لیتا ہے تو ظاہر ہے کہ قدم<br />

ڈگمگا جاتے ہیں۔ ا پر اعتماد بھی کہنے کو تو بہت ہوتا<br />

ہے،‏ لیکن دل میں کمزور پڑ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں<br />

اس راستہ پر چلنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔باقی جناب اپ<br />

کی تحریر اس قدر خوبصورتی سے کئی پہلو سمجھا رہی<br />

ہے کہ مذید کچھ کہنے کو رہ ہی نہیں جاتا۔ ہماری طرف<br />

سے بھرپور داد قبول کیجے۔ امید ہے کہ پڑھنے والے جس<br />

قدر ہو سکا،‏ اثر لیتے ہوئے،‏ سچائی کے راستہ پر ڈٹے<br />

رہیں گے۔ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ<br />

وی بی جی


ہم معذرت خواہ ہیں کہ ہماری باتوں نے اپ کو کل سے<br />

عجیب سی کشمکش اور بے چینی میں مبتل کر رکھا ہے۔<br />

ہم نے کوشش کی کہ جلد سے جلد حاضر ہو سکیں سو<br />

50<br />

-<br />

حاضر ہو گئے ہیں۔پہلے تو ہم یہ بتاتے چلیں کہ جو اپ<br />

40 سال سے کر رہے ہیں وہ بہت بڑا کام ہے۔ ہم نے بھی<br />

ایسی ہی تحریریں پڑھی ہیں اور ہمیں یاد تک نہیں کہ وہ<br />

کون لکھتے تھے۔ اور بھی کئی لوگ ہیں جو اس علمی<br />

خزانے سے استفاضہ حاصل کرتے ہیں۔ اپ کی تحریروں<br />

نے کئی لوگوں کو اگہی بخشی ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں<br />

اپ کا نام بھی یاد نہ رہے،‏ اور تحریروں کو سرسری پڑھ<br />

کر چلے جائیں۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ یہی وہ تحریریں ہیں<br />

جو ان کے لشعور میں پیوست ہو جاتی ہیں۔ اور پھر اہستہ<br />

اہستہ شعور کا حصہ بنتی چلی جاتی ہیں۔اپ جانتے ہی ہیں<br />

کہ ہم قلم کار نہیں ہیں سو کچھ بھی لکھتے ہیں تو وہ<br />

بکھرا بکھرا اور کئی بار بے ربط سا ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسا<br />

ہی یہاں بھی ہؤا۔اصل میں بات پیر صاحب کی تھی،‏ سو ہم<br />

اسے پیری میں ہی لے گئے۔ جو طرز عمل پیر صاحب کا<br />

اس تحریر میں تھا وہ ہمارے خیال سے صرف پیروں کے<br />

ہی بس کی سی بات ہے۔ سو ہم نے اس میں پیش انے والی<br />

مشکلت کو ذرا سا بیان کر دیا اپنی محدود عقل کے حساب<br />

سے۔ مشکلت تو اس بھی کہیں ذیادہ بڑھ کر ہیں۔ اس سے


ایک درجہ اوپر کی مشکل بھی موجود ہے جسے الفاظ بھی<br />

دئیے جا سکتے ہیں،‏ لیکن اس کے بعد کی مشکلت کو تو<br />

الفاظ بھی دینا ممکن نظر نہیں اتا ہمیں۔ ہم اس میں ذیادہ<br />

نہیں جاتے،‏ وگرنہ شاید ہم اپنی بے تکی باتوں سے اپ کو<br />

مذید الجھا ہی نہ دیں۔ا پاک ہم سب کو طاقت دے کہ ہر<br />

مشکل برداشت کریں لیکن نیکی کے راستے سے قدم نہ<br />

بہکیں۔<br />

ہیں۔ یہ کوا پیاسا تھا،‏ پیاسا ہے اور پیاسا ہی رہے گا۔آپ<br />

کی تحریر میں بہت درد ہوتا ہے اور ہر بات آپ کے دل سے<br />

نکلی ہوئی لگتی ہے۔ نئی نسل ہماراہی عکس ہے۔ ہم نے<br />

ان کے لئے جو روایات چھوڑی ہیں وہ ان سے الگ<br />

کیونکر ہو سکتے ہیں۔ لوگوں سے جب ذکر ہوتا ہے تو<br />

ہمارے یہاں بندھا ٹکا جملہ ہوتا ہے کہ ‏"دعا کیجئے"‏ اور<br />

ظاہر ہے کہ صرف دعا سے کیا ہوتا ہے۔ اونٹ تو بھاگ<br />

چکا ہے۔ اب ہم لکھ دعا مانگیں وہ لوٹ کر نہ L یں آنے کا۔<br />

ا ا خیر سل۔<br />

سرور عالم راز<br />

بہت ہی شاندار تحریر ہے۔ ایک تو جس طرح یہ کہانی کوے<br />

کے پیاسے ہونے کی تشریح کرتی ہے بہت ہی خوب ہے<br />

اور پھر اختتام تو سبھان ا ۔۔ ہماری طرف سے بھرپور


داد۔ محترم سرور عالم راز سرور»‏ صاحب کی باتوں سے<br />

بھی استفاضہ حاصل کیا۔اپ کی باتیں بجا ہیں۔ حاکم ہمیشہ<br />

محکوم کی کی وجہ سے حاکم رہا ہے اور رہے گا۔ ہمیں<br />

اس سے کیا کہ ہماری تاریخ میں کیا کچھ بھرا پڑا ہے۔<br />

ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ہارون الرشید اور<br />

مامون الرشید کے دور میں فرقہ معتضلہ کی کیا حیثیت<br />

تھی۔ خاندانL برامکہ کے ساتھ کیا ہؤا۔ کیس کی لش بازار<br />

میں کتنے دن لٹکی رہی۔ اور حضرت امام احمد بن حنبل<br />

کے ساتھ کیا کیا گیا۔ ہمیں صرف ان کے دور حکومت کی<br />

تعریف کرنی ہے کیونکہ وہ مسلمان خلفا تھے۔ ہمیں مغلیہ<br />

دور کی بھی تعریف کرنی ہے ہم کیوں جانیں یا مانیں کہ<br />

نور جہاں شیر افغن کی بیوی تھی یا نہیں۔ اسے کس نے<br />

کیوں قتل کروایا۔ ہمیں ان کی تعریف ہی کرنی ہے۔ اپ کئی<br />

بار کہہ چکے ہیں کہ مورخین نے بہت ظلم کیا ہے۔ بالکل<br />

درست کہتے ہیں اپ۔جناب کوا پیاسا رہے گا۔ درست۔ لیکن<br />

کوے کو پانی کی تلش جاری رکھنی چاہیئے اور ہم اس<br />

کے لیئے کوشاں رہیں گے۔ قدرت کا کھیل ہی ایسا ہے۔<br />

کوے کو پیاس دی ہے اور امتحان یہی ہے کہ اسے پانی پل<br />

کر دکھاؤ تو تم کامیاب۔ یہی جہت ہے یہی جہاد۔ہماری نظر<br />

میں یہ اپ کی زور دار تحریروں میں سے ایک ہے۔ شاندار<br />

ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور دادکتاب کی اشاعت مبارک<br />

ہو۔ ہمارے خیال میں اپ قصور میں رہائش پذیر ہیں۔ ہمارا


مسلئہ کچھ ایسے ہے کہ ہمارا کوئی پتہ نہیں ہے۔ جلد<br />

دریافت کریں گے اور اپ کو ضرور مطلع فرمائیں گے۔<br />

ہماری دلی خواہش ہے کہ ہم ‏:خوشبو کے امین:‏ پڑھ کر اپ<br />

جیسے قلم کار سے استفاضہ حاصل کر سکیں۔ایک بار پھر<br />

بھرپور داد کے ساتھ<br />

وی بی جی<br />

عمدہ پر فکر تحریر سے ہمیں جھنجھوڑنے کا بے حد<br />

شکریہ مگر صاحب ہم سبھی اپنا اپنا کردار نبھاتے اپنی<br />

اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں ہم میں سے ہر شخص<br />

دوسرے کے ئے امتحان ہے اور اسی امتحان پر پورا<br />

اترنے کا نام ڈسپلن ہے اور یہ ڈسپلن حق ادا کرنے کا نام<br />

ہے حق مانگنے کا نہیں ، مگر آج الٹی گنگا بہ رہی ہے ہر<br />

شخص اپنا حق مانگ رہا ہے مگر دوسروں کا حق ادا نہیں<br />

کر رہا یہیتو ڈسپلن کی خلف ورزی ہےایسی پر فکر<br />

تحریروں کے آئینے میں ہمیں ہمارا چہرہ دکھانے کا<br />

شکریہ قبول فرمائیےکبھی نہ کبھی شرم ہمیں ضرور آئے<br />

گیوالسلم<br />

اسماعیل اعجاز


یہ کوئی نئی بات نہ تھی<br />

جون<br />

2014 ,18<br />

کیا ہی بات ہے جناب ۔ بہت خوب۔ بہت باریک معاملے پر قلم<br />

اٹھایا ہے اور کیا ہی خوب اٹھایا ہے۔ یہ انداز بھی بہت پسند<br />

ایا جس طرح اپنے معاملے کو ایک مقالمہ کی شکل دی اور<br />

بات واضح سے واضح طور تر ہوتی چلی گئی۔ ہمیں سو فی<br />

صد اتفاق ہے اپ کی اس بات سے۔ معاملے کو تھوڑا وسیع<br />

کر کے دیکھیں تو بات وہیں جنون و خرد کی لڑائی پر اتی<br />

ہے۔ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ جنوں اورد کی طرح ہے اور<br />

عموماø کسی چیز کا حقیقی اور حتمی احساس ہوتا ہے۔ خرد<br />

کو دلئل چاہیئں۔ وہی فرق جو وکالت اور نفسیات کا اپ کی<br />

تحریر میں جھلکتا محسوس ہوتا ہے۔نفسیات چونکہ اس<br />

چیز کا مطالعہ کرتی ہے ‏:جو ہے:،‏ اس لیئے حقیقت کے<br />

قریب تر ہے۔ جبکہ وکالت کا زیادہ تر زور اس پر ہے کہ<br />

‏:کیا ہونا چاہیئے:‏ حالنکہ ہمارے نذدیک ‏:کیا ہونا چاہیئے:‏<br />

کا اس وقت تک تعین ہی نہیں کیا جاسکتا جب تک یہ مکمل<br />

طور پر جان نہ لیا جائے ‏:جو ہے:‏ ۔اپ نے بجا فرمایا کہ<br />

ہمارا معاشرہ،‏ اکہرے نہیں بلکہ دوہرے معیار کا شکار ہے<br />

بلکہ ہم تو کہیں گے کہ کئی ہرے معیاروں کا شکار ہے۔<br />

یہی وجہ ہے کہ بقول شخصے ‏:ہر شخص چاہتا ہے کہ اس


کی بیوی وہ کچھ نہ کرے جو وہ چاہتا ہے کہ پڑوسی کی<br />

بیوی کرے:‏ اس کی وجہ ہمیں جو محسوس ہوتی ہے وہ<br />

بھی اپ نے بیان فرما ہی دی ہے،‏ کہ ہم لوگوں نے اسلم<br />

کو اپنی ہندوستانی تہذیب کے ساتھ ہم اہنگ کرنے کی<br />

کوشش کی ہے۔ اسلم میں غیرت کا ایسا تصور ہمیں کہیں<br />

نہیں ملتا،‏ وہاں کافی باتیں کچھ مختلف انداز میں ہیں۔لیکن<br />

خیر یہ واقعی کوئی نئی بات نہیں ہے،‏ لیکن اپ نے اسے<br />

اپنے قلم کے زور سے نیا بنا دیا ہے۔ مقالمہ بہت اچھا لکھا<br />

ہے اپ نے۔ ہمیں تو پڑھ کر بہت مزا ایا جناب۔ایک بار پھر<br />

بھرپور داد کے ساتھ ۔۔۔<br />

وی بی جی<br />

دروازے سے دروازے تک<br />

جون<br />

2014 ,14<br />

بہت ہی دلسوز تحریر ہے جناب۔ کیا خوب قلم چلئی۔ یقین<br />

جانیے تحریر پڑھ کر اپ کے قلم کی تعریف کرنے کی<br />

بجائے،‏ رونے کا دل چاہتا ہے۔تحریر کا پہل حصہ جس<br />

موضوع پر قاری کا دل نرم کرتا ہے،‏ اس پر کچھ کہتے بھی<br />

شرم محسوس ہوتی ہے لیکن اس دلسوز حقیقت کو جان


لینے کے بعد تحریر کا دوسرا حصہ صحیح طور سے<br />

سمجھ بھی اتا ہے اور دل پر اثر کرتا ہے۔ مسلمان معاشرہ<br />

اتنی بیماریوں کا شکار ہو چکا ہے کہ بندہ کیا کہے اور کیا<br />

نہ کہے۔ لوگ اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ ہر معاملہ<br />

کو حکومت کی زمہ داری قرار دے کر،‏ پہلو تہی کر جاتے<br />

ہیں۔ یہاں تک کہ کبھی کبھی ہمیں لگتا ہے کہ لوگ چاہتے<br />

ہیں وہ گھروں میں سکون سے بیٹھے رہا کریں اور<br />

حکومت سب کو گھر گھر ہر مہینے پیسوں کی بوری دے<br />

جایا کرے۔ انہیں سمجھ نہیں اتا کہ اناج نہیں اگائیں گے تو<br />

نہیں کھائیں گے۔ ریڑھی پر لوگوں کو دھوکے سے گندے<br />

ٹماٹر بیچنے وال خود حکومت سے رنجیدہ ہے کہ وہ<br />

دھوکے باز ہے۔ لوگ نہیں سمجھتے کہ وہ ایجادات،‏ تعلیم،‏<br />

زراعت وغیرہ میں محنت کر کہ دنیا کو کچھ دیں گے نہیں<br />

تو دنیا انہیں موبائل اور کمپوٹر مفت فراہم نہیں کرے گی۔<br />

مذہبی معاملت میں انتہا پسندی یہی ہے کہ ایک فرقہ قبر<br />

کو سجدے تک کرنے پر راضی ہے تو دوسرا قبروں کو<br />

لتیں مارتا پھرتا ہے۔ برداشت ختم ہو چکی ہے۔ ایک<br />

انگریز بوڑھی سی خاتون ایک دن ٹی وی پر کسی پروگرام<br />

میں بہت پیار اور حیرت بھرے لہجے میں فرما رہی تھیں<br />

کہ اخر مسلمانوں کو کیوں کمیونٹی بن کر رہنا نہیں ا رہا<br />

ہے۔ وہ نہیں سیکھ رہے اور نقصان بھی وہ اپنا ہی کرتے<br />

جا رہے ہیں۔ اس کے نذدیک یہ بہت معمولی سی بات تھی


کہ اتنی سی بات نہیں سمجھ ا رہی۔خیر ہمیں تو اب اپنے اپ<br />

سے ڈر لگنے لگ گیا ہے کہ اگر ہم اپنے قلم پر قابو نہ پا<br />

سکے تو ہمارا حال وہی ہو گا جو ساحر اور جالب کا ہؤا<br />

تھا۔ لیکن خیر،‏ ابھی ہمیں اپنے اندر موجود،‏ اس بے حسی<br />

پر بھروسہ ہے،‏ جو اس معاشرہ نے ہمیں تحفہ میں دی<br />

ہے۔تحریر پر ہم اپ کو ایک بار پھر بھرپور داد دیتے ہیں۔<br />

8 وی بی جی<br />

جون<br />

وہ کون تھے<br />

2014 ,11<br />

سلم عاجزانہ<br />

آپ کی تحریر پڑھی دل میں برسوں سوۓ ہوۓ جذبہ رحم<br />

دلی جگا گئی ہماری طرف سے اتنی اچھی تحریر لکھنے پر<br />

بھرپور داد قبول کیجئے جناب ڈاکٹر صاحب ہمارا علم اتنا<br />

وسیع نہیں کہ ہم اس بات کی گہرائی تک پہنچ سکیں لفظ<br />

‏"حضرت"جس کے کافی لفظی معنی ہیں لیکن اکثر یہ لفظ<br />

تعظیما استعمال کیا جاتا ہے لیکن زیادہ تر یہ لفظ کسی<br />

پیغمبر یا ا کے ولی کے نام کے ساتھ آیا


‏".......حضرت مہاتما بدھ کی تعلیمات"‏<br />

ہمیں مہاتما بدھ کے بارے میں زیادہ علم نہیں لیکن میں<br />

نے یہ لفظ ان کے نام کے ساتھ پہلے کبھی نہیں پڑھا ہم<br />

چونکہ مہاتما بدھ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ممکن<br />

ہے کہ پہلے بھی ان کے نام کے ساتھ یہ لفظ استعمال ہوا<br />

ہو لیکن پھر بھی آپ سے گزارش ہے کہ تسلی بخش جواب<br />

دیں جس سے ہمارے علم میں اضافہ ہوغلطی گستاخ معاف<br />

دعا ہے کہ ا آپ کو اور زور قلم عطا کرے مجھے اپنی<br />

دعاؤں می یاد رکھیں<br />

وی بی جی<br />

جون<br />

پنگا<br />

2014<br />

,07<br />

آداب و تسلیمات کے بعد بہت دلکش پیرائے میں لکھی ہوئی<br />

تحریر ہے،‏ داد آپ کا حق ہے وصول پائیے<br />

اظہر<br />

آپ کو علم ہی ہے کہ میں آپ کے مضامین کا پرانا مداح


ہوں۔ روز اول سے ہی میں اس خیال کا ہوں کہ آپ کو اپنے<br />

مضامین کتابی صورت میں شائع کوادینا چاہئیں۔ خدا خدا<br />

کرکے آپ بالخر اس پر راضی ہو گئے ہیں سو بصد عجز و<br />

محبت عرض ہے کہ نصف ‏"رائلٹی"‏ کا میں مستحق ہوں!‏<br />

یہاں لکھے دے رہا ہوں تاکہ ‏"سند رہےاور بوقت ضرورت<br />

کام آوے"۔آپ کا انشائیہ ‏"پنگا"‏ آپ کے مخصوص انداز<br />

فکر و بیان کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں حسب معمول<br />

زندگی اور دنیا کے چہرے سے نقاب اٹھانے کی کوشش کی<br />

گئی ہے۔ ہر چند کہ بہت سی باتیں ظاہر سی ہیں لیکن<br />

‏"گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را"‏ والی بات بھی<br />

تو اہم ہے۔ بہت خوب لکھا ہے آپ نے۔ ا آپ کو سلمت<br />

رکھے۔ لکھتے رہئے اور یہ بتائیں کہ کتاب کب تک آ رہی<br />

ہے۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔<br />

سرور عالم راز<br />

بہت خوب تحریر ہے۔ ہمیشہ کی طرح داد حاضر۔ معذرت<br />

بھی چاہتے ہیں کہ فوری حاضری نہیں دے پاتے۔ جس کی<br />

وجہ یہ ہے کہ اپ کی تحریر کو لفظ لفظ پڑھنا ہوتا ہے،‏ اور<br />

اسے انہماک سے پڑھتے وقت یکسوئی ضروری ہوتی ہے۔<br />

جبکہ کاروبارL زندگی اس کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ جیسے ہی<br />

فرصت پاتے ہیں تو حاضر ہو جاتے ہیں۔جان کر بہت خوشی


ہوئی کہ طباعت کا کام جاری ہے،‏ اور جلد اپ کی کتابیں<br />

شائع ہونے والی ہیں۔اپ کی تحریر بہت جاندار ہے،‏ البتہ<br />

جناب پنگے کے بغیر تو دنیا میں کوئی تبدیلی نہیں ا سکی۔<br />

چاہے تبدیلی اچھی ہو یا بری،‏ اس کے بغیر ممکن نظر<br />

نہیں اتی۔ اگرچہ ہمارا یہ بیان بھی پنگا لینے کے مترادف<br />

ہے،‏ لیکن چونکہ ہم پنگا لینے کے خوب حق میں ہیں،‏ سو<br />

یہ اعلمیہ جاری کرنا جائز سمجھتے ہیں۔تقدیر کسی کے<br />

پنگا لینے یا نہ لینے کو دیکھتی ہی نہیں۔ ٹائگر کی ہی مثال<br />

لیجے،‏ تحریر کہیں نہیں کہتی کہ اس کو خارش لگنے کا<br />

سبب بھی کوئی پنگا ہی تھا جو ٹائگر سے سرزد ہؤا۔ وہ<br />

بغیر پنگا لیئے ہی خارش کی نظر ہو گیا۔ دوسری طرف<br />

پنگا لینے وال ناگ خود تو اپنے پنگے کی سزا بھگت گیا،‏<br />

لیکن ساتھ میں ٹائگر کو بھی لے گیا۔ ہٹلر نے جو پنگا لیا<br />

سو لیا،‏ لیکن ان لکھوں لوگوں نے کیا پنگا لیا تھا کہ<br />

بیچارے،‏ ایٹم بم کی نذر ہو گئے۔ ایسے ہی سکندر کو تو<br />

جہلم کے مچھروں نے سزا دی،‏ لیکن اس ہاتھی بیچارے کا<br />

کیا قصور تھا جس کی سونڈ کاٹ گیا۔ نہ ہی راجہ پورس کی<br />

فوجوں نے کوئی پنگا لیا تھا کہ لتاڑی گئیں۔سو صاحب<br />

جس نے پنگا لیا،‏ اس نے دوسروں کو بھی بڑا نقصان<br />

پہنچایا۔ دوسری طرف خود پنگا نہ لو تو کسی دوسرے کے<br />

پنگے کا شکار ہو جانا پڑتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی صاحب<br />

اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایک بار انہیں کچھ


دوستوں کے ساتھ خچروں پر دشوار گزار پہاڑی راستوں<br />

پر سفر کرنا پڑا۔ ایک صاحب تھے،‏ کہ جب بھی خچر کسی<br />

دشوار اور خطرناک جگہ سے پہار پر چڑھتا تو وہ صاحب،‏<br />

خچر سے نیچے اتر جاتے اور خود چڑھتے۔ کسی نے کہا<br />

کہ صاحب،‏ یہ خچر ماہر ہیں یہاں پہاڑوں پر چڑھنے کے۔<br />

اپ کا پاؤں پھسل تو اپ بے موت گہری کھائی میں مارے<br />

جائیں گے۔ ان صاحب نے جواب دیا کہ حضرت جانتا ہوں،‏<br />

لیکن میں اپنی غلطی کی موت مرنا چاہتا ہوں،‏ نہ کہ اس<br />

خچر کی غلطی کی سزا میں مروں۔تو صاحب اس سے پہلے<br />

کہ کوئی اور پنگا لے کر ہماری زندگی میں خلل ڈالے،‏ ہم<br />

خود پنگا لے لینا مناست سمجھتے ہیں۔مزاح برطرف۔ اس<br />

بات سے انکار نہیں کہ قدرت سے پنگا لینے والے کا انجام<br />

بہت برا ہے۔ احتیاط لزم ہے۔ایک بار پھر بھرپور داد کے<br />

ساتھ ۔۔<br />

وی بی جی<br />

کیا ہی دلچسپ پنگا ہے کیا دلچسپ اندازL بیاں ہے آپ کا<br />

کیسے کیسے پنگے منظرL عام پر آپ لئے ایک منظر ابھی<br />

آنکھوں میں ہوتا ہے کہ دوسرا منظر آ جاتا ہے قائم ہو جاتا<br />

ہے اور سبھی میں دلچسپ پنگا بقول وی بی جی کہ ہر چیز<br />

میں پنگا لزم ہےپنگا نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہےیہ مانا


1990<br />

,<br />

کہ پنگے سے جیون حسیں ہےمجھ سے آ پ کی تحریر<br />

پڑھ کر خاموش نہ رہا گیا پنگا لینے چل آیا صاحب آپ کے<br />

اس پنگے نے مجھے ایک ساتھی اسلم پنگا یاد دل دیے<br />

اسلم پنگا ہمارے بہت اچھے ساتھی تھے ہم ان دنوں<br />

91 میں کراچی ایئر پورٹ کی تعمیر میں مصروف تھے<br />

جہاں ہماری ایک بڑی ٹیم تین حصوں پر مشتمل تھی جن<br />

میں ایپرن ، بلڈنگ اور روڈ اینڈ انفرا اسٹیکچر ورکس<br />

وغیرہ شامل تھے ہمارے پاس ایپرن وال حصہ تھا جس<br />

میں اسلم پنگا ہمارے ساتھ ہوا کرتے تھے ہم لوگ ایک<br />

فرنچ تعمیراتی کمپنی ’’‏ سوجیا پاکستان ‘‘ میں کام کر رہے<br />

تھے اسلم پنگا آج آپ کے اس پنگا مضمون کو پڑھ کر یاد<br />

آئے ان کا کام ہر ایک سے پنگا لینا ہوتا تھا بغیر پنگے<br />

کے ان کی زندگی ادھوری تھی کھانا گھر سے لیا کرتے<br />

تھے ایک دن انہوں نے انڈے اور بینگن کو مل کر ایسا<br />

پنگا لیا کہ پہچاننا مشکل ہو گیا کہ اس خمیرہ گاؤزبان میں<br />

انڈہ کونسا ہے اور بینگن کونسا ہے ا تعالی کی تخلیق<br />

کردہ دو الگ الگ ذائقوں میں الگ الگ مزاج کی حامل<br />

اجناس کو یکجا کر کے ایسا کشتہ تیار کیا تھا کہ جس کے<br />

کھانے کے کئی گھنٹے بعد تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ کیا<br />

کھایا بس یہ لگا کہ کسی حکیم صاحب نے اپنی زندگی کے<br />

آزمودہ نسخوں سے حاصل شدہ معجونL کہہ لیں کشتہ کہہ<br />

لیں تیار کیا ہے کہ جسے کھایا تو جاسکتا ہے مگر اس


میں شامل اجزا کاتجزیہ نہیں کیا جاسکتا جس کے کھانے<br />

کے بعد بہت سے رکے ہوئے معاملت نہ صرف حل ہو<br />

جاتے ہیں بلکہ ان سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارہ مل جاتا<br />

ہےتو صاحب کبھی یہ پنگا بھی لیجئے بینگن اور انڈے<br />

کچھ اسطرح پکائیے کہ بینگن بینگن نہ رہے اور انڈہ انڈہ<br />

نہ رہے بینگنڈہ بن جائےہلکی سی کالی مرچ اور نمک کے<br />

ساتھ تناول فرمائیے مزہ نہ آنے پر انڈہ الگ اور بینگن<br />

الگ پکائیے اور الگ الگ کھائیےاس دلکش تحریر سے<br />

مستفید فرمانے کے شکریہ قبول فرمائیے<br />

اسماعیل اعجاز<br />

دائیں ہاتھ کا کھیل<br />

جون<br />

2014 ,01<br />

تحریر ہم کئی بار پڑھ چکے ہیں،‏ لیکن یکسوئی نصیب نہ<br />

ہو سکی۔ ہر بار دھیان ادھر ادھر کرنا پڑا اور ہم کچھ کہنے<br />

کے لئق نہ ہو سکے۔بہت خوب تحریر ہے جناب۔ کیا ہی<br />

بات ہے۔ بھر پور داد قبول کیجے۔ دین ایسی چیز ہے کہ اس<br />

کو حوالہ بنا کر جو چاہے کیا جا سکتا ہے۔ اس سے اشتعال<br />

پھیلنا بھی بہت اسان سا کام ہو گیا ہے۔ چند لوگ اشتعال


سچ مچ میں محسوس کرتے ہیں،‏ باقی کی کثیر تعداد صرف<br />

مشتعل نظر ا کر ثواب حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ایسے ہی جس<br />

پہلو کی طرف اپ نے اشارہ فرمایا ہے،‏ وہاں بھی زوجہ<br />

کے صرف حقوق ہوتے ہیں اور خاوند کے صرف فرائض۔<br />

ہمیں تو یہ بھی سمجھ نہیں اتی کہ صرف ماں کو اس قدر<br />

درجہ دے دیا جاتا ہے کہ جیسے باپ کی کوئی حیثیت ہی نہ<br />

ہو۔ حالنکہ عموماø باپ،‏ صرف اور صرف اپنے بچوں کے<br />

لیئے،‏ اپنی بیوی کی کئی غلط باتیں بھی برداشت کرتا رہتا<br />

ہے۔ اور عموماø کوئی اور چیز طلق سے مانع نہیں ہوتی۔<br />

لیکن بچے چونکہ اپنی ماں کے پاس زیادہ وقت گزارتے<br />

ہیں،‏ تو ظاہر ہے ہمیشہ چندا ماموں ہی ہوتے ہیں،‏ کبھی<br />

چندا چاچو نہیں ہوتے۔اپ نے لکھا ہےحقوق کا معاملہ ذات<br />

سے‘‏ ا کی طرف پھرتا ہے۔یہ بات سمجھنا،‏ بہت مشکل<br />

کام ہے۔ اور شائید اس کے لیئے کئی تحریریں لکھنی پڑیں۔<br />

لوگوں کی سمجھ کو اس مقام تک لنا،‏ اہلL قلم کی ذمہ دارہ<br />

ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ اپ کوشاں ہیں۔ اگر ایسی<br />

تربیتی تحریریں لوگوں کو پڑھنے کو ملیں یا ٹی وی ڈرامہ<br />

وغیرہ میں ملتی رہیں،‏ تو لوگوں کی سمجھ بڑھ سکتی ہے۔<br />

ہمیں تو محترم اشفاق احمد کے بعد کوئی ایسا ڈرامہ نگار<br />

نہیں نظر ایا،‏ جو ان باتوں کو اس گہرائی میں نہ صرف<br />

محسوس کرے،‏ بلکہ لوگوں کو بھی سمجھائے۔ اج کل کے<br />

دور کی فضول اور کردار کشی سے بھرپور کہانیوں کے


ساتھ ٹکرانے کی اشد ضرورت ہے اور اپ یہ کام کر رہے<br />

ہیں۔ ہزار دعائیں جناب اپ کے لیئے۔تحریر پر بہت بہت داد<br />

جناب۔ ہزار داد<br />

وی بی جی<br />

جون<br />

ا جانے<br />

2014 ,09<br />

جناب کیا ہی بات ہے۔ بہت عمدہ تحریر ہے۔ داد داد داد ۔۔ اپ<br />

کی تحریروں کا خاصہ ہے کہ بات کو ایسے زاویوں سے<br />

گھما کر لتے ہیں کہ وہم و گمان میں نہیں ہوتا کہ یہ تان<br />

کہاں جا کر ختم ہو گی۔ اور اختتام بھی شاندار ہوتا ہے۔ یہاں<br />

بھی اپ نے جس طرح زرینہ کو تشبیہہ دی ہے،‏ بہت ہی<br />

خوب ہے۔ عوام کی سمجھ بھی کچھ بڑھانے کی ضرورت<br />

ہے،‏ تاکہ وہ ایسی تحریروں کا درست رخ سمجھ سکیں اور<br />

نتائج اخذ کر سکیں۔دراصل ایسی کمائی جس میں مزدوری<br />

سے زیادہ مل جائے یا بغیر مزدوری کے مل جائے ہمارے<br />

اپنے خیال کے مطابق سود ہے۔ انسان کی ارام پسندی یہی<br />

چاہتی ہے کہ کم سے کم محنت سے زیادہ سے زیادہ کمائی<br />

ہو اور کامیابی کی صورت میں انسان مذید ارام پسند ہوتا


چل جاتا ہے۔ یہی حال اس قرض پر پلے والی عوام کا ہو<br />

گیا ہے۔ قرض حکومتی خزانے میں جاتا ہے،‏ اور حکومتی<br />

خزانے کا کوئی مالک نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اس کی<br />

حفاظت کی کوشش بھی نہیں کی جا سکتی وگرنہ یہی سننا<br />

پڑتا ہے کہ ‏:تمہارے باپ کا ہے کیا:‏ ۔۔ یہ کسی کے باپ کا<br />

نہیں ہوتا اور ویسا ہی اس کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے۔<br />

للچ ایسی ہی چیز ہے کہ اگر پیٹ بھرا بھی ہو تو بقول<br />

غالبگو ہاتھ کو جنبش نہیں،‏ انکھوں میں تو دم ہےرہنے دو<br />

ابھی ساغر و مینا میرے اگےسو مذید سے مذید کی للچ<br />

کبھی جان نہیں چھوڑتی۔ اپ کی تحریریں،‏ امید کی کرن ہیں۔<br />

جتنے لوگ پڑھیں گے اپنے کردار میں ضرور جھانک کر<br />

دیکھیں گے۔ انہیں کردار کی خرابیوں کو عوام تک پہنچانے<br />

اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔ہماری طرف سے ایک بار<br />

پھر بھرپور داد جناب ۔<br />

وی بی جی<br />

پاخانہ خور مخلوق<br />

مئی<br />

2014 ,30<br />

بہت اعلی تحریر ہے جناب،‏ کیا ہی بات ہے۔ نازک مسئلے


کو چھیڑ دیا اپ نے۔ البتہ اپنا حقL رائے دہی ازاد جان کر<br />

اور اپ کی پرخلوص طبعیت کو دیکھتے ہوئے درخواست<br />

کریں گے کہ اس کا عنوان کچھ تبدیل کرنے کی ضرورت<br />

محسوس ہوئی ہمیں۔ ہمارا خیال ہے کہ عنوان ایسا ہونا<br />

چاہیئے کہ پڑھنے والے کی طبعیت کو مائل کرے۔دوسری<br />

طرف،‏ اس تحریر کے لجواب ہونے میں کوئی کلم نہیں۔<br />

عوام کو ایسے مضامین پڑھنے کی اشد ضرورت ہے،‏<br />

شائید کسی کا ضمیر جاگے۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی صاحب<br />

ایک جگہ فرماتے ہیں کہ اے خدا،‏ تو نے میرے ہاتھ باندھ<br />

کر مجھے دریا میں پھینک دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ<br />

کپڑے گیلے نہ ہوں۔ تو جناب حمام ہے یہ تو۔ہمیں یاد پڑتا<br />

ہے،‏ کہ بچپن میں ہم ‏:زمانہ قبل از اسلم میں کفار کی<br />

جہالت:‏ پر نوٹ لکھا کرتے تھے،‏ اور جناب کیا کیا برائی نہ<br />

ان کے سر لگاتے تھے،‏ اور خوب نمبر سمیٹا کرتے تھے۔<br />

یہاں تک کہ یہ بھی لکھ دیتے تھے کہ ‏:قبل از اسلم،‏ کفار<br />

کا یہ عالم تھا کہ ناک میں انگلی تک ڈالتے تھے:‏ ۔ لیکن<br />

صاحب!‏ اب سوچتے ہیں،‏ کہ اسلم سے کیا سیکھا ہے<br />

مسلمانوں نے تو حیرت ہوتی ہے۔ ابھی تک دو ایسی چیزیں<br />

دریافت ہو پائی ہیں جو اسلم سے سیکھی ہیں ہم نے اور<br />

سب اس پر متفق بھی ہیں۔ ایک تو یہ کہ کسی بت کی پوجا<br />

نہیں کرتے،‏ اور دوسری یہ کہ خنزیر نہیں کھاتے۔ اخر<br />

الزکر اگرچہ مشکوک ہے کہ یہاں تو محاورتاø نہیں بلکہ


حقیقتاø انسان انسان کو کھا جاتا ہے۔ کیا اسلم نے اتنا ہی<br />

سکھایا ہمیں؟ ہم نے غور کیا تو معلوم ہؤا کہ انسان کو امن<br />

میں رہنے کے طریقے سمجھانے والے مذاہب کی وجہ<br />

سے دنیا میں سب سے زیادہ قتل و غارت ہوئی ہے۔ مذہب<br />

کی بنیاد پر جتنا نقصان انسان نے کیا ہے،‏ کسی اور چیز<br />

کی وجہ سے نہیں کیا۔ توبہ ہے صاحب۔خیر یہ تو تھے<br />

ہمارے کچھ بکھرے ہوئے خیالت۔ اپ کی تحریر ہماری نظر<br />

میں بہت اعلی اور عمدہ ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد<br />

قبول کیجے۔<br />

وی بی جی<br />

زیر نظر مضمون پر وی بی جی کے خیالت سے میں کلی<br />

طور پر متفق ہوں۔ عنوان کو بدلنے کی سخت ضرورت ہے۔<br />

قاری عنوان دیکھ کر اگر ٹھٹکے تو اچھا نہیں ہے۔ مضمون<br />

ہمارے معاشرے کی تصویر کی عکاسی کرتا ہے۔ آپ یقین<br />

کیجئے کہ اپنے آس پاس مسلمانوں کا حال دیکھ کر طبیعت<br />

پر مستقل انقباض رہتا ہے۔ بعض اوقات محسوس ہوتا ہے<br />

کہ اب ا س قوم کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ یہ دنیا میں<br />

خوار ہے اور خوار ہی رہے گی کیونکہ یہ اپنی اساس سے<br />

دور ہو چکی ہے۔ دنیا میں ڈیڑھ سو ‏"اسلمی"‏ ممالک ہیں۔<br />

افسوس کہ ان میں ایک بھی ایسا نہیں ہے جہاں ہم اور آپ


اپنی اولد کو پڑھنے لکھنے یا رہنے کے لئے بھیج سکیں۔<br />

انا ل و ان الیہ راجعون۔ میں امریکہ میں رہتا ہوں اور اس<br />

کا قائل ہوں کہ ہمارے مقابلہ میں دوسرے مذاہب کے<br />

لوگوں کا اخلق اور کردار بدرجہا بہتر اور ‏"اسلمی"‏ ہے۔<br />

اور اس صورت حال کا علج بھی کوئی نظر نہیں آتا۔لکھتے<br />

رہئے۔ میں کوشش کروں گا کہ یہاں آمدورفت بڑھا دوں۔<br />

باقی راوی سب چین بولتا ہے۔<br />

سرور عالم راز<br />

اس ناچیز کو بہتر انسان سمجھا اپ نے،‏ اپ کی ذرہ !<br />

نوازی ہے۔ ہم بیچارے اوارہ قسم کے ادمی ہیں،‏ کبھی کسی<br />

پہاڑ پر بیٹھے شہر کی ٹمٹماتی روشنیوں سے گوٹ بنا کر<br />

کسی پیراہن میں ٹانکنے میں مصروف تو کبھی رات رات<br />

بھر کسی فٹ پاتھ پر بیٹھ کر کسی کتیا کے بچے گم ہو<br />

جانے کے دکھ میں شریک۔ سو ہمارا انتظار نہ ہی کیا<br />

کیجے۔ اپ کے یاد کرنے پر محترم سرور عالم راز سرور<br />

صاحب بنفسL نفیس تشریف ل چکے ہیں۔<br />

وی بی جی<br />

ان پڑھ


2014<br />

مئی 27,<br />

ہمارے منہ کی بات چھین لی اپ نے۔ بہت ہی اچھی تحریر<br />

ہے۔ بالکل درست ہے کہ جو اچھی صفت یا ضمیر رکھتا<br />

ہے،‏ وہ اس سے انحراف کر ہی نہیں سکتا۔ اور ہمارا خیال<br />

ہے کہ یہ بچپن میں والدین یا ماحول سے انسان سیکھتا<br />

ہے۔ اگر اس کی تعلیم اس کے دل میں برائی کی نفرت ڈال<br />

دے تو زندگی بھر اس سے برا کام سرزد نہیں ہوتا۔ ہمارے<br />

نذدیک اس میں ان چھوٹی چھوٹی کہانیوں یا حکایات کی<br />

بھی بہت اہمیت ہے،‏ جو دادیاں بچوں کو سناتی ہیں۔ ہمیں<br />

یاد ہے کہ ہماری دادی ہمیں ایسی کئی حکایات سناتی تھیں،‏<br />

اور کئی اس قدر جذباتی ہوتی تھیں کہ رونا ا جاتا تھا۔ ان<br />

کہانیوں میں برا کبھی ہیرو نہیں ہو سکتا تھا۔ ہمیشہ اچھائی<br />

کی جیت ہوتی تھی۔ علوہ ازیں،‏ ایسے حساس اور سوچنے<br />

پر مجبور کر دینے والے موضوعات ہوتے تھے کہ ننھی<br />

سی عمر میں ہی سوچنے اور باتوں کو سمجھنے کی طرف<br />

رجحان رہا۔ جذباتی ہونے کے نقصانات سے اگہی ہوئی،‏<br />

اور ہر معاملے کو انصاف کے ترازو میں تولنا ا گیا۔ سچ<br />

پوچھیں تو ہم نے کچھ بار بھرپور کوشش کی کہ رشوت<br />

لے لیں،‏ لیکن اس ذات پاک کی قسم،‏ ہم ‏:اسامی:‏ سے انکھ<br />

نہ مل سکے۔ اپنے اپ سے ایسی گھن اتی تھی،‏ کہ ایک


لفظ بھی نہ کہہ سکے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمیں یہ<br />

احساس نہ تھا کہ ا ناراض ہو گا،‏ ہمیں مسئلہ یہ پیش تھا<br />

کہ غیرت اور انا اجازت نہ دیتی تھی۔ ہم اپنی کہانی لے کر<br />

بیٹھ گئے۔کہنا یہی چاہتے تھے،‏ کہ تبھی ہماری خواہش رہی<br />

ہے کہ ایسی چیزوں کو تعلیم کا حصہ ہونا چاہیئے جو<br />

کردار سازی کریں۔ ہمارے بچوں کو رٹے لگانے کی کوئی<br />

ضرورت نہیں ہے۔ تمام علوم اس کے محتاج ہیں۔ جس میں<br />

کردار نہیں اس کی کوئی سائنسدانی کسی کام کی نہیں۔ اور<br />

بقول اپ کی اس تحریر کے ہی،‏ حکومتیں کچھ نہیں کر<br />

سکتیں،‏ سب کچھ کرنے والی عوام ہی ہے۔ حکومت کو<br />

کوسنے وال سبزی فروش خود نگاہ بچا کر گندے ٹماٹر<br />

بیچتا ہے۔ لوگ گندم نہیں اگائیں گے،‏ تو اٹا مہنگا ہوگا،‏<br />

حکومت روٹی پکا کہ نہ کبھی کسی کو دے سکی ہے،‏ نہ<br />

کبھی دے سکے گی۔اس تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد<br />

قبول کیجے۔۔۔ ہمیں بہت پسند ائی ہے اپ کی تحریر۔<br />

وی بی جی<br />

لروا اور انڈے بچے<br />

مئی<br />

2014 ,21


پڑھ تو ہم فوراø ہی لیتے ہیں،‏ لیکن سمجھنے اور پھر کچھ<br />

کہنے کے لئق ہونے میں وقت لگ جاتا ہے۔ اور سچ<br />

پوچھیے تو اس تحریر کے آخر میں جس طرح اس کا<br />

اختتام ہوتا ہے،‏ کافی سوچ بچار کرنی پڑتی ہے،‏ کہ لروے<br />

اور انڈے بچے سے مراد کیا ہے۔ برائی کے خلف تو کہانی<br />

کا ہیرہ نکل ہی تھا،‏ اور انہیں لرووں کا خاتمہ چاہتا تھا،‏<br />

پھر آخر یہ کیا کہانی ہوئی۔کہانی لکھنے میں تو ویسے آپ<br />

کا جواب نہیں۔ اس میں تو پیچیدہ صورتیں بھی نظر آئیں،‏<br />

جہاں لکھنے وال راستہ بھٹک کر کسی اور سمت نکل<br />

سکتا تھا،‏ لیکن بہت خوبصورتی سے آپ نے اسے اپنے<br />

مقصد کے محور میں رکھا ہے۔ ہم جہاں تک سمجھ سکے<br />

ہیں وہ یہی ہے کہ برائی انسان خود ہی ہے،‏ اور اسی کا<br />

خاتمہ برائی کو ختم کر سکتا ہے۔ شیطان کی غیر موجودگی<br />

کی مثال بھی خوب دی آپ نے کہ اس کی غیر موجودگی<br />

میں کس حد تک برائی بڑھ جاتی ہے۔ایسی تحریروں کی<br />

جگہ ہم تو سمجھتے ہیں،‏ کہ نصابی کتابوں میں ہونی<br />

چاہیئے،‏ جہاں کردار سازی کی بہت ضرورت ہے۔ اچھے<br />

بھلے پڑھے لکھے لوگ جتنا نقصان پہنچا رہے ہیں،‏ ہم<br />

نہیں سمجھتے کہ ان پڑھ اتنا نقصان پہنچا بھی سکتے ہیں۔<br />

پڑھ لکھ کر صرف تعلیمی اسناد حاصل ہوتی ہیں،‏ اور اس<br />

کے بعد بھی ایسی حرکتیں کرتے ہیں،‏ کہ شرم نام کی چیز<br />

پاس نہیں پھٹکتی۔ہماری دعا ہے کہ آپ کی کوششیں رنگ


لئیں۔ ہماری طرف سے ایک بار پھر بھرپور داد قبول<br />

کیجے۔<br />

وی بی جی<br />

سچائی کی زمین<br />

مئی<br />

2014 ,17<br />

جنب بہت عمدہ تحریر ہے۔ اپ نے کہانی کو نیا رخ دیا ہے<br />

اور کیا ہی خوب دیا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ قدرت کا نظام<br />

اپنے اپ کو خود ہی برقرار رکھتا ہے،‏ لیکن یہ بات بھی<br />

بجا ہے کہ انسان اس میں بہت بگاڑ پیدا کرنے کے درپے<br />

ہے۔ اگرچہ اس بات کا یہاں تذکرہ کچھ ضرری نہیں لیکن<br />

ہمارا طریقہ کچھ ایسے ہے کہ قدرتی نظام میں کم سے کم<br />

دخل اندازی کرتے ہیں۔ لوگ بھاگ کر بلی کے منہ سے<br />

چڑیا کا بچہ چھین لیتے ہیں،‏ جبکہ ہم صرف خاموشی اور<br />

خالی الذہن ہو کر دیکھتے رہتے ہیں۔ اگرچہ اس سے<br />

ہمارے اندر بہت حد تک سفاکی پیدا کر دی ہے،‏ لیکن ہم<br />

نے قدرتی نظام کو اس قدر سفاک پایا ہے،‏ کہ بیان سے<br />

باہر ہے۔ جس نظام میں ایک کی موت دوسرے کی زندگی<br />

ہو،‏ اس کا علج ہمارے پاس تو ہو نہیں سکتا۔ کئی بار خود


کو سمجھاتے ہیں،‏ لیکن اکثر اپنی باتوں میں اتے نہیں ہیں<br />

ہم۔ دخل اندازی صرف اس وقت روا جانتے ہیں،‏ جب کسی<br />

کی موت کسی کی زندگی نہ ہو۔تحریر جان دار ہے،‏ سچائی<br />

اور اچھائی کا ساتھ دینے کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ ہماری<br />

طرف سے ایک بار پھر داد قبول کیجے۔<br />

وی بی جی<br />

ابھی وہ زندہ تھا<br />

مئی<br />

2014 ,16<br />

واہ واہ واہ جناب،‏ کیا ہی بات ہے۔ ہمیں تو ایسا لگا کہ<br />

ہمارے منہ کی بات ہی چھین لی ہو اپ نے۔ بے شک اپ کو<br />

بات بیان کرنے کا فن اتا ہے۔ جن الفاظ میں اپ نے ان تلخ<br />

حقیقتوں کو بیان کیا ہے وہ لئقL صد تحسین ہیں۔ ہماری<br />

طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ یہ وہ حقیقتیں ہیں جو<br />

تمام لوگ جانتے اور سمجھتے ہیں،‏ لیکن انہیں زبان پر<br />

لتے ہوئے شرماتے ہیں۔ حالنکہ وہ حمام والی ضربالمثل<br />

خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں۔اپ نے کسی ٹوپی سلر کا<br />

ذکر بھی کیا ہے،‏ اور خوب کیا ہے۔ اب اپ کا کس طرف<br />

اشارہ ہے یہ کوئی سمجھے نہ سمجھے لیکن حقیقت اپنی


جگہ ٹھوس حقیقت ہی ہوتی ہے۔تحریر زبردست ہے اور<br />

طنز جس انداز میں کیا گیا ہے،‏ ہمیں یقین ہے کہ کئی<br />

لوگوں کا ضمیر جگا سکتی ہے۔ اس تحریر پر ہم ذیادہ اس<br />

لیئے بھی نہیں لکھ سکتے کہ اپ نے اس میں ہمارے<br />

کہنے والی ہر بات ہم سے کہیں بہتر انداز میں کہہ دی ہے۔<br />

ہماری طرف سے بھرپور داد<br />

وی بی جی<br />

مارچ<br />

حللہ<br />

2014<br />

,11<br />

ڈاکٹر صاحب آپ کی تحریریں بفسL نفیس بولتی ہیں اپنے<br />

پاس سے گزرنے والوں کو مخاطب کر کے کہتی ہیں کہ آؤ<br />

ہمیں پڑھو ہم سے کچھ سیکھو کچھ اخذ کرو ، یہ دل کو<br />

چھو لینے والی تحریر جو حقیقت سے قریب ترین معاشرے<br />

سے جڑے کرداروں کو بے نقاب کرتی ہوئی بہت سے<br />

سوال بہت سے باتیں ذہن میں پیدا کرتی ہوئی اپنے پڑھنے<br />

والے کو مجبور کر رہی ہے ۔ میرے ذہن میں بھی کچھ<br />

باتیں آئیں جنکا اظہارL خیال ضروری سمجھتا ہونحلل و<br />

حرام کی پابندی و شرائط کب کہاں اور کس لئے کی بنیاد پر


ان کا نفاذ حکمیہ طور پر خالقL کائینات کا مرتªب کردہ<br />

ہےنکاح فرض ہے ، نکاح واجب ہے ، نکاح سنªت ہے ،<br />

نکاح مستحب ہے یہ وہ شکلیں ہیں جنہیں ہم جانتے ہیں<br />

مگر نکاح حرام ہے جی نکاح حرام ہے محرم کے ساتھ<br />

مگر نکاح نامحرم کہ جس سے نکاح حلل ہے حرام بھی<br />

ہے وہ اس صورت میں کہ جب کوئی ایسا شخص جو نکاح<br />

تو کرلے مگر حقوقL ذوجیت ادا کرنے کی صلحیت سے<br />

محروم ہو نامرد ہو تو ایسے شخص کا نکاح کہ جس کی<br />

منکوحہ اپنی جنسی ضرورت اور خواہش کو کسی اور<br />

ذرائع سے پورا کرے وہ بھی حرام ہےطلق دینا حلل ہے<br />

مرد کے لئے مگر تمام حلل کاموں میں یہ وہ حلل کام ہے<br />

جسے ا باری تعالی نے ناپسند فرمایا ہے ، عورت کو<br />

طلق دینے کا حق حاصل نہیں ہے ہاں خلع لے سکتی ہے ،<br />

اگر عورت کو طلق کا اختیار دے دیا جاتا تو دن بھر میں<br />

بیسیوں بار طلق دے دیتی اپنے مرد کو ، مگر مرد اس<br />

معاملے میں صابر ہے اور بہت ہمت و برداشت وال ہوتا<br />

ہےشرعی طریقہ یہ ھے کہ عورت تین طلقوں کے بعد اگر<br />

دوبارہ پہلے شوھر سے نکاح کرنا چاھتی ھے تو وہ کسی<br />

دوسرے مرد سے نکاح کرے بغیر اس نیت کے کہ وہ پہلے<br />

کے لیے حلل ھونا چاھتی ھے،‏ پھر وہ شوھر اسے اپنی<br />

مرضی سے طلق دے،مگر اس نیت سے نہیں کہ وہ پہلے<br />

کے لیے حلل ھو جائے،‏ یا پھر وہ مرجائے،اس طرح


عورت پہلے شوھر سے نکاح کرسکتی ھے!!!‏ لیکن جو<br />

حللہ کا طریقہ ھمارے معاشرےمیں رائج ھو<br />

چکاھے،جوکسی بھی صاحب علم سے مخفی نہیں ھے{اس<br />

قسم کے لوگوں پر نبی صلی ا علیہ وسلم نے لعنت کی<br />

ھے،یعنی حللہ کرنے وال اور جس کےلیے کیاجائے،‏ آپ<br />

نےاسے کرائے کا سانڈ قرار دیا ھے}یہ ھےاندھی تقلید<br />

جس میں یہود ونصاری مبتلء تھےیعنی بغیر شرعی دلیل<br />

کےآنکھیں بند کرکےکسی چیز پر عمل کرنا۔سنن<br />

ابوداودكتاب النكاحنکاح کے احکام و مسائلباب في<br />

التحلیلباب:‏ نکاح حللہ کا بیان۔حدیث نمبر : حدثنا<br />

أحمد بن یونس،‏ حدثنا زھیر،‏ حدثني إسماعیل،‏ عن عامر،‏<br />

عن الحارث،‏ عن علي،‏ رضى ا عنه - قال إسماعیل وأراہ<br />

قد رفعه إلى النبي صلى ا علیه وسلم - أن النبي صلى ا<br />

علیه وسلم قال ‏"لعن ا المحلل والمحلل له ‏".سیدنا علی<br />

رضی ا عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی ا علیہ<br />

وسلم نے فرمایا ‏”حللہ کرنے وال اور جس کے لیے کیا<br />

گیا ہے ‏(دونوں)‏ ملعون ہیں۔"قال الشیخ اللباني:‏ صحیح<br />

اسماعیل اعجاز<br />

2076<br />

دسمبر<br />

بازگشت<br />

2013 ,23


بہت عمدہ ۔ بہت لطف آیا ، سلمت رہیں آپ شکریہ<br />

ضیا بلوچ<br />

دسمبر<br />

فقیر بابا<br />

2013 ,24<br />

آپ کا انشائیہ بہت دلچسپ ہے۔ آپ نے جس تنہائی کی<br />

کیفیت کا ذکر کیا ہے اس سے آج ساری دنیا آشنا ہے۔<br />

انسان اب انسان کونہیں پہچانتا ہےجب تک کہ اس کی کوئی<br />

غرض کسی اور سے نہ اٹکی ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے<br />

کہ پچھلے زمانے میں سب لوگ بے غرض ہوا کرتے تھے<br />

اور اپنی طبیعت سے سب فرشتہ تھے۔ ایسا تو کبھی ہوا ہی<br />

نہیں ہے۔ اورنہ کبھی ہو گا۔ ہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ اب<br />

خلوص،‏ انسانیت اور بھائی چارہ پہلے سے کم ہو گیا ہے۔<br />

اس کی بہت سی وجوہ ہیں جن سے کم وبیش ہم سب واقف<br />

ہیں سو تفصیل ضروری نہیں ہے۔ یادش بخیر میرے بچپن<br />

میں آس پاس کے گھروں میں،‏ عزیزوں دوستوں میں،‏ گھر<br />

کی مائوں ‏،بہوئوں اور بڑی بوڑھیوں میں ملنا جلنا،‏ آنا<br />

جانا،‏ بے مقصد آ کر بیٹھ جانا اور ایک دوسرے کے دکھ


درد میں شریک ہونا اتنا عام تھا کہ آج کی تنہائی کاٹ<br />

کھانے کو دوڑتی ہے۔ یہ عالم تھا کہ محلہ کا ہر بزرگ ‏(اور<br />

غیر بزرگ!)‏ اپنے آپ کو دوسروں کی اولد کا ولی اور<br />

‏:ٹھیکہ دار:‏ سمجھتا تھا۔ ایک واقعہ سناتا ہوں جو اس<br />

کیفہت کو خوب بیان کرتا ہے۔ایک دن سڑک پر سگریٹ کا<br />

ادھا سلگتا ہوا دکھائی دیا۔ بچہ تو تھا ہی،‏ سوچاکہ اس میں<br />

کیا مزا ہوتا ہے جو لوگ منھ سے لگائے پھرتے ہیں۔<br />

چنانچہ اٹھا کر ڈرتے ڈرتے ایک کش لیا اور کھانسی کے<br />

دھسکے سے کھوں کھوں کرتا ہوا اسے پھینک دیا۔ لیکن<br />

محلہ کے ایک بزرگ نے دیکھ لیا تھا۔ انہوں نے پاس آکر<br />

ایک ڈانٹ پلئی اور ایک ہلکا سا ہاتھ بھی رسید کیا اور<br />

پھر ہاتھ پکڑ کر ابا جان کی خدمت میں لے گئے کہ آپ کا<br />

بچہ سڑک پر سگرٹ پی رہا تھا۔ ابا جان مارتے نہیں تھے<br />

لیکن صاحب!‏ ان کی چشم نمائی مار سے زیادہ تھی۔ انھوں<br />

نے الگ ڈانٹ نما آنکھ دکھائی اور بزرگ کا شکریہ ادا کیا۔<br />

سچ مانئے کہ وہ دن اور آج کا دن میں نے پھر سگرٹ<br />

چکھی ہی نہیں۔ یہ وہ سماجی ماحول تھا جو بچوں کو بہت<br />

سی اچھی باتیں سکھا دیا کرتا تھا۔ اب موجود نہیں ہے اور<br />

ہماری تنہائی میں اضافہ کا باعث ہے۔دوسری طرح کی<br />

تنہائی وہ ہے جس کا آج کل میں شکارہوں۔ امریکہ میں<br />

رہتا ہوں جہاں دوستوں کا کال ہے۔ سنا ہے کہ وطن عزیز<br />

میں بھی اب یہی معمول ہے۔ پھر طرفہ تماشہ یہ کہ ایسے


چھوٹے قصبے میں رہتا ہوں جہاں بل مبالغہ ایک شخص<br />

بھی ایسا نہیں ہے جس سے میں بات کر سکوں،‏ یعنی<br />

اپنے ذوق کی بات۔ بیکار باتیں کرنے کو یا سیاست اور<br />

مذہبی گفتگو کے لئے تو شاید کوئی مل جائے لیکن یہ میرا<br />

مسلک نہیں سو تن تنہا دن گزارتا ہوں۔ گویا زندگی قید<br />

تنہائی ہو کر رہ گئی ہے۔آپ کی تحریر سے مستفید ہوا۔ ا<br />

آپ کو خوش رکھے۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔<br />

سرور عالم راز<br />

aap kaa mazmoon :Faqeer Baba: paRh<br />

kar bohat khushee huwee. aap ke<br />

mazaameen maiN shauq se paRhtaa<br />

hooN kyoN keh in meN aap kee zindagee<br />

ke tajribaat hote haiN aur in se bohat<br />

kuchh seekhaa jaa saktaa hai. Faqeer<br />

Baba bhee aisee hee daastaan hai. aap<br />

kaa qalam bohat shiguftah hai aur aaj kal<br />

aisee tehreer kam dekhne meN aatee hai.<br />

aap se darKhwaast hai keh isee tarah<br />

ham logoN ko nawaazte rahiYe.


Mushir Shamsi<br />

آپ کا یہ پر مغز انشائیہ نظر نواز ہوا استفادہ کرتے ہوئے<br />

کچھ ذہن میں آیا سوچا پاگل کو مزید چھیڑا جائے میرا<br />

مطلب سمجھا جائے پا گل کے ایک معانی ہوتے ہیں جسے<br />

آپ نے فرمایا گل پانا یعنی بات کو سمجھ جانا بالکل اسی<br />

طرح چوں کہ گل پنجابی کا لفظ ہے اسے اسی معانی میں<br />

لیتے ہوئے گل پائیے کہ گل پانا گلے میں ڈالنے کی<br />

اصطلح میں بھی لیا جاسکتا ہے اوراگر اردو کو شاعرانہ<br />

انداز میں لیا جائے تو گل پا گئے یعنی پاؤں گل گئے ان<br />

پاؤں گل گئے کو مزید بہتر بنانے کے لئے اسے اسطرح<br />

لیجئے کہ پائے گل گئے مگر پائے بھی دو طرح کے ہوتے<br />

ہیں بھینس کے بکری کے گائے کے بھیڑ کے ہمارے ہاں<br />

لہور میں پھجے کے مگر ساتھ سری بھی لگائیے پھجے<br />

کے سری پائے اور دوسری قسم کرسی کے میز کے چار<br />

پائی کے بھی ہوتے ہیں یہ دونوں اپنی اپنی شکل میں گل<br />

جاتے ہیں پہلی قسم کے پائے گل جانے سے کرسی پر جم<br />

کر بیٹھ کر کھائے جاتے ہیں مگر دوسری صورت میں<br />

کرسی دھڑام سے گر جاتی ہے کرسی کے پائے گل جانے<br />

کی وجہ سے اب اس گل پانے میں مزہ بھی ہے اور تکلیف<br />

بھی ہے یہ تو دراومدار کیفیت اور حالت کا ہے کہ آپ کن


حالت اور کس کیفیت سے گزر رہے ہیں یہی سوچ کر میں<br />

چل آیا کہ پاگل کو پاگل کر دوں<br />

اسماعیل اعجاز<br />

جناب عالی محبت ہے آپ کے کہ مجھ پاگل کی گل آپ پا<br />

گئے اسی گل کو مزید پاگل کرنے کے لئے سوچا ہندی میں<br />

کچھ دان کردوں مگر اس بات کا ضرور دھیان رکھوں کے<br />

پاگل سے گل زبر کے ساتھ نکال کر گل پر پیش لگا کر<br />

گلدان کر دوں تو پھر پا کو کہاں لے جاؤں اس کے لئے دان<br />

سے کچھ دان لے کر پا سے پائے اور پائے میں دان مل کر<br />

پائیدان کردوں ‏،مگر پاگل کو میں اس بات کا پائے بند<br />

کردوں کہ پاگل پاگل ہوتا ہے اسی لئے پا کے لئے پاجامہ<br />

بنایا گیا مگر ہمارے شاعر بھائی کچھ اور ہی سوچتے ہیں<br />

بقول ان کےسنا ہے کہ انکی کمر ہی نہیں ہےنجانے پجمیا<br />

کہاں باندھتے ہیں<br />

اسماعیل اعجاز<br />

کرم نوازی ہے سرکار کہ آپ نے مجھے فنکار کہا حالں<br />

کہ میں ایک گمنام قلمکار ہوں ، ویسے ہمارے ہاں فنکار<br />

بھی دو طرح کے ہوتے ہیں ایک فن کار اور دوسرے فن


کار آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ دونوں تو ایک ہی ہیں<br />

یہی تو مسئلہ ہے کہ فن کار اور فن کار دونوں الگ الگ<br />

ہیں ایک فن کار ہوتے ہیں اور دوسرے فن کار ہوتے اس<br />

بات کا اندازہ خوب لگایا جا سکتا ہے جو ان کی کلہ سے<br />

جڑا ہوتا ہے فرق سمجھنے کا ہے کسی ماہرL فن کو آپ فن<br />

کار کہہ سکتے ہیں جس کا کام بولتا ہے جس کا ہنر بولتا<br />

ہے مگر ایسے بھی لوگ مجھ جیسے ہیں جو کچھ نہیں<br />

جانتے مگر باتیں خوب بناتے ہیں انہیں بھی فن کار کہا<br />

جاتا ہےکبھی کبھی لہجہ وہی رہتا ہے مگر معانی بدل جاتے<br />

ہیں جیسے کہ ایک صاحب فرمانے لگےماں کسم ایسا<br />

بھ⁄ینکر اجگر دیکھا ایسی بری طرح فن کار رL یا تھا کی<br />

میرے تو دماگ کے طوطے اڑ گئے ، آج کل طوطے پکڑ<br />

رL یا ہوں ۔۔۔۔۔۔<br />

اسماعیل اعجاز<br />

فروری<br />

بیوہ طواءف<br />

2014 ,08<br />

اپ کا یہ چھوٹا سا افسانہ پڑھا۔ بہت اچھا لگا۔ اپ کی<br />

تحریریں ماشاا بہت جاندار ہوتی ہیں۔ اور اپ کے


احساسات کی وسعت کو سموئے ہوتی ہیں۔ زندگی کو اس<br />

قدر قریب سے دیکھنے اور محسوس کرنے کا فن اپ کی<br />

تحریروں سے واضح ہے۔ا پاک اپ کو ہمیشہ خوش و<br />

خرم رکھے۔<br />

وی بی جی<br />

مارچ<br />

بڑا آدمی<br />

2014 ,08<br />

یہ تحریر واقعی میں بہت کرب رکھتی ہے۔ اور پھر اپ کے<br />

لکھنے کے انداز نے اسے بیش قیمت بنا دیا ہے۔ قاری کو<br />

ایسے جہان کی سیر کروا کر نتیجہ کی طرف لتی ہے اثر<br />

روح تک اتر جاتا ہے۔ پھر جس قدر اپ نے حالت و واقعات<br />

لکھے ہیں اپ کے تجزیئے کی طاقت اور احساس کی<br />

وسعت اس سے ظاہر ہے کہ جیسے معلوم نہیں کتنا ہی<br />

قریب سے اپ نے یہ سب دیکھا ہے۔ہمیں وقت کی کمی<br />

رہتی ہے،‏ لیکن اپ کے مضامین اور افسانے پڑھنے کی<br />

کوشش کرتے ہیں۔ اور بہت پسند اتا ہے ہمیں اپ کا لکھا۔<br />

وی بی جی


کریمو دو نمبری<br />

مئی<br />

2014 ,12<br />

معذرت چاہتے ہیں کہ دیر سے حاضری ہوئی۔ بہت<br />

خوبصورت تحریر ہے،‏ اور اپ کی ان بہترین تحریروں میں<br />

سے ایک ہے جن میں اپ کی اس صلحیت کا بھی پتہ چلتا<br />

ہے کہ اپ ڈرامہ بھی بہت خوب لکھ سکتے ہیں۔ کہانی<br />

لکھنا جتنا اسان دکھائی دیتا ہے اتنا اسان ہوتا نہیں۔ اپ کی<br />

خصوصیات ہیں کہ اپ کا قلم کسی دائرے میں مقید نہیں<br />

ہے۔یہ صدیوں سے روایت چلی اتی ہے کہ برا کا انجام برا<br />

ہوتا ہے،‏ کئی تحریرں لکھی گئی ہیں،‏ جن سے یہ تعلیم دی<br />

جاتی ہے۔ لیکن ذاتی طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا<br />

ہوتا نہیں ہے۔ ہم اوائل میں بچوں کو یہ سبق سکھانے کی<br />

کوشش کرتے ہیں،‏ لیکن بڑے ہوتے ہی وہ تجربات سے<br />

سیکھ ہی جاتے ہیں کہ نیکی کا انجام اچھا تو ہوتا ہے لیکن<br />

صرف اس کے حق میں جس کے ساتھ نیکی کی جاتی ہے۔<br />

ہم مثالیں ڈھونڈتے ہیں ایسے لوگوں کی جن کا انجام برا<br />

ہؤا ہو،‏ اور ان لوگوں کو بھول جاتے ہیں،‏ جو نیکی کی<br />

بھینٹ چڑھ جاتے ہیں،‏ یا وہ جو برائی کر کہ تا حیات<br />

کامیاب ہی رہتے ہیں۔ ہم خود بھی یہی کرتے ہیں،‏ کسی بات


کو قدرت کی طرف سے ازمائیش کے زمرے میں ڈال دیتے<br />

ہیں،‏ کسی نیک کے ساتھ برا ہو تو اسے اس کی کسی<br />

نامعلوم برائی کا نتیجہ قرار دے لیتے ہیں،‏ اگر کوئی برا<br />

دنیا میں کامیاب رہے تو اس کی سزا اخرت پر موقوف کر<br />

دیتے ہیں۔ کیا کیجے،‏ ا کے معاملے میں بھی جھوٹ کے<br />

بغیر چارہ نہیں۔اگر ہماری کسی بات سے دل ازاری ہوئی ہو<br />

تو معذرت چاہتے ہیں۔ لیکن جو حال سو حاضر ہے۔تحریر<br />

پر ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ<br />

وی بی جی<br />

مئی<br />

معالجہ<br />

2014<br />

,13<br />

ہمیشہ کی طرح بہت خوبصورت تحریر ہے۔ ایک عام سی<br />

کہانی سے اپ نے فکر امیز نتائج اخذ کیئے ہیں،‏ بلکہ<br />

سوچ کو اس ڈگر تک پہنچا دیا ہے کہ انسان خود سوچ<br />

سکے ان باتوں پر۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول<br />

کیجے۔جیسے کہ ریت ٹھہری ہے کہ ہم اپنی سی رائے<br />

دیتے رہتے ہیں۔ خیالت ہمارے بیکار سہی لیکن اپ کو<br />

اندازہ ہو جاتا ہو گا کہ کچھ لوگ ایسا بھی سوچتے ہیں۔ تو


اسی حوالے سے ہم اس تحریر کے اخری پیرائے کی طرف<br />

اتے ہیں۔<br />

اقتباس<br />

بایو کیمک اصول کے مطابق‘‏ منفی کی درستی کے لیے‘‏<br />

منفی رستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔ منفی کا‘‏ اس کے سوا‘‏<br />

کوئی اور معالجہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔<br />

ہمارا تجزیہ اس بارے یہ کہتا ہے کہ منفی کا علج منفی<br />

سے ممکن ضرور ہے لیکن بہت ہی کٹھن ہے۔ منفی اور<br />

منفی اپس میں مل کر بھی مثبت نہیں بن سکتے،‏ اور جیسا<br />

کہ ریاضی کا اصول ہے انہیں اپس میں ‏:ضربیں:‏ کھانی<br />

پڑتی ہیں اور نتیجہ تب ہی مثبت نکلتا ہے۔ منفی کو شکست<br />

صرف مثبت ہی سے ہوتی ہے،‏ لیکن اس کی شرطL اول<br />

مثبت کا مکمل مثبت ہونا ہے۔ وگرنہ شکست لزم ہے۔ ہمیں<br />

یاد نہیں پڑتا کہ یہ کونسے مرزا صاحب تھے،‏ لیکن ان<br />

سے کسی نے کہا تھا کہ صاحب!‏ اپ کے بارے میں فلں<br />

صاحب نے بہت سخت باتیں لکھی ہیں اپ کیوں خاموش<br />

ہیں،‏ اپ بھی لکھیئے کچھ،‏ تو انہوں نے فرمایا تھا کہ<br />

‏:بھائی!‏ اگر گدھا تمہیں لت مارے تو تم کیا کرو گے:ہم نے<br />

اس پر کافی غور کیا۔ لت کا جواب لت سے دینا درست<br />

نہیں ہو گا کیونکہ لت مارنا گدھے کی خصلت ہے،‏ انسان<br />

لتوں کے مقابلہ میں اس سے جیت نہیں سکتا۔ ایسے ہی


منفی کا مقابلہ کرنے کے لیئے منفی ہو جانا بہت مشکل<br />

ہے۔ ہٹلر کی اپ نے مثال دی ہے۔ اگر اس کو لکھوں لوگوں<br />

کے مرنے پر رحم نہ ا جاتا تو دنیا کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔<br />

اخر اس کے اندر کی اچھائی کہیں سے ابھر ہی ائی،‏ اور<br />

شکست کھانا پڑی۔ ایک مثبت کا منفی کے مقبالے میں<br />

مکمل منفی ہو جانا بہت مشکل ہے۔ اس کی ایک اور مثال<br />

ہمارے دیرینہ دوست مرحوم شیخ سعدی کی ایک حکایت<br />

ہے کہایک بار ایک شخص کو پاؤں میں کتے نے کاٹ لیا۔<br />

بیچارہ رات بھر تکلیف میں چیختا رہا۔ اس کی معصوم اور<br />

ننھی سی بیٹی نے اس سے کہا کہ بابا اگر کتے نے اپ کو<br />

کاٹا تھا تو اپ بھی اسے کاٹ لیتے۔وہ اس تکلیف میں بھی<br />

ہنس پڑا اور کہا کہ بیٹی۔ میں یہ تو برداشت کر لوں گا کہ<br />

میرے سر میں تلوار گھس جائے لیکن یہ مجھ سے نہ ہوتا<br />

کہ کتے کے غلیظ پاؤں میں میرے دانت گھستے۔سو صاحب<br />

مثبت کے لیئے یہ بہت مشکل یا تقریباø ناممکن ہوتا ہے کہ<br />

وہ منفی کا مقابلہ منفی ہو کر کر سکے۔ ہاں،‏ اسے شکل<br />

بدلنی پڑتی ہے اور اس بدلی شکل کو منفی نہیں کہا جاتا،‏<br />

بلکہ مثبت کہا جاتا ہے۔ اگر شکل نہ بدلے تو منفی اور<br />

منفی ایک صورت ہو جاتے ہیں۔قسمت بڑی مزاحیہ ہوتی<br />

ہے صاحب!‏ کہانی کے ہیرو کے دادا نے بھی اپنی سی<br />

کوشش کی تھی۔ کیا جانئیے،‏ کہ اس کی کوشش کامیاب ہو<br />

کر بھی ناکام ہو جائے اور حال ویسا ہی ہو جیسا کہ اس


کے دادا جان کا ہؤا۔ پھر بھی ہم ان کو یہی مشورہ دیں گے<br />

کہ چاہے منفی ہی کیوں نہ ہونا پڑے،‏ انہیں اپنی بات<br />

منوانی چاہیئے۔ کل کو اس کی سزا بھگتتے ہوئے یہ<br />

احساس تو نہ ہوگا کہ کسی اور کے کیے کی سزا بھگتنی<br />

پڑی۔ ایک اور مشورہ بھی ہے کہ ایک بار منفی ہونے کے<br />

بعد کامیابی اسی میں ہے کہ ہمیشہ منفی رہا جائے کیونکہ<br />

قدرت،‏ مثبت کی طرف لوٹنے والے کو کبھی معاف نہیں<br />

کرتی۔ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ۔<br />

وی بی جی<br />

میں ابھی اسلم ہی تھا<br />

مئی<br />

2014 ,09<br />

واہ واہ واہ واہ ۔۔ جناب کیا ہی بات ہے۔ واہکہاں کہاں نظر<br />

ہے جناب اپ کی،‏ یہ حلج اور حمادی کے فتوے کو کہاں<br />

لے ائے اپ۔ اپ بات کہاں سے شروع کرتے ہیں اور کیسے<br />

اپنا مقصد بیان کر جاتے ہیں اس کے تو ہم قائل ہیں ہی۔<br />

لیکن یہ جو لکھا ہے نا اپ نے کہ:۔


میرے اندر بھی‘‏ ارتعاش پیدا ہوا تھا‘‏ لیکن میں رقص نہ:‏<br />

کر سکا‘‏ میں اپنے آپے میں تھا۔ میں ابھی اسلم ہی تھا‘‏<br />

ریحانہ نہیں ہوا تھا ۔اگر ریحانہ ہو گیا ہوتا‘‏ تو دنیا کی<br />

پرواہ کیے بغیر‘‏ ملنگ بابے کے ساتھ رقص کر رہا ہوتا۔:‏<br />

کمال ہے جناب۔ ڈھیروں داد قبول کیجے۔سچ ہے،‏ اگر<br />

منصور بھی ریحانہ نہ ہو گیا ہوتا تو حمادی کا بھی کہیں<br />

نام و نشان نہ ہوتا۔ یہ بھی درست ہے کہ منصور بھی اسی<br />

ملنگ بابے کی طرح اپے میں نہ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ<br />

احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی اپنی کتاب میں<br />

لکھتے ہیں کہ منصور کو اخری وقت پر پتہ چل گیا تھا کہ<br />

وہ بھی ‏:اسلم ہی تھا،‏ ریحانہ نہیں ہؤا تھا اور نہ ہو سکتا<br />

تھا:‏ اور یہ خود کو ریحانہ سمجھنے سے اوپر کا درجہ<br />

تھا۔۔ہماری طرف سے اس خوبصورت تحریر پر ایک بار<br />

پھر بھرپور داد جناب۔<br />

وی بی جی<br />

اپ کا علمی مراسلہ پڑھا اور خوشی ہوئی کچھ تاریخی پ Lس<br />

منظر جان کر اس کے لیئے شکریہ قبول کیجے۔اپ جس<br />

قدر علم رکھتے ہیں اور اپ کا جس قدر مطالعہ ہے اس میں<br />

کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ ہم اس بارے میں جو خیال<br />

رکھتے ہیں وہ تھوڑا سا بیان کر دیتے ہیں،‏ کہ اپ کا وقت


بھی نہ ذائع ہو اور خیال بھی اپ تک پہنچ جائے۔اس پر<br />

غور کریں تو معاملہ ‏:وحدت الوجود:‏ اور ‏:وحدت الشہود:‏<br />

کے نظریات کی طرف چل جاتا ہے۔ ہمیں وحدت الوجود کے<br />

قائل صوفیا کرام کی اس قدر بڑی تعداد ملتی ہے کہ بیان<br />

سے باہر ہے۔ اپ جانتے ہی ہونگے لیکن بات کے تواتر<br />

کے لیئے تھوڑا سا بیان کر دیتے ہیں کہ ‏:وحدت الوجود:‏ کا<br />

نظریہ یعنی ‏"ایک ہو جانا"‏ یعنی ا تعالی کی ہستی میں گم<br />

ہو جانا۔ ۔اور ‏:وحدت الشہود:‏ سے مراد ‏:ایک دیکھنا ہے:‏<br />

یعنی چاروں طرف ‏:تو ہی تو:‏ ہے وال معاملہ ہو جاتا ہے ۔<br />

سالک ہر چیز میں جلوہ باری تعال ی دیکھتا ہے۔حضرت امام<br />

غزالی اور اس کے بعد کے کئی صوفیا نے جو سالک کے<br />

لیئے منازل بیان کی ہیں یا ‏:طریقت:‏ بیان کی ہے اس میں<br />

انسان خود کو ہر نفسانی خواہش سے پاک کر کہ جب اس<br />

راہ چلتا ہے تو وہ ذکر کے دوران ایک بہت بڑا منبع نور<br />

دیکھتا ہے،‏ اور خود کو اہستہ اہستہ اس میں جذب ہوتا<br />

محسوس کرتا ہے۔ اخر کار وہ خود کو مکمل طور پر اس کا<br />

حصہ محسوس کرتا ہے۔ تمام صوفیا اس پر متفق ہیں کہ<br />

انسان خود کو ذاتL باری تعالی میں ضم ہوتا محسوس کرتا<br />

ہے اور خود کو خدا محسوس کرتا ہے۔ حضرت مجدد الف<br />

ثانی سے پہلے تک یہی نظریہ ‏:وحدت الوجود:‏ تھا اور اس<br />

مقام کو اخری اور سب سے اونچا مقام سمجھا جاتا تھا۔ اس<br />

نظریئے نے کئی مسلے پیدا کیئے کہ کئی لوگ راہ بھٹکے


اور خود کو خدا سمجھنے لگ گئے۔ پھر مجدد الف ثانی نے<br />

‏:نظریہ وحدت الشہود:‏ پیش کیا کہ صاحب اس سے اونچا<br />

مقام بھی موجود ہے۔ اس میں انسان خود کو ذاتL باری<br />

تعالی سے الگ ہوتا محسوس کرتا ہے اور اخر اسے ہر<br />

طرف خدا نظر اتا ہے،‏ اور وہ خود کو خدا محسوس نہیں<br />

کرتا۔ حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ کئی صوفیا اس<br />

درجے پر نہیں گئے اور انہیں تامرگ معلوم تک نہ ہؤا کہ<br />

وہ غلطی کر رہے ہیں۔ صرف منصور کے بارے وہ لکھتے<br />

ہیں کہ اخری ایام میں اسے علم ہو گیا تھا۔ان باتوں کو مدL<br />

نظر رکھتے ہوئے ہم نے جو اخذ کر رکھا ہے وہ یہ ہے کہ<br />

منصور چونکہ ‏:وحدت الوجود:‏ کا معتقد تھا اور ‏:وحدت<br />

الشہود:‏ کا نظریہ بہت بعد میں ایا،‏ سو اس کا خود کو خدا<br />

سمجھنا یا کہہ دینا عین ممکن نظر اتا ہے۔ یہ اور بات ہے<br />

کہ عالم وجد میں کہی گئی بات سے اس کا کیا مراد تھا،‏ وہ<br />

سب کو سمجھا پاتا یا نہیں۔ اس کا علم الہامی تھا اور اس<br />

کے لیئے دلئل نہیں ہؤا کرتے۔یہ ہمارا خیال ہے۔ ظاہر ہے<br />

کہ اس سے اتفاق ضروری نہیں۔ امید ہے اسی طرح اپ<br />

ہمیں بھی تاریخ کی کچھ نہ کچھ تعلیم دیتے رہیں گے۔<br />

وی بی جی<br />

پٹھی بابا


2014<br />

مئی 06,<br />

بہت عمدہ جناب۔ اچھی تحریر ہے۔ ہمارے خیال کے مطابق،‏<br />

یہ تو ایک عام سا معاشرتی رویہ ہے کہ ہر ‏:عاشق پتر:‏ کو<br />

ماں،‏ بہن یاد کروائی جاتی ہے،‏ لیکن اپ نے اسی بات کو<br />

قدرے مختلف رنگ دیا ہے۔ جہاں ‏:بابا حق:‏ ، نا صرف دلئل<br />

کے ساتھ،‏ دھیدو،‏ سکندر اور محمود کی بات کرتا ہے،‏<br />

بلکہ کچھ غلط العام پیمانوں کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے<br />

جن کے ذریعے دنیا اچھا برا پہچانتی ہے۔ اپ کی بیش تر<br />

باتوں سے ہمیں اتفاق ہے۔ رانجھے کا قصہ ‏(ہر وارث شاہ)‏<br />

پڑھیں تو حضرت رانجھا صاحب کا،‏ باغ میں ہیر اور اس<br />

کی سہیلیوں کے ساتھ سلوک کا،‏ جو ذکر ملتا ہے،‏ وہ اپ<br />

کی بات کی تصدیق ہے۔ سکندرL اعظم کے بارے بھی ہمیں<br />

اپ سے اتفاق ہے،‏ اور یہ بات درست ہے کہ راجہ پورس<br />

کی اپنے ہی ہاتھیوں کے باعث شکست صرف اس لیئے<br />

صراحی جاتی ہے کہ،‏ ایک ہندو راجہ تھا،‏ یہ کوئی نہیں<br />

کہتا کہ اس کی فوج نے اس کے بعد مذید اگے جانے سے<br />

انکار کیوں کیا۔ محمود کے بارے ہم ذیادہ نہیں جانتے اس<br />

لیئے کچھ کہہ نہیں سکتے،‏ لیکن جب اتنا کچھ اپ نے<br />

درست کہا ہے تو یقیناø اس کی تاریخ پر بھی اپ کی نظر ہو<br />

گی۔ دنیاوی عشق کے بارے ہمارا خیال ہے کہ،‏ بقول بابائے


نفسیات،‏ فرائڈ کے ہر انسانی خواہش،‏ جنسی ہوس اور<br />

بھوک وغیرہ سب ایک ہی اشتہا کا نام ہے۔ جب تک دنیا<br />

میں بھوک ہے،‏ اور جب تک شیر،‏ ہرن کو کھاتا رہے گا،‏<br />

اس کو ختم نہیں کر سکتے۔ جب تک خواہشیں ہیں،‏ تکمیل<br />

کی کوشش انسان کرتا رہے گا اور یہی ترقی کا دوسرا نام<br />

بھی ہے۔ اب رہ یہی جاتا ہے،‏ کہ خواہشیں اگرچہ تمام ہی<br />

بری ہیں،‏ لیکن ان کو اچھی اور بری اقسام میں تقسیم کیا<br />

جائے۔ بری خواہشوں کو کم سے کم کیا جائے،‏ یا کم از کم<br />

ان کی تکمیل کرنے کی کاوش سے انسان کو روکا جائے۔<br />

یہی اپ نے کیا ہے،‏ اور خوب کیا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ<br />

دنیاوی محبت،‏ عشق وغیرہ اپ کے کہنے کے مطابق ہی<br />

اصل میں جنسی ہوس ہی ہے،‏ یہی فرائڈ بھی کہتا ہے،‏<br />

لیکن ہمارا خیال ہے کہ انسان نے یہ دیکھتے ہوئے کہ،‏<br />

اس گھوڑے کو روکا نہیں جا سکتا،‏ اسے محبت اور عشق<br />

جیسے پاکیزہ نام دے کر،‏ اس کی باگ موڑنے کی کوشش<br />

کی ہے۔ اور بہت حد تک کامیاب بھی ہؤا ہے۔ یہ وہ طریقہ<br />

ہے جو مرد کو عورت اور عورت کو مرد پسند کرنے کی<br />

اجازت بھی دیتا ہے،‏ اور غلظت سے دور بھی رکھتا ہے۔<br />

ہمارے نذدیک وہ تمام کہانیاں جو عشق و محبت کی<br />

پاکیزگی بیان کرتی ہیں اور انسان کو اس بات پر امادہ کر<br />

دیتی ہیں کہ وہ انہیں خوبصورت جذبے کا نام دے کر،‏<br />

برائی سے دور رہے،‏ وہ اس قدر غلط نہیں ہیں۔ سوائے


اس ایک بات کے،‏ کہ وہ عشق اور محبت کی ناکامی کی<br />

صورت میں،‏ انسان کو لغر اور بےکار بن جانے کی<br />

ترغیب دیتی ہیں۔ اس کو روکنا بہت ضروری ہے۔اب اس پر<br />

باقی کچھ ہم کہہ نہیں سکتے،‏ کیونکہ ہم خود ان لوگوں<br />

میں سے ہیں جو بقول شخصے یہ چاہتے ہیں کہ ہماری<br />

بیوی وہ کچھ نہ کرے جو وہ چاہتے ہیں کہ پڑوسی کی<br />

بیوی کرے۔ تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد۔ رواں<br />

رکھیں۔ انہیں پڑھ کر ہمیں بہت فائدہ ہوتا ہے۔ کچھ دیر<br />

سوچنے کا موقع ملتا ہے اور اپنے اپ کو پرکھنے کا بھی۔<br />

وی بی جی<br />

جی درست فرمایا اپ نے۔ ظلم تو واقعی ہے۔ ہم لوگ اج<br />

بھی خلیفہ ہارون الرشید کی تعریفیں کتابوں میں پڑھتے<br />

ہیں،‏ بلکہ تمام مسلمان بادشاہوں،‏ جیسے مغلیہ خاندان<br />

وغیرہ کی تعریف کرتے ہیں۔ کبھی نہیں کہتے کہ،‏ خاندا Lن<br />

برامکہ کا کیا حال ہؤا تھا،‏ کبھی نہیں لکھتے کہ فرقہ<br />

معتذلہ کیا تھا،‏ کبھی نہیں پڑھتے کہ،‏ امام احمد بن حنبل<br />

کے ساتھ کیا سلوک ہؤا۔ تب بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ لیکن<br />

افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ اب بھی ہم ایسا ہی کر<br />

رہے ہیں۔ بقول فراز»‏ یہاں قلم کی نوک پر ہے نوک خنجر<br />

کیاپ کی دعاؤں کا شکریہ۔ ہم گم ہو جائیں تو ‏:اLنا ل:‏ پڑھ


لیا کیجے۔ سنا ہے کوئی چیز گم ہو جائے تو یہی پڑھنا<br />

چاہیئے۔ اگر دنیا میں نہ ہوئے تو مغفرت کے کام ائے گی۔<br />

وی بی جی<br />

جواب کا سکتہ<br />

اپریل<br />

2014 ,04<br />

اپ کی کچھ تحریریں ایسی ہوتی ہیں،‏ کہ انہیں پڑھ کر<br />

انسان کو لگتا ہے کہ ابھی اور اس پر سوچنے کی ضرورت<br />

ہے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ پڑھ کر انسان جو<br />

کچھ محسوس کرتا ہے اسے الفاظ نہیں دے پاتا۔ کئی<br />

افسانے اپ کے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ کہتے کچھ نظر<br />

اتے ہیں لیکن کہہ کچھ اور رہے ہوتے ہیں۔ ‏:نقاد:‏ تو بہت<br />

اونچا مرتبہ ہے،‏ ہم تو صرف ایک عام ادمی کی سی عقل<br />

کے حامل ہیں اور صرف یہ سوچ کر اپنی رائے کا اظہار<br />

کرتے ہیں کہ جو ہم نے محسوس کیا وہ اپ تک پہنچ<br />

جائے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ جو کچھ اپ اپنی تحریر میں<br />

کہہ رہے ہوتے ہیں،‏ ہم جزوی یا پھر ہو سکتا ہے کہ کلی<br />

طور پر بھی نہ سمجھ پائے ہوں۔ ہمارے بیان سے اپ کو<br />

اتنا تو علم ہو ہی جائے گا کہ ایک عام شخص نے پڑھ کر


کیا محسوس کیا۔یہ تحریر بھی سوال چھوڑ جاتی ہے،‏<br />

افسانے کا ہیرو چونکہ خود ایک اسامیاں پھنسانے وال<br />

شخص ہے اس لیئے اس کے اپنی بیوی کے بارے جو بھی<br />

خیالت ہیں وہ مشکوک ہیں اور بھروسے کے لئق نہیں۔<br />

دوسری طرف بیویوں کے عام رویوں کی طرف اشارہ ہے<br />

کہ اپنے بچے اسے اپنے بچے ہی ہوتے ہیں جبکہ شوہر<br />

کسی اور کا بچہ ہوتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی محسوس<br />

ہوتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ رقیہ کو معلوم ہو کہ اس کا<br />

شوہر باہر کے کھانے پسند کرتا ہے سو اس نے پہلے دن<br />

ہی اس کو خوش کر دیا ہو)۔ یہ بھی اخض نہیں کیا جا سکتا<br />

کہ وہ اپنے بچوں کو حرام نہیں کھلنا چاہتی تھی کیونکہ<br />

گھر کا کھانا بھی تو اسی کمائی کا ہو گا۔ویسے بیوی کے<br />

معاملے میں زیادہ سوچنا نہیں چاہیئے کیونکہ اس کے کئی<br />

کام عقل سے باہر ہی ہوتے ہیناور عورتوں کا منطقی طرزL<br />

علم مردوں سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔اس معمے کو<br />

معاشرتی طرز عمل سے دریافت کرنے اور پھر الفاظ دینے<br />

پر داد قبول کیجے<br />

وی بی جی<br />

مئی<br />

ماسٹر جی<br />

2014 ,02


بہت اچھی تحریر جناب۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول<br />

کیجے۔ اپ بات کرنے کا فن جانتے ہیں۔ خوبی یہ ہے کہ<br />

معاشرے کے ایک تلخ رویئے کو اپ نے ایک چھوٹی سی<br />

کہانی میں سمو دیا ہے۔ اور پھر پر اثر بھی ہے۔ پڑھ کر<br />

ہمیں کچھ کچھ محسوس ہؤا کہ ماسٹر جی شکل ہم سے<br />

کچھ ملتی جلتی سی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو<br />

تلقین کرنا ماسٹر جی کا اصلی روپ،‏ یا اصلی چہرہ تھا۔ اور<br />

اس پر کتنے ہی نقاب ڈال لیئے جائیں وہ اس سے بچ نہیں<br />

سکتے تھے۔ مذہب وال نقطہ بھی ١٠٠ فی صد درست ہے،‏<br />

کہ اس میں ویسے ہی عقل کو ایک طرف رکھ دیا جانا ہوتا<br />

ہے سو ان معاملوں میں سمجھ کی ضرورت تو ہوتی نہیں۔<br />

مولوی صاحب کے ساتھ بھی یہی ہؤا کہ ایک دن اصلی<br />

چہرہ سامنے ا ہی گیا۔ ہماری طرف سے بھروپر داد قبول<br />

کیجے۔<br />

وی بی جی<br />

سچ پوچھیں تو ہم شروع میں یہاں ائے تھے تو اپ کے<br />

لکھے کی طرف انا دشوار سا لگتا تھا کہ لمبی تحریروں کو<br />

کون پڑھے اور وہ بھی توجہ مانگتی ہیں۔ پھر ایک ادھ بار<br />

پڑھا تو دل کو بہت بھایا۔ پھر ان پر لکھنے کی ہمت نہ پڑتی


تھی کہ صاحب ہماری داد کس لئق ہے اس قدر تفکر امیز<br />

تحریروں کے سامنے،‏ لیکن پھر ہم سے رہا نہیں گیا۔ اپ<br />

نے 1993 کے بعد کوئی کتاب شائع نہیں کروائی،‏ وجوہات<br />

بھی ہونگی۔ لیکن ہماری درخواست یہی رہے گی کہ جہاں<br />

تک ہو سکے،‏ ہمیں ان سے مستفیض ہونے کا شرف دیتے<br />

رہیئے گا۔ داد و تحسین،‏ اپ جانتے ہی ہیں،‏ کہ کوئی حیثیت<br />

نہیں رکھتی۔ ‏:ہم تو پکھی واس ہوویں:‏ سو جانے یہاں کب<br />

تک ہیں،‏ لیکن یہ سلسلہ جاری رہے تو اچھا ہے۔ کوئی نہ<br />

کوئی ان سے استفاضہ حاصل کرتا رہے گا۔ اپ جانتے ہی<br />

ہیں کہ انٹرنیٹ پر اگر کوئی چیز ٢٠٠ لوگ پڑھتے ہیں تو<br />

١٠٠ لوگ پسند بھی کرتے ہیں،‏ لیکن اپنی پسند کا اظہار<br />

فقط کوئی ایک ادھ شخص ہی کرتا ہے۔ بہار اتی ہے کویل<br />

کوکتی ہے،‏ کوئی سنے نہ سنے۔ ایسے ہی اپ کے یہ<br />

خوبصورت احساسات ہیں،‏ جو پڑھنے والوں کے زہنوں کو<br />

پختگی دیتے ہیں۔ مردہ ضمیر کو زندہ کرتے ہیں۔ اپ کو<br />

قدرت نے یہ صلحیت دی ہے کہ اپ کی تحریر صرف ایک<br />

قول کی طرح اچھا یا برا بتا نہیں دیتی،‏ بلکہ ضمیر کو<br />

جگاتی ہے۔ صرف اچھائی کی تغیب اور برائی چھوڑنے کی<br />

تلقین نہیں کرتی،‏ بلکہ اچھائی کرواتی ہے اور برائی کی<br />

طرف بڑھتا ہاتھ روکتی ہے۔ بقول ہمارے ہیکھولے نہ<br />

کھولے در کوئی،‏ ہے مجھ کو اس سے کیامیں چیختا رہوں<br />

گا تیرے در کے سامنےا پاک کا ہمیشہ کرم رہے اپ پر۔


وی بی جی<br />

اپریل<br />

بڑے ابا<br />

2014<br />

,28<br />

بہت ہی خوبصورت تحریر ہے۔ جہاں اپ نے انسان کے<br />

بٹتے چلے جانے کی بات کی ہے وہاں یہ تحریر ایک<br />

دوسرے کے ساتھ محبتوں کے ساتھ جینے کا بھی سبق<br />

دیتی ہے۔ تحریر میں موجود کرب کا احساس اسے اور<br />

زیادہ جاندار کر رہا ہے۔ واقعی صفر کا ہندسہ بہت طاقت<br />

رکھتا ہے،‏ اور اپ نے اسے اپنے انداز میں بہت<br />

خوبصورتی سے معاملے کے ساتھ جوڑا ہے۔ صفر کے<br />

ساتھ صرف ایک کا اضافہ اسے بہت طاقتور کر دیتا ہے<br />

اور خود بھی بہت طاقتور ہو جاتا ہے بشرطیکہ کہ ‏:صحیح<br />

سمت:‏ میں اضافہ ہو۔ غلط سمت میں اگر ایک کا اضافہ ہو<br />

تو ایک،‏ ایک ہی رہتا ہے لیکن صفر اپنا وجود بھی کھو<br />

دیتا ہے۔ ایک کو چاہیئے کہ کوشش کرے کہ کئی صفروں<br />

کے ساتھ لگ جائے اور اسی طرح اپنی اور دوسروں کی<br />

قیمت میں اضافہ کرے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول<br />

کیجے۔ بہت ہی عمدہ تحریر ہے۔ہم نے انسان کے بٹنے کے


عمل کو ایک اور نقطہ نظر سے بھی دیکھا ہے۔ شیکسپئر<br />

کے مطابق ‏:ال دا ورلڈ از سٹیج:‏ ۔ انہوں نے انسان کی<br />

زندگی کے ادوار کو کردار دیئے ہیں،‏ جبکہ ہمارا خیال ہے<br />

کہ انسان ایک ہی وقت میں کئی کردار بھی نبھاتا ہے۔ باپ<br />

بھی ہے بیٹا بھی۔ دفتر میں ایک چہرہ تو رشتہ داروں کے<br />

سامنے کوئی اور چہرہ۔ کہیں اداب بھری محفل میں ایک<br />

مؤدب شخص تو دوستوں کے سامنے ایک گالم گلوچ والے<br />

انسان کا چہرہ۔ کہیں چالک اور مکار تو مولوی صاحب کے<br />

سامنے عجز و انکسار۔ کہیں خوشی نہ ہوتے بھی ہنسنا<br />

پڑتا ہے تو کہیں کسی کو موت پر زبردستی رونے کی<br />

کوشش کرتا ہے۔ کردار نبھاتا ہے۔ اور انہیں کرداروں میں<br />

بٹتا بٹتا،‏ اپنا اصلی چہرہ بھول جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک کردار<br />

یہ ‏:وی بی:‏ ہے جس میں ہمیں اپنا چہرہ نظر اتا ہے اور ہم<br />

اس کے ساتھ وقت گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم نے<br />

اپ کی تحریر پڑھ کر زیادہ وقت نہیں لیا،‏ سو جذباتی سی<br />

چند باتیں جو ذہن میں ابھریں بیان کر گئے ہیں،‏ جس پر<br />

معذرت بھی چاہتے ہیں۔ ائندہ کوشش کریں گے کہ اپ کی<br />

تحریر کے ساتھ زیادہ وقت گزاریں تاکہ جذبات کچھ ٹھنڈے<br />

ہو جائیں اور ہم کچھ عقل کو لگتی کہہ سکیں۔اپ کی یہ<br />

تحریر بھی بہت خوب ہے،‏ اور ہمیں یقین ہے کہ پڑھنے<br />

والے اس سے ضرور اثر لیں گے۔ کیونکہ یہ جذبات اور<br />

احساسات سے لبریز ہے۔ایک بار پھر بھرپور داد کے


ساتھ۔۔<br />

وی بی جی<br />

اپریل<br />

گناہ گار<br />

2014<br />

,26<br />

ماشاا جناب یہ تحریر بھی بہت خوب ہے۔ کمال یہ ہے کہ<br />

اپ اس قدر وسعت رکھتے ہیں کہ اپ کا لکھا جب پڑھا<br />

بالکل مختلف سا ہی ہوتا ہے اور یہ انفرادیت اپ کے قلم کی<br />

پہچان ہے۔ ہر بار ایک نئی اور علیحدہ دنیا کی ہی سیر<br />

کرواتے ہیں۔ اس کے لیئے شکر گزار بھی ہیں ہم اور اپنے<br />

ساتھ بھرپور داد بھی لئے ہیں جو پیشL خدمت ہے۔رزق<br />

سے متعلق چونکہ بات ہو رہی تھی سو ہم نے بہت غور<br />

سے پڑھا اپ کے خیالت کو۔ لیکن ایک فقرہ ہے جس کی<br />

تشریح ہم ٹھیک سے نہیں کر پا رہے ہیں۔ وجہ شائید اس<br />

فقرے میں موجود یہ الفاظ ہیں : تو وہ اس شخص کے اندر<br />

رزق فراہم کرنے کی قدرت رکھتا ہے:‏ ۔ فقرہ درج L ذیل ہے۔<br />

انہوں نے‘‏ اس سے آگے فرمایا‘‏ کہ اگر انسان سے زمینی:‏


استحصال پسند قوتیں‘‏ رزق چھین لیں‘‏ تو وہ اس شخص<br />

کے اندر‘‏ رزق فراہم کرنے کی قدرت رکھتا ہے‘‏ اور کوئی<br />

نہیں‘‏ جو مزاحم آ سکے:ممکن ہے کتابت کی چھوٹی سی<br />

کوئی غلطی ہو لیکن چونکہ ہم خود کم فہم قسم کے شخص<br />

ہیں تو ذیادہ تر امکان اسی بات کا ہے کہ ہم اپ کے مفہوم<br />

تک نہ پہنچ پا رہے ہیں۔مولنا ازاد»‏ صاحب بہت مثبت سوچ<br />

رکھنے والے شخص تھے،‏ سنتے ہیں کہ ایک بار کسی نے<br />

ان سے کہا کہ فLلں بادشاہ کے دور میں عورتیں کپڑے<br />

نہیں پہنتی تھیں بلکہ اپنے جسم پر کپڑوں کی سی تصویر<br />

‏(پینٹنگ)‏ بنوا لیا کرتی تھیں۔ مولنا صاحب کا مثبت جواب<br />

دیکھیئے کہ فرمایا کہ اس بات سے اس زمانے کے<br />

مصوروں کی فنی صلحیتوں کا پتہ چلتا ہے کہ کس قدر<br />

مہارت رکھتے تھے۔تو صاحب رزق اور خدا سے مطعلق<br />

بھی ہمارا ایسا ہی مثبت اور سادہ وطیرہ ہے۔ اگر رزق مل<br />

جائے تو ا نے دیا،‏ نہ مل تو حکومت یا مسلمانوں کی<br />

دین سے دوری ذمہ دار۔ اگر انعامی بانڈ نکل ایا تو ا کا<br />

شکر،‏ نہ مLل تو اسی میں بھلئی تھی،‏ اپ ہی کی مثال سے<br />

دونوں پستانوں کا دودھ ‘ ذائقہ اور تاثیر میں‘‏ ایک سا نہیں<br />

ہوتا تو واہ کیا ہی خوب قدرت کا کمال ہے اگر ایک سا ہے<br />

تو بھی واہ کیا ہی خوب قدرت کا کمال ہے کہ دو الگ الگ<br />

پستانوں سے ایک سا دودھ ۔ دنیا کو دیکھ کر اندازہ لگاتے<br />

رہتے ہیں کہ فلں کام اچھا ہؤا یا برا۔ اگر اچھا ہؤا ہے تو


واہ ا تیرا کمال،‏ اگر برا ہؤا تو شیطان مردود۔ ا کا خوف<br />

ہے کہ کہیں کچھ غلط منہ سے نکل تو نقصان نہ اٹھانا<br />

پڑے اس لیئے ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے،‏ کہ سوچتے<br />

پھریں کہ دنیا میں جو جL تنا کال ہے اتنا بدحال اور جو جL تنا<br />

گورا ہے اتنا خوشحال کیوں ہے۔ یا یہ کہ ان کے حالت کا<br />

ذمہ دار ان کا رنگ ہے یا ان کی رنگت ان کی خوشحالی کی<br />

نسبت ٹھہری ہے۔اپ کے خیالت اس معاملے میں بہت<br />

اچھے ہیں اور مثبت ہیں،‏ یہ اچھی بات ہے۔ افسانہ بھی<br />

بہت خوبصورت ہے۔ ا پاک اپ کے قلم کو مذید وسعت<br />

دے۔ایک چھوٹی سی شکایت بھی ہے کہ اپ داد وصول<br />

کرنے کی بجائے داد دینے لگ گئے ہینہمیں احتیاط کرنی<br />

پڑے گی۔<br />

وی بی جی<br />

اپریل<br />

گناہ گار<br />

2014<br />

,26<br />

جناب داد کی بات نہیں کر رہے،‏ وہ تو اپ کی تحریریں ہم<br />

سے ہمارا گریبان پکڑ کر لے لیتی ہیں،‏ ایسے ہی جیسے ہم<br />

ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو اپنی تنخواہ کی پائی پائی تک


مشین سے وصول کرتے ہیں۔ ہم اپنے خیالت کی اظہار کی<br />

بات کر رہے تھے کہ ہم ذرا اLدھر ادھر کی ہانکنا کم کر دیں،‏<br />

وگرنہ ہمیں یقین ہے کہ اپ جس طرح کی نظر رکھتے ہیں<br />

ہم پر بھی اپ کی تجزیہ کی تیز نگاہ ہو گی،‏ اور ممکن ہے<br />

کہ کسی دن ایک عجیب کردار کی صورت میں اپ کی کسی<br />

تحریر کا حصہ بن جائیں گے۔ اپ کا شکریہ کہ ہمیں ان<br />

تحریروں سے فیضیاب ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔طال Lب<br />

دعا<br />

ماشاا جناب۔ بہت ہی خوب۔ ایک تو ہمارے علم میں اضافہ<br />

ہؤا کہ ‏:رزق اندر:‏ کے کیا معنی ہیں دوسرا اپ کے اس<br />

فقرے کے معنی جان کر بہت اچھا لگا۔ واقعی وہ رزق دیتا<br />

ہے تو کہاں نہیں دیتا۔<br />

توجہ اور رہنمائی کا شکریہ۔۔<br />

وی بی جی<br />

اپریل<br />

انا کی تسکین<br />

2014 ,18<br />

بہت اچھی تحریر ہے،‏ داد قبول کیجے۔ ‏(ہم ‏:تحریر:‏ اس


لیئے کہتے ہیں کہ کم علمی کے سبب،‏ ہم ‏:انشائیہ:،‏<br />

‏:افسانہ:‏ وغیرہم میں تفریق کرنے سے قاصر ہیں)اپ نے<br />

فرمایا تھا کہ ہم خصوصی برتاؤ رکھتے ہیں تو جناب ایسا<br />

ہرگز نہیں ہے۔ ہم تو جیسا پڑھتے ہیں ویسا بیان کرتے ہیں۔<br />

یہ اپ کی تحریریں ہیں جو ہمیں یہاں لتی ہیں۔ اگرچہ اپ<br />

جانتے ہی ہیں کہ مصروفیات اج کے دور میں بہت زیادہ ہو<br />

چکی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ایک ‏:ابا جی:‏ کماتے تھے اور<br />

سارا ‏:ٹ⁄بر:‏ کھاتا تھا،‏ اور ایک یہ وقت ہے کہ ‏:سارا ‏:ٹ⁄بر:‏<br />

کماتا ہے اور ایک ‏:ابا جی:‏ کو نہیں کھLل سکتا۔ سو ہماری<br />

حاضری کم رہتی ہے،‏ وجہ یہ بھی ہے کہ اپ کی تحریر کو<br />

سرسری نظر سے دیکھنا،‏ ہم سے ممکن نہیں۔ یہ خود ہی<br />

توجہ چھین لیتی ہے۔ اپ کے شکر گزار ہیں ہم کہ احباب<br />

اگر کم توجہ بھی دیں تو اپ ان تحریروں کو یہاں پیش<br />

کرتے رہتے ہیں،‏ اور کم از کم ہم اس سے استفاضہ کرتے<br />

رہتے ہیں۔یہ تحریر بہت تلخ محسوس ہوئی،‏ اور ایسا ہی<br />

ہونا چاہیئے تھا۔ اس قدر الفاظ میں نفرت بھری ہے کہ<br />

جیسے صاحبL قلم کو خود بھی چوٹ پڑی ہو۔ ایک جملہ<br />

ہے اپ کا،‏ اس پر داد بھی قبول کیجے۔<br />

اقتباس<br />

بڑی اور شہرت یافتہ دکان سے‘‏ کھلنے پلنے کی صورت<br />

میں‘‏ فائل کی بلند پروازی پر‘‏ شاہین بھی شرمندہ ہو جاتا


ہے۔<br />

ہم لوگوں نے ‏:حرام:‏ پر تحقیق کی اور اس کی بھی کئی<br />

اقسام مرتب کیں۔ اقسام بھی دو قسم کے نقطہ نظر سے کی<br />

گئی ہیں۔ پہل نقطہ نظر۔ایک تو ‏:اپنے لیئے حرام،‏ دوسرے<br />

کے لیئے حلل:‏ اور دوسرا ‏:اپنے لیئے حلل،‏ دوسرے کے<br />

لیئے حرام:‏ جیسا کہ اپ کی تحریر نے بھی وضاحت کی<br />

ہے۔دوسرا نقطہ نظراگرچہ یہ اقسام بہت ہیں لیکن ہم چیدہ<br />

چیدہ کا ذکر کئیے دیتے ہیں۔<br />

پہلی قسم:‏ اسے کبھی مسلمان اپنے لیئے حلل نہیں:‏<br />

سمجھتے۔ جیسے سور اور کتے کا گوشت۔<br />

دوسری قسم:‏ اسے حسبL طبیعیت استعمال کیا جا سکتا:‏<br />

ہے۔ جیسے شراب،‏ جؤا۔<br />

تیسری قسم:‏ ایسی چیزیں جنہیں کہنا تو حرام ہوتا ہے:‏<br />

لیکن ان کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں،‏ بلکہ ترغیب دی<br />

جاتی ہے۔ جیسے سود،‏ کسی دوسرے مسلمان بھائی کا مال<br />

و زن۔ کچھ مفتی حضرات کے بھی ہم احسانمند ہیں کہ<br />

انہوں نے اس کو کئی اور نام دے کر نہ صرف عوام کو<br />

سہولت مہیا کی بلکہ خود بھی لکھوں روپے ماہانہ لے کر<br />

دین کی خدمت کر رہے ہیں۔ ‏(ویسے ہم خود بھی ایسے ہی


کسی ضمیر فروش مفتی کی تلش میں ہیں جو ہمیں روزہ<br />

میں سگریٹ پینے کی اجازت کا فتوی دے دے)۔اپ کی<br />

تحریریں ایسی ہوتی ہیں کہ ہم اپنا رونے بیٹھ جاتے ہیں۔<br />

اس پر معذرت بھی چاہتے ہیں۔ یہ تحریر پڑھ کر ہمارا نہیں<br />

خیال کہ کوئی پڑھے گا اور اثر نہ لے گا۔ ایک بار پھر<br />

بھرپور داد کے ساتھ<br />

وی بی جی<br />

جناب یہ تو اپ نے حد سے بڑھ کر عزت دے دی ہماری<br />

عامیانہ سی رائے کو۔ عامیانہ اس لیئے کہا کہ ایک عام<br />

سے ادمی کی رائے ہے،‏ ہم نہ مفکر ہیں اور نہ دبیر۔ اور<br />

نہ ہی کوئی عالم فاضل ہیں کہ ‏:علوم فضول:‏ حاصل کر<br />

رکھے ہوں اور نہ ہمارا نام ‏:علما فضل:‏ میں اتا ہے ‏:وی<br />

بی جی:‏ ۔ سو صاحب،‏ اگر ہم سے کوئی کام کی بات سرزد<br />

ہو جائے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ یہ کس نے کی۔<br />

ایک اور گزارش کرنا چاہیں گے کہ ہم اپنا نام یہاں نہیں<br />

لئے ہیں۔ ہمارے ہمذاد ہیں،‏ ایک کردار ‏:وی بی جی:‏ وہ<br />

یہاں ائے ہیں اور ان کا یہی نام ہے۔ اگر وقت اجازت دیتا ہو<br />

تو ہماری یہ نظمیہ غزل ایک نظر پڑھ لیجے گا۔.امید ہے<br />

خفا نہ ہونگے۔اپ نے اس نالئق کو اس لئق سمجھا ہے<br />

جس پر سراپا سپاس ہیں اور ایک بار پھر شکریہ ادا کرتے


ہیں۔ ہمیں ‏:چوتھی:‏ مرغی بھی ذبح کرنی ہے سو وہاں<br />

چلتے ہیں۔<br />

وی بی جی<br />

اپریل<br />

انگریزی فیل<br />

2014 ,18<br />

معذرت خواہ ہیں کہ دیر سے حاضر ہوئے۔ یہ موضوع<br />

اگرچہ اس قدر انوکھا نہیں ہے،‏ لیکن اپ کے قلم نے اسے<br />

اپنی طرز سے بیان کیا ہے اور بہت ہی خوب کیا ہے۔ ہکے<br />

پھلکے انداز میں اپ نے کہانی بیان کی ہے جو پڑھنے<br />

والے کو کسی ذہنی دباؤ میں نہیں ڈالتی۔ اس کا فائدہ یہ ہے<br />

کہ وہ قارئین جو گہرے فلسفوں سے کتراتے ہیں یا سمجھ<br />

نہیں پاتے وہ بھی اس سے محظوظ ہو پاتے ہیں اور کچھ<br />

نہ کچھ بات کا اثر ضرور لے کر جاتے ہیں۔ ہماری طرف<br />

سے بھپور داد قبول کیجے۔ویسے ہمارا خیال اس سے<br />

متعلق تو یہ ہے کہ ایک تو جو شاگرد رٹہ نہیں لگا سکتے<br />

ان کو اساتذہ سے شاباش بھی شاز و نادر ہی ملتی ہے،‏<br />

وگرنہ نہیں ملتی۔ ہمارا اپنا المیہ یہی رہا ہے۔ دوسری بات<br />

یہ کہ اس میں صرف انگریزی ہی کارفرما نہیں ہے،‏ بلکہ


کئی ایسی چیزیں ہمارے نصاب کا حصہ ہیں جس کی کوئی<br />

تک نہیں ملتی۔ یقین جانئیے اج تک ہمیں الجبرا ، جسے<br />

جبراø پڑھایا جاتا ہے،‏ کو استعمال کرنے کا کوئی موقع<br />

زندگی نے نہیں دیا۔ ہم ایکسوں میں سے وائیاں تفریق<br />

کیئے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ نہ مرہٹوں کی لڑائیوں کی<br />

تاریخوں کی کہیں ضرورت پڑی ہے۔ اور تو اور قائدLاعظم<br />

کے چودہ نقاط جسے ہم چوتھی جماعت سے لے کر<br />

مسلسل چودھویں جماعت تک یاد کرنے کی کوشش کرتے<br />

رہے ہیں،‏ نہ تو اج تک کبھی یاد ہوئے ہیں اور نہ کبھی<br />

اس کی ضرورت پڑی ہے۔یہاں کسی کام کو کرنے کے لیئے<br />

اس کام لیئے موزوں ترین شخص بھی تلش کرنے کا کوئی<br />

اصول درست نہیں ہے۔ ہم جہاں کام کر رہے ہیں وہاں بھی<br />

صرف اس لیئے کہ ہمیں ‏:ڈائریکٹ،‏ ان ڈائریکٹ:،‏ ‏:ایکٹو،‏<br />

پیسLو:،‏ ‏:دعائے قنوت:،‏ اور اپنے وزیرL اطلعات کا نام یاد<br />

تھا۔ ہم اس سے بھی اچھا عہدہ پا سکتے تھے لیکن<br />

چونکہ ہمیں نہ صرف ‏:امریکہ کے صدر کین⁄ڈی:‏ کے قاتل کا<br />

نام یاد نہیں تھا بلکہ یہ تک معلوم نہ تھا کہ ‏:بلبل:‏ کی<br />

اوسط عمر کLتنی ہوتی ہے،‏ اس لیئے ہم اس عہدے کے<br />

لئق نہ تھے۔ اس لیئے ہم سمجھتے ہیں کہ نہ صرف یہ<br />

شعور دینا ضروری ہے کہ تعلیم کا مقصد کیا ہے اور اس<br />

میں کردار سازی کی کیا اہمیت ہے۔ بلکہ یہ بھی کہ کسی<br />

کام کو کرنے کے لیئے موزوں ترین شخص کا انتخاب


کیسے کرنا چاہیئے۔ اگر ہمارے بس میں ہو تو ، حافظ،‏<br />

سعدی اور عرفی جیسے لوگوں کا کلم،‏ بلکہ قصہ چہار<br />

درویش کو نصاب کا حصہ بنائیں اور بہت سی خرافات کو<br />

اس میں سے نکال پھینکیں۔ ورنہ ہمارا تو یہی حال ہے<br />

بقول سعدی کہ اگر کوئی شخص علم حاصل کرے اور پھر<br />

اسے استعمال نہ کرے تو ایسے ہی ہے جیسے کسی گدھے<br />

پر کتابوں کا بوجھ لدا ہو۔ تحریر پر ایک بار پھر داد کے<br />

ساتھ۔<br />

وی بی جی<br />

چوتھی مرغی<br />

اپریل<br />

2014 ,26 ,<br />

بہت ہی خوبصورت تحریر ہے۔ اپ ماشاا بہت ہی گہری<br />

نظر رکھتے ہیں۔ اور پھر اپ کے پاس نہ صرف خیالت کو<br />

الفاظ دینے کا ہنر ہے بلکہ وہ طاقت بھی ہے کہ اپ کی<br />

تحریر پڑھنے وال نہ صرف قائل ہو جاتا ہے بلکہ ہمیں<br />

یقین ہے کہ اثر بھی لیتا ہے۔ ایک معاشرتی مسئلہ کہ اپ<br />

نے کہاں مرغی سے شروع کیا ہے اور کیسے تمام کہانی<br />

کے بعد اسے وہیں سمیٹا ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد


قبول کیجے۔ اپ کہاں ‏:اسیل:‏ مرغی پر چھری پھLروا رہے<br />

تھے جناب یہ تو مرغے لڑانے والوں کی نظر میں ‏:کفر:‏<br />

سے کم نہیں۔ اپ کی تحریر پڑھ کر کچھ باتیں ذہن میں ائی<br />

ہیں ایک تو یہ کہ عام خیال ہہی ہے کہ پڑھنے لکھنے کا<br />

مطلب ہے رزق میں اضافہ اور یقین دہانی۔ ایک فارمول کہہ<br />

لیجے کہ جL تنا ذیادہ پڑھا لکھا ہو گا انسان،‏ اتنا ہی ذیادہ اس<br />

کا رزق ہونا چاہیئے۔ اور دوسری بات یہ کہ جنگل کا قانون<br />

برا ہوتا ہے،‏ انسانوں کے قوانین اچھے ہوتے ہیں اور<br />

انہیں ہی رائج ہونا چاہیئے۔ رزق کے بارے تو ہمارا خیال<br />

ہے کہ اس کا کوئی فارمول نہیں ہے۔ ہم نے تو یہی دیکھا<br />

کہ اگر کوئی شخص ہماری طرح اپنی تعلیمی اخراجات کی<br />

رسیدیں جنہیں ڈگریاں بھی کہتے ہیں لیئے پھLرے،‏ چاہے<br />

کوئی بڑا سائنس دان ہو،‏ چاہے عالم ہو شاطر ہو،‏ رزق کا<br />

حقدار اس ناطے سے نہیں ٹھہرتا۔ اس کو بانٹنے کا قدرت<br />

کا اگر کوئی فارمول ہے تو ہمیں ٹھیک سے سمجھ نہیں ایا<br />

اج تک۔ ایک طرف تو دین کہتا ہے کہ رزق صرف ا کے<br />

ہاتھ میں ہے،‏ دوسری طرف ١٠٠ بچے بھوکے مر جاتے<br />

ہیں۔ الزام کLسے دیں؟ لے دے کر اگر رزق کا کوئی فارمول<br />

ہمیں دین سے مل ہے تو یہی ہے کہ صدقہ خیرات دو کہ یہ<br />

دوگنا ہو کر واپس ملے گا۔ جس کے پاس کچھ نہ ہو وہ کیا<br />

کرے یہ کہیں نہیں مLل۔ دوسری طرف اگر رزق ا کے ہاتھ<br />

نہ ہو تو پورے ملک کو وہ بیرونی کمپنیاں کھا جائیں،‏ جو


ایک ہی وقت میں نہ صرف کئی قسم کے صابن بنا کر<br />

اشتہاروں میں اپس میں لڑ کر دکھاتی ہیں بلکہ انہیں<br />

صابنوں کے دو نمبر بھی خود ہی بناتی ہیں کہ کوئی دوسرا<br />

فریق کیوں بنا کر کمائے۔ جنگل کے قانون سے متعلق ہمارا<br />

خیال ہے کہ یہ انسان کی تعصب سے بھری ہوئی سوچ ہے<br />

کہ خود کو جانوروں سے بہتر سمجھتا ہے۔ انسان اشرف<br />

المخلوقات ہے لیکن یہاں انسان کی جو ‏:تعریف:‏ ہے وہ<br />

کچھ اور ہے۔ اپ خود ہی سوچئیے کونسی ایسی برائی ہے<br />

جو جانوروں نے کی ہوں اور انسانوں نے وہ برائی نہ کی<br />

ہو۔ اچھائیاں برائیں دونوں سوچ لیجے۔ ایک بھی ایسی نہ<br />

ملے گی۔ انسان،‏ انسانوں تک کا گوشت محوارتاø نہیں بلکہ<br />

حقیقتاø کھا رہا ہے۔ ادھر انسانوں کی وہ برائیں دیکھ لیجے<br />

جو جانوروں نے کبھی نہ کی ہوں۔ اتنی لمبی فہرست نکلے<br />

گی کہ خدا کی پناہ۔ سو ہمارا خیال ہے کہ اگر تعصب کو<br />

تھوڑا سا ایک طرف رکھ کر سوچا جائے تو جانور بدرجحا<br />

بہتر نظر ائیں گے۔ وہ تو معصوم نظر اتے ہیں ہمیں۔ جنگل<br />

کے قوانین میں شکار تبھی ہوتا ہے جب بھوک لگے۔ یہاں<br />

الٹا معاملہ ہے،‏ بھوک لگنے سے پہلے انتظام کرنا ہوتا<br />

ہے۔ بھیڑیے کی خصلت تھی کہ وہ کمزور پڑ جانے والے<br />

بھیڑیئے کو مل کھا جاتے ہیں۔ لیکن یہاں مل بانٹ کر بھی<br />

نہیں کھاتے۔ واہ رے انسان۔۔سو صاحب جب تک دنیا میں<br />

کمزور اور طاقتور موجود ہیں،‏ کمزور کی گردن طاقتور کی


دو انگلیوں میں رہے گی۔ یہ اصول ہم نے صرف انسانوں<br />

کے گھٹیا معاشرے اور قوانین سے ہی نہیں اخذ کیا بلکہ<br />

جانوروں کے سلجھے ہوئے اور مہذب معاشرے اور جنگل<br />

کے قوانین سے بھی ثابت ہے۔اپ کی تحریر بہت خوب ہے۔<br />

امید ہے اگر نا انصافی کو دنیا سے ہم مٹا نہیں سکتے تو<br />

کسی حد تک کم کرنے کی جستجو تو کر سکتے ہیں۔ اور<br />

یہی اپ کر رہے ہیں۔ اپ کی یہ تحریر بھی اسی کاوش کا<br />

حصہ ہے اور مقام رکھتی ہے۔ ایک بار پھر بھرپور داد کے<br />

ساتھ ۔ ۔<br />

وی بی جی<br />

تنازعہ کے دروازے پر<br />

اپریل<br />

2014 ,16<br />

واہ جناب یہ پہلو بھی اپ نہیں چھوڑا۔ بہت اچھی تحریر<br />

ہے۔ داد حاضر ہے۔اب بات یہ ہے کہ جو کہانی اپ نے<br />

لکھی ہے وہ تاریخ میں قدم قدم پر دہرائی گئی ہے۔ سو سچ<br />

پوچھیں تو ہم ان کرداروں کی شناخت میں ناکام رہے ہیں۔<br />

اس کی ہمارے خیال سے دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو<br />

یہ کہ ہم اپنی کمزور سیاسی بصیرت کی وجہ سے کئی


تاریخی نقاط سے ناواقف ہیں سو ایسا ہونا لزم ہے۔<br />

دوسری بات یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اپ نے کئی کہانیوں<br />

کے کردار اپنی تحریر میں ایک واحد کردار میں سمو دیئے<br />

ہوں۔ جس کی وجہ سے اصل تک نہ پہنچ پا رہے ہوں۔ہم<br />

معذرت بھی چاہیں گے کہ اپنی کم علمی کی وجہ سے اپ<br />

کی تحریر کو وہ خراج نہیں پیش کر پائے جس کی یقیناø یہ<br />

مستحق ہو گی۔ اپ کی تمام گزشتہ تحریروں کو نظر میں<br />

رکھتے ہوئے ہمیں یقین ہے کہ یہ ہماری نا سمجھی کی<br />

وجہ سے ہے۔لیکن جس پہلو سے بھی ہم دیکھ سکے ہیں<br />

اور جہاں تک سمجھ سکے ہیں تحریر اچھی ہے اور داد اپ<br />

کا حق۔بھرپور داد کے ساتھ<br />

وی بی جی<br />

اپریل<br />

کامنا<br />

2014<br />

,14<br />

واہ جناب واہ۔ اپ کی نظر کہاں کہاں تک ہے،‏ یہ تحریر پڑھ<br />

کر پتہ چل۔ پھر اپ کہتے ہیں کہ ریشماں جوان نہیں رہی۔<br />

صاحب اس تحریر کے اخر میں اپ نے مرہٹوں کی سرکوبی<br />

کی تاریخ رقم نہیں کی سو ہمارا خیال ہے کہ تحریر نئی


بھی ہے اور ریشماں کی جوانی کی سند بھی۔ اور صاحب<br />

ہمارے خیال سے ریشماں کبھی بوڑھی نہیں ہوتی،‏ اس پر<br />

مرنے والی انکھیں بوڑھی ہو جاتی ہیں۔اس تحریر نے ہمیں<br />

جیت لیا ہے۔ ایک تو اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اپ کی<br />

نظر کہاں کہاں تک ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ موضوع کوئی بچوں<br />

کا کھیل نہیں ہے۔ اور اس پر لکھنے کا خیال تک انا،‏ بہت<br />

بڑی بات ہے۔ دوسرا اپ کے علم کا بھی پتہ چلتا ہے کہ<br />

کس گہرائی سے اپ نے مشاہدہ کیا ہے۔ اگر اس موضوع<br />

سے متعلق باریک چیزوں کا علم نہ ہو تو ظاہر ہے کہ چند<br />

ٹوٹے پھوٹے فقروں کے سوا کوئی اس پر کچھ نہیں لکھ<br />

سکتا۔ اور اپ نے تو کمال حکایت بیان کی۔ دل عش عش کر<br />

اٹھتا ہے۔اسے پہلے پڑھا تو کئی باتیں ذہن میں ائیں لیکن<br />

اسے دوبارہ پڑھا اور پھر ایسا محسوس ہؤا کہ کچھ کہنے<br />

کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ اپ نے کوئی کونہ خالی نہ<br />

چھوڑا ہے۔ ویدی کا ویدان ہمارے اپنے خیال سے متعلق<br />

بھی یہی ہے۔ جب تک دنیا قائم ہے کوئی نہ کوئی گیانی<br />

کہیں نہ کہیں ایک ٹانگ پر کھڑا ہوتا رہے گا۔ اور شائید<br />

ذاتL باری تعالی بھی نہیں چاہتی کہ اذان کے ہوتے ہی<br />

سب ‏:م⁄سیت:‏ میں جا پڑیں۔ کچھ لوگ سیمنا گھروں میں<br />

بھی نظر اتے رہیں گے۔ہماری طرف سے بھرپور داد قبول<br />

کیجے۔ بہت ہی عمدہ تحریر ہے۔ اپ جیسے صاحبانL علم<br />

اس دنیا کا سرمایا ہیں،‏ جسے بے قدرے لوگ صرف


عیاشی پر خرچ کرنا چاہتے ہیں۔ا پاک اپ کے علم اور<br />

صحت میں برکت عطا فرمائیں۔<br />

وی بی جی<br />

ابا جی کا ہم زاد<br />

اپریل<br />

2014 ,13<br />

اپ کی یہ شاندار تحریر پڑھی۔ بہت زوراور ہے اور اس<br />

میں اپ کا ایک نیا انداز نظر ایا۔ یا منفرد انداز کہہ لیجے۔<br />

یقین جانیئے کہ رشک ایا پڑھ کر اور دل سے داد نکلی۔ اپ<br />

نے ایک جگہ کہا کہ ہم کچھ زیادہ تعریف کر جاتے ہیں<br />

لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس تحریر کو ہی دیکھیئے۔ جتنی تعیف<br />

کی جائے کم ہے۔ اس موضوع کو اس انداس سے سوچنا<br />

ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ ہم ایسے کئی لوگ جب کسی<br />

مسئلہ میں ہوتے ہیں تو ویسا ہی کرنے کی کوشش کرتے<br />

ہیں جیسا کہ ان کے والد ایسے موقع پر کیا کرتے تھے،‏<br />

اور اگر کچھ لوگوں کو ایسا خیال نہیں ایا تو انہیں بھی ایسا<br />

ہی کرنا چاہیئے۔ یہ ہمارا خیال ہے اور ایسا ہی ہم نے اس<br />

تحریر سے بھی اخذ کیا ہے۔ اپ کی تحریر اگرچہ سوچنے<br />

پر مجبور کرتی ہے،‏ اور ہر شخص اپنی سوچ کے حساب


سے نتیجہ یا نتائج اخذ کر سکتا ہے،‏ لیکن ہمیں ایسا ہی<br />

محسوس ہؤا۔ ہمارے گھر میں کئی قسموں کے کردار تھے<br />

اور ہم انہی کو محسوس کرتے رہے۔ بابا،‏ ماں،‏ بہنیں،‏<br />

بھائی وغیرہ،‏ لیکن دو ایسے کردار تھے جنہیں ہم نے<br />

کبھی محسوس نہیں کیا۔ اور وہ تھے ایک میاں اور ایک<br />

بیوی۔ یہ کردار پسL پردہ رہتے ہیں اور انسان کی شادی ہو<br />

جانے تک کبھی محسوس نہیں ہوتے۔ یا پھر ہمیں نہیں<br />

محسوس ہؤے۔ اپ نے کہاں سے بات شروع کی اور کہاں<br />

ل چھوڑی،‏ قابل تحیسن ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد<br />

قبول کیجے۔ اس بات کا شکریہ بھی کہ ہمیں اپ کی تحریر<br />

کے توسط سے پتہ چل ہے کہ ہم بہت سے کام کیوں کرتے<br />

ہیں۔ ایک چھوٹی سی عرض بھی کرنا چاہیں گے کہ یا تو<br />

اپ نے ‏:مقالموں:‏ کو زیادہ توجہ نہیں دی یا پھر ہمیں<br />

افسانے اور کہانیاں وغیرہ پڑھنے کی عادت نہیں رہی۔ ہمیں<br />

مقالموں کو پڑھنے اور سمجھنے میں کچھ دقت ہوئی ہے۔<br />

یہ بات بیان کرنا اس لیئے ضروری سمجھا تاکہ اپ کے علم<br />

میں ہو کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہو سکتے ہیں جنہیں اس<br />

قسم کی مشکلت بھی پیش ا سکتی ہیں۔ایک بار پھر<br />

بھرپور داد کے ساتھ ۔<br />

وی بی جی


دو دھاری تلوار<br />

اپریل<br />

2014 ,09<br />

بہت جاندار تحریر ہے اور پھر اپ کا اندازL بیاں،‏ منظر کشی<br />

بہت ہی جاندار اور خوبصورت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ<br />

ایسی تحریریں کردار سازی کے لیئے بہت ضروری ہیں۔ نہ<br />

صرف یہ کہ اچھے برے کی تمیز سکھاتی ہیں،‏ بلکہ<br />

اچھائی کو پسند کرنے اور برائی سے نفرت کرنے پر<br />

مجبور کر دیتی ہیں۔ اپ کے اندازL بیاں مشکل پسندی سے<br />

دور ہے اس لیئے قاری کے ذہن پر اثر چھوڑتا ہے۔ اپ نے<br />

ڈارون کی بات کی،‏ ہمارا تو خیال ہے کہ ان کے نظریہ میں<br />

ایک معمولی سی تبدلی کر لی جائے تو بالکل درست ہے۔<br />

اور وہ تبدیلی یہ ہے کہ نظریہ کی مشہور تصویر میں<br />

دکھائے گئے قطار میں موجود تمام کے تمام اراکین اپنا رخ<br />

موڑ کر پیچھے کی طرف کر لیں۔ انسان کی پریشان حال<br />

زندگی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اصل میں انسان ترقی کرتے<br />

کرتے بندر بن گئے ہیں۔ مغربی ممالک کے تیزی سے ترقی<br />

کرتے ہوئے لوگوں میں یہ ترقی صاف دکھائی بھی دیتی<br />

ہے۔ ان کی بڑھتی ہوئی معصومیت دیکھ کر ہمیں وہ جانور<br />

ہی لگنے لگ گئے ہیں۔اس وقت جو ڈارون کا نظریہ موجود<br />

ہے اس میں ایک سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر بندر


ترقی کر کہ انسان بنا ہے تو پھر ابھی تک ہماری دنیا میں<br />

اتنے بندر کیوں ہیں اور ان کی ترقی میں کیا رکاوٹ ہے؟<br />

ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ جانوروں کے خاندان ہوتے ہیں<br />

جیسے،‏ گھوڑا،‏ گدھا،‏ خچر،‏ زیبرا وغیرہ۔ خرگوش،‏ چوہا،‏<br />

گلہری،‏ نیول وغیرہ۔ ایسے ہی انسان کا خاندان بندروں کا<br />

ہی ہے،‏ لیکن یہ علیحدہ نسل ہے۔ اور جس چیز نے انہیں<br />

اتنی ترقی دی ہے وہ صرف زبان ہے۔ جس نے انہیں ایک<br />

دوسرے کے تجربات سے بھی سیکھنے کی طاقت دی۔خیر،‏<br />

اپ کی تحریر کا صرف ایک حصہ ہے ڈارون کا نظریہ،‏<br />

اصل تو یہی ہے کہ انسان کو انسانوں اور جانوروں میں<br />

فرق رکھنا چاہیئے۔اپ کی تحریر بہت پسند ائی۔ بہت شکریہ<br />

کہ اپ یہاں رقم کر دیتے ہیں اور ہم فیضیاب ہو پاتے ہیں۔<br />

وی بی جی<br />

مارچ<br />

شیدا حرام دا<br />

2014 ,27<br />

آپ کا انشائیہ پڑھا اور کچھ سوچ کر بیٹھ گیا۔ یہ مسئلہ<br />

کوئی آج کا تو نہیں ہے۔ یہ ہمارے معاشرہ کا ازلی المیہ<br />

ہے۔ ہم نماز،‏ روزے،‏ حج کو اسلم کی ابتدا اور انتہا جانتے


ہیں اور اس پیمانہ پر ہر ایک کو پرکھتے ہیں۔ سو تو ٹھیک<br />

ہے لیکن جب ایمانداری،‏ رشوت ، بد عنوانی،‏ حرام خوری<br />

کا مرحلہ آتا ہے تو سوائے ‏"میرے"‏ ہر شخص مجرم ہوتا<br />

ہے اور گردن زدنی۔ اپنے گریبان میں کوئی جھانک کر نہیں<br />

دیکھتا۔ پچھلے دنوں ہندوستان گیا تو ایک بزرگ ‏(جو کہ<br />

عمر بھر کچہری میں صدر قانونگو رہے ہیں اور رشوت پر<br />

گزارہ ہی نہیں کیا بلکہ مکان دوکان بنوائے ہوئے ہیں)‏<br />

سے میں ملنے گیا۔ وہ اپنے صاحبزادے کو سمجھا رہے<br />

تھے کہ دفتر نہ جایاکرو۔ جب دوسرے نہیں آتے تو تم کیوں<br />

جاتے ہو۔ بس پہلی تاریخ کو جا کر تنخواہ لے آیا کرو۔<br />

موصوف کے ہاتھ بھر سفید داڑھی ہے اور پنج وقتہ نماز<br />

پر سختی سے عامل ہیں ۔ میں نے جب ادب سے عرض کی<br />

کہ آپ اپنی اولد کو حرام کام کے لئے تاکید کر رہے ہیں تو<br />

الٹے مجھ پر بگڑ پڑے کہ دنیا کرتی ہے تو ہم کیوں نہ<br />

کریں۔ عرض کیا کہ دنیا زنا کرے گی تو آپ بھی کریں گے<br />

اور ۔۔۔۔۔ کھائے گی تو وہ آپ بھی کھائیں گے؟ صاحب وہ<br />

ایسے بکھرے کہ ا دے اور بندہ لے۔ میں نے اپنی عافیت<br />

اسی میں جانی کہ اٹھ کر چل جائوں۔اب امریکہ کی سنئے۔<br />

میں یہاں تقریبا پچاس سال سے مقیم ہوں۔ ا کو حاضر و<br />

ناظر جان کر کہتا ہوں کہ اس عرصہ میں نہ تو میں نے<br />

کسی کو ایک پیسہ رشوت دی اور نہ ایک پیسہ رشوت لی<br />

اور ا کے فضل سے سرکاری اور غیر سرکاری سارے


کام ہوتے چلے گئے اور آج بھی ہورہے ہیں۔ یہ ایک ‏"کافر<br />

ملک"‏ کا حال ہے اور وہ ایک ‏"مسلم"‏ مملکت کی کیفیت<br />

ہے۔ ببیں تفاوت رہ از کجاست تا بکجا۔<br />

۔سرور عالم راز<br />

اپ کی یہ تحریر کافی دن پہلے پڑھ لی تھی،‏ لیکن اپ کی<br />

تحریرں کچھ ایسی ہوتی ہیں کہ اLن کا جھٹ سے جواب دینا<br />

نا انصافی معلوم ہوتا ہے۔ اسے تحمل سے پڑھنا،‏ اس پر<br />

سوچتے رہنا اور پھر کہیں جا کر کچھ کہا جا سکتا ہے۔ ہم<br />

تو پڑھ کر ایسے جذباتی ہوئے تھے کہ اگر اسی وقت<br />

لکھنے بیٹھ جاتے تو جانے اس معاشرے پر کیا کیا لLکھ<br />

جاتے۔ بہت جاندار تحریر ہے اور اتنے بڑے معاشرتی<br />

مسائل کو اپ کا اس چھوٹی سی تحریر میں بیان کر دینا<br />

لئقL صد تحسین ہے۔ ہماری نا چیز داد قبول کیجے۔ اس<br />

: تحیر سے متعلق لکھنا تو بہت کچھ تھا کہ<br />

ہزار نکتہ باریک تر رموز ایں جا ہست<br />

لیکن اب قلم کو سنبھال لیا ہے ہم نے۔ اتنا کہنا چاہیں گے<br />

کہ ہمارے ہاں یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ تعلیم سے تہذیب<br />

اور کردار سازی ہوتی ہے۔ حالنکہ ہمارا خیال ہے کہ اب<br />

ایسا نہیں رہا۔ ہزاروں سال پہلے سے لے کر شائید تھوڑا


عرصہ پہلے یعنی شیخ سعدی مرحوم کے زمانے تک<br />

شائید،‏ کردار سازی تعلیم کی اولین ترجیح ہوتی تھی۔ اب<br />

صرف رٹہ رہ گیا ہے۔ اتنی فضولیات تعلیم کا حصہ بن گئی<br />

ہے۔ کردار سازی کے لیئے چند گھLسی پ L ٹی حکایات پڑھا دی<br />

جاتی ہیں جن میں ‏:پیاسا کوا:‏ جب کنکریاں ڈالتا ہے تو<br />

ہمارا پہلی جماعت کا 6 سالہ بچہ بھی ہنستا ہے کہ کوا ایسا<br />

نہیں کر سکتا۔ پڑھ لLکھ لینے سے کچھ نہیں ہوتا،‏ اہم یہ<br />

ہے کہ کیا پڑھا ہے۔ ہمارا تو خیال ہے کہ مسلمان سؤر بھی<br />

صرف اس لیئے نہیں کھاتا کہ کئی صدیوں سے نہیں کھایا<br />

اور اب کھا کر متلی ہو گی وگرنہ تو شراب و سود بھی<br />

حرام ہیں۔ اور ہمارا یہ خیال بھی ہے کہ اب صرف ادیب ہی<br />

یہ کوششیں کر رہے ہیں،‏ اور انہیں بھی بہت کام کرنے کی<br />

ضرورت ہے۔<br />

ہم نے اپ کا بہت وقت لے لیا۔ جس پر معذرت چاہیں گے۔<br />

تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ۔۔<br />

وی بی جی<br />

عللتی استعارے<br />

جولئی<br />

2014 ,23


کچھ عرصہ غیر حاضر رہے۔ اپ جانتے ہی ہیں کہ رمضان<br />

میں ہم ایسوں کو قید ہی کر لیا جاتا ہے<br />

جناب کیا ہی اچھا مضمون ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور<br />

داد قبول کیجے۔ درست فرمایا اپ نے کہ اخلقی اور<br />

روحانی بیماریوں کی کسی کو فکر نہیں۔ ہم تو پہلے سے<br />

ہی قائل ہیں کہ اپ کی نظر بہت گہرائی میں معاشرتی رویوں<br />

پر ٹکی ہے۔ ماشا ا بہت وسعت دی ہے اپ کے خیال کو<br />

قدرت نے۔<br />

ویسے زیادہ تر یہ خودساختہ بیماریاں خواتین کو لحق<br />

ہوتی ہیں،‏ لیکن کئی مرد حضرات بھی اس کا شکار ہو<br />

جاتے ہیں۔ ہر وقت یہی رونا روتے رہتے ہیں۔ ان سب<br />

بیماریوں کی اہم بات یہ ہوتی ہے کہ یہ کسی ڈاکٹر کو<br />

سمجھ نہیں اتیں اور ان میں افاقہ نہیں ہوتا۔ گھر میں اتنی<br />

اقسام کی دوائیاں ہوتی ہیں کہ توبہ اور ایک وقت میں<br />

کھانے کے بعد اتنی گولیاں کھائی جاتی ہیں کہ سالن کی<br />

بجائے،‏ چند نان فقط گولیوں کے ساتھ کھائے جا سکتے<br />

ہیں۔ اگر کوئی ان کو یہ کہے کہ خدا نہ خواستہ اب وہ<br />

ہشاش بشاش نظر ا رہے ہیں تو وہ اس شخص کے دشمن<br />

ہو جاتے ہیں۔ ایک جیسے چند لوگ مل کر بیٹھ جاتے ہیں<br />

تو مرغوں کی طرح بیماریوں کا مقابلہ کراتے ہیں۔ ہر کوئی


دوسرے سے بڑھ کر اور حیران کن بیماری بتاتا ہے۔ ایک<br />

دوسرے کی بات سنتے کم ہیں اور دوسرے کی بات کاٹ کر<br />

اپنی بیماری بیان کرنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ انہیں<br />

دوسروں کی کچھ بیماریاں سن کر افسوس بھی ہوتا دکھائی<br />

دیتا ہے کہ یہ بیماری انہیں کیوں نہ ہوئی۔<br />

اخر میں بات اپ کے بیان پر ہی ختم ہوتی ہے کہ یہ خود<br />

ایک روحانی و اخلقی بیماری ہی ہے۔<br />

تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد<br />

وی بی جی<br />

آپ کی تحریر ہمیشہ کی طرح دلچسپ ہے۔ آپ کے پیر<br />

صاحب نے لوگوں کا جو تجزیہ کیا ہے وہ تو بالکل صحیح<br />

ہے لیکن اس صورت حال کا علج کیا ہے یہ نہ معلوم ہو<br />

سکا۔ ایک بات اور عرض کروں کہ پڑھنے کے بعد احساس<br />

تشنگی رہ گیا۔ ایک تو آپ کبھی کبھی پنجابی کے کچھ<br />

مخصوص الفاظ اور محاورے لکھ جاتے ہیں جن سے ہر<br />

شخص واقف نہیں ہے گو سیاق وسباق سے اکثر معنی اخذ<br />

کئے جا سکتے ہیں۔ دوسرے اس انشائیہ کا اختتام کسی<br />

نتیجہ پر قاری کو نہیں پہنچا سکا۔ یہ ممکن ہے کہ میرا<br />

تاثر بالکل ہی غلط ہو۔ اس صورت میں آپ سے معذرت کا


طالب ہوں۔<br />

باقی راوی سب چین بولتا ہے۔<br />

سرور عالم راز<br />

اردو انجمن پر باباجی مقصود حسنی کے دستیاب افسانے<br />

-١<br />

-٢<br />

-٣<br />

پٹھی بابا<br />

کریمو دو نمبری<br />

میں ابھی اسلم ہی تھا<br />

-٤<br />

جواب کا سکتہ<br />

-٥<br />

-٦<br />

-٧<br />

-٨<br />

-٩<br />

-١٠<br />

ماسٹر جی<br />

بڑے ابا<br />

گناہ گار<br />

انا کی تسکین<br />

چوتھی مرغی<br />

انگریزی فیل


-١١<br />

تنازعہ کے دروازے پر<br />

-١٢<br />

-١٣<br />

-١٤<br />

-١٦<br />

-١٥<br />

-١٧<br />

کامنا<br />

ابا جی کا ہم زاد<br />

کمل کہیں کا<br />

دو دھاری تلوار<br />

آوارہ الفاظ<br />

شیدا حرام دا<br />

١٨<br />

-١٩<br />

-٢٠<br />

زینہ<br />

ممتا عشق کی صلیب پر<br />

مائی جنتے زندہ باد<br />

-٢١<br />

-٢٢<br />

-٢٣<br />

-٢٥<br />

-٢٤<br />

حللہ<br />

بڑا آدمی<br />

من کا بوجھ<br />

آنچل جلتا رہے گا<br />

بیوہ طوائف<br />

جنگ ٢٦-


-٢٧<br />

-٢٨<br />

-٢٩<br />

-٣٠<br />

دو لقمے<br />

فقیر بابا<br />

بازگشت<br />

میری ناچیز بدعا<br />

-٣١<br />

-٣٣<br />

-٣٢<br />

دو منافق<br />

آخری کوشش<br />

معالجہ<br />

٣٤- ابھی وہ زندہ تھا<br />

-٣٥<br />

-٣٦<br />

سچائی کی زمین<br />

لروا اور انڈے بچے<br />

ان پڑھ ٣٧-<br />

٣٨- پاخانہ خور مخلوق<br />

-٣٩<br />

دائیں ہاتھ کا کھیل<br />

-٤٠<br />

-٤١<br />

-٤٢<br />

پنگا<br />

ا جانے<br />

وہ کون تھے


-٤٣<br />

-٤٤<br />

-٤٥<br />

دروازے سے دروازے تک<br />

یہ کوئی نئی بات نہ تھی<br />

اسے پیاسا ہی رہنا ہے<br />

-٤٦<br />

-٤٧<br />

-٤٨<br />

پہل قدم<br />

ادریس شرلی<br />

اسلم اگلی نشت پر<br />

-٤٩<br />

-٥٠<br />

-٥١<br />

-٥٢<br />

-٥٣<br />

موازنہ<br />

سرگوشی<br />

عللتی استعارے<br />

-٥٤<br />

-٥٥<br />

-٥٦<br />

-٥٧<br />

دوسری بار<br />

آخری کوشش<br />

چار چہرے<br />

بازگشت<br />

بیوہ طوائف<br />

کیچڑ کا کنول


درج بال تفصیلت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اردو<br />

انجمن کتنی امیر اور جاندار ہے۔ یہ مواد صرف ایک شخص<br />

سے متعلق ہے۔ اگر شخصی حوالہ سے مواد کی اصناف<br />

کے تحت جمع بندی ہو جائے تو مشرق و مغرب کی جامعات<br />

کو بہت سا معیاری مواد میسر آ جائے گا اور اس پر تحقیقی<br />

نوعیت کا کام کرنا آسان ہو جائے گا۔ اردو انجمن کا کوئی<br />

رکن بھی یہ کام کرنے کا بیڑا اٹھا سکتا ہے۔ بلشبہ اہل<br />

تحقیق اور اہل نقد پر یہ بہت بڑا احسان ہو گا۔<br />

محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب!‏ سلم<br />

یہاں تو زیادہ تر ہمارے بیانات کو جمع کر دیا گیا ہے۔ اور<br />

ہمیں نہیں معلوم کہ یہ کوئی شرمندگی کی بات ہے یا نہیں،‏<br />

لیکن ہمارا حال اس تمام سلسہ کو دیکھنے کے بعد کچھ<br />

ایسا ہو رہا ہے،‏ جیسے اچانک بلی کے بچے پر پیر ا گیا<br />

ہو۔ ہمیں سمجھ نہیں ائی کہ اپ کی تصنیفات پر ہم نے جو<br />

اپنا خیال ظاہر کیا ہے،‏ اس کا تحقیق سے کیا تعلق ہو سکتا<br />

ہے۔ تحریر سے متعلق،‏ ہم تو اپنے اوٹ پٹانگ خیالت<br />

چھوڑ جاتے ہیں جو ہمارے اپنے خیال کے مطابق


تصوراتی ذیادہ ہیں اور حقیقی کم۔ ان میں قابلL اعتماد<br />

سنجیدگی نہیں ہوتی۔<br />

ہمیں شرمندگی محسوس ہو رہی ہے کہ اپ نے اس پر اتنی<br />

محنت کی ہے،‏ اور معلوم نہیں اس کا کیا فائدہ ہو سکتا ہو<br />

گا۔<br />

دعا گو<br />

وی بی جی<br />

----------------------------------------<br />

حوالہ جات<br />

[- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9023.0<br />

2- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7975.0<br />

3- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8365.0<br />

4- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9069.0<br />

5- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9044.0<br />

6- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9019.0<br />

7- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9000.0<br />

8- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8987.0


9- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8972.0<br />

10- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8952.0<br />

11- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8976.0<br />

12- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8944.0<br />

13- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8934.0<br />

14- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8916.0<br />

15- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8904.0<br />

16- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8895.0<br />

17- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8580.0<br />

18- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8673.0<br />

19- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8880.0<br />

20- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8885.0<br />

21- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8863.0<br />

22- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8753.0<br />

23- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8844.0<br />

24- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8840.0<br />

25- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?<br />

PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf57&topic=8809.0<br />

26- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?<br />

PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf57&topic=8808.0<br />

27- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?<br />

PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf57&topic=8841.0<br />

28-http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?<br />

PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf57&topic=8798.0<br />

29-http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?<br />

PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf57&topic=8794.0<br />

30- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?


PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf57&topic=8787.0<br />

31- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9097.0<br />

32-http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?<br />

topic=9162.msg56757[/size<br />

مقصود حسنی کی شعری و نثری تخلقات اور اردو انجن کے<br />

اہل نقد و نظر<br />

قاضی جرار حسنی<br />

لکھنا تو الگ'‏ اس لکھے کو مختلف جگہوں سے اکٹھا<br />

کرنا'‏ آسان کام نہیں۔ اردو انجمن ڈاٹ کام'‏ بڑے سنجیدہ اور<br />

صاحب نظر کا ادبی پلیٹ فورم ہے۔ مقصود حسنی کے<br />

مزاح'‏ شاعری'‏ تصوف'‏ ترجمہ اور تنقید پر ورقہ ورقہ<br />

الٹنے پلٹنے کے بعد'‏ اہل قلم کی آرا جمع کرنے کی کوشش<br />

کی گئی ہے۔ کمی کوتاہی بعید از قیاس نہیں'‏ اس کے لیے<br />

معذرت۔<br />

ساتھ میں حوالے بھی درج کر دیے ہیں تا کہ قاری کو'‏<br />

اصل تک رسائی میں آسانی رہے۔


قاضی جرار حسنی<br />

مقصود حسنی کا مزاح نگاری<br />

ایک دفع کا ذکر ہے<br />

مکرمی و محترمی حسنی صاحب:‏ سلم علیکم<br />

مدت ہوئی کہ آشتی چشم وگوش ہے!‏ کتنا عرصہ ہوگیا کہ<br />

آپ سے نیاز حاصل نہ کر سکا۔ اس زندگی اور اس کے<br />

خراج کا برا ہو کہ اپنے بیگانوں سے سلم دعا بھی اب ہونا<br />

مشکل ہوچل ہے۔ معذرت خواہ ہوں۔ امید ہے کہ اپ بعافیت<br />

ہوں گے۔ قلم کی شگفتگی تو بظاہر بدستور قایم ہے،ا<br />

سے دعا ہے کہ آپ بذات خود بھی حسب معمول شکفتہ<br />

ہوں۔ آپ کا انشائیہ حسب دستور سابق دلچسپ اور پر لطف<br />

ہے۔ پڑھتا رہا اور مزے لیتا رہا۔ اور جب ‏"بے نکاحی"‏<br />

گالیوں تک پہنچا تو بے اختیار قہقہہ منھ سے نکل گیا۔<br />

کیوں صاحب یہ ‏"نکاحی"‏ گالیاں کیسی ہوتی ہیں؟ دو ایک<br />

مثالیں عنایت فرمائیں تاکہ فرق معلوم ہو سکے۔ آپ کی


زبان میں جا بجا پنجابی کا چٹخارہ لگا ہوتا ہے جو عجیب<br />

مزا دیتا ہے۔ پنجابی ویسے خاصی کھردری زبان ہے لیکن<br />

مزاح میں خوب کام آتی ہے۔ انشائیہ پر خادم کی داد حاضر<br />

ہے۔ اسی طرح لکھتے رہئے اور ثواب دارین سمیٹتے<br />

رہئے۔ اور ہاں ‏"نکاحی"‏ اور ‏"بے نکاحی"‏ گالیوں کا فرق<br />

‏!ضرور بتائیں<br />

سرور عالم راز<br />

محاورہ پیٹ سے ہونا کے حقیقی معنی<br />

عزیز مکرم حسنی صاحب:‏ سلم مسنون<br />

آپ کا مضمون پڑھ تو لیا تھا لیکن لکھنے کا موقع نہ مل<br />

سکا۔ معذرت خواہ ہوں۔ آپ کے مضامین نہایت دلچسپ اور<br />

پر لطف ہوتے ہیں۔ خاص طور سے جہاں آپ پنجابی کا ہلکا<br />

سا لشکارا لگاتے ہیں یا کوئی کہاوت لکھتے ہیں۔ اب<br />

کہاوت کہنے اور سمجھنے والے خود افسانہ ہوتے جا رہے<br />

ہیں۔ میں نے حال ہی میں ‏"ہماری کہاوتیں"‏ کے عنوان


سے ایک کتاب تالیف کی ہےجو راولپنڈی سے شائع ہونے<br />

والی ہے۔ اس کی ترویج کے دوران اندازہ ہوا کہ کہاوتیں<br />

اب بڑے بوڑھوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہیں اور<br />

کوئی دن جاتا ہے جب یہ ہمارے ادبی منظر نامے سے<br />

بالکل غائب ہو جائیں گی۔ اور یہ بہت بڑا سانحہ ہو گا۔ نئی<br />

نسل تو ان سے بالکل ہی بیگانہ ہے۔ اس صورت حال کا<br />

کوئی علج بھی نہیں ہے۔<br />

زمین چمن گل کھلتی ہے کیا کیا<br />

دکھاتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے<br />

ایک کامیاب اور دلکش تحریر پر میری داد قبول کیجئے۔<br />

باقی راوی سب چین بولتا ہے۔<br />

سرور عالم راز<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8709.0<br />

آزاد معاشرے اہل علم اور صعوبت کی جندریاں


جناب محترم ڈاکٹر حسنی صاحب<br />

سلم مسنون پیشL خدمت ہے<br />

جناب عالی L آپ کے قلم کی مار اہلL قلم کے لئے باعثL ترقªی<br />

ء فہم و دانش ہے ، کس محبت اور خوبصورتی سے آپ<br />

نے قلم کی بناوٹ سے لیکر اسکی وجہL تخیلق اور ذمہ<br />

داری پر روشنی ڈالی یقیناøبہت پر مغز باکمال تحریر ہے<br />

جسے طنز و مزاح کے ساتھ مگر پرفکر انداز میں آپ نے<br />

پیش کیا اور قارئین کی توجہ حاصل کرنا چاہی ، میری<br />

جانب سے داد اور شکریہ اس دلکش تحریر سے مستفید<br />

فرمانے کے لئے قبول فرمائیے ، اس ضمن میں آپ کی اور<br />

قارئین کرام کی توجہ بھی چاہوں گا کہ آج ہم جس دور سے<br />

گزر رہے ہیں اس میں قلم تو زندگیوں سے تقریباøنکل ہی<br />

چکا ہے الª دیہاتوں میں مگر پین بال پین پینسل بھی نکلتی<br />

جارہی ہے ، ہم ڈیجیٹل پین استعمال کرنے لگے ہیں<br />

الیکٹرونکس پین سوفٹ ویئر کی بورڈز اور مزید آگے ہی<br />

آگے بڑھ رہے ہیں اب ایسا وقت آنے وال ہے یا تجرباتی<br />

طور پر آچکا ہے کہ جس میں آپ بات کریں گے اور<br />

کمپیوٹر صاحب یا رائیٹنگ ڈیوائس آپ کی بات کو اسکرین<br />

پر ٹائیپ کردے گی آپ چاہے کسی بھی زبان کے بولنے<br />

والے کیوں نہ ہوں تو قلم کی تو ہو گئی چھٹªی ۔۔۔ کسی<br />

زمانے میں پرندوں کے پر اور روشنائی کی مدد سے کاغذ


پر لکھی جانے والے محبت نامے اب ایس ایم ایس کے<br />

ذریعے ہوا کے پروں پر سوار ہو کر الیکٹرانک قلم سے دل<br />

کا حال محبوب کو جب سناتے ہیں تو چند سیکنڈ لگتے ہیں<br />

دونوں طرف کی آگ کے شعلے ایک دوسرے کو لپیٹ لیتے<br />

ہیں ، پرانے وقتوں میں پاگل ہونے والے کو ذرا وقت لگتا<br />

تھا اب تو لمحے لگتے ہیں مر مٹنے کے لئے دیوانہ ہو<br />

جانے کے لئے پاگل بن جانے کے لئے کبوتر کی بھی چھٹªی<br />

قلم کی بھی چھٹªی کاغذ کی بھی چھٹªی وقت کی بھی چھٹªی<br />

لمحوں میں نفرت کی مار لمحوں میں محبت کی بانہوں کے<br />

ہار دلوں کی جیت لمحوں میں دنیا اتھل پتھل ہونے میں<br />

صرف چند لمحے ادھر کی دنیا ادھر بیچ میں سیٹلئیٹ<br />

سسٹم محکمہ ء پیغام رساں عرف ‏(ٹیلی کمیونیکیشن<br />

‏(سسٹم<br />

نہ وہ عاشق نہ وہ معشوق نہ وہ خون سے لکھی تحریریں<br />

نہ وہ پیغام رساں کبوتر نہ وہ انتظار نہ وہ بے قراری نہ وہ<br />

پیار نہ وہ قلم نہ وہ محبوب نہ وہ محب سب ڈیجیٹل ہے<br />

سب الیکٹرونک کی دنیا کا کمال ہے محبت بھی الیکٹرانک<br />

نفرت بھی الیکٹرونک چاہت بھی الیکڑونک بے قراری بھی<br />

الیکٹرونک رشتے بھی الیکٹرونک ، غم بھی الیکٹرونگ<br />

روگ بھی الیکٹرونک وفا بھی الیکٹرونک بے وفائی بھی


الیکٹرونک جدائی بھی الیکٹرونک<br />

شاعری بھی اب کچھ اس طرح ہو گی جسے محمد رفیع<br />

مرحوم صاحب کچھ یوں فرما تے<br />

ایس ایم ایس جو کئے تمھاری یاد میں<br />

بیلنس نہیں تھا وہ پینڈنگ چلے گئے<br />

اپ لوڈنگ سے میرا ریچارج سیل ہوا<br />

میسج مل کہ تم کسی اور کے ہو گئے<br />

صاحب جاری رکھئے ا کرے زورL قلم اور زیادہ<br />

اسماعیل اعجاز<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8439.0<br />

قصہ زہرا بٹیا سے ملقات کا<br />

السلم علیکم


مجھے علم نہیں ہے کہ محترمہ زھرا کون ہیں،‏ قرین قیاس<br />

یہی ہے کہ انکا تعلق بزم سے ہوسکتا ہے۔ ملقات کی<br />

روداد میں گھریلو ماحول کی عکاسی بہت عمدگی سے کی<br />

گی ہے،‏ اور یہ وہ کہانی ہے جو گھر گھر کی ہے۔ اہل خانہ<br />

پر گھبراہٹ کا عالم اور اندیشہ ہاے دور دراز،‏ گھر کے<br />

سربراہ کی واقعی جان پر بن آتی ہے۔ ایک لطیف تحریر<br />

جس سے لطف اندوز ہرنے کا حق ہر قاری کو ہے<br />

مخلص<br />

خلش<br />

عزیز مکرم حسنی صاحب:‏ سلم مسنون<br />

آپ کا انشائیہ حسب معمول نہایت دلچسپ اور شگفتہ تھا۔<br />

پڑھ کر لطف آ گیا۔ اس زندگی کی بھاگ دوڑ اور گھما گھمی<br />

میں چند لمحات ہنسنے کے مل جائیں تو ا کا شکر ادا<br />

کرنا چاہئے۔ ہاں یہ پڑھ کرانتہائی حیرت ہوئی کہ زہرا<br />

صاحبہ برقعہ میں آئین!‏ یا میرا چشمہ ہی خراب ہو گیا ہے؟


ایک نہایت پر لطف اور دل پذیر تحریر کے لئے داد قبول<br />

کیجئے۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔<br />

سرور عالم راز<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8318.0<br />

ہدایت نامہ خاوند<br />

محترم مقصود حسنی صاحب،‏ سلم۔<br />

آپ کا عنایت کردہ ہدایت نامہ توجہ سے پڑھا اور اس سے<br />

محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ بہت ہی خوبصورتی سے آپ<br />

نے سب ذمہ دااریاں قبول کرتے ہوئے معاملے کی سچائی<br />

کو سفرL ازدواج کے پرانے اور نئے مسافروں کے سامنے<br />

رکھا ہے اور صدقہL جاریہ کا ثواب لوٹ لیا ہے ‏:)۔<br />

تخلیق کی عمدگی پر داد اور یہاں پیش کرنے پر شکریہ<br />

قبول کیجیے اور محفل کو یوں ہی رونق بخشتے رہیے۔


احقر<br />

عامر عباس<br />

عزیز مکرم حسنی صاحب:سلم مسنون<br />

آپ کا انشائیہ پڑھا اور محظوظ و مستفید ہوا۔ جب سب کچھ<br />

پڑھ چکا تو گریبان میں جھانک کر دیکھا اور اس کے بعد<br />

خاموشی میں ہی بہتری نظر آئی۔ صاحب!‏ اتنی ذمہ داریاں<br />

نبھانے سے بہتر تو یہ ہے کہ آدمی شادی ہی نہ کرے!‏ بہر<br />

کیف آپ کی انشا پردازی کا یہ مضمون بہت اچھا نمونہ ہے۔<br />

اب یہ نہیں معلوم کہ جتنا اچھا مضمون ہے اتنا ہی اچھا اس<br />

پر عمل بھی ہے یا آج کل کے مولوی صاحب کی طرح<br />

لوگوں سے درود شریف پڑھنے کی تاکید کر کے خود<br />

چائے پینے کا شغل پسند ہے۔ ہمارے بچپن میں مسجد کے<br />

مولوی صاحب میلد شریف پڑھتے وقت بار بار لوگوں سے<br />

کہتے تھے کہ ‏"بھائیو،‏ آپ زور زور سے درود شریف<br />

پڑھیں ، تب تک میں چائے کا ایک آدھ گھونٹ لے لوں"۔<br />

مذاق برطرف انشائیوں کا سلسلہ جاری رکھیں۔ اور ثواب<br />

دارین حاصل کریں۔


باقی راوی سب چین بولتا ہے۔<br />

سرور عالم راز<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8315.0<br />

مشتری ہوشیآر باش<br />

سلم<br />

بہت خوب تحریر،‏ حقیقت سے آنکھیں چرانا ہی حقیقت ہے<br />

خلش<br />

مکرمی بندہ حسنی صاحب:‏ سلم مسنون<br />

آپ کا یہ نہایت دلچسپ انشائیہ پڑھا اور بہت محظوظ و<br />

مستفید ہوا۔ جب اس کے اصول کا خود پر اطلق کیا تو


اتنے نام اور خطاب نظر آئے کہ اگر ان کا اعلن کر دوں تو<br />

دنیا اور عاقبت دونوں میں خوار ہوں۔ سو خاموشی سے<br />

سر جھکا کر یہ خط لکھنے بیٹھ گیا ۔ انشا ئیہ بہت مزیدار<br />

ہے شاید اس لئے کہ حقیقت پر مبنی ہے۔ اس آئنیہ میں<br />

سب اپنی صورت دیکھ سکتے ہیں۔ بہت شکریہ مضمون<br />

عنایت کرنے کا۔<br />

باقی راوی سب چین بولتا ہے۔<br />

سرور عالم راز<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8277.0<br />

میری ناچیز بدعا<br />

محترمی حسنی صاحب : سلم مسنون<br />

آپ کے انشائیے پر لطف ہوتے ہیں۔ خصوصا اس لئے بھی<br />

کہ آپ ان میں اپنی طرف کی یا پنجابی کی معرور عوامی<br />

اصطلحات ‏(میں تو انہیں یہی سمجھتا ہوں۔ ہو سکتا ہوں<br />

کہ غلطی پر ہوں)‏ استعمال کرتے ہیں جن کامطلب سر


کھجانے کے بعد آدھا پونا سمجھ میں آ ہی جاتی ہے جیسے<br />

ادھ گھر والی یا کھرک۔ یا ایم بی بی ایس۔ اس میں تو کوئی<br />

شک نہیں کہ کھرک جیسا با مزہ مرض ابھی تک جدید<br />

سائنس نے ایجاد نہیں کیا ہے۔ والللہ بعض اوقات تو جی<br />

چاہتا ہے کہ یہ مشغلہ جاری رہے اور تا قیامت جاری رہے۔<br />

اس سے یہ فائدہ بھی ہے کہ صور کی آواز کو پس پشت<br />

ڈال کر ہم ‏:کھرک اندازی:‏ میں مشغول رہیں گے۔ ا ا<br />

خیر سل۔<br />

لکھتے رہئے اور شغل جاری رکھئے۔ باقی راوی سب چین<br />

بولتا ہے<br />

سرور عالم راز<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8069.0<br />

لٹھی والے کی بھینس<br />

مکرم بندہ جناب حسنی صاحب:‏ سلم شوق<br />

خدا گواہ ہے کہ اردو انجمن نہایت خوش قسمت ہے کہ اس


کو بیک وقت آپ اور اعجاز خیال صاحب جیسے انشائیہ<br />

نگار مل گئے ۔ آپ دوسری محفلوں کو دیکھیں تو قحط<br />

الرجال کی کیفیت طاری معلوم ہوتی ہے۔ ویسے بھی اردو<br />

دنیا میں نثرنگاری اور نثر نگاروں کاکال پڑا ہوا ہے۔ انجمن<br />

آپ دونوں کی احسان مند ہے اور شکرگزار بھی۔ کیا ہی<br />

اچھا ہو کہ آپ دونوں احباب اپنے انشائیوں پر نظر ثانی کر<br />

کے اور انھیں مزید نکھار کے کتابی شکل میں اشاعت کی<br />

فکر کریں۔ کیا خیال ہے آپ دونوں کا؟<br />

باقی راوی سب چین بولتا ہے۔<br />

سرورعالم راز<br />

جناب محترم ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب ، جناب محترم<br />

سرور عالم راز سرور صاحب اور صاحبانL محفل ‏،عید<br />

مبارک کے ساتھ ساتھ آداب عرض ہیں<br />

جنابL عالی کچھ تاخیر سے حاضر ہوا مگر جیسے جیسے<br />

آپ کی تحریر پڑھتا گیا ہنسی کا ضط کرنا ناگزیر ہوتا چل<br />

گیا اور آخر میں میری حالت پاکستان میں کسی زمانے میں<br />

جی ٹی روڈ پر چلنے والی اس کھچاڑا جی ٹی ایس


) گورننمٹ ٹرانسپورٹ سروس)‏<br />

کی طرح ہوگئی جو رک جانے کے بعد بھی ہلتی رہتی تھی ،<br />

بڑی دیر تک لطف اندوز ہونے کے بعد سوچا اپنی اندرونی<br />

کیفیت کا اظہار کر ہی دیا جائے<br />

وہ کہتے ہیں ناں کہ کہ جس سے پیار ہوجائے تو اس کا<br />

اظہار کر دو کہ مبادا دیر نہ ہو جائے<br />

تو جناب ڈاکٹر صاحب میری جانب سے ڈھیروں داد آپ کے<br />

قلم کے کمال کی نذر کہ جس سے چہروں پر مسکراہٹیں<br />

بکھر جائیں<br />

اور آخر میں جناب محترم سرور عالم راز صاحب کا<br />

شکرگزار ہوں کہ مجھے عزªت عطا فرمائی<br />

ا آپ سبھی کو دونوں جہانوں کی عزªتیں عطا فرمائے<br />

ممنون<br />

اسماعیل اعجاز<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7963.0


انشورنس والے اور میں اور تو کا فلسفہ<br />

! عزیز گرامی حسنی صاحب ‏:سلم شوق<br />

اپ کا انشائیہ پڑھ کر مزا آ گیا۔ کاش آپ اپنی اس صلحیت<br />

پر مزید محنت کریں اور مزاح اور طنز کی دنیا میں ایک<br />

مقام بنا لیں۔ آپ کا قلم نہایت شگفتہ و شستہ ہے،‏ خیال<br />

آرائی اور منظر کشی میں آپ ماہر ہیں،زبان و بیان بہت<br />

اچھے ہیں تو پھر دیر کس بات کی؟ میری مخلصانہ گزارش<br />

ہے کہ طنز ومزاح کی جانب سجنیدگی سے توجہ دیں اور<br />

اپنے انداز فکر و سخن کو نکھاریں۔ اردو میں طنز و مزاح<br />

بہت کم ہے کیونکہ ہماری زندگی اور معاشرہ خود درد و<br />

رنج اور استحصال کا مارا ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب انسان<br />

کی زندگی عذاب ہو تو اس کو ہنسی کیسے سوجھے گی؟<br />

اس حوالے سے مزاح نگار ایک رحمت بن جاتا ہے کیونکہ<br />

وہ لوگوں کو ہنساتا ہے اور سبق سکھاتا ہے۔ آپ کا انشائیہ<br />

صرف واپڈا کا انشائیہ نہیں ہے بلکہ ہر ایسے ادارہ اور<br />

ایسے لوگوں کا خاکہ ہے جنہوں نے عوام کی زندگی عذاب<br />

بنا رکھی ہے۔<br />

اچھے انشائیہ پر داد قبول کیجئے اور میری گزارش پر


ضرور سوچئے اور کام کیجئے۔ شکریہ ۔ باقی راوی سب<br />

چین بولتا ہے۔<br />

سرور عالم راز<br />

اس محبت اور توجہ کے لیے احسان مند ہوں۔ پچھلے<br />

تقریبا پچاس برس سے لکھنے پڑھنے اور پڑھانے سے<br />

رشتہ و تعلق ہے۔ بساط بھر لکھتا رہتا ہوں۔ کتابیں بھی<br />

شاءع ہوئ ہیں۔ رساءل وغیرہ میں بھی مواد شاءع ہوتا<br />

رہتا ہے۔ ابتدا افسانہ سے ہوئ۔ لسانیات اور غالب فیلڈ ہیں۔<br />

حال ہی میں ۔۔۔۔۔۔ زبان غالب کا لسانی و ساختیاتی<br />

مطالعہ ۔۔۔۔۔۔ کتاب شاءع ہوئ ہے۔ آپ کی توجہ میرے لیے<br />

بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ ا آپ کو خوش رکھے۔<br />

مقصود حسنی<br />

مکرم بندہ حسنی صاحب:‏ سلم مسنون<br />

سبحان ا ! آپ غالبیات کے ماہر ہیں اور ہم مرزا نوشہ<br />

کے متوالے!‏ انشا ا آپ سے استفادہ ضرور رہے گا۔ آپ<br />

کی کتاب غالبا پاکستان میں شائع ہوئی ہو گی۔ اگر ایسا ہے


تو اس کا حصول مشکل ہے۔ خیر کوئی بات نہیں۔ اگر نیٹ<br />

پر وہ کسی صورت میں دستیاب ہو تو ضرور بتائیں۔ محفل<br />

کے کچھ دوست اس کوحاصل کرنے کا شوق رکھتے ہیں۔<br />

آپ سے ایک گزارش ہے۔ غالب کے بہت سے اشعار معمے<br />

کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر آپ گاہے گاہے مرزا غالب کے<br />

ایسے اشعار کی تشریح سے محفل کو نوازتے رہیں تو بڑی<br />

عنایت ہو گی۔ غالب سے زیادہ شاید ہی کسی اور شاعر کی<br />

شرحیں لکھی گئی ہیں لیکن بہت سی باتیں اب تک پردہ خفا<br />

میں ہی ہیں۔ کیا آپ ہماری انجمن کے لئے یہ کام کرسکیں<br />

گے؟ پیشگی شکریہ قبول فرمائیں۔<br />

سرور عالم راز<br />

جناب محترم ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب<br />

سلم مسنون پیشL خدمت ہے<br />

بہت خوب تحریر ہے طنز و مزاح کا شہکار اور ساما Lن<br />

عبرتL غور و فکر اور اس میں آپ کا اندازL بیاں خوب ہے<br />

داد میری جانب سے قبول فرمائیے ،<br />

نیازمند


اسماعیل اعجاز<br />

شکریہ جناب<br />

ماہر تو نہیں کہہ سکتے ہاں البتہ کچھ مطالعے کی سعی کی<br />

ہے۔ غالب فکر کا شاعر ہے۔ دوسرا وہ تغلق کی طرح وقت<br />

سے پہلے پیدا ہو گیا تھا۔<br />

کیوں نہیں حضور کچھ ناکچھ عرض کرتا رہوں گا۔<br />

لسانیات غالب<br />

غالب اور اس کا عہد<br />

ایک کوئی اور کتاب نام یاد آ رہا‘‏ پہلے چھپ چکی ہیں۔<br />

فرہنگ غالب کمپوز ہو رہی ہے<br />

زبان غالب کا لسانی و تحقیقی مطالعہ۔۔۔۔۔۔ یہ ڈاکڑیٹ کا<br />

مقالہ تھا بھی ان شاءا اسی سال میں شاءع ہو جاءیں<br />

گے۔<br />

آپ کا ایڈریس میرے پاس نہیں ورنہ ڈاک سے بھیج دیتا۔<br />

ویسے سکربڈڈاٹکام پر کچھ مواد موجود ہے۔<br />

ایک بار پھر توجہ کے لیے احسان مند ہوں۔۔<br />

ا آپ کو سلمت رکھے۔


مقصود حسنی<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7974.0<br />

غیرملکی بداطواری دفتری اخلقیات اور برفی کی چاٹ<br />

مکرمی حسنی صاحب:‏ سلم علیکم<br />

میرے اس خط کو نشانی سمجھ لیں کہ آپ کا انشائیہ میں<br />

نے مزے لے لے کر اور با ضابطہ عبرت پکڑپکڑ کر پڑھ<br />

لیا ہے۔ اگر انشائیہ کا تعلق آپ کے وطن سے مخصوص نہ<br />

ہوتا اور میں ہندوستان کا سابق شہری نہ ہوتا تو کچھ<br />

عرض کرتا لیکن تجربوں سے ظاہر ہوگیا ہے کہ ایسے<br />

نازک معاملت میں خاموشی اچھی ہوتی ہے۔ سو میری<br />

خاموشی قبول کیجئے اور ساتھ ہی داد بھی۔<br />

سرور عالم راز<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7961.0<br />

اس پرچم تلے


محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب!‏ سلم<br />

خوب شگوفے ہیں جناب۔ ہم بھی اس ع⁄لم ‏(ا⁄لم)‏ کے سائے<br />

میں اپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ نصیحت تو انہیں حاصل کرنی<br />

چاہیئے جن کے جملہ حقوق ہنوز غیر محفوظ ہیں۔<br />

اچھا لگا پڑھ کر۔<br />

۔۔۔۔<br />

ایک اور بات قابلL ذکر ہے کہ اپ نے طوطے کو ت سے<br />

لکھ کر اس کی چونچ کے نقوش مٹا دیئے ہیں اور اس کا<br />

حلیہ بدل سا گیا ہے۔ یقین جانئیے ت سے لکھا ہؤا توتا تو<br />

ہمیں ہرا بھی نہیں دکھ رہا۔<br />

دعا گو<br />

وی بی جی<br />

محب مکرم حسنی صاحب:‏ سلم مسنون<br />

ہماری طرف ایک محاورہ مستعمل ہے ‏"ہر فن مول"۔ شاید


آپ نے بھی سنا ہوگا۔ سو آپ بھی ‏"ہر فن مول"‏ ہیں۔ کیا<br />

نظم،‏ کیا غزل،‏ کیا تحقیقی مضمون اور کیا انشائیہ اور اب<br />

کیا ہی لطیفے۔ ہر میدان میں آپ پورے ہیں۔ سبحان ا۔ دعا<br />

ہے کہ اپ اور آپ کا قلم دونوں اسی طرح چلتے رہیں اور<br />

ہم مستفید ہوتے رہیں۔ آپ کی یہ پھلجھڑیاں خوب ہیں۔<br />

‏"ڈانگر ڈاکٹر"‏ والے لطیفے کا آخری جملہ پڑھ کر میں بے<br />

اختیار ہنس پڑا۔ یہ کہنا بالکل سچ ہے کہ انجمن کی رونق<br />

آپ جیسے لوگوں سے ہی قائم ہے۔ باقی راوی سب چین<br />

بولتا ہے۔<br />

سرور عالم راز<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9179.0<br />

تصوف<br />

میں ناہیں سبھ توں۔۔۔۔۔۔۔چند معروضات<br />

محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب!‏ سلم<br />

معذرت چاہتے ہیں کہ اتنا وقت لیا۔ وجہ اپ جانتے ہی ہیں


کہ ایک تو مصروفیت اور پھر ایسے موضوع جن کو جتنا<br />

بھی وقت دیا جائے،‏ وقت کی کمی ہی رہتی ہے۔ یہاں بھی<br />

کچھ ایسا ہی ہؤا ہے۔ یہ موضوع ایسا ہے کہ اس میں شاید<br />

ذیادہ کچھ کہہ نہ سکیں ہم۔<br />

پہلے تو اس عمدہ تحریر پر دل سے داد قبول کیجے۔ سالک<br />

کے لیئے لزم ہے کہ وہ اپنا اپ ختم کرے یہ سیڑھی کا پہل<br />

اور سب سے اہم زینہ ہے۔ امام غزالی رحمت ا علیہ تو<br />

اتنا بھی فرما گئے ہیں کہ بہتر تو یہ ہے کہ سالک یا تو<br />

شادی نہ کرے لیکن اگر شادی شدہ ہو تو اپنی بیوی بچوں<br />

سے الگ ہو جائے کیونکہ دنیا کی رغبت ان کی موجودگی<br />

میں انسان کے ساتھ ہی رہتی ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے<br />

تو ان کے حقوق کی نفی لزمی ہو جاتی ہے جو بہتر نہیں۔<br />

حضرت مجدد الف ثانی رحمت ا علیہ نے جب نظریہ<br />

وحدت الشہود کی بنیاد رکھی تو اسلم کی مکمل پابندی کو<br />

لزم قرار دیا۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں دنیاوی حقوق و<br />

فرائض سے بھی نبرد ازما ہونا پڑتا ہے جو کہ نہایت<br />

مشکل کام ہے۔ ان نظریات کے حامل ہونے کے باوجود پہل<br />

زینہ بغیر کسی ترمیم کے وہی رکھا گیا ہے،‏ جسے اپ<br />

نے ‏:میں ناہیں سبھ توں:‏ میں بیان کیا ہے۔


ہماری عقل کے حساب سے ‏:میں ناہیں سبھ توں:‏ ایسا<br />

نظریہ ہے کہ جو وحدت الوجود اور وحدت الشہود ، دونوں<br />

صورتوں میں لزم ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی<br />

دنیا سے کنارہ کیا اور ا کو اکیلے میں پکارا،‏ وہ یا تو<br />

ولی ہؤا یا نبی۔ اب چونکہ انبیا کا سلسلہ ختم ہؤا تو اولیا کا<br />

راستہ ہی یہی ہے۔ عام لوگوں کو بھی چاہیئے کہ کسی حد<br />

تک ا کو اکیلے میں پکاریں۔ ‏:میں:‏ کو ختم کریں اور ‏:تو:‏<br />

کی تلش کریں۔<br />

اپ نے نہایت ہمیشہ کی طرح نہایت دقیق نقطہ کی طرف قلم<br />

دوڑایا ہے۔ اور نہایت خوبصورت تحریر پڑھنے کو ملی۔<br />

ایک بار پھر بھرپور داد قبول کیجے۔<br />

دعا گو<br />

وی بی جی<br />

محب مکرم حسنی صاحب:‏ سلم مسنون<br />

آپ کا یہ انشائیہ بہت پہلے دیکھ لیا تھا۔ لکھنے کی ہمت نہ


ہوئی کہ اس موضوع پر میری معلومات صفر سے بھی کم<br />

ہے۔ وی بی جی آپ کی طرح صاحب علم ہیں سو ہر<br />

موضوع پر لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں۔ ان کے<br />

حواشی پڑھے تو خیال ہوا کہ کم سے کم رسید تو دے ہی<br />

دوں۔ اس کو انگلی کٹوا کر شہیدوں میں داخل بھی نہیں کہہ<br />

سکتا ہوں کیونکہ اس ضمن میں بھی بالکل پیدل ہوں،‏ میرا<br />

اصول یہ ہے کہ جو میں نہیں جانتا اس میں خاموشی<br />

اختیار کروں اور سیکھنے کی کوشش کروں۔ وہ وحدت<br />

الوجود کا نطریہ ہو یو وحدت الشہود کی فکر میں ہر دو<br />

فلسفوں سے نا بلد ہوں۔ ویسے عقل یہ کہتی ہے کہ جو<br />

تعلیم یہ کہے کہ انسان دنیا چھوڑ کر بس ا کا ہی ہو رہے<br />

وہ نا قابل عمل ہے اور خلف فطرت بھی ہے۔ اسلم نے یہ<br />

تعلیم تو انبیا کو بھی نہیں دی۔ ان کے یہاں بھی بیوی بچے<br />

اور دنیا کی ذمہ داریاں تھیں۔ ایک بھی ایسا شخص کبھی<br />

نہیں رہا جو دنیا سے مکمل بے نیاز رہ سکا ہو۔ یہ تو<br />

مطلق نا ممکن ہے۔ اسلم نام ہی حقوق ا اور حقوق العباد<br />

میں توازن رکھنے اور ان کو اسی طرح ادا کرنے کا نام<br />

ہے۔ ‏"میں نائیں،‏ سبھ توں"‏ سے اپنی انا کی نفی تو سمجھ<br />

میں آتی ہے لیکن دنیا کی نفی سمجھ میں نہیں آتی۔ بہر<br />

کیف یہ فلسفہ مجھ جیسے کم فہم اور کم علم کی دسترس<br />

سے ما ورا ہے۔<br />

آپ بہت اچھا لکھتے ہیں ۔ ا آپ کو قائم رکھے۔ باقی راوی


سب چین بولتا ہے۔<br />

سرور عالم راز<br />

جناب محترم ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب جناب محترم سرور<br />

عالم راز سرور صاحب جناب وی بی جی اور قارئین کرام<br />

آداب عرض ہیں<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

ڈاکٹر صاحب آپ کی تحریریں قابلL ستائش ہیں ما شاءا آپ<br />

کا خلوص آپ کی لگن اردو انجمن کے لئے بہت قیمتی<br />

سرمایا ہے ، ا آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ، جناب<br />

سرور عالم راز سرور صاحب کی بات سے سو فیصد اتفاق<br />

کرتے ہوئے یہی کہنا چاہوں گا کہ اسلم زندگی کے تمام<br />

شعبوں میں رہ کر اپنے اپنے مقام اور اپنی اپنی حیثیت میں<br />

جو جو ذمہ داریاں ہم سب پر عائید ہوتی ہیں انہیں انفرادی<br />

و اجتماعی زندگی میں رواج دینے کا نام ہے جس کی<br />

تعلیمات جنابL رسولL پاک علیہ صلو ۃ و سلم اور ان کے کم<br />

و بیش سوالکھ جاں نثاروں کی عملی زندگی سے ہمیں<br />

ملتی ہیں<br />

رحبانیت کا کہیں درس نہیں دیا گیا ال کہ جب فنیوں کا دور


شروع ہو جائے ان فتنوں سے بچنے کے لئے اس<br />

معاشرے سے کٹا جائے<br />

آپ تمام احباب کی دعاؤں کا طلبگار<br />

اسماعیل اعجاز<br />

محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب!‏ سلم<br />

اپ نے واضح نہیں کیا کہ اپ کس سے مخاطب ہیں۔ اندازہ<br />

یہی ہے کہ اپ ہم سے فرما رہے ہیں سو ہم اسے پھر ایک<br />

دو بار غور سے پڑھ کر کچھ بات کہہ سکیں گے۔ ہمیں<br />

عموماø اپنی کم فہمی پر شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے سو<br />

معذرت چاہتے ہیں۔ ہم دوبارہ حاضر ہونگے۔<br />

دعا گو<br />

وی بی جی<br />

جناب محترم ڈاکٹر حسنی صاحب<br />

میری خوشنصیبی ہے کہ آپ صرف مجھ سے مخاطب ہیں<br />

جبکہ میں آپ سے وی بی جی سے اور جناب محترم سرور


عالم راز سرور صاحب کے ساتھ ساتھ قارئین کرام سے<br />

مخاطب ہوں بلکہ ساریL عالم L انسانیت سے مخاطب ہوں<br />

آپ نے فرمایا کہ<br />

اقتباس<br />

درج بال معروضات کے حوالہ سے‘‏ ذات کا تیاگ ممکن<br />

نہیں۔ یہ وتیرہ‘‏ اہل جاہ اور اہل ثروت کو کس طرح خوش آ<br />

سکتا ہے۔ حق اور انصاف کی باتیں‘‏ اور ا کے حکم کے<br />

خلف انجام پانے والے امور پر تنقید اور برآت‘‏ کسی<br />

بادشاہ یا اہل ثروت کو‘‏ کس طرح خوش آ سکتی ہے۔ صاف<br />

ظاہر ہے‘‏ ایسے لوگوں کو ظاہر پلیا جائے گا۔ بادشاہ یا اہل<br />

ثروت بھول جاتے ہیں‘‏ کہ میں ناہیں سب توں‘‏ کے حامل<br />

مر نہیں سکتے۔ دوسرا وہ پہلے ہی کب ہوتے ہیں۔ موت تو<br />

ہونے کو آتی ہے۔ میں کو موت آتی ہے‘‏ تو کے لیے موت<br />

نہیں۔ میں مخلوق ہے‘‏ تو مخلوق نہیں۔<br />

جناب وی بی جی نے فرمایا کہ<br />

اقتباس<br />

پہلے تو اس عمدہ تحریر پر دل سے داد قبول کیجے۔ سالک<br />

کے لیئے لزم ہے کہ وہ اپنا اپ ختم کرے یہ سیڑھی کا پہل<br />

اور سب سے اہم زینہ ہے۔ امام غزالی رحمت ا علیہ تو


اتنا بھی فرما گئے ہیں کہ بہتر تو یہ ہے کہ سالک یا تو<br />

شادی نہ کرے لیکن اگر شادی شدہ ہو تو اپنی بیوی بچوں<br />

سے الگ ہو جائے کیونکہ دنیا کی رغبت ان کی موجودگی<br />

میں انسان کے ساتھ ہی رہتی ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے<br />

تو ان کے حقوق کی نفی لزمی ہو جاتی ہے جو بہتر نہیں۔<br />

حضرت مجدد الف ثانی رحمت ا علیہ نے جب نظریہ<br />

وحدت الشہود کی بنیاد رکھی تو اسلم کی مکمل پابندی کو<br />

لزم قرار دیا۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں دنیاوی حقوق و<br />

فرائض سے بھی نبرد ازما ہونا پڑتا ہے جو کہ نہایت<br />

مشکل کام ہے۔ ان نظریات کے حامل ہونے کے باوجود پہل<br />

زینہ بغیر کسی ترمیم کے وہی رکھا گیا ہے،‏ جسے اپ<br />

نے ‏:میں ناہیں سبھ توں:‏ میں بیان کیا ہے۔<br />

ہماری عقل کے حساب سے ‏:میں ناہیں سبھ توں:‏ ایسا<br />

نظریہ ہے کہ جو وحدت الوجود اور وحدت الشہود ، دونوں<br />

صورتوں میں لزم ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی<br />

دنیا سے کنارہ کیا اور ا کو اکیلے میں پکارا،‏ وہ یا تو<br />

ولی ہؤا یا نبی۔ اب چونکہ انبیا کا سلسلہ ختم ہؤا تو اولیا کا<br />

راستہ ہی یہی ہے۔ عام لوگوں کو بھی چاہیئے کہ کسی حد<br />

تک ا کو اکیلے میں پکاریں۔ ‏:میں:‏ کو ختم کریں اور ‏:تو:‏<br />

کی تلش کریں۔


جناب محترم سرور عالم راز سرور صاحب نے فرمایا کہ<br />

اقتباس<br />

محب مکرم حسنی صاحب:‏ سلم مسنون<br />

آپ کا یہ انشائیہ بہت پہلے دیکھ لیا تھا۔ لکھنے کی ہمت نہ<br />

ہوئی کہ اس موضوع پر میری معلومات صفر سے بھی کم<br />

ہے۔ وی بی جی آپ کی طرح صاحب علم ہیں سو ہر<br />

موضوع پر لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں۔ ان کے<br />

حواشی پڑھے تو خیال ہوا کہ کم سے کم رسید تو دے ہی<br />

دوں۔ اس کو انگلی کٹوا کر شہیدوں میں داخل بھی نہیں کہہ<br />

سکتا ہوں کیونکہ اس ضمن میں بھی بالکل پیدل ہوں،‏ میرا<br />

اصول یہ ہے کہ جو میں نہیں جانتا اس میں خاموشی<br />

اختیار کروں اور سیکھنے کی کوشش کروں۔ وہ وحدت<br />

الوجود کا نطریہ ہو یو وحدت الشہود کی فکر میں ہر دو<br />

فلسفوں سے نا بلد ہوں۔ ویسے عقل یہ کہتی ہے کہ جو<br />

تعلیم یہ کہے کہ انسان دنیا چھوڑ کر بس ا کا ہی ہو رہے<br />

وہ نا قابل عمل ہے اور خلف فطرت بھی ہے۔ اسلم نے یہ<br />

تعلیم تو انبیا کو بھی نہیں دی۔ ان کے یہاں بھی بیوی بچے<br />

اور دنیا کی ذمہ داریاں تھیں۔ ایک بھی ایسا شخص کبھی<br />

نہیں رہا جو دنیا سے مکمل بے نیاز رہ سکا ہو۔ یہ تو


مطلق نا ممکن ہے۔ اسلم نام ہی حقوق ا اور حقوق العباد<br />

میں توازن رکھنے اور ان کو اسی طرح ادا کرنے کا نام<br />

ہے۔ ‏"میں نائیں،‏ سبھ توں"‏ سے اپنی انا کی نفی تو سمجھ<br />

میں آتی ہے لیکن دنیا کی نفی سمجھ میں نہیں آتی۔ بہر<br />

کیف یہ فلسفہ مجھ جیسے کم فہم اور کم علم کی دسترس<br />

سے ما ورا ہے۔<br />

آپ بہت اچھا لکھتے ہیں ۔ ا آپ کو قائم رکھے۔ باقی راوی<br />

سب چین بولتا ہے۔<br />

سرور عالم راز<br />

جس پہ میں نے یہ عرض کیا کہ<br />

اقتباس<br />

جناب محترم ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب جناب محترم سرور<br />

عالم راز سرور صاحب جناب وی بی جی اور قارئین کرام<br />

آداب عرض ہیں<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

ڈاکٹر صاحب آپ کی تحریریں قابلL ستائش ہیں ما شاءا آپ<br />

کا خلوص آپ کی لگن اردو انجمن کے لئے بہت قیمتی


سرمایا ہے ، ا آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ، جناب<br />

سرور عالم راز سرور صاحب کی بات سے سو فیصد اتفاق<br />

کرتے ہوئے یہی کہنا چاہوں گا کہ اسلم زندگی کے تمام<br />

شعبوں میں رہ کر اپنے اپنے مقام اور اپنی اپنی حیثیت میں<br />

جو جو ذمہ داریاں ہم سب پر عائید ہوتی ہیں انہیں انفرادی<br />

و اجتماعی زندگی میں رواج دینے کا نام ہے جس کی<br />

تعلیمات جنابL رسولL پاک علیہ صلو ۃ و سلم اور ان کے کم<br />

و بیش سوالکھ جاں نثاروں کی عملی زندگی سے ہمیں<br />

ملتی ہیں<br />

رحبانیت کا کہیں درس نہیں دیا گیا ال کہ جب فتنوں کا دور<br />

شروع ہو جائے ان فتنوں سے بچنے کے لئے اس<br />

معاشرے سے کٹا جائے<br />

آپ تمام احباب کی دعاؤں کا طلبگار<br />

میں نے جناب سرور عالم راز سرور صاحب کی تحریر اور<br />

جناب وی بی جی کی بات کو سامنے رکھ کر اپنی بات پیش<br />

کی بتائیے میں نے کیا برا کیا ، جو آپ صرف مجھ سے<br />

مخاطب ہوئے<br />

بہر حال آپ کا بےحد شکریہ<br />

اسماعیل اعجاز


محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب!‏ سلم مکرر<br />

اصل میں غلطی ہم سے ہوئی ہے۔ ہمیں تو اپ جانتے ہی<br />

ہیں کہ جہاں تک جتنا اور جو سمجھ ائے اس پر اپنے<br />

خیالت کا اظہار کر دیتے ہین۔ ہؤا کچھ یوں،‏ کہ اپ نے<br />

معروضات کی روشنی میں جو نتائج،‏ تحریر میں اخذ کئیے<br />

ہیں ان سے ہمیں مکمل اتفاق نہیں تھا،‏ یعنی کہ اہل جاہ و<br />

ثروت اور بادشاہ ہی کیوں،‏ سبھی انسان کیوں نہیں۔ پھر<br />

کچھ غور کے بعد یہی سمجھ میں ایا کہ ظاہر ہے کہ ان کے<br />

لیئے فقر کا راستہ نسبتاø زیادہ مشکل ہے گو کہ سدھارتو<br />

جیسی مثالیں بھی ہمارے پاس ہیں۔ ایسی صورت میں ہمیں<br />

ذیادہ اہم اور خوبصورت بات ‏:میں ناہیں سبھ توں:‏ ہی لگی<br />

اور اس پر ہم نے اپنے خیالت بیان کر دیئے۔<br />

ہم نے اپنے بیان کو زیادہ واضح کر کہ نہیں لکھا کہ اس پر<br />

پہلے بھی اپ سے بات ہو چکی ہے۔ ہمیں اندازہ نہیں تھا<br />

کہ احباب ہمارا بیان بھی پڑھیں گے۔ احباب نے اپ کی<br />

تحریر لزماø پڑھی ہو گی،‏ لیکن ہمارا بیان کچھ گمراہ کن<br />

ثابت ہؤا ہے۔ نتیجتاø بات یہاں ا کر اٹک گئی کہ دنیا سے<br />

تیاگ درست یا ممکن ہے کہ نہیں۔ اگرچہ ہم حضرت مجدد


الف ثانی رحمت ا علیہ کی تجدید کے بعد یہ سمجھتے<br />

ہیں کہ ممکن بھی ہے اور قابل عمل بھی ہے۔ باقی تو<br />

احباب ہی اس پر اپنی رائے دے سکتے ہیں۔<br />

دعا گو<br />

وی بی جی<br />

مقصود حسنی کے تراجم<br />

کلم:‏ حضرت بو علی قلندر<br />

مکرم بندہ حسنی صاحب سلم مسنون<br />

حضرت بو علی قلندر کا کلم عطا کرنے کا بے حد شکریہ۔<br />

کاش یہ ترجمہ با وزن بھی ہوتا تو مزا دوبال ہو جاتا۔ خیر<br />

معنی قاری تک پہنچا دینا بھی بہت بڑا کام ہے۔ ہم اہل<br />

انجمن خوش قسمت ہیں کہ آپ کی ذات یہاں موجود ہے جو<br />

ایسے بے بہا کام انجام دیتی رہتی ہے۔ جزاک ا خیرا<br />

سرور عالم راز<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10160.0


ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب السلم علیکم<br />

بہترین نظم کا بہترین ترجمہ۔ ۔۔۔۔ یہی تو بدقسمتی ہے۔ کیا<br />

کہنے۔<br />

اپ کی تمام تحریریں جنھیں میں نے پڑھا کمال کا ہے<br />

صاحب۔ معلوماتی،‏ تاریخی شاہکار،‏ بہت خوب۔ ا اپ مزید<br />

توفتیق دے۔<br />

طالبL دعا<br />

کفیل احمد<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10128.0<br />

مقصود حسنی کی شاعری<br />

جب تک<br />

محترمی ڈاکٹر حسنی صاحب:آداب عرض<br />

آپ کی نثری نظم پڑھی اور مستفید ہوا۔ نثری نظم کی


ضرورت میری سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ نثری نظم دراصل<br />

اچھی نثر کو چھوٹے بڑے ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا<br />

دوسرا نام ہے۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔ مجھ کو آپ کی<br />

یہ نثری نظم اس لئے اچھی لگی کہ اس کا موضوع وقت<br />

کی پکار ہے۔ جس طرح ساری دنیا میں اور خاص طور<br />

سے دنیائے اسلم میں ‏:سیٹھوں،‏ وڈیروں:‏ کے ہاتھوں<br />

عوام کا استحصال ہو رہا ہے وہ بہت عبرتناک ہے۔ افسوس<br />

کہ اس کا علج سمجھ میں نہیں آتا۔ ایک سوال دل میں اٹھتا<br />

ہے کہ اس قدر ظلم ہو رہا ہے تو وہ ہستی جس کو ہم ‏:ا،‏<br />

خدا،‏ بھگوان،‏ گاڈ:‏ کہتے ہیں کیوں خاموش ہے؟ اگر سب<br />

کچھ اس کے ہاتھ میں ہے تو پھر وہ کچھ کرتی کیوں نہیں؟<br />

آپ نے بھی اس پر سوچا ہوگا۔ مناسب جانیں تو اس پر<br />

لکھیں۔ شکریہ۔<br />

خادم<br />

مشیر شمسی<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8503.0<br />

صبح ہی سے<br />

‏!واہ...‏ بہت عمدہ


فیصل فارانی<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8488.0<br />

نوحہ<br />

محترمی جناب حسنی صاحب ‏:آداب عرض<br />

میں شاعر نہیں ہوں بس ادب کا شوق ضرور ہے مجھ کو۔<br />

اس لئے اگر کوئی غلط بات کہہ جائوں تو معاف کر دیجئے<br />

گا۔ آپ کی نظم ‏"نوحہ"‏ میری سمجھ میں نہیں آئی۔ ایسا<br />

محسوس ہوا جیسے اپ کا مطلب الفاظ کے پیچ و خم میں<br />

کہیں گم ہو گیا۔ کئی مرتبہ نظم پڑھی اور غور کیا لیکن بات<br />

پوری طرح واضح نہیں ہوئی۔۔ یہ ضرور میری کوتاہی ہے۔<br />

بڑی عنایت ہوگی اگر آپ اپنے خیال اور طرز بیان پر کچھ<br />

روشنی ڈآلیں۔ میرا خیال ہے کہ اس سے کچھ اور دوستوں<br />

کابھی فائدہ ہو گا۔ شکریہ پیشگی قبول کیجئے۔ آپ کی<br />

وضاحت کا انتظار رہے گا۔<br />

خادم : مشیر شمسی<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8504.0


سچ کے آنگن میں<br />

مکرم بندہ حسنی صاحب:‏ سلم علیکم<br />

ایک مدت کے بعد آپ کی خدمت میں حاضر ہورہا ہوں۔ بہانہ<br />

کوئی نہیں ہے۔ بس زندگی جب جس کام کی مہلت دے دے<br />

وہی غنیمت ہے۔ انجمن آتا رہا ہوں،‏ ادھر لکھنا پڑھنا پھر<br />

شروع کردیا ہے۔ آپ حال میں انجمن میں نظر نہیں آئے۔<br />

یقین ہے کہ اپنے ارادت مندوں سے خفا نہیں ہوئے ہوں<br />

گے۔ آپ کی انجمن کو اور اردو کوبہت ضرورت ہے۔<br />

نثرنگاری کا فن اب بہت مضمحل ہو گیا ہے۔ آپ جیسا<br />

لکھتے ہیں ویسا لکھنے والے اب خال خال رہ گئے ہیں۔<br />

سو اگر کوئی گستاخی ہو گئی ہو تو ازراہ بندہ نوازی<br />

درگذرکیجئے اور یہاں آنا جانا برابر قائم رکھئے۔ جزاک ا<br />

خیرا۔<br />

آج آپ کی تلش میں اس طرف نکل آیا تو یہ آزاد نظم نظر<br />

آئی۔ یقین جانئے کہ کئی مرتبہ اسے پڑھا اور بہت غور<br />

سے پڑھا۔ کچھ ا کا ‏"انعام"‏ ایسا مجھ پر ہے کہ آزاد<br />

شاعری بڑی مشکل سے ذہن میں اتر پاتی ہے۔ شاید یہ اس<br />

تربیت کا اثر ہے جو بچپن سے مجھ کو ملتی رہی ہے۔ بہر<br />

کیف میں کوشش تو بہت کرتا ہوں لیکن ہاتھ بہت کم آتا ہے<br />

اور مشکل سے آتا ہے۔ آپ کی نظم مختصر ہے لیکن میرے


لئے جوئے شیر بن کر رہ گئی ہے۔ جس طرح نظم شروع<br />

ہوئی ہے اور جس طرح اختتام کو پہنچی ہے وہ ایک الجھن<br />

میں ڈال گیا ہے۔ اگر آپ نظم کو نثر میں چند جملوں کے<br />

ذریعہ واضح کر دیں تو مجھ پر عنایت ہوگی۔ یہ کوئی مذاق<br />

یا طنز نہیں ہے بلکہ اظہار حقیقت ہے۔ کھلواڑ نہیں ہے<br />

بلکہ نظم کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش ہے۔ امید ہے<br />

کہ آپ توجہ فرمائیں گے۔ شکریہ<br />

سرور عالم راز<br />

استر<br />

gadhy ya goray ka bacha nahain hota balkah khachar male aur<br />

khachar female<br />

ke milap se paida hota hai. bala ka taqatwaar hota hai bara khata<br />

hai nichla nahain baithta.<br />

tikta nahain aur nahi tiknay daita.<br />

hirs issi se mamasal hai<br />

dr maqsood hasni<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9301.0<br />

میں نے دیکھا


مکرم بندہ جناب حسنی صاحب:‏ سلم مسنون<br />

آزاد شاعری عام طور پر میرے سر پر سے گزر جاتی ہے۔<br />

جب تک میں اس کے تانے بانے سلجھاتا ہوں پچھلے<br />

پڑھے ہوئے مصرعے ذہن کی تہوں میں کہیں گم ہو جاتے<br />

ہیں اور میں پھر نظم پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش میں<br />

گرفتار ہو جاتا ہوں۔ آپ کی اس نظم کے مطالعہ میں ایسا<br />

صرف ایک بار ہوا اور میں جلد ہی منزل مقصود تک پہنچ<br />

گیا۔ یہ شاید اس لئے ہوا کہ آپ کی نظم پر دلسوزی اور<br />

خلوص دل کی مہر لگی ہوئی ہے جیسے آپ اپنی آپ بیتی<br />

بیان کر رہے ہوں۔ نظم پڑھ کر متاثر ہوا۔ نظم کا پیغام عام<br />

سہی لیکن اہم ضرور ہے۔ ہم اہل دنیا بے تحاشہ اہل اقتدار<br />

کی جانب بھاگتے ہیں اور اس تگ و دو میں بھول جاتے<br />

ہیں کہ دینے وال تو کوئی اور ہی ہے۔ ا رحم کرے۔ ایسے<br />

ہی لکھتے رہئے۔ ا آپ کو ہمت اور طاقت عطا فرمائے۔<br />

صلحیت اور توفیق سے تو اپ بھر پور ہیں ہی۔ باقی راوی<br />

سب چین بولتا ہے۔<br />

سرور عالم راز<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9132.0


حیرت تو یہ ہے<br />

جناب مقصود حسنی صاحب سلم مسنون<br />

واہ واہ بہت خوب چبھتی ہوئی نظم ہے۔ ا‡پ نے چہرہ کو<br />

گرد سے صاف کرنے کو کہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ<br />

ہمارا چہرہ اتنا مسخ ہو چکا ہے کہ اس کو صاف کرنے<br />

کی نہیں بلکہ ایک بڑے اپریشن کی ضرورت ہے کہ جس<br />

سے وہ چہرہ نکھرے جو کہ ہمارا اصلی اور بے مثالی<br />

چہرہ سامنے ا‡ئے۔<br />

ایک دفع پھر داد۔<br />

طالب دعا<br />

کفیل احمد<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9121.0<br />

دروازہ کھولو


جناب محترم ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب<br />

آپ کا یہ کلم پڑھن کے نال ہی دماغ کے بوہے پہ جینویں<br />

کسی نے آکر دستک دینڑ کے بجائے کسھن ماریا ‏،وجا جا<br />

کے ٹھا کرکے بڑا ای سواد آیا ، کیا ای بات ہے ہماری<br />

طرف سے ایس سوہنی تے من موہنی تحریر سے فیض یاب<br />

فرمانڑ کے واسطے چوہلیاں پرھ پرھ داد پیش ہےگی<br />

تواڈا چاہنے وال<br />

اسماعیل اعجاز<br />

عاری<br />

محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب!‏ اسلم علیکم<br />

اپ کی نظموں پر اج پہلی بار نظر پڑی۔ ہم نے اLنھیں بہت<br />

ہی فLکر انگیز اور ولولہ انگیز پایا۔ یہ نظم ہمیں بہت پسند<br />

ائی ہے۔ اگرچہ ہم اپ کے عLلم کے مقابلے میں شائید اLسے<br />

ان معنوں تک سمجھ نہ پائے ہوں۔ جہاں تک ہم سمجھے<br />

ہیں اپ اLس میں اLنسان سے مخاطL ب ہیں اور کہہ رہے ہیں


کہ اLنسان صرف قدرت کی عطا کی ہوئی چیزوں سے کچھ<br />

حاصل کرتا ہے۔ اگر اLس سے سب کچھ چھین لیا جائے تو<br />

اLنسان کے اپنے پاس کچھ بھی نہیں،‏ فقط مٹی کا ڈھیر ہے۔<br />

اLنسان کو قدرت کی تراشی چیزیں بہت کچھ دیتی ہیں،‏ لیکن<br />

اLنسان اLن مخلوقات کو کچھ نہیں دے سکتا۔ البتہ جبرائیل<br />

والی بات ہم سمجھ نہیں سکے ہیں اور اپنی کم عLلمی پر<br />

نادم ہیں۔<br />

اگر ہم سمجھنے میں کلی یا جزوی طور پر غلط ہوں تو<br />

مہربانی فرما کر اLس ناچیز کی بات پر خفا نہ ہوئیے گا۔<br />

ہمارا عLلم و ادراک فقط اLتنا ہی ہے،‏ جL س پر ہم مجبور ہیں<br />

اور شرمسار بھی۔<br />

طالبL دعا<br />

وی بی جی<br />

tovajo ke liay ehsan'mand hoon.<br />

Allah aap ko khush rahe<br />

jald hi tafsilun arz karne ki koshesh


karoon ga<br />

lane lay janay ka kaam jabreel hi karta<br />

hai.<br />

aql-e-kul bhi maroof hai<br />

adami bila aql kaam chala rara hai<br />

natijatun jo ho raha hai samnay hai<br />

dr maqsood hasni<br />

محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب!‏ سلم مسنون<br />

شکر گزار تو ہم ہیں کہ اپ نے ہماری الجھن دور کی اور<br />

ہمیں اLس نظم کا صحیح معنوں میں مزا لینے اور سمجھنے<br />

میں مدد دی۔ اپ کی اس بات<br />

aql-e-kul bhi maroof hai<br />

نے بات واضح کر دی ہے اور ہمارے عLلم میں اضافے کا


باعث بھی کیا۔<br />

شکریہ اور دعاؤں کے ساتھ<br />

خاکسار<br />

وی بی جی<br />

ایندھن<br />

ڈاکٹر صاحب ! خوب نظم ہے<br />

ایک سطر کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں , کیا مفہوم<br />

‏?کے اعتبار سے یہ یوں ہی ہے نا<br />

کر)‏ سکنے کی منزل سے دور کھڑا)‏<br />

سمندر میں نئے رنگوں کا پانی چھوڑ آیا ہوں


میں اس کی آنکھ میں اپنی نشانی چھوڑ آیا ہوں<br />

فیصل فارانی<br />

bari bari meharbani janab<br />

کر)‏ سکنے کی منزل سے دور کھڑا)‏<br />

aap darust samjhe hain<br />

dr maqsood hasni<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8492.0<br />

Eak Nasri Ghazl<br />

بروز:‏ جون 10:28:33 2009, 11, شام<br />

janaab moHtaram Dr.maqsood hasni SaaHeb<br />

aadaab arz haiN<br />

mujhe paihlee baar naCree Ghazal paRhne kaa<br />

sharf HaaSil huwaa hai ,Hayeraan bhee hooN


pareshaan bhee hooN ,baRee zor kee haNsee<br />

bhee aarahee hai :laugh:<br />

mu'aaf keejiye gaa ,<br />

meree jaanib se bohot see daad aap kee<br />

Khidmat meN ,aur SaaHeb e ilm Hazraat kee<br />

aaraa aur nazar e inaayat kaa intizaar bhee keh<br />

is Sinf aur iss ke Haawaale se<br />

kuchh seekhne sikhaane ke amal ko isteHkaam<br />

aur faroGh HaaSil ho<br />

niyaaz mand<br />

Ismaa'eel Aijaaz<br />

muHtaramee Hasni SaaHeb: tasleemaat!<br />

sab se pehle to aap kaa Urdu Anjuman meN<br />

Khair-maqdam kartaa hooN. aap se guzaarish<br />

hai keh aate raheN. aap ko yahaaN ke dost aur<br />

maau,Hol donoN hee pasand aaYeN ge. inshaa


Allah. agar aap Jaan Pehchaan ke baab meN<br />

apnaa ta,a'aruf likh deN to nawaazish ho gee.<br />

aap kaa kalaam dekhaa. Khayaal SaaHeb se<br />

maiN muttafiq hooN. aaj se qabl aazaad<br />

naz^m, nacree naz^m, Ghazal-e-mu,a'rraa to<br />

naam sune the lekin Nacree Ghazal nah<br />

kaheeN sunee thee aur nah hee naz^ar se<br />

guzree thee. aap kee i'naayat se ma'loom<br />

huwaa keh aisee bhee koyee Sinf-e-suKhan<br />

hai! ab aap se ek guzaarish hai.<br />

har Sinf-e-suKhan ke kuchh uSool hote haiN jin<br />

kee bunyaad par us ke likhne waale us kee<br />

pairawee karte haiN aur likhte haiN. aap se<br />

iltimaas hai keh aap Nacree Ghazal ke<br />

bunyaadee uSool aur qawaaneen yahaaN likh<br />

deN taa.k log aap kee taKhleeqaat ko samajh<br />

aur parakh sakeN. maujoodah Soorat meN


chooN.k sab hee (aap ke i'laawah) is se naawaaqif<br />

haiN is liYe kisee ke liYe kuchh likhnaa<br />

mumkin naheeN hai. ummeed hai keh aap<br />

hameN apne Khayaalaat se sarfaraaz<br />

farmaaYeN ge. shukriyah.<br />

Sarwar A. Raz<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=3717.0<br />

مرے آگے<br />

بازییچہءاسہال ہے دنیا مرے آگے<br />

بہتا ہے شب و روز دریا مرے آگے<br />

گو ساس کو جنبش نہیں سالوں میں تو دم ہے<br />

رہنے دو ابھی مرچوں کا کونڈا مرے آگے<br />

شوہر ہوں سامان اٹھائ ہے مرا کام<br />

گدھے کو برا کہتی ہے زوجہ مرے آگے


پھر دیکھیے طور چھترافشانی اغیار<br />

رکھ دے کوئ مجنوں کا چہرہ مرے آگے<br />

ہے موج میں وہ زن کاش یہی ہوتا رہے<br />

ہو دریا اس کے پیچھے موقع مرے آگے<br />

‏(غالب سے معذرت کے ساتھ)‏<br />

سلم<br />

نظم کے اخر میں قوسین میں اپکی کردہ معذرت غالب تک<br />

کیسے پہونجائی جائے۔ چلیے اپ نے ھمت تو کی،‏ اسی کی<br />

داد وصول کیجئے<br />

مخلص<br />

خلش<br />

مقصود حسنی کی تنقئد<br />

غزالی اور اقبال کی فکر۔۔۔۔۔۔ایک جائزہ


مکرم بندہ حسنی صاحب:‏ سلم مسنون<br />

آپ کے مضامین پڑھ کر دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔ معلوم ہوتا<br />

ہے کہ آپ کا مطالعہ کس قدر وسیع اور عمیق ہے۔ کتابیں<br />

پڑھ لینا اور بات ہے اور اس مطالعہ سے کتابوں کا نچوڑ<br />

نکال لینا اور بات ہے۔ اس سے قبل میں نے گزارش کی<br />

تھی کہ آپ کے مضامین کتابی شکل میں شائع ہونے<br />

چاہئیں۔ اب پھر اسی بات کا اعادہ کرتا ہوں۔ ایسا نہ ہوا تو<br />

یہ بیش قیمت سرمایہ ضائع ہو جائے گا۔ اب ایسی چیزیں<br />

پڑھنے والے اور ان پر لکھنے والے خال خال رہ گئے ہیں۔<br />

جو چیز محفوظ ہوجائے اس کو غنیمت جاننا چاہئے۔ آپ<br />

اس جانب بہت سنجید گی سے سوچیں۔ انشا ا اس طرز<br />

فکر کے اچھے نتائج ظاہر ہو ں گے۔ باقی راوی سب چین<br />

بولتا ہے۔<br />

سرور عالم راز<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8661.0<br />

اقبال کا فلسفہءخودی


محترمی حسنی صاحب:‏ سلم مسنون<br />

آپ کے مضامین جب جب پڑھتا ہوں یہ احساس بڑھتا جاتا<br />

ہے کہ ان کو ایک کتاب کی شکل میں جمع کر کے شائع<br />

کرانا چاہئے۔ کیا کبھی آپ نے اس بارے میں سوچا ہے؟ آپ<br />

کے خیال و بیان میں جو ندرت وانفرادیت ہے وہ بہت کم<br />

لوگوں میں نظر آتی ہے۔ خودی پر اس قدر لکھا جا چکا<br />

ہے کہ ا اکبر۔ پھر بھی اس کا سرا کسی کی گرفت میں<br />

نظر نہیں آتا۔ میرے جیسا شخص تو صرف پڑھ کر<br />

سمجھنے کی کوشش ہی کر سکتا ہے۔ سو آپ سے دست<br />

بستہ گزارش ہے کہ اپنے مضامین کو جمع کر کے ان کی<br />

اشاعت کی جانب توجہ دیں۔ یہ ایک کار خیر ہوگا اور اس<br />

سے بہت سوں کا بھل ہوگا۔ انشا ا۔<br />

سرور عالم راز<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8642.0<br />

اقبال لندن میں


مکرم بندہ حسنی صاحب:‏ سلم مسنون<br />

آپ کا مضمون نہایت شوق سے پڑھا۔ آپ نے علمہ اقبال<br />

کی زندگی کے ایک ایسے پہلو کو واضح کیا ہے جس کے<br />

متعلق بہت کم لوگوں کو علم تھا۔ مجھ کو یہ تو معلوم تھا<br />

کہ وہ لندن گئے تھے لیکن وہاں ان کی سرگرمیوں کا<br />

تفصیل سے علم نہیں تھا۔ اسی طرح اور دوست بھی ہوں<br />

گے جو اس مقالہ سے مستفید ہوئے ہوں گے۔ آپ کی<br />

مہربانی کا دلی شکریہ۔ یہ اور اسی طرح کے سلسلے جاری<br />

رکھین۔ ا کرے زور قلم اور زیادہ۔<br />

سرور عالم راز<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8322.0<br />

ادبی تحقیق وتنقید‘‏ جامعاتی اطوار اور کرنے کے کام<br />

‏!ڈاکٹر صاحب,‏ آداب<br />

میں آپ کی تحریریں بہت شوق سے پڑھتا ہوں,‏ تنگئی وقت


کے ہاتھوں اگر اLن تحریروں پر کچھ لکھنے کا موقع نہیں<br />

ملتا تو اLس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ میں آپ کے علم<br />

سے مستفید نہیں ہو رہا-‏ از راہL کرم آپ یہ سلسلہ جاری<br />

‏-رکھیں,‏ مجھ جیسے بہت سوں کا بھل ہو رہا ہے<br />

فیصل فارانی<br />

مکرم بندہ حسنی صاحب:سلم مسنون<br />

جب آپ نے یہ انشائیہ یہاں لگایا تھا تو میرا ارادہ تھا کہ<br />

اس پر اظہار خیال کروں گا۔ لیکن زندگی کی تگ و دو میں<br />

بھول گیا۔ خدا بھل کرے فیصل صاحب کا کہ آج انہوں نے<br />

اپنے خط کے توسط سے مجھ کو اپنی کوتاہی سے آگاہ کیا۔<br />

آپ کے انشائیے اور دوسرے مضامیں پر مغز اور علم<br />

پرور ہوتے ہیں۔ میں ان کوہمیشہ پڑھتا ہوں اور حسب<br />

استعداد و توفیق لکھنے کی کوشش بھی کرتا ہوں۔ آج کل<br />

لوگوں کو غزل نے ایسا مار رکھا ہے کہ ان کو اور کچھ<br />

دکھائی ہی نہیں دیتا۔ معلوم نہیں انہیں اس کا احساس کیوں<br />

نہیں ہوتا کہ کوئی زبان بھی صرف ایک صنف سخن کے<br />

بوتے پر فلح نہیں پا سکتی۔ اس سہل انگاری کا علج بھی<br />

کوئی نہیں ہے


ہمارے یہاں تعلیمی اداروں کا جو حال ہے اس سے آپ<br />

بخوبی واقف ہیں۔ میں علی گڑھ یونیورسٹی کا پڑھا ہوا ہوں<br />

اور پھر وہیں دس سال پڑھا بھی چکا ہوں۔ اب وہاں جاتا<br />

ہوں تو پہلے کے مقابلہ میں ہر چیز زوال پذیر دیکھتا ہوں۔<br />

نہ وہ استاد ہیں،نہ وہ شاگرد اور نہ وہ معیار۔ بس گاڑی چل<br />

رہی ہے ۔ اداروں کے علوہ ہمارے استادوں کا عجیب حال<br />

ہے۔ میں ایک صاحب سے واقف ہوں جنہوں نے اعتراف<br />

کیا ہے کہ وہ لڑکوں کو معاوضہ پر پی ایچ ڈی کے مقالے<br />

لکھ کر دیتے ہیں۔ میں نے جب ان سے کہا کہ یہ بات تو<br />

بالکل غلط ہے۔ آپ ان کو لکھنے کا گر سکھائیں تو یہ بہتر<br />

ہوگا تو مجھ سےخفا ہو گئے اور آج تک خفا ہیں۔<br />

آپ سے استدعا ہےکہ اسی طرح لکھتے رہیں۔ ا آپ کو<br />

طاقت اور ہمت عطا فرمائے۔<br />

سرور عالم راز<br />

جناب ڈاکٹر حسنی صاحب<br />

آداب و تسلیمات


آپ کے تحقیقی مضامین بل شبہ قابل L ستائش ہیں<br />

آپ کا یہ مضمون بہت شوق سے پڑھا ہے ۔ امید ہے کہ یہ<br />

سلسلہ جاری رہے گا<br />

ممنون و طالب L دعا<br />

زاہدہ رئیس راجی<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8472.0<br />

پی ایچ ڈی راگ جنگہ کی دہلیز پر<br />

تباس<br />

اپنی قسمت ہی کچھ ایسی تھی کہ دل ٹوٹ گیا<br />

بول میں کہیں کمی بیشی نظر آئے تو معافی کا خواستگار<br />

نہیں ہوں کیوں کہ اپنی قسمت ہی کچھ ایسی ہے‘‏ کہ ربط<br />

اور ضبط ٹوٹ گیا ہے۔ یقیں مانئیے‘‏ یہ حافظے کا قصور<br />

ہے۔ کچھ باتیں سچی مچی بھول جاتا ہوں ورنہ ہر وہ بات<br />

جو دینی آتی ہو‘‏ سماج کے مزاج کی طرح دماغ سے<br />

دانستہ اور معلوم ہوتے ہوئے بھی بھول جاتا ہوں۔


بہت لطف آیا مضون پڑھ کر۔ میرا موڈ ہشاش بشاش کردیا<br />

ہے<br />

ممنون<br />

‏(زاہدہ رئیس راجی)‏<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8538.0<br />

میجک ان ریسرچ اور میری تفہیمی معروضات<br />

صدیق مکرم حسنی صاحب:سلم مسنون<br />

اپ کا انشائیہ کئی بار پڑھ چکاہوں اور اس کی تہ تک<br />

پہنچنے کی کوشش ابھی تک جاری ہے۔ اس انشائیہ میں<br />

اپ نے جو نظریہ پیش کیاہےوہ ذہنی الجھن میں ڈال سکتا<br />

ہے بلکہ مجھ کوتو ڈال ہی دیا ہے۔ امید ہے کہ مزید فکر<br />

سے اس کو بہتر طور پر سمجھ سکوں گا۔ ایک خیال آیا تو<br />

سوچا کہ آپ سے پوچھ لوں۔ آپ نے سکندر کی جومثال دی<br />

ہےکیامیں اسے دہریوں پر یہ کہہ کر منطبق کر سکتا ہوں<br />

کہ وہ خدا کے منکر ہوتے ہیں اس لئے ان کا خدا سے<br />

منکر ہونے کا نظریہ ان کا خدا ہے؟ آپ سوچیں تو خدا بھی


تو ایک نظریہ ہی ہے۔ کسی نے اسے دیکھا نہیں بس سوچا<br />

ہی ہے۔ اسی لئے بعض مفکرکہتے ہیں کہ خدا نے انسان<br />

کو پیدا نہیں کیا ہے بلکہ انسان نے خدا کو بنایا ہے کیوں<br />

کہ خدا انسان کی نفسیاتی ضرورت ہے۔ آپ بتائیں کہ یہ<br />

منطق درست ہے کہ نہیں؟ کیا یہ بھی میجک ان ریسرچ ہو<br />

گی؟<br />

باقی راوی سب چین بولتا ہے۔<br />

سرور عالم راز<br />

محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب!‏ اسلم علیکم<br />

اپ کی تحریر پڑھی۔ اپ نے جL س طرح مثالوں سے ‏:میجک<br />

ان ریسرچ:‏ کی حقیقت سمجھائی ہے۔ ہمیں بہت لطف ایا۔<br />

خاص طور سے سLکندرL اعظم کے حوالے سے اپ کی کہی<br />

باتیں بہت معنی خیز ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ شائید سLکندرL<br />

اعظم کو عظیم نہ مانLنا صL رف ہمارے عLلم کی کمی کا نتیجہ<br />

ہے۔ لیکLن اپ کی باتوں سے کافی حوصلہ ہؤا ہے۔ بLل مقصد<br />

تلوار نLکال کر دنیا فتح کرنے نLکلنا یقیناø کوئی بہادری نہیں۔<br />

اگرچہ راجہ پورس کے ہاتھی اپنی ہی فوج کو لتاڑنے کے<br />

ذمہ دار ٹھہرائے جاتے ہیں لیکن اپنی فوج کا اLنکار کرنا


بھی ایک جرنیل کے لئیے معیوب ہے۔ ہمارے ناقص عLلم<br />

کے مطابق سLکندرL اعظم،‏ جL ن کے ہاں اپنی حکومت کا یہ<br />

حال تھا کہ بادشاہ اور شہزادہ ہوتے ہوئے کھانے کی میز<br />

پر مرغی کی ٹانگ پر باپ بیٹا تلوار نLکال لیا کرتے تھے،‏<br />

نے بادشاہوں کی ایسی شان و شوکت کبھی دیکھی تھی جو<br />

ہندوستان میں راجا پورس سے بھی کئی سال پہلے کوتلیہ<br />

چانکیہ کے دور سے نافذ رہی تھی۔ ایسے مخملیں تاج و<br />

تخت دیکھ کر بھی حضرت کا دLل ضرور کچھ میل ہؤا ہو گا۔<br />

یہی وجہ تھی کہ واپس جاتے ہوئے ایران کے راستے دارا<br />

کو شLکست دی اور اس کے تخت پر بھی کئی دLن کھانسے۔<br />

اپ نے ارسطو کے بارے چونکہ ذیادہ بیان نہ کیا ہے سو<br />

ہم ابھی تک اسے ایک اچھا استاد ہی گردانتے ہیں۔ جو<br />

سLکندرL اعظم کو بنایا جانا مقصود تھا وہ انھوں نے بنا لیا،‏<br />

اگرچہ وہ خود اLس پر خوش نہ تھے۔<br />

اپ کی تحریر بہت جاندار ہے۔ اور جL س انداز میں اپ نے<br />

عورتوں اور بچوں کا ذLکر کیا ہے،‏ ولولہ انگیز بھی۔ امید<br />

ہے اپ کی مذید تحریروں سے ہم استفادہ حاصل کرتے<br />

رہیں گے۔ اپ کے عLلمی اور ادبی مقام کو ہم سلم پیش<br />

کرتے ہیں۔


دعا گو<br />

وی بی جی<br />

صدیق مکرم حسنی صاحب:سلم مسنون<br />

اپ کا انشائیہ کئی بار پڑھ چکاہوں اور اس کی تہ تک<br />

پہنچنے کی کوشش ابھی تک جاری ہے۔ اس انشائیہ میں<br />

اپ نے جو نظریہ پیش کیاہےوہ ذہنی الجھن میں ڈال سکتا<br />

ہے بلکہ مجھ کوتو ڈال ہی دیا ہے۔ امید ہے کہ مزید فکر<br />

سے اس کو بہتر طور پر سمجھ سکوں گا۔ ایک خیال آیا تو<br />

سوچا کہ آپ سے پوچھ لوں۔ آپ نے سکندر کی جومثال دی<br />

ہےکیامیں اسے دہریوں پر یہ کہہ کر منطبق کر سکتا ہوں<br />

کہ وہ خدا کے منکر ہوتے ہیں اس لئے ان کا خدا سے<br />

منکر ہونے کا نظریہ ان کا خدا ہے؟ آپ سوچیں تو خدا بھی<br />

تو ایک نظریہ ہی ہے۔ کسی نے اسے دیکھا نہیں بس سوچا<br />

ہی ہے۔ اسی لئے بعض مفکرکہتے ہیں کہ خدا نے انسان<br />

کو پیدا نہیں کیا ہے بلکہ انسان نے خدا کو بنایا ہے کیوں<br />

کہ خدا انسان کی نفسیاتی ضرورت ہے۔ آپ بتائیں کہ یہ<br />

منطق درست ہے کہ نہیں؟ کیا یہ بھی میجک ان ریسرچ ہو<br />

گی؟


باقی راوی سب چین بولتا ہے۔<br />

سرور عالم راز<br />

محترم جناب سرور راز صاحب!‏ سلم<br />

ہم نے سوچا کہ اگر یہاں کوئی شہدا کی فLہرست تیار ہو رہی<br />

ہو تو ہم بھی اپنی انگلی کا زخم دLکھا دیں،‏ شائید کوئی<br />

صورت نLکل ہی ائے اور ہمارا نام بھی شامل ہو جائے۔<br />

ہم اLس ادبی گستاخی پر پہلے تو معافی مانگنا چاہیں گے<br />

کیونکہ اپ جناب محترم ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب سے<br />

مخاطب ہیں،‏ اور پھLر عرض کریں گے کہ اLس بارے ہمارے<br />

بھی کچھ نظریات ہیں چاہے طLفلنہ ہی کیوں نہ ہوں۔ اLن پر<br />

ہنسنے میں کوئی حرج نہیں لیکLن جان کی امان چاہیں گے<br />

کہ اساتذا کے سامنے اLن خیالت کا اظہار کر رہے ہیں۔ اپ<br />

نے بات شروع کی ہے تو اپ سے اور محترم ڈاکٹر مقصود<br />

حسنی صاحب سے ہمیں بھی رہنمائی مLلے گی۔<br />

ہمارے خیال کے مطابق مفکرین کے اLس خیال،‏ کہ خدا کو


اLنسان نے پیدا کیا ہے کیونکہ وہ اLن کی نفسیاتی ضرورت<br />

ہے،‏ کی جڑ نعرہL انالحق ہے۔ جL س کو عقل کے پیمانے پر<br />

تولتے ہوئے انھوں نے یہ نتیجہ بھی نLکال لیا۔ شایئد<br />

وولٹیئر نے یہ کہا کہ اگر خدا کا وجود نہیں تو اLنسان کو<br />

چاہئے کہ ایک بنا ڈالے۔ ویسے اگر ہم دیکھیں تو اLنسان کی<br />

کوئی بھی ایسی ضرورت نہیں،‏ جL س کا وجود ہی نہ ہو۔<br />

دراصل امام غزالی رحمت ا نے جو طریقت اور صوفیا کی<br />

راہیں بیان کیں،‏ بلکہ سLکھائی ہیں،‏ ان کے تحت کوئی بھی<br />

شخص،‏ چاہے مسلمان ہو یا نہ ہو،‏ ا کو حاصل کر سکتا<br />

ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ کئی سادھو بابے بھی تھوڑی بہت<br />

کوشش سے اLس لئق ہو جاتے ہیں کہ کرامات دLکھانے<br />

لگتے ہیں۔ اLس طرح کئی ہندو اور مسلمان اLس راہ پر<br />

دLکھائی بھی دئے ‏(جL ن میں ہمارے خیال کے مطابق سLکھوں<br />

کے بابا گرو نانک کے عLلوہ 10 یا پھر 11 صوفی بھی<br />

شامLل ہیں)۔ اLس بات کو بھانپتے ہوئے جناب مجدLد الLف ثانی<br />

رحمت ا نے اپنی کLتابیں لکھیں بلکہ جL ہاد کیا اور معاملہ<br />

لوگوں کو سمجھایا۔ انھوں نے لوگوں کو بتایا کہ اLس راہ پر<br />

ذرا برابر بھی غلطی اLنسان کو بھٹکا دیتی ہے سو صحیح<br />

طریقہ و ہی ہے کہ اLنسان اLسلم پر ایمان لئے اور اس کے<br />

تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے اLس راہ پر قدم رکھے۔<br />

انھوں نے ہی بتایا کہ جب صوفی اپنے اپ کو نور بن کر ا


پاک کے نور کے منبہ میں جذب ہوتے محسوس کرتا ہے<br />

‏(یعنی مجذوب)‏ تو وہ اپنے اپ کو خدا پاتا ہے۔ کچھ<br />

صوفیوں نے اپنے اپ کو خدا اور کچھ نے یہ بات بھی کہی<br />

کہ اLنسان ہے تو خدا بھی ہے ورنہ خدا کا وجود نہیں۔ یہ<br />

بھی جناب مجدLد الLف ثانی رحمت ا نے بتایا کہ عام صوفی<br />

اLس درجہ کو اLنتہا سمجھتے ہیں اور اناالحق کا نعرہ لگا<br />

دیتے ہیں،‏ لیکن اس سے بھی اوپر کا درجہ موجود ہے<br />

جہاں اLنسان خود کو روشنی سے الگ ہو کر اپنے وجود<br />

اور ا کے وجود کو الگ پاتا ہے،‏ جL سے عام صوفی زوال<br />

سمجھتے ہیں حالنکہ وہ زوال نہیں۔ یہ بھی انھی نے صاف<br />

صاف لLکھا ہے کہ بالکل اخری وقت پر منصور کو اLس بات<br />

کا عLلم ہو گیا تھا۔ یعنی یہ کہ اناالحق کا نعرہ درست نہ تھا۔<br />

ہم نثر نLگار نہیں ہیں سو پتہ نہیں اپنی بات کو صحیح طرح<br />

بیان کر پائے یا نہیں،‏ اور وہ بھی بزرگ اور اپنے سے<br />

بہتر عLلم رکھنے والوں کے سامنے۔ اپ کی بات پر صحیح<br />

رائے تو جناب محترم ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب ہی دیں<br />

گے اور یہ بھی بتائیں گے کہ ‏:میجک ان ریسرچ:‏ کا اLس<br />

میں کہاں تک دخل ہے۔ ہمارے ذہن میں کچھ باتیں ایسے<br />

ہی ا رہی تھیں جیسے کھانسی اتی ہے کہ روکے نہیں<br />

رکتی۔


اپنی غلطیوں گستاخیوں پر معذرت کے ساتھ<br />

دعا گو<br />

وی بی جی<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8545.0<br />

استاد غالب ضدین اور آل ہند کی زبان<br />

مکرم بندہ جناب حسنی صاحب:‏ سلم علیکم<br />

بوجوہ اس وقت آپ کی یہ تحریر سرسری طور پر ہی دیکھ<br />

سکا ہوں ۔ رات کا بارہ بجا چاہتا ہے چنانچہ شاید کل ہی<br />

اسے پڑھ سکوں گا۔ اس وقت صرف آپ کے آخری چند<br />

جملوں کا جواب مقصود ہے جو شاید آپ نے قدرے غصہ<br />

کی حالت میں لکھے ہیں۔ اول تو میں کوئی عالم فاضل نہیں<br />

ہوں۔ یہ آپ کا حسن ظن ہے۔ دوسرے اگر ہوتا بھی تو اس<br />

کا انجمن کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تیسرے یہ<br />

کہ میں نے ‏"فخر"‏ سے نہیں کہا کہ انجمن میں صرف اردو<br />

اور رومن اردو میں ہی چیزیں لگائی جاتی ہیں۔ میں بارہا


لکھ چکا ہوں ‏(آپ چونکہ انجمن میں نسبتا نو وارد ہیں اس<br />

لئے شاید آپ کی نطر سے نہ گزرا ہو)‏ کہ رومن اردو<br />

ہماری ترجیح یا پسند نہیں ہے بلکہ مجبوری ہے۔ اس<br />

اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ انجمن جب قائم ہوئی تھی تو اس<br />

وقت نیٹ پر اردو لکھنا صرف ان لوگوں کے لئے ممکن<br />

تھا جن کے پاس اردو کا کوئی پروگرام مثل ان پیج تھا۔ اس<br />

زمانے میں گوگل اور مائکروسوفٹ کی طرف سے یہ<br />

سہولت نہیں آئی تھی جس کی مدد سے میں یہ خط لکھ رہا<br />

ہوں۔ چونکہ انجمن کے ہر رکن کے پاس اردو پروگرام نہیں<br />

تھا اس لئے رومن اردو قابل قبول قرار دی گئی تھی۔ آج<br />

وہی پالیسی چلی آ رہی ہے۔ آج بھی کچھ لوگ ایسے ہیں<br />

‏(مثال کے طور پر جاوید بدایونی صاحب)‏ جن کو رومن اردو<br />

میں لکھنا اردو کے مقابلے میں آسان لگتا ہے۔ یہاں<br />

لکھنے والوں کی جس قدر کمی ہے اس سے اپ خوب<br />

واقف ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ رومن اردو پر اپنے دروازے<br />

بند کر کے اپنے دوستوں کے لئے یہاں آنا ہی نا ممکن بنا<br />

دیں۔ چنانچہ یہ اجازت قائم ہے اور ہماری رائے میں اس<br />

میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ آپ ذرا دوسری اردو محفلوں میں<br />

جا کر دیکھیں تو وہاں بھی یہی صورت دکھائی دے گی۔<br />

مجھے افسوس ہے کہ آپ کو میری پالیسی پسند نہ آئی<br />

لیکن انجمن جو کام کر رہی ہے اس کے لئے یہی مناسب<br />

ہے جو کیا جا رہا ہے۔ امید ہے کہ بات صاف ہوگئی ہو گی۔


از راہ کرم اس خط کا جواب نہ دیں کیونکہ یہ کوئی بحث<br />

طلب مسئلہ نہیں ہے۔ میں آپ کا بے حد شکر گزار ہوں کہ<br />

انجمن پر آپ اس قدر کرم فرماتے ہیں۔ امید ہے کہ یہ نگاہ<br />

کرم قائم رہے گی۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔<br />

سرور عالم راز<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8593.0<br />

میجک ان ریسرچ اور جناب سرور عالم راز<br />

مکرمی حسنی صاحب:‏ سلم مسنون<br />

بہت تاخیر سے لکھ رہا ہوں۔ اس کے لئے معذرت خواہ<br />

ہوں۔ زندگی میں کچھ نہ کچھ لگا ہی رہتا ہے۔ ابھی ابھی<br />

اپنی دو چوپالیں درست کروائی ہیں۔ لوگوں کو خدا جانے<br />

دوسروں کو ستا کر کیا مزا ملتا ہے۔ کسی ستم ظریف نے<br />

حملہ کر کے میری چوپالیں مسخ کر دی تھین۔ آج ہی بحال<br />

ہو سکی ہیں۔ اب دیکھئے کیا ہوتا ہے۔<br />

آپ کی دلچسپ تحریر ہمیشہ ہی غور وفکر کے لئے سامان


مہیا کرتی ہے۔ میں نے جو سوالت کئے تھے ان کا مقصد<br />

بھی حصول علم تھا۔ نفس مضمون میں میری معلومات نہ<br />

ہونے کے برابر ہے۔ اس لئے میں زیادہ کچھ کہہ نہیں<br />

سکتا ہوں۔ ا کو جو میں نے نظریہ لکھا ہے وہ میرا خیال<br />

نہیں ہے بلکہ بہت سوں کاہے۔ میرے لئے ا ایسے ہی<br />

عقیدہ کی حیثیت رکھتا ہے جیسے آپ کے لئے۔ کسی کی دل<br />

شکنی کا کیا سوال ہے۔ ایسا تو کبھی منشا نہیں تھا۔ تبادلہ<br />

خیال ہو گا تو یہ امکان تو رہے گا کہ ایک کی کوئی بات<br />

دوسرے کو نہ پسند آئے۔ ابھی چند دن قبل ایک قادیانی<br />

صاحبہ سے گفتگو ہوئی تو مجھ کو وہ کچھ کہنا ہی پڑا جو<br />

میرے لئے درست اور ان کے لئے غلط اوران کی دل<br />

گرفتگی کا باعث ہوا ۔ ایں ہم اندر عاشقی بالئے غم ہائے<br />

دگر۔<br />

اپنے انشائیوں کا سلسلہ جاری رکھئے۔ افسوس کہ دیگر<br />

احباب بار بار کہنے کے باوجود ان کی جانب توجہ نہیں<br />

کرتے ہیں۔ آپ لکھیں ، کم سے کم یہ خاکسار تو پڑھنے<br />

کے لئے موجودہے۔<br />

سرور عالم راز<br />

http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8560.0


نثر اور شعر کے امتیازات اور لوازمات<br />

برصغیر میں اوازن کے تحت وجود پانے والے کلم کو ہی<br />

شاعری سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کا قاری<br />

اور سامع اسی قسم کی شاعری سننے کے شوقین رہے ہیں<br />

اور اس سے ہٹ کر شاعری انھیں کبھی خوش نہیں آئ۔ یہ<br />

بھی کہ اسے نثر ہی سمجھا گیا ہے۔ دوسری طرف نثر بھی<br />

بےسری نہیں رہی‘‏ وہ بھی پیمانے کی پابند ہوتی ہے۔ اگر<br />

نحو کو نثر لکھتے وقت نظرانداز کر دیا جاءے تو وہ نثر<br />

بھدی صورت اختیار کر لے گی۔ ابلغ بھی متاثر ہو گا۔ خیال<br />

درست طور پر قرطاس کی زینت نہیں بن سکے گا۔ شاعری<br />

کو نحوی پیمانے پر رکھیں تو وہ درست قرار نہیں پائے<br />

گی۔ اس حقیقیت کے باوجود اسے غلط نہیں کہا جا سکتا۔<br />

گویا شاعری میں اوازن جبکہ نثر میں نحو معیار رہے ہیں۔<br />

میر تقی میر کا یہ شہر جو بڑا شہرہ رکھتا ہے‘‏ نحوی<br />

اصولوں پر نہیں اترتا اس کے باجود ابلغ میں کہیں خرابی<br />

نہیں آتی۔<br />

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے پنکھڑی اک گلب کی سی<br />

ہے<br />

گویا شاعری ہو یا نثر‘‏ دونوں کے الگ سے زاویے ہیں۔


شاعری میں ردیف و قافیہ سماعتوں کا لزمہ رہے ہیں۔<br />

جدید عہد کے آغاز میں ردیف و قافیہ کے بغیر شعر کہنے<br />

کا آغاز ہوا اور اس قسم کے کلم کو معری کا نام دیا گیا۔<br />

اس کے بعد آزاد شاعری کا آغاز ہوا جس میں ردیف و<br />

قافیہ ہی کیا‘‏ مصرعوں میں ارکان برابر نہ رہے۔ ہر دو<br />

متذکرہ کو شاعری ہی کہا گیا۔ اس کے بعد مجوزہ بحور<br />

سے انحراف کرکے لکھنے کا رواج ہوا۔اس قسم کے کلم<br />

سے مباحث کے دروازے کھل گیے۔ اسے شاعری کی صف<br />

میں شامل نہ کیا گیا۔ انیس ناگی ‘ مبارک احمد‘‏ نسرین انجم<br />

بھٹی اور مقصود حسنی اہم اوراس صنف کے ابتدائ شعرا<br />

میں سے ہیں۔<br />

١٩٩٣<br />

میں مقصود حسنی کی کتاب اردو میں نئ نظم شاءع ہوئ۔<br />

اس کتاب میں موصوف نے اس صنف سخن کی بھرپور<br />

انداز میں وکالت کی۔ زبردست مخالفت کے باوجود اس<br />

صنف شعر میں طبع آزمائ کی جاتی رہی۔ بالغ نظر اور<br />

شعری لوازمات سے آگاہ ڈاکٹرسعادت سعید اور ڈاکٹر تبسم<br />

کاشمیری جیسے اہل قلم اس کے ساتھ ساتھ رہے۔ اس<br />

صنف کی مستقل مزاجی اور عصری ضرورت کی وجہ سے<br />

یہ زندہ رہی۔ چونکہ یہ شاعری ہی تھی‘‏ اس لیے کسی<br />

مخالفت کا اس کی صحت پر برا اثر مرتب نہ ہوا بلکہ یہ


مزید ابھری اور اس میں نکھار آیا۔ آج آزاد اور نثری کا<br />

سابقہ ہی ختم ہو گیا ہے۔ عوامی سطع پر مقام رکھتی ہے۔<br />

عوامی سطع پر بھی مانوسیت پیدا ہو گئ ہے۔ آج اس صنف<br />

سخن پر بحث بھی تقریبا ختم ہو گئ ہے۔ دوسری طرف یہ<br />

معاملہ آج بھی غور طلب ہے کہ نثر اور شاعری میں کیا<br />

فرق ہے۔<br />

نثر میں کسی بات کے بیان کرنے اور فکری ابلغ کے لیے<br />

کئ صفحات درکار ہوتے ہیں جبکہ شاعری میں بیان کرنے<br />

کے لیے اختصار مدنظر رہتا ہے اور سمجھنے کا معاملہ<br />

قاری کی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ اختصار ہی<br />

درحقیقت شاعری کا حسن ہے۔ جیسا کہ یہ شعری لءنیں<br />

وسیع تناظر میں تفہیم کا تقاضا کرتی ہیں۔<br />

تاریکی سے لڑنا ہے تو<br />

جا پہلے جا کر<br />

سورج بھر سینے میں<br />

ہاءیکو<br />

مرے دور کے سچ نے<br />

طلق مانگ لی ہے<br />

زبان دراز ہے


دو اور دو کو<br />

چھے نہیں کہتا<br />

اخلص کی چڑیا<br />

اپنے گھونسلے کے<br />

تنکے لے گئ ہے<br />

کہ کلم<br />

زیر عتاب ہے<br />

نظم:کلم زیر عتاب ہے<br />

عموما داستانوں میں فوق الفطرت عناصر پائے جاتے ہیں<br />

لیکن زبان فوق الفطرت نہیں ہوتی جب کہ شاعری میں فوق<br />

الفطرت زبان پڑھنے کو ملتی ہے۔ اس فوق الفطرت زبان کا<br />

اطلق جیتی جاگتی زندگی پر ہوتا ہے۔ اس زبان کی تفہیم<br />

عملی زندگی سے متعلق ہوتی ہے۔ ذرا یہ شعری سطور<br />

دیکھیے۔<br />

لمبڑ کے ڈیرے پر بیٹھے<br />

آنکھوں میں پتھر رکھ کر<br />

پکون کے گیت گائیں


لوکن کے گھر<br />

بھوک کا بھنگڑا<br />

گلیوں میں موت کا خنجر<br />

کھیتوں میں خوف کی کاشت<br />

جیون<br />

تذبذب کی صلیب پر لٹکا<br />

تخلیق کی ابجد<br />

تقدیر کی ریکھا<br />

کیسے ٹھہرے گا؟<br />

نظم:حرص کی رم جم<br />

شاعری میں کسی ناکسی سطع پر ذومعنویت ہوتی ہے۔ ایک<br />

پہلو سے بھی کئ پہلو وابسطہ ہوتے ہیں۔ بطور نمونہ یہ<br />

شعری لئنیں ملحظہ ہوں۔ عام تفہیم کے حامل الفاظ بھی<br />

سادہ تفہیم نہیں رکھتے۔<br />

حرص کی ننگی رانوں میں<br />

تخلیق کے بہتے دریا میں<br />

سوچ کا سورج ڈوب رہا ہے


نظم:رات کے افق پر<br />

میرے نزدیک نثر‘‏ شاعری سے اس لیے بھی الگ تر ہے<br />

کہ وہ رواں دواں سادہ اور جلد سمجھ میں آ جاتی ہے۔ اس<br />

کے برعکس شاعری کے مفاہیم تک رسائ کے لیے غور و<br />

فکر کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ مثل یہ لئینیں<br />

دیکھیے ان کے مفاہیم غور کرنے پر ہی سمجھ میں آتے<br />

ہیں۔<br />

ساحل کے پتھر سے<br />

موجیں جب ٹکراتی ہیں<br />

کرچی کرچی ہو جاتی ہیں<br />

کوئ کہہ دے پروانے سے<br />

کیا ہو گا مر جانے سے<br />

جب بھی آنکھ کے ساحل پر<br />

ابھریں موت کے منظر<br />

کہہ دینا اشکوں سے<br />

بلوے کے سب بول<br />

منڈیر پر رکھ دیں


نظم:ساحل کا پتھر<br />

شاعری میں آہنگ بنیادی شعری لزمہ اور لوازمہ ہے۔<br />

آہنگ شاعری میں شعریت پیدا کرتا ہے۔ اس سے غنائیت<br />

اور موسیقیت پیدا ہوتی ہے۔ بطور مثال یہ شعری لئنیں<br />

ملحظہ ہوں۔<br />

دیکھ کے چاند مرے آنگن کا<br />

جانے کیوں پھیکا پڑ جائے ہے<br />

چنچل روپ بہاروں کا<br />

ہائیکو<br />

جیون کے<br />

کانچ دریچوں میں<br />

دیکھوں تو<br />

ارمانوں کے موسم جھلسیں<br />

نادیکھوں تو<br />

کال پتھر ٹھہروں<br />

نظم:کانچ دریچوں میں<br />

آنکھ میں پانی


آب کوثر<br />

شبنم<br />

گل کے ماتھے کا جھومر<br />

جل ‏‘جل کر<br />

دھرتی کو جیون بخشے<br />

گنگا جل ہو کہ<br />

زم زم کے مست پیالے<br />

دھو ڈالیں کالک کے دھبے<br />

جل اک قطرہ ہے<br />

جیون بے انت سمندر<br />

نظم:بے انت سمندر<br />

شاعری میں حسن شعر کے جملہ عناصر موجود ہوتے ہیں۔<br />

شاعر کلم میں استعارات‘‏ تشبیہات‘‏ تلمیحات‘‏ اشارے<br />

کناءے وغیرہ برت کر ناصرف کلم میں حسن‘‏ چاشنی اور<br />

چشتی پیدا کرتا ہے بلکہ نئے مضامین کے دروازے کھول<br />

دیتا ہے۔ یہ کلم میں اختصار کے ساتھ ساتھ دلچسپی کا<br />

سبب بھی بنتے ہیں۔ ذیل میں شعری لئنیں ملحظہ ہوں۔<br />

ساگر پی کر بھی


ہر قطرہ پیاس سمنر<br />

پلکوں کا ساون<br />

جانے کب برسے گا<br />

فرات کا دامن<br />

شعلے لے کر بھاگا ہے<br />

ساحل کس سے شکتی مانگے<br />

مٹھی بند کر لو<br />

پلکوں کے اس کنارے پر<br />

راتوں کے سپنے<br />

سورج کی آنکھوں میں بھی<br />

بھیک کے ککرے<br />

کالی زلفوں کے مندر<br />

مسکن ہیں کالی جب والوں کے<br />

جانے سے پہلے<br />

آنکھوں میں دھواں بھر لو<br />

چاند کا چہرا


راون کی شکتی لے کر<br />

عیسی کے خون سے<br />

اوباماہی رب<br />

لکھ رہا ہے<br />

نظم:فرات کا دامن<br />

شاعری کا تعلق احساس سے جڑا ہوتا ہے۔ یہ ہر موڑ اور<br />

ہر سطع پر احساس کے تاروں کو چھیڑتی ہے۔ جذبات میں<br />

ہلچل مچا دیتی ہے۔ سوچ اور فکر کو نیا زاویہ اور نیا انداز<br />

عطا کرتی ہے۔ شعر سنا کر داد کے لیے کہنا نہیں پڑتا بلکہ<br />

قاری یا سامع کے منہ سے از خود واہ واہ نکل پڑتا ہے۔<br />

گویا شاعری میں مسرور کرنے کی صلحیت موجود ہوتی<br />

ہے۔ مثل یہ سطور دیکھیے۔<br />

وہ قتل ہو گیا<br />

پھر قتل ہوا<br />

ایک بار پھر قتل ہوا<br />

اس کے بعد بھی قتل ہوا<br />

وہ مسلسل قتل ہوتا رہا<br />

جب تک سیٹھوں کی بھوک‘‏ نہیں مٹ جاتی


جب تک خواہشوں کا‘‏ جنازہ نہیں اٹھ جاتا<br />

وہ قتل ہوتا رہے گا<br />

وہ قتل ہوتا رہے گا<br />

نظم:جب تک<br />

یہ نظم پڑھ کر کٹر عروضی شاعر بھی کہنے پر مجبور ہو<br />

گیا۔<br />

محترمی ڈاکٹر حسنی صاحب:آداب عرض<br />

آپ کی نثری نظم پڑھی اور مستفید ہوا۔ نثری نظم کی<br />

ضرورت میری سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ نثری نظم دراصل<br />

اچھی نثر کو چھوٹے بڑے ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا<br />

دوسرا نام ہے۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔ مجھ کو آپ کی<br />

یہ نثری نظم اس لئے اچھی لگی کہ اس کا موضوع وقت<br />

کی پکار ہے۔ جس طرح ساری دنیا میں اور خاص طور<br />

سے دنیائے اسلم میں ‏:سیٹھوں،‏ وڈیروں:‏ کے ہاتھوں<br />

عوام کا استحصال ہو رہا ہے وہ بہت عبرتناک ہے۔ افسوس<br />

کہ اس کا علج سمجھ میں نہیں آتا۔ ایک سوال دل میں اٹھتا<br />

ہے کہ اس قدر ظلم ہو رہا ہے تو وہ ہستی جس کو ہم ‏:ا،‏<br />

خدا،‏ بھگوان،‏ گاڈ:‏ کہتے ہیں کیوں خاموش ہے؟ اگر سب


کچھ اس کے ہاتھ میں ہے تو پھر وہ کچھ کرتی کیوں نہیں؟<br />

آپ نے بھی اس پر سوچا ہوگا۔ مناسب جانیں تو اس پر<br />

لکھیں۔ شکریہ۔<br />

خادم<br />

مشیر شمسی<br />

نثر اور شاعری میں بنیادی فرق یہ ہے کہ نثار دیکھ کر<br />

لکھتا جبکہ شاعر محسوس کرکے لکھتا ہے۔ شاعر کی<br />

احساس کی آنکھ وہاں تک رسائ حاصل کرتی ہے جہاں<br />

تک خصوص کی آنکھ بھی رسائ حاصل نہیں کر پاتی۔ اس<br />

ضمن یہ شعری سطور ملحظہ ہوں۔<br />

وہ قیدی نہ تھا<br />

خیر وشر سے بے خبر<br />

معصوم<br />

فرشتوں کی طرح<br />

جھوٹے برتنوں کے گرد<br />

انگلیاں محو رقص تھیں اس کی<br />

ہر برتن کی زبان پہ


اس کی مرحوم ماں کا نوحہ<br />

باپ کی بےحسی اور<br />

جنسی تسکین کا بین تھا<br />

آنکھوں کی زبان پہ<br />

اک سوال تھا<br />

‏‘اس کو زندگی کہتے ہیں<br />

یہی زندگی ہے؟؟؟<br />

نظم:نوحہ<br />

نظم کی تفہیم کی پچیدگی کے حوالہ سے یہ خط ملحظہ ہو۔<br />

محترمی جناب حسنی صاحب ‏:آداب عرض<br />

میں شاعر نہیں ہوں بس ادب کا شوق ضرور ہے مجھ کو۔<br />

اس لئے اگر کوئی غلط بات کہہ جائوں تو معاف کر دیجئے<br />

گا۔ آپ کی نظم ‏"نوحہ"‏ میری سمجھ میں نہیں آئی۔ ایسا<br />

محسوس ہوا جیسے اپ کا مطلب الفاظ کے پیچ و خم میں<br />

کہیں گم ہو گیا۔ کئی مرتبہ نظم پڑھی اور غور کیا لیکن بات<br />

پوری طرح واضح نہیں ہوئی۔۔ یہ ضرور میری کوتاہی ہے۔


بڑی عنایت ہوگی اگر آپ اپنے خیال اور طرز بیان پر کچھ<br />

روشنی ڈآلیں۔ میرا خیال ہے کہ اس سے کچھ اور دوستوں<br />

کابھی فائدہ ہو گا۔ شکریہ پیشگی قبول کیجئے۔ آپ کی<br />

وضاحت کا انتظار رہے گا۔<br />

خادم : مشیر شمسی<br />

محترم سید صاحب<br />

آپ نے توجہ فرمائ‘‏ دل و جان سے احسان مند ہوں۔<br />

ا آپ کو خوش رکھے۔<br />

آپ کی تحریر بتاتی ہے‘‏ آپ ا کے فضل سے آسوددہ حال<br />

ہیں۔ آپ کو تیسرے اور چوتھے درجے کے کسی ہوٹل میں<br />

بیٹھ کر‘‏ چاءے سے شغل فرمانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ آپ نے<br />

کسی بڑے گھر میں‘‏ کسی معصوم بچے کو برتن صاف<br />

کرتے نہیں دیکھا۔ اگر یہ آپ نے ملحظہ فرمایا ہوتا‘‏ تو<br />

سب سمجھ میں آ جاتا۔<br />

قبلہ میں نے دیکھا ہے اور دیکھتا رہتا ہوں۔ میں گلی میں<br />

دس بارہ برس کے بچوں کی‘‏ رات گیے‘‏ گرم انڈے کی<br />

آوازیں سنتا ہوں۔<br />

اگر جناب پر مطلب واضع نہ ہوا ہو‘‏ تو چشم تصور میں‘‏


میری بھیگی پلکوں کو دیکھ لیں‘‏ ممکن ہے‘‏ مطلب واضح<br />

ہو جائے۔<br />

مقصود حسنی<br />

نثر اور شاعری کے لفظوں کی نشت و برخواست کا طور و<br />

سلیقہ ہی مختلف ہوتا ہے۔ شاعری میں کسی ناکسی سطع<br />

پر نثر کے نحوی ضابطوں سے انحراف پایا جاتا ہے۔ ذرا<br />

یہ لئنیں ملحظہ ہوں۔<br />

ہوا کے دوش پر اڑتے پرندے<br />

اپنی ذات میں مکمل کب ہیں<br />

نہ مٹھی کھولنا کہ لمحے<br />

کسی تتلی کی طرح<br />

اڑ نہ جائیں<br />

تمہارے جسم کے پنچھی نے<br />

سمیٹے پر<br />

سلخوں سے نکل کر<br />

فلک پر رنگ بکھیرے<br />

اور روح کی اڑانیں


بیکراں تا بیکراں ہیں<br />

نظم:روح کی اڑانیں<br />

طرز تکلم کا اختلف شاعری اور نثر میں امتیاز کا سبب بنتا<br />

ہے۔ ایک نظم کو نثری انداز میں پیش کرتا ہوں ملحظہ<br />

فرماءیں۔<br />

یہ سچ ہے اور ہم کو یقین ہے دل کو سکون دیتی ہے سوچ<br />

کو شفاف رکھتی ہے۔ محبت بےبدل سہی سوال یہ نہیں کہ<br />

اس کا احترام کرنا ہے۔ اپنا بنا لینا ہے۔ ہم اس کا احترام<br />

کریں کیسے ؟زندگی کے کالر پر سجا لیں کیسے؟ ہم تو<br />

بھوکے ہیں پیاسے ہیں زندگی محفوظ نہیں ہمیں زندگی<br />

بچانا ہے اس کی پسلیوں کے نیچے دل نہیں ہماری روٹی کا<br />

بیری گھات میں ہے کیا کریں محبت ہمارے لیے نہیں ہے<br />

صبر سے ہہمارا کوئ کام نہیں زندگی محفوظ نہیں ہمیں<br />

زندگی بچانا ہے۔<br />

یہ سچ ہے‘‏ اور ہم کو یقین ہے۔ دل کو سکون دیتی ہے۔<br />

سوچ کو شفاف رکھتی ہے۔ محبت‘‏ بےبدل سہی‘‏ سوال یہ<br />

نہیں‘‏ کہ اس کا احترام کرنا ہے۔ اپنا بنا لینا ہے۔ ہم اس کا<br />

احترام کریں کیسے؟ زندگی کے کالر پر سجا لیں کیسے؟ ہم<br />

تو بھوکے ہیں۔ پیاسے ہیں۔ زندگی محفوظ نہیں۔ ہمیں زندگی<br />

بچانا ہے اس کی پسلیوں کے نیچے‘‏ دل نہیں‘‏ ہماری روٹی<br />

کا بیری‘‏ گھات میں ہے۔ کیا کریں‘‏ محبت ہمارے لیے نہیں۔


ہے صبر سے ہمارا کوئ کام نہیں۔ زندگی محفوظ نہیں‘‏<br />

ہمیں زندگی بچانا ہے۔<br />

اب یہی اوپر نیچے لکھ کر پیش کرتا ہوں۔ فرق واضح ہو<br />

جائے گا۔<br />

ہمیں زندگی بچانا ہے<br />

یہ سچ ہے اور ہم کو یقین ہے<br />

دل کو سکون دیتی ہے<br />

سوچ کو شفاف رکھتی ہے<br />

محبت‘‏ بےبدل سہی<br />

سوال یہ نہیں کہ<br />

اس کا احترام کرنا ہے<br />

اپنا بنا لینا ہے<br />

ہم اس کا احترام کریں کیسے<br />

زندگی کے کالر پر<br />

سجا لیں کیسے<br />

ہم تو بھوکے ہیں


پیاسے ہیں<br />

زندگی محفوظ نہیں<br />

ہمیں زندگی بچانا ہے<br />

اس کی پسلیوں کے نیچے<br />

دل نہیں<br />

ہماری روٹی کا بیری<br />

گھات میں ہے<br />

کیا کریں<br />

محبت ہمارے لیے نہیں ہے<br />

صبر سے ہمارا کوئ کام نہیں<br />

زندگی محفوظ نہیں<br />

ہمیں زندگی بچانا ہے<br />

اس ذیل میں ایک اور مثال ملحظہ ہو۔<br />

خواہش کا کنول اس کنارے پر انا کا ہاتھ تھامے مری بے<br />

بسی پر مسکراتا ہے اتراتا ہے میری سوچ کی<br />

بے کسی کا منہ چڑاتا ہے کنارے دو سہی ہیں تو ایک ہی


دریا کا حصار انھیں تا ابد دور رہنا ہے بے کسی اور<br />

بےبسی من کے دریا کے دو حصار وہ اس پار سے دور یہ<br />

اس پار سے دور خواہش کو تا ابد خواہش رہنا ہے<br />

خواہش کا کنول‘‏ اس کنارے پر‘‏ انا کا ہاتھ تھامے‘‏ مری بے<br />

بسی پر مسکراتا ہے‘‏ اتراتا ہے۔ میری سوچ کی بے کسی<br />

کا‘‏ منہ چڑاتا ہے۔ کنارے دو سہی‘‏ ہیں تو ایک ہی دریا کا<br />

حصار‘‏ انھیں تا ابد دور رہنا ہے۔ بے کسی اور بےبسی‘‏ من<br />

کے دریا کے دو حصار‘‏ وہ اس پار سے دور‘‏ یہ اس پار<br />

سے دور‘‏ خواہش کو‘‏ تا ابد خواہش رہنا ہے۔<br />

اب اوپر نیچے سطروں کے تحت ملحظہ فرمائیں۔<br />

خواہش کا کنول<br />

اس کنارے پر<br />

انا کا ہاتھ تھامے<br />

مری بے بسی پر<br />

مسکراتا ہے<br />

اتراتا ہے<br />

میری سوچ کی<br />

بے کسی کا منہ چڑاتا ہے


کنارے دو سہی<br />

ہیں تو<br />

ایک ہی دریا کا حصار<br />

انھیں تا ابد<br />

دور رہنا ہے<br />

بے کسی اور بےبسی<br />

من کے دریا کے<br />

دو حصار<br />

وہ اس پار سے دور<br />

یہ اس پار سے دور<br />

خواہش کو تا ابد<br />

خواہش رہنا ہے<br />

کنارے دو سہی<br />

اب دو پابند شاعری کے شعر ملحظہ فرمائیں<br />

گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے رہنے دو<br />

ابھی ساگر و مینا مرے آگے۔<br />

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے پنکھڑی اک گلب کی سی


ہے۔<br />

گو‘‏ ہاتھ کو جنبش نہیں‘‏ آنکھوں میں تو دم ہے‘‏ رہنے دو<br />

ابھی‘‏ ساگر و مینا مرے آگے۔<br />

نازکی اس کے لب کی‘‏ کیا کہیے‘‏ پنکھڑی‘‏ اک گلب کی<br />

سی ہے۔<br />

گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے<br />

رہنے دو ابھی ساگر و مینا مرے آگے<br />

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے<br />

پنکھڑی اک گلب کی سی ہے۔<br />

شاعری میں الفاظ کی معنویت زیادہ ہوتی ہے۔ شاعری میں<br />

الفاظ کو خیال کے ساتھ ساتھ احساسات کی سردی گرمی<br />

بھی میسر آتی ہے۔ بعض الفاظ اصطلحی معنی میں استعمال<br />

ہوتے ہیں۔ اسی طرح نئے مرکبات تشکیل پاتے ہیں اور ان<br />

کی تفہیم بالکل الگ انداز سے ممکن ہوتی ہے۔ گویا نثر<br />

سے ہٹ کر شعری الفاظ کی تفہیم ممکن ہوتی ہے۔ مثل یہ<br />

سطور دیکھیے۔<br />

پریت بت کی شناسئ مانگے<br />

عشق کربل سی آبلہ پائ مانگے


حسن طلوع کے دوش<br />

بل کا گل نوش<br />

چشم بکف نکل<br />

سب نے ہاتھوں ہاتھ لیا<br />

دھوپ میں سایہ ء شجر ٹھہرا<br />

کوئئ اسے نمود سحر سمجھا<br />

کسی نے جلوہء خدا کہا<br />

وہ پیکر فردوس<br />

آنکھ کے سب ترکش<br />

جو ساتھ لیا تھا<br />

کب چل پایا تھا<br />

اپنے ہی ساءے سے لٹ گیا<br />

آئینہ پتھروں سے<br />

اپنی کرچیوں کی بینائ مانگے<br />

لفظوں کی بے نوا دستک<br />

فاختاؤں سے بے ریائ مانگے


پارسائ مانگے<br />

دریا بارش<br />

صحرا بادلوں سے رہائ مانگے<br />

زیست کا ہر نقش<br />

صلہ ء بے ردائ مانگے<br />

آئینہ پتھروں سے<br />

اپنی کرچیوں کی بینائ مانگے<br />

نظم:بے نوا دستک<br />

شاعری میں جذبات احساسات اور معاملت کی پیش کش<br />

الہامی اور وجدانی سی ہوتی ہے۔ بطور نمونہ یہ سطور<br />

ملحظہ ہوں۔<br />

تم چپ ہو کہ<br />

مجھ میں تم بولتے ہو<br />

میرے دل کے بربط پر<br />

تری انگلی ہے<br />

تم چپ ہو کہ<br />

یہ دل تیرا مسکن ہے


گھر کے باسی<br />

اپنی مرضی کے مالک ہوتے ہیں<br />

تم چپ ہو کہ<br />

شعور کی ہر کھزکی میں<br />

تیرا چہرا ہے<br />

کھڑکی بند کرتے ہیں تو<br />

دم گھٹتا ہے<br />

کھڑکی کھولے رکھنا<br />

گھر کی باتوں کو باہر لنا ہے<br />

باہر کے موسم<br />

راون بستی کے منظر ہیں<br />

تم چپ ہو کہ<br />

اندر کے سب موسم تیرے ہیں<br />

دروازہ کھولو<br />

تیرے ہونٹوں کی مستی<br />

من کے کورے پنوں پر


آنکھ سے چن کر رکھ دوں<br />

تم چپ ہو کہ<br />

چپ میں سکھ ہے<br />

چپ کے کھسے میں<br />

کلیاں ہی کلیاں ہیں<br />

تم چپ ہو کہ<br />

تحسین کے کلمے<br />

برہما کے بردان سے اٹھتےہیں<br />

------ تم چپ ہو کہ<br />

نظم:دروازہ کھولو<br />

شاعر اپنے عہد کا عکاس ہوتا ہے۔ وہ اپنے عہد کے<br />

معاملت کو کسی ناکسی رنگ میں پیش کرکے اپنے عہد کا<br />

امین بن جاتا ہے۔ بعض کو ان ہی کے عہد میں دار کا سامنا<br />

کرنا پڑتا ہے تاہم اس کے پاس نثار سے زیادہ پوشیدگی<br />

کے عناصر ہوتے ہیں۔ بطور نمونہ یہ شعری سطور ملحظہ<br />

ہوں۔<br />

جب بھی


آسمان سے<br />

جب بھی<br />

من وسلوی اترتا ہے<br />

زمین زرد پڑ جاتی ہے<br />

کہ بے محنت کا ثمرہ<br />

حرکت کے در بند کر دیتا ہے<br />

سجدہ سے منحرف مخلوق<br />

حساس دلوں کی دھڑکنیں<br />

چھین لیتے ہیں<br />

آسمان سے<br />

جب بھی<br />

من وسلوی اترتا ہے<br />

انسان کے سوا<br />

بلندیاں اتراتی ہیں<br />

نظم:آسمان سے<br />

آسمان کو اپنے قہر و ستم پر ناز تھا


اسے خنجر چلتا دیکھ کر<br />

شرم سے پانی ہو گیا<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

جبریل کا اب یہاں کام نہیں<br />

زمین کا بڑا کہتا ہے<br />

لنکن کی کتاب کافی ہے انسان کے لیے<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

نثر میں نثرنگار ذات سے کائنات کی طرف بڑھ کر معلومات<br />

اکٹھی کرتا ہے اور انھیں سائنسی ترتیب کے ساتھ پیش<br />

کرتا ہے لیکن شاعر کا سفر کاءنات سے ذات کی طرف اور<br />

کبھی ذات سے کائنات کی طرف ہوتا ہے اور دوبارہ سے<br />

ذات کی طرف لوٹ آتا ہے۔ ذات کا کرب کاءنات کا کرب بنا<br />

کر پیش کرتا ہے۔ کاءنات کا درد بھی اس کی ذات کا کرب<br />

بن کر ابھرتا ہے۔ اس کی ترتیب سائنسی نہیں وجدانی سی<br />

ہوتی ہے۔ اس ذیل میں یہ شعری سطور ملحظہ ہوں۔<br />

پاگل پن<br />

آنچ دریچوں میں<br />

دیکھوں تو


خواہش کے سب موسم جلتے ہیں<br />

نا دیکھوں تو<br />

احساس سے عاری<br />

اورابلیس کا پیرو ٹھہروں<br />

جانے کے موسم میں<br />

آنے کی سوچیں تو<br />

گنگا الٹی بہتی ہے<br />

دن کو<br />

چاند اور تاروں کا سپنا<br />

پاگل پن ہی تو ہے<br />

من کے پاگل پن کو<br />

وید حکیم کیا جانیں<br />

جو جانے<br />

عشق کی دنیا کا کب باسی ہے<br />

شاعری کا لہجہ‘‏ طرز تکلم طرز مخاطب نثر سے قطعی الگ<br />

اور ہٹ کر ہوتا ہے۔ شاعر کا مخاطب بھی واضح نہیں ہوتا۔


وہ جس سے یا جس کا نام لے کر بات کر رہا ہوتا ہے<br />

ضروری نہیں وہ وہی ہو جس سے بات کہہ رہا ہو۔ اس کا<br />

مخاطب کوئ دوسرا ہو سکتا ہے۔ محبوب کا نام لے کر امیر<br />

شہر سے گلہ شکوہ شکایت یا طنز کر سکتا ہے۔ ذرا<br />

سطریں دیکھیے۔<br />

چاند اب دریا میں نہیں اترے گا<br />

جذبے لہو جیتے ہیں<br />

معاش کے زنداں میں<br />

مچھروں کی بہتات ہے<br />

سہاگنوں کے کنگن<br />

بک گءے ہیں<br />

پرندوں نے اڑنا چھوڑ دیا<br />

کہ فضا میں تابکاری ہے<br />

پجاری سیاست کے قیدی ہیں<br />

تلواریں زہر بجھی ہیں<br />

محافظ سونے کی میخیں گنتا ہے<br />

چھوٹی مچھلیاں فاقہ سے ہیں


کہ بڑی مچھلیوں کی دمیں بھی<br />

شکاری آنکھ رکھتی ہیں<br />

دریا کی سانسیں اکھڑ گئ ہیں<br />

صبح ہو کہ شام<br />

جنگی بیڑے گشت کرتے ہیں<br />

چاند دھویں کی آغوش میں ہے<br />

اب وہ<br />

دریا میں نہیں اترے گا<br />

تنہائ بنی آدم کی ہمرکاب ہے<br />

کہ اس کا ہمزاد بھی<br />

تپتی دھوپ میں<br />

کب کا<br />

کھو گیا ہے<br />

چاند اب دریا میں نہیں اترے گا<br />

جیون سپنا


آنکھ سمندر میں تھا<br />

جیون سپنا<br />

کہ کل تک تھا وہ اپنا<br />

جب سے اس گھر میں<br />

چاندی اتری ہے<br />

میرے من کی ہر رت<br />

پت جھڑ ٹھری ہے<br />

بارش صحرا کو چھو لے تو<br />

وہ سونا اگلے<br />

مری آنکھ کے قطرے نے<br />

جنت خوابوں کو<br />

یم لوک میں بدل ہے<br />

کیسے چھو لوں<br />

تری مسکانوں میں<br />

طنز کی پیڑا<br />

پیڑا تو سہہ لوں


پیڑا میں ہو جو اپناپن<br />

آس دریچوں میں<br />

تری نفرت کا<br />

باشک ناگ جو بیٹھا ہے<br />

ہونٹوں پر مہر صبر کی<br />

جیبا پر<br />

حنطل بولوں کی سڑکن<br />

یاد کے موسم میں<br />

خوشبو کی پریاں<br />

یاد کی شاموں کا<br />

جب بھنگڑا ڈالیں گی<br />

آنکھ ہر جائے گی<br />

آس مر جائے گی<br />

آنکھ سمندر میں تھا<br />

جیون سپنا<br />

شاعری کی زبان میں فطری میٹھاس اور ریشمیت اور


ملئمیت کا عنصر غالب رہتا ہے۔ تلخ سے تلخ بات<br />

ہضم ہو جاتی ہے۔ بطور نمونہ یہ سطور ملحظہ ہوں۔<br />

اب جب بھی<br />

کوئ کنول چہرا<br />

اب جب بھی دیکھتا ہوں<br />

خوف کا موتیا<br />

آنکھوں میں اتر آتا ہے<br />

کلیوں کا جوبن چرا کر<br />

غرض کا جن<br />

پریوں کی اداؤں میں<br />

من آنگن میں<br />

قدم رکھتا ہے<br />

خواہشوں کی انگور بیلیں<br />

سوکھ جاتی ہیں<br />

خوش فہمی کے سورج کی<br />

تاریک کرنیں


ست کے سارے شبد<br />

کھا جاتی ہیں<br />

اگلے داؤ کے یقین پر<br />

جیون کے سب ارمان<br />

مر جاتے ہیں مر جاتے ہیں<br />

آس کے ٹوٹے ٹھوٹھے میں<br />

آشا کے کچھ بول رکھنے کو<br />

غرض کی برکی نہ بن جائے<br />

وشنو چھپنے کو<br />

برہما لوک کا رستہ بھول جاتا ہے<br />

گلب کے ہونٹوں پر<br />

بے سدھ ہونے کی اچھا<br />

تھرکنے لگتی ہےموتیا<br />

کوئ کنول چہرا<br />

اب جب بھی دیکھتا ہوں<br />

خوف کا موتیا


آنکھوں میں اتر آتا ہے<br />

درج بال حقاءق کی روشنی میں ہم نثر کو شاعری نہیں کہہ<br />

سکتے۔ شاعری اور نثر میں اول تا آخر ان کی امتیازی<br />

صورتیں باقی رہتی ہیں۔ نثری سطور کو اوپر نیچے لکھ کر<br />

شاعری کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ اسی طرح اوپر نیچے<br />

لکھی لءینوں میں درج بال امور ملتے ہیں تو‘‏ وہ شاعری<br />

ہے۔ اسے نثر کا نام دینا سراسر زیادتی کے مترادف ہو گا۔<br />

اس مضمون میں پیش کی جانے والی مثالیں مقصود حسنی<br />

کے چہار مجموعہ ہا کلم‘‏ سپنے اگلے پہر کے‘‏ اوٹ سے‘‏<br />

سورج کو روک لو اور کاجل ابھی پھیل نہیں سے لی گئ<br />

ہیں۔ مقصود حسنی کی شاعری اس صنف سخن کے ماضی<br />

اور حال سے رشتہ رکھتی ہے۔ ان کو اس صنف سخن کا<br />

نماءندہ شاعر ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ ان کے ہاں جملہ<br />

شعری لوازمات ملتے ہیں‘‏ جن کے سبب اس صنف سخن<br />

کو شاعری تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے۔<br />

1/29/2014<br />

مقصود حسنی کے چند شعری مرکبات


شاعری ہمیشہ سے نئ زبان دیتی آئ ہے۔ الفاظ کو نءے<br />

معنی دینے کے معاملہ میں ہمشہ پیش پیش رہی ہے۔ کوئ<br />

شخص عام حالت میں نئے مرکبات‘‏ ترکیبات اوراصطلحات<br />

گھڑنے پر قدرت نہیں رکھتا جبکہ شعر گو اپنے خیالت کو<br />

لفظوں کا لباس عطا کرتا ہے تو روانی میں کئ مرکبات<br />

ترکیبات اور بعض لفظوں کواصطلحی مفاہیم عطا کر دیتا<br />

ہے۔ نثری اصناف میں افسانہ کسی حد تک یہ چیزیں مہیا<br />

کرتا ہے۔ تاہم اس تخلیقی جوہر کو شاعری کے مقابل کھڑا<br />

نہیں کیا جا سکتا۔<br />

ان مرکبات کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ عموم اور<br />

مستعمل زبان سے قطعی ہٹ کر ہوتے ہیں۔ ان میں صوتی<br />

حسن اور شعریت موجود ہوتی ہے۔ یہی نہیں فطری آہنگ<br />

کی صورت بھی پائ جاتی ہے۔ یہ مرکبات خیال‘‏ فکر‘‏ سوچ<br />

جذبے اور احساس کو تجسیم دے رہے ہوتے ہیں۔ کسی<br />

ناکسی سطع پر ان میں تمثالی کیفیت ضرور موجود ہوتی<br />

ہے۔ یہ اپنے قاری کے احساس کو ارتعاش دینے کا سبب<br />

بنتے ہیں۔ اس کو نئ سمت سجھا رہے ہوتے ہیں۔ عمومی<br />

و خصوصی فکر پر غلط اور درست کی مہر بھی ثبت کر<br />

رہے ہوتے ہیں۔ ان کے حوالہ سے انسانی اور سماجی<br />

اصول و ضوابط کی بھی نشان دہی ہو رہی ہوتی ہے۔ یہ


-١<br />

-٢<br />

-٣<br />

مرکبات شخصی مزاج اور رویے کو بھی واضح کر رہے<br />

ہوتے ہیں۔<br />

یہ مرکبات شخص کا سماج اور زمین سے تعلق وضح کر<br />

رہے ہوتے ہیں یا پھر اس تعلق کی وضاحت کر رہے ہوتے<br />

ہیں جو انسان کی فکری معاشی معاشرتی علمی اور ادبی<br />

معاملت کی طرف اشارہ کر رہے ہوتے ہیں اور ان میں<br />

معاملت کے منفی یا مثبت ہونے کی صورتوں کو بھی<br />

اجاگر کر رہے ہوتے ہیں۔<br />

ان میں کسی حد تک زمینی سماجی نظریاتی اور قومی<br />

عصبیت کا عنصر بھی موجود ہوتا ہے۔ ان میں عموم و<br />

خصوص کے درمیان موجود قربتوں اور فاصلوں کی<br />

نشاندہی موجود ہوتی ہے۔ گویا تقابلی صورت سی موجود<br />

رہتی ہے۔ ان میں تین صورتیں بڑی اہمیت کی حامل ہوتی<br />

ہیں<br />

ذومعنویت<br />

فوق الفطرت صورت حال<br />

الہامی وجدانی اور انکشاف کی سی صورت حال<br />

ذومعنویت کے حوالہ سے لفظ کے نءے نءے معنی<br />

دریافت ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جس سے زبان کی اظہاری<br />

قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ فوق الفطرت ہونے کے حوالہ


کسی نءے اور انوکھے جہان میں ہونے کا احساس جنم<br />

لیتا ہے۔ گویا فوق الفطرت طور اختیار کرکے انسانی<br />

نفسیات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان کے مطالعہ سے ان کی<br />

ہءیت ترکیبی پر نازلہ ہونے کا گمان سا گزرنے لگتا ہے۔<br />

جیسا کہ مرزا غالب کہتے ہیں<br />

آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں<br />

غالب صریر خامہ‘‏ نوائے سروش ہے<br />

بعض مرکبات یا پھر ایک مصرع عرف عام میں آ کر<br />

محاورے کا درجہ اختیار کر لیتا ہے۔ گویا تکیہء کلم بن<br />

جاتا ہے۔ مٹل غالب کا یہ مصرع<br />

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک<br />

محاورہ نہیں مگر رواج پا کر محاورہ بن گیا ہے۔<br />

جدید اردو شاعری کی صف میں مقصود حسنی اپنے عہد<br />

کے نمائندہ شعر ہیں۔ انہیں زبان وبیان پر قدرت حاصل ہے۔<br />

ان کی شاعری محدود خطے کی شاعری نہیں ہے۔ یہی وجہ<br />

ہے کہ ان کی شاعری کا محور انسان ہے۔ اس کا دکھ سکھ<br />

وہ اپنے سینے میں محسوس کرتے ہیں۔ ان کی ذات کا درد<br />

درحقیت انسان کا دکھ سکھ ہے۔ شخص کا مسلہ ان کا اپنا<br />

مسلہ ہوتا ہے۔ ان کی شاعری میں ان کی عملی زندگی کے<br />

رنگ گہرے اور نمایاں ہیں۔ وہ ہر صورت میں انسان کو


آسوودہ خوش حل اور متحرک دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں<br />

کہیں اور کسی سطع پر انسانی مسلے سے الگ نہیں کیا جا<br />

سکتا۔ ہر انسان ان کی ذات کا جزو محسوس ہوتا ہے۔<br />

وہ زیادہ تر کائنات اور عالمی سماج سے ذات کی طرف<br />

پھرتے نظر آتے ہیں۔ جب ذات سے کاءنات یا عالمی سماج<br />

کا رخ کرتے ہیں تو بھی انسانوں کا ایک گروہ ان کے ساتھ<br />

ہوتا ہے۔ ہاں البتہ یہ عنصر زیادہ نمایاں ہے کہ کمزور<br />

معذور اور پسے ہوءے لوگ ہی ان کے پہلو میں چل رہے<br />

ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں ترکیب پانے والے مرکبات کا مطالعہ<br />

اسی تناظر میں کیا جا سکتا ہے۔ ان مرکبات میں ظالم اور<br />

ظلم کے خلف انگارے برستے نظر آتے ہیں۔ مہذب انداز<br />

میں برا بھل کہنے سے بھی اجتناب نہیں برتتے۔ ان کا یہ<br />

جارحانہ انداز کمزور طبقے میں حرکت کا سبب بنتا ہے۔<br />

ان کے مرکبات کئ قسم کے ہیں۔ دو لفظوں سے ترکیب<br />

پانے والے مرکبات کا پہل لفظ صفتی ہوتا ہے۔ اسی طرح<br />

بہت سے مرکبات حروف رابطہ سے بنتے ہیں۔ تشبہی<br />

مرکبات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ مصادر سے بننے والے<br />

مرکبات پر مستعمل محاورے کا گمان ہونے لگتا ہے۔ ان<br />

کے مرکبات تہہ داری کے ساتھ ساتھ طرح داری اور وضع


داری بھی لیے ہوتے ہیں۔ ان کے مرکبات سماج اور کاءنات<br />

کا کوئ ناکوئ مسلہ معاملہ واقعہ یا پھر حادثہ ضرور لیے<br />

ہوتا ہے۔ ان میں کسی روایت رویے مزاجی کیفیت کی نشان<br />

دہی کی گئ ہوتی ہے۔ المختصر بیدار حواس ان کے مرکبات<br />

میں عصری حیات کی بےترتیب دھڑکنیں محسوس کر<br />

سکتے ہیں۔ مقصود حسنی کے کلم سے کچھ منتخبہ<br />

مرکبات پیش خدمت ہیں۔<br />

آنکھ دروازہ‘‏ آنکھ سمندر‘‏ اجڑے خواب‘‏ ارض بیمار‘‏ امن<br />

سلیقہ‘‏ برف آنکھیں‘‏ بش گزیدہ‘‏ بیوہ حسرتیں‘‏ بےنور<br />

دریچے‘‏ پامال ارمان‘‏ پیاس کنارے‘‏ پریم ساگر‘‏ خنجر<br />

دیواریں‘‏ دشت تنہائ‘‏ زخم زخم گونگا‘‏ سیاہ دھرتی‘‏<br />

سسکتی زمین‘‏ سوچ دریچے‘‏ سبد انتظار‘‏ شہر عشق‘‏<br />

شراب آنکھیں‘‏ شہر بے بصر‘‏ شعور ہستی‘‏ صبح بےنور‘‏<br />

عیار تبسم‘‏ فاقہ زدہ مردہ‘‏ قطرہءندامت‘‏ قفل ساکت‘‏ قاتل<br />

ہیروشیما‘‏ کالے موسم‘‏ کانچ جسم‘‏ کالے کلمے‘‏ کانچ<br />

سڑک‘‏ کالی ریتا‘‏ کانچ دریچے‘‏ کرخت اندھیرے‘‏ کنول<br />

چہرہ‘‏ گلب قاشیں‘‏ گداز پلکیں‘‏ ماتمی سدور‘‏ ممتا جذبے‘‏<br />

ناموس فطرت‘‏ نقلی چہرے<br />

آس کا دیپ‘آنکھ کا ساحل‘‏ آس کا رستہ‘‏ انا کا قتل‘‏ اشکوں<br />

کا شرینتر‘‏ بربک کا سنکھ‘‏ بشارت کا در‘‏ بہاروں کا بسیرا‘‏<br />

بھوک کا تاج محل‘‏ بھوک کا کوبرا‘‏ بےصبری کا تنور‘‏


بھوک کا چارہ‘‏ تاروں کا جنگل‘‏ تپسیا کا اترن‘‏ تسکین کا<br />

بین‘‏ تیرگی کا در‘‏ تذبذب کا بھوکم‘‏ جیون کا پچھل پہر‘‏ جسم<br />

کا پنچھی‘‏ جبر کا فرات‘‏ چپ کا دامن‘‏ خوف کا پہرہ‘‏ خوشبو<br />

کا پیکر‘‏ خوف کا موتیا‘‏ خوشبو کا کنول‘‏ خوشبو کا سفر‘‏<br />

دل کا بربط‘‏ دن کا مکھڑا‘‏ دماغ کا بخار‘‏ روٹی کا بندی‘‏<br />

رتجگوں کا لشہ‘‏ روشنی کا جناز‘‏ سچ کا سورج‘‏ سوچ کا<br />

آنگن‘‏ شعور کا دریچہ‘‏ شہوت کا سمندر‘‏ ظلمتوں کا سفر‘‏<br />

عشق کا سیکا‘‏ غربت کا کینسر‘‏ غیرت کا فکر کا لہو‘‏ کلیوں<br />

کا قتل‘‏ گنگا کا آنچل‘‏ لالہ کا وٹمن‘‏ لفظوں کا<br />

کروفر‘مسکانوں کا ثمر محبت کا صحیفہ‘‏ موت کا شعلہ‘‏<br />

وڈیائ کا سرطان‘‏ ہیرے کا جگر<br />

آس کی کشتی‘‏ آشا کی کہکشاں‘‏ آنکھوں کی برکھا‘‏ آنکھوں<br />

کی مستی‘‏ آشا کی جوت‘‏ افلس کی جھونپڑی‘‏ احساس کی<br />

آنکھ‘‏ انا کی تاریکی‘‏ افلس کی چڑیا‘‏ افلس کی دھوپ‘‏<br />

برتن کی زبان پچھلے پہر کی رعناءیوں پلکوں کی اوٹ‘‏<br />

تعصب کی آنسو گیس‘‏ جبر کی بجلیاں‘‏ حرص کی رم جم‘‏<br />

خوف کی فصل‘‏ خوشبو کی تمازت‘‏ خوشبو کی بجلیاں‘‏<br />

خلوص کی طشتری‘‏ روح کی زلفیں‘‏ روح کی اڑانیں‘‏ روح<br />

کی قوس قزاح‘‏ زلفوں کی شام‘‏ زیست کی حرارت‘‏ زیست<br />

کی پگڈنڈی‘‏ سپنوں کی مسکان‘‏ سکنے کی منزل‘‏ سہاگ کی<br />

چوڑیاں شکم کی دہلیز‘‏ ضمیر کی چیتا‘‏ ضبط کی پٹڑی‘‏ ظلم<br />

کی بھاشا‘‏ غرض کی برکی‘‏ غرض کی چتا‘‏ فیصلے کی


صلیب‘‏ گجروں کی گریہ زاری‘‏ گلبوں کی راہ‘‏ لفظوں کی<br />

حرمت‘‏ مروتوں کی منزل‘‏ مصلحت کی صلیب‘‏ من کی<br />

ریکھاءیں‘‏ مطلب کی آنکھیں‘‏ موت کی دہلیز‘‏ موڈ کی<br />

تکڑی‘‏ من کی قندیل‘‏ مسکانوں کی بارش‘‏ مساءل کی<br />

روڑی‘‏ ‘ ندامت کی دہلیز‘‏ نفرت کی تابکاری‘‏ وقت کی دہلیز‘‏<br />

وقت کی نبضیں‘‏ ہونٹوں کی سرخی<br />

آنکھ کے جگنو‘‏ ارمانوں کے موسم‘‏ اندر کے موسم‘‏ پکون<br />

کے گیت‘‏ پلکوں کے ستارے‘‏ تیاگ کے قدم‘‏ ڈر کے شعلے‘‏<br />

رات کے اس کنارے‘‏ جہیز کے صفحات‘‏ حرکت کے در‘‏<br />

خلیج کے بیمار‘‏ سانسوں کے رباب و چنگ‘‏ شبدوں کے<br />

جال‘‏ گذشتہ کے گلب و کنول‘‏ نفرت کے ایوان‘‏ نفرت کے<br />

صندوق‘‏ یادوں کے دیپ<br />

آگ میں ڈوبی سانسیں‘‏ چونچ میں نسل کی بقا‘‏ دھڑکن میں<br />

بسنا‘‏ زلفوں میں بارود‘‏ پلکوں پر شام‘‏ کاغذ پر جگر‘‏ شوخ<br />

صبح سا‘‏ لب گنگا کے<br />

آنکھوں میں مہتاب لکھنا‘‏ انکھوں میں عرش سجنا‘‏ آکاش<br />

سے دھند اترنا‘‏ افق میں لہو اترنا‘‏ بشارت کا در وا ہونا‘‏<br />

پلکوں پر خلوص سجانا‘‏ پتھر کا جسم بولنا‘‏ تیرگی بیچنا‘‏<br />

چہرے ٹٹولنا‘‏ خوشبو بانٹنا‘‏ خواب لکھنا‘‏ دیوار پر آنکھیں<br />

رکھنا‘‏ روشنی بیچنا‘‏ ساگر پینا‘‏ سوچ میں بسنا‘‏ سیماب<br />

پہننا‘‏ سینے میں سورج بھرنا‘‏ مسکانوں میں رہنا‘‏ عمر کا


تارا ٹوٹنا‘‏ قدم بیچنا‘‏ لہو‘‏ لہو ہونا‘‏ ہوا پر آنسو لکھنا<br />

مقصود حسنی کے کلم میں مشرقی تلمیحات کا استعمال<br />

برصغیر میں عربوں کی آمد کا سلسلہ صدیوں پرانا ہے۔ وہ<br />

یہاں تجارت کی غرض سے آتے رہتے تھے۔ اہل یونان کے<br />

لیے بھی یہ علقہ دلچسپی کا باعث رہا ہے۔ اہل ایران کے<br />

بھی اس خطہءارض سے رشتے بڑے مضبوط رہے ہیں۔<br />

ملتان سے گجرات اور وہاں سے گلبرگہ گولکنڈا بیجاپور<br />

وغیرہ سے ان کے روابط کافی دیرینہ ہیں۔ برصغیر کے<br />

لوگ بھی ایران جاتے تھے۔ جنوبی ہند میں خونی رشتوں کا<br />

سراغ ملتا ہے۔ جنگ سلسل میں ان کی شمولیت بتائ جاتی<br />

ہے۔<br />

برصغیر سے بدھ مذہب کے پرچارک برصغیر سے باہر<br />

گیے۔ برصغیر کا ان علقوں کے علوہ جاپان افغانستان<br />

انڈونیشیا مللیشیا وغیرہ سے بھی واسطہ رہا ہے۔<br />

برصغیر میں تبلیغ اسلم کے لیے عرب یہاں تشریف لئے۔<br />

صحابہ تابعین اور تبع تابعین یہاں تشریف لءے۔ بہت سے


یہاں کے ہو کر رہ گیے۔ ‎٤٤‎ہجری سے پہلے اور ٤٤ ہجری<br />

میں فوج کشی بھی ہوئ۔ تاہم ٧١٢ میں محمد بن قاسم<br />

بطور فاتح وارد ہوا اور اس کے بعد مسلم جرنیلوں کی آمد<br />

کا سلسلہ شروع ہو گیا اور یہ سلسلہ مغلیہ سلنطنت کے<br />

زوال تک جاری رہا۔ برصغیر پر ترکی خلفت کے حوالہ<br />

اثرافرینی رہی۔ یہاں مسلم حکومت کی حکومت کی برقراری<br />

کے لیے خلفت کی جانب سے سند بھی اقتداری لزمہ رہی<br />

ہے۔<br />

برصغیر سے ان دور نزدیک کے ممالک اور ریاستوں سے<br />

تعلق کے نتیجہ میں سماجی معاشی عسکری اور سیاسی<br />

روایات اور رویے درآمد ہوءے۔ ان زبان کے الفاظ<br />

اصطلحات اسما کہاوتیں ضرب المثال محاورے اور<br />

تلمیحات وغیرہ بھی وافر درآمد ہوئیں۔ ان کا ناصرف<br />

روزمرہ کی بول چال میں رواج ہوا بلکہ تحریروں میں بھی<br />

مستعمل ہو گیں۔ گویا ہر بدیسی سوغات مقامی زبانوں کا<br />

لسانی ذخیرہ ٹھہری۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ناصرف<br />

مفاہیم میں تبدیلی آئ بلکہ اجنبیت بھی ختم ہو گئ۔ آج<br />

جلوس حور اسامی احوال راشی تماشا سیر اردو والوں کے<br />

لیے غیر نہیں رہے۔ جمشید اور محمود کو ہر کوئ جانتا<br />

ہے۔ نماز روزہ اور حج کے مفہوم سے غیر مسلم بھی آگاہ<br />

ہیں۔ منصف اور محتسب سے کون آگاہ نہیں۔ دعا سلم کے<br />

مسلم کلمے ہر کوئ جانتا ہے۔


دوسرے ممالک کے ساتھ پیدا ہونے والے تعلقات سے جو<br />

رسم و رواج معاشرتی معمولت کے تحت جو مواد میسر آیا<br />

اس سے زبانوں کو ثروت میسر آئ اور یہ سب یہاں کی<br />

زبانوں کا مستقل اثاثہ ٹھہرا۔ بہت ساری درآمدہ اصطلحات<br />

وغیرہ کا استعمال تلمیحی روپ اختیار کر گیا ہے۔<br />

عصری شعرا میں مقصود حسنی کے ہاں مغربی اسلمی<br />

ہندی کے علوہ بہت ساری دوسری مشرقی تلمیحات پڑھنے<br />

کو ملتی ہیں اور یہ دو چار نہیں سیکڑوں کی تعداد میں<br />

ہیں۔ اس معاملہ میں غالبا عصری شعرا میں نمایاں حیثیت<br />

کے حامل ہیں۔ ان تلمیحات میں اچھا خاصا تنوع ملتا ہے۔<br />

ان تلمیحات کے تناظر میں وہ نئے نئے مضامین دریافت<br />

کرتے ہیں۔ اس تنوع اور پیغامی شاعری کے تحت شاید آتا<br />

کل انہیں اس عہد کے بڑے شعرا کی صف میں کھڑا کرے<br />

گا۔ خیر یہ معاملہ آتا کل واضح کرے گا۔ سردست ان کی<br />

تلمیحات کی فہرست فراہم کرنا مقصود ہے۔ زیر نظر سطور<br />

میں ان مشرقی تلمیحات‘‏ مثالوں کے ساتھ درج کر رہا ہوں<br />

تا کہ قاری ان کے ہاں موجود مضامین کے نئے نئے انداز<br />

و اطوار سے آگاہی حاصل کر سکے


کل<br />

ارضی خداؤں کا منکر<br />

خوف باری سے لبریز<br />

پیام نبی کا نقیب تھا<br />

آج کو<br />

عظیم کر دو<br />

کہ آج‘‏ کل سے<br />

کم نہیں<br />

آج کو عظیم کر دو<br />

جمشید خبر کے لیے<br />

پیالے میں دیکھتا تھا<br />

ٹوٹ جاتا تو وہ بےبصر ہوتا<br />

حاجت نے ڈبو دیا اس کو<br />

ورنہ خبر تو<br />

مرد حق کی نظر میں ہوتی ہے<br />

نظر


قبر کا در وا ہوا<br />

بول<br />

قیامت ہو گئ ہے؟<br />

باہر کرخت اندھیرے تھے<br />

اجالوں میں<br />

سرخی ڈوب گئ تھی<br />

نہیں<br />

مجھے یہیں رہنے دو<br />

رہنے دو<br />

عریاں سماج<br />

راہ تکتے ہیں<br />

اک اور خمینی کی<br />

انتظار<br />

کوہ نور کا ہیرا لے گیے تھے وہ


کعبہ بھی لے جاءیں کے اب<br />

رک نہ جاءیں کہیں<br />

شراب وشباب کے<br />

خوشگوار سلسلے<br />

سلسلے<br />

عرش پر فرشتے<br />

آدم کے حضور<br />

سجدہ ریز رہے<br />

زمین پر آدم<br />

غیر معتبر ٹھہرا<br />

غیر معتبر<br />

ٹھہری ٹھہری نظروں سے<br />

سرخ لہو<br />

تم دیکھ رہے ہو<br />

میں دیکھ رہا ہوں


گوتم سے کوئ کہہ دے<br />

سنکھ بجاءے<br />

مسیحا زندہ کر دے<br />

پتھروں کو<br />

حجر اسود سے بال ہیں<br />

دھڑکنوں سے معمور ہوں<br />

اگر یہ پتھر<br />

پتھر ‏:نظم<br />

ان کو<br />

بوتل کا دودھ پلیا ہو گا<br />

ان کی رگوں میں ترا دودھ نہیں<br />

دودھ‘‏ فقط تیرا دودھ ہوتا تو<br />

یہ خلفت ارضی کے وارث ہوتے<br />

آخری مانگ ‏:نظم<br />

دیکھتا اندھا سنتا بہرا


سکنے کی منزل سے دور کھڑا<br />

ظلم دیکھتا ہے<br />

آہیں سنتا ہے<br />

بولتا نہیں کہتا نہیں<br />

جہنم ضرور جائے گا<br />

ایندھن<br />

دن کے اجالے<br />

خاموش اداس<br />

ہمالہ مٹی کا ڈھیر<br />

حرکت سے عاری<br />

تو‘‏ مٹی کا ڈھیر<br />

حرکت سے عاری<br />

نظم:‏ عاری<br />

آوازوں کی اس بھیڑ میں<br />

سر جھٹک کر بول


تیز ہوا کا جھونکا ہو گا‘‏ جو<br />

خلیل جبران کے مجموعوں کےورق<br />

الٹ رہا ہے<br />

نظم:جھونکا<br />

شعلہ سا لپکا<br />

طور‘‏ طور نہ رہا<br />

راکھ کا ڈھیر ہوا<br />

کیا عروج ہے<br />

پی کے ہستی<br />

مدینے کا وہ کمبل پوش<br />

بہلے چپ رہا تھر مسکرا دیا<br />

نظم:‏ کمبل پوش<br />

سنا ہے<br />

یوسف کی قیمت<br />

سوت کی اک انٹی لگی تھی


کہ وہ مجبور تھا<br />

دور حاضر کا مرد آزاد<br />

دھویں کے عوض<br />

ضمیر بیچ رہا ہے<br />

نظم:‏ سنا ہے<br />

میز پر پڑا لل آمیزہ<br />

زندگی سے خالی تھا<br />

دامن میں پھر بھی اس کے<br />

مسیحائ کا بھرم تھا<br />

نظم:‏ بھرم<br />

اس نے کہا<br />

میں آپ کا بھائ ہوں<br />

رفعت کیوں لٹ گئ؟<br />

نظم:‏ وعدہ


ڈوبتی سانسوں کو<br />

مسیحا کی ضرورت نہیں<br />

گوشت گدھ کھائیں گے<br />

ہڈیاں فاسفورس کی کانیں ہیں<br />

نظم:‏ سورج دوخی ہو گیا تھا<br />

وہ آگ<br />

عزازئیل کی جو سرشت میں تھی<br />

اس آگ کو نمرود نے ہوا دی<br />

اس آگ کا ایندھن<br />

قارون نے پھر خرید کیا<br />

اس آگ کو فرعون پی گیا<br />

اس آگ کو حر نے اگل دیا<br />

یزید مگر نگل گیا<br />

اس آگ کو<br />

میر جعفر نے سجدہ کیا<br />

میر قاسم نے مشعل ہوس روشن کی


اس آگ کے شعلے<br />

پھر بلند ہیں<br />

مخلوق ارضی<br />

ڈر سے سہم گئ ہے<br />

ابر باراں کی راہ دیکھ رہی ہے<br />

کوئ بادل کا ٹکڑا نہیں<br />

صبح ہی سے تو<br />

آسمان نکھر گیا ہے<br />

نظم:‏ صبح ہی سے<br />

1980<br />

مخلوط نسل<br />

میت پر ماتم نہیں کرے گی<br />

گرجوں میں قرآن سجائے گی<br />

مسجدیں<br />

اصطبل ہوں گے


گھوڑوں کے<br />

نظم:‏ قربت<br />

‏!جانتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟<br />

رند ہوں بدر کا<br />

جا مے میں<br />

حیدر کی جرآت<br />

بوزر کا فقر مل کے ل<br />

ٹیپو کی غیرت<br />

اقبال کی خودی مل کے ل<br />

ل ساقیا ل<br />

ایسی مے بنا کے ل<br />

نظم:‏ بدر کا رند<br />

کئ بار گری<br />

آخر چڑھ ہی گئ<br />

چونٹی مگر وہ اس دور کی تھی


نظم:المیہ<br />

مجھے اس کی فکر نہیں<br />

کوئ ماں فرعون جنم دے گی<br />

ہاں نیل کا سکوت دیکھ کر<br />

ڈر جاتا ہوں<br />

اب وہ آ کر جائے گا نہیں<br />

بنی اسرائیل کے بچوں کا قتل<br />

کوئ موسی روکنے نہیں آئے گا کہ<br />

نبوت کے سب در بند ہیں<br />

نظم:در بن<br />

ماں‘‏ ماں ہوتی ہے<br />

اس کی آنکھوں میں<br />

دو عالم کے سکھ<br />

اس کا سایہ<br />

بھگوان کی کرپا


رحمان کی دیا<br />

ماں‘‏ ماں ہوتی ہے<br />

ذلیخا کا عشق سچا سہی<br />

وہ برہنہ پا کب چلی تھی<br />

وقت کیسا انقلب لیا ہے<br />

کہنے لگا:‏ میں خدا ہوں<br />

فرش کا وارث<br />

عرش کا وارث<br />

بڑھ کر میرے قدم لو<br />

.............<br />

لوگوں کی آنکھوں میں بے بسی<br />

ہونٹوں سے لپٹی بے کسی تھی<br />

ہاتھ اٹھے ہوے تھے<br />

کوئ موسی آئے<br />

ساتھ اپنے عصا لئے<br />

نہ اب کربل کا کوئ سامان ہو


کہ تدبیر کی<br />

اس کے پاس کب کمی ہے<br />

رحمت خدا کی<br />

پتھر کو موم کر دے<br />

کہ وہ رحمان و رحیم ہے<br />

یا ظلم مٹے<br />

اس کے قہر و غضب سے<br />

کہ وہ قہار و جبار ہے<br />

خوشبو کی تمازت سے<br />

زیست کے ہونٹوں پہ<br />

پیاس رکھ دی<br />

جیون کا نم<br />

خون جکر پی کر<br />

ہستی کی ناتمام آرزوں پر<br />

مسکرایا<br />

آدم سٹپٹایا


حیات کا سفر<br />

موت کی دہلیز تلک لے آیا<br />

ان دیکھے کھیل<br />

بھوک پیاس اور غلمی<br />

آسمان سے کب اترے ہیں<br />

فرعون کا یہ تحفہ<br />

نحیف کندھوں سے<br />

نحیف کندھوں تک<br />

موت کی علمت بن کر<br />

زیست کو<br />

ورثہ میں مل ہے<br />

جام سقراط کو<br />

جی بسم ا کہہ کر<br />

ہونٹوں سے لگا لو<br />

یا پھر


ہونٹ سی کر<br />

لوسی فر کے چرنوں میں<br />

اپنے کندھے رکھ دو<br />

کہ زیست شانت رہے<br />

ورثہ<br />

میر جعفر نے<br />

مگر لوٹ لیا ہے<br />

کس سے فریاد کریں<br />

جس ہاتھ میں<br />

گلب وسنبل<br />

اس کی بغل میں خنجر<br />

کمزور کی جیون ریکھا کا<br />

رام بھلی کرے گا<br />

آنکھ میں پانی<br />

آب کوثر


.........<br />

گنگا جل ہو کہ<br />

زم زم کے مست پیالے<br />

دھو ڈالیں کالک کے دھبے<br />

بے انت سمندر<br />

مرے بولوں کی تڑپت<br />

مرے گیتوں کی پیڑا<br />

مرزے کی کوئ ہیک نہیں<br />

مرے اشکوں کا شرینتر تھا<br />

اس سے پہلے<br />

آنکھوں میں دھواں بھر لو<br />

چاند کا چہرا<br />

راون کی شکتی لے کر<br />

عیسی کے خون سے<br />

اوباما ہی رب لکھ رہا ہے


فرات کا دامن<br />

آس کے پنچھی<br />

پون کی کامنا لے کر<br />

صاحب ولیت کے در پر<br />

کھڑے ہیں<br />

غربی ہبل<br />

اساس کے موسم سی کر<br />

کھنڈر ہونٹوں پر<br />

سچ کی موت کا قصہ<br />

حسین کے جیون کی گیتا<br />

وفا کے اشکوں سے<br />

لکھ کر<br />

برس ہوئے<br />

مکت ہوا<br />

ممتا


اس کی گردن کا سریا<br />

کس ٹیپو نے توڑا ہے<br />

............<br />

سننے میں آیا ہے<br />

ہم آگے بڑھ گئے ہیں<br />

ترقی کر گئے ہیں<br />

موسی اور عیسی<br />

گرجے اور ہیکل سے<br />

مکت ہوئے ہیں?‏<br />

................<br />

سننے میں آیا ہے<br />

ہم آگے بڑھ گئے ہیں<br />

ترقی کر گئے ہیں<br />

گوئٹے اور بالی<br />

ٹیگور تے جامی<br />

سیوفنگ اور شیلی


‏?سب کے ٹھہرے ہیں<br />

................<br />

منصف<br />

‏?ایمان قرآن کی کہتتا ہے<br />

سننے میں آیا ہے<br />

الفت میں کچھ دے کر<br />

پانے کی اچھا<br />

حاتم سے ہے چھل<br />

...............<br />

مہر محبت سے بھرپور<br />

نیم کا پانی<br />

نہ کڑا نہ کھارا<br />

وہ تو ہے<br />

آب زم زم<br />

اس میں رام کا بل<br />

چل'‏ محمد کے در پر چل


قانون کے رکھوالے<br />

چوراہے پر<br />

ٹکٹکی لے کر بیٹھے ہیں<br />

صلیب پر لٹکا دو<br />

مفتی کا فتوی ہے<br />

در وا کر دو<br />

قیس کی بولی تو سب بولیں<br />

ستے کے سب رستے<br />

جعفر کے گھر کو جاتے ہیں<br />

منصور نے جیتے جی<br />

سچ کو<br />

کب بکتے دیکھا تھا<br />

میں تم سے کہتا ہوں<br />

جس مٹی سے<br />

خمیر اٹھا تھا<br />

اس مٹی کا رشتہ


برس ہوئے<br />

ہونٹوں پر<br />

چپ کی مہر ثبت کیے<br />

بوزر کی شکتی<br />

ڈھونڈ رہا تھا<br />

برس ہوءے<br />

کرائے کے قاتل<br />

کیا بھکشا دیں گے؟<br />

کرن ہماری کھا جا ہے<br />

ہم موسی کے کب پیرو ہیں<br />

جو آسمان سے من و سلوی اترے گا<br />

بارود کے موسم<br />

قسمت اچھی ہوتی تو<br />

راکھشش جیون پراس<br />

قرآن راج نہ ہوتاL؟


قرآن راج<br />

ترے در پر<br />

مرنے کا مزا چھوڑ کر<br />

خلد کی تمنا<br />

جس روسیاہ کوہو گی<br />

ابلیس کا ہمسایہ رہا ہو گا<br />

ابلیس کا ہمسایہ<br />

زیست کے واسطے سارے<br />

سورگ کے دیو<br />

عرش کے فرشتے سارے<br />

مسجد ومحراب<br />

کلیسا و مندر سارے<br />

دیر وحرم<br />

اہل صوف کے<br />

میکدے سارے


کہکشاؤں کے سلسلے<br />

نمو کی شبنم طرازیاں<br />

بہاروں کی زمزمہ پردازیاں<br />

حضور کے عشق کی<br />

مسکانوں کا ثمر ہیں<br />

ثمر<br />

رام اور عیسی کے بول<br />

ناچوں کی پھرتی<br />

بے لباسی میں رل کر<br />

بے گھر بےدر ہوئے ہیں<br />

دفتری ملں کےمنہ میں<br />

..................<br />

طاقت کی بیلی میں<br />

کربل کربل کرتے یہ کیڑے<br />

ہانیمن اور اجمل کا منہ چڑاتے ہیں<br />

سورج ڈوب رہا ہے


دریا کا پانی<br />

بھیگی بلی<br />

حر بربک کے سنکھ میں رہتے ہیں<br />

جینے کو تو سب جیتے ہیں<br />

اس سے کہہ دو<br />

ان کی پلکوں کے قطرے<br />

صدیوں بے توقیر رہے<br />

پھر بھی ہونٹوں پر<br />

جبر کی بھا میں جلتے<br />

سہمے سہمے سے بول<br />

مسیحا بن سکتے ہیں<br />

اس سے کہہ دو<br />

انارکلی کے<br />

دیواروں میں چننے کا موسم


جب بھی آتا ہے<br />

آس کے موسم مر جاتے ہیں<br />

ہر جاتے ہیں<br />

شاہ کی لٹھی<br />

پلکوں کی شام<br />

ہر شام پر بھاری ہے<br />

ڈرتا ہے اس سے<br />

حشر کا منظر<br />

پلکوں کی شام<br />

کنگلے عاشق کے آنسو<br />

مطلب کی آنکھیں کیوں دیکھیں<br />

میں تو<br />

پھولوں کے موسم کی لیلی ہوں<br />

آنکھوں دیکھے موسم


تیری آنکھوں کے مست پیمانے سے<br />

کچھ سی بچا کر<br />

آب زم زم میں مل کر<br />

امرتا کے ایوانوں میں<br />

خود کو<br />

پھر تم کو کھوجوں گا<br />

تم مرے کوئ نہیں ہو<br />

اسمبلی کے اکھاڑے میں<br />

رقص ابلیس ہوتا ہے<br />

گریب گلیوں میں<br />

مقدر سوتا ہے<br />

بھوک جاگتی ہے<br />

فقیروں کی بستی میں<br />

بینائ کا منبع<br />

آنکھیں کھو بیٹھا


ہر آشا زخمی زخمی<br />

ہر نغمہ عزراءیلی اسرافیلی<br />

خون مں بھیگا<br />

گنگاکا آنچل<br />

پلکوں پر شام<br />

شناخت اداس اداس<br />

کنارے اس سمندر کے<br />

پرسکون سہی<br />

تہہ مینسامری کا ببچھڑا<br />

اور صلیب عیسی<br />

آنکھ سمندر<br />

پریت بت کی شناسئ مانگے<br />

عشق کربل سی آبلہ پائ مانگے<br />

...............<br />

وہ پیکر فردوس


آنکھ کے سب ترکش<br />

جو ساتھ لیا تھا<br />

کب چل پایا تھا<br />

بے نوا دستک<br />

تو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

آب زم زم میں دھل کر<br />

حوض کوثر میں کھل گلب<br />

ا کی عنایت<br />

محمد کی نظر عطا<br />

حوض کوثر میں کھل گلب<br />

ترے سینے میں<br />

مری پیاس کےدیپ جلیں<br />

ماں کے دل کی دھک دھک<br />

خلد کے گیت سنائے<br />

شہد سمندر


چپ<br />

مت بولو<br />

چپ کا روزہ رکھ لو<br />

ہم حسین نہیں جو بولیں<br />

یزید اترا ہے<br />

فاختہ کا اترن لے کر<br />

مت بولو<br />

میں کب کافر رہا ہوں<br />

کہ محبت کی عظمتوں سے انکار کرتا<br />

خدا سے محبت ملی تو<br />

فرشتوں نے سجدہ کیا<br />

زمین کا وارث ہوا<br />

کتابیں آسمان سے اتریں<br />

پھلوں پر استحقاق ٹھہرا<br />

سب پھول میرے ہوئے


آزاد پنچھی<br />

رات اک شخص<br />

ٹیپو کی قبر کی دھول میں<br />

غیرت ایمانی تلش رہا تھا<br />

ہائیکو<br />

اندھیروں سے کہہ دو<br />

جلتے دیے جھونپڑوں کے<br />

بننے والے ہیں خمینی<br />

ہائیکو<br />

آؤ ایک صف میں سب<br />

سجدہ کریں کہ شاید<br />

‏‘مہربان ہو جائے<br />

مہربان ہونا اس کی عادت ہے<br />

ہائیکو<br />

تقلید حسین میں


زندگی آج پھر<br />

جبر سے برسر پیکار ہے<br />

ہائیکو<br />

انسان قطرے میں سمندر<br />

خدا کا ادنی کمال ہے<br />

تم اپنا ہنر کہو کوئ<br />

ہائیکو<br />

جبر کا فرات<br />

جوش میں ہے آج<br />

آؤ عمر کا خط تلش کریں<br />

ہائیکو<br />

کاٹ شمشر کی فتح کی ضامن نہیں<br />

کار جہاد میں مذاکرات‘‏ حیلے بیکار<br />

قوت بازو شیر میسور پیدا کر<br />

ہائیکو


قطرہءندامت تریاق عصیاں<br />

شعلہءنخوت‘‏ عذاب حشر<br />

دونوں ہم سفر ہوئے ہیں میرے<br />

ہائیکو<br />

فرات تو اک نقاب تھا ورنہ<br />

ہر اجلے چہرے میں<br />

فرعون کا چہرا ہو گا<br />

ہائیکو<br />

انسان کی ساری شکتی<br />

اب بھوک کا<br />

تاج محل تعمیر کرے گی<br />

ہائیکو<br />

ابن آدم اپنے کمال میں<br />

خدا کی طرح


ل زوال ہے<br />

ہائیکو<br />

مر کر جینے والے<br />

کیسے ہوں گے<br />

آؤ جاپان جا کر دیکھیں<br />

ہائیکو<br />

جبریل کا اب یہا ں کام نہیں<br />

زمین کا بڑا کہتا ہے<br />

لنکن کی کتاب کافی ہے انسان کے لیے<br />

ہائیکو<br />

میں فرہاد نہیں‘‏ خود کشی کر لوں گا<br />

محبت اور حساب<br />

دو مضمون رہے ہیں‘‏ مری نظر میں<br />

ہائیکو


جب سے بش کو امام کیا ہے<br />

گھر گھر سے<br />

روشنی کا جنازہ اٹھنے لگا ہے<br />

ہائیکو<br />

سورج کو روک لو‘‏<br />

١٩٩٧<br />

دیوتاؤں سے وہ کچھ کم نہ تھا<br />

دجال کی یہ خصلت اگر اس میں نہ ہوتی<br />

اسی آنکھ سے دیکھتا رہا میرے رقیب کو<br />

...............<br />

انتخابی پوسٹر دیکھ کر یوں لگا<br />

شہر میں کئ پیغمبر اتر آئے ہیں<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

حجرے میں بیٹھ کر رہ عشق میں<br />

مرنے کی بات تو کرتا ہے وعظ<br />

بڑا مشکل ہے تلوار پر آنا<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سجدہ میں جو گر گیے‘‏ کون جانتا ہے ان کو<br />

میں بھی سجدہ میں گر جاتا اگر<br />

تری کاوشوں میں منفرد ہوتا کیسے؟<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

دل توڑتے نہیں مرے شہر کے فتوی گر<br />

رقیب تو کافر تھا ہی<br />

مسلمان بھی تو مسلمان نہ رہا<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

چل اٹھ‘‏ یہاں کیا رکھا ہے<br />

وعدہءفردا نہیں ہوتا<br />

جن تلوں میں‘‏ تیل ہوتا ہے<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

کس امید پر سچائ پیش کروں<br />

بھوک بڑھ گئ ہو تو<br />

بھیڑ کا بچہ‘‏ سچا نہیں ہوتا<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


جس کارواں کا ہو وہ امیر<br />

وہاں لٹیرے لینے آئیں گے کیا<br />

فرشتہءاجل کو بھی‘‏ سکوں مل سکے گا<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

ہر آنکھ میں نہ بس<br />

کسی ایک کا ہو جا<br />

طواءف ترس جاتی ہے‘‏ گھر کے لیے<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

اس کی محبت میں سب کچھ ہار دیا<br />

وہ تو باشندہ تھا چاند ستاروں کا<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

یقین دولت سہی‘‏ میں نہیں مانتا<br />

عیسی کے حواری‘‏ کب دار تک آئے<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

حسن کسے متاثر نہیں کرتا<br />

پھر بھی احتیاط اچھی ہے


گلب میں چھپا ہوتا ہے سانپ اکثر<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

میں نے زنجیر عدل ہلئ تو<br />

الحاد کا طعنہ ہر زبان پر تھا<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

اندر سے خالی ہوتا ہے وہ مکان<br />

جو باہر سے تاج محل دکھائ دے<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

بھیگنے سے کیوں ڈرتے ہو؟<br />

برستا نہیں وہ بادل<br />

جو ہر پل گرجتا دکھائ دے<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

جانا مجھے ہو‘‏ رستہ حضرت خضر بتاءیں<br />

اس سے بڑھ کر‘‏ توہین منزل کیا ہو گی؟<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

خدمت کہو


صیاد کی مہربانی<br />

مطلب سے خالی نہیں ہوتی<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

ان برف آنکھوں میں<br />

سورج نہ اتارو<br />

زمین‘‏ طوفان نوح کی متحمل نہیں<br />

............<br />

اپنے عشق پر تمہیں ناز سہی<br />

مگر اس سے دور رہو<br />

تم مقصود ہو‘‏ براہیم نہیں<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

عمر بھر طواف کیا ترے مے خانے کا<br />

اب لے رہا ہوں اپنے عشق کا امتحان<br />

اب مے خانہ کرے طواف‘‏ مرے آگے<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

ہبل کو تم خدا سمجھو تو سمجھو<br />

شرک اب مجھ سے نہیں ہو گا


مسلمان ہو گیا ہوں میں<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

ندیم و وزیر کو کیوں پڑھتا<br />

غیض و غضب میں اک چہرا<br />

دیوان میر و میزا سے کم نہ تھا<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

ارادے تو پہاڑ ہوتےہیں<br />

ہواؤں میں اتنی سکت کہاں<br />

پھیر دیں رخ پہاڑوں کا<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

آفتاب اگر مری دسترس میں ہوتا<br />

بچھا دیتا میں اس کو‘‏ تیرگی کے در پر<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

گو سب رستے فرات کو جاتے ہیں<br />

جو پانی اصغر کا مقدر نہ بن سکا<br />

اس پانی کو میں منہ لگاؤں کیسے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

جب کبھی پانی میں مہتاب اترے<br />

تم من میں اپنے پیاس اتر کر نکلو<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

فرشتوں کو گناہ کی لذت کیا معلوم تھی<br />

اسی لیے ان کو<br />

خلفت ارضی نہیں ملی تھی<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

پیٹ کا جہنم جب بھڑک اٹھا<br />

قدموں کو بیچ کر<br />

بیساکھیاں وہ خرید رہا تھا<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

جس چونچ میں اک نسل کی بقا ہو<br />

قیامت ہے‘‏ اس چونچ پر‘‏ کوئ عقاب اترے<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

سانپ بچے سے عزیز تھا اس کو


اپنے ہاتھوں وہ اس کو<br />

دودھ پل رہا تھا<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

وہ نظر کب نظر رہتی ہے<br />

اٹھ جاتی ہے جو سرکار کی جانب<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

اک تسلسل سا ہے قصہ ہائے عشق میں<br />

آخر کب تک تقلید مجنوں و فرہاد کریں<br />

................<br />

فرشتے سجدہ میں کیوں نہ گرتے<br />

آدم کو اپنے ہونے پر یقین تھا<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

جو غیرت چمن تھا<br />

صلیب پہ لٹکا ہوا تھا<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

جس لہو میں سرخی ہوتی ہے<br />

وہ لہو گبھراتا نہیں


سرنگاپٹم کوچ کرنے سے<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

یقین کرنے ناکرنے سے کیا فرق پڑتا ہے<br />

خدا معمہ ہی رہے گا روبرو آنے تک<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

جو آگ میں کود گیا وہ خلیل تھا<br />

مرے لیے آگ؛ آگ رہے گی‘‏ یقین آنے تک<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

ابھی پڑا رہنے دو مرا جنازہ ان کے در پر<br />

جا نہ سکیں گے وہ مرے رقیب کے در پر<br />

...........<br />

جلد!‏ خاک ترا یہ کمال ہے<br />

امن پسندوں کو<br />

مرنے والوں کی سسکیاں‘‏ سونے نہیں دیتیں<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

نشہ شراب کا ہو کہ شباب کا<br />

معبود بنا دیتا ہے انسان کو


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

چپ ہو جا‘‏ اپنی نصیحت پاس ہی رکھ<br />

اگر وہ جلنا ترک کر دیں گے<br />

انھیں پروانہ کون کہے گا<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

محبت سے جب کوئ مرا نام لیتا ہے<br />

سمجھ جاتا ہوں میں<br />

امتحان کی پل صراط سے‘‏ گزرنے وال ہوں<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

وہ گھوڑے بیچ کر سوتا رہا<br />

ادھر رات کھا گئ روشنی کو<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

سر محفل جھوٹ کھول دیتا مگر<br />

مروت کی قبا تھی<br />

مرے بدن پر<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


توڑ آیا وہ فاختاوں کے انڈے<br />

یہ بول‘‏ پتھر کا جسم بول رہا تھا<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

مرے انکار کی داستان تو لکھ دی<br />

اس کے ہاتھ پر لہو‘‏ مورخ لکھ نہ سکا<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

جانے کب عیسی اسمان سے اترے<br />

کربل کی خاک سے نمود صبح ہو گی<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

وہ آنکھیں جو ہر کسی پر پتھر برساتی ہیں<br />

لوگ ہیں کہ بدھ کے بھکشو ہوں جیسے<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

ریت کے دریا میں پیاس اگ آئ ہے<br />

پھر کوئ زینب ننگے سر آگئ ہو جیسے<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

درس صداقت سے پہلے وعظ


جا کربل سے جا کر<br />

صداقت کی قیمت تو پوچھ<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

لے لیا تھا اس نے مرے فرشتوں سے قلم<br />

لکھ دیا اپنا حساب‘‏ مرے حساب میں<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

میں بیوی سے کب ڈرتا ہوں<br />

کانپ جاتا ہوں<br />

جب کوئ تحفہ پکار اٹھتا ہے<br />

میں تو ترے جوتے ترا سر ہوں<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

مری نادانی تو ذرا دیکھو<br />

جو بےکسی کے کیچڑ میں پڑا تھا<br />

میں ڈھونڈھتا رہا اسے ستاروں میں<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

مری قبر پہ چراغاں نہ کرو


روشنی بچا لو<br />

ادھر آ رہا ہے محبوب تمہارا<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

جب ہر سو موت کا منظر ہو<br />

ابابیلوں کے پر کاٹ کر<br />

حسن کی رکھشا کیسے ہو گی<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

تم مرے اپنے ہو<br />

کیسے یقین کر لوں<br />

شناختی کارڈ جعلی بننے لگے ہیں<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

مقصود حسنی کی شاعری میں ہندی تلمیحات کا استعمال<br />

جسے آج اردو اور ہندی کا نام دیا جاتا ہے‘‏ بہت پہلے سے<br />

برصغیر کی زبان تھی تاہم موجودہ تینوں رسم الخط بہت بعد


کی دین ہیں۔ عربوں سے پہلے کا رسم الخط کیسا تھا تحقیق<br />

طلب مسلہ ہے اور اس جانب سنجیدہ توجہ دینے کی<br />

ضرورت ہے۔ عربوں نے اپنی اظہاری ضرورت کے لیے<br />

اس زبان کو اختیار کیا‘‏ البتہ اسے عربی جامہ عطا کیا<br />

جسے بعد میں ایرانیوں نے اس رسم الخط کو تقویت بخشی۔<br />

اس زبان کو عربی فارسی رسم اخط ہی نہیں اپنے فکری<br />

سرماءے سے بھی سرفراز کیا۔ علوہ ازیں یہ زبان ان کے<br />

مزاج‘‏ رسوم سماجی اور عمرانی رویوں سے بھی آشنا<br />

ہوئ۔ اسے بہت سارے عربی فارسی لسانی سلیقے میسر<br />

آءے۔ عربی فارسی آوازیں اس کے ذخیرے میں داخل<br />

ہوءیں اور اس کا حصہ بن گیں۔ مقامی الفاظ میں داخل ہو<br />

گیں جیسے گریب سے غریب اوال میں ح شامل ہو گئ ور<br />

پر ح کا اضافہ ہوا۔ اس قسم کی سیکڑوں مثالیں اردو میں<br />

موجود ہیں۔<br />

عربی اور فارسی چونکہ حاکم زبانیں تھیں‘‏ اس لیے ان کا<br />

مقامی زبانوں پر اثر انداز ہونا غیر فطری بات نہ تھی۔<br />

زبانیں تو دوستوں اور میل جول رکھنے والوں سے بھی<br />

متاثر ہوتی ہیں۔ اس لیے زبانوں کا زبانوں سے متاثر ہونا<br />

کوئ بڑی بات نہیں۔<br />

مغلیہ سلطنت کو زیر کرنے کے بعد انگریز نے محکوم<br />

عوام پر اپنے اثرات مرتب کرنے کے لیے بڑی عیاری سے


تقسیم کے نظریے کو اختیار کیا۔ ایک طرف یہاں کے لوگوں<br />

سے رابطے کے لیے رومن خط کو رواج دیا تو دوسری<br />

طرف فورٹ ولیم کالج کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے<br />

لیے خط نستعلیق اور ہندوں کے لیے دیوناگری کو راءج<br />

کیا۔ اس طرح ایک ہی زبان کے تین رسم الخط رواج پا<br />

گیے۔ اس تقسیم کی سازش کے باوجود دیوناگری عربی<br />

فارسی اور خط نستعلیق مقامی اور ہندو رسم و رواج سے<br />

دستکش نہ ہوئ۔ جس کا واضح ثبوب اردو شعر ونثر میں<br />

ہندو سماج و معاشرت کے متعلق الفاظ اور تلمیحات وافر<br />

تعداد میں ملتی ہیں۔ یہ صورت جدید وقدیم اردو شعری ادب<br />

میں ملتی ہے۔<br />

برصغیر میں بیرونی لوگوں کی آمدورفت کا سلسلہ ہمیشہ<br />

سے رہا ہے۔ اس کی شکل کچھ بھی رہی ہو‘‏ ان کی آمد<br />

سے بیرونی سماج ومعاشرت اور معاش سے متعلق روایات<br />

اور رویے بھی درآمد ہوءے ہیں۔ ان کے زیر اثر زبان کو<br />

لفظوں کا ذخیرہ دستیاب ہوا ہے۔ یہاں کے باشندوں کی ذاتی<br />

اصطلحات‘‏ استعارے‘‏ تلمیحات وغیرہ متروک نہیں ہوءیں۔<br />

ان کا استعمال اپنے پورے وجود کے ساتھ رہا ہے۔<br />

ہر دو رسم الخط والوں میں سے بہت سوؤں نے انتہا<br />

پسندی سے کام لیا۔ اصلح زبان کے نام پر ان سماجی


اصطلحات اور الفاظ کو حرف غلط کی طرح مٹانے کی<br />

کوشش کی۔ ان کی جگہ مترادفات کو رواج دینے کی بھی<br />

کوشش کی لیکن ان کوششوں کو خاطرخواہ کامیابی نصیب<br />

نہیں ہو سکی۔ ان کی کوششیں زیادہ تر کتاب کی دنیا تک<br />

محدود رہیں ہیں کیونکہ زبان بولنے کی مرضی تابع رہتی<br />

ہے۔ اس کی بنیادی وجہ زبان کے بولنے والے کا سماج<br />

سے رشتے کی نوعیت ہوتی ہے۔ شخص اپنے سماج سے<br />

کسی سطع پر رشتہ ختم نہیں کر سکتا۔ سماجی روایات کی<br />

جڑیں اس کے لشعور میں اپنی جگہ بنا چکی ہوتی ہیں۔<br />

قدیم و جدید شعری ادب میں ہندی الفاظ اصطلحات اور<br />

تلمیحات کا استعمال نظر آتا ہے جو زبان کو لب و لہجے کی<br />

مٹھاس سے ہمکنار کرتا ہے۔ جدید اردو شعرا میں مقصود<br />

حسنی کی شاعری میں ہندی الفاظ اور اصطلحات کا<br />

استعمال ہوا ہے‘‏ لیکن ہندی تلمیحات کے حوالہ سے وہ<br />

معتبر نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاں استعمال ہونے والی<br />

تلمیحات برمحل اور فکر سے مطابقت رکھتی ہیں۔ وہ اپنی<br />

شاعری کے ذریعے بین المذاہب کے اتحاد کا درس دیتے<br />

نظر آتے ہیں۔ وہ جملہ مذاہب کے متعلق لوگوں کو عزت کی<br />

نگاہ سے دیکھتے اور پیش کرتے ہیں۔ وہ اکثر ان کو ایک<br />

صف میں ل کھزا کرتے ہیں۔ پیش نظر سطور میں ان کی<br />

شاعری میں استعمال ہونے والی ہندی تلمیحات درج کی جا<br />

رہی ہیں تاکہ قاری ان کی فکری اپروچ تک بآسانی رسائ


حاصل کر سکے۔<br />

چتا کو آگ دکھا دی ہے<br />

جذبوں سے کہہ دو<br />

موقع ہے<br />

ستی ہو جائیں<br />

مسیحا جل رہا ہے<br />

تم بھی جل جاؤ<br />

گوریاں جب اشنان کریں گی<br />

جسموں کو چھو لینا<br />

کہ کوئ کرشن پیدا ہو<br />

راجیو کے ہاتھوں کو<br />

ہات میں لے لے گا<br />

قید روحیں شنانت ہو جائیں گی<br />

نظم:جذبوں سے کہہ دو<br />

ماتمی سندور مانگ میں سجا کر<br />

رات مانگ رہی ہے


حق مہر مجھ سے<br />

ہائیکو<br />

بارش برسی تو کل شب بھر<br />

جیون کے جلتے شعلوں میں<br />

روپ کنور یاد آئ مجھ کو<br />

ہائیکو<br />

اک لقمہ ہو جس کی قیمت<br />

تم ہی کہو وہ سستا انسان<br />

دلی جھنڈے گاڑے گا کیا<br />

ہائیکو<br />

رادھا کی چتا کے پھول<br />

گنگا کی لہروں سے ٹکراتے<br />

میں نے خود دیکھے ہیں<br />

نظم:‏ میں نے دیکھا ہے<br />

رواج کے پتھروں کی برسات میں<br />

ٹھٹھرتے انسانوں نے


انا کی حدت کے لیے<br />

روپ کنور کو ستی کر دیا<br />

نظم:سرشام<br />

دعا کو اٹھتے ہات<br />

گلب کی مہک<br />

مٹی سے رشتے<br />

کب پوتر رہے ہیں؟؟؟<br />

درگاوتی کی عصمت<br />

مرنے کے بعد<br />

اپنوں کے ہات<br />

لٹ گئ تھی<br />

نظم:‏ سورج دوزخی ہو گیا تھا<br />

گوتم سے کوئ کہہ دے<br />

سنکھ بجائے<br />

مسیح زندہ کر دے<br />

پتھروں کو


نظم:‏ پتھر<br />

آنکھیں بند تھیں<br />

رام کا نام زبان پر تھا<br />

آستین میں کوئ بول رہا تھا<br />

نظم:تضاد<br />

حرص کی رم جم میں<br />

ملں پنڈت<br />

گرجے کا فادر<br />

گر کا امین<br />

لمبڑ کے ڈیرے پر بیٹھے<br />

آنکھوں میں پتھر رکھ کر<br />

پکون کے گیت گاءیں<br />

حرص کی رم جم<br />

اس کا غصہ<br />

پریم کا ساگر


اس کے چرنوں میں<br />

سورگ کا جھرنا<br />

ماں‘‏ ماں ہوتی ہے<br />

اس کا سایہ<br />

بھگوان کی کرپا<br />

ماں‘‏ ماں ہوتی ہے<br />

لوبھی قانون کا رکھوال<br />

بےبس زخمی زخمی<br />

منصف ہوا ہے<br />

مقولہ باقی ہےاور یہ<br />

چڑھ جا بیٹا سولی<br />

رام بھلی کرے گا<br />

رام بھلی کرے گا<br />

آنکھ میں پانی<br />

آب کوثر<br />

شبنم


گل کے ماتھے کا جھومر<br />

جل ‏‘جل کر<br />

دھرتی کو جیون بخشے<br />

گنگا جل ہو کہ<br />

زم زم کے مست پیالے<br />

دھو ڈالیں کالک کے دھبے<br />

جل اک قطرہ ہے<br />

جیون بے انت سمندر<br />

بے انت سمندر<br />

مرے جیون کا<br />

ہر جلتا بجھتا پل<br />

مجھ کو واپس کر دو<br />

جو دن خوشییوں میں گزرا<br />

تقدیر نہیں<br />

مرے عشق کی تپسیا کا اترن تھا<br />

اس سے پہلے


آنکھوں میں دھواں بھر لو<br />

چاند کا چہرا<br />

راون کی شکتی لے کر<br />

عیسی کے خون سے<br />

اوباماہی رب<br />

لکھ رہا ہے<br />

فرات کا دامن<br />

غربی ہبل<br />

عزازیل کا بردانی ہے<br />

برہما تو<br />

ایسا بردان نہیں دیتا<br />

غربی ہبل<br />

تمہارے جانے سے پہلے<br />

یہ سب کچھ نہ تھا<br />

تمہارے جانے کے بعد<br />

گنگا الٹا بہنے لگی ہے


گنگا الٹا بہنے لگی ہے<br />

بدھ رام بہا<br />

کہ نانک کے پیرو ہوں<br />

یا پھر<br />

چیراٹ شریف کے باسی<br />

اپنا جیون جیتے ہیں<br />

سننے میں آیا ہے<br />

کل تا کل<br />

جب بھی<br />

پل کی بگڑی کل<br />

در نانک کے<br />

بیٹھا بےکل<br />

چل'‏ محمد کے در پر چل<br />

ترے منہ کے<br />

الہامی شبدوں کے جادو<br />

میری سماعتوں پر


عشق کے گرنتھ کی تکمیل میں<br />

تیرے آنے کے رستوں کو<br />

برہما کی کرپا کا بردان سمجھیں<br />

بردان<br />

آنکھ کے اک اشارے پر<br />

اپنی منشا کے رنگین پنے<br />

کل کے حسین سپنے<br />

تیاگ کے قدموں میں رکھے<br />

چاہت کے کنول<br />

کھونٹ پر لٹکی ور مال<br />

آس کے رستوں سے پوچھے ہے<br />

مانگ میں تارے بھرنے وال<br />

کب لوٹ کر آءے گا<br />

میں تم سے کہتا ہوں<br />

اج کا سچ تو یہ ہے<br />

گنگا کرتی ہے چھل


شنی کو طلق کرو<br />

چندر کی روشن کرنیں<br />

ظلمت کی بھاشا بولے ہیں<br />

میں تم سے کہتا ہوں<br />

بلوان کا کھیسہ تو<br />

گن کی گتھلی ہے<br />

میں تم سے کہتا ہوں<br />

تیری انگلی کے ارتعاش سے<br />

مہتاب دو لخت ہوا<br />

جنت بنی سورگ بنا<br />

ویدی کا یہی ویدان تھا<br />

کہ سب دیو تخلیق ہوں<br />

مسکان کے بطن سے<br />

اس کے ننھے ہاتھوں کی<br />

الجھی لکیریں<br />

میری آنکھوں میں


سوال بنتی رہتی ہیں<br />

ان الجھی ریکھاؤں کو<br />

برہما لوک سے<br />

کب کوئ سلجھانے اترے گا<br />

سکھ کا سارا ناواں<br />

دھرتی کا اندر<br />

اپنی مٹھی میں رکھ کر<br />

سیتا کا بلی دان<br />

راون تپسیا کا بردان سمجھے<br />

سیاست کی دوکان<br />

چمکائے بیٹھا ہے<br />

دھرتی کا اندر<br />

کراءے کے قاتل<br />

کیا بھکشا دیں گے؟<br />

کرن ہماری کھا جا ہے<br />

بارود کے موسم


کھڑکی کھولے رکھنا<br />

اندر کی باتوں کو باہر لنا ہے<br />

باہر کے سارے موسم<br />

راون بستی کے منظر ہیں<br />

چپ ہو کہ سارے موسم تیرے ہیں<br />

قرآن راج<br />

چپ کے دامن میں<br />

ہاں اور ناں کی لکھوں گانٹھیں ہیں<br />

چپ ہو کہ ہر گانٹھ<br />

برہما کے بردان پر کھلتی ہے<br />

بردان تو قسمت کے کھیسے کا بندی ہے<br />

قسمت اچھی ہوتی تو<br />

راکھشش جیون پراس<br />

قرآن راج نہ ہوتاL؟<br />

قرآن راج<br />

شب آنکھوں میں


تاروں کا جنگل<br />

پیاس کنارے<br />

ہراس میں ڈوبے<br />

گنگاکے دامن میں<br />

ضد کا کاجل<br />

بے چہرا جیون<br />

قرآن ہو کہ گیتا<br />

راماءن کا ہر قصا<br />

گرنتھ کا ہر نقطا<br />

میرا بھی تو ہے<br />

............<br />

مساءل کی روڑی پر بیٹھا<br />

میں گونگا بہرا بے بس زخمی<br />

نانک سے بدھ<br />

لچھمن سے ویر تلشوں<br />

مدنی کریم کی راہ دیکھوں<br />

علی علی پکاروں کہ


سورج ڈوب رہا ہے<br />

سورج ڈوب رہا ہے<br />

تو انمول سہی<br />

نایاب سہی<br />

ہے تواس چترکار کا دان<br />

دان کا سونا<br />

مٹی سے کمتر<br />

...............<br />

تیری شکشا کے طور نرالے<br />

ہنسے کبھی غصہ میں آءے<br />

ساون بولی بولے<br />

ردے کی ہر دھڑکن<br />

دان کا سونا<br />

کرنے کے جذبے<br />

روٹی کے بندی<br />

دریا کا پانی


بھیگی بلی<br />

حر بربک کے سنکھ میں رہتے ہیں<br />

جینے کو تو سب جیتے ہیں<br />

تری آغوش میں پلتی مسکانیں<br />

مری تری مرتیو کو<br />

امرتا کے بردان میں ٹانکیں<br />

مجھ کو من مندر میں سجا لو<br />

کہ کام دیوا<br />

ہر بار کب<br />

خوش بختی کا منگل سوتر<br />

گلب گلو میں رکھتا ہے<br />

آنکھ دریچوں سے<br />

تری مسکانوں کی بارش<br />

شور زمینوں کو<br />

برہما کے بردان سے بڑھ کر<br />

جب تم مجھ کو سوچو گے


جب دل دریا میں<br />

ڈول عشق کا ڈالو گے<br />

ارتعاش تو ہو گا<br />

من مندر کا ہر جذبہ<br />

ہیر کا داس تو ہو گا<br />

بالوں میں بکھری چاندی<br />

چاندنی راتوں میں<br />

دور امرجہ کے کھلیانوں میں<br />

سیرابی دیتے ہیں<br />

لب گنگا کے پیاس بھجاتے ہیں<br />

بالوں میں بکھری چاندی<br />

جب بھی<br />

پل کی بگڑی کل<br />

در نانک کے بیٹھا بےکل<br />

اک پل<br />

ہر نغمہ


عزازیلی اسرافیلی<br />

خون میں بھیگا آنچل<br />

گنگا کا<br />

پلکوں پر شام<br />

آس کے ٹوٹے ٹھوٹھے میں<br />

آشا کے کچھ بول رکھنے کو<br />

غرض کی برکی نہ بن جءے<br />

وشنو چھپنے کو<br />

برہما لوک کا رستہ بھول جاتا ہے<br />

اب جب بھی<br />

جانے کے موسم میں<br />

آنے کی سوچیں تو<br />

گنگا الٹی بہتی ہے<br />

پاگل پن<br />

سوچنا یہ ہے<br />

کس کردہ جرم کی سزا


سقراط کا زہر ہے<br />

میرے سوچ پر<br />

خوف کا پہرا ہے<br />

روبرو راون کا چہرا ہے<br />

کاجل ابھی پھیل نہیں<br />

سب موسم تم کو مل جاءیں<br />

سچل دل کی کلیاں<br />

اپنے دامن میں<br />

سورگ کے سکھ رکھتی ہیں<br />

آنکھوں دیکھے موسم<br />

تم چپ ہو کہ<br />

تحسین کے کلمے<br />

برہما کے بردان سے اٹھتےہیں<br />

دروازہ کھولو<br />

فقیروں کی بستی میں<br />

اسلم کی بوتلیں


اندر لوک کی ہوتی ہیں<br />

شراب یم لوک سےآتی ہے<br />

لیبل گورا ہاؤس میں لگتا ہے<br />

اسمبلی کے اکھاڑے میں<br />

رقص ابلیس ہوتا ہے<br />

فقیروں کی بستی میں<br />

تو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

آب زم زم میں دھل کر<br />

حوض کوثر میں کھل گلب<br />

ا کی عنایت<br />

محمد کی نظر عطا<br />

برہما کا بردان<br />

ایشور کی کرپا<br />

نانک کی دیا<br />

یسوع کی برکت<br />

مری ماں مری جان


تری چاہت تری محبت<br />

تری شفقت تری عظمت کے<br />

بصد احترام و احتشام<br />

قدم لے کر<br />

مرا سلم مرا پرنام<br />

حوض کوثر میں کھل گلب<br />

یہی تو<br />

بھگوان کی لیل ہے<br />

تم آکاش ہوئے میں دھرتی ٹھرا<br />

ترے ہاتھ جیون مرتیو<br />

تر بھوجن<br />

مرے ہاتھ<br />

یہی تو<br />

‏(اردو کی پہلی سنکوءین (<br />

مقصود حسنی کے کلم میں مغربی تلمیحات کا استعمال


اردو ادب میں شاعری ابتدائ اور قدیم صنف سخن ہے جس<br />

میں عروض کو بڑا عمل دخل رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ<br />

عروض سے متعلق شاعر اور نقاد غیر عروضی شعرا کو<br />

تسلیم نہیں کرتے رہے۔ دوسری طرف یہ بھی ٹھوس حقیت<br />

رہی ہے کہ عروض کے عمل دخل سے فکر اور خیال اپنی<br />

پپوری توانائ اورر اصلیت کے مطابق شعر میننہیں ڈھل<br />

سکے جس کے نتیجہ میں ناصرف بات ادھوری رہی ہے<br />

بلکہ بسااوقات کچھ کی کچھ ہو گئ ہے۔۔ اس کے برعکس<br />

غیر عروضی شعرا کے ہاں شاز ہی ایسا رہا ہو۔ فکر خیال<br />

یا جذبے کا بلند ہونا اس سے قطعی الگ بات ہے۔ غیر<br />

عروضی شعرا عموما خیال کو فکری اور صوتی آہنگ کے<br />

ساتھ شعریت کے لبادے میں ملفوف کرکے پیش کرتے ہیں۔<br />

اس جدید شاعری کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔<br />

ایک تو آزاد نظم جبکہ دوسری کو نثری نظم کا نام دیا گیا۔<br />

اب یہ دونوں سابقے باقی نہیں رہ اور ناہی یہ غیر معروف<br />

رہی ہے۔ ڈاکٹر علامہ بیدل حیدری نٹری نظم کی ذیل میں<br />

رقم طراز ہیں<br />

نثری نظم کی درست اور ناقابل تردید تعریف یہ ہے کہ جب<br />

کوئ اعلی وارفع مضمون شعری اوازن و بحور اور ردیف


قافیے کی مجبوری کی وجہ سے شعری پیکر میں نہ ڈھل<br />

سکے تو اس کو آہنگ و صوت اور وجدان کے تحت اس<br />

طرح صحفہءقرطاس کی زینت بنا دیا جاتا ہے کہ قاری پر<br />

پڑھتے ہی ایک لمحے کے لیے سکتے اور حیرت کی فضا<br />

طاری ہو جاتی ہے اور اس کے سحر میں گرفتار ہو جاتا “<br />

اوٹ سے ١٩٩١ ص:‏ ٥<br />

شعری لوازمات میں تلمیح کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔<br />

شرق و غرب کی شاعری میں کسی ناکسی سطع پر اس کا<br />

وجود ملتا ہے۔ چونکہ شاعری میں کسی واقعے وغیرہ کی<br />

تفصیلت کو درج کرنے کی گنجاءش نہیں ہوتی اس لیے<br />

اختصار کے ضمن میں تلمیح اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ تلیح<br />

سے درحقیقت مراد یہ ہے کہ شاعر اپنے کلم میں کوئ<br />

ایسا نشان چھوڑتا ہے جو کسی واقعے‘‏ قصے‘‏ معاملے‘‏<br />

ضرورت‘‏ حادثے‘‏ رویے وغیرہ کی نشاندہی کرتا ہے۔ مثل<br />

مرزا غالب کا یہ شعر ملحظہ ہو<br />

ابن مریم ہوا کرے کوئ<br />

مرے دکھ کی دوا کرے کوئ<br />

کیا کیا خضر نے سکندر سے<br />

اب کسے راہنما کرے کوئ


احمد ندیم قاسمی نے اس شعر میں سقراط کو بطور تلمیح<br />

استعمال کیا ہے<br />

:<br />

نءءے انسان سے تعارف جو ہوا‘‏ تو بول<br />

میں ہوں سقراط ‘ مجھے زہر پلیا جاءے<br />

تلمیحی حوالوں کی کئ صورتیں ہو سکتی ہیں۔ مثل اسمائ‘‏<br />

اصطلحی‘‏ استعارتی‘‏ اشارتی‘‏ ارضیاتی‘‏ ادویاتی‘‏ امرجاتی‘‏<br />

ادارتی‘‏ بحریاتی‘‏ جماداتی‘‏ حیواناتی‘‏ سماواتی‘‏ فلکیاتی‘‏<br />

مسکای‘‏ داستانی‘‏ سماجیاتی‘‏ تمثالی‘‏ محاوراتی‘‏ وغیرہ<br />

وغیرہ<br />

مغلیہ کے بعد انگریز اقتدار کا دور دورہ ہوا۔ انگریز عہد<br />

میں مغربی تلمیحات کو اکبرالہ آبادی نےکثرت سے استعمال<br />

کیا۔ ان کے بعد بہت سے اردو شعرا نے مغربی تلمیحات کا<br />

استعمال اپنے کلم میں کیا۔ جن میں اقبال‘‏ ن م راشد اور<br />

فیض‘‏ مجید امجد قابل ذکر ہیں۔ جدید نظم کے شعرا میں<br />

مقصود حسنی خصوصی اور نمایاں حیثیت کے حمل ہیں۔ ان<br />

کے ہاں مغربی تلمیحات کا اسعمال عصری حالت و واقعات<br />

کے تناظر میں ہوا ہے۔ اگر ان کی شاعری کو تلمحی<br />

استعارے کی شاعری کا نام دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ یہ<br />

بھی کہ یہ صورت بہت کم شعرا کے ہاں ملتی ہے۔ ان کی<br />

شعری زبان کو وسیع کینوس پر رکھ کر ہی سمجھا جا


سکتا ہے۔<br />

ان کی شعری خصوصیات کو بہت سے اہل قلم نے اپنے<br />

اپنے انداز میں خراج تحسین پیش کیا ہے جن میں سے چند<br />

ایک کے نام درج خدمت ہیں<br />

ڈاکٹر آغا سہیل‘‏ ڈاکٹر ابو سعید نورالدین‘‏ ڈاکٹر اسلم ثاقب‘‏<br />

ڈاکٹر اختر شمار‘‏ اکبر کاظمی‘‏ اشرف پال‘‏ اطہر ناسک‘‏ ایاز<br />

آر قیصر‘‏ ڈاکٹر علمہ بیدل حیدری‘‏ جمشید مسرور‘‏ سید<br />

اکبر گیلنی‘‏ ڈاکٹر سید اسعد گیلنی‘‏ ڈاکٹر صابر آفاقی‘‏ ڈاکٹر<br />

صادق جنجوعہ‘‏ صفدر حسین برق‘‏ ضیغم رضوی‘‏ طفیل ابن<br />

گل‘‏ ڈاکٹر ظہورر احمد چودھری‘‏ ڈاکٹر عطاالرحمن‘‏ عیاس<br />

تابش‘‏ ڈاکٹر عارف نور‘‏ غضنفر ندیم‘‏ ڈاکٹر فرمان فتح<br />

پوری‘‏ ڈاکٹر گوہرنوشاہی‘‏ ڈاکٹر محمد امین‘‏ ڈاکٹر مبارک<br />

علی‘‏ ڈاکٹر منیرالدین احمد‘‏ ڈاکٹر محمد عبدا قاضی‘‏<br />

پروفیسر محمد اکرام ہوشیارپوری‘‏ مہر کاچیلوی‘‏ ندیم<br />

شعیب‘‏ ڈاکٹر علمہ وفا راشدی‘‏ ڈاکٹر وقار احمد رضوی‘‏<br />

ڈاکٹر وزیر آغا‘‏ یوسف عالمگیرین‘‏ پروفیسر محمد یونس<br />

حسن وغیرہ<br />

مقصود حسنی کی کتب<br />

سپنے اگلے پہر کے نتری ہاءیکو<br />

١٩٨٦<br />

اس کا پنجابی‘‏ گرمکھی‘‏ سندھی‘‏ پشتو انگریزی میں ترجمہ


ہوا۔<br />

اوٹ سے نثری نظم<br />

١٩٩١<br />

پروفیسر امجد علی شاکر نے اس مجموعہءکلم کا پنجابی<br />

ترجمہ کیا۔<br />

سورج کو روک لو نثری غزل<br />

ان کتب کے علوہ ایک مجموعہ کاجل ابھی پھیل نہیں<br />

مرتبہ ڈاکٹر ریاض انجم انٹرنیٹ پر موجود ہے۔علوہ ازیں<br />

اخبار ورساءل میں بھی ان کی بہت سی نظمیں شاءع ہو<br />

چکی ہیں۔<br />

مقصود حسنی کے کلم میں مغربی تلمیحات کے علوہ<br />

مقامی اور ایشیائ تلمیحات بھی بکثرت ملتی ہیں جن میں<br />

ہندی تلمیحات خصوصیت کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس حوالہ<br />

سے کسی دوسرے مضمون میں گفتگو کروں گا۔تفہیم<br />

وتشریح کے حوالہ سے یہ کام تحقیقی ڈگری سطع کا ہے<br />

سردست ان کی مغرب کے متعلق تلمیحات ملحظہ فرماءیں<br />

وہ گیندے کا پھول نہ تھا<br />

زلفوں میں بارود سجا رکھا تھا<br />

کیا کیا سامان کیے<br />

اس نے میری موت کے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔<br />

جب سے بش کو امام کیا ہے<br />

گھر گھر سے<br />

روشنی کا جنازہ اٹھنے لگا ہے<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

سورج کو روک لو<br />

شہر عشق کو جانے وال<br />

کوئ سر سلمت نہیں رہا<br />

........................<br />

دیوتاؤں سے وہ کچھ کم نہ تھا<br />

دجال کی یہ خصلت اگر اس میں نہ ہوتی<br />

اسی آنکھ سے دیکھتا رہا میرے رقیب کو<br />

..........................<br />

جس آنچل میں پناہ چاہی تھی<br />

اس آنچل کے ہر تار میں<br />

ہائیڈروجن تھی فاسفورس تھا<br />

..........................


جبریل کا اب یہا ں کام نہیں<br />

زمین کا بڑا کہتا ہے<br />

لنکن کی کتاب کافی ہے انسان کے لیے<br />

...........................<br />

وہ جن آنکھوں میں بس گیے<br />

آنکھیں وہ سلمت رہیں<br />

میں کیسے یقین کر لوں<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

درس آزادی دیتا پھرتا ہے نگر نگر<br />

کاٹ دیتا ہے پر<br />

جو پرندہ خل پر حق جتاتا دکھائ دے<br />

......................<br />

سات فرعونوں کے مقابل<br />

کب کوئ موسی رہا ہے<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

آسمان کو اپنے قہر و ستم پر ناز تھا<br />

اسے خنجر چلتا دیکھ کر


شرم سے پانی پانی ہو گیا<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

مرے سر کی دستار لے کر تو جا رہے ہو<br />

اس شہر کے لوگ<br />

بوجھ اٹھا سکیں گے دستار کا<br />

...............................<br />

غرب سے امن سلیقہ اترا<br />

مرے آنگن کی روشنی<br />

بےکار ہوئ<br />

بےوقار ہوئ<br />

نظم:‏ دو بیلوں کی مرضی ہے<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔<br />

واشنگٹن کے مندر کا بت<br />

کس محمود نے توزا ہے<br />

سکندر کے گھوڑوں کا منہ<br />

کس بیاس نے موڑا ہے<br />

اس کی گردن کا سریا


کس ٹیپو نے توڑا ہے<br />

نظم:‏ سوال یہ ہے<br />

........................<br />

جام سقراط کو<br />

جی بسم ا کہہ کر<br />

ہونٹوں سے لگا لو<br />

نظم:‏ ورثہ<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

غیرت سے عاری<br />

وہ قطرہ سقرط کا زہر<br />

نہ گنگا جل<br />

نظم:‏ چل‘‏ محمد کے در پر چل<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

سوچنا یہ ہے<br />

کس کردہ جرم کی سزا


سقراط کا زہر ہے<br />

نظم:‏ کاجل ابھی پھیل نہیں<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

سقراط سے مرد حق کی<br />

دفن سے پہلے<br />

آنکھوں میں دیکھا<br />

شکوہ تھا نہ شکایت<br />

اک نصیحت ضرور تھی<br />

مرا انجام دیکھ لو<br />

کسی کو نصیحت نہ کرنا<br />

نظم:‏ نصیحت<br />

...................<br />

میں مقدر کا سکندر ہوں<br />

ٹیکسوں کی شان کا سایہ<br />

مری رکھشا کرتا ہے<br />

نظم:میں مقدر کا سکندر<br />

........................


جورو کے موتر کی بو نے<br />

سکندر سے مردوں سے<br />

ظلم کی پرجا کے خواب چھین لیے ہیں<br />

دن کے مکھڑے پر<br />

راتوں کی کالک لکھ دی ہے<br />

نظم:‏ اس سے کہ دو<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

طبیبو<br />

!<br />

غیرت اتارو<br />

مری رگوں میں<br />

بش گزیدہ ہوں میں<br />

نظم:‏ علج<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

ذات کے قیدی<br />

مردوں سے بدتر<br />

سسی فس کاجیون جیتے ہیں


نظم:‏ ذات کے قیدی<br />

..................<br />

لوسی فر کے چرنوں میں<br />

اپنے کندھے رکھ دو<br />

کہ زیست شانت رہے<br />

نظم:‏ ورثہ<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

گوءٹے اور بالی<br />

ٹیگور اور جامی<br />

سیوفینگ اور شیلی<br />

سب کے ٹھہرے ہیں<br />

نظم:سننے میں آیا ہے<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

حرص کی رم جم میں<br />

ملں پنڈت<br />

گرجے کا فادر


ک گر کا امین<br />

لمبڑ کے ڈیرے پر بیٹھے<br />

پکون کے گیت گاءیں<br />

نظم:‏ حرص کی رم جم میں<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔<br />

شیطانی آیات لکھنے والے<br />

ہاتھ قطع کون کرتا<br />

شیخ ملت کا ہات<br />

ڈیانہ کے ہاتھ تھا<br />

ہائیکو<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

آؤ زہد وتقا<br />

تقلید عصر میں<br />

پامیل کے نام کر دیں<br />

ہائیکو


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

بندر کے بچوں کے<br />

آتے کل کی بھوک کے غم میں<br />

نظم:دو بیلوں کی مرضی ہے<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

گورکن کو بلواؤ کہ قبر کھودے<br />

سچ کا سورج<br />

دور غرب میں ڈوب رہا ہے<br />

ہائیکو<br />

......................<br />

قاتل ہیروشیما کا<br />

آج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

یو این او میں پردھان بنا بیٹھا ہے<br />

ہائیکو<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

تیسری دنیا کے لوگ


آستین کے سانپ کو<br />

پیکٹ کا دودھ پلتے رہے ہیں<br />

نظم:‏ حماقت<br />

......................<br />

روٹی کپڑا دوں گا<br />

امریکی خدا کا وعدہ ہے<br />

آؤ امریکہ چلیں<br />

ہائیکو<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

خالی جیب کشمیروں کے لیے<br />

مغرب سے<br />

من سلوی کیوں نہیں آتا<br />

نظم:‏ کیوں؟‎١‎<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

بڑے شیطان کے مرنے کی دعا<br />

قبول ہو بھی گئ تو کیا<br />

اس کے انڈے بچے


فتنہ پردازی میں<br />

اس سے بھی<br />

ایک قدم آگے ہیں<br />

نظم:‏ زیادہ تر<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔<br />

سجدہ سے سر اٹھتا کیسے<br />

کمر پہ مری<br />

خدائے ارض و مریخ کا<br />

مقدس پاؤں تھا<br />

نظم:مجبوری<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

قباءیں اتار دو<br />

تمہارے تن کو<br />

ضرورت نہیں ان کی<br />

زمینی خدا نے


بھجوا دی ہیں عورتیں<br />

ضرورت تھی تم کو ان کی<br />

نظم:‏ ضرورت<br />

.....................<br />

بے نام گزارو<br />

آج بھی بستے ہیں<br />

کالی زبان والے<br />

شیشے کے اس شہر میں<br />

نظم:‏ مشورہ<br />

...................<br />

اس سے کہہ دو<br />

دو چار بم اور گرائے<br />

یتیمی کا دکھ سہتے<br />

بچوں کے نالے<br />

ٹوٹے گجروں کی گریہ زاری<br />

جلتے دوپٹوں کے آنسو<br />

عرش کے ابھی


اس پار ہیں<br />

نظم:‏ اس سے کہہ دو<br />

..........................<br />

فرعون عصر کے طلسم نے<br />

ایشیا والوں کو<br />

شاہین سے<br />

کرگس کر دیا<br />

نظم:‏ عنایت<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

اتھوپیا کا قحط<br />

بھیک مانگ رہا ہے<br />

روٹی کی<br />

حاتم دوراں<br />

فرصت ملی تو<br />

بارود بھجوا دے گا<br />

نظم:‏ فرصت ملی تو<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


آنکھیں بند رکھتے ہیں<br />

اپنا ہوا ہے جب سے<br />

پتھر آنکھوں وال<br />

نظم:‏ احتیاط<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

یورپ کی<br />

چڑیوں کی چونچ میں<br />

بے بس ہو کر<br />

عظیم ایشیا<br />

سسک رہا ہے<br />

الجھ رہا ہے<br />

نظم:‏ روشنی<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔<br />

گدھ‘‏<br />

خلیج کے بیماروں کی<br />

سانسیں گگن رہے ہیں


نظم:‏ سورج دوزخی ہو گیا تھا<br />

.....................<br />

یہی تو<br />

بھگوان کی لیل ہے<br />

تم آکاش ہوئے میں دھرتی ٹھہرا<br />

ترے ہاتھ جیون مرتیو<br />

تر بھوجن<br />

مرے ہاتھ<br />

‏:نظم<br />

‏‘یہی تو<br />

اردو کی پہلی سنکوئین<br />

..........................<br />

سمندروں میں طغیانی ہے<br />

طغیانی کے بیچ<br />

درندگی کا مسکن ہے<br />

ساحلوں سے کہہ دو<br />

کہیں اور بسیرا کر لیں


نظم:‏ مشورہ<br />

.................<br />

جی میں آتا ہے<br />

من کا سارا زہر<br />

‘<br />

‏‘حیات کی سب سختیاں<br />

بھوک کی سب تلخیاں<br />

ارضی خداؤں کی رگوں میں انڈیل کر<br />

اپنے ڈرائنگ روم کی کھڑکی سے<br />

جو باہر کو کھلتی ہے<br />

‘<br />

انھیں تڑپتا دیکھ کر مسکراؤں<br />

نظم:جی میں آتا ہے<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

تزاب برساتے بادل<br />

گواہی دے رہے ہیں<br />

پالتو درندے


اپنی فطرت میں<br />

مہذب نہیں ہو سکتے<br />

نظم:‏ فطرت<br />

..................<br />

سنا ہے<br />

بارود کی بدبو پھیلنے<br />

زہرا پر پہنچ گیا ہے<br />

درندگی ساتھ لے کر<br />

مغرب کا بندہءمفادات<br />

نظم:‏ روبا<br />

.......................<br />

امرت کہہ کر<br />

غلمی اتار رہا ہے<br />

مری رگوں میں<br />

کوے کی وہ خصلت وال<br />

نظم:‏ سازش<br />

.......................


تلواریں زہر آلود ہیں<br />

محافظ سونے کی میخیں گن رہا ہے<br />

چھوٹی مچھلیاں فاقہ سے ہیں<br />

کہ بڑی مچھلیوں کی دمیں بھی<br />

قاتل ہو گئ ہیں<br />

نظم:‏ چاند اب دریا میں نہیں اترے گا<br />

.........................<br />

سکت نہیں رہی تو<br />

ابلیس عصر کی رگوں میں<br />

ہیروئن کیوں نہیں اتارتے<br />

نظم:ردعمل<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

چپ<br />

مت بولو<br />

چپ کا روزہ رکھ لو<br />

ہم حسین نہیں جو بولیں<br />

یزید اترا ہے


فاختہ کا اترن لے کر<br />

مت بولو<br />

‏:نظم<br />

..........................<br />

چاند کا چہرا<br />

راون کی شکتی لے کر<br />

اوباما ہی رب<br />

لکھ رہا ہے<br />

نظم:‏ فرات کا دامن<br />

......................<br />

ہماری پسلیوں کے نیچے<br />

باما کا غلم چھپا بیٹھا ہے<br />

نظم:سوال یہ ہے<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

ایشیا کے لوگ<br />

بیٹھ بیٹھ کر


اس کے در پر<br />

چلنے کی عادت بھول گیے ہیں<br />

نظم:‏ عادت<br />

..................<br />

دریا<br />

ان کشتیوں کو کیسے چلنے دے<br />

جن پر<br />

زمینی خدا کا جھنڈا نہیں ہوتا<br />

نظم:‏ تم ہی کہو<br />

.............................<br />

کلیاں اور گلب و کنول بھی<br />

پیر مغرب کی ٹھوکر میں ہیں<br />

نظم:‏ لہو کا تقدس<br />

...........................<br />

دریا کا پانی<br />

بھیگی بلی<br />

حر<br />


بربک کے سنکھ میں رہتے ہیں<br />

نظم:‏ جینے کو تو سب جیتے ہیں<br />

...........................<br />

آنکھیں ہی کیا<br />

کندھوں سے جدا سر<br />

بل کے ہاں<br />

گروی پڑا ہے<br />

مجھے اک خواب لکھنا ہے<br />

.................<br />

پرتھوی کیا<br />

ا کی ہر تخلیق کا<br />

ماما نہیں<br />

موچی درزی نائ بھی<br />

وارث ہو گا<br />

نظم:سننے میں آیا ہے<br />

...........................<br />

گورا ہاؤس کے چمچے کڑچھے


طاقت کی بیلی میں<br />

کربل کربل کرتے یہ کیڑے<br />

ہانیمن اور اجمل کا منہ چڑتے ہیں<br />

نظم:‏ سورج ڈوب رہا ہے<br />

.........................<br />

فقیروں کی بستی میں<br />

اسلم کی بوتلیں<br />

اندر لوک سے آتی ہیں<br />

لیبل گورا ہاؤس میں لگتا ہے<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔<br />

شہوت کے سمندر میں<br />

زمین کے وارث<br />

ڈوب رہے ہں<br />

گرم بوسوں نے<br />

تیل کے کنوؤں میں<br />

آگ لگا دی ہے<br />

نظم:‏ قربت


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

سکھ کا سارا ناواں<br />

دھرتی کا اندر<br />

اپنی مٹھی میں رکھ کر<br />

سیتا کا بلی دان<br />

راون تپسیا کا بردان سمجھے<br />

سیاست کی دوکان<br />

چمکاءے بیٹھا ہے<br />

نظم:‏ دھرتی کا اندر<br />

..............................<br />

ہبل کے ہات<br />

شرق کے لت ومنات<br />

اپنی انا بیچ چکے ہیں<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

غربی ہبل<br />

عزازیل کا بردانی ہے


برہما تو<br />

ایسا بردان نہیں دیتا<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

دور غرب سے<br />

اٹھتے بگولے<br />

گلبوں کی اداءیں<br />

چراغوں مسکانیں<br />

شبنمی ہواءیں<br />

کلیوں کی آشاءیں<br />

نگلتے ہیں<br />

نظم غربی ہبل<br />

...............<br />

واشنگٹن کے ایوان<br />

ایشیا کے لہو سے<br />

ایشیائ باشندے<br />

تعمیر اپنے ہات سے


کیوں کر رہے ہیں<br />

نظم:‏ کیوں؟<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

مشرق سے اٹھا<br />

واشنگٹن پروان چڑھا<br />

مروں گا ماسکو جا کر<br />

میں کون ہوں<br />

بھول سا گیا ہوں<br />

نظم:‏ یاد نہیں<br />

.................<br />

روٹی کپڑا دوں گا<br />

امریکی خدا کا وعدہ ہے<br />

آؤ امریکہ چلیں<br />

ہاءیکو۔<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

یہی مری تم سے التجا ہے<br />

امریکی گرین کارڈ


ہمراہ میت میرے دفن کرنا<br />

ہائیکو<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔<br />

اب وہ آنکھ ملتا نہیں<br />

شاید گڑار آیا ہے<br />

اپنی کچھ شامیں<br />

لندن کے بازاروں میں<br />

نظم:‏ بےاعتنائ<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔<br />

آزادی جو چائتے ہیں<br />

امریکہ کی وہ غلمی کرلیں<br />

نظم:نسخہ<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

بھوک کا خوف مٹانے کے لیے<br />

بربط پر انگلیاں میں نے چلءیں<br />

کھا گیا وہ انگلیاں مری


پیشانی پہ اس کی<br />

یو ایس اے میڈ لکھا ہوا تھا<br />

نظم۔:‏ انگلیاں<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

حرکت کرتے ہونٹ<br />

دنبی سٹی اور امریکن سنڈی سے<br />

بدتر لگتے ہیں<br />

نظم:‏ دروازہ کھولو<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

اس ہوٹل کے<br />

باسی کھانے<br />

خراب چاءے<br />

نکمی شراب<br />

ولئیتی بوتلوں میں<br />

بک جاتی ہے ہاتھوں ہاتھ کہ<br />

بڑا وٹل ہونے کا


اس کو<br />

شرف حاصل ہے<br />

نظم:‏ ہاتھوں ہاتھ<br />

.....................<br />

ہڈیاں<br />

فارسفورس کی کانیں ہیں<br />

یہودی لبی کےگلے ہیں<br />

بٹنوں کی بہت ضرورت ہے<br />

نظم:‏ سورج دوزخی ہو گیا تھا<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

کوہ نور ہیرا لے گیے تھے وہ<br />

کعبہ بھی لے جائیں گے اب<br />

رک نہ جائیں کہیں<br />

شراب و شبابکے<br />

خوصگوار سلسلے<br />

نظم:‏ سلسلے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔<br />

جب سے مل ہوں تجھ کو<br />

سوچ نے قرض پہن لیا<br />

ہونٹ منجمد ہیں مرے<br />

ہائیکو<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔<br />

بیس تیس پچاس<br />

جمہوریت<br />

خبر مجذوب کی بڑ<br />

نظم:جمہوریت<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

ووٹوں کے مانگت<br />

تقاضوں کے قاتل ہیں<br />

نظم:‏ یہاں سب قاتل ہیں<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

پاگل ہو تم


اخلص اور الفت کی باتیں<br />

ووٹ کی باتیں ہیں<br />

نظم:‏ آنکھوں دیکھے موسم<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

ضمنی الیکشن میں لوگوں کی قسمت جاگی<br />

گھرکی کے مرنے سے یہ معلوم ہوا ہے<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

فقیروں کی بستی میں<br />

کچھ ووٹ کے شخص ہیں<br />

کچھ نوٹ کے شخص ہیں<br />

کچھ ربوٹ سے شخص ہیں<br />

.......................<br />

گریب کی بٹیا<br />

ڈولی چڑھے کیونکر<br />

گربت کے کینسر میں مبتل ہے<br />

نظم:‏ بنیاد پرست<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔


دیا اور کرپا کے سب جذبے<br />

شوگر کو ناءٹروکولین ہیں<br />

نظم:‏ یہاں سب قاتل ہیں<br />

......................<br />

قطر برید سے پہلے<br />

کل نفس کا انجکشن<br />

لالہ کا وٹمن<br />

حبل الورید میں رکھ دو<br />

نظم:‏ دروازہ کھولو<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔<br />

کلکیریا فلور کے فطرے<br />

لیزر شاعیں<br />

ان کے بھیجے کی<br />

پیپ آلودہ گلٹی کا تریاق نہہیں ہیں<br />

دروازہ کھولو<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔<br />

تقسیم کا در


جب بھی کھلتا ہے<br />

لٹ کے دفتر کا منشی<br />

بارود کا مالک<br />

پرچی کا مانگت<br />

عطا کے بوہے<br />

بند کر دیتا ہے<br />

نظم:‏ سورج ڈوب رہا ہے<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔<br />

پنڈٹ اور فادر<br />

ہاں ناں کے پل پر بیٹھے<br />

توتے کو فاختہ کہتے ہیں<br />

نظم:‏ سورج ڈوب رہا ہے<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔<br />

آس کا ہر جذبہ<br />

یہی کہتا ہے<br />

ہر پل


سبز ہوں کہ نیلے<br />

ڈالر کھیسے کی زینت رہیں<br />

نظم:‏ کھیسے کی زینت<br />

...............<br />

وہ تصویر<br />

مرے خون سے جو مرتب ہوئ تھی<br />

اشکوں میں ڈوبی<br />

کہہ رہی تھی<br />

"<br />

‏"پاپا جہیز<br />

ہاتھ میں<br />

کاغذ کا ایک ٹکڑا بھی تھا<br />

نظم:‏ کاغذ کا ٹکڑا<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

ہم تو<br />

حنوط شدہ ممیاں ہیں<br />

رگوں میں لہو کب


کیمیکل دوڑتا ہے کہ<br />

آکسیجن جلتی نہیں<br />

جلنے میں معاون ہے<br />

نظم:‏ سورج دوزخی ہو گیا تھا<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔<br />

امن<br />

اس روز شہر میں کرفیو تھا<br />

نظم:برسر عدالت<br />

....................<br />

تصب کی آنسو گیس کا ہالہ<br />

پتھر اور کدال لیے<br />

بڑھ رہا ہے<br />

انسان کی حرمت مٹانے کے لیے<br />

نظم:‏ وہ کہاں ہے؟<br />

....................<br />

جمہوریت کا ذکر چلتا ہے تو


غیر ملکی ایجنٹ غنذہ عناصر<br />

نظم:‏ کہتے ہو<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

جب انرجی ہے ناکام رہا ہوں<br />

کل کی کوئ کل<br />

کب کس نے دیکھی ہے<br />

نظم:‏ جال<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

مقصود حسنی بطورL تجزیہ نگار<br />

‏:از<br />

پروفیسر نیامت علی مرتضائی<br />

کچھ لوگوں کا وجود ہر کسی کے لئے مسعود ہوتا<br />

ہے۔ وہ ما ہ و مہر کی طرح ہر کسی کو نہ صرف نور


بانٹے ہیں بلکہ ان کی ہر طرح سے رہنمائی بھی<br />

کرتے ہیں۔ ان کے اندر آبL حیات کے ایسے چشمے<br />

ابلتے ہیں کہ جو بھی ان کی قربت کا جام نوش کرتا<br />

ہے عمرL جاوداں کا سرور پاتا ہے۔ آسمانL علم و ادب<br />

کا ایک ایسا ہی تابندہ ستارہ مقصود حسنی کے نام<br />

سے عالمی سطح پر اپنی کرنیں بکھیر رہا ہے۔وہ را Lہ<br />

ادب کے ہزاروں تشنہ لبوں کی منزلL مقصود ہیں۔ ان<br />

کی ادبی زندگی کا سفر نصف صدی سے زیادہ عرصے<br />

پر محیط ہے جس میں انہوں نے اپنی ذہانت کے<br />

تیشے کو فرہاد کے جذبے سے آشنا رکھ کر ادب کے<br />

کوہL گراں سے جوئے شیر نکالنے کی بامراد سعی<br />

فرمائی ہے۔انہوں نے اردو ادب کا دامن نت نئے<br />

موضوعات اور اصناف سے بھرنے کے ساتھ ساتھ<br />

بہت سے دوسرے شہسوارانL ادب کے لئے خضرL راہ<br />

کا کام بھی کیا ۔ علوہ ازیں انہوں نے تنقید جیسے<br />

حساس اور سائنس مزاج میدان میں بھی اپنا لوہا<br />

منوایا ہے۔<br />

بل شبہ تنقید ایک مشکل فیلڈ ہے۔ اس میں جانبداری<br />

سے اپنا دامن بچانا مشکل ہی نہیں بعض اوقات نا<br />

ممکن بھی ہو جاتا ہے۔ ’سچ آکھیاں بھانبڑ مچدا اے‘‏<br />

کی مصداق یہ صنفL ادب بہت سوں کو سچ کے قریب<br />

پھٹکنے کی اجازت بھی نہیں دیتی۔ اور وہ کسی تعلق


کے محور کے گرد ایسے گھومتے ہیں کہ تنقید بچاری<br />

ہاتھ ملتے رہ جاتی ہے۔قاضی کا عہدہ اگر انصاف کیا<br />

جائے تو سولوں کی سیج سے کسی طرح بھی کم نہیں<br />

ہوتا اور اگر نا انصافی کرنی ہو اس جیسی موج بھی<br />

کہیں نہیں ملتی۔مقصود حسنی نے پہل رستہ اپنایا ہے۔<br />

جس میں تنقید کا اصل کردار زندہ رہتا ہے یعنی کسی<br />

چیز کو اس کی اچھائی،‏ برائی کے ساتھ بیان کرنا۔<br />

اگرچہ تکریمL انسانیت ان کا مذہب ہے لیکن وہ کسی<br />

ادب پارے کی تعریف و تحسین نا مناسب انداز میں<br />

کرنے سے مکمل طور پر اجتناب برتتے ہیں۔ وہ اصول<br />

رکھتے ہیں کہ تنقید کی حیثیت امانت جیسی ہے اس<br />

میں نا جائز تعریف یا تنقیص انسان کو توازن اور اعتد<br />

ال سے کوسوں دور کر دیتی ہے۔<br />

وہ جہاں تخلیق کے میدان میں سیمابی مزاج کے مالک<br />

ہیں وہاں تنقید میں بھی وہ کسی منزل کو آخری منزل<br />

نہیں سمجھتے۔ اگرچہ وہ بہت سی منازل طے کر<br />

چکے ہیں لیکن وہ اکتفا کہیں بھی نہیں کر رہے۔ اور<br />

کسی تخلیق یا تنقید کو اپنی آخری پیش کش نہیں<br />

گردانتے۔ کیوں کہ وہ یہ کام اس لئے نہیں کرتے کہ ان<br />

کا مزاج ادبی ہے بلکہ وہ یہ کام اس لئے کرتے ہیں<br />

کہ ان کی روح ادبی ہے جو کہیں تھک کر بیٹھ جانے<br />

کی قائل نہیں۔ان کی انتھک کاوش ہی کا ثمر ہے کہ آج


ان پر کتنے ہی ایم فل اور پی ایچ۔ڈی کے مقالے ہو<br />

رہے ہیں۔ ان کا کام صرف یہ نہیں کہ مقدار میں قارون<br />

کا خزانہ لگتا ہے بلکہ تخیل اور معیار میں بھی حاتم<br />

طائی کی سخاوت سے فزوں تر ہے۔ یہ سب کرشمے<br />

ان کی بے تاب روح کے ہیں جو ان کے ذہن کو نت<br />

نئے خیالت سے لبریز رکھتی ہے اور ان کا ذہن ، ان<br />

کے قلم کو محوL پرواز رہنے پر راضی رکھتا ہے۔<br />

لکھنا ان کی زندگی ہے۔ وہ لکھے بغیر وقت گزارنا<br />

معیوب سمجھتے ہیں۔<br />

وقت کا تقاضا ہے کہ اس گلوبل ولیج یا عالمی گاؤں<br />

کے معیاراتL تحقیق و تنقید سے بھی واقفیت حاصل ہو<br />

۔ جن سے شناسائی کے بغیر بات مشرق و مغرب میں<br />

یکساں طور پر پذیرائی مشکل ہے۔آج کی سوچ اورا<br />

ادراک علقائی نہیں بلکہ بین القوامی ہیں۔ اس لئے<br />

آج کے شعور کو مشرق و مغرب کی تفہیم رکھنا نا<br />

گزیر ہے۔ مقصود حسنی اس حقیقت سے کئی سال<br />

پہلے ہی آگاہی حاصل کر چکے تھے۔ انہوں نے مشرق<br />

کے ساتھ ساتھ مغرب کا بھی بھرپور مطالعہ کیا ہے۔<br />

اور اس طرح وہ صراطL مشرقین و مغربین ہیں۔ ان کی<br />

تجزیاتی اپروچ انہی افقوں سے ابھرتی ہوئی نصف<br />

النہار تک جا پہنچتی ہے جہاں ان سے اختلف کی<br />

گنجائش تو رہ سکتی ہے لیکن انکار کی گنجائش نہیں


رہتی۔<br />

ان کی تجزیاتی تحریریں قریباø قریباø ہر اس صنف پر<br />

ہیں جن کو ادب ایک صنف کا درجہ دیتا ہے۔ وہ<br />

شاعری اور نثر دونوں میں کمال کی مہارت اور<br />

بصیرت رکھتے ہیں۔اگرچہ کسی ایک صنف کا نقاد اس<br />

میں کہنہ مشق ہو کر ایک بہتریب رائے قائم کرتا ہے،‏<br />

لیکن مقصود حسنی کا کمال یہ ہے کہ وہ ہر صنف میں<br />

ہی کہنہ مشق اور با کمال لگتے ہیں۔ وہ نثرپاروں کی<br />

تجزیاتی توجیح کر رہے ہوں یا شاعری کی رمز آفرینی<br />

سے حظ اٹھا رہے ہوں ان کی باریک نگاہی سے کسی<br />

عیب و ہنر کا بچ نکلنا محال ہے۔ وہ سرسری بات میں<br />

بھی گہرائی تک رسائی کی دسترس رکھتے ہیں۔ اور<br />

جب وہ کسی ادبی کاوش کو تجزیہ نگاری کی خوردبین<br />

میں دیکھ رہے ہوتے ہیں تو ان کا فوکس کوئی ایک<br />

نقطہ یا مرکز نہیں ہوتا وہ اس ادب پارے کو ماضی ،<br />

حال اور مستقبل ہر زاویئے سے پرکھنے اور جانچنے<br />

کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔<br />

کی سی حیثیت رکھتا (tannar) ایک نقاد ایک ٹینر<br />

ہے وہ اس ادب پارے کی کھال سے جیسے چاہے<br />

چمڑے تیار کر سکتا ہے ۔ وہ اس کو جیسے چاہے<br />

رنگوں میں ڈھال کر دکھا سکتا ہے۔ لیکن یہ مہارت ہر


ٹینر میں نہیں ہوتی۔ مقصود حسنی کا بل شبہ ایسا<br />

دباغ کہا جا سکتا ہے جو کسی ادب پارے کی جیسی<br />

چاہے تجزی کر کے دکھا سکتا ہے۔ لیکن ایک بات<br />

ضرور ہے کہ وہ امانت اور دیانت کا دامن ہاتھ سے<br />

کسی قیمت پر نہیں چھوڑتے۔ وہ اپنے مخالف خیال<br />

لوگوں کی تخلیقات کو بھی انہی عدسوں کے ذریعے<br />

پرکھتے ہیں جن عدسوں سے وہ اپنے ہم خیال احباب<br />

کی تحریروں پر اظہارL خیال کرتے ہیں۔ان کے میزانL<br />

عدل ان کو غیر معقول کرنے ہی نہیں دیتا ۔ ان کی<br />

طرف سے کہی یا لکھی جانے والی ہر بات اپنے ساتھ<br />

معقولیت اور توازن رکھتی ہے۔وہ ضرورت سے زیادہ<br />

ایک لفظ کا استعمال بھی ادبی فضول خرچی سمجھتے<br />

ہیں اوراس سے مکمل اجتناب کرتے ہیں۔وہ جو اصول<br />

و ضوابط اپنی تحریروں پر نافذ کرتے ہیں انہیں<br />

دوسروں کی تخلیقات میں بھی تلش کرتے ہیں۔ وہ<br />

دوہرے معیار سے کام لینے کے قائل نہیں۔<br />

ان جائزوں سے یہ بات قاری پر یوں منکشف ہوتی<br />

ہے جیسے صبح کا اجالاپنے آپ کو منوا تاہے۔ان کے<br />

جائزے حوصلہ شکنی کی ڈگر پر نہیں چلتے بلکہ وہ<br />

بڑوں کا احترام اور چھوٹوں سے محبت کی پالیسی<br />

اختیار کرتے ہوئے تنقید کا کٹھن فریضہ انجام دیتے<br />

ہیں۔ وہ ادب پرور اور ادب افزاتجزیہ نگار ہیں۔ وہ


اصلح برائے بقا نہ کہ اصلح برائے فنا کے علمبردار<br />

ہیں۔ ان کے ادبی جائزوں نے بہت سوں میں نیا جوش<br />

و خروش لیکن پہلے سے زیادہ ہوش کے ساتھ پیدا<br />

کیا ہے۔ وہ کسی نووارد کا رستہ مسدود نہیں کرتے<br />

بلکہ اسے ایک گھنے برگد کی چھاؤں میں بیٹھ کر<br />

اپنی صلحیتوں کو چار چاند اور اپنے تیشہء تخلیق کو<br />

نئے پیکر تراشنے کا بھرپور موقع فراہم کرتے ہیں۔<br />

ان کے تجزیئے اپنی زبان کے لحاظ سے بھی قابلL<br />

تعریف ٹھہرتے ہیں۔ وہ زبان کو کبھی بھی قاری کا<br />

مسئلہ نہیں بننے دیتے اور نہ ہی اسے عامیانہ ہونے<br />

کی کھلی چھٹی دیتے ہیں۔ وہ ایسی نپی تلی زبان کا<br />

استعمال کرتے ہیں کہ ادب کی حلوت بھی رہتی ہے<br />

اور ابلغ کا فریضہ بھی ادا ہوتا ہے۔وہ پر کاری سے<br />

بھری سادگی کا خوب استعمال کرتے ہیں کہ<br />

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا<br />

ادب کے ساتھ ساتھ ادبی حلقوں میں ایک اور اجنبی<br />

مانوس ہوتا جا رہا ہے۔ اور اس اجنبی کا عام تعارف<br />

لسانیات کے نام سے کروایا جاتا ہے۔ مقصود حسنی<br />

کی دور رس نگاہوں نے بہت پہلے ہی اس اجنبی کے<br />

قدموں کی چاپ سن لی تھی اور اسے شیشے میں<br />

اتارنے کی بھرپور کوشش بھی کر لی تھی اور کسی


حد تک اتار بھی لیا تھا۔ انہوں نے لسانیات کے میدان<br />

کو بھی اپنے فیض سے محروم نہیں رکھا۔بلکہ اس<br />

میں بہت سا کام کر دکھایا اور اپنے ہم عصروں کو<br />

ورطہء حیرت میں ڈال دیا کہ وہ یہ بھی کر سکتے<br />

ہیں۔ یہی نہیں انہوں نے لسانیاتی تجزیئے بھی کر<br />

ڈالے اور ادب پاروں کی لسانیات پر یوں کھل کر بات<br />

کی کہ ادب کی بہت سی نام نہاد بڑی شخصیات انگشت<br />

بہ دنداں ہو گئیں۔ ان کے لسانی تجزیئے لسانیات پر<br />

کام کرنے والوں کے لئے مینارL نور ہیں ۔<br />

الغرض مقصود حسنی کے ادبی اور لسانی تجزیوں<br />

کے جائزے سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ<br />

اپنے اندر ایک اچھے نقاد سے زیادہ ایک اچھا انسان<br />

رکھتے ہیں۔ وہ عیب چھپاتے ہیں لیکن کسی کا حق<br />

نہیں مارتے۔ وہ تجزیئے میں مروت کا دامن بھی<br />

تھامے رکھتے ہیں۔وہ اصول و ضوابط کی حرمت کو<br />

پامال نہیں کرتے لیکن انسان کو ان سے بال تر بھی<br />

سمجھتے ہیں۔ وہ لفظ کوشخص کا تابع قرار دیتے ہیں۔<br />

وہ ادب اور انسانیت کو ایک قرار دیتے ہیں بلکہ<br />

انسانیت کو ادب پر ترجیح دیتے ہیں اور یہی اصول وہ<br />

اپنے تجزیوں میں بھی اپلئی کرتے نظر آتے ہیں۔<br />

...................


سائیں جیوے شال سدا سکھی پئے وسو<br />

پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی علم تے ادب دا ہک<br />

سورج اے جس دیا لٹان نال پوری دنیا منور ہو گئی<br />

اے ۔تساں ایہہ مضمون لکھ کے دنیا دے ہک مہان<br />

لکھاری نو چنگا خرج تحسین پیش کیتا اے ۔ا کریم<br />

تسانوں ایس دا اجر عظیم عطا فرمائے۔پاکستاب تے<br />

باہر دے ملکاں وچ ایس اچے پدھر دے لکھاری بارے<br />

کسے رعارد دی ضرورت نہیں۔ہزار توں ودھ مضمون<br />

لکھن ول تے پنجاہ تو ودھ کتاباں دا مصنف ساڈ ا مان<br />

تران اے۔<br />

ایسا کہاں سے لئیں کہ تجھ سا کہین جسے<br />

میں تے ایہہ گل کراں گا<br />

کون ستارے چھو سکتاہے<br />

راہ مین سانس اکھڑ جاتی ہے<br />

By: Sujawal Khan,<br />

D.G.Khan<br />

on Jan, 12 2016<br />

tosaan de khlous mohabat tay ais<br />

bharvein tovajo da shukarriya ada


karna mushkil ee naein na'momkin vi<br />

ay. maray tay lissay banday wal<br />

tohaday jay vaday zaraf walay bandy<br />

ee tovajo kar sakday ne. dua ay: Allah<br />

sohna tohanoon ki khush rakhe tay<br />

kisay da vi mahtaj na karay. Ohdi<br />

janab tohanoon rang bhag laee<br />

rakhe.<br />

By: maqsood hasni,<br />

kasur<br />

on Jan, 20 2016<br />

Thank you Sir .It is your wisdom and<br />

greatness that you gave your wise<br />

opinion on my humble<br />

comments.You are a legend of world<br />

literature<br />

سجاول خاں<br />

ڈی جی خاں<br />

By: sujawal Khan,<br />

D.G Khan on Jan,


20 2016<br />

میڈا سائیں جہوندے رہو تے پل پل سکھاں دے نال<br />

پئے وسو<br />

السلم علیکم<br />

پیر تے مرشد پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی ادب<br />

دی کہکشاں دا لٹاں ماردا خورشید اے۔ غالبیات<br />

اقبالیات،‏ افسانے،‏ تنقید،‏ تحقیق،‏ تدریس تے فلسفہ دے<br />

شعبت وچ پیر ہوراں دے اشہب قلم دیاں جولنیاں تو<br />

ساری دنیا واقف اے۔ میڈے گویڑ وچ ایہہ گل آندی اے<br />

کہ سائیں ہوریں قصور دے اسلمیہ کالج وچ اردو دے<br />

استاد سن۔ اوہناں کے شاگرد اپنے محسن استاد دا ذکر<br />

بہوں عقیدت نال کر دے نیں،‏ ٹورنٹو وچ اوہناں دی<br />

ہک مداح ملی،‏ جہڑی اوہناں دیاں لکھتاں انٹرنیٹ تے<br />

مطالعہ کردی سی۔ میں وی ایہہ لکھتاں پڑھیاں نیں۔<br />

چودہ طبق روشن ہو جاندے نیں۔ روشن خایل،‏ جدت،‏<br />

تنوع،‏ حریت فکر،‏ حریت ضمیر دا ایہہ بلند معیار<br />

میکوں بھا گیا۔ میڈے ولوں ڈھیر مبھارکھاں۔ مضمون<br />

بہوں چنگا لگا اے۔ سچ لکھیا ای بھراوا<br />

توں اج دا گامن سچیار<br />

تیرے منھ وچ گھیو تے کھنڈ


عمر دراز ہووی شال سدا شاد،‏ آباد تے آزاد پیا وسیں<br />

او سوہنا سانول۔ دل خوش کر دتا ای۔<br />

شیر خاں<br />

ٹورنٹو<br />

By: sher Khan,<br />

Toronto<br />

on Jan, 20 2016<br />

Alsalam o Alaikum<br />

It is my good fortune that I had an<br />

opportunity to talk about a great<br />

legend of world literature. Dr. Prof<br />

Syyed Maqsood Hasni is a great critic<br />

of linguistics.He inaugorated a<br />

wonderful polyphonic signifier to<br />

understand Ghalib. He rejected older<br />

terminology of criticism.The methods<br />

of literary scholarship introduced by<br />

this great scholar will be remembered<br />

for ever. I think respected critic<br />

believes in dialectical materialism.<br />

His services for bringing awareness


about synthesis of philosophical<br />

orientation of style ,discourse and<br />

language is worth mentioning.The<br />

mastery of material diversity in this<br />

article has impressed me. I pray for<br />

you. Pay my complements to the<br />

great legend of linguistics Dr.<br />

Prof,Syyed Maqsood Hasni. May God<br />

Almighty bless you all. Thank you<br />

very much sir, I appreciate your<br />

genius.<br />

By: Snober Khan,<br />

Rangoon<br />

on Jan, 21 2016<br />

http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?<br />

id=70024

Hooray! Your file is uploaded and ready to be published.

Saved successfully!

Ooh no, something went wrong!