Transform your PDFs into Flipbooks and boost your revenue!
Leverage SEO-optimized Flipbooks, powerful backlinks, and multimedia content to professionally showcase your products and significantly increase your reach.
مقصود حسنی کی تخلیقات<br />
اور<br />
اہل قلم کی خامہ فرسائی<br />
پیش کار<br />
پروفیسر نیامت علی مرتضائی<br />
ابوزر برقی کتب خانہ
مارچ 2016<br />
مندرجات<br />
اردو انجمن اور مقصود حسنی کی افسانہ نگاری -1<br />
مقصود حسنی اور برصغیر کا مضافاتی اور مغربی ادب -2<br />
مقصود حسنی کی مزاح نگاری‘ ایک اجمالی جائزہ -3<br />
ڈاکٹر مقصود حسنی بطور ماہر لسانیات -4<br />
مقصود حسنی کی شاعری۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک جائزہ -5<br />
حضرت بلھے شاہ قصوری کی اردو شاعری -6<br />
بلھے شاہ کا مور۔۔۔۔۔۔۔ ایک ادبی تعارف -7<br />
فرہنگ غالب ایک نادر مخطوطہ -8<br />
ڈاکٹر مقصود حسنی بطور ایک اسلمی مفکر اور -9<br />
اسکالر<br />
مقصود حسنی کے تنقیدی جائزے۔۔۔۔۔ ایک تدوینی -10<br />
مطالعہ<br />
مقصود حسنی اور اردو زبان -11
ڈاکٹر مقصود حسنی بطور مترجم -12<br />
مقصود حسنی کی شعری و نثری تخلقات اور اردو -13<br />
انجن کے اہل نقد و نظر<br />
نثر اور شعر کے امتیازات اور لوازمات -14<br />
مقصود حسنی کے چند شعری مرکبات -15<br />
مقصود حسنی کے کلم میں مشرقی تلمیحات کا -16<br />
استعمال<br />
مقصود حسنی کی شاعری میں ہندی تلمیحات کا -17<br />
استعمال<br />
مقصود حسنی کے کلم میں مغربی تلمیحات کا -18<br />
استعمال<br />
مقصود حسنی بطورL تجزیہ نگار -19<br />
پروفیسر ڈاکٹر مقصود حسنی' ایک رجحان ساز ادیب -20<br />
مقصود حسنی اور برصغیر کا مضافاتی اور مغربی ادب
محبوب عالم ۔۔۔۔۔۔۔ قصور<br />
-١<br />
-٣<br />
-٢<br />
-٣<br />
-٥<br />
پروفیسر مقصود حسنی اردو کے جدید وقدیم شعری و نثری<br />
ادب کے مطالعہ تک محدود نہیں ہیں۔ انہوں نے برصغیر<br />
سے باہر بھی دیکھا ہے۔ ان کے ہاں اس ذیل کے مختلف<br />
ذائقے نظر آتے ہیں۔ وہ ان تمام عوامل کا بھی جائزہ لیتے<br />
ہیں جو اس کے بنیادی فکر اور زبان سے تعلق رکھتے<br />
ہیں۔ اس مطالعے کی پانچ صورتیں دیکھنے کو ملتی ہیں<br />
انفرادی<br />
مجموعی<br />
تقابلی<br />
رجحانی<br />
تشریحی اور وضاحتی<br />
اردو ادب سے متعلق ان کی خدمات نمایاں اور مختلف<br />
گوشوں پر پھیلی ہوئی ہیں جنھیں اردوادب کے نامورمحقق<br />
سند پذیرائی عطا کر چکے ہیں۔<br />
برصغیر سے باہر کے ادب کے مطلعہ کی دو صورتیں ہیں
ایشیائی شعر وادب<br />
مغربی شعر وادب<br />
ڈیوڈ کوگلٹی نوف نمائندہ روسی شاعر ہے۔ اس کی شاعری<br />
کے مطلعہ کا باباجی مقصود حسنی کے ہاں حاصل مطلعہ<br />
کچھ یہ ہے<br />
ڈیوڈ شر کے مقابل خیر کی حمایت کا قائل ہے۔ اس کے<br />
نزدیک خیر کی حمایت ہی<br />
حقیقی زندگی ہے۔ خیر کی حمایت کرنے والے بظاہر لمبی<br />
عمر نہیں پاتے۔ دار ورسن ان کا مقدر ہوتا ہے لیکن خیر<br />
کی حمایت میں گزرے لحمے ہی تو ابدیت سے ہم کنار<br />
ہوتے ہیں۔<br />
شعریات شرق وغرب ص٢٢٧<br />
روس میں ترقی پسندی کے نام سے اٹھنے والی تحریک کو<br />
بھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔ اس ذیل میں ایک بھرپور<br />
مقالہ۔۔۔۔۔۔ترقی پسند تحریک۔۔۔۔۔۔ ان کی کتاب تحریکات اردو<br />
ادب میں شامل ہے۔
فینگ سیو فینگ چینی زبان کا خوش فکر شاعر ہے۔ باباجی<br />
مقصود حسنی نے ناصرف اس کی شاعری کا تنقیدی<br />
مطالعہ پیش کیا ہے بلکہ اس کی کچھ نظموں کا ترجمہ بھی<br />
کیا ہے۔ فینگ سیو فینگ کی شاعری کے متعلق ان کا کہنا<br />
ہے<br />
فینگ سیو فینگ کی شاعری کرب ناک لمحوں کی عکاس<br />
ہے۔ اس کے کلم میں جہاں لہو لہو سسکیاں ہیں تو وہاں<br />
امید کے بےشمار دیپ بھی جلتے نظرآتے ہیں۔<br />
روزنامہ نوائے وقت لہور<br />
-٧ اپریل ١٩٨٨<br />
بطور نمونہ ایک نظم کا ترجمہ ملحظہ ہو<br />
شاعر: فینگ سیو فینگ<br />
مترجم: مقصود حسنی<br />
میں بد قسمتی پہ اک نظم لکھنے کو تھا<br />
مری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے<br />
کاغذ بھر گیا
اور میں نے قلم نیچے رکھ دیا<br />
کیا اشکوں سے تر کاغذ<br />
لوگوں کو دکھا سکتا تھا؟<br />
وہ سمجھ پاتے<br />
یہی تو بد قسمتی ہے<br />
زائی زی لیو چینی مصور تھا۔ باباجی مقصود حسنی کواس<br />
کی مصوری نے متاثر کیا۔ انہوں نے اس کےتصویری ورک<br />
کو قدر کی نظر سے دیکھا اوراسے خراج تحسین پیش کیا۔<br />
ان کا اس کی مصوری سے متعلق مضمون رزنامہ مشرق<br />
لہور میں شائع ہوا۔<br />
چین سے باباجی کی فکری قربت کااندازہ ان کے<br />
مضمون۔۔۔۔۔چین دوستی علقہ میں مثبت کردار ادا کر سکتی<br />
ہے۔۔۔۔۔ سے لگایا جا سکتا ہے۔<br />
یہ مضمون روزنامہ مشرق لہور ٩ اپریل<br />
اشاعت میں شامل ہے۔<br />
١٩٨٨ کی<br />
صادق ہدایت فارسی کا ناول نگار تھا۔ اس کے ناول۔۔۔۔ بوف<br />
کور۔۔۔۔۔ کا مطالعہ پیش کیا۔ ان کا یہ مضمون ماہنامہ تفاخر
لہور کے مارچ ١٩٩١ کے شمارے مینشائع ہوا۔<br />
فارسی کے پاکستانی زبانوں پر اثرات۔۔۔۔ تین اقساط میں<br />
اردو نیٹ جاپان پر شائع ہوا۔<br />
-١<br />
-٢<br />
عمر خیام فارسی کے شعری ادب میں نمایاں مقام رکھتا<br />
ہے۔ باباجی نے اس پر بھرپور قسم کا کام کیا ہے۔ یہ کام<br />
چھے حصوں پر مشتمل ہے<br />
عمر خیام سوانح و شخصیت اوراس کا عہد<br />
رباعیات خیام کا تنقیدی و تشریحی مطالعہ<br />
-٣<br />
-٤<br />
رباعیات خیام کے شعری محاسن<br />
عمر خیام کے نظریات واعتقادات<br />
-٥<br />
عمر خیام کا فلسفہءوجود<br />
٦- سہ مصرعی اردو ترجمہ رباعیات خیام<br />
ان کے اس ترجمے کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی نامور اہل<br />
قلم نے اپنی رائے کا اظہار کیا- مثل
ڈاکٹر عبدالقوی ضیا کینیڈا<br />
ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی<br />
ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی<br />
ڈاکٹر ابوسعید نورالدین‘ ڈھاکہ‘ بنگلہ دیش<br />
ڈاکٹراسلم ثاقب‘ مالیر کوٹلہ‘ بھارت<br />
ڈاکٹر اختر علی<br />
ڈاکٹر وفا راشدی<br />
ڈاکٹر صابر آفاقی<br />
ڈاکٹر منیرالدین احمد‘ جرمنی<br />
پروفیسر کلیم ضیا‘ بمبئی‘ انڈیا<br />
پرفیسر رب نواز مائل<br />
پروفیسراکرام ہوشیار پوری<br />
پروفیسرامجد علی شاکر<br />
پروفیسر حسین سحر<br />
پروفیسر عطاالرحمن<br />
ڈاکٹر رشید امجد
ڈاکٹر محمد امین<br />
علی دیپک قزلباش<br />
سید نذیر حسین فاضل<br />
بطور نمونہ ایک رباعی کا ترجمہ ملحظہ ہو<br />
وہ زندگی‘ کیا خوب زندگی ہو گی<br />
مری مٹی سے تعمیر ہو کر<br />
جام‘ جب مےکدے سے طلوع ہو گا<br />
بوعلی قلندر کا اسی دھرتی سے تعلق تھا۔ باباجی نے ان<br />
کی مثنوی کا عہد سلطین کے حوالہ سے مطالعہ کیا۔ ان<br />
کایہ مقالہ پیام آشنا میں شائع ہوا جو بعد ازاں بابا جی کی<br />
کتاب ۔۔۔۔۔شعریات شرق وغرب۔۔۔۔۔۔<br />
کا حصہ بنا۔<br />
اقبال اور علمہ رازی کی فکر۔ کا تقابلی مطالعہ۔۔۔۔۔۔یہ مقالہ<br />
بابا جی کی محنت وکاوش کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
یہ مقالہ اردو انجمن اور کئی دوسرے فورمز پر موجود ہے۔<br />
ان کا ایک مقالہ۔۔۔۔۔عربی کے پاکستانی زبانوں پر اثرات۔۔۔بڑا<br />
شاندار مقالہ ہے اور یہ<br />
www.scribd.com<br />
پر موجود ہے۔<br />
انہوں نے جاپانی آوازوں کے نظام پر تفصیلی مقالہ تحریر<br />
کیا۔ اس مقالے کا کچھ حصہ اردو میں بھی منتقل کیا۔ اصل<br />
مقالہ<br />
www.scribd.com<br />
پر موجود ہے۔ اس کا اردو ترجمہ تین قسطوں میں اردو<br />
نیٹ جاپان پر شائع ہوا۔ اس مقالے کی نگرانی وغیرہ<br />
پروفیسر ڈاکٹر ماسا آکی اوکا نے کی۔ اس مقالے کا اصل<br />
کمال یہ ہے کہ جاپانی آوازوں کے ساتھ برصغیر کی<br />
آوازوں کے اشتراک کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ ہر جاپانی<br />
آواز کے ساتھ اردو کی آوازوں کا موازناتی اوراشتراکی<br />
مطالعہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔<br />
مطلعہ کی پیاس انہیں دور مغرب میں بھی لے گئی۔ باباجی
نے اپنے مطالعہ میں آنے والے اہل قلم کی فکر کو اپنی<br />
آراء کے ساتھ اردو دان طبقے کے سامنے بھی پیش کیا۔<br />
اس حوالہ سے باباجی کو کسی ایک کرے تک محدود نہیں<br />
کیا جا سکتا۔ انہوں نےمغرب کا مطالعہ ارسطو سے شروع<br />
کیا۔۔۔۔ شاعری پر ایک عام اور بالموازنہ نظر۔۔۔۔۔ مقالہ ان<br />
کی کتاب اصول اور جائزے میں شامل ہے۔<br />
مغرب کے مطالعہ کے حوالہ سے ان کے درج ذیل مضامین<br />
قابل ذکر ہیں<br />
ایلیٹ اور ادب میں روایت کی اہمیت۔۔۔۔۔۔مسودہ<br />
شیلے کا نظریہءشعر۔۔۔۔۔۔ مشمولہ شعریات شرق وغرب<br />
جان کیٹس کا شعور شعر۔۔۔مشمولہ شعریات شرق وغرب<br />
شارل بودلیئر کا شعری شعور۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق<br />
وغرب<br />
شارل بودلیئر اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات<br />
شرق وغرب<br />
ژاں پال سارتر اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔مشمولہ شعریات<br />
شرق وغرب<br />
کروچے اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق
وغرب<br />
ورڈزورتھ اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق و<br />
غرب<br />
مغربی اہل سخن پر بات کرتے ہوئے اردو شعرا کے حوالے<br />
بھی درج کرتے ہیں۔ اکثر موازناتی صورت پیدا ہو جاتی<br />
ہے۔ یہ امر بھی غالب رہتا ہے کہ اردو شعر و ادب مغرب<br />
کے شعر ادب سے زیادہ جان دار اور زندگی کے دکھ سکھ<br />
کو واضح کرنے میں کامیاب ہے۔<br />
-١<br />
-٢<br />
باباجی مقصود حسنی مغربی شعر و ادب کا جائزہ لیتے<br />
ہوئے صرف شخصی محاکمے تک محدود نہیں رہتے۔ وہ<br />
مجموعی مطالعہ بھی پیش کرتے ہیں۔ اس ذیل میں ان کے<br />
یہ مقالے قابل توجہ ہیں<br />
مغرب میں تنقید شعر------مشمولہ شعریات شرق و<br />
غرب<br />
ناوریجین شاعری کے فکری و سماجی زاویے------<br />
مشمولہ شعریات شرق و غرب<br />
٣- شاعری اور مغرب کے معروف ناقدین۔۔۔۔۔۔۔۔مسودہ<br />
-٤<br />
اقبال اور مغربی مفکرین---------مسودہ
اکبر اور مغربی تہذیب۔۔۔۔۔روزنامہ وفاق لہور ٢٥-<br />
جولئی<br />
٢٦<br />
١٩٩١<br />
-٥<br />
اکبر اقبال اور مغربی زاویے۔۔۔۔۔ہفت روزہ فروغ حیدرآباد<br />
١٦ جوائی ١٩٩١<br />
شیلے اور زاہدہ صدیقی کی نظمیں۔۔۔۔ ماہنامہ تحریریں لہور<br />
دسمبر ١٩٩٣<br />
انگریزی اور اردو کا محاورتی اشتراک ۔۔۔۔۔سہ ماہی لوح<br />
ادب حیدرآباد اپریل تا جون ٢٠٠٤<br />
جرمن شاعری کے فکری زاویے<br />
باباجی کی یہ کتاب ١٩٩٣ میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب سات<br />
حصوں پر مشتمل ہے۔<br />
اس کی تفصیل کچھہ یہ ہے<br />
ا- جرمن شاعری اور فلسفہء جنگ<br />
ب- جرمن شاعری اور تصور انسان<br />
ج- جرمن شاعری کا نظریہء محبت<br />
د۔ جرمن شاعری کا نظریہءزندگی<br />
ھ- جرمن شاعری اور فلسفہءفنا<br />
و۔ جرمن شاعری اور امن کی خواہش
ظ- جرمن شاعری اور انسانی اقدار<br />
جرمن قوم کے حوالہ سے ان کا ایک مضمون بعنوان جرمن<br />
ایک خودشناس قوم‘ کے نام سے روزنامہ مشرق لہور کی<br />
اشاعت ١٩٨٨ میں شائع ہوا۔ اس سے اندازہ ہوتا<br />
کہ وہ جرمن قوم کو فکری اعتبار سے کس قدر اپنے قریب<br />
محسوس کرتے تھے۔<br />
٥ مئی<br />
اس کے علوہ بابا جی مقصود حسنی نے مغربی ادب میں<br />
اٹھنے والی معروف تحریکوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا۔<br />
اس حوالہ سے ان کی کتاب تحریکات اردو ادب میں حسب<br />
ذیل مقالے موجود ہیں۔ یہ کتاب ١٩٩٧ میں شائع ہوئی۔<br />
شعور کی رو اور اردو فیکشن<br />
فطرت نگاری اور اردو فیکشن<br />
علمتی تحریک اور اردو شاعری<br />
امیجزم اور اردو شاعری<br />
ڈاڈا ازم اور اردو شاعری<br />
سریلزم اور اردو شاعری<br />
نئی دنیا اور رومانی تحریک
وجودیت ایک فلسفہ ایک تحریک<br />
ساختیات کے حوالہ سے باباجی نے بہت کام کیا ہے۔ دو<br />
مقالے ان کے پی ایچ ڈی کے مقالہ میں موجود ہیں جب کہ<br />
ایک مقالہ ان کی کتاب۔۔۔۔۔زبان غالب کا لسانی و ساختیاتی<br />
مطالعہ۔۔۔۔۔۔ میں موجود ہے۔ مقالہ پی ایچ ڈی اور<br />
کتاب۔۔۔۔۔زبان غالب کا لسانی و ساختیاتی مطالعہ۔۔۔۔۔۔ میں<br />
نشانیات غالب کا ساختیاتی مطالعہ بھی پیش کیا گیا ہے۔<br />
حضرت بلھے شاہ قصوری کا اردو کلم علیحدہ کرتے<br />
ہوئےانہوں نے حضرت بلھے شاہ قصوری کی زبان کا<br />
لسانی مطالعہ پیش کیا ہے۔ ان کے اس مطالعے کو ڈاکٹر<br />
محمد امین نے کسی شاعر کا باقاعدہ پہل ساختیاتی مطالعہ<br />
قرار دیا ہے۔<br />
اردو شعر- فکری و لسانی رویے<br />
١٩٩٧ ص ١١٥<br />
باباجی مقصود حسنی کی کتاب اردو میں نئی نظم مغربی<br />
شاعری کے تناظر میں قلم بند ہوئی۔ اس میں ایک طرح<br />
سے مغربی نظم اور اردو نظم کا تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا
ہے۔ ان کی یہ کتاب مئی ١٩٩٣ میں شائع ہوئی۔<br />
منیرالدین احمد ایک اردو افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوں<br />
کی زبان اردو ہے لیکن مواد یہاں کی معاشرت سے متعلق<br />
نہیں ہے۔ کردار ماحول مکالمے نقطہءنظر وغیرہ قطعی<br />
الگ تر ہیں۔ اس ضمن میں باباجی نے منیر کا حوالہ بھی<br />
کوڈ کیا ہے جو کتاب کے پیش لفظ میں موجود ہے۔ منیر کا<br />
کہنا ہے: اردو میں لکھے جانے والے یہ جرمن افسانے<br />
ہیں جو جرمن روایت کے تحت لکھے گئے ہیں۔ گویا سب<br />
کچھ جرمن ہے۔ منیرالدین احمد کے افسانوں سے متعلق<br />
باباجی کی کتاب۔۔۔۔منیرالدین احمد کے افسانے- تنقیدی<br />
جائزہ میں شائع ہوئی۔ ابتدا میں منیرالدین احمد کے<br />
دس نمائندہ افسانوں کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کے بعد<br />
تین عنوان قائم کئےگئے ہیں<br />
١٩٩٥<br />
منیر کے چند افسانوی کردار<br />
منیر کے افسانوں میں ثقافتی عکاسی<br />
منیر اپنے افسانوں میں<br />
منیرالدین احمد کےافسانوں کا مطالعہ گویا جرمن افسانوں<br />
کا مطالعہ ہے۔
باباجی کی ان کاوش ہا کے متعلق معروف اسکالر ڈاکٹر<br />
سعادت سعید کا کہنا ہے: مقصود حسنی نے معاصر مغرب<br />
کے نظریاتی تنقیدی جوہروں سے گہری شناسائی رکھنے کا<br />
مظاہرہ بھی کیا ہے۔ اس پس منظر میں یہ یاد رکھنا چاہیے<br />
کہ وہ ادب شناسی کے حوالے سے مشرق و مغرب کی<br />
تفریق کو کار عبث جانتے ہیں۔ نئی مغربی تنقید کے پس<br />
پشت جو عوامل کار فرما ہیں ان کا بھی انھیں بخوبی اندازہ<br />
ہے۔ یوں انہوں نے پوسٹ کلونیل یا مابعد نوآبادیاتی تنقید<br />
کے میکانکی رویوں سے نسبت رکھنے سے زیادہ اپنے<br />
مشرقی علم بیان کی سحر انگیریوں پر توجہ دی ہے۔ اس<br />
تناظر میں مقصود حسنی کی تاثراتی اور اظہاری تنقید کو<br />
پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ جس میں ان کے شعری و<br />
ادبی ذوق کے عکسی مظاہرے موجود ہیں۔ اردو نیٹ جاپان‘<br />
٧ جنوری ٢٠١٤<br />
ان کے اس نوعیت کے مطلعے سےمتعلق بہت سے اہل قلم<br />
نے قلم اٹھایا۔ چند ایک اندراج کر رہا ہوں<br />
آشا پربھات<br />
ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری<br />
ڈاکٹر ابوسعید نورالدین
ادیب سہیل<br />
پروفیسرامجد علی شاکر<br />
ڈاکٹر بیدل حیدری<br />
پروفیسر رب نواز مائل<br />
پروفیسر حفیظ صدیقی<br />
ڈاکٹر سعادت سعید<br />
شاہد حنائی<br />
ڈاکٹر صابرآفاقی<br />
ڈاکٹر صادق جنجوعہ<br />
علی دیپک قزلباش<br />
ڈاکٹر قاسم دہلوی‘ دہلی<br />
پروفیسر نیامت علی<br />
ڈاکٹر مظفر عباس<br />
ڈاکٹر منیرالدین احمد‘ جرمن<br />
ندیم شعیب<br />
ڈاکٹر وفا راشدی
ڈاکٹر وقار احمد رضوی<br />
پروفیسر یونس حسن<br />
درج بال تفصیلت سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ<br />
باباجی مقصود حسنی اپنی تحقیقی اور تنقیدی بصیرت کے<br />
سبب ہمہ وقت مختلف ادبی کروں کے نمائندہ حرف کار ہیں۔<br />
ہر کرے میں ان کی ایک شناخت وجود پذیر ہوتی ہے۔ اسی<br />
تناظر میں انہیں ادب کی دنیا کا لیجنڈ قرار دینا‘ کسی بھی<br />
حوالہ سے غلط نہ ہو گا۔ آتے کل کو ان کی ادبی شناخت<br />
کے لیے مروجہ اور مستعمل پیمانوں سے انحراف کرنا<br />
پڑے گا۔<br />
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?<br />
id=51087<br />
مقصود حسنی کی مزاح نگاری‘ ایک اجمالی جائزہ<br />
محبوب عالم۔۔۔۔۔۔۔۔قصور
پروفیسر مقصود حسنی ادبی دنیا میں ایک منفرد نام و مقام<br />
رکھتے ہیں۔ وہ یک فنے نہیں ہیں بلکہ مختلف اصناف ادب<br />
میں کمال رکھنا ان کا طرہءامتیاز ہے۔ طنز و مزاح بھی ان<br />
کی دسترس سے باہر نہیں رہا۔ اکثر مزاح نگار تحریر کے<br />
عنوان سے ہی عیاں ہو جاتا ہے کہ اس تحریر میں مزاح کا<br />
مواد کس نوعیت کا رہا ہو گا۔ باباجی مقصود حسنی کے ہاں<br />
یہ چیز شاز ہی ملتی ہے۔ عنوان سے قطعی اندازہ نہیں ہو<br />
پاتا کہ تحریر میں کس موضوع کو زیر بحث لیا گیا ہو گا۔<br />
ان کے ہاں مزاح بھی سنجیدہ اطوار لیے ہوئے ہے۔ گویا<br />
قاری حیرانی میں حظ اٹھاتا ہے۔ وہ ورطہءحیرت میں مبتل<br />
ہو جاتا ہے کہ مصنف نے طنز کا شائبہ بھی ہونے نہیں<br />
دیا‘ پھر گدگدا بھی دیا ہے۔ سنجیدگی سے بات کرتے کرتے<br />
لطیفہ کرنے کا فن انہیں خوب آتا ہے۔ روزمرہ یا پھر<br />
شائستہ سا ایس ایم ایس کا استعمال بخوبی جانتے ہیں۔ بات<br />
سے بات نکالنے کے فن پر انہیں بلشبہ ملکہ حاصل ہے۔<br />
کسی عوامی محاورے یا مرکب سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔<br />
یہ محاورے یا مرکب‘ کسی نہ کسی سماجی رویے کے<br />
عکاس ہوتے ہیں۔<br />
لفظ‘ پروفیسر مقصود حسنی کے ہاتھوں میں دیدہ زیب
کھلونوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ لفظوں کو مختلف تناظر<br />
میں استعمال کرکے نئے مفاہیم دریافت کرتے ہیں۔ لفظوں<br />
کے استعمال کی یہ صورت غالب کے بعد کسی کے ہاں<br />
پڑھنے کو ملتی ہے۔ وہ غالب کے معنوی شاگرد بھی ہیں۔<br />
ان کے مزاح میں زندگی متحرک نظرآتی ہے۔ وہ اپنے<br />
اردگرد کو بڑے غور سے دیکھنے کے عادی ہیں۔ وہ<br />
متحرک زندگی کو اپنے فکری ردعمل کے ساتھ پیش کرتے<br />
ہیں۔ ان کے اسلوب سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ<br />
کب اور کس وقت طنز کا کوئی تیر چھوڑ دیں گے۔<br />
معاشرتی خرابیاں ان کا موضوع گفتگو رہتی ہیں۔ وہ اپنے<br />
مزاج کے ہاتھوں مجبور نظر آتے ہیں۔ دفتر شاہی بھی ان<br />
کے طنز سے باہر نہیں رہی۔ پروفیسر مقصود حسنی کسی<br />
بھی موضوع پر قلم کو جنبش دیتے وقت حالت و واقعات کا<br />
ایسا نقشہ کھنچتے ہیں کہ معاملے کے جملہ پہلو آنکھوں<br />
کے سامنے گھومنے لگتے ہیں۔ ان کی کسی تحریر کو<br />
پڑھتے وقت قاری کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ پڑھ رہا<br />
ہے یا دیکھ رہا ہے۔<br />
باباجی مقصود حسنی زندگی کے خانگی حالت و واقعات کو<br />
بھی نظر انداز نہیں کرتے۔ وہ دہلیز کے اندر کے
موضوعات پر گفتگو کرکے شخص کی خانگی حیثیت اور<br />
کارگزاری پر بھی بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔ اس انداز سے<br />
کہہ جاتے ہیں کہ قاری کو ہر ممکن لطف میسر آتا ہے۔<br />
خانگی حالت و واقعات بیان کرتے وقت وہ صیغہ متکلم<br />
استعمال کرتے ہیں حالنکہ ایسے مزاح کا ان کی ذات سے<br />
دور دور تک تعلق نہیں ہوتا۔ بعض تحریریں فرضی ناموں<br />
کے ساتھ بیان کرکے اپنے فن کو کمال درجہ تک لے جاتے<br />
ہیں۔<br />
باباجی مقصود حسنی کی مزاح نگاری کو روایتی قرار نہیں<br />
دیا جا سکتا۔ انھوں نے روایت سےبغاوت کرکے نیا طرز<br />
اظہار دریافت کیا ہے۔ مزاح اور سنجیدگی دو الگ سے طرز<br />
اظہار ہیں۔ سنجیدگی سے مزاح کا اظہار متضاد عمل ہے<br />
لیکن یہ ان کے ہاں ملتا ہے۔ اس لیے یہ بات دعوعے کے<br />
ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ وہ سنجیدگی میں مزاح لکھتے<br />
وقت نئی زبان بھی متعارف کرواتے ہیں۔<br />
اس مختصر سے جائزے سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے<br />
کہ باباجی مقصود حسنی کی مزاح نگاری اردو ادب میں<br />
انفرادیت کی حامل ہے جو اب تک اردو کے کسی دوسرے<br />
مزاح نگار کے حصہ میں نہیں آ سکی کیونکہ روایت کی
پاسداری کرنے والے انفرادیت کے دعوی دار نہیں ہو<br />
سکتے۔<br />
ان کی مزاح نگاری کے چند نمونے ملحظہ ہوں<br />
ایک پکی پیڈی بات ہے کہ چوہا بلی سے‘ بلی کتے سے‘<br />
کتا بھڑیے سے‘ بھیڑیا چیتے سے‘ چیتا شیر سے‘ شیر<br />
ہاتھی سے‘ ہاتھی مرد سے‘ مرد عورت سےاورعورت<br />
چوہے سے ڈرتی ہے۔ ڈر کی ابتدا اور انتہا چوہا ہی ہے۔<br />
میرے پاس اپنے موقف کی دلیل میں میرا ذاتی تجربہ شامل<br />
ہے۔ میں چھت پر بیھٹا تاڑا تاڑی کر رہا تھا۔ نیچے پہلے<br />
دھواندھار شور ہوا پھر مجھے پکارا گیا۔ میں پوری پھرتی<br />
سے نیچے بھاگ کر آیا۔ ماجرا پوچھا۔ بتایا گیا کہ صندوق<br />
میں چوہا گھس گیا ہے۔ بڑا تاؤ آیا لیکن کل کلیان سے ڈرتا‘<br />
پی گیا۔ بس اتنا کہہ کر واپس چل گیا کہ تم نے مجھے بلی<br />
یا کڑکی سمجھ کر طلب کیا ہے۔ تاہم میں نے دانستہ چوہا<br />
صندوق کے اندر ہی رہنے دیا۔<br />
غیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم<br />
ہم بڑے مذہبی لوگ ہیں کسی سکھ کی سیاسی شریعت<br />
تسلیم نہیں کر سکتے۔ راجا رنجیت سنگھ اول تا آخر مقامی
غیر مسلم تھا اس لیے اس کا کہا کس طرح درست ہو سکتا<br />
ہے۔ راجا رنجیت سنگھ اگر گورا ہوتا تو اس کی سیاسی<br />
شریعت کا مقام بڑا بلند ہوتا۔ گورا دیس سے آئی ہر چیز<br />
ہمیں خوش آتی ہے۔<br />
علم عقل اور حبیبی اداروں کا قیام<br />
استاد کی باتوں کا برا نہ مانئیے گا۔ میں بھی اوروں کی<br />
طرح ہنس کر ٹال دیتا ہوں۔ اور کیا کروں مجھے محسن<br />
کش اور پاکستان دشمن کہلنے کا کوئی شوق نہیں۔ بھل یہ<br />
بھی کوئی کرنے کی باتیں ہیں کہ کتے کے منہ سے نکلی<br />
سانپ کے منہ میں آ گئی۔ سانپ سے خلصی ہونے کے<br />
ساتھ ہی چھپکلی کے منہ میں چلی گئی۔<br />
ہم زندہ قوم ہیں<br />
دو میاں بیوی کسی بات پر بحث پڑے۔ میاں نےغصے میں آ<br />
کر اپنی زوجہ ماجدہ کو ماں بہن کہہ دیا۔ مسلہ مولوی<br />
صاحب کی کورٹ میں آگیا۔ انہوں نے بکرے کی دیگ اور<br />
دو سو نان ڈال دیے۔ نئی شادی پر اٹھنے والے خرچے<br />
سے یہ کہیں کم تھا۔ میاں نے مولوی صاحب کے ڈالے<br />
گیے اصولی خرچے میں عافیت سمجھی۔ رات کو میاں<br />
بیوی چولہے کے قریب بیٹھے ہوئے تھے۔ بیوی نے اپنی
فراست جتاتے ہوئے کہا<br />
"اگر تم ماں بہن نہ کہتے تو یہ خرچہ نہ پڑتا۔"<br />
بات میں سچائی اپنے پورے وجود کے ساتھ موجود تھی۔<br />
میاں نےدوبارہ بھڑک کر کہا<br />
"توں پیو نوں کیوں چھیڑیا سی"<br />
مولوی صاحب کا فتوی اور ایچ ای سی پاکستان<br />
کچھ ہی پہلے‘ اندر سے آواز سنائی دی‘ حضرت بےغم<br />
صاحب حیدر امام سے کہہ رہی تھیں‘ بیٹا اپنے ابو سے<br />
پیسے لے کر بابے فجے سے غلہ لے آؤ۔ عید قریب آ رہی<br />
ہے‘ کچھ تو جمع ہوں گے‘ عید پر کپڑے خرید لئیں گے۔<br />
بڑا سادا اور عام فیہم جملہ ہے‘ لیکن اس کے مفاہیم سے<br />
میں ہی آگاہ ہوں۔ یہ عید پر کپڑے لنے کے حوالہ سے بڑا<br />
بلیغ اور طرح دار طنز ہے۔ طنز اور مزاح میں زمین اور<br />
آسمان کا فرق ہے۔ طنز لڑائی کے دروازے کھولتا ہے جب<br />
کہ مزاح کے بطن سے قہقہے جنم لیتے ہیں۔ جب دونوں کا<br />
آمیزہ پیش کیا جائے تو زہریلی مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے<br />
اور ایسی جعلی مسکراہٹ سے صبر بھل‘ دوسرا بات گرہ<br />
میں بندھ جاتی ہے۔<br />
لٹھی والے کی بھینس
ان کی ایک مزاح پر مشتمل کتاب بیگمی تجربہ ١٩٩٣ میں<br />
شائع ہوئی جو اس سے پہلے نقد و نقد کے نام سے منظر<br />
عام پر جلوہ گر ہوئی۔ اس کتاب کو اہل ذوق نے پسند کیا۔<br />
چند آراء ملحظہ ہوں<br />
آج ہمارا معاشرہ جس فتنہ و فساد اور پرآشوب دور سے<br />
گزر رہا ہے جس کو بدقسمتی سے تہذیب و ترقی سے تعبیر<br />
کیا جاتا ہے اس کی شدت کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ<br />
رویہ اختیار کرنے سے زیادہ لطیف طنز و مزاح کے نشتر<br />
چبھونا موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ مصنف موصوف نے اس<br />
حقیقت کو بخوبی سمجھ لیا ہے اور معاشرے کے ان<br />
زخموں سے فاسد مادہ کو طنزومزاح کے نشروں سے<br />
نکالنے کی کوشش کی ہے۔<br />
ثناءالحق صدیقی<br />
ماہنامہ النسان کراچی مئی<br />
١٩٩٤ صفحہ نمبر<br />
٣٢<br />
مقصود صاحب بڑے ذہین معاملہ شناس مدبر اور نئی سوچ<br />
کے مالک ہیں۔ بڑی بات یہ کہ آپ سچے اور منفرد انداز<br />
کے بادشاہ ہیں۔ میں تو کہوں گا کہ میں نے ساٹھ ہزار کتب<br />
کا مطالعہ کیا ہے ان میں ایسی معیاری کتب کوئی ایک<br />
درجن ہوں گی۔ اس کتاب نے مجھے بڑا متاثر کیا ہے۔ میں
اسے سندھ کے شاہ جو رسالو کی طرح اپنے سفر میں بھی<br />
ساتھ رکھوں گا اور بار بار پڑھوں گا۔<br />
مہر کاچیلوی<br />
بیگمی تجربہ پر اظہار خیال‘ ہفت روزہ عورت میرپور<br />
خاص سندھ<br />
١٨ نومبر ١٩٩٣<br />
ان کی زبان میں لطافت ہے‘ ظرافت ہے‘ سحر آفرینی ہے۔<br />
انھوں نے جس ہنرمندی سے باتوں سے باتیں نکالی ہیں‘<br />
وہ ان ہی کا حصہ ہے۔ انھوں نے مزاحیہ طرز سے پژمردہ<br />
دلوں میں زندگی اور زندہ دلی کی روح پھونک دی ہے۔<br />
خشک ہونٹوں پر پھول نچھاور کیے ہیں۔<br />
ڈاکٹر وفا راشدی<br />
سہ ماہی انشاء حیدرآباد جنوری تا ستمبر ٢٠٠٥ بیگمی<br />
تجربہ پر اظہار خیال<br />
بیگمی تجربہ میں کل ٣١ مضمون شامل تھے جن کی<br />
تفصیل درج خدمت ہے<br />
بچوں کی بددعائیں نہ لیں<br />
عقل بڑی یا بھینس<br />
1<br />
2
بیمار ہونا منع ہے 3<br />
حاتم میرے آنگن میں<br />
4<br />
کاغذی قصے اور طاقت کا سرچشمہ<br />
شادی+معاشقہ:جمہوری عمل<br />
مجبور شرک<br />
5<br />
6<br />
7<br />
ترقی‘ ہجرین اور عصری تقاضے<br />
دمدار ستارہ اور علمتی اظہار<br />
ویڈیو ادارے اور قومی فریضہ<br />
چھلکے بکریاں اور میمیں<br />
پہل ہل اور برداشت کی خو<br />
بیگمی تجربہ اور پت جھڑ<br />
8<br />
9<br />
10<br />
11<br />
12<br />
13<br />
انسانی ترقی میں جوں کا کردار<br />
اصلح نفس اور برامدے کی موت<br />
سنہری اصول اور دھندے کی اہمیت<br />
بش شریعت اور سکی نمبرداری<br />
14<br />
15<br />
16<br />
17<br />
نیل کنٹھ‘ شیر اور محکمہ ماہی پروری<br />
18
بہتی گنگا اور نقد و نقد 19<br />
ملوٹ اور کھپ کھپاؤ<br />
20<br />
سپاہ گری سے گداگری تک<br />
یار لوگ اور منہگائی میمو<br />
سچ آکھیاں بھانبڑ مچدا اے<br />
ہدایت نامہ خاوند<br />
ہدایت نامہ بیوی<br />
ادھورا کون<br />
21<br />
22<br />
23<br />
24<br />
25<br />
26<br />
محنت کے نقصانات<br />
محاورے کا سفر<br />
27<br />
28<br />
کتےاور عصری تقاضے<br />
جواز<br />
ظلم<br />
29<br />
30<br />
31<br />
مزاح سے متعلق ان کے بہت سے مضمون انٹرنیٹ کی<br />
مختلف ویب سائٹس پر پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔ ان کے ان<br />
مضامین کو سراہا گیا ہے۔ اس ذیل میں صرف اردو انجمن<br />
سے متعلق چند اہل قلم کی آراء ملحظہ ہوں
آپ کا یہ نہایت دلچسپ انشائیہ پڑھا اور بہت محظوظ و<br />
مستفید ہوا۔ جب اس کے اصول کا خود پر اطلق کیا تو<br />
اتنے نام اور خطاب نظر آئے کہ اگر ان کا اعلن کر دوں تو<br />
دنیا اور عاقبت دونوں میں خوار ہوں۔ سو خاموشی سے<br />
سر جھکا کر یہ خط لکھنے بیٹھ گیا ۔ انشا ئیہ بہت مزیدار<br />
ہے شاید اس لئے کہ حقیقت پر مبنی ہے۔ اس آئنیہ میں<br />
سب اپنی صورت دیکھ سکتے ہیں۔<br />
اکتوبر<br />
10:43:43 شام<br />
,2013<br />
,20<br />
مشتری ہوشیار باش<br />
سرور عالم راز<br />
آپ کے انشائیے پر لطف ہوتے ہیں۔ خصوصا اس لئے بھی<br />
کہ آپ ان میں اپنی طرف کی یا پنجابی کی معروف عوامی<br />
اصطلحات (میں تو انہیں یہی سمجھتا ہوں۔ ہو سکتا ہوں<br />
کہ غلطی پر ہوں) استعمال کرتے ہیں جن کا مطلب سر<br />
کھجانے کے بعد آدھا پونا سمجھ میں آ ہی جاتی ہے جیسے<br />
ادھ گھر والی یا کھرک۔ یا ایم بی بی ایس۔ اس میں تو کوئی<br />
شک نہیں کہ کھرک جیسا با مزہ مرض ابھی تک جدید<br />
سائنس نے ایجاد نہیں کیا ہے۔ وا بعض اوقات تو جی<br />
چاہتا ہے کہ یہ مشغلہ جاری رہے اور تا قیامت جاری رہے۔<br />
اس سے یہ فائدہ بھی ہے کہ صور کی آواز کو پس پشت<br />
ڈال کر ہم :کھرک اندازی: میں مشغول رہیں گے۔ ا ا خیر
اگست<br />
سل۔<br />
میری ناچیز بدعا<br />
09:00:12 ,2013 ,14 صبح<br />
سرور عالم راز<br />
مجھے علم نہیں ہے کہ محترمہ زھرا کون ہیں، قرین قیاس<br />
یہی ہے کہ انکا تعلق بزم سے ہوسکتا ہے۔ ملقات کی<br />
روداد میں گھریلو ماحول کی عکاسی بہت عمدگی سے کی<br />
گی ہے، اور یہ وہ کہانی ہے جو گھر گھر کی ہے۔ اہل خانہ<br />
پر گھبراہٹ کا عالم اور اندیشہ ہاے دور دراز، گھر کے<br />
سربراہ کی واقعی جان پر بن آتی ہے۔ ایک لطیف تحریر<br />
جس سے لطف اندوز ہونے کا حق ہر قاری کو ہے<br />
خلش<br />
آپ کا انشائیہ حسب معمول نہایت دلچسپ اور شگفتہ تھا۔<br />
پڑھ کر لطف آ گیا۔ اس زندگی کی بھاگ دوڑ اور گھما گھمی<br />
میں چند لمحات ہنسنے کے مل جائیں تو ا کا شکر ادا<br />
کرنا چاہئے۔ ہاں یہ پڑھ کرانتہائی حیرت ہوئی کہ زہرا<br />
صاحبہ برقعہ میں آئین! یا میرا چشمہ ہی خراب ہو گیا ہے؟<br />
ایک نہایت پر لطف اور دل پذیر تحریر کے لئے داد قبول<br />
کیجئے۔
نومبر<br />
قصہ زہرا بٹیا سے ملقات کا<br />
03:25:04 صبح<br />
,2013<br />
,03<br />
سرور عالم راز<br />
جیسے جیسے آپ کی تحریر پڑھتا گیا ہنسی کا ضبط کرنا<br />
ناگزیر ہوتا چل گیا اور آخر میں میری حالت پاکستان میں<br />
کسی زمانے میں جی ٹی روڈ پر چلنے والی اس کھچاڑا جی<br />
ٹی ایس<br />
) گورننمٹ ٹرانسپورٹ سروس)<br />
کی طرح ہوگئی جو رک جانے کے بعد بھی ہلتی رہتی تھی ،<br />
بڑی دیر تک لطف اندوز ہونے کے بعد سوچا اپنی اندرونی<br />
کیفیت کا اظہار کر ہی دیا جائے<br />
وہ کہتے ہیں ناں کہ جس سے پیار ہوجائے تو اس کا اظہار<br />
کر دو کہ مبادا دیر نہ ہو جائے<br />
تو جناب ڈاکٹر صاحب میری جانب سے ڈھیروں داد آپ کے<br />
قلم کے کمال کی نذر کہ جس سے چہروں پر مسکراہٹیں<br />
بکھر جائیں<br />
جولئی<br />
لٹھی والے کی بھینس<br />
09:45:29 شام<br />
,2013<br />
,12<br />
اسماعیل اعجاز
اردو نیٹ جاپان‘ اردو انجمن‘ ہماری ویب‘ فرینڈز کارنر‘<br />
پیغام ڈاٹ کام‘ فورم پاکستان اور فری ڈم یونی ورسٹی سے‘<br />
میں نے ٦٩ مضامین تلش کیے ہیں۔ ان کی تفصیل درج<br />
ذیل ہے<br />
بھگوان ساز کمی کمین کیوں ہو جاتاہے<br />
غیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم<br />
1<br />
2<br />
عوامی نمائیندے مسائل' اور بیورو کریسی<br />
علم عقل اور حبیبی اداروں کا قیام<br />
3<br />
4<br />
امریکہ کی پاگلوں سے جنگ چھڑنے والی ہے<br />
لوڈ شیڈنگ کی برکات<br />
ہم زندہ قوم ہیں<br />
5<br />
6<br />
7<br />
طہارتی عمل اور مرغی نواز وڈیرہ<br />
رول رپا توازن کا ضامن ہے<br />
8<br />
9<br />
آدم خور چوہے اور بڈھا مکاؤ مہم<br />
10<br />
پی ایچ ڈی راگ جنگہ کی دہلیز پر<br />
سیاست دان اپنی عینک کا نمبر بدلیں<br />
11<br />
12
قانون ضابطے اور نورا گیم 13<br />
خودی بیچ کر امیری میں نام پیدا کر<br />
خدا بچاؤ مہم اور طلق کا آپشن<br />
غیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم<br />
14<br />
15<br />
16<br />
جرم کو قانونی حیثیت دینا ناانصافی نہیں<br />
17<br />
ہمارے لودھی صاحب اور امریکہ کی دو دوسیریاں<br />
لوٹے کی سماجی اور ریاستی ضرورت<br />
اس عذاب کا ذکر قرآن میں موجود نہیں<br />
بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟<br />
عوام شاہ کے ڈراموں کی زد میں رہے ہیں<br />
دنیا کا امن اور سکون بھنگ مت کرو<br />
رشوت کو طلق ہو سکتی ہے<br />
عوام بھوک اور گڑ کی پیسی<br />
18<br />
22<br />
19<br />
20<br />
21<br />
23<br />
24<br />
25<br />
رمضان میں رحمتوں پر نظر رہنی چاہیے<br />
جمہوریت سے عوام کو خطرہ ہے 27<br />
سیری تک جشن آزادی مبارک ہو<br />
26<br />
28
دو قومی نظریہ اور اسلمی ونڈو 29<br />
گھر بیٹھے حج کے ایک رکن کا ثواب کمائیں<br />
مولوی صاحب کا فتوی اور ایچ ای سی پاکستان<br />
لٹھی والے کی بھینس<br />
30<br />
31<br />
32<br />
دمہ گذیدہ دفتر شاہی اور بیمار بابا<br />
33<br />
انشورنس والے اور میں اور تو کا فلسفہ<br />
34<br />
غیرملکی بداطواری دفتری اخلقیات اور برفی کی چاٹ<br />
حقیقت اور چوہے کی عصری اہمیت زندگی<br />
تعلیم میر منشی ہاؤس اور میری ناچیز قاصری<br />
محاورہ پیٹ سے ہونا کے حقیقی معنی<br />
آزاد معاشرے اہل علم اور صعوبت کی جندریاں<br />
دیگی ذائقہ اور مہر افروز کی نکتہ آفرینی<br />
ایجوکیشن‘ کوالیفیکیشن اور عسکری ضابطے<br />
وہ دن ضرور آئے گا<br />
صیغہ ہم اور غالب نوازی<br />
35<br />
36<br />
37<br />
38<br />
39<br />
41<br />
40<br />
43<br />
42<br />
پروف ریڈنگ‘ ادارے اور ناصر زیدی<br />
44
ناصر زیدی اور شعر غالب کا جدید شعری لباس 45<br />
قصہ زہرا بٹیا سے ملقات کا<br />
مشتری ہوشیآر باش<br />
مدن اور آلو ٹماٹر کا جال<br />
46<br />
48<br />
47<br />
احباب اور ادارے آگاہ رہیں<br />
کھائی پکائی اور معیار کا تعین<br />
بابا بولتا ہے<br />
بابا چھیڑتا ہے<br />
50<br />
49<br />
51<br />
لوارثا بابا اور تھا<br />
فتوی درکار ہے<br />
53<br />
52<br />
54<br />
ڈینگی‘ ڈینگی کی زد میں<br />
55<br />
حضرت ڈینگی شریف اور نفاذ اسلم<br />
یہ بلئیں صدقہ کو کھا جاتی ہیں<br />
اب دیکھنا یہ ہے<br />
56<br />
57<br />
58<br />
سورج مغرب سے نکلتا ہے<br />
59<br />
یک پہیہ گاڑی منزل پر پہنچ پائے گی<br />
60
حجامت بےسر کو سر میں لتی ہے 61<br />
انھی پئے گئی اے<br />
62<br />
امیری میں بھی شاہی طعام پیدا کر<br />
وہ دن کب آئے گا<br />
63<br />
64<br />
آزادی تک‘ جشن آزادی مبارک<br />
رشتے خواب اور گندگی کی روڑیاں<br />
66<br />
65<br />
پنجریانی اور گناہ گار آنکھوں کے خواب<br />
میری ناچیز بدعا<br />
67<br />
68<br />
طاقت اور ٹیڑھے مگر خوبصورت ہاتھ<br />
انسان کی تلش<br />
69<br />
70<br />
معاشی ڈنگر اور کاغذ کے لوارث پرزے<br />
صبح ضرور ہو گی<br />
71<br />
72<br />
قیامت ابھی تک ٹلی ہوئی ہے<br />
73<br />
وہ دن گیے جب بن دیے بھل ہوتا تھا<br />
عین ممکن ہے<br />
کھائی بھلی کہ مائی<br />
74<br />
76<br />
75
دفتر شاہی میں کالے گورے کی تقسیم کا مسلہ 77<br />
درج بال مختصر تفصیلت سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا<br />
ہے کہ باباجی مقصود حسنی اس صنف ادب میں<br />
بھی کامیاب و کامران رہے ہیں۔ آخر میں پروفیسر یونس<br />
حسن کی رائے درج کر رہا ہوں جس سے باباجی کے اس<br />
ادبی کام کی نوعیت و حیثیت کا اندازہ ہو جاتا ہے<br />
مقصود حسنی نے مزاح کے میدان میں تقلید کو گوارہ نہیں<br />
کیا‘ اپنے لیے ایک علیحدہ اور جداگانہ رستہ نکال ہے۔ ان<br />
کی یہی انفرادیت ان کے پورے مزاح پر محیط نظر آتی ہے۔<br />
ان کا مزاح وقتی یا لمحاتی نہیں اور نہ ہی گراوٹ کا شکار<br />
ہوتا ہے بلکہ اپنی جدت طرازی کی بنا پر ایک علیحدہ<br />
شناخت اور پہچان رکھتا ہے۔ ان کے مزاح کی جڑیں ہماری<br />
سماجی زندگی کے اندر پیوست نظر آتی ہے۔<br />
پروفیسر یونس حسن<br />
سہ ماہی انشاء حیدرآباد جنوری تا ستمبر ٢٠٠٥ بیگمی<br />
تجربہ پر اظہار خیال<br />
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?
id=51092<br />
ڈاکٹر مقصود حسنی بطور ماہر لسانیات<br />
) ,پرفیسر یونس حسن)<br />
ڈاکٹر مقصود حسنی ایک منفرد اور نامور ماہر لسانیات ہیں۔<br />
ان کے درجنوں مقالے رسائل و جرائد اور انٹر نیٹ کی<br />
مختلف ویب سائٹس پر پڑھنے کو ملتے ہیں۔ غیر مطبوعہ<br />
مقالت دیکھنے کا مجھے اتفاق ہوا ہے۔ ان مقالت پر<br />
سرسری نظر ڈالنے سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ<br />
لسانیات میں غیر معمولی قدرت رکھتے ہیں۔ ان مقالت میں<br />
موضوعات کا تنوع اور رنگا رنگی ملتی ہے۔ راقم اپنے<br />
بےلگ مطالعے اور جائزے سے اس نتیجے پر پہنچا ہے<br />
کہ یہ مقالت لسانیات کے باب میں ایک اہم اضافہ ہیں۔<br />
ان مقالت میں زبان کے جو موضوعات زیر بحث لئے گئے<br />
ہیں ان میں آوازوں کا نظام بڑی خصوصیت کا حامل ہے۔<br />
زبانوں میں آوازیں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔
الفاظ کی تشکیل میں آوازیں کلیدی کردار کی حامل ہوتی<br />
ہیں۔ اس کے علوہ انہوں نے لفظیات‘ صوتیات‘ معنویات‘<br />
ہیت‘ ساخت‘ گرائمر اور بناوٹ کو بھی موضوع بنایا ہے۔<br />
انہوں نے لفظوں کی سماجیات اور نفسیات پر بھی قلم اٹھایا<br />
ہے۔<br />
ڈاکٹر صاحب نے ساختیات اور پس ساختیات پر بھی نمایاں<br />
کام کیا ہے۔ انہوں باباجی بلھے شاہ صاحب کا لسانی مطالعہ<br />
کیا ہے جسے ڈاکٹر محمد امین نے کسی شاعر کے کلم کا<br />
پہل ساختیاتی مطالعہ قرار دیا ہے۔ مرزا غالب کی لفظیات<br />
کےساختیاتی مطالعہ کے ساتھ ساتھ ساختیات پر بھی تین<br />
مقالے تحریر کیے ہیں۔<br />
ان کےاس کام سے کئی لسانی اور ساختیاتی جہتیں سامنے<br />
آتی ہیں۔<br />
مزید براں ان کے دستیاب مقالت میں زبانوں کے وجود<br />
میں‘ آنے ترقی کرنے یا بعض الفظ کے متروک ہو جانے<br />
کے حوالہ سے بھی بہت سا مواد میسر آتا ہے۔ اردو زبان<br />
کے وہ عاشق ہیں اس لیے وہ کسی مقام پر اسے نظرانداز<br />
نہیں ہوتی۔ اردو پر گفتگو کے دوران اس کی موجودہ
صرتحال پر بھی گفتگو کرتے ہیں۔<br />
عربی فارسی اور انگریزی کےاردو پر اثرات کو بھی اپنی<br />
تحقیق کا حصہ بنایا ہے۔ تقابلی مطالعے کے دوران اردو<br />
سے مثالیں ضرور پیش کرتے ہیں۔<br />
انہوں نے جاپانی کے لسانی نظام پر بھی گفتگو کی ہے۔<br />
اس کا کچھ حصہ ترجمہ ہو کر اردو نیٹ جاپان پر قسطوں<br />
میں شائع ہو چکا ہے۔<br />
ڈاکٹر مقصود حسنی نے اردو کی ذاتی آوازیں اور بدیسی<br />
آوازوں کے دخول پر بھی گفتگو کی ہے۔ مہاجر زبانوں کے<br />
الفاظ کا مقامی زبانوں میں دخول اور اشکالی اور ان کی<br />
معنوی تبدیلی پر بھی گفتگو کی ہے۔ وہ بھاری آوازوں کو<br />
بھی زیر بحث لئے ہیں۔<br />
غالب پر ان کے لسانی کام کو دیکھتے ہوئے علمہ اقبال<br />
اوپن یونیورسٹی نےمحمد لطیف لیکچرار اردو پاکپتن کو ایم<br />
فل اردو کا مقالہ بعنوان مقصود حسنی اور غالب شناسی<br />
تفویض کیا ہے۔
ان کے کچھ مقالت کی فہرست درج کر رہا ہوں۔ مجھے<br />
یقین ہے کہ یہ تفصیل لسانیات سے شغف رکھنے والوں<br />
کے لیے خصوصی دل چسپی کا موجب بنے گی۔<br />
اردو مضامین کی فہرست دستیاب<br />
-٢<br />
-١<br />
-٣<br />
-٤<br />
اردو ہے جس کا نام<br />
لفظ ہند کی کہانی<br />
ہندوی تاریخ اور حقائق کے آئینہ میں<br />
ہندوستانی اور اس کے لسانی حدود<br />
-٥<br />
-٧<br />
-٦<br />
اردو میں مستعمل ذاتی آوازیں<br />
اردو کی چار آوازوں سے متعلق گفتگو<br />
اردو اور جاپانی آوازوں کی سانجھ<br />
-٨<br />
-٩<br />
اردو میں رسم الخط کا مسلہ<br />
انگریزی کے اردو پر لسانی اثرات<br />
١٠- سرائیکی اور اردو کی مشترک آوازیں
-١١<br />
-١٣<br />
اردو اور انگریزی کا محاوراتی اشتراک<br />
-١٢<br />
-١٤<br />
-١٥<br />
-١٦<br />
اردو سائنسی علوم کا اظہار<br />
قومی ترقی اپنی زبان میں ہی ممکن ہے<br />
اردو‘ حدود اور اصلحی کوششیں<br />
قدیم اردو شاعری کا لسانی مطالعہ<br />
بلھے شاہ کی زبان کا لسانی مطالعہ<br />
١٧- شاہی کی شاعری کا لسانی مطالعہ<br />
-١٨<br />
خواجہ درد کے محاورے<br />
١٩- سوامی رام تیرتھ کی اردو شاعری کا لسانی مطالعہ<br />
-٢٠<br />
-٢١<br />
-٢٢<br />
الفاظ اور ان کا استعمال<br />
آوازوں کی ترکیب و تشکیل کے عناصر<br />
الفاظ کی ترکیب‘ استعمال اور ان کی تفہیم کا مسلہ<br />
-٢٣<br />
-٢٤<br />
زبانوں کی مشترک آوازیں<br />
پاکستان کی زبانوں کی پانچ مخصوص آوازیں<br />
-٢٦<br />
-٢٥<br />
عربی زبان کی بنیادی آوازیں<br />
عربی کی علمتی آوازیں
-٢٧<br />
دوسری بدیسی آوازیں اور عربی کا تبادلی نظام<br />
٢٨- پ کی متبادل عربی آوازیں<br />
٢٩- گ کی متبادل عربی آوازیں<br />
٣٠- چ کی متبادل عربی آوازیں<br />
-٣١<br />
-٣٣<br />
-٣٢<br />
مہاجر اور عربی کی متبادل آوازیں<br />
بھاری آوازیں اور عربی کے لسانی مسائل<br />
-٣٤<br />
-٣٥<br />
-٣٧<br />
-٣٦<br />
-٣٨<br />
-٣٩<br />
چند انگریزی اور عربی کے مترادفات<br />
پنجابی اور عربی کا لسانی رشتہ<br />
چند انگریزی اور عربی مشترک آوازیں<br />
انٹرنیٹ پر عربی میں اظہار خیال کا مسلہ<br />
عربی کے پاکستانی زبانوں پراثرات<br />
عربی اور عہد جدید کے لسانی تقاضے<br />
-٤٠<br />
-٤١<br />
فارسی کے پاکستانی زبانوں پراثرات<br />
پشتو کی چار مخصوص آوازیں<br />
آتے کل کو کرہء ارض کی کون سی زبان ہو گی<br />
-٤٢<br />
انگریزی دنیا کی بہترین زبان نہیں
-٤٣<br />
-٤٤<br />
-٤٥<br />
انگریزی اور اس کے حدود<br />
انگریزی آج اور آتا کل<br />
تبدیلیاں زبانوں کے لیے وٹامنز کا درجہ رکھتی ہیں<br />
-٤٦<br />
-٤٧<br />
-٤٨<br />
زبانیں ضرورت اور حالت کی ایجاد ہیں<br />
معاون عناصر کے پیش نظر مزید حروف کی تشکیل<br />
برصغیر میں بدیسیوں کی آمد اور ان کے زبانوں پر<br />
اثرات<br />
-٤٩<br />
کچھ دیسی زبانوں میں آوازوں کا تبادل<br />
-٥٠<br />
-٥١<br />
-٥٣<br />
-٥٢<br />
جاپانی میں مخاطب کرنا<br />
جاپانی اور برصغیر کی لسانی ممثالتیں<br />
اختر حسین جعفری کی زبان کا لسانی جائزہ<br />
لسانیات کے متعلق کچھ سوال و جواب<br />
انگریزی مضامین کی دستیاب فہرست<br />
1- Urdu has a strong expressing power<br />
and a sounds system
2- Word is to silence instrument of<br />
expression<br />
3- This is the endless truth<br />
4- The words will not remain the same<br />
style<br />
5- Language experts can produce new<br />
letters<br />
6- Sound sheen is very commen in the<br />
world languages<br />
7- Native speakers are not feel problem<br />
8- Languages are by the man and for the<br />
man<br />
9- The language is a strong element of<br />
pride for the people<br />
10- Why to learn Urdu under any<br />
language of the world<br />
11- Word is nothing without a sentence
12- No language remain in one state<br />
13- Expression is much important one<br />
than designates that correct or wrong<br />
writing<br />
14- Student must be has left liberations<br />
in order to express his ideas<br />
15- Six qualifications are required for a<br />
language<br />
17- Sevevn Senses importence in the life<br />
of a language<br />
18- Whats bad or wrong with it?!<br />
19- No language remains in one state<br />
20. The common compound souds of<br />
language<br />
21- The identitical sounds used in Urdu<br />
22- Some compound sounds in Urdu<br />
23- Compound sounds in Urdu (2)<br />
24- The idiomatic association of urdu
and english<br />
25- The exchange of sounds in some<br />
vernacular languages<br />
26- The effects of persian on modern<br />
sindhi<br />
27- The similar rules of making plurals in<br />
indigious and<br />
foreign languages<br />
28- The common compounds of<br />
indigious and foreign<br />
languages<br />
29- The trend of droping or adding<br />
sounds<br />
30- The languages are in fact the result<br />
of sounds<br />
31- Urdu and Japanese sound’s<br />
similirties<br />
32- Other languages have a natural link<br />
with Japanese’s
sounds<br />
33- Man does not live in his own land<br />
34- A person is related to the whole<br />
universe<br />
35- Where ever a person<br />
36- Linguistic set up is provided by<br />
poetry<br />
37- How to resolve problems of native<br />
and second language<br />
38- A student must be instigated to do<br />
something himself<br />
39- Languages never die till its two<br />
speakers<br />
40- A language and society don’t delovp<br />
in days<br />
41- Poet can not keep himself aloof from<br />
the universe<br />
42- The words not remain in the same<br />
style
43- Hindustani can be suggested as<br />
man's comunicational language<br />
44- Nothing new has been added in the<br />
alphabets<br />
45- A language teacher can makea lot for<br />
the human society<br />
46- A language teacher would have to be<br />
aware<br />
47- Hiden sounds of alphabet are not in<br />
the books<br />
48- The children are large importence<br />
and sensative resource of the sounds<br />
49- The search of new sounds is not<br />
dificult matter<br />
50- The strange thought makes an<br />
odinary to special one<br />
51- For the relevation of expression man<br />
collects the words from the different<br />
caltivations
52- Eevery language sound has has then<br />
two prononciations<br />
53- Language and living beings<br />
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?<br />
id=51084<br />
مقصود حسنی کی شاعری۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک جائزہ<br />
محبوب عالم --۔۔ قصور<br />
پروفیسر مقصود حسنی ملکی اور بین الاقوامی سطح پر<br />
اپنی الگ سے شناخت رکھتے ہیں۔ تخلیقی میدان میں ان کی<br />
شخصیت کثیرالجہتی ہے۔ یہ ہی صورت تحقیق و تنقید کے<br />
میدان کی ہے۔ نثر ہی نہیں‘ شاعری کے میدان میں بھی<br />
نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے طالب علمی کے<br />
ابتدائی دنوں میں ہی شعر کہنا شروع کر دیے۔ ان کی<br />
١٩٦٥ کی شاعری دستیاب ہوئی ہے۔ اس وقت وہ جماعت<br />
ہشتم کے طالب علم تھے۔ بطور نمونہ ابتدائی دور کے چند<br />
:شعر ملحظہ کریں
پھوٹا ناسور بن کرزخم جگر<br />
سزا ملی مجھے گناہ کئے بغیر<br />
١٩٦٥ مئی ٢٥<br />
آس کے دیپ جلنے نکلو<br />
جاگ کر اب جگانے نکلو<br />
١٩٦٦ اپریل ٢٩<br />
٣<br />
زخم کھا کر جو زخم کھانے کی رکھے ہوش<br />
انداز اس کے تڑپنے پھڑکنے کا ذرا دیکھ<br />
١٩٦٧ فروری<br />
ہر صدف کی قسمت میں گوہر کہاں<br />
ہزار پرند میں‘ اک شہباز ہوتا ہے<br />
١٩٦٨ جون ٢٧
عریاں پڑی ہے لش حیا بے گور وکفن<br />
لوگ لیتے ہیں گل‘ گلستاں رہے نہ رہے<br />
١٩٦٩ اکتوبر ٢٥<br />
٥<br />
مولں کو ہو گی جنت سے محبت زاہد<br />
بار ہا گزریں گے دشت پرخار سے ہم<br />
١٩٧٠ مارچ<br />
:١٩٧٠ میں لکھی گئی یہ نظم بھی بطور نمونہ ملحظہ ہو<br />
مجھے اب<br />
میں اپنی تلش میں تھا<br />
گلب سے انگارے نکلے<br />
خوشبو سے شرارے اٹھے<br />
‘میرا چہرا
کوئی لے گیا<br />
چوڑیاں مجھے دے گیا<br />
چوڑیوں کی کھنک میں<br />
مجھے اب<br />
بےچہرہ جیون<br />
جینا ہے<br />
اس نمونہء کلم سے ان کے فکری اور تخلیقی سفر کا<br />
اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے ہاں مجازی عشق و محبت<br />
شجر منوعہ سے لگتے ہیں۔ پروفیسر مقصود حسنی کے<br />
والد سید غلم حضور پنجابی صوفی شاعر تھے۔ ان کے<br />
دادا سید علی احمد پنجابی اردو اور فارسی کے شاعر تھے۔<br />
یہ سلسلہ اس سے پیچھے تک جاتا ہے۔ پروفیسر موصوف<br />
کے پاس اپنے دادا کا کلم مخطوطوں کی شکل میں موجود<br />
ہے۔ گویا یہ شوق انہیں وراثت میں مل ہے۔ وہ اردو کے<br />
علوہ انگریزی پنجابی اور پوٹھوہاری میں بھی کہتے رہے<br />
ہیں۔<br />
ان کے کلم میں ردعملی کی سی صورت ہر سطح پر غالب
رہتی ہے۔ چلتے چلتے ناصحانہ اور صوفیانہ ٹچ ضرور دے<br />
جاتے ہیں۔ ان کے کلم میں سیکڑوں مغربی مشرقی اسلمی<br />
اور ہندی تلمیحات پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ہر تلمیح کا بڑا<br />
برمحل استعمال ہوا ہے۔ یہ تلمیحات بین الاقومی تناطر میں<br />
استعمال ہوئی ہیں۔ پروفیسر علی حسن چوہان ان کی مغربی<br />
تلمیحات پر بھرپور تحقیقی مقالہ بھی تحریر کر چکے ہیں۔<br />
١٩٩٣<br />
میں ڈاکٹر صادق جنجوعہ نے بہ عنوان۔۔۔۔۔۔ مقصود<br />
حسنی کی شاعری‘ تنقیدی مطالعہ۔۔۔۔۔۔ شائع کی۔ مقصود<br />
حسنی کی شاعری پر مشتمل تین کتب منصہءشہود پر آ<br />
چکی ہیں۔<br />
سپنے اگلے پہر کے نثری ہائیکو<br />
اوٹ سے نثری نظمیں یہ مجموعہ دو بار شائع ہوا۔<br />
سورج کو روک لو نثری غزلیں<br />
کاجل ابھی پھیل نہیں اشاعت کے مراحل میں ہے۔<br />
اس کے علوہ بھی ان کا کلم رسائل میں شائع ہوتا رہا<br />
ہے۔ ان کا بہت سارا کلم انٹرنیٹ کی مختلف ویب سائیٹس<br />
پر پڑھنے کو ملتا ہے۔ آمنہ رانی ان کی نظموں کو ڈازائین<br />
کر رہی ہیں۔ جو ان کی شاعری کی پذیرائی میں خوب<br />
صورت اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے۔<br />
مقصود حسنی کی شاعری کے مختلف زبانوں میں تراجم
بھی ہوئے۔<br />
پروفیسر امجد علی شاکر نے۔۔۔۔۔۔ اوٹ سے۔۔۔۔۔۔۔ کی نظموں<br />
کو پنجابی روپ دیا۔<br />
بلدیو مرزا نے ان کے ہائیکو کا انگریزی میں ترجمہ کیا‘<br />
جو سکائی لرک میں شائع ہوا۔<br />
نصرا صابر مرحوم نے ان کے ہائیکو کا پنجابی میں<br />
ترجمہ کیا۔<br />
مہر کاچیلوی مرحوم نے ان کے ہائیکو کا سندھی میں<br />
ترجمہ کیا۔<br />
ڈاکٹر اسلم ثاقب مالیر کوٹلہ‘ بھارت نے ان کے ہائیکو کا<br />
گرمکھی میں ترجمہ کیا۔<br />
عالمی رنگ ادب کراچی نے پورا مجموعہ ۔۔۔۔۔۔۔ سپنے اگلے<br />
پہر کے۔۔۔۔۔۔۔ کو شاعر علی شاعر کے مضمون کے ساتھ<br />
شائع کیا۔<br />
پروفیسر نیامت علی نے ان کی انگریزی شاعری پر ایم فل<br />
سطح کا مقالہ تحریر کیا۔<br />
اردو ادب کے جن ناقدین نے ان کی شاعری کو خراج<br />
تحسین پیش کیا‘ اس کی میسر تفصیل کچھ یوں ہے
ڈااکٹر آغا سہیل<br />
آآفتاب احمد مشق ایم فل اردو<br />
ڈاکٹر ابو سعید نور الدین<br />
احمد ریاض نسیم<br />
ڈاکٹر اسلم ثاقب<br />
اسلم طاہر<br />
ڈاکٹر احمد رفیع ندیم<br />
احمد ندیم قاسمی<br />
ڈاکٹر اختر شمار<br />
ڈاکٹر اسعد گیلنی<br />
اسماعیل اعجاز<br />
اشرف پال<br />
اطہر ناسک<br />
اکبر کاظمی<br />
پروفیسر اکرام ہوشیار پوری
ایاز قیصر<br />
ڈاکٹر بیدل حیدری<br />
پروفیسر تاج پیامی<br />
تنویر عباسی<br />
جمشید مسرور<br />
ڈاکٹر ہومیو ریاض انجم<br />
خواجہ غضنفر ندیم<br />
ڈاکٹر فرمان فتح پوری<br />
ڈاکٹر صابر آفاقی<br />
ڈاکٹر صادق جنجوعہ<br />
صفدر حسین برق<br />
ضیغم رضوی<br />
طفیل ابن گل<br />
ڈاکٹر ظہور احمد چودھری<br />
عباس تابش<br />
ڈاکٹر عبدا قاضی
علی اکبر گیلنی<br />
پروفیسر علی حسن چوہان<br />
ڈاکٹر عطاالرحمن<br />
فیصل فارانی<br />
کفیل احمد<br />
ڈاکٹر گوہر نوشاہی<br />
ڈاکٹر مبارک احمد<br />
محبوب عالم<br />
مشیر کاظمی<br />
ڈاکٹر محمد امین<br />
پرفیسر محمد رضا مدنی<br />
مہر افروز کاٹھیاواڑی<br />
مہر کاچیلوی<br />
ڈاکٹر منیرالدین احمد<br />
پروفیسر نیامت علی<br />
ندیم شعیب
ڈاکٹر وزیر آغا<br />
ڈاکٹر وفا راشدی<br />
ڈاکٹر وقار احمد رضوی<br />
وی بی جی<br />
یوسف عالمگیرین<br />
پروفیسر یونس حسن<br />
ان ناقدین نے متوازن انداز میں حسنی کی شاعری پر اظہار<br />
خیال کیا ہے۔ ان حضرات گرامی کےعلوہ محمد اسلم طاہر<br />
نے مقصود حسنی کی شخضیت ادبی خدمات کے عنوان<br />
سے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایم فل کا مقلہ<br />
تحریر کیا جس میں ان کی شاعری کے متعلق باب موجود<br />
ہے۔ راقم کے ایم فل کے مقالہ۔۔۔۔۔۔ قصور کی علمی و ادبی<br />
روایت۔۔۔۔۔۔ میں حسنی کی شاعری پر رائے موجود ہے۔ ۔<br />
:ان کی شاعری پر چند اہل قلم کی آراء ملحظہ ہوں<br />
جناب محترم ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب<br />
آپ کا یہ کلم پڑھن کے نال ہی دماغ کے بوہے پہ جینویں<br />
کسی نے آکر دستک دینڑ کے بجائے کسھن ماریا ،وجا جا<br />
کے ٹھا کرکے بڑا ای سواد آیا ، کیا ای بات ہے ہماری
طرف سے ایس سوہنی تے من موہنی تحریر سے فیض یاب<br />
فرمانڑ کے واسطے چوہلیاں پرھ پرھ داد پیش ہےگی<br />
تواڈا چاہنے وال<br />
اسماعیل اعجاز<br />
1<br />
:ڈاکٹر بیدل حیدری کا کہنا ہے<br />
مقصود حسنی کی نثری غزلیں موضوع کے اعتبار سے<br />
کتنی اچھوتی ہیں‘ لہجے کی کاٹ اور طنز کی گہرائی کا کیا<br />
معیار ہے‘ قاری کیا محسوس کرتا ہے‘ استعارے اور<br />
علمتیں کتنے خوب صورت انداز میں آئی ہیں۔ مستقبل میں<br />
اتنی فرصت کسے ہو گی کہ فرسودہ طویل غزلوں اور<br />
نظموں کو پڑھے۔ اگلی صدی تو مقصود حسنی جیسے<br />
مختصر اور پراثر شعر گو کی صدی ہے۔<br />
........................<br />
ڈاکٹر عطاءالرحمن بھی اسی مجموعے پر یوں رقم طراز<br />
:ہیں<br />
ان کی سبھی نظمیں خوب صورت ہیں جن کے بھنور میں<br />
کھو کر انسان اپنے اردگرد کے ماحول سے بےخبر ہو جاتا<br />
ہے لیکن قتل‘ ہم کب آزاد ہیں‘ آسمان نکھر گیا ہے‘ میں
نے دیکھا۔۔۔۔ خوب ترین نظمیں ہیں جن میں انسانی<br />
درندگی‘فرعونیت‘ ظلم و جبر‘ استبدادیت‘ بےبسی و<br />
بچارگی‘ آہیں اور سسکیاں غرض اک آتش فشاں پنہاں ہے<br />
جو اگر پھٹتا ہے تو اس کا لوا راہ میں مزاحم ہر شے کو<br />
جل کر خاکستر کر ڈالتا ہے۔<br />
.............................<br />
ڈاکٹر فرمان فتح پوری۔۔۔۔اوٹ سے۔۔۔۔ پراپنی رائے کچھ یوں<br />
:دیتے ہیں<br />
یوں تو اس مجموعے کی ساری نظمیں خوب نہیں‘ خوب تر<br />
ہیں لیکن ۔۔۔۔ وہ لفظ کہاں اور کدھر ہے‘ سورج دوزخی ہو<br />
گیا تھا‘ فیکٹری کا دھواں‘ ہم کب آزاد ہیں‘ کی بات ہی کچھ<br />
اور ہے۔ کاش یہ نظمیں باشعور قارئین تک پہنچیں اور ان<br />
میں دہکتے ہوئے خواب شرمندہءتعبیر ہوں۔<br />
.............................<br />
واہ... ڈاکٹر صاحب ! آپ نے ہمارے معاشرے کے اس<br />
نوحے کو بہت عمدگی سے بیان کیا ہے<br />
باپ کی بے حسی اور<br />
جنسی تسکین کا بین
بہت کم الفاظ میں آپ نے اشارہ دیا ہے کہ قصور صرف<br />
معاشرے یا اربابL اختیار کا نہیں ہے بلکہ اس جرم میں وہ<br />
لوگ بھی برابر کے شریک ہیں جو اپنے وسائل کو دیکھے<br />
بنأ ہی اپنی نفسانی خواہشات کا گھوڑا سرپٹ سرپٹ دوڑائے<br />
چلے جاتے ہیں اور ساتھ میں اپنی (مذہبی) جاہلیت کی وجہ<br />
سے بچوں کی ایک قطار کھڑی کر دیتے ہیں- 2<br />
فیصل فارانی<br />
.................................<br />
جناب مقصود حسنی صاحب سلم مسنون<br />
واہ واہ بہت خوب چبھتی ہوئی نظم ہے۔ آپ نے چہرہ کو<br />
گرد سے صاف کرنے کو کہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ<br />
ہمارا چہرہ اتنا مسخ ہو چکا ہے کہ اس کو صاف کرنے کی<br />
نہیں بلکہ ایک بڑے اپریشن کی ضرورت ہے کہ جس سے<br />
وہ چہرہ نکھرے جو کہ ہمارا اصلی اور بے مثالی چہرہ<br />
سامنے ائے۔ 3<br />
طالب دعا<br />
کفیل احمد
......................................<br />
محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! اسلم علیکم<br />
اپ کی نظموں پر اج پہلی بار نظر پڑی۔ ہم نے اLنھیں بہت<br />
ہی فLکر انگیز اور ولولہ انگیز پایا۔ یہ نظم ہمیں بہت پسند<br />
ائی ہے۔ اگرچہ ہم اپ کے عLلم کے مقابلے میں شائید اLسے<br />
ان معنوں تک سمجھ نہ پائے ہوں۔ جہاں تک ہم سمجھے<br />
ہیں اپ اLس میں اLنسان سے مخاطL ب ہیں اور کہہ رہے ہیں<br />
کہ اLنسان صرف قدرت کی عطا کی ہوئی چیزوں سے کچھ<br />
حاصل کرتا ہے۔ اگر اLس سے سب کچھ چھین لیا جائے تو<br />
اLنسان کے اپنے پاس کچھ بھی نہیں، فقط مٹی کا ڈھیر ہے۔<br />
اLنسان کو قدرت کی تراشی چیزیں بہت کچھ دیتی ہیں، لیکن<br />
اLنسان اLن مخلوقات کو کچھ نہیں دے سکتا۔ البتہ جبرائیل<br />
والی بات ہم سمجھ نہیں سکے ہیں اور اپنی کم عLلمی پر<br />
نادم ہیں۔<br />
اگر ہم سمجھنے میں کلی یا جزوی طور پر غلط ہوں تو<br />
مہربانی فرما کر اLس ناچیز کی بات پر خفا نہ ہوئیے گا۔<br />
ہمارا عLلم و ادراک فقط اLتنا ہی ہے، جL س پر ہم مجبور ہیں<br />
اور شرمسار بھی۔ 4
طالبL دعا<br />
وی بی جی<br />
درج بال آرء کے تناظر میں برمل کہا جا سکتا ہے کہ<br />
پروفیسر مقصود حسنی کی شاعری ناصرف اپنا الگ سے<br />
مقام رکھتی ہے بلکہ اپنے عہد کے سماجی‘ معاشی اور<br />
سیاسی حالت کی منہ بولتی گواہی کا درجہ رکھتی ہے۔<br />
صوفی مزاج ہونے کے سبب ایک مثالی معاشرت کی ہر<br />
موڑ پر خواہش نمایاں نظر آتی ہے۔<br />
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?<br />
id=50246<br />
حضرت بلھے شاہ قصوری کی اردو شاعری<br />
محبوب عالم<br />
قصور جہاں اپنی قدامت اور مخصوص ثقافت کے حوالہ
سے اپنی پہچان رکھتا ہے وہاں اپنی الگ سے تاریخی<br />
حثیت بھی رکھتا ہے۔ شہزادہ کسو‘ امیر خسرو‘ اخوند<br />
سعید‘ راجہ ٹوڈر‘ مل شہزادہ سلیم عرف شیخو وغیرہ کی<br />
اس شہر سے نسبت رہی ہے۔ استاد امانت علی اور نور<br />
جہاں کو کیوں کر فراموش کیا جا سکے گا۔ کھانے کے<br />
شوقین حضرات کے لیے اندرسے‘ قصوری میتھی‘ فالودہ<br />
خاص دل چسپی کا سامان ہیں۔ لو قصوری جتی کو تو میں<br />
بھول ہی رہا تھا۔<br />
ان تمام چیزوں سے ہٹ کر‘ وراث شاہ اور بلھے شاہ تو<br />
ادبی دنیا میں کسی بھی سطح پر فراموش نہیں کیے جا<br />
سکتے۔ ان ادبی شخصیتوں سے تحقیقی حوالہ سے وابستہ<br />
لوگ بھی کبھی فراموش نہ کیے جا سکیں گے۔ قصور کی<br />
ادب روایت کم زور نہیں یہ الگ بات ہے کہ اس جانب کسی<br />
کی خصوصی توجہ نہیں گئی۔ ایک سے ایک بڑھ کر علمی<br />
اور ادبی شخصیات پڑی ہیں۔<br />
قصور حضرت بلھے شاہ قصوری کی وجہ سے دنیا بھر<br />
میں شہرت رکھتا ہے۔ صوفیا اور بھی ہیں لیکن حضرت<br />
بلھے شاہ قصوری اپنے صوفیانہ کلم کی وجہ سے<br />
معروف ہیں۔ انھوں نے اپنے کلم میں جہاں صوفیانہ
معاملت کو پیش کیا ہے وہاں سماجی امور کو بھی<br />
نظرانداز نہیں کیا۔ سماجی رویوں کی بھی عکاسی کی ہے۔<br />
عصری سیاسی قوتوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا<br />
کلم علمتوں استعاروں کے ذریعے ہی سہی اپنے عہد کی<br />
عکاسی کرتا ہے۔ بعض جگہ کھل کر بھی تنقید کرتے ہیں۔<br />
غالبا یہی وجہ رہی ہو گی کہ ان کے عہد کے مخصوص<br />
طبقے ان سے نالں تھے۔<br />
حضرت شاہ حسین لہوری نے پنجابی شاعری میں کافی کو<br />
متعارف کرایا اور اسے عروج دیا۔ ان کی کافیاں راگ پر<br />
لکھی گئیں۔ ہر کافی کسی نہ کسی راگ پر ہے۔ حضرت شاہ<br />
حسین لہوری نے کافی کو جو مقام بخشا اسے حضرت<br />
بلھے شاہ قصوری شہرت کی بلندیوں پر لے گیے۔ ان کی<br />
کافیاں راگ کے علوہ مروجہ میٹر پر ہیں۔ ان میں غنائیت<br />
کا عنصر بدرجہ اتم موجود ہے۔ حضرت بلھے شاہ قصوری<br />
کی کافیوں کو ملک کے ممتاز گلوکاروں نے گا کر شہرت<br />
اور عزت حاصل کی۔ عابدہ پروین‘ حامد علی بیل‘ نصرت<br />
فتح علی خاں‘ پٹھانے خاں وغیرہ ان میں شامل ہیں۔ یہاں<br />
تک کہ بھارتی گلوکاروں نے بھی ان کی کافیوں کو شوق<br />
اور عقیدت سے گایا ہے۔ بعض بول تو عوامی سطح پر<br />
محاورے کا درجہ اختیار کر گیے ہیں۔
ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے بڑی محنت‘ لگن اور دیانت داری<br />
سے ان کا کلم اکھٹا کیا اور اسے کلیات کی شکل دے کر<br />
زبان و ادب پر بہت بڑا احسان کیا۔ بلشبہ ان کی کوشش<br />
عوامی سطح پر مقبولیت کے درجے پر فائز ہوئی۔ اسے آج<br />
بھی اساسی ماخذ کا درجہ حاصل ہے۔ باباجی مقصود حسنی<br />
کے خصوصی مطالعہ میں حضرت بلھے شاہ قصوری رہے<br />
ہیں۔ انھوں نے اپنے مقالہ۔۔۔۔۔بلھے شاہ کی شاعری کا<br />
لسانی مطالعہ۔۔۔۔ میں ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے مرتب کردہ<br />
کلیات کو ہی اساسی ماخذ کے طور پر استعمال کیا ہے۔<br />
باباجی مقصود حسنی نے اس لسانیاتی مطالعے سے یہ بات<br />
واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ پنجابی کلم میں حضرت<br />
بلھے شاہ قصوری کے اردو کلم کو بھی شامل کر دیا گیا<br />
ہے۔ ان کے اس مطالعے سے حافظ شیرانی کے نظریے۔۔۔۔<br />
پنجاب میں اردو۔۔۔۔ کو تقویت ملتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ<br />
باباجی مقصود حسنی اس نظریے سے قطعی متفق نہیں۔<br />
اردو کے حوالہ سے ان کا اپنا الگ سے نقطہءنظر ہے۔<br />
انھوں نے ۔۔۔۔۔اردو ہے جس کا نام۔۔۔۔۔ میں اپنا نظریہ پیش<br />
کر دیا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے حضرت بلھے شاہ<br />
قصوری کے کلم میں اردو شاعری کی نشاندہی کی تھی۔
باباجی مقصود حسنی نے اسے عملی شکل دے کر اردو<br />
والوں کو خوشخبری کا سندیسہ دیا ہے۔<br />
انھوں نے اپنے اس لسانیاتی مطالعہ میں اس کی پانچ<br />
صورتیں بتائی ہیں۔<br />
-١<br />
-٢<br />
مکمل اردو کلم<br />
پنجابی کلم میں اردو کلم کی آمیزش<br />
-٣<br />
-٤<br />
ہندی نما اردو کلم<br />
پنجابی کلم میں اردو مصرعے<br />
-٥<br />
ا اردو نما پنجابی کلم<br />
ب مکمل پنجابی کلم<br />
ڈاکٹر ریاض شاہد نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں<br />
باباجی کے مقالے کو بنیادی ماخذ کے طور پر استعمال کیا<br />
ہے اور ان کے موقف کو دہرایا ہے۔<br />
باباجی نے اپنے اس تحقیقی کام کو بڑی باریک بینی سے<br />
انجام دیا ہے۔ سارے کلم کو الگ الگ جزیات میں تقسیم<br />
کرکے دیکھنا واقعی بڑے دل گردے اور محنت کا کام ہے۔
ان کی اس محنت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا تاہم اس<br />
تحقیقی کاوش کو اس کا جائز مقام حاصل نہیں ہو سکا۔<br />
شاید اس کی وجہ بھی ہے کہ وہ اشتہاربازی نہیں کرتے۔<br />
ایک کام کی تکمیل کے بعد کسی دوسرے کام میں جھٹ<br />
جاتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد امین کا کہنا ہے<br />
یہ پہلی کتاب ہے جس میں کسی کا باقاعدہ ساجتیاتی مطالعہ<br />
کیا گیا ہے۔<br />
اردو شعر فکری و لسانی رویے ص: ١١٥<br />
-١<br />
انھوں نے اپنے اس مطالعے کو سات حصوں میں تقسیم کیا<br />
ہے<br />
مذکر اسما کے خاتمے کی آواز<br />
اردو میں جمع بنانے کے اصول<br />
فعلی صورتیں<br />
حاصل مصدر بنانے کے اصول<br />
فعلی مادوں کے مختلف اصول<br />
یو اور ئیو کا لحقہ چند مخصوص مرکبات<br />
ضمائر کا استعمال<br />
اسم صفت ٢-
-٣<br />
-٤<br />
حروف<br />
حروف عطف‘ حروف اضافت‘ حرف استفہام‘ حرف استثنی‘<br />
حرف شرط‘ حروف جار‘ حروف تردید<br />
آوازوں کا ہیر پھیر<br />
نوں غنہ کا حشوی استعمال<br />
نوں غنہ کا حذف<br />
قدیم اردو امل<br />
تلمیحات<br />
لفظوں کے نئے روپ<br />
چند اردو مصادر<br />
قدیم اردو پر مقامی زبانوں کی چھاپ<br />
-٥<br />
تجزیاتی مطالعہ<br />
-٦<br />
-٧<br />
چند الفاظ<br />
اردو کلم<br />
جو کتاب میں شامل نہیں‘ باباجی کے پاس مسودے کی<br />
صورت میں موجود ہے۔
باباجی نے اپنے موقف کی تائید میں اردو جدید و قدیم کلم<br />
سے مثالیں پیش کی ہیں ساتھ حضرت بلھے شاہ قصوری<br />
کے کلم سے بھی مثالیں دی ہیں۔ اس طرح ثابت کرنے کی<br />
کوشش کی ہے کہ پنجابی کلم میں اردو کلم بھی شامل<br />
ہے۔<br />
انھوں نے اس مطالعے کے لیے بائیس کتب سے استفادہ<br />
کیا ہے۔<br />
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?<br />
id=51304<br />
بلھے شاہ کا مور۔۔۔۔۔۔۔ ایک ادبی تعارف<br />
مرتبہ: محبوب عالم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قصور<br />
پروفیسر مقصود حسنی اردو ادب کا وہ دمکتا آفتاب ہے
جس کی ضیا پاشیاں حدود میں نہیں آ سکتیں۔ ان کی ادبی<br />
کرنوں کی تحسین نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ ہر صنف ادب کا یہ<br />
سیاح اپنے سفر نامے کی ہر چھوٹی بڑی کہانی لکھتا چل آ<br />
رہا ہے۔ یہ ان کی بلجواز مداح سرائی نہیں بلکہ روز<br />
روشن کی طرح عیاں حقیقت بیان کرنے کی ادنی سی<br />
کوشش ہے۔ ادب کا شاید ہی کوئی گوشہ ہو گا جہاں انھوں<br />
نے طبع آزمائی نہ کی ہو گی۔ انہوں نے تو کینسر اور<br />
ڈینگی جیسے امراض پر بھی تحقیقی کام کیا ہے۔ اس<br />
سلسلے میں اردو نیٹ جاپان اور سکربڈ ڈاٹ کام پر ان کا<br />
مواد موجود ہے۔ وہ ایسے آل راؤنڈر کی حیثیت اختیار کر<br />
گیے ہیں جو کسی بھی صنف کے ماتھے کا جھومر ہو<br />
سکتے ہیں۔ ان کی زندگی کے سالوں کو دنوں میں تبدیل کر<br />
دیا جائے تو کوئی دن بل ادبی خدمت نہیں نکلے گا۔ گویا وہ<br />
ہمہ وقت اور ہمہ جہت ادبی شخصیت ہیں۔<br />
پروفیسر مقصود حسنی کی ادبی خدمات پر ملکی و غیر<br />
ملکی مداحوں نے انہیں متعدد ادبی خطابات سے نوازا ہے۔<br />
اس تحریر کا عنوان بھی بین الاقومی شہرت کے مالک<br />
پروفیسر ڈاکٹر تبسم کاشمیری کے عطا کیے گیے خطاب<br />
سے لیا گیا ہے۔ پیش نظر سطور میں ان کا مختصر مختصر<br />
ادبی تعارف پیش کیا گیا ہے۔ احباب کو میری ادنی سی
کوشش ضرور پسند آئے گی۔<br />
بنیادی کوائف<br />
نام: مقصود صفدر علی<br />
معروف: مقصود حسنی<br />
ولدیت: سید غلم حضور<br />
:گھر کا پتا<br />
شیر ربانی کالونی‘ قصور‘ پاکستان<br />
maqsood5@mail2world.com :ای پوسٹ<br />
maqsood_hasni@yahoo.com<br />
تعلیم<br />
ایم اے: ارو‘ سیاسیات‘ معاشیات‘ تاریخ<br />
ایم فل‘ اردو<br />
ڈاکٹریٹ‘ لسانیات
پوسٹ ڈاکٹریٹ‘ لسانیات<br />
تجربہ<br />
تدریس اردو ادب٣٠ سال<br />
تخلیق ادب:<br />
تحقیق ادب:<br />
٤٠ سال<br />
٣٤ سال<br />
انتظامی: ٠٥ سال<br />
خدمات<br />
برانچ سپرنٹنڈنٹ ایم آئی ٹی برانچ‘ زون اے‘ پنجاب<br />
ممبر بورڑ آف سٹیڈی پنجاب یونیورسٹی لہور<br />
تجزیہ نگار خاکہ پی ایچ ڈی‘ پنجاب یونیورسٹی<br />
وائس پرنسپل<br />
ریٹائرڈ: ایسوسی ایٹ پروفیسراردو زبان و ادب<br />
ادارہ فراغت ملزمت: گورنمنٹ اسلمیہ کالج‘ قصور<br />
ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ‘ حکومت پنجاب‘ پاکستان<br />
ادبی خدمات
٢٢<br />
کتب مطبوعہ<br />
سیکڑوں مضامین مختلف ادبی رسائل و جرائد میں شائع<br />
ہوئے۔<br />
سیکڑوں مضامین اور کئی کتب انٹرنیٹ پر موجود ہیں‘<br />
جنھیں کسی بھی ریسرج انجن کے حوالہ سے<br />
ملحظہ کیا جا سکتا ہے۔<br />
ایوارڈز<br />
ستارہ صد سالہ جشن ولدت قائد اعظم‘ حکومت پاکتان<br />
بیدل حیدری ایوارڑ‘ کاروان ادب ملتان<br />
مسٹر اردو‘ فورم پاکستان<br />
بابائے گوشہءمصنفین‘ فرینڈز کارنر<br />
ادبی میدان<br />
لسانیات<br />
تحقیق<br />
تنقید
افسانہ<br />
مزاح<br />
شاعری<br />
سماجیات<br />
تاریخ<br />
ترجمہ<br />
میڈیکل<br />
اقبالیات<br />
غالبیات<br />
تعلیم<br />
صحافت<br />
تخلیق و تخلیق پر ہونے والے تحقیقی کام کی تفصیل<br />
پرفیسر نیامت علی‘ انگریزی شاعری پر ایم فل سطع کا<br />
تحقیقی کام کر چکے ہیں۔<br />
ڈاکٹر ارشد شاہد‘ پنجابی شاعری پر‘ ایم فل سطع کا تحقیقی
کام کر چکے ہیں<br />
اسلم طاہر‘ ‘مقصود حسنی- شخصیت اور ادبی خدمات‘ کے<br />
عنوان سے‘ ایم فل سطع کا تحقیق مقالہ تحریر کرکے‘<br />
بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی‘ ملتان سے ڈگری حاصل کر<br />
چکے ہیں۔<br />
پروفیسر محمد لطیف‘ ‘مقصود حسنی کی غالب شناسی-<br />
تحقیقی و تنقیدی و مطالعہ‘ موضوع پر ایم فل سطع کا<br />
علمہ اقبال اوپن یونیورسٹی‘ اسلم آباد سےتحقیقی کام کر<br />
رہے ہیں۔<br />
رانا جنید‘ ایف سی کالج سے‘ ان کے افسانوں پر‘ بی اے<br />
آنرز سطع کا‘ تحقیقی کام کرنے میں مصروف ہیں۔<br />
ڈاکٹر ریاض شاہد نے‘ اپنے پی ایچ ڈی سطع کے تحقیقی<br />
مقالے میں‘ کتاب ‘ اردو شعر- فکری و لسانی زاویے‘ کو<br />
بطور بنیادی ماخذ استعمال کیا۔<br />
علمہ بیدل حیدری‘ پر ہونے والے ایم فل سطع کے کام<br />
میں‘ بنیادی حوالہ سے تذکرہ کیا گیا ہے۔<br />
محبوب عام‘ زیب النسا اور زبیدہ بیگم کے ایم فل سطع کے<br />
مقالہ جات میں‘ غالب حصہ موجود ہے۔ پی ایچ ڈی اور ایم<br />
فل سطح کی اسائنمنٹس بھی ہوتی رہی ہیں۔
مختلف سطع کی ڈگری کے تحقیقی کام میں‘ تحقیق کاروں<br />
کے کام میں تعاون کر چکے ہیں‘ جس کا اظہار‘ وہ اپنے<br />
تحیقیقی مقالوں میں کر چکے ہیں۔ دستیاب تفصیل کچھ یوں<br />
ہے۔<br />
سید اختر عباس<br />
مقالہ ایم ایڈ میں تعاون کیا<br />
ڈاکٹر ارشد شاہد<br />
مقالہ پی ایچ ڈی میں تعاون کیا<br />
پروفیسر شرافت علی<br />
مقالہ ایم فل میں تعاون کیا<br />
پروفیسر طلعت رشید<br />
مقالہ ایم فل میں تعاون کیا<br />
ڈاکٹر عطاءالرحمن<br />
مقالہ ایم فل میں تعاون کیا<br />
پروفیسر یونس حسن<br />
مقالہ ایم فل میں تعاون کیا
ڈاکٹر صادق جنجوعہ نے‘ ١٩٩٣ میں‘ ‘مقصود حسنی کی<br />
شاعری کا تنقیدی جائزہ‘ کے عنوان سے‘ کتاب تحریر کی۔<br />
ڈاکٹر ریاض انجم نے‘ ‘مسٹر اردو- اسرا زیست اور ادبی<br />
خدمات‘ کے عنوان سے مقالہ تحریر کیا‘ جو روزنامہ<br />
معاشرت‘ لہور میں‘ پچاس قسطوں میں شائع ہوا۔<br />
عالمی رنگ ادب نے‘ پورے مجموعے سپنے اگلے پہر<br />
کے‘ کو ٢٠١٣ میں شائع کیا۔<br />
پروفیسر یونس حسن نے‘ ٣٠ سے زیادہ تحقیقی مقالے<br />
تحریر کئے‘ جو مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے<br />
ہیں۔<br />
پروفیسر محمد رفیق ساگر نے‘ تیس کے قریب مضامین<br />
تحریر کئے‘ جو ابھی غیر مطبوعہ ہیں۔<br />
پی ایچ ڈی اور ایم فل سطح کی اسائنمنٹس بھی ہوتی رہی<br />
ہیں۔<br />
درج ذیل اہل قلم نے مضامین لکھے یا اپنی آراء دیں۔<br />
ڈاکٹر ابو سعید نور الدین‘ ڈاکٹر اختر شمار‘ ڈاکٹر اسلم<br />
ثاقب‘ ڈاکٹر اسعد گیلنی‘ ڈاکٹر انور سدید ڈاکٹر انعام الحق
جاوید‘ ڈاکٹر انعام الحق کوثر‘ ڈاکٹر اختر علی میرٹھی‘<br />
ڈاکٹر اختر سندھو‘ پروفیسر اکرام ہوشیارپوری‘ پروفیسر<br />
امجد علی شاکر‘ پروفیسر اطہر ناسک‘ پروفیسر انور جمال‘<br />
اکبر حمیدی‘ اقبال سحر انبالوی ‘ ادیب سہیل‘ انیس شاہ<br />
جیلنی‘ اکبر کاظمی‘ اعظم یاد‘ اسماعیل اعجاز‘ اشرف پال‘<br />
ڈاکٹر بیدل حیدری‘ بہرام طارق‘ ڈا کٹر تبسم کاشمیری‘ تاج<br />
پیامی‘ تنویر بخاری‘ ثناءالحق حقی‘ ڈاکٹر جمیل جالبی‘<br />
جمشید مسرور‘پروفیسر حسین سحر‘ حسن عسکری<br />
کاظمی‘ پروفیسر حفیظ صدیقی‘ ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی‘<br />
ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی‘ ڈاکٹر ذوالفقار دانش‘ ڈاکٹر<br />
ذوالفقار علی رانا‘ پروفیسر رب نواز مائل‘ رانا سلطان<br />
محمود‘ ڈاکٹر سعادت سعید‘ سرور عالم راز‘ میاں سعید بدر‘<br />
سید اختر علی‘ شاہد حنائی‘ ڈاکٹر صابر آفاقی‘ ڈاکٹر صادق<br />
جنجوعہ‘ ڈاکٹر ظہور احمد چوہدری‘ ڈاکٹر عبدالقوی ضیا‘<br />
ڈاکٹر عطاالرحمن‘ ڈاکٹر عبدالعزیز سحر‘ عباس تابش‘<br />
عبدالقوی دسنوی‘ پروفیسر عقیل حیدری‘ علی دیپک<br />
قزلباس‘ علی اکبر گیلنی‘ ڈاکٹر غلم شبیر رانا‘ ڈاکٹر<br />
فرمان فتح پوری‘ فہیم اعظمی‘ قیصر تمکین‘ ڈاکٹر قاسم<br />
دہلوی‘ پروفیسر کلیم ضیا‘ کوکب مظہر خاں‘ ڈاکٹر گوہر<br />
نوشاہی‘ ڈاکٹر مظفرعباس‘ ڈاکٹر محمد امین‘ ڈاکٹر مبارک<br />
علی‘ ڈاکٹر سید معین الرحمن‘ ڈاکثر منیر الدین احمد‘ ڈاکٹر<br />
محمد ریاض انجم‘ پروفیسر محمد رضا مدنی‘ مشفق
خواجہ‘ مشیر کاظمی‘ مسرور احمد زائی‘ محمود احمد<br />
مودی‘ مہر کاچیلوی‘ مسعود اعجاز بخاری‘ ڈاکٹر نجیب<br />
جمال‘ ڈاکٹر نثار قریشی‘ ڈاکٹر نوریہ بلیک‘ نیر زیدی‘<br />
ناصر زیدی‘ ندیم شعیب‘ ڈاکٹر وفا راشدی‘ ڈاکٹر وقار احمد<br />
رضوی‘ وصی مظہر ندوی‘ ولیت حسین حیدری‘ پروفیسر<br />
یونس حسن‘ وغیرہ وغیرہ<br />
سے کلم دستیاب ہوتا ہے۔ شاعری پر بہت سے لوگوں نے<br />
اظہار خیال کیا۔ جند ایک کے نام درج ہیں۔ ١٩٦٥<br />
ڈااکٹر آغا سہیل<br />
آفتاب احمد<br />
ڈاکٹر ابو سعید نور الدین<br />
احمد ریاض نسیم<br />
ڈاکٹر اسلم ثاقب<br />
اسلم طاہر<br />
ڈاکٹر احمد رفیع ندیم<br />
احمد ندیم قاسمی<br />
ڈاکٹر اختر شمار<br />
ڈاکٹر اسعد گیلنی
اسماعیل اعجاز<br />
اشرف پال<br />
اطہر ناسک<br />
اکبر کاظمی<br />
پروفیسر اکرام ہوشیار پوری<br />
ایاز قیصر<br />
ڈاکٹر بیدل حیدری<br />
پروفیسر تاج پیامی<br />
تنویر عباسی<br />
جمشید مسرور<br />
ڈاکٹر ریاض انجم<br />
سرور عالم راز<br />
خواجہ غضنفر ندیم<br />
ڈاکٹر فرمان فتح پوری<br />
ڈاکٹر صابر آفاقی<br />
ڈاکٹر صادق جنجوعہ
صفدر حسین برق<br />
ضیغم رضوی<br />
طفیل ابن گل<br />
ڈاکٹر ظہور احمد چودھری<br />
عباس تابش<br />
ڈاکٹر عبدا قاضی<br />
علی اکبر گیلنی<br />
پروفیسر علی حسن چوہان<br />
ڈاکٹر عطالرحمن<br />
فیصل فارانی<br />
ڈاکٹر گوہر نوشاہی<br />
ڈاکٹر مبارک احمد<br />
محبوب عالم<br />
مشیر کاظمی<br />
ڈاکٹر محمد امین<br />
پرفیسر محمد رضا مدنی
مہر افروز کاٹھیاواڑی<br />
مہر کاچیلوی<br />
ڈاکٹر منیرالدین احمد<br />
پروفیسر نیامت علی<br />
ندیم شعیب<br />
ڈاکٹر وزیر آغا<br />
ڈاکٹر وفا راشدی<br />
ڈاکٹر وقار احمد رضوی<br />
وی بی جی<br />
یوسف عالمگیرین<br />
پروفیسر یونس حسن<br />
اردو شاعری سے تراجم کرنے والے محترم حضرات<br />
انگریزی<br />
بلدیو مرزا<br />
پنجابی
پروفیسر امجد علی شاکر<br />
نصرا صابر<br />
پشتو<br />
علی دیپک قزلباش<br />
سندھی مہر کاچیلوی<br />
شاعری ڈازائین کی<br />
آمنہ رانی<br />
رباعیات خیام کے سہ مصرعی ترجمے کو بڑی پذیرائی<br />
-حاصل ہوئی نامور اہل قلم نے اپنی رائے کا اظہار کیا<br />
مثل<br />
ڈاکٹر عبدالقوی ضیا کینیڈا<br />
ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی<br />
ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی<br />
ڈاکٹر ابوسعید نورالدین‘ ڈھاکہ‘ بنگلہ دیش<br />
ڈاکٹراسلم ثاقب‘ مالیر کوٹلہ‘ بھارت
ڈاکٹر اختر علی<br />
ڈاکٹر وفا راشدی<br />
ڈاکٹر صابر آفاقی<br />
ڈاکٹر منیرالدین احمد‘ جرمنی<br />
پروفیسر کلیم ضیا‘ بمبئی‘ انڈیا<br />
پرفیسر رب نواز مائل<br />
پروفیسراکرام ہوشیار پوری<br />
پروفیسرامجد علی شاکر<br />
پروفیسر حسین سحر<br />
ڈاکٹر عطاالرحمن<br />
ڈاکٹر رشید امجد<br />
ڈاکٹر محمد امین<br />
علی دیپک قزلباش<br />
سید نذیر حسین فاضل<br />
حرفی ایوارڈز
آل عمران<br />
بہت زبردست آدمی<br />
ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری<br />
اہل نظر<br />
ڈاکٹر محمد امین<br />
خلق ذہن‘ فعال شخصیت‘ جدت پسند<br />
ڈاکٹر انور سدید<br />
اردو کے مایہءناز ادیب<br />
انیس شاہ جیلنی<br />
کمال بزرگ
ڈاکٹر ایلن جان<br />
ہائی لی موٹی وئیٹڈ<br />
ایم ارشد خالد<br />
بڑے کام کا آدمی<br />
پرفیسر اکرام ہوشیارپوری<br />
بیدار مغز ادیب وشاعر<br />
بدر انج میاں<br />
بڑا لکھاری<br />
ثقلین احمد<br />
عطر فروش<br />
ڈاکٹر تبسم کاشمیری
گودڑی کا لعل‘ بلھے کا مور<br />
جی کے تاج<br />
نرم دل انسان<br />
ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی<br />
ہمہ جہت ادیب' تحقیق پسند<br />
ڈاکٹر ذوالفقار دانش<br />
ہمہ جہت شخصیت<br />
رانا سلطان محمود<br />
عظیم قومی سرمایہ<br />
پروفیسر رمضانہ برکت<br />
چلتا پھرتا انسکلوپیڈیا
ریسا کیسٹل<br />
مین وڈ ویزڈم<br />
رینجنا ڈس<br />
سویث پرسن<br />
ڈاکٹر سعادت سعید<br />
‘استادالساتذہ<br />
اردو کی ترویج و ترقی میں ڈاکٹر سید عبدا کے بعد کا<br />
شخص<br />
شاہ سوار علی ناصر<br />
گامو سوچیار<br />
سوی عباس<br />
گریٹ مین
ڈاکٹر صفدر حسین برق<br />
شعر کی دنیا میں<br />
ایک شخص<br />
پیغمبر نکل<br />
ڈاکٹر صابر آفاقی<br />
معروف محققوں میں‘ سرفہرست<br />
ضیغم رضوی<br />
روایت شکن<br />
ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر<br />
فرد فرید<br />
ڈاکٹر عبداالقوی ضیا علیگ
شخصیت میں مقصدیت اور معروضیت<br />
پروفیسر علی حسن چوہان<br />
اپنی ذات میں ایک انجمن<br />
ڈاکٹر غلم شبر رانا<br />
عظیم داشور‘ ہمالہ کی سر بہ فلک چوٹی<br />
ڈاکٹر کرنل غلم فرید بھٹی<br />
باصلحیت ساتھی<br />
غلم مصطفے بسمل<br />
بلند پایہ حقائق نگار<br />
کالمنگ میلوڈی<br />
فراخ طبیعت اور مزاج‘ فراخ دل
کرشنا دیو<br />
ہمیشہ الگ سے سوچنے وال<br />
ڈاکٹر گوہر نوشاہی<br />
باشعور تخلیق کار<br />
پروفیسر محمد رضا مدنی<br />
بگ گن<br />
ڈاکٹر مظفر عباس<br />
ہمہ جہت شخصیت‘ ہمہ جہت تخلیق کار<br />
مثل سر سید<br />
معراج جامی سید<br />
فعال اور متحرک شخصیت
ڈاکٹر معین الرحمن‘ سید<br />
معنی یاب اور محنتی متن شناس<br />
ڈاکٹر مقصود الہی شیخ<br />
بڑے ملپڑے<br />
نابغہءروزگارشخصیت<br />
ناصر زیدی<br />
قابل ذکر شخصیت‘ ہمہ جہت اہل قلم<br />
ڈاکٹر نجیب جمال<br />
نایاب شخص ' آزمودہ کار محقق و نقاد<br />
ڈاکٹر نوریہ بلیک<br />
شفیق اور مہربان انسان
پروفیسر نیامت علی<br />
لوجک اور ریسرچ سے روایت شکنی کرنے وال<br />
واہیو سورنو<br />
ویری گڈ لیڈر<br />
ڈاکٹر وقار احمد رضوی<br />
ادیب شہیر<br />
ڈاکٹر وفا راشدی<br />
محنتی حرف کار‘ دائروں سے باہر کا شخص<br />
پروفیسر یاسمین تبسم<br />
عدیم المثال شخصیت<br />
وغیرہ وغیرہ<br />
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?
id=51215<br />
فرہنگ غالب ایک نادر مخطوطہ<br />
(,پروفیسر یونس حسن (<br />
ڈاکٹر مقصود حسنی عصر حاضر کے ایک نامور غالب<br />
شناس ہیں۔ غالب کی لسانیات پر ان کی متعدد کتابیں چھپ<br />
چکی ہیں۔ جناب لطیف اشعر ان پر اس حوالہ سے ایم فل<br />
سطح کا تحقیقی مقالہ بھی رقم کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر مقصود<br />
حسنی نے لفظیات غالب کے تہذیبی‘ تمدنی‘ اصطلحی‘<br />
ساختیاتی اور لسانیاتی پہلووں پر نہایت جامع اور وقع کام<br />
کیا ہے۔ ان کا کام اپنی نوعیت کا منفرد اور جداگانہ کام ہے۔<br />
ابھی تک غالب کی لسانیات پر تحقیقی کام دیکھنے میں<br />
نہیں آیا۔ ان کے کام کی انفرادیت اس حوالے سے بھی ہے<br />
کہ آج تک غالب کی تشریحات کے حوالہ سے ہی کام ہوا<br />
ہے جبکہ غالب کی لسانیات پر ابھی تک کسی نے کام نہیں<br />
کیا۔<br />
لسانیات غالب پر ان کا ایک نادر مخطوطہ۔۔۔۔فرہنگ غالب۔۔۔۔<br />
بھی ہے۔ یہ مخطوطہ فرہنگ سے زیادہ لغات غالب ہے۔ اس
مخطوطے کے حوالہ سے لفظات غالب کی تفہیم میں شارح<br />
کو کئی نئے گوشے ملتے ہیں اور وہ تفہیم میں زیادہ<br />
آسانی محسوس کر سکتا ہے۔ غالب کے ہاں الفظ کا<br />
استعمال روایت سے قطعی ہٹ کر ہوا ہے۔ روایتی اور<br />
مستعمل مفاہیم میں اشعار غالب کی تفہیم ممکن ہی نہیں۔<br />
ڈاکٹر صاحب نے یہ لغات بھی عجب ڈھنگ سے ترتیب دی<br />
ہے۔ لفظ کو عہد غالب سے پہلے‘ عہد غالب اور عہد غالب<br />
کے بعد تک دیکھا ہے۔ ان کے نزدیک غالب شاعر فردا<br />
ہے۔ لفظ کے مفاہیم اردو اصناف شعر میں بھی تلش کیے<br />
گیے ہیں۔ یہاں تک کہ جدید صنف شعر ہائیکو اور فلمی<br />
شاعری کو بھی نظرانداز نہیں کیا گیا۔ امکانی معنی بھی<br />
درج کر دیے گیے ہیں۔<br />
اس مخطوطے کے مطالعہ سے ڈاکٹر مقصود حسنی کی<br />
لفظوں کے باب میں گہری کھوج اور تلش کا پتا جلتا ہے۔<br />
اس تلش کے سفر میں ان کی ریاضت‘ مغز ماری‘ لگن اور<br />
سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے لفظ کی تفہیم کے<br />
لیے‘ اردو کی تمام شعری اصناف کو کھنگال ڈال ہے۔ ایک<br />
ایک لفظ کے درجنوں اسناد کے ساتھ معنی پڑھنے کو<br />
ملتے ہیں۔ ماضی سے تادم تحریر شعرا کے کلم سے<br />
استفادہ کیا گیا ہے۔ گویا لفظ کے مفاہیم کی گرہیں کھلتی
چلی جاتی ہیں۔<br />
اس نادر مخطوطے کا سرسری جائزہ بھی اس جانب توجہ<br />
مبذول کراتا ہے کہ غالب کو محض سطعی انداز سے نہ<br />
دیکھیں۔ اس کے کلم کی تفہیم سرسری مطالعے سے ہاتھ<br />
آنے کی نہیں۔ اسے سمجھنے کے لیے سنجیدہ غوروفکر<br />
کرنا پڑتا ہے۔ پروفیسر حسنی کی یہ کاوش فکر و تلش<br />
اسی امر کی عملی دلیل ہے۔ انہوں غالب کے قاری کے لیے<br />
آسانیاں پیدا کرنے کے لیے اپنی سی جو کوششیں کی ہیں<br />
وہ بلشبہ لیق تحسین ہیں۔<br />
ماضی میں غالب پر بڑا کام ہوا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ وہ<br />
آج بھی ادبی حلقوں میں تشریح طلب مصرعے کا درجہ<br />
رکھتا ہے۔ تشنگی کی کیفیت میں ہرچند اضافہ ہی ہوا ہے۔<br />
اس صورت حال کے تحت بڑے وثوق سے کہا جا سکتا ہے<br />
کہ غالب مستقبل قریب و بعید میں اپنی ضرورت اور اہمیت<br />
نہیں کھوئے گا یا اس پر ہونے والے کام کو حتمی قرار<br />
نہیں دے دیا جائے گا۔ جہاں تفہیم غالب کی ضرورت باقی<br />
رہے گی وہاں ڈاکٹر مقصود حسنی کی فرہنگ غالب کو<br />
بنیادی ماخذ کا درجہ بھی حاصل رہے گا۔ اسے تفہیم غالب<br />
کی ذیل میں نظر انداز کرنے سے ادھورہ پن محسوس کیا
جاتا رہے گا۔<br />
اس مخطوطے کی اشاعت کی جانب توجہ دینا غالب فہمی<br />
کے لیے ازبس ضروری محسوس ہوتا ہے۔ جب تک یہ<br />
مخطوطہ چھپ کر منظر عام پر نہیں آ جاتا غالب شناسی<br />
تشنگی کا شکار رہے گی۔ لوگوں تک اس میں موجود<br />
گوشوں کا پہنچنا غالب شناسی کا تقاضا ہے کیونکہ جب<br />
تک یہ نادر مخطوطہ چھپ کر سامنے نہیں آ جاتا اس کی<br />
اہمیت اور ضرورت کا اندازہ نہیں ہو سکے گا۔ یہ بھی کہ<br />
غالب کے حوالہ سے پروفیسر حسنی کی لسانی بصیرت کا<br />
اندازہ نہیں ہو سکے گا۔ وہ گویا لسانیات غالب پر کام کرنے<br />
والوں میں نقش اول کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ لغت آ سے<br />
شروع ہو کر لفظ یگانہ کی معنوی تفہیم تک جاتی ہے۔<br />
ڈاکٹر مقصود حسنی بطور ایک اسلمی مفکر اور اسکالر<br />
مرتبہ: پروفیسر یونس حسن
ڈاکٹر مقصود حسنی بلشبہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے<br />
مالک ہیں۔ وہ مختلف ادبی سائنسی سماجی صحافتی وغیرہ<br />
فیلڈز میں اپنے قلم کا جوہر دکھلتے چلے آ رہے ہیں۔ ان<br />
کے دوجنوں مقالے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہو<br />
چکے ہیں۔ بیس سے زائد کتب بھی منظر عام پر آ چکی<br />
ہیں۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ ان کا تخلیقی اور تحقیقی<br />
سفر نت نئی منزلوں کی جانب رواں دواں رہا ہے۔ ان کے<br />
اس سفر میں ہر سطح پر تنوع اور رنگا رنگی کی صورت<br />
نطر آتی ہے۔ ڈاکٹر اختر شمار انہیں ادبی جن کہتے ہیں۔<br />
راقم نے حال ہی میں ان کے اسلم سے متعلق کچھ<br />
مضامین کا سراغ لگایا ہے۔ یہ مختلف اخبارات میں شائع ہو<br />
چکے ہیں۔ یہ کل کتنے ہوں گے ٹھیک سے کہہ نہیں سکتا<br />
تاہم ستر کا میں کھوج لگا سکا۔<br />
ان مضامین کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ<br />
ڈاکٹر صاحب کا اسلم کے بارے مطالعہ سرسری اور عام<br />
نوعیت کا نہیں۔ انہوں نے اپنے مضامین میں انسان اور<br />
عصر حاضر کے مسائل کو موضوع گفتگو بنایا ہے۔ ان کے<br />
موضوعات ان کی گہری تلش اور سنجیدہ غور و فکر کا<br />
مظہر ہیں۔ وہ روایت سے ہٹ کر کفتگو کرتے ہیں۔ انہوں<br />
نے فلسیفانہ موشلفیوں کو چھوڑ کر نہایت سادہ اور
دلنشین انداز میں اپنی بات قاری تک پہنچائی ہے۔ اسلم کا<br />
موڈریٹ اور روشن چہرا دکھایا ہے۔ انہوں نے ہر قسم کے<br />
تعصبات تنگ نظری اور رجعت پسندی کی نفی کرتے ہوئے<br />
حقیقت اور انسانیت سے محبت کے پہلو کو اجاگر کیا ہے۔<br />
ان کے نزدیک ہر انسان قابل قدر ہے اور اسے معاشی<br />
سماجی عزت اور انصاف مہیا ہونا چاہیے۔ اسلم کے گوناں<br />
گوں موضوعات اور پہلووں پر لکھے ہوئے مضامین میں<br />
رواداری ایثار اور قربانی کا پیغام ملتا ہے۔ ان کے نزدیک<br />
انسان کو دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کیے تخلیق<br />
کیا گیا ہے۔ اسے ان کی مشکلت مصائب اور المیوں کے<br />
تدارک کے لیے اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ ان کے نزدیک<br />
اختلف رائے پرداشت کرنے کا مادہ پیدا کرنا چاہیے۔ دلیل<br />
سے بات کرنے کی طرح ڈالنا ہی آج کی ضرورت ہے۔<br />
اسلم کے گونا گوں موضوعات پر ڈاکٹر مقصود حسنی کے<br />
مضامین اور کالم اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ وہ صرف<br />
اردو ادب کی یگانہء روزگار شخصیت نہیں ہیں بلکہ<br />
اسلمی امور کے بھی ایک اہم اسکالر ہیں۔ ان کی شخصیت<br />
کا یہ شیڈ اور زاویہ شاید ان کے بہت سے پڑھنے والوں پر<br />
وا نہ ہوا ہو گا۔ راقم نے بصد کوشش ستر مضامین کا کھوج
لگایا ہے۔ ہو سکتا ہے میری یہ کوشش کسی کے کام کی<br />
نکلے۔ ان مضامین کے تناظر میں ان کی اسلمی سوچ کی<br />
ندرت اوراپج انہیں سمجھنے میں اپنا کردار ادا کر سکتی<br />
ہے۔ ان کا یہ اسلوب روانی دلکشی اور مخصوص رعنائی<br />
رکھتا ہے۔ ذیل میں ان کے مضامین کی فہرست قارئین کی<br />
نذر کی جاتی ہے۔<br />
-١<br />
-٢<br />
تعبیر شریعت‘ قومی اسمبلی اور مخصوص صلحیتیں<br />
روزنامہ مشرق لہور<br />
٢٠ دسمبر ١٩٨٦<br />
شریعت عین دین نہیں‘ جزو دین ہے روزنامہ مشرق<br />
لہور<br />
٥ جنوری ١٩٨٧<br />
-٣<br />
اسلم کا نظریہء قومیت اور جی ایم سید کا موقف<br />
روزنامہ مشرق لہور<br />
١٥ فروری ١٩٨٧<br />
-٤<br />
غیر اسلمی قوتیں اور وفاق اسلم کی ضرورت روزنامہ<br />
مشرق لہور<br />
٢٩ اپریل ١٩٨٧<br />
-٥<br />
غیر اسلمی قوانین اور وفاق اسلم روزنامہ مشرق<br />
لہور<br />
٢٨ اپریل ١٩٨٧<br />
-٦<br />
اسلم ایک مکمل ضابطہءحیات روزنامہ وفاق لہور<br />
جنوری<br />
٧<br />
١٩٨٨
-٧<br />
اسلم مسائل و معاملت کے حل کے لیے اجتہاد کے در<br />
وا کرتا ہے<br />
روزنامہ مشرق لہور<br />
٧ جنوری ١٩٨٨<br />
-٨<br />
اسلم سیاست اور جمہوریت روز نامہ جنگ لہور<br />
جنوری<br />
٢٦<br />
١٩٨٨٨ -<br />
-٩<br />
اسلم میں سپر پاور کا تصور روزنامہ مشرق لہور<br />
فروری<br />
٥<br />
١٩٨٨<br />
-١٠<br />
پاکستان اور غلبہءاسلم دو اقساط ہفت روزہ الصلح<br />
لہور<br />
١٩ فروری ١٩٨٨<br />
‘١٢<br />
-١١<br />
-١٢<br />
مسلمانوں کی نجات اسلم میں ہے ہفت روزہ الصلح<br />
لہور ٢٢ فروری ١٩٨٨<br />
انسان کی ذمہ داری خیر و نیکی کی طرف بلنا اور<br />
برائی سے منع کرنا ہے<br />
روزنامہ مشرق لہور<br />
٢٢فروری<br />
١٩٨٨<br />
-١٣<br />
خداوند عالم‘ انسان دوست حلقے اور انسانی خون<br />
روزنامہ مشرق لہور<br />
٧ مارچ ١٩٨٨<br />
-١٤<br />
-١٥<br />
اسلمی دنیا اور قران و سننت روزنامہ مشرق لہور<br />
٢٦ مارچ ١٩٨٨<br />
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
روزنامہ مشرق لہور ٢٩ مارچ<br />
١٩٨٨<br />
-١٦<br />
ربط ملت میں علمائے امت کا کردار ہفت روزہ<br />
الصلح لہور<br />
١٥ اپریل ١٩٨٨<br />
-١٧<br />
غلبہءاسلم کے لیے متحد اور یک جا ہونے کی<br />
ضرورت روزنامہ مشرق لہور٣٠ اپریل<br />
١٩٨٨<br />
-١٨<br />
اسلم کا پارلیمانی نظام رائے پر استوار ہوتا ہے<br />
روزنامہ مشرق لہور<br />
٧ مئی ١٩٨٨<br />
-١٩<br />
-٢٠<br />
نفاذ اسلم اور عصری جمہوریت کے حیلے روزنامہ<br />
نوائے وقت لہور ١٤ مئی ١٩٨٨<br />
اسلم انسان اور تقاضے ہفت روزہ الصح لہور<br />
مئی<br />
٢٧<br />
١٩٨٨<br />
-٢١<br />
-٢٢<br />
-٢٣<br />
بنگلہ دیش میں اسلم یا سیکولرازم روزنامہ مشرق<br />
لہور ١جون ١٩٨٨<br />
بنگلہ دیش میں اسلم۔۔۔۔۔اسلمی تاریخ کی درخشاں<br />
مثال روزنامہ مشرق لہور ٢٠ جون ١٩٨٨<br />
اسلم کا نظریہءقومیت اور اسلمی دنیا روزنامہ امروز<br />
لہور<br />
٢٠ جون ١٩٨٨<br />
-٢٤<br />
اسلم کا نظریہءقومیت روزنامہ مشرق لہور<br />
جولئی<br />
١٥<br />
١٩٨٨
-٢٥<br />
ہماری نجات اتحاد اور لہو سے مشروط ہے روزنامہ<br />
مشرق لہور<br />
٣٠ اگست ١٩٨٨<br />
-٢٦<br />
-٢٧<br />
-٢٨<br />
-٢٩<br />
اسلم اور کفر کا اتحاد ممکن نہیں روزنامہ وفاق لہور<br />
٣٠ اگست ١٩٨٨<br />
انسان زمین پر خدا کا خلیفہ ہے روزنامہ امروز لہور<br />
٣٠ اگست ١٩٨٨<br />
جمہوریت اشتراکیت اور اسلم روزنامہ مشرق لہور<br />
٣٠ اگست ١٩٨٨<br />
حضور کا پیغام ہے برائی کو طاقت سے روک دو<br />
روزنامہ مشرق لہور<br />
٣١ اگست ١٩٨٨<br />
-٣٠<br />
امت مسلمہ رنگ و نسل‘ علقہ زبان اور نظریات کے<br />
حصار میں مقید ہے<br />
روزنامہ مشرق لہور<br />
٣١ اگست ١٩٨٨<br />
-٣١<br />
آزاد مملکت میں اسلمی نقطہءنظر اور آزادی روزنامہ<br />
وفاق لہور<br />
٥ ستمبر ١٩٨٨<br />
-٣٢<br />
اسلمی دنیا سے ایک سوال روز نامہ وفاق لہور<br />
ستمبر<br />
٥<br />
١٩٨٨<br />
-٣٣<br />
پاکستان میں نفاذاسلم کا عمل روزنامہ وفاق لہور<br />
اکتوبر<br />
٢<br />
١٩٨٨
-٣٤<br />
اسلم میں عورت کا مقام روزنامہ وفاق لہور<br />
اکتوبر<br />
٢٥<br />
١٩٨٨<br />
-٣٥<br />
-٣٦<br />
-٣٧<br />
انسانی فلح اسلم کےبغیر ممکن نہیں روزنامہ وفاق<br />
لہور ٢٨ اکتوبر ١٩٨٨<br />
اسلم کی پیروی کا دعوی تو ہے مگر! روزنامہ آفتاب<br />
لہور ٢٨ اکتوبر ١٩٨٨<br />
پاکستان میں نفاذ اسلم کیوں نہیں ہو سکا روزنامہ<br />
وفاق لہور<br />
٣١ اکتوبر ١٩٨٨<br />
-٣٨<br />
نفاذ اسلم میں تاخیر کیوں روزنامہ آفتاب لہور<br />
نومبر<br />
٨<br />
١٩٨٨<br />
-٣٩<br />
اسلمی دنیا کے قلعہ میں داڑاڑیں کیوں ہفت روزہ<br />
جہاں نما لہور<br />
١٠ نومبر ١٩٨٨<br />
-٤٠<br />
اعتدال اور توازن کا رستہ عین اسلم ہے روزنامہ<br />
مشرق لہور<br />
٢٠ نومبر ١٩٨٨<br />
-٤٢<br />
-٤١<br />
اسلم کا نظام سیاست و حکومت روزنامہ مشرق لہور<br />
٢٢ نومبر ١٩٨٨<br />
شناخت‘ اسلمائزیشن کا پہل زینہ روزنامہ مشرق<br />
لہور<br />
٣٠ نومبر ١٩٨٨<br />
-٤٣<br />
اسلم کے داعی طبقے کی شکست کیوں روزنامہ
مساوات لہور ٥ دسمبر<br />
١٩٨٨<br />
-٤٤<br />
کیا اسلم ایک قدیم مذہب ہے روزنامہ وفاق لہور<br />
جنوری<br />
١٠<br />
١٩٨٩<br />
-٤٥<br />
ملت اسلمیہ کی عظمت رفتہ روزنامہ وفاق لہور<br />
فروری<br />
٢<br />
١٩٨٩<br />
-٤٦<br />
اسلم اور عصری جمہوریت چار اقساط روزنامہ وفاق<br />
لہور<br />
فروری‘<br />
٣ مارچ‘ ٢٨ اگست ١٩٨٩<br />
-٤٧<br />
-٤٨<br />
اہل اسلم کے لیے لمحہءفکریہ روز نامہ وفاق لہور<br />
٨ مارچ ١٩٨٩<br />
اسلم دوست حلقوں کے لیے لمحہءفکریہ روزنامہ<br />
وفاق لہور<br />
١٩ مارچ ١٩٨٩<br />
-٤٩<br />
-٥٠<br />
-٥١<br />
-٥٢<br />
غیر اسلمی دنیا کے خلف جہاد کرنے کی ضرورت<br />
روزنامہ وفاق لہور ١٩ مارچ ١٩٨٩<br />
اسلمی دنیا‘ ذلت و خواری کیوں روزنامہ وفاق لہور<br />
٢٢ مئی ١٩٨٩<br />
امور حرامین میں اسلمی دنیا کا کردار ماہنامہ وحدت<br />
اسلمی اسلم آباد محرم ١٣١١ھ<br />
حج کی اہمیت عظمت اور فضیلت روزنامہ وفاق لہور
جولئی ١٩٨٩<br />
-٥٣<br />
اسلمی مملکت میں سربراہ مملکت کی حیثیت روزنامہ<br />
وفاق لہور<br />
٦ جولئی ١٩٨٩<br />
-٥٤<br />
-٥٥<br />
نفاذ اسلم کی کوششیں روز نامہ وفاق لہور ٣ اگست<br />
١٩٨٩<br />
اسلم عصر جدید کے تقاضے پورا کرتا ہے روزنامہ<br />
مشرق لہور ٤ اگست ١٩٨٩<br />
اسلم اور عصری ے جمہوریت چار اقساط روزنامہ وفاق<br />
لہور<br />
فروری‘<br />
٣ مارچ‘ ٢٨ اگست ١٩٨٩<br />
-٥٦<br />
مسلم دنیا کی نادانی جوہرقسم کی ارزانی ہفت روزہ<br />
جہاں نما لہور<br />
١٧ ستمبر ١٩٨٩<br />
-٥٧<br />
اسلم میں جہاد کی ضرورت و اہمیت روزنامہ وفاق<br />
لہور<br />
٣٠ ستمبر ١٩٨٩<br />
-٥٨<br />
ورقہ بن نوفل کا قبول روزنامہ وفاق لہور<br />
١٥ اکتوبر<br />
١٩٨٩<br />
-٥٩<br />
اسلم میں جرم و سزا کا تصور روزنامہ مشرق لہور<br />
١٥ اکتوبر ١٩٨٩
-٦٠<br />
پاکستان اسلمی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے<br />
کے لیے حاصل کیا گیا تھا<br />
روزنامہ مشرق لہور<br />
١٥ اکتوبر ١٩٩٠<br />
-٦١<br />
ہم اسلم کے ماننے والے ہیں پیروکار نہیں اردو نیٹ<br />
جاپان<br />
-٦٢<br />
-٦٣<br />
ہم مسلمان کیوں ہیں اردو نیٹ جاپان<br />
مذہب اور حقوق العباد کی اہمیت اردو نیٹ جاپان<br />
-٦٤<br />
-٦٥<br />
آقا کریم کی آمد ورڈز ولیج ڈاٹ کام<br />
ا انسان کی غلمی پسند نہیں کرتا فورم پاکستان ڈاٹ<br />
کام<br />
-٦٦<br />
مسلمان کون ہے سکربڈ ڈاٹ کام<br />
٦٧- سکھ ازم یا ایک صوفی سلسلہ اردو نیٹ جاپان<br />
-٦٨<br />
-٦٩<br />
شرک ایک مہلک اور خطرناک بیماری<br />
اسلمی سزائیں اور اسلمی و غیراسلمی انسان اردو<br />
نیٹ جاپان<br />
-٧٠<br />
پہل آدم کون تھا سکربڈ ڈاٹ کام
مقصود حسنی کے تنقیدی جائزے۔۔۔۔۔ ایک تدوینی مطالعہ<br />
محبوب عالم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قصور<br />
تخلیق‘ تنقید اور تحقیق انسانی فطرت کا حصہ ہیں۔ کچھ<br />
لوگ ان سے زیادہ قربت اختیار کرتے ہیں اور اپنی<br />
کاوششوں کو کاغذ پر منتقل کر دیتے ہیں یا انہیں عملی<br />
جامہ پہنا دیتے ہیں۔ ان کے برعکس کچھ لوگ ان<br />
صلحیتوں کا بہت ہی کم استعمال کرتے ہیں تاہم ان سے<br />
کچھ نہ کچھ نادانستہ طور پر ہوتا رہتا ہے۔ جس طرح<br />
سائنسی ایجادات زندگی میں آسودگی یا عدم تحفظ کا سبب<br />
بنتی ہیں‘ بالکل اسی طرح ادبی تخلیقات بھی انسانی زندگی<br />
پر اپنے اثرات چھوڑتی ہیں۔ انسانی رویوں‘ رجحانات اور<br />
ترجیحات میں تبدیلی لتی ہیں۔ تخلیق ادب کے لیے جہاں<br />
ایک فکر انگیز احساس اور شعور کی ضرورت ہوتی ہے<br />
وہاں اس ادب کی جانچ اور پرکھ کے لیے اس سے قریب<br />
تر تنقیدی شعور بھی ہونا چاہیے۔ ادبی سرمائے کی صحیح<br />
تفہیم کے لیے تنقیدی شعور کا معقول ہونا ضروری ہے۔<br />
تنقید اپنی اصل میں مطالعہ کا سلیقہ سکھاتی ہے۔
پروفیسر مقصود حسنی نے اپنی تمام عمر ادب کی خدمت<br />
کرتے گزاری ہے۔ انہوں نےتقریبا ہر صنف ادب پر عقابی<br />
نظر رکھی ہے۔ تنقید بھی ان کا میدان عشق رہا ہے۔ شرق و<br />
غرب کے اہل قلم کی کاوشوں کو جانچا اور پرکھا ہے۔ ان<br />
کی نہ صرف ادبی حیثیت و اہمیت کا تعین کیا ہے بلکہ اس<br />
کے ممکنہ سماجی اثرات کا بھی اندازہ پیش کیا ہے۔ یہ بھی<br />
کہ وہ کس سماجی رویے یا رجحان کا نتیجہ ہیں‘ کا بھی<br />
ذکر کیا ہے۔ ادبی کاوشوں پر ان کا اظہار خیال کسی سطح<br />
پر نظر انداز نہ کیا جا سکے گا۔<br />
باباجی مقصود حسنی کسی ادبی گروپ یا گروہ سے منسلک<br />
نہیں رہے۔ وہ کسی انسلک کے قائل بھی نہیں ہیں۔ انہوں<br />
نے جس تخلیق پر بھی اظہار خیال کیا ہے اپنا بندہ ہے‘<br />
سے ہٹ کر کیا ہے۔ انہوں نے وہی لکھا ہے جو نظرآیا ہے<br />
یا جو انہوں نے محسوس کیا ہے۔ وہ ان تخلیقات کے<br />
سماجی معاشی اور نظریاتی حوالوں کو بھی دوران مطالعہ<br />
نظر میں رکھتے ہیں۔ وہ ان عوامل تک اپروچ کی کوشش<br />
کرتے ہیں جو وجہءتخلیق بنے ہوتے ہیں۔
تاریخ سے بھی باباجی شغف رکھتے ہیں‘ اس لیے وہ یہ<br />
بھی دیکھتے ہیں کہ زیر مطالعہ کاوش ادبی تاریخ کے کس<br />
مقام و مرتبے پر کھڑی ہے۔ مطالعہ کے دوران تقابلی<br />
صورت کو بھی زیر بحث لتے ہیں۔ ادبی تخلیق کے فکری‘<br />
فنی اور لسانی متوازن احاطہ باباجی کے تنقیدی رویوں کا<br />
امتیازی پہلو ہے اور انہیں دوسرے نقادوں سے ممتاز کرتا<br />
ہے۔<br />
باباجی مقصود حسنی کی نظر فن پارے کے تخلیقی تحرک<br />
پر مرتکز رہتی ہے۔ وہ اس کھوج میں رہتے ہیں کہ کون<br />
کون سے عوامل تھے‘ جو اس کاوش کی تخلیق کا سبب<br />
بنے۔ وہ اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کرتے کہ اس<br />
تخلیق کے اضافے سے ادب کا چہرا کیسا دکھائی دے گا۔<br />
لسانیات چونکہ ان کی پسند کا میدان ہے‘ اس لیے وہ اس<br />
تخلیق کو لسانی حوالہ سے ضرور پرکھتے ہیں اور اس کی<br />
لسانی خوبیوں وغیرہ پر گفتگو کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک<br />
کوئی جملہ چاہے کسی جاہل کے منہ ہی سے کیوں نہ نکل<br />
ہو‘ لسانی حوالہ سے بےکار نہیں۔ اس میں کچھ نہ کچھ نیا<br />
ضرور ہوتا ہے۔ کوئی اصطلح میسرآ سکتی ہے جو پہلے<br />
استعمال میں نہیں آئی ہوتی۔ اس کا مقامی اور نیا تلفظ<br />
سامنے آ سکتا ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ وہ اس تخلیق کے
لسانی پہلو پر بھی نظر ڈالتے ہیں۔<br />
ادب کی تنقیدی روایت میں جہاں انہوں نے انفرادی طور پر<br />
ادیبوں کی تخلیقات کو موضوع بنایا ہے وہاں تحقیقی اور<br />
تنقیدی کتب پر بھی احسن انداز میں گفتگو کی ہے۔ نفاست<br />
اور رکھ رکھاؤ کو ان کے مضامین کا طرہءامتیاز قرار دینا<br />
غلط نہ ہو گا۔ میں نے بصد کوشش ان کے پچاس سے زائد<br />
مطبوعہ و غیر مطبوعہ مضامین کو تلش کیا ہے۔ ممکن<br />
ہے ادبی تحیقیق کرنے والوں کے لیے کام کے ثابت ہوں۔<br />
ان مضامین پر تحقیقی کام کرنے کی ضرورت کو بھی<br />
نظرانداز نہیں کیا جا سکےگا۔<br />
-١<br />
بوف کور۔۔۔ایک جائزہ ماہنامہ تفاخر لہور مارچ<br />
١٩٩١<br />
-٣<br />
-٢<br />
اکبر اقبال اور مغربی زاویے ہفت روزہ فروغ حیدرآباد<br />
١٦ جولئی ١٩٩١<br />
اکبر اور تہذیب مغرب۔۔۔۔۔۔روزنامہ وفاق لہور<br />
جولئی<br />
٢٥<br />
١٩٩١<br />
-٤<br />
نذیر احمد کے کرداروں کا تاریخی شعور ماہنامہ صریر<br />
کراچی مئی ١٩٩٢
-٥<br />
-٦<br />
-٧<br />
-٨<br />
-٩<br />
-١٠<br />
کرشن چندر کی کردار نگاری ماہنامہ تحریریں لہور<br />
جون۔جولئی ١٩٩٢<br />
اسلوب‘ تنقیدی جائزہ سہ ماہی صحیفہ لہور جولئی تا<br />
ستمبر ١٩٩٢<br />
پطرس بخاری کے قہقہوں کی سرگزشت ماہنامہ تجدید<br />
نو لہور اپریل ١٩٩٣<br />
شیلے اور زاہدہ صدیقی کی نظمیں ماہنامہ تحریریں<br />
لہور دسمبر ١٩٩٣<br />
شوکت الہ آبادی کی نعتیہ شاعری ماہنامہ الانسان<br />
کراچی دسمبر ١٩٩٣<br />
میرے بزرگ میرے ہم عصر‘ ایک جائزہ ماہنامہ اردو<br />
ادب اسلم آباد اپریل۔جون<br />
١٩٩٦<br />
-١١<br />
-١٢<br />
-١٣<br />
-١٤<br />
یا عبدالبہا‘ تشریحی مطالعہ ماہنامہ نفحات لہور<br />
جولئی ١٩٩٦<br />
ڈاکٹر محمد امین کی ہائیکو نگاری ماہنامہ ادب لطیف<br />
لہور اکتوبر ١٩٩٦<br />
بیدل حیدری اردو غزل کی توانا آواز مشمولہ شعریات<br />
شرق و غرب ١٩٩٦<br />
کثرت نظارہ۔۔۔ایک منفرد سفرنامہ پندرہ روزہ ہزارہ
-١٦<br />
-١٥<br />
ٹائمز ایبٹ آباد یکم جولئی ١٩٩٧<br />
داستان وفا۔۔۔۔ایک مطالعہ ماہنامہ اردو ادب اسلم آباد<br />
نومبر۔ دسمبر ١٩٩٧<br />
شاہی کی کی شاعری کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ<br />
مشمولہ کتاب اردو شعر۔۔۔فکری و لسانی رویے<br />
١٩٩٧<br />
-١٧<br />
-١٨<br />
-١٩<br />
ڈاکٹر بیدل حیدری کی اردو غزل مشمولہ کتاب اردو<br />
شعر۔۔۔فکری و لسانی رویے ١٩٩٧<br />
پروفیسر مائل کی اردو نظم مشمولہ کتاب اردو شعر۔۔۔<br />
فکری و لسانی رویے ١٩٩٧<br />
علمہ مشرقی اور تسخیر کائنات کی فلسفی ہفت روزہ<br />
الصلح لہور<br />
٥ تا ١٨ مئی ١٩٩٨<br />
-٢٠<br />
-٢١<br />
-٢٢<br />
-٢٣<br />
ڈاکٹر منیر احمد کے افسانے اور مغربی طرز حیات<br />
ماہنامہ ادب لطیف لہور جنوری ١٩٩٩<br />
ڈاکٹر منیر احمد کا ایک متحر کردار ماہنامہ لہور<br />
دسمبر ١٩٩٩<br />
حفیظ صدیقی کے دس نعتعہ اشعار ماہنامہ تحریریں<br />
لہور جولئی ١٩٩٩<br />
رئیس امروہوی کی قطعہ نگاری ماہنامہ نوائے پٹھان<br />
لہور جون ٢٠٠٢
-٢٤<br />
-٢٦<br />
-٢٥<br />
-٢٧<br />
-٢٨<br />
-٢٩<br />
-٣٠<br />
-٣١<br />
-٣٢<br />
ڈاکٹر وفا راشدی شخصیت اور ادبی خدمات ماہنامہ<br />
نوائے پٹھان لہور جون ٢٠٠٢<br />
ڈاکٹر معین الرحمن۔۔۔ ایک ہمہ جہت شخصیت۔۔ مشمولہ<br />
نذر معین مرتب محمد سعید ٢٠٠٣<br />
قبلہ سید صاحب کے چند اردو نواز جملے نوائے<br />
پٹھان لہور جولئی ٢٠٠٤<br />
مہر کاچیلوی کے افسانے۔۔۔۔۔تنقدی مطالعہ سہ ماہی<br />
لوح ادب حیدرآباد اپریل تا ستمبر ٢٠٠٤<br />
اردو شاعری کا ایک خوش فکر شاعر ماہنامہ رشحات<br />
لہور جولئی ٢٠٠٥<br />
عابد انصاری احساس کا شاعر ماہنامہ رشحات لہور<br />
مارچ ٢٠٠٦<br />
پروفیسر مائل کی غزل کی فکر اور زبان ماہنامہ<br />
رشحات لہور اگست ٢٠٠٦<br />
دل ہے عشقی تاج کا ایک نقش منفرد کتابی سلسلہ<br />
پہچان نمبر٢٤<br />
جدید اردو شاعری کے چند محاکاتکر ہماری ویب ڈاٹ<br />
کام<br />
-٣٣<br />
اردو میں منظوم سیرت نگاری اردو نیٹ جاپان
-٣٤<br />
-٣٥<br />
-٣٦<br />
-٣٧<br />
اختر شمار کی اختر شماری کتابت شدہ مسودہ<br />
سرسید اور ڈیپٹی نذیر احمد کی ناول نگاری کتابت<br />
شدہ مسودہ<br />
سرسید اردو۔ معروضی حالت کے نظریے اساس<br />
کتابت شدہ مسودہ<br />
اردو داستان۔۔ تحقیقی و تنقیدی مطالعہ کتابت شدہ<br />
مسودہ<br />
-٣٨<br />
-٣٩<br />
تاریخ اردو۔۔۔ایک جائزہ کتابت شدہ مسودہ<br />
اکبر الہ آبادی تحقیقی وتنقدی مطالعہ کتابت شدہ<br />
مسودہ<br />
٤٠- سروراور فسانہءعجائب ایک جائزہ کتابت شدہ مسودہ<br />
-٤١<br />
-٤٣<br />
کرشن چندرایک تعارف کتابت شدہ مسودہ<br />
٤٢- صادق ہدایت کاایک کردار۔ کتابت شدہ مسودہ<br />
اختر شمار کی شاعری کے فکری زاویے کتابت شدہ<br />
مسودہ<br />
-٤٤<br />
-٤٥<br />
دیوان غاب کے متن مسلہ کتابت شدہ مسودہ<br />
سرسید تحریک اور اکبر کی ناگزیریت کتابت شدہ<br />
مسودہ
-٤٦<br />
ڈاکٹر سعادت سعید کے ناوریجین شاعری سے اردو<br />
تراجم کتابت شدہ مسودہ<br />
٤٧- سوامی رام تیرتھ کی شاعری کا لسانی مطاعہ مسودہ<br />
-٤٨<br />
اور شمع جلتی رہے گی روزنامہ مشرق لہور<br />
ستمبر<br />
١٨<br />
١٩٨٨<br />
-٥٠<br />
-٤٩<br />
-٥١<br />
دو علما کی موت پر لکھا گیا ایک تاثراتی مضمون جو<br />
اسلوبی اعتبار سے بڑا جاندار ہے۔<br />
پیاسا ساگر۔۔۔ گلوکار مکیش کی موت پر لکھا گیا<br />
مضون ہفت روزہ اجال لہور میں شائع ہوا<br />
کرشن چندر‘ منفرد ادیب۔۔۔ کرشن چندر کی موت پر<br />
لکھا گیا۔ ہفت روزہ ممتاز لہور<br />
١٨ مئی ١٩٧٧<br />
-٥٢<br />
ڈاکٹر گوہر نوشاہی الدب گوگڈن جوبلی نمبر<br />
ادبی مجلہ گورنمنٹ اسلمیہ کالج قصور<br />
١٩٩٧<br />
-٥٣<br />
٥٤<br />
علمہ طالب جوہری کی مرثیہ نگاری پروفیسر محمد<br />
رضا‘ شعبہءاردو گورنمنٹ اسلمیہ کالج سول لئنز لہور<br />
میجک ان ریسرچ اور میری چند معروضات اردوانجمن<br />
ڈاٹ کام<br />
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?<br />
id=51094
مقصود حسنی اور اردو زبان<br />
) قاضی جرار حسنی)<br />
قاضی جرار حسنی<br />
پروفیسر مقصود حسنی کا اردو سے جنم جنم کا پیار ہے۔<br />
اس کی ترویج و ترقی کے لیے زندگی بھر کوشش کی۔<br />
افسانہ‘ شاعری‘ مزاح‘ لسانیات‘ تنقید‘ تحقیق‘ مشرق و<br />
مغرب کے شعر و ادب‘ تراجم وغیرہ پر کام تو کیا ہی ہے‘<br />
لیکن اس کے نفاذ کے لیے بھی کوششیں کی ہیں۔ اس کے<br />
لیے‘ اردو سوسائٹی پاکستان قائم کی‘ درخواستیں گزاریں‘<br />
علما سے فتوے لیے‘ قراردادیں منظور کروائیں‘ مقتدرہ<br />
حلقوں سے رابطے کیے‘عدالت دیکھی‘ پتا نہیں کیا کچھ<br />
کیا۔<br />
ان تمام باتوں سے ہٹ کر‘ اردو کے بارے مضامین تحریر<br />
کیے۔ یہ مضامین جہاں اردو کی تاریخ سے متعلق ہیں‘<br />
وہاں اردو کے ابلغی دائرے پر بھی‘ روشنی ڈالتے ہیں۔ ان<br />
مضامین میں اردو کے لسانی نظام پر بھی گفتگو کی گئی
ہے۔ ان مضامین میں دیگر زبانوں سے تقابلی صورت بھی<br />
ملتی ہے۔ تقابل میں ابلغ‘ آوازوں کا نظام اور اس زبان کی<br />
لچک پذری کو باطورخاص‘ زیر بحث لیا گیا ہے۔ ان تینوں<br />
کے تحت اردو کو اس قابل بتایا ہے‘ کہ وہ انسانی رابطے<br />
کی زبان‘ بننے کی اہلیت رکھتی ہے۔<br />
پروفیسر مقصود حسنی نے‘ اس کے تینوں رسم الخط پر<br />
بھی گفتگو کی ہے۔ انہوں نے خواندگی کی صورتوں پر بھی<br />
گفتگو کی ہے۔ دلئل سے ثابت کیا ہے‘ کہ اردو اپنے لسانی<br />
نظام اور آوازوں کی کثرت کے حوالہ سے‘ دنیا کی بہتریں<br />
زبان ہے۔ اسے استعمال میں آنے کے حوالہ سے‘ چینی<br />
کے قریب قریب کی زبان قرار دیا۔<br />
انہوں نے اپنے مضامین میں‘ انگریزی کے لسانی نقائص<br />
پر بھی گفتگو کی ہے۔ آوازوں کی کمی اور نقائص کو بھی<br />
صرف نظر نہیں کیا۔ ان کی تحریریں اخبارات و رسائل میں<br />
چھپنے کے علوہ‘ انٹرنیٹ پر بھی موجود ہیں۔ دستیاب<br />
پچاس تحریروں کی فہرست درج خدمت ہے۔ ہر عنوان<br />
تحریر کی نوعیت و حیثیت کو واضح کر رہا ہے۔ اب<br />
مضامین کی فہرست ملحظہ ہو۔
-١<br />
-٢<br />
-٣<br />
اردو کی ترویج کا ترجیحی بنیادوں پر اہتمام لزم ہے<br />
روزنامہ امروز لہور ٦ ستمبر ١٨٨٧<br />
اردو کو اپنا مقام کیوں نہیں مل روزنامہ مشرق لہور<br />
١٧ جون ١٩٨٩<br />
انگریز کی اردو نوازی کیوں روزنامہ امروز لہور<br />
‘ ٢٤<br />
٢٧ جولئی ١٩٩٠<br />
‘٢٦<br />
‘٢٥<br />
-٤<br />
اردو کا تاریخی سفر روزنامہ جہاں نما لہور<br />
٢ دسمبر<br />
١٩٩٠<br />
-٥<br />
سرسید تحریک نے اردو کو مسلمانوں کی زبان کا درجہ<br />
دیا روزنامہ مشرق لہور<br />
٢٧ جنوری ١٩٩١<br />
-٦<br />
اردو اور عصری تقاضے روزنامہ جہاں نما لہور ١٩<br />
اگست<br />
-<br />
١٩٩١<br />
-٧<br />
اردو کی ترقی آج کی ضرورت روزنامہ وفاق لہور<br />
مارچ<br />
روزنامہ مشرق لہور<br />
١٨<br />
١ اپریل ١٩٩٢<br />
١٩٩٢<br />
-٨<br />
-٩<br />
اردو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں کی اپنی زبان روزنامہ وفاق<br />
لہور ١٧ مارچ ١٩٩٢<br />
اردو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عالم اسلم کی ضرورت ہے روزنامہ<br />
مشرق لہور ٥ فروری ١٩٩٢
-١٠<br />
اردو کو لزمی زبان اور مضمون کا درجہ دیا جائے<br />
روزنامہ مشرق لہور<br />
٩ فروری ١٩٩٢<br />
-١١<br />
-١٢<br />
اردو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عالم انسانی کی ضرورت کیوں روزنامہ<br />
مشرق لہور ١٩ فروری ١٩٩٢<br />
انگریزی زبان۔۔۔۔۔فروغ کیسے ہو روزنامہ پاکستان<br />
لہور<br />
١ مارچ ١٩٩٢<br />
-١٣<br />
-١٤<br />
اردو سے نفرت ایک نفسیاتی عارضہ روزنامہ مشرق<br />
لہور ٩ اپریل ١٩٩٢<br />
اردو برصغیر کے مسلمانوں کی زبان روزنامہ جہاں<br />
نما لہور<br />
١٠ اپریل ١٩٩٢<br />
-١٥<br />
اردو دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے روزنامہ وفاق<br />
لہور<br />
١٩ اپریل ١٩٩٢<br />
-١٦<br />
انگریزی کی مقبولیت میں کمی کیوں روزنامہ مشرق<br />
لہور<br />
٢٧ اپریل ١٩٩٢<br />
-١٧<br />
-١٨<br />
اردو پر چند اعتراضات اور ان کا جواب روزنامہ وفاق<br />
لہور ٢٠ مارچ ١٩٩٢<br />
انگریزی قومی ترقی کی راہ پتھر ماہنامہ اخبار اردو<br />
اسلم آباد نومبر ١٩٩٢<br />
-١٩<br />
اردو کی مختصر کہانی اہل قلم ملتان<br />
١٩٩٦
-٢٠<br />
-٢١<br />
اردو میں مستعمل ذاتی آوازیں ماہنامہ نوائے پٹھان<br />
لہور جون ٢٠٠٦<br />
اردو بالمقابلہ انگریزی روزنامہ وفاق لہور س ن<br />
-٢٢<br />
زبان اور قومی یک جہتی مسودہ<br />
-٢٣<br />
اردو ہے جس کا نام<br />
اردو کے متعلق انٹرنیٹ پر ملنے والے مضامین<br />
-٢٤<br />
-٢٥<br />
-٢٦<br />
لفظ ہند کی کہانی<br />
ہندوی تاریخ اور حقائق کے آئینہ میں<br />
-٢٧<br />
-٢٩<br />
-٢٨<br />
ہندوستانی اور اس کے لسانی حدود<br />
اردو میں مستعمل ذاتی آوازیں<br />
اردو کی چار آوازوں سے متعلق گفتگو<br />
اردو اور جاپانی آوازوں کی سانجھ<br />
-٣٠<br />
-٣١<br />
اردو میں رسم الخط کا مسلہ<br />
انگریزی کے اردو پر لسانی اثرات<br />
٣٢- سرائیکی اور اردو کی مشترک آوازیں
-٣٣<br />
اردو اور انگریزی کا محاوراتی اشتراک<br />
-٣٤<br />
-٣٦<br />
-٣٧<br />
-٣٨<br />
-٣٥<br />
اردو سائنسی علوم کا اظہار<br />
قومی ترقی اپنی زبان میں ہی ممکن ہے<br />
اردو‘ حدود اور اصلحی کوششیں<br />
قدیم اردو شاعری کا لسانی مطالعہ<br />
انگریزی دنیا کی بہترین زبان نہیں<br />
-٤٠<br />
-٤٩<br />
-٤١<br />
-٤٢<br />
انگریزی اور اس کے حدود<br />
انگریزی آج اور آتا کل<br />
آتے کل کو کرہء ارض کی کون سی زبان ہو گی<br />
رسم الخط کے مباحث اور دنیا کی زبانیں 'اردو<br />
43- Lets learn urdu<br />
44- Urdu has a strong expressing power and a<br />
sounds system<br />
45- Why to learn Urdu under any language of the<br />
world<br />
46- The identitical sounds used in Urdu<br />
47- Some compound sounds in Urdu<br />
48- Compound sounds in Urdu (2)
49- Urdu and Japanese sound’s similirties<br />
50- Urdu can be suggested world's language<br />
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?<br />
id=51562<br />
ڈاکٹر مقصود حسنی بطور مترجم<br />
از پروفیسر یونس حسن<br />
ڈاکٹر مقصود حسنی ایک نامور محقق‘ نقاد اور ماہر<br />
لسانیات ہونے کے ساتھ ایک کامیاب مترجم بھی ہیں۔ انہوں<br />
نے جن فن پاروں کا ترجمہ کیا ہے ان پر طبع زاد ہونے کا<br />
گمان گزرتا ہے۔ ان کے تراجم سادگی سلست اور رونی کا<br />
عمدہ نمونہ ہیں۔ ایک کامیاب مترجم کے لیے ضروری ہوتا<br />
ہے کہ وہ اصل کے مفاہیم کو خوب ہضم کرکے ترجمے کا<br />
فریضہ انجام دے تا کہ ترجمہ اصل کے قریب تر ہو۔<br />
موصوف کے تراجم کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے
اصل کی تفہیم پر دسترس حاصل کرنے کے بعد ہی یہ کام<br />
کیا ہے۔<br />
ان کے تراجم روایت سے ہٹ کر ہیں۔ یہاں تک کہ متعلقہ فن<br />
پارے کی ہیئت سے بھی تجاوز کیا ہے۔ اس کی مثال<br />
رباعیات کا سہ مصرعی ترجمہ ہے جسے برصغیر کے<br />
نامور علما نے پسند کیا اور حسنی صاحب کو اس کام پر<br />
داد بھی دی۔ ان کے تراجم میں ایک ندرت اور چاشنی پائی<br />
جاتی ہے۔ ان کے تراجم کو جہاں ایک نئی جہت عطا ہوئی<br />
ہے وہاں الفاظ پر ان کی غیر معمولی گرفت کا بھی اندازہ<br />
ہوتا ہے۔<br />
حسنی صاحب کے تراجم کے مطالعہ سے یہ بھی کھلتا ہے<br />
کہ مترجم لفظ کے نئے نئے استعمالت سے آگاہ ہے۔ ڈاکٹر<br />
ابو سعید نورالدین نے ان تراجم پر بات کرتے ہوئے درست<br />
:کہا تھا<br />
واقعی تعجب ہوتا ہے۔ آپ نے رباعیات کا اردو ترجمہ چہار<br />
مصرعی کی بجائے سہ مصرعی میں اتنی کامیابی کے ساتھ<br />
کیسے کیا۔ یہ آپ کا کمال ہے۔
ترجمے کے لیے لزمی ہوتا ہے کہ مترجم کی اس میں<br />
مکمل دلچسپی ہو ورنہ اس کی ساری محنت اکارت چلی<br />
جائے گی۔ حسنی صاحب نے ترجمے کا کام پوری دلچسپی<br />
اور بھرپور کمٹ منٹ کے ساتھ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان<br />
کے تراجم اصل کی بھرپور نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے<br />
رباعیات خیام کے تراجم کے حوالہ سے پروفیسر کلیم ضیا<br />
:نے کہا تھا<br />
سہ مصرعی ترجمے ماشاءا بہت عمدہ ہیں۔ ہر مصرعہ<br />
رواں ہے۔ ابتددائی دونوں مصرعے پڑھ پڑھ لینے کے بعد<br />
مفہوم اس وقت تک واضح اور مکمل نہیں ہو سکتا جب تک<br />
کہ مصرع سوئم پڑھ نہ لیا جائے۔ یہی خوبی رباعی میں<br />
:بھی ہے کہ چوتھا مصرع قفل کا کام کرتا ہے۔<br />
ان کے تراجم کا یہی کمال نہیں کہ وہ اصل کے مطابق ہیں<br />
بلکہ ان میں جازبیت اور حسن آفرینی کو بھی شامل کیا گیا<br />
ہے۔ بڑھتے جائیں طبیعت بوجھل نہیں ہوتی۔ ان کے تراجم<br />
میں پایا جانے وال فطری بہاؤ قاری کو اپنی گرفت میں لے<br />
لیتا ہے۔ شاید اسی بنیاد پر ڈاکٹر عبدالقوی ضیاء نے کہا
:تھا<br />
حسنی صاحب ماہر تیراک اور غوطہ خور ہیں ان کے سہ<br />
مصرعوں میں اثرآفرینی ہے‘ روانی ہے‘ حسن بیان ہے‘<br />
تازہ کاری اور طرحداری ہے۔ قاری کو مفہوم سمجھنے میں<br />
کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی بلکہ لطف آتا ہے۔<br />
گویا ان کا مخصوص اسلوب تکلم اور طرز ادا ترجمے کو<br />
کہیں بھی خشک اور بےمزہ نہیں ہونے دیتا بلکہ اس کی<br />
اسلوبی اور معنوی سطح برقرار رہتی ہے۔<br />
انہوں نے عمر خیام کی چوراسی رباعیات کا اردو ترجمہ<br />
کیا۔ یہی نہیں اپنی کتاب۔۔۔۔۔ شعریات خیام۔۔۔۔۔ میں خیام کی<br />
سوانح کے ساتھ ساتھ چار ابواب میں ان کا تنقیدی و لسانی<br />
جائزہ بھی پیش کیا۔<br />
پچاس ترکی نظموں کا اردو ترجمہ کیا اس ترجمے کو ڈاکٹر<br />
نوریہ بلیک قونیہ یونیورسٹی نے پسند کیا۔<br />
یہ ترجمہ ۔۔۔۔۔ستارے بنتی آنکھیں۔۔۔۔۔ کے نام سے کتابی<br />
شکل میں پیش کیا گیا۔
‘٧<br />
انہوں نے فینگ سیو فینگ کے کلم پر تنقیدی گفتگو کی۔<br />
ان کا یہ تنقیدی مضمون۔۔۔۔۔ فینگ سیو فینگ جذبوں کا<br />
شاعر۔۔۔۔۔۔ کے عنوان سے روزنامہ نوائے وقت لہور کی<br />
اشاعت اپریل ١٩٩٨ میں شائع ہوا۔ اس کی نظموں کے<br />
ترجمے بھی پیش کیے۔<br />
اس کے علوہ معروف انگریزی شاعر ولیم بلیک کی<br />
نظموں کا بھی اردو ترجمہ کیا۔ ان کے یہ تراجم تجدید نو<br />
میں شائع ہوئے۔<br />
قراتہ العین طاہرہ کی غزلوں کا پنجابی اور انگریزی آزاد<br />
ترجمہ کیا۔<br />
سو کے قریب غالب کے اشعار کا پنجابی ترجمہ کیا۔ ان کے<br />
یہ تراجم انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔<br />
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?<br />
id=52683
اردو انجمن اور مقصود حسنی کی افسانہ نگاری<br />
محبوب عالم<br />
دور جدید کی مفید ترین ایجاد کمپیوٹر جہاں دیگر شعبہ<br />
ہائے زندگی میں اپنے کمالت دکھا رہا ہے وہاں انٹرنیٹ کی<br />
دنیا میں شعر وادب کے فروغ میں بھی اپنے حصہ کا کردار<br />
ادا کر رہا ہے۔ اب ادب کتابوں رسالوں یا پھر اخبارات کے<br />
ادبی ایڈیشنوں تک محدود نہیں رہا۔ چلتے پھرتے‘ سفر<br />
کرتے یا دفتر میں بیٹھے ادبی حظ اٹھایا جا سکتا ہے۔ دنیا<br />
کی دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو بھی انٹرنیٹ پر رواں<br />
دواں ہے۔ اردو کی بہت سی ویب سائٹس اس وقت یہ<br />
فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ ان ویب سائٹس پر سنجیدہ اور<br />
غیر سنجیدہ لوگوں کے ساتھ ساتھ شاعر اور ادیب بھی آ<br />
رہے ہیں۔ جہاں ادب تخلیق ہو رہا ہے وہاں عمومی اور<br />
غیرعمومی آراء بھی پڑھنے کو مل رہی ہیں۔ ان غیرعمومی<br />
آراء کو کسی طرح صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ ادب قارئین<br />
کے لیے ہوتا ہے۔ قارئین مختلف نوعیت کے ہو سکتے<br />
ہیں۔ وہ معاملت کو اپنے حوالے سے دیکھتے ہیں اور ان<br />
کے حوالہ ہی سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ کسی بھی<br />
رائے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ رائے تو رائے<br />
ہوتی ہے اور اپنے سیٹ اپ کی عکاس ہوتی ہے۔ ان
عمومی آراء کے ساتھ ساتھ اہل نقد کی آراء بھی پڑھنے کو<br />
مل رہی ہیں۔<br />
ان فورمز بورڈز کی خدمات اپنی جگہ پر لیکن اردو انجمن<br />
بڑی سنجیدگی اور ادبی دیانت کے ساتھ اردو کی خدمت<br />
انجام دے رہی ہے۔ یہاں سنجیدہ اور پختہ کار تخلیق کار<br />
اور نقاد حضرات سے ملقات کا موقع میسر آتا ہے۔ یہ<br />
انجمن محدود دائروں میں مقید نہیں۔ یہ پچیس سے زائد<br />
گوشوں پر مشتمل ہے۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے<br />
گلہائے عقیدت<br />
حمد، نعت اور دعا<br />
ناظمین: محمد خاور, سالم باشوار<br />
اصلح L سخن<br />
نئے شعراء کے کلم کی اصلح اور رہنمائی<br />
ناظم: سرور عالم راز
اندازL غزل<br />
اساتذہ اور مشاہیر کی غزلیات<br />
ناظمین: سرور عالم راز, زرقا مفتی<br />
موج L غزل<br />
آپ کی غزلیات جو بحر میں ہوں<br />
ناظمین: ضیاء بلوچ, سہیل ملک, خورشید الحسن نیر<br />
قافیہ الفاظ<br />
رنگL غزل<br />
نئے شعراء کی غزلیات<br />
ناظمین: محمد خاور, حشمت عثمانی<br />
اندازL سخن<br />
اساتذہ اور مشاہیر کی منظومات
ناظمین: عاکف غنی, صدف<br />
موج L سخن<br />
اراکینL انجمن کی پابند منظومات<br />
ناظمین: زاہدہ رئیس راجی, سہیل ملک<br />
طرزL سخن<br />
جدید شاعری اور زبان و بیان کے نئے تجربات<br />
رنگL سخن<br />
اراکینL انجمن کی آزاد اور نثری منظومات<br />
ناظمین: صدف, سمن شاہ<br />
ذیلی بورڈ<br />
لطفL بیان
افسانے، خاکے اور انشائیے<br />
ناظمین: شاہکار, صالح اچھªا<br />
اندازL بیان<br />
نامور نثر نگاروں کی تحاریر<br />
ناظمین: زاہدہ رئیس راجی, سرور عالم راز<br />
ذیلی بورڈ<br />
موج L بیان<br />
آپ کی تحاریر<br />
ناظمین: زاہدہ رئیس راجی, زرقا مفتی<br />
مزاحیہ مضامین اور خاکے<br />
ناظمین: شاہکار, صالح اچھªا<br />
ذیلی بورڈ
مزاحیہ منظومات<br />
ناظمین: ضیاء بلوچ, صالح اچھªا<br />
لطائف و ظرائف<br />
ناظمین: عاکف غنی, حشمت عثمانی<br />
خبر نامہ<br />
ادبی خبرنامہ اور تقریبات کا احوال<br />
نیا بورڈ<br />
تفہیمL سخن<br />
آسان عروض<br />
آسان عروض اور شاعری کی بنیادی باتیں
ناظم: سرور عالم راز<br />
ذیلی بورڈ<br />
طرحی مشاعرہ<br />
﴾ماہانہ طرحی مشاعرہ ﴿انجمن کا ایک سلسلہ<br />
ناظمین: زاہدہ رئیس راجی, زرقا مفتی<br />
بیت بازی<br />
اردو شاعری کو فروغ دینے کے لئے ایک دلچسپ سلسلہ<br />
:ناظمین<br />
عامر عباس<br />
balvinder<br />
صوتی مشاعرہ<br />
﴾آپ کی اپنی آواز میں مشاعرہ ﴿سہ ماہی سلسلہ
ناظمین: زاہدہ رئیس راجی, ضیاء بلوچ<br />
بزبانL شاعر<br />
آپکا کلم آپکی آواز میں<br />
آپ کی پسند<br />
اقوالL زریں، دلچسپ باتیں، تصاویر اور ویڈیوز<br />
ناظمین: زاہدہ رئیس راجی, سرور عالم راز<br />
گوشہء خاص<br />
اردو انجمن سے متعلق اعلنات احباب کے سوالت<br />
جان پہچان<br />
خوش آمدید اور تعارف<br />
ناظمین: سرور عالم راز, زرقا مفتی
خزانہ<br />
ناظم: زرقا مفتی<br />
تجرباتی بورڈ<br />
غور فرمائیں‘ ان گوشوں میں اردو کی تمام اصناف زیر<br />
مطالعہ آ جاتی ہیں۔ ہر گوشے میں اچھا خاصا مواد دستیاب<br />
ہے۔ اس مواد کو شخصی حوالہ سے مرتب کر دیا جائے تو<br />
کئی تحقیقی مقالے ہو سکتے ہیں۔ اگر مغربی‘ بھارتی اور<br />
پاکستنی جامعات اس جانب توجہ دیں تو قدیم لوگوں کے<br />
ساتھ عصر رواں کے متعلق لوگوں کی ادبی خدمات کو بھی<br />
تصرف میں لیا جا سکتا ہے۔ یہاں میں انجمن کے صرف<br />
ایک رکن کے افسانوں کے متعلق تفصیلت درج کرنے کی<br />
جسارت کر رہا ہوں۔ میری اس کوشش سے اندازہ ہو جائے<br />
گا کہ انجمن اپنے ادبی جثے میں کتنی مضبوط اور فراخ<br />
ہے۔<br />
باباجی مقصود حسنی کی انجمن پر مختلف نوعیت کی<br />
تحریریں ملتی ہیں۔ ان میں افسانے بھی شامل ہیں۔ ریکارڈ<br />
کے مطابق موصوف ١٩٦٩ سے افسانے لکھ رہے ہیں۔<br />
رسائل میں چھپنے کے علوہ ان کے افسانوں کے تین
مجموعے<br />
١- کاجل ابھی پھیل نہیں<br />
٢- وہ اکیلی تھی<br />
- ٣ جس ہاتہ میں لٹھی<br />
شائع ہو چکے ہیں۔ تیسرا مجموعہ ١٩٩٣ میں شائع ہوا<br />
تھا۔ اب تک وہ دو سو سے زائد افسانے قلم بند کر چکے<br />
ہیں۔ اختصار ان کے افسانوں کی بنیادی خصوصیت ہے۔ ان<br />
کے افسانوں میں تصوف‘ اخلقیات‘ روحانیت اور سماجی<br />
پہلو غالب رہتے ہیں۔ میں نے یہاں صرف انجمن کی اعلی<br />
کارگزاری کے ثبوت کے لیے مواد صرف انجمن کے<br />
گوشوں سے حاصل کیا ہے ورنہ ان کے افسانے انٹر نیٹ<br />
کی مختلف ویب سائٹس پر بھی پڑے ہیں۔ اہل قلم<br />
نیچے پیش کیا گیا جملہ مواد میں نے صرف اور صرف<br />
اردو انجمن سے حاصل کیا ہے۔<br />
مقصود حسنی کے افسانوں میں اخلقی‘ روحانی اور<br />
تصوف کے عناصر کے چند نمونے ملحظہ ہوں<br />
ہاں‘ جب رات کو‘ چارپائی پر لیٹا‘ تو حق حق حق کے<br />
نعروں نے‘ مجھے دیر تک سونے نہ دیا۔ میں نے بڑی
کوشش کی‘ کہ دھیان ادھر ادھر کرکے‘ ان نعروں سے‘<br />
خلصی پا لوں‘ مگر کہاں جی۔ میری ایما کے برعکس‘<br />
میرے منہ سے بھی‘ حق حق حق کے آوازے نکلنے کو ہی<br />
تھے‘ کہ میں نے‘ سورت اخلص پڑھنا شروع کر دی‘ شاید<br />
خدا سے‘ عشق کا‘ میرا یہ پہل قدم تھا۔ یہ پہل موقع تھا‘<br />
جو اثرآفرینی کے لیے‘ دم والے پانی اور تعویزوں کا<br />
مرہون منت نہ ہوا۔ اس کے لیے‘ مجھے ایک اکنی بھی نہ<br />
دینا پڑی۔<br />
پٹھی بابا<br />
حمادی اسی لیے زندہ ہے‘ کہ اس نے‘ منصور کے قتل کا<br />
فتوی دیا تھا‘ ورنہ سیکڑوں مولوی‘ مفتی اور قاضی ہو<br />
گزرے ہیں‘ انہیں کون جانتا ہے۔ وہ دکھنے والے منصور<br />
کو پہچانتا تھا‘ اگر وہ اناالحق کا نعرہ لگانے والے‘ قیدی<br />
منصور کو جانتا ہوتا‘ تو اس کے قتل کا کبھی فتوی نہ دیتا۔<br />
وہ مدعی کا‘ اس کے دعوے کی سطح کا‘ امتحان کرتا‘ تو<br />
ہی دودھ کا دودھ‘ پانی کا پانی ہو یاتا۔<br />
میرے اندر بھی‘ ارتعاش پیدا ہوا تھا‘ لیکن میں رقص نہ کر<br />
سکا‘ میں اپنے آپے میں تھا۔ میں ابھی اسلم ہی تھا‘ ریحانہ<br />
نہیں ہوا تھا ۔اگر ریحانہ ہو گیا ہوتا‘ تو دنیا کی پرواہ کیے<br />
بغیر‘ ملنگ بابے کے ساتھ رقص کر رہا ہوتا۔
میں ابھی اسلم ہی تھا<br />
بابو صابر کا طرز عمل‘ اسے کچکوکے لگاتا رہا۔ وہ بے<br />
آب ماہی کی طرح‘ دیر تک چارپائی پر کروٹیں بدلتا رہا۔ پھر<br />
اس نے طے کیا‘ کہ وہ ہر معاملے کے بابو کو کھانا ضرور<br />
کھلئے۔ حرام تو پہلے کماتے ہیں۔ وہ حرا م کا کھانا کھل<br />
کر‘ انہیں ڈبل حرامی بنانے کا چارہ کرے گا۔ اس سوچ نے‘<br />
شاید اس کی انا کو تسکین بخش دی تھی۔ یہ ہی وجہ تھی‘<br />
کہ وہ تھوڑی ہی دیر بعد‘ گہری نیند میں چل گیا۔<br />
انا کی تسکین<br />
جنگل کا شروع سے‘ یہ ہی وتیرا رہا ہے۔ جہاں میں بسیرا<br />
رکھتا تھا‘ وہاں رہتے توانسان تھے‘ لیکن ان کے اطوار<br />
اور قانون‘ جنگل کے قانون سے‘ کسی طرح کم نہ تھے۔<br />
اس جبر کی فضا‘ اور ماحول میں‘ ایک بات ضرور موجود<br />
تھی‘ کہ بچانے وال‘ چوتھی مرغی کو‘ بچا ہی لیتا ہے۔ اس<br />
کی نسل‘ آتے وقتوں میں‘ اس کے ہونے‘ اور بچانے والے<br />
محاکاتکر‘ کی گواہی دیتی رہتی ہے۔<br />
چوتھی مرغی
آہ۔۔۔۔۔ کتنی بدنصیب تھی وہ صبح‘ ویر جی کو‘ موت کے<br />
حوالے کر دیا۔ وقت کا سرمد‘ چل تو گیا‘ لیکن محبتوں کی<br />
یادیں چھوڑ گیا۔ ملک زوراور کے کوئی نہ منہ آ سکا۔ ملک<br />
پھر سے دوسرے علقوں کے وسائل پر تسلط وتصرف کی<br />
سوچ میں پڑ گیا۔ اسے یاد تک نہ رہا کہ اس نے کتنا بڑا<br />
ظلم ڈھا دیا ہے۔<br />
تنازعہ کے دروازے پر<br />
وہ یہ بھی جانتا تھا‘ کہ یہ تپسوی‘ برہما سے بردان حاصل<br />
کیے بغیر‘ یہاں سے نہیں ٹلے گا‘ کیوں کہ جو دھار کر<br />
آتے ہیں‘ کٹ جاتے ہیں‘ قدم پیچھے نہیں رکھتے۔ یہ اصول<br />
بھی ہے‘ اور ویدی کا ویدان بھی‘ یہ ہی چل آتا ہے۔<br />
کامنا<br />
نمرود کو‘ اپنی جاہ وحشمت پر ناز تھا۔ وہ سمجھتا تھا‘ کہ<br />
زندگی اسی کے دم قدم سے‘ رواں دواں ہے۔ اگر وہ نہ رہا‘<br />
تو چار سو بربادی پھیل جائے گی۔ اسے یہ بھی گمان تھا‘<br />
کہ وہ ہر اونچ نیچ پر قادر ہے۔ وہ کچھ بھی‘ کر سکتا ہے۔<br />
اس کے رستے میں آنے وال‘ ذلت ناکی سے دوچار ہو گا۔<br />
وہ بلشبہ‘ شیطان کی بدترین لعنت تھا۔
کمل کہیں کا<br />
جس پیٹ میں‘ رزق حرام چل گیا‘ وہ حلل دا کس طرح رہا۔<br />
حرام لقموں سے بننے وال خون‘ سر سے پاؤں تک‘<br />
گردش کرتا ہے۔ جس جسم میں؛ حرام خون دوڑ رہا ہوتا<br />
ہے‘ اس پیٹ والے کے‘ جسم کے جملہ کل‘ کس طرح<br />
درست اور فطری اصولوں پر‘ استوار ہو سکتے ہیں۔ حرام<br />
کھانے والے‘ شرعی واجبات کے ذریعے‘ خود کو حلل دا<br />
ثابت کرنے کی‘ کوشش کرتے ہیں۔<br />
شیدا حرام دا<br />
آج بڑھاپے نے شاید ہوش غارت کر دئے ہیں‘ تب ہی تو<br />
سوچتی ہوں‘ کہ دینو کی پسینہ آمیز کمائی میں‘ بےحد<br />
سواد تھا۔ اس وقت مجھے کوئی بیماری لحق نہ تھی۔ یہاں<br />
حللے کے دو ماہ پعد ہی معدہ کی بیماری لحق ہوگئی۔ اس<br />
کے بعد شوگر نے آ گھیرا۔ کمردرد تو معمول کا معاملہ ہے۔<br />
بی پی کی کسر رہ گئی تھی‘ وہ بھی گلے کا ہار بن گئی<br />
ہے۔ مولوی صاحب کسی کی جیب تو نہیں کاٹتے‘ اس کے<br />
باوجود ان کا لیا ہوا رزق‘ ذائقہ میں‘ دینو کے لئے سا<br />
نہیں۔
حللہ<br />
آج میں بڑا اور صاحب حیثیت آدمی ہوں‘ مگر کب تک‘ بس<br />
سانسوں کے آنے جانے تک۔ اس کے بعد‘ کسی کے خواب<br />
وخیال میں بھی نہیں رہوں گا۔ مزے کی بات یہ کہ‘ لوگ<br />
میرے سامنے اور پشت پیچھے‘ مجھے بڑا آدمی کہتے ہیں<br />
اور سمجھتے بھی ہیں۔ سوچتا ہوں‘ یہ کیسا بڑاپن ہے‘ جو<br />
سانسوں سے مشروط ہے۔ بڑا تو سقراط تھا‘ جو مر کر<br />
بھی‘ مرا نہیں۔ وقت کا فیصلہ بھی کتنا عجیب ہے‘ کہ شاہ<br />
حسین سے بھوکے ننگے‘ آج بھی زندہ اورلکھوں دلوں<br />
میں‘ اپنی عزت اور محبت رکھتے ہیں۔ قارون کے سوا‘<br />
مجھ سے لکھوں لکھ پتی‘ جو وقت کے بہت بڑے آدمی<br />
تھے‘ آج کسی کو یاد تک نہیں ہیں۔ یہ بڑاپن کیسا ہے‘ جو<br />
کیڑوں مکوڑوں سے مختلف نہیں۔<br />
بڑا آدمی<br />
عوفی نے موت کا رستہ چن کر‘ ٹیپو کی حکمت عملی پر‘<br />
درستی کی مہر ثبت کر دی تھی۔ یہ کوئی ایسی معمولی بات<br />
نہ تھی۔ عوفی فاتح جرنیل ناسہی‘ لیکن کوئی تجزیہ نگار<br />
اسے ناکام جرنیل بھی نہیں قرار دے گا۔ کاشف اور پنکی
جیت کر بھی ہار چکے تھے۔ عوفی نے انھیں عبرت ناک<br />
شکست دی تھی۔ یہ ہی حقیقت اور یہ ہی وقت کا انصاف<br />
ہوگا۔ ہر کیے کا‘ کوئی ناکوئی‘ پرینام تو ہوتا ہی ہے۔<br />
کاشف‘ باپ ہو کر‘ ماموں کا رشتہ استوار کرنے پر مجبور<br />
ہو گا اور پنکی کا آنچل پچھتاوے کی آگ میں جلتا رہے<br />
گا۔۔۔۔۔۔۔ ہاں جلتا رہے گا۔<br />
آنچل جلتا رہے گا<br />
مسجد سے ا اکبر کی صدا گونجی۔ میں کانپ کانپ گیا۔<br />
اس سے پہلے بھی یہ آواز کئی بار سن چکا تھا لیکن اج<br />
تو اس آواز نے گھائل کر دیا۔ ا مجھے واپس لوٹنے کے<br />
لئے کہہ رہا تھا۔ میں تیزی سے مسجد کی جانب بڑھ گیا۔<br />
جانے کتنی دیر سجدہ میں رہا لیکن جب سر اٹھایا سارا<br />
غبار چھٹ چکا تھا۔<br />
بیوہ طوائف<br />
فقیر بابا کو میں بھی پاگل سمجھتا تھا۔ میں نے اس کے<br />
کہے کے مفاہیم دریافت کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی<br />
تھی۔ ہوٹل پر کام کرتے بچے کو دیکھ کر احساس ہوا ہے<br />
کہ فقیر بابا غلط نہیں کہتا۔ وہ پاگل نہیں‘ اس نے تو دنیا کی
گل پا لی ہے۔ اسی لیے ہر پوچھنے والے کو دنیا کا حقیقی<br />
چہرا دیکھاتا ہے کہ انسان تنہا ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔تنہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں<br />
یکسر تنہا۔<br />
فقیر بابا<br />
یہ سب اس نے جاگتی آنکھوں سے دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
کیسے بھول پاتا۔ کربناک لحموں کی بازگشت تازیست یادوں<br />
کے نہاں گوشوں میں اپنا تمثالی وجود برقرار رکھتی ہے۔<br />
یادوں کا تمثالی وجود نیند کے جھونکوں کا انتظار نہیں<br />
کرتا۔ موقعہ بہ موقعہ اپنے اٹوٹ وجود اور قلبی رشتے کا<br />
اظہار کرتا رہتا ہے۔ اسے اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی<br />
کہ کسی پر کیا گزرے گی۔ بازگشت کا رشتہ اگر مٹی ہو<br />
جائے تو گزرا کل اپنی معنویت کھو دے اور صیغہ تھا<br />
لیعنی ہو کر رہ جائے۔<br />
بازگشت<br />
اسے اپنی موت کا رائی بھر دکھ نہ تھا۔ اس نے خود یہ<br />
رستہ منتخب کیا تھا۔ اب یہ درندہ کبھی کسی کمزور کا<br />
وحشیانہ تعاقب نہ کر سکے گا اور اس کی ٹانگوں سے<br />
ہمیشہ اف اف اف کے بزدل نعرے بلند ہوتے رہیں گے۔
آخری کوشش<br />
سقراط اور حسین نے‘ اس مروجہ طور کو‘ جان دے کر‘<br />
غلط قرار دیا۔ ہم سقراط اور حسین کے راستے کو‘ درست<br />
مانتے ہیں اوراس رستے کا‘ زبانی کلمی احترام بھی کرتے<br />
ہیں۔ عملی طور پر‘ ہمارا پرنالہ وہیں پر ہے۔<br />
معالجہ<br />
مجھے اپنی موت کا رائی بھر دکھ نہیں۔ ایک دن‘ مرنا تو<br />
ہے ہی‘ دو دن آگے کیا‘ دو دن پیچھے کیا۔ مجھے تین<br />
باتوں کا رنج ہے‘ کہ میں حمیدے کو بچا نہ سکا۔ وہ ابھی<br />
زندہ تھا اور آخری سانسوں پر نہ تھا۔ افسوس‘ وہ قانونی<br />
تقاضوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ قانون اس کا قاتل نہیں‘ قانونی<br />
تقاضوں کے علم بردار‘ اس کے قاتل ہیں اور انہیں کوئی<br />
پوچھنے وال نہیں۔ دوسرا جیرے کا جھاکا کھلنے پر‘ تاسف<br />
ہے‘ اب تو وہ اور انھی مچائے گا۔ اس ذیل میں تیسری بات<br />
یہ ہے‘ کہ پتا نہیں‘ منافقت کا دیو‘ کب بوتل میں بند ہو کر‘<br />
دریا برد ہو گا۔<br />
ابھی وہ زندہ تھا
سچائی کا حسن‘ بار بار نمودار ہونے کے لیے‘ ہوتا ہے۔<br />
اسے نمودار ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہاں اس کی<br />
جڑوں کا پھیلنا اور مضبوط ہونا ضروری ہوتا ہے۔ یہ سب<br />
ا کے اختیار میں ہے۔ زمین کے اندر‘ ہم دخل اندازی نہیں<br />
کر سکتے۔ سچائی کی زمین‘ حد درجہ ذرخیز ہوتی ہے۔ اس<br />
کی ازل سے موجود جڑیں‘ کسی ناکسی پودے کو سطح<br />
زمین پر لتی رہیں گی۔<br />
سچائی کی زمین<br />
رمضان میں ہی‘ سب سے زیادہ خرابی سر اٹھاتی ہے۔<br />
روپے کی چیز کے‘ پانچ روپے وصولے جاتے ہیں۔ اس<br />
نے سوچا‘ شیطان کے قید ہو جانے کے بعد‘ اس کے انڈے<br />
بچے‘ شیطان سے بڑھ کر‘ اندھیر مچاتے ہیں۔ اسے اپنے<br />
منصوبے کے‘ ناکام ہو جانے کا اعتراف کرنا پڑا۔ وہ اپنی<br />
ذات سے‘ شرمندہ تھا۔ اس منصوبے کی کام یابی کے لیے‘<br />
برائی کا لروا‘ پہلے تلف ہونا چاہیے۔ لروا ختم ہو جائے‘<br />
تو ہی آتا کل محفوظ ہو سکتا ہے۔<br />
لروا اور انڈے بچے<br />
گامو سوچیار کے ان لفظوں نے‘ میری نیند اور سکون
چھین لیا ہے۔ میں کئی بار‘ اپنے ضمیر کو مطمن کرنے کی<br />
کوشش کر چکا ہوں۔ کم بخت‘ مطمن ہونے کا نام نہیں لے<br />
رہا۔ گامو سوچیار جیسے لوگوں کو‘ مصلوب کیا جاتا رہا<br />
ہے‘ اس کے باوجود‘ کوئی ناکوئی‘ ہر عہد میں‘ ان کی<br />
جگہ لے ہی لیتا ہے۔ گامو سوچیار کا کہا‘ درست ہے‘ یا<br />
نہیں‘ یہ بات غور طلب ہے‘ تاہم یہ طے ہے‘ کہ اس گھر<br />
-میں ہنستے مسکراتے دو منافق رہتے ہیں<br />
دو منافق<br />
ہر زبان پر‘ اس کی اچھائی اور شریف النفسی کے‘ کلمے<br />
تھے۔ وہاں سے‘ معلوم ہوا‘ اس کی بیوہ‘ کسی وقت رشیدہ<br />
خانم تھی۔ حالت اور وقت نے‘ اسے شیداں کپتی بنا دیا تھا<br />
اور رشتہ‘ حضرت سید حیدر امام صاحب نے کروایا تھا۔<br />
سید صاحب بھی تشریف لئے تھے۔ وہ گوشہ نشین بزرگ<br />
تھے۔ پورا علقہ‘ ان کی عزت کرتا تھا۔ وہ کچھ ہی دیر‘<br />
وہاں رکے۔ چہرے پر جلل تھا‘ ہاں‘ ساتھ چھوٹ جانے<br />
پر‘ ان کی آنکھوں سے‘ خاموش آنسو رواں تھے<br />
ان پڑھ<br />
سروے کے مطابق‘ یہاں کے شرفا بڑے نیک اور حاجی
ثناءا ہیں لیکن عملی اعتبار سے‘ حرام خور ہیں۔ مانیں نہ<br />
مانیں‘ آپ کی مرضی۔ حقیقت یہ ہی ہے‘ کہ ہم کسی ناکسی<br />
سطح پر‘ حرام خور ہیں۔۔۔۔۔ حرام خور۔۔۔۔۔۔۔اسی وجہ سے ہم<br />
پوری دنیا میں ذلیل وخوار ہیں۔<br />
پاخانہ خور مخلوق<br />
ا جانے‘ شخص کے ذاتی حقوق کو‘ کیوں گول کر دیا جاتا<br />
ہے۔ ذاتی حقوق‘ پہلی ترجیع پر ہوتے ہیں۔ جو شخص‘<br />
اپنے حقوق ادا کرے گا‘ وہی ا اور اس کی پوری کائنات<br />
کی مخلوق کے‘ حقوق ادا کر سکے گا۔۔ جو شخص‘ اپنی<br />
ذات سے انصاف نہیں کرتا‘ للچ اور خوف کے زیر اثر‘<br />
ضمیر کی نہیں کہتا‘ یا کہہ سکتا‘ رزق حلل‘ اپنے وجود<br />
کو مہیا نہیں کرتا‘ دوسروں کو کیسے کر سکے گا۔ ا کا<br />
بےنیاز اور ہر حاجت سے بال ہونا‘ مسلم ہے۔ اس کی<br />
خوشی‘ اسی میں ہے‘ کہ شخص‘ اس کی مخلوق کے<br />
حقوق پوری دیانت داری سے ادا کرے۔ حقوق کا معاملہ<br />
ذات سے‘ ا کی طرف پھرتا ہے۔<br />
دائیں ہاتھ کا کھیل<br />
موسی خود کو جانتے تھے۔ انہیں‘ اس امر سے خوب آگہی
حاصل تھی‘ کہ انہیں ا کی تائید حاصل ہے۔ اگر انہیں یہ<br />
اگہی حاصل نہ ہوتی‘ تو وہ دریا میں‘ اتنے لوگوں کو‘ ساتھ<br />
لے کر‘ سفر جاری نہ رکھتے۔ فرعون کو‘ اپنی خدائی کا<br />
پورا پورا یقین تھا‘ یا یقین دلوا دیا گیا تھا‘ تب ہی تو‘ اس<br />
نے دریا میں فوجیں ڈال دیں۔ اس سے‘ وہ ناصرف فوج<br />
سے‘ ہاتھ دھو بیٹھا بلکہ عزت بھرم اور پہلے سی شان و<br />
شوکت سے بھی گیا۔ یہ عبرت‘ آتی نسلوں کے لیے‘ حجت<br />
بنی رہی۔ ذاتی گمان اور چیلوں چمٹوں کی لیعنی اور مطلبی<br />
جی حضوری‘ اندھی اور بے لگام طاقت نے‘ کچھ باقی نہ<br />
رہنے دیا۔<br />
پنگا<br />
کسی انسانی ماں کی اولد‘ کسی دوسری ماں کی اولد پر‘<br />
ظلم کی اس حد تک جا ہی نہیں سکتی۔ بندوق کی نوک‘ سر<br />
جھکانے پر مجبور کر سکتی ہے‘ لیکن اس سے‘ دل فتح<br />
نہیں ہو سکتے۔ قبضہ و تصرف کی ہوس‘ تصادم کے<br />
دروازے کھولتی ہے۔ ماں کی محنت‘ مشقت اور پیار سے‘<br />
پروان چڑھنے والے بچوں کو لہو میں نہلتی ہے۔ تلوار کی<br />
فتح کو‘ فتح کا نام دینا‘ کھلی جہالت ہے۔ ہاں ماں کے سے‘<br />
پیار سے‘ دل جیتو‘ تاکہ کمزور طبقے‘ سکھ کا سانس لے<br />
سکیں اور انسانیت‘ سسکنے بلکنے سے‘ مکتی حاصل کر
سکے۔<br />
وہ کون تھے<br />
سوچوں کے گہرے سائے تلے‘ آہستہ آہستہ چلتا ہوا‘ اپنے<br />
گھر کے دروازے تک‘ پہنچ گیا۔ دروازے سے دروازے تک<br />
کا یہ سفر‘ اسے صدیوں کا سفر محسوس ہوا۔ قدسیہ کا<br />
گرجنا برسنا‘ یقینا غلط نہ ہو گا۔ اس نے سوچا‘ میں بھی<br />
کیسا شخص ہوں‘ صدیاں لیعنیت میں گزار کر‘ گھر خالی<br />
ہاتھ لوٹ آیا ہوں۔ مجھے غیر تو یاد رہے‘ یہ یاد نہ رہا‘ کہ<br />
بچوں کے لیے‘ چکی سے آٹا لینے نکل تھا۔ پھر وہ سر<br />
جھکائے‘ گھر میں داخل ہو گیا۔<br />
دروازے سے دروازے تک<br />
ناں ناں‘ ناں یہ سب بکواس‘ اور ا کے رازق ہونے سے‘<br />
انکار کے مترادف ہے۔ ہر پیدا ہونے وال‘ اپنا رزق لے کر<br />
پیدا ہوتا ہے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا‘ کہ اس کا رزق‘ اس<br />
کے ساتھ نہ آئے۔ اس کا رزق ارم بنانے والوں‘ یا اس کا<br />
رزق کھا کر‘ مر جانے والوں کو‘ فراہم کیا جاتا ہے۔ ماسٹر<br />
صاحب‘ یہاں شخص ہزاروں سال سے‘ بھوکا پیاسا ہے۔<br />
ایسے حالت میں‘ کوے کی پیاس کون دیکھتا ہے۔ اسے
پیاسا ہی رہنا ہے۔ ا نے‘ اس کے حصہ میں پیاس نہیں<br />
رکھی۔ معاشی ڈسپلن کو‘ تباہ کرنے کے باعث‘ کوے کی<br />
پیاس نہیں بجھ رہی۔<br />
اسے پیاسا ہی رہنا ہے<br />
میرا مارا جانا‘ ایسی کوئی بڑی بات نہیں۔ پریشان ہونے کی<br />
کوئی ضرورت نہیں‘ ایسا ہوتا آیا ہے‘ ہوتا رہے گا۔ یہ<br />
معمول کا مسلہ ہے۔ محسن کشی‘ پہلے سے چلی آتی ہے۔<br />
محسن کشوں سے‘ قدرت سب کچھ چھین لیتی ہے‘ اور<br />
زمین و آسمان پر‘ ذلت و رسوائی‘ ان کا مقدر بن جاتی ہے۔<br />
حضرت ابراہیم‘ نمرود کے خیر خواہ تھے‘ اس نے صلہ<br />
میں اذیت دی۔ حضرت موسی‘ فرعون کے ہم درد تھے‘<br />
لیکن وہ محسن کش نکل۔ سقراط‘ خیر کی چلتی پھرتی<br />
علمت تھا‘ اسے زہر پلیا گیا۔ حضرت عیسی‘ کوئی<br />
معمولی شخص نہ تھے۔ وہ‘ جن کا وہ بھل کر رہے تھے‘<br />
وہ ہی انہیں صلیب تک لے آیا۔ حضرت محمد کو‘ اچھا<br />
کرنے کے جرم میں‘ پتھر مارے گیے۔ ہر طرح کی ازیت دی<br />
گئی۔ حضرت حسین‘ خیر کے رستے پر تھے‘ جن کی<br />
بھلئی کر رہے تھے‘ اور انہیں جہنم کی آگ سےبچانے<br />
کے لیے‘ کوشش کر رہے تھے وہ ہی پرلے درجے کے<br />
بدکردار نکلے۔ منصور خیر کا پرچارک تھا‘ کتنی اذیت ناکی
سے‘ اسے قتل کیا گیا۔ سرمد میں‘ ہند سچائی کا سورچ تھا‘<br />
اس کے ساتھ کیا گیا‘ ہند کا بچہ بچہ جانتا ہے۔<br />
پہل قدم<br />
بابا جی کی باتوں کو‘ سب نے سنا اور پسند کیا۔ ادریس<br />
صاحب کی سوئی‘ قربانی کے گوشت پر‘ اٹکی ہوئی تھی۔<br />
اتنی دیر میں‘ پانچ لوگوں کا کھانا‘ اندر سے آ گیا۔ چار<br />
لوگوں کے لیے چٹنی ملی لسی‘ جب کہ ایک کے لیے‘<br />
گوشت سے بھری پلیٹ آئی۔ سب نے‘ باطور تبرک چٹنی<br />
ملی لسی سے روٹی‘ جو اماں جی کے ہاتھوں کی پکی<br />
ہوئی تھی‘ کھائی اور کھانے کو پرذائقہ قرار دیا۔ ادریس<br />
صاحب کا‘ موڈ اب بھی خراب تھا۔ انہیں پکائی کے‘ ناقص<br />
ہونے کا‘ گلہ تھا۔ وہ کیا جانیں‘ گھر میں تو گوشت پکا ہی<br />
نہ تھا۔ گوشت کی پلیٹ اور روٹیاں‘ چوہدھری صاحب نے‘<br />
بجھوائی تھیں۔ وہ ہی سفید آٹے کی روٹیاں‘ ادریس صاحب<br />
کے پیٹ میں گئی تھیں۔<br />
ادریس شرلی<br />
رحمو‘ نیکی کے رستے سے‘ رائی بھر ادھر ادھر نہ ہوا۔<br />
میں انسان تھا‘ نادانستہ سہی‘ مجھ سے غلطیاں تو ہوتی
رہتی تھیں۔ ا نے‘ دو سال مجھے معافی مانگنے کا‘ موقع<br />
دیا۔ آخری تین ماہ‘ لوگوں نے‘ میرے لیے دعائیں کیں۔ ان<br />
کی دعاؤں نے‘ مجھے ا کی رحمت سے‘ مایوس ہونے<br />
سے بچایا۔ میں ہر لمحہ‘ ا کی عطا و رحمت کا امید وار<br />
رہا۔ آخری پندرہ دن‘ یقینا بڑے درد ناک اور کرب ناک<br />
تھے۔ جانتے ہو‘ یہ ہی میری پوری زندگی کا حاصل تھے۔<br />
میری حالت پر‘ لوگوں کو ترس آنے لگا۔ لوگوں نے‘<br />
خلوص نیتی سے میرے گناہوں کی بخشش کے لیے‘ دعا<br />
کی۔ ا انہیں اجر دے۔ میری موت اور راحت مرزا کی موت<br />
کا موازنہ کرو‘ لوگ تو لوگ‘ اسے خود‘ اپنے گناہوں کی<br />
توبہ کا موقع نہ مل سکا۔ دنیا میں‘ راحت مرزا سے زیادہ<br />
بدنصیب‘ اور کون ہو گا۔ ذرا غور تو کرو۔<br />
موازنہ<br />
وہ اسے وقت ضائع کرنے کے مترادف سمجھتا تھا۔ اس کا<br />
زیادہ تر‘ بیبیاں پاک دامناں اور حضرت شاہ حسین لہوری<br />
کے درباروں پر‘ آنا چانا تھا۔ وہ دیر تک‘ وہاں بیٹھا اکیل<br />
ہی‘ باتیں کرتا رہتا۔ اسے واپسی کوئی جواب ملتا یا نہ ملتا‘<br />
کوئی نہیں جانتا۔ اگر کوئی پوچھتا‘ تو جواب میں ہنس دینا۔<br />
اس کے اس ہنسنے میں‘ اثبات اور نہی کا‘ دور تک نام<br />
ونشان تک نہ ہوتا۔
سرگوشی<br />
کتنی عجیب بات ہے‘ ان میں سے کسی کو اپنی اخلقی و<br />
روحانی بیماریوں کا علم تک نہیں۔<br />
عللتی استعارے<br />
حضرت پیر صاحب کی باتوں میں حقیقت رقصاں تھی۔ وہ<br />
بےچارے دعا ہی کر سکتے تھے۔ وہ علی رضا کے لیے<br />
کیا کر سکتے تھے۔ ان کی باتیں‘ ان کے علقہ کے<br />
چوہدری صاحب کو‘ گولی کی طرح لگتی تھیں۔ حالں کہ وہ<br />
کسی کا نقصان نہیں کرتے تھے۔ وہ تو‘ اپنے منہ کا لقمہ‘<br />
حاجت مندوں کو دے دیتے تھے۔<br />
دوسری بار<br />
آراء دہندگان اردو انجمن<br />
جناب اسماعیل اعجاز<br />
جناب اظہر
جناب تنویرپھول<br />
جناب خلش<br />
جناب ساجد پرویز آنس<br />
جناب سرور عالم راز<br />
جناب ضیا بلوچ<br />
جناب مشیر شمسی<br />
جناب وی بی جی<br />
افسانے جن پر رائے دستیاب ہوئی ہے۔ اس میں کوتاہی یا<br />
غلطی ممکن ہے۔ جس کے لیے پیشگی معذرت چاہوں گا۔<br />
ادریس شرلی<br />
آخری کوشش<br />
چار چہرے<br />
سرگوشی<br />
موازنہ<br />
پہل قدم
اسے پیاسا ہی رہنا ہے<br />
یہ کوئی نئی بات نہ تھی<br />
دروازے سے دروازے تک<br />
وہ کون تھے<br />
پنگا<br />
دائیں ہاتھ کا کھیل<br />
ا جانے<br />
پاخانہ خور مخلوق<br />
ان پڑھ<br />
لروا اور انڈے بچے<br />
سچائی کی زمین<br />
ابھی وہ زندہ تھا<br />
حللہ<br />
بازگشت<br />
فقیر بابا<br />
بیوہ طواءف
بڑا آدمی<br />
کریمو دو نمبری<br />
معالجہ<br />
میں ابھی اسلم ہی تھا<br />
پٹھی بابا<br />
جواب کا سکتہ<br />
ماسٹر جی<br />
بڑے ابا<br />
گناہ گار<br />
گناہ گار<br />
انا کی تسکین<br />
انگریزی فیل<br />
چوتھی مرغی<br />
تنازعہ کے دروازے پر<br />
کامنا<br />
ابا جی کا ہم زاد
دو دھاری تلوار<br />
شیدا حرام دا<br />
عللتی استعارے<br />
بیوہ طوائف<br />
آراء<br />
جون<br />
ادریس شرلی<br />
2014<br />
,23<br />
بہت عمدہ جناب۔ ایسی تحریروں کی معاشرے کو بہت شدت<br />
سے ضرورت ہے۔ لوگوں کو ہر پہلو سے ائینہ دکھاتے رہنا<br />
ہی اپ کی تحریروں کا مقصد ہے اور وہ اپ بہترین طریقے<br />
سے کر رہے ہیں۔<br />
ادریس صاحب میں وہ وہ خصلتیں پائی جاتی ہیں جو اکثر<br />
عورتوں میں پائی جاتی ہیں، لیکن کچھ مردوں میں بھی یہ<br />
خصلتیں پائی جاتی ہی ہیں۔ ہمارا ذاتی خیال کچھ اس بارے<br />
میں یہ ہے کہ ہمیں نیکی اور بدی کے فرق کو بہتر طور پر<br />
سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کئی ایسی نام نہاد نیکیاں<br />
معاشرے میں عام ہیں جس سے بہت نقصان ہو رہا ہے۔
جس کی مثال ہم کچھ یوں دیں گے کہ کئی غیر قانونی<br />
سرکاری مراعات یہ کہہ کہ جائز قرار دے دی جاتی ہیں<br />
:چھوڑیں جی، یہ غریب ادمی ہے، اس کا بھل ہو جائے گا:<br />
۔۔۔ سرکاری مال ، مالL مفت اور دLل بے رحم۔<br />
دوسری مثال ان عمر رسیدہ لوگوں کی بھی ہے جنہیں ہم<br />
اپنے بچوں سے چاچا اور انکل کہلواتے ہیں۔ بچوں کو یہ<br />
احساس ضرور ہونا چاہیئے کہ عمر کے ساتھ لزماø زندگی<br />
کا وسیع تجربہ منسلک ہوتا ہے، لیکن اس کا ہر گز یہ<br />
مطلب نہیں ہوتا کہ ہر بات میں وہ درست ہوں۔ بقول ہمارے<br />
دیرینہ دوست شیخ سعدی مرحوم کے، :بزرگی بہ عقل<br />
ہست، نہ بہ سال:۔<br />
اندھی تقلید چاہے مذہب کی ہی کیوں نہ ہو، ہم ذاتی طور پر<br />
اس کے حق میں نہیں ہیں۔ سو ہمارے خیال میں کہانی کے<br />
مرکزی کردار جیسے لوگوں کو ان کے منہ پر اپنے دل کی<br />
بات مناسب انداز میں بتا دینی چاہیئے اور ہر کسی کی عزت<br />
اتنی ہی کرنی چاہیئے جتنے اس کے اعمال کا حق ہو۔<br />
ہمارے ہاں تو اپ جانتے ہی ہیں کہ کسی کی تعظیم اور اس<br />
کا مقام، اج بھی لوگ، یا تو اس کی دولت کے حساب سے<br />
کرتے ہیں یا پھر عمر کے حساب سے۔ ہماری نظرمیں یہ<br />
پیمانہ درست نہیں۔ بڑی گاڑی سے اترے والے شخص کی<br />
خدمت بھاگ بھاگ کر کی جاتی ہے، چاہے وہ خود نہ بھی
چاہے، جبکہ اس ناچیز جیسا کوئی شخص سنیارے کی<br />
دکان میں جانا چاہے تو محافظ دروازے پر ہی روک کر<br />
پوچھ گچھ شروع کر دیتا ہے۔ دوسری طرف اگر کوئی<br />
بزرگ، بقول اپ ہی کے، اپنا لچ بیچ میں تلنے کی کوشش<br />
کرے (ویسے یہ محاورہ بھی کیا ہی خوب کسی نے بنایا<br />
ہے، ہمیں بہت پسند ہے) تو اس پر خاموشی اختیار کر لی<br />
جاتی ہے۔<br />
سو ہمارے خیال میں جب تک تعظیم کا معیار درست نہیں<br />
ہوتا، معاشرتی نا انصافیاں بڑھتی ہی چلی جائیں گی۔ لوگوں<br />
کو ہر پہلو سے ائنہ اپ خوب دکھاتے رہتے ہیں تاکہ لوگ<br />
اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے اندر موجود برائی کو<br />
جان پائیں۔ اور اگر وہ جان گئے تو اس میں سب کا بھل ہو<br />
گا۔<br />
ایک بات ہم سے کہنا رہ گئی تھی۔ اپ کی تحریروں میں<br />
محاوراتی زبان کا عنصر نمایاں ہے۔ اسے پڑھ کر ہمارے<br />
علم میں بہت اضافہ ہوتا ہے اور یقیناø اس کے اثر سے ہم<br />
بھی اپنی بات کو بہتر، پر اثر اور با معنی بنا سکا کریں<br />
گے۔ جس پر شکر گزار ہیں۔<br />
ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ۔<br />
وی بی جی
جولئی<br />
آخری کوشش<br />
2013 ,15<br />
فی زمانہ نثر نگاری کا فن زنگ آلود ہو چلہے۔ کوئی!<br />
رسالہ بھی اٹھا کر دیکھئے توسوائے چند اوسط درجہ کے<br />
افسانوں اور چند منظومات (غزل اور آزاد نظمیں) کے<br />
علوہ کچھ اور نظر نہیں آتا۔ ماضی میں رسالوں میں ادبی،<br />
علمی اور تحقیقی مضامین کثرت سے ہوا کرتے تھے۔ تنقید<br />
و تبصرہ فن کی حیثیت سے سیکھے اور سکھائے جاتے<br />
تھے اورافسانہ نگاری بھی اونچے معیار کی حامل تھی۔ اب<br />
ادب پر ایک عمومی زوال تو طاری ہے ہی نثر نگاری<br />
خصوصا اضمحلل کا شکار ہے۔ غزل کہنا لوگ آسان<br />
سمجھتے ہیں (حالنکہ ایسا نہیں ہے)۔ غزل میں وقت کم<br />
لگتا ہے اور نظم میں اور نثر میں زیادہ ۔ نثر مطالعہ اور<br />
تحقیق بھی چاہتی ہے جس سے ہماری نئی نسل بیگانہ ہو<br />
کر رہ گئی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ کوئی زبان بھی صرف ایک<br />
صنف سخن کے بل بوتے پر پھل پھول نہیں سکتی لیکن<br />
اردو والے اس معمولی سی حقیقت سے یا تو واقف ہی نہیں<br />
ہیں یا دانستہ اس سے صرف نظر کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی<br />
اردو محفلیں بھی اسی مرض کا شکار ہیں اور وہاں بھی
سوائے معمولی غزلوں کے (جن میں سے بیشتر تک بندی<br />
ہوتی ہیں) کچھ اور نظر نہیں آتا۔ آپ کی نثرنویسی میں<br />
مختلف کوششیں اس حوالے سےنہایت خوش آئند ہیں۔ آپ<br />
مطالعہ کرتے ہیں ،سوچتے ہیں اور انشائیے لکھتےہیں۔<br />
اس جدو جہد کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ میں اپی مثال<br />
کسی خودستائی کی شہ پر نہیں دیتا بلکہ دوستوں کو یہ<br />
بتانا چاہتا ہوں کہ شوق،محنت اور لگن ہو تو بہت کچھ ہو<br />
سکتا ہے۔ میں نے انجینیرنگ پر نصابی کتابیں لکھی ہیں۔<br />
ان کے علوہ غزل، نظم، افسانے، ادبی مضامین، تحقیقی<br />
مضامین، ادبی تنقید وغیرہ سب ہی لکھا ہے۔ یقینا سب کچھ<br />
اعلی معیار کا نہیں ہے لیکن بیشتر اچھے معیار کا ہے اور<br />
ہندو پاک کے معتبر اور موقر رسالوں میں شائع ہوتا ہے۔<br />
میں آپ کی انشائیہ نگاری کا مداح ہوں اور درخواست کرتا<br />
ہوں کہ برابر لکھتے رہہئے۔زیر نظر انشائیہ اچھا ہے لیکن<br />
یہ مزید بہتر ہو سکتا تھا سو اپ وقت کے ساتھ خود ہی کر<br />
لیں گے۔ خاکسار کی داد حاضر ہے ۔ باقی راوی سب چین<br />
بولتا ہے۔<br />
سرور عالم راز<br />
سلم اس تحریر پر ہم کچھ نہ لکھیں گے۔ فقط یہی کہ اسے<br />
پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور تحریر کے اختتام
کے قریب سانسیں رک جاتی ہیں۔ اور پھر منہ کھل کا کھل<br />
رہ جاتا ہے۔ اس کے اندر جو کرب ہے اور جو کچھ یہ<br />
انگلیاں لکھنے کو دوڑ رہی ہیں، اسے بصد مشکل روکتے<br />
ہوئے، ایک بار پھر سے بھرپور داد ۔۔۔دعا گو<br />
وی بی جی<br />
نومبر<br />
چار چہرے<br />
2013 ,26<br />
Pehla chehra yaqeenan sab se mumtaaz<br />
hai. Hairangi ki baat yeh hai keh iss taraf<br />
koi jaata he nahi. Danish ka barqaraar<br />
rehna aur usske liye apne aap ko qurban<br />
karna buhot baRi baat hai aur yehi baat<br />
pehle chehre ko dosrooN se mumtaz<br />
karti hai.<br />
Fikr angaiz khayyal aur umah tahreer.<br />
خلش<br />
آپ کا مختصر انشائیہ دیکھا تو مجھ کو ١٩۴٨ کے آس
پاس والد مرحوم کا لکھا ہوا ایک مضمون :عورت کی<br />
فطرت: یاد آ گیا جس کالب لباب یہ تھا کہ یہ معمہ اب تک<br />
حل ہوا ہے اور نہ آئندہ اس کے حل ہونے کی کوئی امید<br />
ہے۔ آپ کاانشائیہ دیکھا کہ آخری چند سطروں میں آپ نے<br />
خیال ظاہر کیے ہے کہ ان چار چہروں کے مطالعہ سے یہ<br />
گتھی سلجھ سکتی ہے۔ میں صرف جذباتی طور پر ہی نہیں<br />
بلکہ فکری سطح پربھی والد مرحوم سے زیادہ متفق ہوں۔<br />
آپ جب اس معمہ کو سمجھ لیں تو اپنے ارادت مندوں کو<br />
ضرور حل سے آگاہ کیجئے گا! باقی رہ گیا راوی تو وہ<br />
چین بولتا ہے۔<br />
سرور عالم راز<br />
احباب من سلم مسنون<br />
میرا بھی یہی خیال ہے کہ محترم راز چاند پوری نے درست<br />
فرمایا تھا ویسے یہ بھی پیش نظر رہے کہ ایک حدیث کا<br />
مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ عورت پسلیکی ہڈی سے پیدا<br />
ہوئی ہے ،اسے بالکل سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرو ورنہ<br />
توڑ بیٹھو گےاس کی کجی کے ساتھ اس سے فائدہ اٹھاتے<br />
رہو<br />
والسلم<br />
تنویرپھول
جولئی<br />
سرگوشی<br />
2014 ,06<br />
آپ کاانشائیہ "سرگوشی" آپ کے مخصوص طرز فکر<br />
وبیان کا اعلی نمونہ ہے۔ ایک ایک جملہ میں ایک داستان<br />
پوشیدہ ہے۔ بین السطور کیا کیا نہیں کہہ دیا گیا ہے۔ پنجابی<br />
سے میں نا واقف ہوں پھر بھی سیاق و سباق سے کچھ<br />
سمجھ ہی گیا۔ اگر آپ پنجابی اشعار، کہاوتوں اور فقروں کا<br />
ترجمہ بھی لکھ دیا کریں تو ہماری مشکل آسان ہو جائے<br />
گی۔ اس سے قبل بھی آپ کے کئی انشائیے نظر آئے لیکن<br />
اپنی بد تقدیری کے ہاتھوں ان سے مستفید نہ ہو سکا۔ اب<br />
واپس جا کر ان کو پڑھنے کا ارادہ ہے۔ رمضان چل رہے<br />
ہیں۔ اس مبارک ماہ میں ایسے مضامین اور بھی دل پذیر ہو<br />
جاتے ہیں۔ جزاک ا خیرا۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔<br />
سرور عالم راز<br />
جون<br />
موازنہ<br />
2014 ,27
جناب عزت افزائی کا بہت شکریہ۔ ہمارے لیئے اعزاز کی<br />
بات ہے کہ اپ کے قلم نے ہمیں اس لئق سمجھا ہے۔ لیکن<br />
ایک گزارش کرنا چاہیں گے کہ صاحب! یہ تعریفیں ہم سے<br />
برداشت نہیں ہوتیں۔ سمجھ لیجے کہ تعریفیں وی بی جی<br />
کی موت ہیں۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اپ نے کس<br />
قدر خلوص اور محبت سے ہمارے بارے میں اپنے خیالت<br />
کا اظہار فرمایا ہے۔ اور یقیناø اپ نے حق گوئی کا مظاہرہ<br />
کیا ہو گا۔ جیسا محسوس ہؤا ویسا بیان کیا ہو گا۔ ہم شکر<br />
گزار ہیں کہ اس لئق سمجھا اپ نے۔اپ نے بہت ہی<br />
خوبصورت انداز میں جواب عنایت فرمایا ہے۔ اپ قلم کار<br />
ہیں سو اپ بات کہنے کا فن جانتے ہیں۔ لیکن اس گہرائی<br />
سے مشاہدہ کرنا ظاہر ہے کہ گہری سوچ اور سلجھا ہؤا<br />
ذہن چاہتا ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔<br />
جواب بھی ہمیں بہت پسند ایا ہے۔ دراصل کئی ایسے سوال<br />
ہوتے ہیں، جن کے ذہن میں اتے ہی، لوگ انہیں جھٹلنا<br />
شروع کر دیتے ہیں کہ یہ تو سوچنا بھی گناہ ہے۔ اور اس<br />
طرح گویا یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ ان سوالوں کا کوئی<br />
جواب نہیں ہے جو انسان دے سکے۔ اور نتیجہ یہ کہ اپنے<br />
اپ کو دھوکہ دیتے رہتے ہیں اور ایمان کی کمزوری کا<br />
شکار رہتے ہیں۔ ہمارے خیال میں تمام سوالت کے جواب<br />
موجود ہوتے ہیں۔ ا پاک اور اس دنیا کا وجود ہمیں غیر
منطقی نہیں نظر اتا۔ اگر ہم سوچنے پر ہی پابندی لگا دیں،<br />
تو جواب کہاں سے ائیں گے۔ ایمان پختہ ہونا چاہیئے، راز<br />
کھلتے چلے جاتے ہیں۔تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد۔۔۔<br />
بہت ہی عمدہ تحریر ہے۔ ظاہر ہے کہ کئی سوالوں کے<br />
جواب دیتی ہے۔ سلجھا ہؤا انداز تحریر ہے۔ایک بار پھر<br />
بھرپور داد کے ساتھ ۔<br />
وی بی جی<br />
جون<br />
پہل قدم<br />
2014<br />
,22<br />
بہت عمدہ جناب۔ بہت ہی اعلی تحریر ہے۔ بھرپور داد۔ اپ<br />
کو بات کہنے کا فن اتا ہے، اور ظاہر ہے کہ یہی ایک قلم<br />
کار کے فن کا مظہر ہے۔یہ تحریر جس راستے پر چلنے کا<br />
سبق دے رہی ہے جناب، وہ بہت ہی مشکل راستہ ہے۔ اس<br />
قدر مشکل کے تصور کرنا بھی محال۔ کاش کہ ہم لوگ اس<br />
مقام تک پہنچ سکیں۔مشکلت صرف یہی نہیں جو تحریر<br />
سے عیاں ہیں، بلکہ کچھ برعکس بھی ہیں۔ اپ نے تاریخ<br />
میں سے کچھ مثالیں قلمبند کی ہیں، لیکن سچ پوچھیں تو<br />
ہم ایسی ہزاروں مثالیں پیش کر سکتے ہیں، جہاں برا
کرنے والے کو اس کے کیئے کے برابر سزا نہیں ملی۔ کئی<br />
ایسی مثالیں بھی ہیں جن میں سرے سے سزا ملی ہی نہیں،<br />
بلکہ ظلم کرنے والے اخری سانس تک عیاشی اور ظلم<br />
کرتے رہے۔ کئی مثالیں تو ہمارے سامنے ہی موجود ہیں<br />
جہاں شرفا مہینوں چارپائی پر کھانس کھانس کر اور ایڑیاں<br />
رگڑ رگڑ کر مرتے ہیں، جبکہ ظالم لوگوں کے لیئے قدرت<br />
نے قدرے اسان طریقہ موت بھی ایجاد کر رکھا ہے جیسے<br />
دل کا دورہ پڑنے سے اچانک دنیا سے اٹھ گیا۔ ہمیں یقین<br />
ہے کہ اگر دنیا میں انصاف ہو رہا ہوتا اور ہر ظالم کو حق<br />
کے مطابق سزا مل رہی ہوتی، تو، نہ تو یہاں ظلم عام ہوتا،<br />
اور نہ ہی جنت اور دوزخ کے وجود کی کوئی ضرورت<br />
تھی۔جب یہ سب انسان دیکھتا ہے، کہ دنیا میں انصاف نہیں<br />
ہے۔ اچھا کرتا اور برا نتیجہ لیتا ہے تو ظاہر ہے کہ قدم<br />
ڈگمگا جاتے ہیں۔ ا پر اعتماد بھی کہنے کو تو بہت ہوتا<br />
ہے، لیکن دل میں کمزور پڑ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں<br />
اس راستہ پر چلنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔باقی جناب اپ<br />
کی تحریر اس قدر خوبصورتی سے کئی پہلو سمجھا رہی<br />
ہے کہ مذید کچھ کہنے کو رہ ہی نہیں جاتا۔ ہماری طرف<br />
سے بھرپور داد قبول کیجے۔ امید ہے کہ پڑھنے والے جس<br />
قدر ہو سکا، اثر لیتے ہوئے، سچائی کے راستہ پر ڈٹے<br />
رہیں گے۔ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ<br />
وی بی جی
ہم معذرت خواہ ہیں کہ ہماری باتوں نے اپ کو کل سے<br />
عجیب سی کشمکش اور بے چینی میں مبتل کر رکھا ہے۔<br />
ہم نے کوشش کی کہ جلد سے جلد حاضر ہو سکیں سو<br />
50<br />
-<br />
حاضر ہو گئے ہیں۔پہلے تو ہم یہ بتاتے چلیں کہ جو اپ<br />
40 سال سے کر رہے ہیں وہ بہت بڑا کام ہے۔ ہم نے بھی<br />
ایسی ہی تحریریں پڑھی ہیں اور ہمیں یاد تک نہیں کہ وہ<br />
کون لکھتے تھے۔ اور بھی کئی لوگ ہیں جو اس علمی<br />
خزانے سے استفاضہ حاصل کرتے ہیں۔ اپ کی تحریروں<br />
نے کئی لوگوں کو اگہی بخشی ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں<br />
اپ کا نام بھی یاد نہ رہے، اور تحریروں کو سرسری پڑھ<br />
کر چلے جائیں۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ یہی وہ تحریریں ہیں<br />
جو ان کے لشعور میں پیوست ہو جاتی ہیں۔ اور پھر اہستہ<br />
اہستہ شعور کا حصہ بنتی چلی جاتی ہیں۔اپ جانتے ہی ہیں<br />
کہ ہم قلم کار نہیں ہیں سو کچھ بھی لکھتے ہیں تو وہ<br />
بکھرا بکھرا اور کئی بار بے ربط سا ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسا<br />
ہی یہاں بھی ہؤا۔اصل میں بات پیر صاحب کی تھی، سو ہم<br />
اسے پیری میں ہی لے گئے۔ جو طرز عمل پیر صاحب کا<br />
اس تحریر میں تھا وہ ہمارے خیال سے صرف پیروں کے<br />
ہی بس کی سی بات ہے۔ سو ہم نے اس میں پیش انے والی<br />
مشکلت کو ذرا سا بیان کر دیا اپنی محدود عقل کے حساب<br />
سے۔ مشکلت تو اس بھی کہیں ذیادہ بڑھ کر ہیں۔ اس سے
ایک درجہ اوپر کی مشکل بھی موجود ہے جسے الفاظ بھی<br />
دئیے جا سکتے ہیں، لیکن اس کے بعد کی مشکلت کو تو<br />
الفاظ بھی دینا ممکن نظر نہیں اتا ہمیں۔ ہم اس میں ذیادہ<br />
نہیں جاتے، وگرنہ شاید ہم اپنی بے تکی باتوں سے اپ کو<br />
مذید الجھا ہی نہ دیں۔ا پاک ہم سب کو طاقت دے کہ ہر<br />
مشکل برداشت کریں لیکن نیکی کے راستے سے قدم نہ<br />
بہکیں۔<br />
ہیں۔ یہ کوا پیاسا تھا، پیاسا ہے اور پیاسا ہی رہے گا۔آپ<br />
کی تحریر میں بہت درد ہوتا ہے اور ہر بات آپ کے دل سے<br />
نکلی ہوئی لگتی ہے۔ نئی نسل ہماراہی عکس ہے۔ ہم نے<br />
ان کے لئے جو روایات چھوڑی ہیں وہ ان سے الگ<br />
کیونکر ہو سکتے ہیں۔ لوگوں سے جب ذکر ہوتا ہے تو<br />
ہمارے یہاں بندھا ٹکا جملہ ہوتا ہے کہ "دعا کیجئے" اور<br />
ظاہر ہے کہ صرف دعا سے کیا ہوتا ہے۔ اونٹ تو بھاگ<br />
چکا ہے۔ اب ہم لکھ دعا مانگیں وہ لوٹ کر نہ L یں آنے کا۔<br />
ا ا خیر سل۔<br />
سرور عالم راز<br />
بہت ہی شاندار تحریر ہے۔ ایک تو جس طرح یہ کہانی کوے<br />
کے پیاسے ہونے کی تشریح کرتی ہے بہت ہی خوب ہے<br />
اور پھر اختتام تو سبھان ا ۔۔ ہماری طرف سے بھرپور
داد۔ محترم سرور عالم راز سرور» صاحب کی باتوں سے<br />
بھی استفاضہ حاصل کیا۔اپ کی باتیں بجا ہیں۔ حاکم ہمیشہ<br />
محکوم کی کی وجہ سے حاکم رہا ہے اور رہے گا۔ ہمیں<br />
اس سے کیا کہ ہماری تاریخ میں کیا کچھ بھرا پڑا ہے۔<br />
ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ہارون الرشید اور<br />
مامون الرشید کے دور میں فرقہ معتضلہ کی کیا حیثیت<br />
تھی۔ خاندانL برامکہ کے ساتھ کیا ہؤا۔ کیس کی لش بازار<br />
میں کتنے دن لٹکی رہی۔ اور حضرت امام احمد بن حنبل<br />
کے ساتھ کیا کیا گیا۔ ہمیں صرف ان کے دور حکومت کی<br />
تعریف کرنی ہے کیونکہ وہ مسلمان خلفا تھے۔ ہمیں مغلیہ<br />
دور کی بھی تعریف کرنی ہے ہم کیوں جانیں یا مانیں کہ<br />
نور جہاں شیر افغن کی بیوی تھی یا نہیں۔ اسے کس نے<br />
کیوں قتل کروایا۔ ہمیں ان کی تعریف ہی کرنی ہے۔ اپ کئی<br />
بار کہہ چکے ہیں کہ مورخین نے بہت ظلم کیا ہے۔ بالکل<br />
درست کہتے ہیں اپ۔جناب کوا پیاسا رہے گا۔ درست۔ لیکن<br />
کوے کو پانی کی تلش جاری رکھنی چاہیئے اور ہم اس<br />
کے لیئے کوشاں رہیں گے۔ قدرت کا کھیل ہی ایسا ہے۔<br />
کوے کو پیاس دی ہے اور امتحان یہی ہے کہ اسے پانی پل<br />
کر دکھاؤ تو تم کامیاب۔ یہی جہت ہے یہی جہاد۔ہماری نظر<br />
میں یہ اپ کی زور دار تحریروں میں سے ایک ہے۔ شاندار<br />
ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور دادکتاب کی اشاعت مبارک<br />
ہو۔ ہمارے خیال میں اپ قصور میں رہائش پذیر ہیں۔ ہمارا
مسلئہ کچھ ایسے ہے کہ ہمارا کوئی پتہ نہیں ہے۔ جلد<br />
دریافت کریں گے اور اپ کو ضرور مطلع فرمائیں گے۔<br />
ہماری دلی خواہش ہے کہ ہم :خوشبو کے امین: پڑھ کر اپ<br />
جیسے قلم کار سے استفاضہ حاصل کر سکیں۔ایک بار پھر<br />
بھرپور داد کے ساتھ<br />
وی بی جی<br />
عمدہ پر فکر تحریر سے ہمیں جھنجھوڑنے کا بے حد<br />
شکریہ مگر صاحب ہم سبھی اپنا اپنا کردار نبھاتے اپنی<br />
اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں ہم میں سے ہر شخص<br />
دوسرے کے ئے امتحان ہے اور اسی امتحان پر پورا<br />
اترنے کا نام ڈسپلن ہے اور یہ ڈسپلن حق ادا کرنے کا نام<br />
ہے حق مانگنے کا نہیں ، مگر آج الٹی گنگا بہ رہی ہے ہر<br />
شخص اپنا حق مانگ رہا ہے مگر دوسروں کا حق ادا نہیں<br />
کر رہا یہیتو ڈسپلن کی خلف ورزی ہےایسی پر فکر<br />
تحریروں کے آئینے میں ہمیں ہمارا چہرہ دکھانے کا<br />
شکریہ قبول فرمائیےکبھی نہ کبھی شرم ہمیں ضرور آئے<br />
گیوالسلم<br />
اسماعیل اعجاز
یہ کوئی نئی بات نہ تھی<br />
جون<br />
2014 ,18<br />
کیا ہی بات ہے جناب ۔ بہت خوب۔ بہت باریک معاملے پر قلم<br />
اٹھایا ہے اور کیا ہی خوب اٹھایا ہے۔ یہ انداز بھی بہت پسند<br />
ایا جس طرح اپنے معاملے کو ایک مقالمہ کی شکل دی اور<br />
بات واضح سے واضح طور تر ہوتی چلی گئی۔ ہمیں سو فی<br />
صد اتفاق ہے اپ کی اس بات سے۔ معاملے کو تھوڑا وسیع<br />
کر کے دیکھیں تو بات وہیں جنون و خرد کی لڑائی پر اتی<br />
ہے۔ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ جنوں اورد کی طرح ہے اور<br />
عموماø کسی چیز کا حقیقی اور حتمی احساس ہوتا ہے۔ خرد<br />
کو دلئل چاہیئں۔ وہی فرق جو وکالت اور نفسیات کا اپ کی<br />
تحریر میں جھلکتا محسوس ہوتا ہے۔نفسیات چونکہ اس<br />
چیز کا مطالعہ کرتی ہے :جو ہے:، اس لیئے حقیقت کے<br />
قریب تر ہے۔ جبکہ وکالت کا زیادہ تر زور اس پر ہے کہ<br />
:کیا ہونا چاہیئے: حالنکہ ہمارے نذدیک :کیا ہونا چاہیئے:<br />
کا اس وقت تک تعین ہی نہیں کیا جاسکتا جب تک یہ مکمل<br />
طور پر جان نہ لیا جائے :جو ہے: ۔اپ نے بجا فرمایا کہ<br />
ہمارا معاشرہ، اکہرے نہیں بلکہ دوہرے معیار کا شکار ہے<br />
بلکہ ہم تو کہیں گے کہ کئی ہرے معیاروں کا شکار ہے۔<br />
یہی وجہ ہے کہ بقول شخصے :ہر شخص چاہتا ہے کہ اس
کی بیوی وہ کچھ نہ کرے جو وہ چاہتا ہے کہ پڑوسی کی<br />
بیوی کرے: اس کی وجہ ہمیں جو محسوس ہوتی ہے وہ<br />
بھی اپ نے بیان فرما ہی دی ہے، کہ ہم لوگوں نے اسلم<br />
کو اپنی ہندوستانی تہذیب کے ساتھ ہم اہنگ کرنے کی<br />
کوشش کی ہے۔ اسلم میں غیرت کا ایسا تصور ہمیں کہیں<br />
نہیں ملتا، وہاں کافی باتیں کچھ مختلف انداز میں ہیں۔لیکن<br />
خیر یہ واقعی کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن اپ نے اسے<br />
اپنے قلم کے زور سے نیا بنا دیا ہے۔ مقالمہ بہت اچھا لکھا<br />
ہے اپ نے۔ ہمیں تو پڑھ کر بہت مزا ایا جناب۔ایک بار پھر<br />
بھرپور داد کے ساتھ ۔۔۔<br />
وی بی جی<br />
دروازے سے دروازے تک<br />
جون<br />
2014 ,14<br />
بہت ہی دلسوز تحریر ہے جناب۔ کیا خوب قلم چلئی۔ یقین<br />
جانیے تحریر پڑھ کر اپ کے قلم کی تعریف کرنے کی<br />
بجائے، رونے کا دل چاہتا ہے۔تحریر کا پہل حصہ جس<br />
موضوع پر قاری کا دل نرم کرتا ہے، اس پر کچھ کہتے بھی<br />
شرم محسوس ہوتی ہے لیکن اس دلسوز حقیقت کو جان
لینے کے بعد تحریر کا دوسرا حصہ صحیح طور سے<br />
سمجھ بھی اتا ہے اور دل پر اثر کرتا ہے۔ مسلمان معاشرہ<br />
اتنی بیماریوں کا شکار ہو چکا ہے کہ بندہ کیا کہے اور کیا<br />
نہ کہے۔ لوگ اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ ہر معاملہ<br />
کو حکومت کی زمہ داری قرار دے کر، پہلو تہی کر جاتے<br />
ہیں۔ یہاں تک کہ کبھی کبھی ہمیں لگتا ہے کہ لوگ چاہتے<br />
ہیں وہ گھروں میں سکون سے بیٹھے رہا کریں اور<br />
حکومت سب کو گھر گھر ہر مہینے پیسوں کی بوری دے<br />
جایا کرے۔ انہیں سمجھ نہیں اتا کہ اناج نہیں اگائیں گے تو<br />
نہیں کھائیں گے۔ ریڑھی پر لوگوں کو دھوکے سے گندے<br />
ٹماٹر بیچنے وال خود حکومت سے رنجیدہ ہے کہ وہ<br />
دھوکے باز ہے۔ لوگ نہیں سمجھتے کہ وہ ایجادات، تعلیم،<br />
زراعت وغیرہ میں محنت کر کہ دنیا کو کچھ دیں گے نہیں<br />
تو دنیا انہیں موبائل اور کمپوٹر مفت فراہم نہیں کرے گی۔<br />
مذہبی معاملت میں انتہا پسندی یہی ہے کہ ایک فرقہ قبر<br />
کو سجدے تک کرنے پر راضی ہے تو دوسرا قبروں کو<br />
لتیں مارتا پھرتا ہے۔ برداشت ختم ہو چکی ہے۔ ایک<br />
انگریز بوڑھی سی خاتون ایک دن ٹی وی پر کسی پروگرام<br />
میں بہت پیار اور حیرت بھرے لہجے میں فرما رہی تھیں<br />
کہ اخر مسلمانوں کو کیوں کمیونٹی بن کر رہنا نہیں ا رہا<br />
ہے۔ وہ نہیں سیکھ رہے اور نقصان بھی وہ اپنا ہی کرتے<br />
جا رہے ہیں۔ اس کے نذدیک یہ بہت معمولی سی بات تھی
کہ اتنی سی بات نہیں سمجھ ا رہی۔خیر ہمیں تو اب اپنے اپ<br />
سے ڈر لگنے لگ گیا ہے کہ اگر ہم اپنے قلم پر قابو نہ پا<br />
سکے تو ہمارا حال وہی ہو گا جو ساحر اور جالب کا ہؤا<br />
تھا۔ لیکن خیر، ابھی ہمیں اپنے اندر موجود، اس بے حسی<br />
پر بھروسہ ہے، جو اس معاشرہ نے ہمیں تحفہ میں دی<br />
ہے۔تحریر پر ہم اپ کو ایک بار پھر بھرپور داد دیتے ہیں۔<br />
8 وی بی جی<br />
جون<br />
وہ کون تھے<br />
2014 ,11<br />
سلم عاجزانہ<br />
آپ کی تحریر پڑھی دل میں برسوں سوۓ ہوۓ جذبہ رحم<br />
دلی جگا گئی ہماری طرف سے اتنی اچھی تحریر لکھنے پر<br />
بھرپور داد قبول کیجئے جناب ڈاکٹر صاحب ہمارا علم اتنا<br />
وسیع نہیں کہ ہم اس بات کی گہرائی تک پہنچ سکیں لفظ<br />
"حضرت"جس کے کافی لفظی معنی ہیں لیکن اکثر یہ لفظ<br />
تعظیما استعمال کیا جاتا ہے لیکن زیادہ تر یہ لفظ کسی<br />
پیغمبر یا ا کے ولی کے نام کے ساتھ آیا
".......حضرت مہاتما بدھ کی تعلیمات"<br />
ہمیں مہاتما بدھ کے بارے میں زیادہ علم نہیں لیکن میں<br />
نے یہ لفظ ان کے نام کے ساتھ پہلے کبھی نہیں پڑھا ہم<br />
چونکہ مہاتما بدھ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ممکن<br />
ہے کہ پہلے بھی ان کے نام کے ساتھ یہ لفظ استعمال ہوا<br />
ہو لیکن پھر بھی آپ سے گزارش ہے کہ تسلی بخش جواب<br />
دیں جس سے ہمارے علم میں اضافہ ہوغلطی گستاخ معاف<br />
دعا ہے کہ ا آپ کو اور زور قلم عطا کرے مجھے اپنی<br />
دعاؤں می یاد رکھیں<br />
وی بی جی<br />
جون<br />
پنگا<br />
2014<br />
,07<br />
آداب و تسلیمات کے بعد بہت دلکش پیرائے میں لکھی ہوئی<br />
تحریر ہے، داد آپ کا حق ہے وصول پائیے<br />
اظہر<br />
آپ کو علم ہی ہے کہ میں آپ کے مضامین کا پرانا مداح
ہوں۔ روز اول سے ہی میں اس خیال کا ہوں کہ آپ کو اپنے<br />
مضامین کتابی صورت میں شائع کوادینا چاہئیں۔ خدا خدا<br />
کرکے آپ بالخر اس پر راضی ہو گئے ہیں سو بصد عجز و<br />
محبت عرض ہے کہ نصف "رائلٹی" کا میں مستحق ہوں!<br />
یہاں لکھے دے رہا ہوں تاکہ "سند رہےاور بوقت ضرورت<br />
کام آوے"۔آپ کا انشائیہ "پنگا" آپ کے مخصوص انداز<br />
فکر و بیان کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں حسب معمول<br />
زندگی اور دنیا کے چہرے سے نقاب اٹھانے کی کوشش کی<br />
گئی ہے۔ ہر چند کہ بہت سی باتیں ظاہر سی ہیں لیکن<br />
"گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را" والی بات بھی<br />
تو اہم ہے۔ بہت خوب لکھا ہے آپ نے۔ ا آپ کو سلمت<br />
رکھے۔ لکھتے رہئے اور یہ بتائیں کہ کتاب کب تک آ رہی<br />
ہے۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔<br />
سرور عالم راز<br />
بہت خوب تحریر ہے۔ ہمیشہ کی طرح داد حاضر۔ معذرت<br />
بھی چاہتے ہیں کہ فوری حاضری نہیں دے پاتے۔ جس کی<br />
وجہ یہ ہے کہ اپ کی تحریر کو لفظ لفظ پڑھنا ہوتا ہے، اور<br />
اسے انہماک سے پڑھتے وقت یکسوئی ضروری ہوتی ہے۔<br />
جبکہ کاروبارL زندگی اس کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ جیسے ہی<br />
فرصت پاتے ہیں تو حاضر ہو جاتے ہیں۔جان کر بہت خوشی
ہوئی کہ طباعت کا کام جاری ہے، اور جلد اپ کی کتابیں<br />
شائع ہونے والی ہیں۔اپ کی تحریر بہت جاندار ہے، البتہ<br />
جناب پنگے کے بغیر تو دنیا میں کوئی تبدیلی نہیں ا سکی۔<br />
چاہے تبدیلی اچھی ہو یا بری، اس کے بغیر ممکن نظر<br />
نہیں اتی۔ اگرچہ ہمارا یہ بیان بھی پنگا لینے کے مترادف<br />
ہے، لیکن چونکہ ہم پنگا لینے کے خوب حق میں ہیں، سو<br />
یہ اعلمیہ جاری کرنا جائز سمجھتے ہیں۔تقدیر کسی کے<br />
پنگا لینے یا نہ لینے کو دیکھتی ہی نہیں۔ ٹائگر کی ہی مثال<br />
لیجے، تحریر کہیں نہیں کہتی کہ اس کو خارش لگنے کا<br />
سبب بھی کوئی پنگا ہی تھا جو ٹائگر سے سرزد ہؤا۔ وہ<br />
بغیر پنگا لیئے ہی خارش کی نظر ہو گیا۔ دوسری طرف<br />
پنگا لینے وال ناگ خود تو اپنے پنگے کی سزا بھگت گیا،<br />
لیکن ساتھ میں ٹائگر کو بھی لے گیا۔ ہٹلر نے جو پنگا لیا<br />
سو لیا، لیکن ان لکھوں لوگوں نے کیا پنگا لیا تھا کہ<br />
بیچارے، ایٹم بم کی نذر ہو گئے۔ ایسے ہی سکندر کو تو<br />
جہلم کے مچھروں نے سزا دی، لیکن اس ہاتھی بیچارے کا<br />
کیا قصور تھا جس کی سونڈ کاٹ گیا۔ نہ ہی راجہ پورس کی<br />
فوجوں نے کوئی پنگا لیا تھا کہ لتاڑی گئیں۔سو صاحب<br />
جس نے پنگا لیا، اس نے دوسروں کو بھی بڑا نقصان<br />
پہنچایا۔ دوسری طرف خود پنگا نہ لو تو کسی دوسرے کے<br />
پنگے کا شکار ہو جانا پڑتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی صاحب<br />
اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایک بار انہیں کچھ
دوستوں کے ساتھ خچروں پر دشوار گزار پہاڑی راستوں<br />
پر سفر کرنا پڑا۔ ایک صاحب تھے، کہ جب بھی خچر کسی<br />
دشوار اور خطرناک جگہ سے پہار پر چڑھتا تو وہ صاحب،<br />
خچر سے نیچے اتر جاتے اور خود چڑھتے۔ کسی نے کہا<br />
کہ صاحب، یہ خچر ماہر ہیں یہاں پہاڑوں پر چڑھنے کے۔<br />
اپ کا پاؤں پھسل تو اپ بے موت گہری کھائی میں مارے<br />
جائیں گے۔ ان صاحب نے جواب دیا کہ حضرت جانتا ہوں،<br />
لیکن میں اپنی غلطی کی موت مرنا چاہتا ہوں، نہ کہ اس<br />
خچر کی غلطی کی سزا میں مروں۔تو صاحب اس سے پہلے<br />
کہ کوئی اور پنگا لے کر ہماری زندگی میں خلل ڈالے، ہم<br />
خود پنگا لے لینا مناست سمجھتے ہیں۔مزاح برطرف۔ اس<br />
بات سے انکار نہیں کہ قدرت سے پنگا لینے والے کا انجام<br />
بہت برا ہے۔ احتیاط لزم ہے۔ایک بار پھر بھرپور داد کے<br />
ساتھ ۔۔<br />
وی بی جی<br />
کیا ہی دلچسپ پنگا ہے کیا دلچسپ اندازL بیاں ہے آپ کا<br />
کیسے کیسے پنگے منظرL عام پر آپ لئے ایک منظر ابھی<br />
آنکھوں میں ہوتا ہے کہ دوسرا منظر آ جاتا ہے قائم ہو جاتا<br />
ہے اور سبھی میں دلچسپ پنگا بقول وی بی جی کہ ہر چیز<br />
میں پنگا لزم ہےپنگا نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہےیہ مانا
1990<br />
,<br />
کہ پنگے سے جیون حسیں ہےمجھ سے آ پ کی تحریر<br />
پڑھ کر خاموش نہ رہا گیا پنگا لینے چل آیا صاحب آپ کے<br />
اس پنگے نے مجھے ایک ساتھی اسلم پنگا یاد دل دیے<br />
اسلم پنگا ہمارے بہت اچھے ساتھی تھے ہم ان دنوں<br />
91 میں کراچی ایئر پورٹ کی تعمیر میں مصروف تھے<br />
جہاں ہماری ایک بڑی ٹیم تین حصوں پر مشتمل تھی جن<br />
میں ایپرن ، بلڈنگ اور روڈ اینڈ انفرا اسٹیکچر ورکس<br />
وغیرہ شامل تھے ہمارے پاس ایپرن وال حصہ تھا جس<br />
میں اسلم پنگا ہمارے ساتھ ہوا کرتے تھے ہم لوگ ایک<br />
فرنچ تعمیراتی کمپنی ’’ سوجیا پاکستان ‘‘ میں کام کر رہے<br />
تھے اسلم پنگا آج آپ کے اس پنگا مضمون کو پڑھ کر یاد<br />
آئے ان کا کام ہر ایک سے پنگا لینا ہوتا تھا بغیر پنگے<br />
کے ان کی زندگی ادھوری تھی کھانا گھر سے لیا کرتے<br />
تھے ایک دن انہوں نے انڈے اور بینگن کو مل کر ایسا<br />
پنگا لیا کہ پہچاننا مشکل ہو گیا کہ اس خمیرہ گاؤزبان میں<br />
انڈہ کونسا ہے اور بینگن کونسا ہے ا تعالی کی تخلیق<br />
کردہ دو الگ الگ ذائقوں میں الگ الگ مزاج کی حامل<br />
اجناس کو یکجا کر کے ایسا کشتہ تیار کیا تھا کہ جس کے<br />
کھانے کے کئی گھنٹے بعد تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ کیا<br />
کھایا بس یہ لگا کہ کسی حکیم صاحب نے اپنی زندگی کے<br />
آزمودہ نسخوں سے حاصل شدہ معجونL کہہ لیں کشتہ کہہ<br />
لیں تیار کیا ہے کہ جسے کھایا تو جاسکتا ہے مگر اس
میں شامل اجزا کاتجزیہ نہیں کیا جاسکتا جس کے کھانے<br />
کے بعد بہت سے رکے ہوئے معاملت نہ صرف حل ہو<br />
جاتے ہیں بلکہ ان سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارہ مل جاتا<br />
ہےتو صاحب کبھی یہ پنگا بھی لیجئے بینگن اور انڈے<br />
کچھ اسطرح پکائیے کہ بینگن بینگن نہ رہے اور انڈہ انڈہ<br />
نہ رہے بینگنڈہ بن جائےہلکی سی کالی مرچ اور نمک کے<br />
ساتھ تناول فرمائیے مزہ نہ آنے پر انڈہ الگ اور بینگن<br />
الگ پکائیے اور الگ الگ کھائیےاس دلکش تحریر سے<br />
مستفید فرمانے کے شکریہ قبول فرمائیے<br />
اسماعیل اعجاز<br />
دائیں ہاتھ کا کھیل<br />
جون<br />
2014 ,01<br />
تحریر ہم کئی بار پڑھ چکے ہیں، لیکن یکسوئی نصیب نہ<br />
ہو سکی۔ ہر بار دھیان ادھر ادھر کرنا پڑا اور ہم کچھ کہنے<br />
کے لئق نہ ہو سکے۔بہت خوب تحریر ہے جناب۔ کیا ہی<br />
بات ہے۔ بھر پور داد قبول کیجے۔ دین ایسی چیز ہے کہ اس<br />
کو حوالہ بنا کر جو چاہے کیا جا سکتا ہے۔ اس سے اشتعال<br />
پھیلنا بھی بہت اسان سا کام ہو گیا ہے۔ چند لوگ اشتعال
سچ مچ میں محسوس کرتے ہیں، باقی کی کثیر تعداد صرف<br />
مشتعل نظر ا کر ثواب حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ایسے ہی جس<br />
پہلو کی طرف اپ نے اشارہ فرمایا ہے، وہاں بھی زوجہ<br />
کے صرف حقوق ہوتے ہیں اور خاوند کے صرف فرائض۔<br />
ہمیں تو یہ بھی سمجھ نہیں اتی کہ صرف ماں کو اس قدر<br />
درجہ دے دیا جاتا ہے کہ جیسے باپ کی کوئی حیثیت ہی نہ<br />
ہو۔ حالنکہ عموماø باپ، صرف اور صرف اپنے بچوں کے<br />
لیئے، اپنی بیوی کی کئی غلط باتیں بھی برداشت کرتا رہتا<br />
ہے۔ اور عموماø کوئی اور چیز طلق سے مانع نہیں ہوتی۔<br />
لیکن بچے چونکہ اپنی ماں کے پاس زیادہ وقت گزارتے<br />
ہیں، تو ظاہر ہے ہمیشہ چندا ماموں ہی ہوتے ہیں، کبھی<br />
چندا چاچو نہیں ہوتے۔اپ نے لکھا ہےحقوق کا معاملہ ذات<br />
سے‘ ا کی طرف پھرتا ہے۔یہ بات سمجھنا، بہت مشکل<br />
کام ہے۔ اور شائید اس کے لیئے کئی تحریریں لکھنی پڑیں۔<br />
لوگوں کی سمجھ کو اس مقام تک لنا، اہلL قلم کی ذمہ دارہ<br />
ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ اپ کوشاں ہیں۔ اگر ایسی<br />
تربیتی تحریریں لوگوں کو پڑھنے کو ملیں یا ٹی وی ڈرامہ<br />
وغیرہ میں ملتی رہیں، تو لوگوں کی سمجھ بڑھ سکتی ہے۔<br />
ہمیں تو محترم اشفاق احمد کے بعد کوئی ایسا ڈرامہ نگار<br />
نہیں نظر ایا، جو ان باتوں کو اس گہرائی میں نہ صرف<br />
محسوس کرے، بلکہ لوگوں کو بھی سمجھائے۔ اج کل کے<br />
دور کی فضول اور کردار کشی سے بھرپور کہانیوں کے
ساتھ ٹکرانے کی اشد ضرورت ہے اور اپ یہ کام کر رہے<br />
ہیں۔ ہزار دعائیں جناب اپ کے لیئے۔تحریر پر بہت بہت داد<br />
جناب۔ ہزار داد<br />
وی بی جی<br />
جون<br />
ا جانے<br />
2014 ,09<br />
جناب کیا ہی بات ہے۔ بہت عمدہ تحریر ہے۔ داد داد داد ۔۔ اپ<br />
کی تحریروں کا خاصہ ہے کہ بات کو ایسے زاویوں سے<br />
گھما کر لتے ہیں کہ وہم و گمان میں نہیں ہوتا کہ یہ تان<br />
کہاں جا کر ختم ہو گی۔ اور اختتام بھی شاندار ہوتا ہے۔ یہاں<br />
بھی اپ نے جس طرح زرینہ کو تشبیہہ دی ہے، بہت ہی<br />
خوب ہے۔ عوام کی سمجھ بھی کچھ بڑھانے کی ضرورت<br />
ہے، تاکہ وہ ایسی تحریروں کا درست رخ سمجھ سکیں اور<br />
نتائج اخذ کر سکیں۔دراصل ایسی کمائی جس میں مزدوری<br />
سے زیادہ مل جائے یا بغیر مزدوری کے مل جائے ہمارے<br />
اپنے خیال کے مطابق سود ہے۔ انسان کی ارام پسندی یہی<br />
چاہتی ہے کہ کم سے کم محنت سے زیادہ سے زیادہ کمائی<br />
ہو اور کامیابی کی صورت میں انسان مذید ارام پسند ہوتا
چل جاتا ہے۔ یہی حال اس قرض پر پلے والی عوام کا ہو<br />
گیا ہے۔ قرض حکومتی خزانے میں جاتا ہے، اور حکومتی<br />
خزانے کا کوئی مالک نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اس کی<br />
حفاظت کی کوشش بھی نہیں کی جا سکتی وگرنہ یہی سننا<br />
پڑتا ہے کہ :تمہارے باپ کا ہے کیا: ۔۔ یہ کسی کے باپ کا<br />
نہیں ہوتا اور ویسا ہی اس کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے۔<br />
للچ ایسی ہی چیز ہے کہ اگر پیٹ بھرا بھی ہو تو بقول<br />
غالبگو ہاتھ کو جنبش نہیں، انکھوں میں تو دم ہےرہنے دو<br />
ابھی ساغر و مینا میرے اگےسو مذید سے مذید کی للچ<br />
کبھی جان نہیں چھوڑتی۔ اپ کی تحریریں، امید کی کرن ہیں۔<br />
جتنے لوگ پڑھیں گے اپنے کردار میں ضرور جھانک کر<br />
دیکھیں گے۔ انہیں کردار کی خرابیوں کو عوام تک پہنچانے<br />
اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔ہماری طرف سے ایک بار<br />
پھر بھرپور داد جناب ۔<br />
وی بی جی<br />
پاخانہ خور مخلوق<br />
مئی<br />
2014 ,30<br />
بہت اعلی تحریر ہے جناب، کیا ہی بات ہے۔ نازک مسئلے
کو چھیڑ دیا اپ نے۔ البتہ اپنا حقL رائے دہی ازاد جان کر<br />
اور اپ کی پرخلوص طبعیت کو دیکھتے ہوئے درخواست<br />
کریں گے کہ اس کا عنوان کچھ تبدیل کرنے کی ضرورت<br />
محسوس ہوئی ہمیں۔ ہمارا خیال ہے کہ عنوان ایسا ہونا<br />
چاہیئے کہ پڑھنے والے کی طبعیت کو مائل کرے۔دوسری<br />
طرف، اس تحریر کے لجواب ہونے میں کوئی کلم نہیں۔<br />
عوام کو ایسے مضامین پڑھنے کی اشد ضرورت ہے،<br />
شائید کسی کا ضمیر جاگے۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی صاحب<br />
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ اے خدا، تو نے میرے ہاتھ باندھ<br />
کر مجھے دریا میں پھینک دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ<br />
کپڑے گیلے نہ ہوں۔ تو جناب حمام ہے یہ تو۔ہمیں یاد پڑتا<br />
ہے، کہ بچپن میں ہم :زمانہ قبل از اسلم میں کفار کی<br />
جہالت: پر نوٹ لکھا کرتے تھے، اور جناب کیا کیا برائی نہ<br />
ان کے سر لگاتے تھے، اور خوب نمبر سمیٹا کرتے تھے۔<br />
یہاں تک کہ یہ بھی لکھ دیتے تھے کہ :قبل از اسلم، کفار<br />
کا یہ عالم تھا کہ ناک میں انگلی تک ڈالتے تھے: ۔ لیکن<br />
صاحب! اب سوچتے ہیں، کہ اسلم سے کیا سیکھا ہے<br />
مسلمانوں نے تو حیرت ہوتی ہے۔ ابھی تک دو ایسی چیزیں<br />
دریافت ہو پائی ہیں جو اسلم سے سیکھی ہیں ہم نے اور<br />
سب اس پر متفق بھی ہیں۔ ایک تو یہ کہ کسی بت کی پوجا<br />
نہیں کرتے، اور دوسری یہ کہ خنزیر نہیں کھاتے۔ اخر<br />
الزکر اگرچہ مشکوک ہے کہ یہاں تو محاورتاø نہیں بلکہ
حقیقتاø انسان انسان کو کھا جاتا ہے۔ کیا اسلم نے اتنا ہی<br />
سکھایا ہمیں؟ ہم نے غور کیا تو معلوم ہؤا کہ انسان کو امن<br />
میں رہنے کے طریقے سمجھانے والے مذاہب کی وجہ<br />
سے دنیا میں سب سے زیادہ قتل و غارت ہوئی ہے۔ مذہب<br />
کی بنیاد پر جتنا نقصان انسان نے کیا ہے، کسی اور چیز<br />
کی وجہ سے نہیں کیا۔ توبہ ہے صاحب۔خیر یہ تو تھے<br />
ہمارے کچھ بکھرے ہوئے خیالت۔ اپ کی تحریر ہماری نظر<br />
میں بہت اعلی اور عمدہ ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد<br />
قبول کیجے۔<br />
وی بی جی<br />
زیر نظر مضمون پر وی بی جی کے خیالت سے میں کلی<br />
طور پر متفق ہوں۔ عنوان کو بدلنے کی سخت ضرورت ہے۔<br />
قاری عنوان دیکھ کر اگر ٹھٹکے تو اچھا نہیں ہے۔ مضمون<br />
ہمارے معاشرے کی تصویر کی عکاسی کرتا ہے۔ آپ یقین<br />
کیجئے کہ اپنے آس پاس مسلمانوں کا حال دیکھ کر طبیعت<br />
پر مستقل انقباض رہتا ہے۔ بعض اوقات محسوس ہوتا ہے<br />
کہ اب ا س قوم کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ یہ دنیا میں<br />
خوار ہے اور خوار ہی رہے گی کیونکہ یہ اپنی اساس سے<br />
دور ہو چکی ہے۔ دنیا میں ڈیڑھ سو "اسلمی" ممالک ہیں۔<br />
افسوس کہ ان میں ایک بھی ایسا نہیں ہے جہاں ہم اور آپ
اپنی اولد کو پڑھنے لکھنے یا رہنے کے لئے بھیج سکیں۔<br />
انا ل و ان الیہ راجعون۔ میں امریکہ میں رہتا ہوں اور اس<br />
کا قائل ہوں کہ ہمارے مقابلہ میں دوسرے مذاہب کے<br />
لوگوں کا اخلق اور کردار بدرجہا بہتر اور "اسلمی" ہے۔<br />
اور اس صورت حال کا علج بھی کوئی نظر نہیں آتا۔لکھتے<br />
رہئے۔ میں کوشش کروں گا کہ یہاں آمدورفت بڑھا دوں۔<br />
باقی راوی سب چین بولتا ہے۔<br />
سرور عالم راز<br />
اس ناچیز کو بہتر انسان سمجھا اپ نے، اپ کی ذرہ !<br />
نوازی ہے۔ ہم بیچارے اوارہ قسم کے ادمی ہیں، کبھی کسی<br />
پہاڑ پر بیٹھے شہر کی ٹمٹماتی روشنیوں سے گوٹ بنا کر<br />
کسی پیراہن میں ٹانکنے میں مصروف تو کبھی رات رات<br />
بھر کسی فٹ پاتھ پر بیٹھ کر کسی کتیا کے بچے گم ہو<br />
جانے کے دکھ میں شریک۔ سو ہمارا انتظار نہ ہی کیا<br />
کیجے۔ اپ کے یاد کرنے پر محترم سرور عالم راز سرور<br />
صاحب بنفسL نفیس تشریف ل چکے ہیں۔<br />
وی بی جی<br />
ان پڑھ
2014<br />
مئی 27,<br />
ہمارے منہ کی بات چھین لی اپ نے۔ بہت ہی اچھی تحریر<br />
ہے۔ بالکل درست ہے کہ جو اچھی صفت یا ضمیر رکھتا<br />
ہے، وہ اس سے انحراف کر ہی نہیں سکتا۔ اور ہمارا خیال<br />
ہے کہ یہ بچپن میں والدین یا ماحول سے انسان سیکھتا<br />
ہے۔ اگر اس کی تعلیم اس کے دل میں برائی کی نفرت ڈال<br />
دے تو زندگی بھر اس سے برا کام سرزد نہیں ہوتا۔ ہمارے<br />
نذدیک اس میں ان چھوٹی چھوٹی کہانیوں یا حکایات کی<br />
بھی بہت اہمیت ہے، جو دادیاں بچوں کو سناتی ہیں۔ ہمیں<br />
یاد ہے کہ ہماری دادی ہمیں ایسی کئی حکایات سناتی تھیں،<br />
اور کئی اس قدر جذباتی ہوتی تھیں کہ رونا ا جاتا تھا۔ ان<br />
کہانیوں میں برا کبھی ہیرو نہیں ہو سکتا تھا۔ ہمیشہ اچھائی<br />
کی جیت ہوتی تھی۔ علوہ ازیں، ایسے حساس اور سوچنے<br />
پر مجبور کر دینے والے موضوعات ہوتے تھے کہ ننھی<br />
سی عمر میں ہی سوچنے اور باتوں کو سمجھنے کی طرف<br />
رجحان رہا۔ جذباتی ہونے کے نقصانات سے اگہی ہوئی،<br />
اور ہر معاملے کو انصاف کے ترازو میں تولنا ا گیا۔ سچ<br />
پوچھیں تو ہم نے کچھ بار بھرپور کوشش کی کہ رشوت<br />
لے لیں، لیکن اس ذات پاک کی قسم، ہم :اسامی: سے انکھ<br />
نہ مل سکے۔ اپنے اپ سے ایسی گھن اتی تھی، کہ ایک
لفظ بھی نہ کہہ سکے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمیں یہ<br />
احساس نہ تھا کہ ا ناراض ہو گا، ہمیں مسئلہ یہ پیش تھا<br />
کہ غیرت اور انا اجازت نہ دیتی تھی۔ ہم اپنی کہانی لے کر<br />
بیٹھ گئے۔کہنا یہی چاہتے تھے، کہ تبھی ہماری خواہش رہی<br />
ہے کہ ایسی چیزوں کو تعلیم کا حصہ ہونا چاہیئے جو<br />
کردار سازی کریں۔ ہمارے بچوں کو رٹے لگانے کی کوئی<br />
ضرورت نہیں ہے۔ تمام علوم اس کے محتاج ہیں۔ جس میں<br />
کردار نہیں اس کی کوئی سائنسدانی کسی کام کی نہیں۔ اور<br />
بقول اپ کی اس تحریر کے ہی، حکومتیں کچھ نہیں کر<br />
سکتیں، سب کچھ کرنے والی عوام ہی ہے۔ حکومت کو<br />
کوسنے وال سبزی فروش خود نگاہ بچا کر گندے ٹماٹر<br />
بیچتا ہے۔ لوگ گندم نہیں اگائیں گے، تو اٹا مہنگا ہوگا،<br />
حکومت روٹی پکا کہ نہ کبھی کسی کو دے سکی ہے، نہ<br />
کبھی دے سکے گی۔اس تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد<br />
قبول کیجے۔۔۔ ہمیں بہت پسند ائی ہے اپ کی تحریر۔<br />
وی بی جی<br />
لروا اور انڈے بچے<br />
مئی<br />
2014 ,21
پڑھ تو ہم فوراø ہی لیتے ہیں، لیکن سمجھنے اور پھر کچھ<br />
کہنے کے لئق ہونے میں وقت لگ جاتا ہے۔ اور سچ<br />
پوچھیے تو اس تحریر کے آخر میں جس طرح اس کا<br />
اختتام ہوتا ہے، کافی سوچ بچار کرنی پڑتی ہے، کہ لروے<br />
اور انڈے بچے سے مراد کیا ہے۔ برائی کے خلف تو کہانی<br />
کا ہیرہ نکل ہی تھا، اور انہیں لرووں کا خاتمہ چاہتا تھا،<br />
پھر آخر یہ کیا کہانی ہوئی۔کہانی لکھنے میں تو ویسے آپ<br />
کا جواب نہیں۔ اس میں تو پیچیدہ صورتیں بھی نظر آئیں،<br />
جہاں لکھنے وال راستہ بھٹک کر کسی اور سمت نکل<br />
سکتا تھا، لیکن بہت خوبصورتی سے آپ نے اسے اپنے<br />
مقصد کے محور میں رکھا ہے۔ ہم جہاں تک سمجھ سکے<br />
ہیں وہ یہی ہے کہ برائی انسان خود ہی ہے، اور اسی کا<br />
خاتمہ برائی کو ختم کر سکتا ہے۔ شیطان کی غیر موجودگی<br />
کی مثال بھی خوب دی آپ نے کہ اس کی غیر موجودگی<br />
میں کس حد تک برائی بڑھ جاتی ہے۔ایسی تحریروں کی<br />
جگہ ہم تو سمجھتے ہیں، کہ نصابی کتابوں میں ہونی<br />
چاہیئے، جہاں کردار سازی کی بہت ضرورت ہے۔ اچھے<br />
بھلے پڑھے لکھے لوگ جتنا نقصان پہنچا رہے ہیں، ہم<br />
نہیں سمجھتے کہ ان پڑھ اتنا نقصان پہنچا بھی سکتے ہیں۔<br />
پڑھ لکھ کر صرف تعلیمی اسناد حاصل ہوتی ہیں، اور اس<br />
کے بعد بھی ایسی حرکتیں کرتے ہیں، کہ شرم نام کی چیز<br />
پاس نہیں پھٹکتی۔ہماری دعا ہے کہ آپ کی کوششیں رنگ
لئیں۔ ہماری طرف سے ایک بار پھر بھرپور داد قبول<br />
کیجے۔<br />
وی بی جی<br />
سچائی کی زمین<br />
مئی<br />
2014 ,17<br />
جنب بہت عمدہ تحریر ہے۔ اپ نے کہانی کو نیا رخ دیا ہے<br />
اور کیا ہی خوب دیا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ قدرت کا نظام<br />
اپنے اپ کو خود ہی برقرار رکھتا ہے، لیکن یہ بات بھی<br />
بجا ہے کہ انسان اس میں بہت بگاڑ پیدا کرنے کے درپے<br />
ہے۔ اگرچہ اس بات کا یہاں تذکرہ کچھ ضرری نہیں لیکن<br />
ہمارا طریقہ کچھ ایسے ہے کہ قدرتی نظام میں کم سے کم<br />
دخل اندازی کرتے ہیں۔ لوگ بھاگ کر بلی کے منہ سے<br />
چڑیا کا بچہ چھین لیتے ہیں، جبکہ ہم صرف خاموشی اور<br />
خالی الذہن ہو کر دیکھتے رہتے ہیں۔ اگرچہ اس سے<br />
ہمارے اندر بہت حد تک سفاکی پیدا کر دی ہے، لیکن ہم<br />
نے قدرتی نظام کو اس قدر سفاک پایا ہے، کہ بیان سے<br />
باہر ہے۔ جس نظام میں ایک کی موت دوسرے کی زندگی<br />
ہو، اس کا علج ہمارے پاس تو ہو نہیں سکتا۔ کئی بار خود
کو سمجھاتے ہیں، لیکن اکثر اپنی باتوں میں اتے نہیں ہیں<br />
ہم۔ دخل اندازی صرف اس وقت روا جانتے ہیں، جب کسی<br />
کی موت کسی کی زندگی نہ ہو۔تحریر جان دار ہے، سچائی<br />
اور اچھائی کا ساتھ دینے کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ ہماری<br />
طرف سے ایک بار پھر داد قبول کیجے۔<br />
وی بی جی<br />
ابھی وہ زندہ تھا<br />
مئی<br />
2014 ,16<br />
واہ واہ واہ جناب، کیا ہی بات ہے۔ ہمیں تو ایسا لگا کہ<br />
ہمارے منہ کی بات ہی چھین لی ہو اپ نے۔ بے شک اپ کو<br />
بات بیان کرنے کا فن اتا ہے۔ جن الفاظ میں اپ نے ان تلخ<br />
حقیقتوں کو بیان کیا ہے وہ لئقL صد تحسین ہیں۔ ہماری<br />
طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ یہ وہ حقیقتیں ہیں جو<br />
تمام لوگ جانتے اور سمجھتے ہیں، لیکن انہیں زبان پر<br />
لتے ہوئے شرماتے ہیں۔ حالنکہ وہ حمام والی ضربالمثل<br />
خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں۔اپ نے کسی ٹوپی سلر کا<br />
ذکر بھی کیا ہے، اور خوب کیا ہے۔ اب اپ کا کس طرف<br />
اشارہ ہے یہ کوئی سمجھے نہ سمجھے لیکن حقیقت اپنی
جگہ ٹھوس حقیقت ہی ہوتی ہے۔تحریر زبردست ہے اور<br />
طنز جس انداز میں کیا گیا ہے، ہمیں یقین ہے کہ کئی<br />
لوگوں کا ضمیر جگا سکتی ہے۔ اس تحریر پر ہم ذیادہ اس<br />
لیئے بھی نہیں لکھ سکتے کہ اپ نے اس میں ہمارے<br />
کہنے والی ہر بات ہم سے کہیں بہتر انداز میں کہہ دی ہے۔<br />
ہماری طرف سے بھرپور داد<br />
وی بی جی<br />
مارچ<br />
حللہ<br />
2014<br />
,11<br />
ڈاکٹر صاحب آپ کی تحریریں بفسL نفیس بولتی ہیں اپنے<br />
پاس سے گزرنے والوں کو مخاطب کر کے کہتی ہیں کہ آؤ<br />
ہمیں پڑھو ہم سے کچھ سیکھو کچھ اخذ کرو ، یہ دل کو<br />
چھو لینے والی تحریر جو حقیقت سے قریب ترین معاشرے<br />
سے جڑے کرداروں کو بے نقاب کرتی ہوئی بہت سے<br />
سوال بہت سے باتیں ذہن میں پیدا کرتی ہوئی اپنے پڑھنے<br />
والے کو مجبور کر رہی ہے ۔ میرے ذہن میں بھی کچھ<br />
باتیں آئیں جنکا اظہارL خیال ضروری سمجھتا ہونحلل و<br />
حرام کی پابندی و شرائط کب کہاں اور کس لئے کی بنیاد پر
ان کا نفاذ حکمیہ طور پر خالقL کائینات کا مرتªب کردہ<br />
ہےنکاح فرض ہے ، نکاح واجب ہے ، نکاح سنªت ہے ،<br />
نکاح مستحب ہے یہ وہ شکلیں ہیں جنہیں ہم جانتے ہیں<br />
مگر نکاح حرام ہے جی نکاح حرام ہے محرم کے ساتھ<br />
مگر نکاح نامحرم کہ جس سے نکاح حلل ہے حرام بھی<br />
ہے وہ اس صورت میں کہ جب کوئی ایسا شخص جو نکاح<br />
تو کرلے مگر حقوقL ذوجیت ادا کرنے کی صلحیت سے<br />
محروم ہو نامرد ہو تو ایسے شخص کا نکاح کہ جس کی<br />
منکوحہ اپنی جنسی ضرورت اور خواہش کو کسی اور<br />
ذرائع سے پورا کرے وہ بھی حرام ہےطلق دینا حلل ہے<br />
مرد کے لئے مگر تمام حلل کاموں میں یہ وہ حلل کام ہے<br />
جسے ا باری تعالی نے ناپسند فرمایا ہے ، عورت کو<br />
طلق دینے کا حق حاصل نہیں ہے ہاں خلع لے سکتی ہے ،<br />
اگر عورت کو طلق کا اختیار دے دیا جاتا تو دن بھر میں<br />
بیسیوں بار طلق دے دیتی اپنے مرد کو ، مگر مرد اس<br />
معاملے میں صابر ہے اور بہت ہمت و برداشت وال ہوتا<br />
ہےشرعی طریقہ یہ ھے کہ عورت تین طلقوں کے بعد اگر<br />
دوبارہ پہلے شوھر سے نکاح کرنا چاھتی ھے تو وہ کسی<br />
دوسرے مرد سے نکاح کرے بغیر اس نیت کے کہ وہ پہلے<br />
کے لیے حلل ھونا چاھتی ھے، پھر وہ شوھر اسے اپنی<br />
مرضی سے طلق دے،مگر اس نیت سے نہیں کہ وہ پہلے<br />
کے لیے حلل ھو جائے، یا پھر وہ مرجائے،اس طرح
عورت پہلے شوھر سے نکاح کرسکتی ھے!!! لیکن جو<br />
حللہ کا طریقہ ھمارے معاشرےمیں رائج ھو<br />
چکاھے،جوکسی بھی صاحب علم سے مخفی نہیں ھے{اس<br />
قسم کے لوگوں پر نبی صلی ا علیہ وسلم نے لعنت کی<br />
ھے،یعنی حللہ کرنے وال اور جس کےلیے کیاجائے، آپ<br />
نےاسے کرائے کا سانڈ قرار دیا ھے}یہ ھےاندھی تقلید<br />
جس میں یہود ونصاری مبتلء تھےیعنی بغیر شرعی دلیل<br />
کےآنکھیں بند کرکےکسی چیز پر عمل کرنا۔سنن<br />
ابوداودكتاب النكاحنکاح کے احکام و مسائلباب في<br />
التحلیلباب: نکاح حللہ کا بیان۔حدیث نمبر : حدثنا<br />
أحمد بن یونس، حدثنا زھیر، حدثني إسماعیل، عن عامر،<br />
عن الحارث، عن علي، رضى ا عنه - قال إسماعیل وأراہ<br />
قد رفعه إلى النبي صلى ا علیه وسلم - أن النبي صلى ا<br />
علیه وسلم قال "لعن ا المحلل والمحلل له ".سیدنا علی<br />
رضی ا عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی ا علیہ<br />
وسلم نے فرمایا ”حللہ کرنے وال اور جس کے لیے کیا<br />
گیا ہے (دونوں) ملعون ہیں۔"قال الشیخ اللباني: صحیح<br />
اسماعیل اعجاز<br />
2076<br />
دسمبر<br />
بازگشت<br />
2013 ,23
بہت عمدہ ۔ بہت لطف آیا ، سلمت رہیں آپ شکریہ<br />
ضیا بلوچ<br />
دسمبر<br />
فقیر بابا<br />
2013 ,24<br />
آپ کا انشائیہ بہت دلچسپ ہے۔ آپ نے جس تنہائی کی<br />
کیفیت کا ذکر کیا ہے اس سے آج ساری دنیا آشنا ہے۔<br />
انسان اب انسان کونہیں پہچانتا ہےجب تک کہ اس کی کوئی<br />
غرض کسی اور سے نہ اٹکی ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے<br />
کہ پچھلے زمانے میں سب لوگ بے غرض ہوا کرتے تھے<br />
اور اپنی طبیعت سے سب فرشتہ تھے۔ ایسا تو کبھی ہوا ہی<br />
نہیں ہے۔ اورنہ کبھی ہو گا۔ ہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ اب<br />
خلوص، انسانیت اور بھائی چارہ پہلے سے کم ہو گیا ہے۔<br />
اس کی بہت سی وجوہ ہیں جن سے کم وبیش ہم سب واقف<br />
ہیں سو تفصیل ضروری نہیں ہے۔ یادش بخیر میرے بچپن<br />
میں آس پاس کے گھروں میں، عزیزوں دوستوں میں، گھر<br />
کی مائوں ،بہوئوں اور بڑی بوڑھیوں میں ملنا جلنا، آنا<br />
جانا، بے مقصد آ کر بیٹھ جانا اور ایک دوسرے کے دکھ
درد میں شریک ہونا اتنا عام تھا کہ آج کی تنہائی کاٹ<br />
کھانے کو دوڑتی ہے۔ یہ عالم تھا کہ محلہ کا ہر بزرگ (اور<br />
غیر بزرگ!) اپنے آپ کو دوسروں کی اولد کا ولی اور<br />
:ٹھیکہ دار: سمجھتا تھا۔ ایک واقعہ سناتا ہوں جو اس<br />
کیفہت کو خوب بیان کرتا ہے۔ایک دن سڑک پر سگریٹ کا<br />
ادھا سلگتا ہوا دکھائی دیا۔ بچہ تو تھا ہی، سوچاکہ اس میں<br />
کیا مزا ہوتا ہے جو لوگ منھ سے لگائے پھرتے ہیں۔<br />
چنانچہ اٹھا کر ڈرتے ڈرتے ایک کش لیا اور کھانسی کے<br />
دھسکے سے کھوں کھوں کرتا ہوا اسے پھینک دیا۔ لیکن<br />
محلہ کے ایک بزرگ نے دیکھ لیا تھا۔ انہوں نے پاس آکر<br />
ایک ڈانٹ پلئی اور ایک ہلکا سا ہاتھ بھی رسید کیا اور<br />
پھر ہاتھ پکڑ کر ابا جان کی خدمت میں لے گئے کہ آپ کا<br />
بچہ سڑک پر سگرٹ پی رہا تھا۔ ابا جان مارتے نہیں تھے<br />
لیکن صاحب! ان کی چشم نمائی مار سے زیادہ تھی۔ انھوں<br />
نے الگ ڈانٹ نما آنکھ دکھائی اور بزرگ کا شکریہ ادا کیا۔<br />
سچ مانئے کہ وہ دن اور آج کا دن میں نے پھر سگرٹ<br />
چکھی ہی نہیں۔ یہ وہ سماجی ماحول تھا جو بچوں کو بہت<br />
سی اچھی باتیں سکھا دیا کرتا تھا۔ اب موجود نہیں ہے اور<br />
ہماری تنہائی میں اضافہ کا باعث ہے۔دوسری طرح کی<br />
تنہائی وہ ہے جس کا آج کل میں شکارہوں۔ امریکہ میں<br />
رہتا ہوں جہاں دوستوں کا کال ہے۔ سنا ہے کہ وطن عزیز<br />
میں بھی اب یہی معمول ہے۔ پھر طرفہ تماشہ یہ کہ ایسے
چھوٹے قصبے میں رہتا ہوں جہاں بل مبالغہ ایک شخص<br />
بھی ایسا نہیں ہے جس سے میں بات کر سکوں، یعنی<br />
اپنے ذوق کی بات۔ بیکار باتیں کرنے کو یا سیاست اور<br />
مذہبی گفتگو کے لئے تو شاید کوئی مل جائے لیکن یہ میرا<br />
مسلک نہیں سو تن تنہا دن گزارتا ہوں۔ گویا زندگی قید<br />
تنہائی ہو کر رہ گئی ہے۔آپ کی تحریر سے مستفید ہوا۔ ا<br />
آپ کو خوش رکھے۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔<br />
سرور عالم راز<br />
aap kaa mazmoon :Faqeer Baba: paRh<br />
kar bohat khushee huwee. aap ke<br />
mazaameen maiN shauq se paRhtaa<br />
hooN kyoN keh in meN aap kee zindagee<br />
ke tajribaat hote haiN aur in se bohat<br />
kuchh seekhaa jaa saktaa hai. Faqeer<br />
Baba bhee aisee hee daastaan hai. aap<br />
kaa qalam bohat shiguftah hai aur aaj kal<br />
aisee tehreer kam dekhne meN aatee hai.<br />
aap se darKhwaast hai keh isee tarah<br />
ham logoN ko nawaazte rahiYe.
Mushir Shamsi<br />
آپ کا یہ پر مغز انشائیہ نظر نواز ہوا استفادہ کرتے ہوئے<br />
کچھ ذہن میں آیا سوچا پاگل کو مزید چھیڑا جائے میرا<br />
مطلب سمجھا جائے پا گل کے ایک معانی ہوتے ہیں جسے<br />
آپ نے فرمایا گل پانا یعنی بات کو سمجھ جانا بالکل اسی<br />
طرح چوں کہ گل پنجابی کا لفظ ہے اسے اسی معانی میں<br />
لیتے ہوئے گل پائیے کہ گل پانا گلے میں ڈالنے کی<br />
اصطلح میں بھی لیا جاسکتا ہے اوراگر اردو کو شاعرانہ<br />
انداز میں لیا جائے تو گل پا گئے یعنی پاؤں گل گئے ان<br />
پاؤں گل گئے کو مزید بہتر بنانے کے لئے اسے اسطرح<br />
لیجئے کہ پائے گل گئے مگر پائے بھی دو طرح کے ہوتے<br />
ہیں بھینس کے بکری کے گائے کے بھیڑ کے ہمارے ہاں<br />
لہور میں پھجے کے مگر ساتھ سری بھی لگائیے پھجے<br />
کے سری پائے اور دوسری قسم کرسی کے میز کے چار<br />
پائی کے بھی ہوتے ہیں یہ دونوں اپنی اپنی شکل میں گل<br />
جاتے ہیں پہلی قسم کے پائے گل جانے سے کرسی پر جم<br />
کر بیٹھ کر کھائے جاتے ہیں مگر دوسری صورت میں<br />
کرسی دھڑام سے گر جاتی ہے کرسی کے پائے گل جانے<br />
کی وجہ سے اب اس گل پانے میں مزہ بھی ہے اور تکلیف<br />
بھی ہے یہ تو دراومدار کیفیت اور حالت کا ہے کہ آپ کن
حالت اور کس کیفیت سے گزر رہے ہیں یہی سوچ کر میں<br />
چل آیا کہ پاگل کو پاگل کر دوں<br />
اسماعیل اعجاز<br />
جناب عالی محبت ہے آپ کے کہ مجھ پاگل کی گل آپ پا<br />
گئے اسی گل کو مزید پاگل کرنے کے لئے سوچا ہندی میں<br />
کچھ دان کردوں مگر اس بات کا ضرور دھیان رکھوں کے<br />
پاگل سے گل زبر کے ساتھ نکال کر گل پر پیش لگا کر<br />
گلدان کر دوں تو پھر پا کو کہاں لے جاؤں اس کے لئے دان<br />
سے کچھ دان لے کر پا سے پائے اور پائے میں دان مل کر<br />
پائیدان کردوں ،مگر پاگل کو میں اس بات کا پائے بند<br />
کردوں کہ پاگل پاگل ہوتا ہے اسی لئے پا کے لئے پاجامہ<br />
بنایا گیا مگر ہمارے شاعر بھائی کچھ اور ہی سوچتے ہیں<br />
بقول ان کےسنا ہے کہ انکی کمر ہی نہیں ہےنجانے پجمیا<br />
کہاں باندھتے ہیں<br />
اسماعیل اعجاز<br />
کرم نوازی ہے سرکار کہ آپ نے مجھے فنکار کہا حالں<br />
کہ میں ایک گمنام قلمکار ہوں ، ویسے ہمارے ہاں فنکار<br />
بھی دو طرح کے ہوتے ہیں ایک فن کار اور دوسرے فن
کار آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ دونوں تو ایک ہی ہیں<br />
یہی تو مسئلہ ہے کہ فن کار اور فن کار دونوں الگ الگ<br />
ہیں ایک فن کار ہوتے ہیں اور دوسرے فن کار ہوتے اس<br />
بات کا اندازہ خوب لگایا جا سکتا ہے جو ان کی کلہ سے<br />
جڑا ہوتا ہے فرق سمجھنے کا ہے کسی ماہرL فن کو آپ فن<br />
کار کہہ سکتے ہیں جس کا کام بولتا ہے جس کا ہنر بولتا<br />
ہے مگر ایسے بھی لوگ مجھ جیسے ہیں جو کچھ نہیں<br />
جانتے مگر باتیں خوب بناتے ہیں انہیں بھی فن کار کہا<br />
جاتا ہےکبھی کبھی لہجہ وہی رہتا ہے مگر معانی بدل جاتے<br />
ہیں جیسے کہ ایک صاحب فرمانے لگےماں کسم ایسا<br />
بھ⁄ینکر اجگر دیکھا ایسی بری طرح فن کار رL یا تھا کی<br />
میرے تو دماگ کے طوطے اڑ گئے ، آج کل طوطے پکڑ<br />
رL یا ہوں ۔۔۔۔۔۔<br />
اسماعیل اعجاز<br />
فروری<br />
بیوہ طواءف<br />
2014 ,08<br />
اپ کا یہ چھوٹا سا افسانہ پڑھا۔ بہت اچھا لگا۔ اپ کی<br />
تحریریں ماشاا بہت جاندار ہوتی ہیں۔ اور اپ کے
احساسات کی وسعت کو سموئے ہوتی ہیں۔ زندگی کو اس<br />
قدر قریب سے دیکھنے اور محسوس کرنے کا فن اپ کی<br />
تحریروں سے واضح ہے۔ا پاک اپ کو ہمیشہ خوش و<br />
خرم رکھے۔<br />
وی بی جی<br />
مارچ<br />
بڑا آدمی<br />
2014 ,08<br />
یہ تحریر واقعی میں بہت کرب رکھتی ہے۔ اور پھر اپ کے<br />
لکھنے کے انداز نے اسے بیش قیمت بنا دیا ہے۔ قاری کو<br />
ایسے جہان کی سیر کروا کر نتیجہ کی طرف لتی ہے اثر<br />
روح تک اتر جاتا ہے۔ پھر جس قدر اپ نے حالت و واقعات<br />
لکھے ہیں اپ کے تجزیئے کی طاقت اور احساس کی<br />
وسعت اس سے ظاہر ہے کہ جیسے معلوم نہیں کتنا ہی<br />
قریب سے اپ نے یہ سب دیکھا ہے۔ہمیں وقت کی کمی<br />
رہتی ہے، لیکن اپ کے مضامین اور افسانے پڑھنے کی<br />
کوشش کرتے ہیں۔ اور بہت پسند اتا ہے ہمیں اپ کا لکھا۔<br />
وی بی جی
کریمو دو نمبری<br />
مئی<br />
2014 ,12<br />
معذرت چاہتے ہیں کہ دیر سے حاضری ہوئی۔ بہت<br />
خوبصورت تحریر ہے، اور اپ کی ان بہترین تحریروں میں<br />
سے ایک ہے جن میں اپ کی اس صلحیت کا بھی پتہ چلتا<br />
ہے کہ اپ ڈرامہ بھی بہت خوب لکھ سکتے ہیں۔ کہانی<br />
لکھنا جتنا اسان دکھائی دیتا ہے اتنا اسان ہوتا نہیں۔ اپ کی<br />
خصوصیات ہیں کہ اپ کا قلم کسی دائرے میں مقید نہیں<br />
ہے۔یہ صدیوں سے روایت چلی اتی ہے کہ برا کا انجام برا<br />
ہوتا ہے، کئی تحریرں لکھی گئی ہیں، جن سے یہ تعلیم دی<br />
جاتی ہے۔ لیکن ذاتی طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا<br />
ہوتا نہیں ہے۔ ہم اوائل میں بچوں کو یہ سبق سکھانے کی<br />
کوشش کرتے ہیں، لیکن بڑے ہوتے ہی وہ تجربات سے<br />
سیکھ ہی جاتے ہیں کہ نیکی کا انجام اچھا تو ہوتا ہے لیکن<br />
صرف اس کے حق میں جس کے ساتھ نیکی کی جاتی ہے۔<br />
ہم مثالیں ڈھونڈتے ہیں ایسے لوگوں کی جن کا انجام برا<br />
ہؤا ہو، اور ان لوگوں کو بھول جاتے ہیں، جو نیکی کی<br />
بھینٹ چڑھ جاتے ہیں، یا وہ جو برائی کر کہ تا حیات<br />
کامیاب ہی رہتے ہیں۔ ہم خود بھی یہی کرتے ہیں، کسی بات
کو قدرت کی طرف سے ازمائیش کے زمرے میں ڈال دیتے<br />
ہیں، کسی نیک کے ساتھ برا ہو تو اسے اس کی کسی<br />
نامعلوم برائی کا نتیجہ قرار دے لیتے ہیں، اگر کوئی برا<br />
دنیا میں کامیاب رہے تو اس کی سزا اخرت پر موقوف کر<br />
دیتے ہیں۔ کیا کیجے، ا کے معاملے میں بھی جھوٹ کے<br />
بغیر چارہ نہیں۔اگر ہماری کسی بات سے دل ازاری ہوئی ہو<br />
تو معذرت چاہتے ہیں۔ لیکن جو حال سو حاضر ہے۔تحریر<br />
پر ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ<br />
وی بی جی<br />
مئی<br />
معالجہ<br />
2014<br />
,13<br />
ہمیشہ کی طرح بہت خوبصورت تحریر ہے۔ ایک عام سی<br />
کہانی سے اپ نے فکر امیز نتائج اخذ کیئے ہیں، بلکہ<br />
سوچ کو اس ڈگر تک پہنچا دیا ہے کہ انسان خود سوچ<br />
سکے ان باتوں پر۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول<br />
کیجے۔جیسے کہ ریت ٹھہری ہے کہ ہم اپنی سی رائے<br />
دیتے رہتے ہیں۔ خیالت ہمارے بیکار سہی لیکن اپ کو<br />
اندازہ ہو جاتا ہو گا کہ کچھ لوگ ایسا بھی سوچتے ہیں۔ تو
اسی حوالے سے ہم اس تحریر کے اخری پیرائے کی طرف<br />
اتے ہیں۔<br />
اقتباس<br />
بایو کیمک اصول کے مطابق‘ منفی کی درستی کے لیے‘<br />
منفی رستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔ منفی کا‘ اس کے سوا‘<br />
کوئی اور معالجہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔<br />
ہمارا تجزیہ اس بارے یہ کہتا ہے کہ منفی کا علج منفی<br />
سے ممکن ضرور ہے لیکن بہت ہی کٹھن ہے۔ منفی اور<br />
منفی اپس میں مل کر بھی مثبت نہیں بن سکتے، اور جیسا<br />
کہ ریاضی کا اصول ہے انہیں اپس میں :ضربیں: کھانی<br />
پڑتی ہیں اور نتیجہ تب ہی مثبت نکلتا ہے۔ منفی کو شکست<br />
صرف مثبت ہی سے ہوتی ہے، لیکن اس کی شرطL اول<br />
مثبت کا مکمل مثبت ہونا ہے۔ وگرنہ شکست لزم ہے۔ ہمیں<br />
یاد نہیں پڑتا کہ یہ کونسے مرزا صاحب تھے، لیکن ان<br />
سے کسی نے کہا تھا کہ صاحب! اپ کے بارے میں فلں<br />
صاحب نے بہت سخت باتیں لکھی ہیں اپ کیوں خاموش<br />
ہیں، اپ بھی لکھیئے کچھ، تو انہوں نے فرمایا تھا کہ<br />
:بھائی! اگر گدھا تمہیں لت مارے تو تم کیا کرو گے:ہم نے<br />
اس پر کافی غور کیا۔ لت کا جواب لت سے دینا درست<br />
نہیں ہو گا کیونکہ لت مارنا گدھے کی خصلت ہے، انسان<br />
لتوں کے مقابلہ میں اس سے جیت نہیں سکتا۔ ایسے ہی
منفی کا مقابلہ کرنے کے لیئے منفی ہو جانا بہت مشکل<br />
ہے۔ ہٹلر کی اپ نے مثال دی ہے۔ اگر اس کو لکھوں لوگوں<br />
کے مرنے پر رحم نہ ا جاتا تو دنیا کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔<br />
اخر اس کے اندر کی اچھائی کہیں سے ابھر ہی ائی، اور<br />
شکست کھانا پڑی۔ ایک مثبت کا منفی کے مقبالے میں<br />
مکمل منفی ہو جانا بہت مشکل ہے۔ اس کی ایک اور مثال<br />
ہمارے دیرینہ دوست مرحوم شیخ سعدی کی ایک حکایت<br />
ہے کہایک بار ایک شخص کو پاؤں میں کتے نے کاٹ لیا۔<br />
بیچارہ رات بھر تکلیف میں چیختا رہا۔ اس کی معصوم اور<br />
ننھی سی بیٹی نے اس سے کہا کہ بابا اگر کتے نے اپ کو<br />
کاٹا تھا تو اپ بھی اسے کاٹ لیتے۔وہ اس تکلیف میں بھی<br />
ہنس پڑا اور کہا کہ بیٹی۔ میں یہ تو برداشت کر لوں گا کہ<br />
میرے سر میں تلوار گھس جائے لیکن یہ مجھ سے نہ ہوتا<br />
کہ کتے کے غلیظ پاؤں میں میرے دانت گھستے۔سو صاحب<br />
مثبت کے لیئے یہ بہت مشکل یا تقریباø ناممکن ہوتا ہے کہ<br />
وہ منفی کا مقابلہ منفی ہو کر کر سکے۔ ہاں، اسے شکل<br />
بدلنی پڑتی ہے اور اس بدلی شکل کو منفی نہیں کہا جاتا،<br />
بلکہ مثبت کہا جاتا ہے۔ اگر شکل نہ بدلے تو منفی اور<br />
منفی ایک صورت ہو جاتے ہیں۔قسمت بڑی مزاحیہ ہوتی<br />
ہے صاحب! کہانی کے ہیرو کے دادا نے بھی اپنی سی<br />
کوشش کی تھی۔ کیا جانئیے، کہ اس کی کوشش کامیاب ہو<br />
کر بھی ناکام ہو جائے اور حال ویسا ہی ہو جیسا کہ اس
کے دادا جان کا ہؤا۔ پھر بھی ہم ان کو یہی مشورہ دیں گے<br />
کہ چاہے منفی ہی کیوں نہ ہونا پڑے، انہیں اپنی بات<br />
منوانی چاہیئے۔ کل کو اس کی سزا بھگتتے ہوئے یہ<br />
احساس تو نہ ہوگا کہ کسی اور کے کیے کی سزا بھگتنی<br />
پڑی۔ ایک اور مشورہ بھی ہے کہ ایک بار منفی ہونے کے<br />
بعد کامیابی اسی میں ہے کہ ہمیشہ منفی رہا جائے کیونکہ<br />
قدرت، مثبت کی طرف لوٹنے والے کو کبھی معاف نہیں<br />
کرتی۔ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ۔<br />
وی بی جی<br />
میں ابھی اسلم ہی تھا<br />
مئی<br />
2014 ,09<br />
واہ واہ واہ واہ ۔۔ جناب کیا ہی بات ہے۔ واہکہاں کہاں نظر<br />
ہے جناب اپ کی، یہ حلج اور حمادی کے فتوے کو کہاں<br />
لے ائے اپ۔ اپ بات کہاں سے شروع کرتے ہیں اور کیسے<br />
اپنا مقصد بیان کر جاتے ہیں اس کے تو ہم قائل ہیں ہی۔<br />
لیکن یہ جو لکھا ہے نا اپ نے کہ:۔
میرے اندر بھی‘ ارتعاش پیدا ہوا تھا‘ لیکن میں رقص نہ:<br />
کر سکا‘ میں اپنے آپے میں تھا۔ میں ابھی اسلم ہی تھا‘<br />
ریحانہ نہیں ہوا تھا ۔اگر ریحانہ ہو گیا ہوتا‘ تو دنیا کی<br />
پرواہ کیے بغیر‘ ملنگ بابے کے ساتھ رقص کر رہا ہوتا۔:<br />
کمال ہے جناب۔ ڈھیروں داد قبول کیجے۔سچ ہے، اگر<br />
منصور بھی ریحانہ نہ ہو گیا ہوتا تو حمادی کا بھی کہیں<br />
نام و نشان نہ ہوتا۔ یہ بھی درست ہے کہ منصور بھی اسی<br />
ملنگ بابے کی طرح اپے میں نہ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ<br />
احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی اپنی کتاب میں<br />
لکھتے ہیں کہ منصور کو اخری وقت پر پتہ چل گیا تھا کہ<br />
وہ بھی :اسلم ہی تھا، ریحانہ نہیں ہؤا تھا اور نہ ہو سکتا<br />
تھا: اور یہ خود کو ریحانہ سمجھنے سے اوپر کا درجہ<br />
تھا۔۔ہماری طرف سے اس خوبصورت تحریر پر ایک بار<br />
پھر بھرپور داد جناب۔<br />
وی بی جی<br />
اپ کا علمی مراسلہ پڑھا اور خوشی ہوئی کچھ تاریخی پ Lس<br />
منظر جان کر اس کے لیئے شکریہ قبول کیجے۔اپ جس<br />
قدر علم رکھتے ہیں اور اپ کا جس قدر مطالعہ ہے اس میں<br />
کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ ہم اس بارے میں جو خیال<br />
رکھتے ہیں وہ تھوڑا سا بیان کر دیتے ہیں، کہ اپ کا وقت
بھی نہ ذائع ہو اور خیال بھی اپ تک پہنچ جائے۔اس پر<br />
غور کریں تو معاملہ :وحدت الوجود: اور :وحدت الشہود:<br />
کے نظریات کی طرف چل جاتا ہے۔ ہمیں وحدت الوجود کے<br />
قائل صوفیا کرام کی اس قدر بڑی تعداد ملتی ہے کہ بیان<br />
سے باہر ہے۔ اپ جانتے ہی ہونگے لیکن بات کے تواتر<br />
کے لیئے تھوڑا سا بیان کر دیتے ہیں کہ :وحدت الوجود: کا<br />
نظریہ یعنی "ایک ہو جانا" یعنی ا تعالی کی ہستی میں گم<br />
ہو جانا۔ ۔اور :وحدت الشہود: سے مراد :ایک دیکھنا ہے:<br />
یعنی چاروں طرف :تو ہی تو: ہے وال معاملہ ہو جاتا ہے ۔<br />
سالک ہر چیز میں جلوہ باری تعال ی دیکھتا ہے۔حضرت امام<br />
غزالی اور اس کے بعد کے کئی صوفیا نے جو سالک کے<br />
لیئے منازل بیان کی ہیں یا :طریقت: بیان کی ہے اس میں<br />
انسان خود کو ہر نفسانی خواہش سے پاک کر کہ جب اس<br />
راہ چلتا ہے تو وہ ذکر کے دوران ایک بہت بڑا منبع نور<br />
دیکھتا ہے، اور خود کو اہستہ اہستہ اس میں جذب ہوتا<br />
محسوس کرتا ہے۔ اخر کار وہ خود کو مکمل طور پر اس کا<br />
حصہ محسوس کرتا ہے۔ تمام صوفیا اس پر متفق ہیں کہ<br />
انسان خود کو ذاتL باری تعالی میں ضم ہوتا محسوس کرتا<br />
ہے اور خود کو خدا محسوس کرتا ہے۔ حضرت مجدد الف<br />
ثانی سے پہلے تک یہی نظریہ :وحدت الوجود: تھا اور اس<br />
مقام کو اخری اور سب سے اونچا مقام سمجھا جاتا تھا۔ اس<br />
نظریئے نے کئی مسلے پیدا کیئے کہ کئی لوگ راہ بھٹکے
اور خود کو خدا سمجھنے لگ گئے۔ پھر مجدد الف ثانی نے<br />
:نظریہ وحدت الشہود: پیش کیا کہ صاحب اس سے اونچا<br />
مقام بھی موجود ہے۔ اس میں انسان خود کو ذاتL باری<br />
تعالی سے الگ ہوتا محسوس کرتا ہے اور اخر اسے ہر<br />
طرف خدا نظر اتا ہے، اور وہ خود کو خدا محسوس نہیں<br />
کرتا۔ حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ کئی صوفیا اس<br />
درجے پر نہیں گئے اور انہیں تامرگ معلوم تک نہ ہؤا کہ<br />
وہ غلطی کر رہے ہیں۔ صرف منصور کے بارے وہ لکھتے<br />
ہیں کہ اخری ایام میں اسے علم ہو گیا تھا۔ان باتوں کو مدL<br />
نظر رکھتے ہوئے ہم نے جو اخذ کر رکھا ہے وہ یہ ہے کہ<br />
منصور چونکہ :وحدت الوجود: کا معتقد تھا اور :وحدت<br />
الشہود: کا نظریہ بہت بعد میں ایا، سو اس کا خود کو خدا<br />
سمجھنا یا کہہ دینا عین ممکن نظر اتا ہے۔ یہ اور بات ہے<br />
کہ عالم وجد میں کہی گئی بات سے اس کا کیا مراد تھا، وہ<br />
سب کو سمجھا پاتا یا نہیں۔ اس کا علم الہامی تھا اور اس<br />
کے لیئے دلئل نہیں ہؤا کرتے۔یہ ہمارا خیال ہے۔ ظاہر ہے<br />
کہ اس سے اتفاق ضروری نہیں۔ امید ہے اسی طرح اپ<br />
ہمیں بھی تاریخ کی کچھ نہ کچھ تعلیم دیتے رہیں گے۔<br />
وی بی جی<br />
پٹھی بابا
2014<br />
مئی 06,<br />
بہت عمدہ جناب۔ اچھی تحریر ہے۔ ہمارے خیال کے مطابق،<br />
یہ تو ایک عام سا معاشرتی رویہ ہے کہ ہر :عاشق پتر: کو<br />
ماں، بہن یاد کروائی جاتی ہے، لیکن اپ نے اسی بات کو<br />
قدرے مختلف رنگ دیا ہے۔ جہاں :بابا حق: ، نا صرف دلئل<br />
کے ساتھ، دھیدو، سکندر اور محمود کی بات کرتا ہے،<br />
بلکہ کچھ غلط العام پیمانوں کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے<br />
جن کے ذریعے دنیا اچھا برا پہچانتی ہے۔ اپ کی بیش تر<br />
باتوں سے ہمیں اتفاق ہے۔ رانجھے کا قصہ (ہر وارث شاہ)<br />
پڑھیں تو حضرت رانجھا صاحب کا، باغ میں ہیر اور اس<br />
کی سہیلیوں کے ساتھ سلوک کا، جو ذکر ملتا ہے، وہ اپ<br />
کی بات کی تصدیق ہے۔ سکندرL اعظم کے بارے بھی ہمیں<br />
اپ سے اتفاق ہے، اور یہ بات درست ہے کہ راجہ پورس<br />
کی اپنے ہی ہاتھیوں کے باعث شکست صرف اس لیئے<br />
صراحی جاتی ہے کہ، ایک ہندو راجہ تھا، یہ کوئی نہیں<br />
کہتا کہ اس کی فوج نے اس کے بعد مذید اگے جانے سے<br />
انکار کیوں کیا۔ محمود کے بارے ہم ذیادہ نہیں جانتے اس<br />
لیئے کچھ کہہ نہیں سکتے، لیکن جب اتنا کچھ اپ نے<br />
درست کہا ہے تو یقیناø اس کی تاریخ پر بھی اپ کی نظر ہو<br />
گی۔ دنیاوی عشق کے بارے ہمارا خیال ہے کہ، بقول بابائے
نفسیات، فرائڈ کے ہر انسانی خواہش، جنسی ہوس اور<br />
بھوک وغیرہ سب ایک ہی اشتہا کا نام ہے۔ جب تک دنیا<br />
میں بھوک ہے، اور جب تک شیر، ہرن کو کھاتا رہے گا،<br />
اس کو ختم نہیں کر سکتے۔ جب تک خواہشیں ہیں، تکمیل<br />
کی کوشش انسان کرتا رہے گا اور یہی ترقی کا دوسرا نام<br />
بھی ہے۔ اب رہ یہی جاتا ہے، کہ خواہشیں اگرچہ تمام ہی<br />
بری ہیں، لیکن ان کو اچھی اور بری اقسام میں تقسیم کیا<br />
جائے۔ بری خواہشوں کو کم سے کم کیا جائے، یا کم از کم<br />
ان کی تکمیل کرنے کی کاوش سے انسان کو روکا جائے۔<br />
یہی اپ نے کیا ہے، اور خوب کیا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ<br />
دنیاوی محبت، عشق وغیرہ اپ کے کہنے کے مطابق ہی<br />
اصل میں جنسی ہوس ہی ہے، یہی فرائڈ بھی کہتا ہے،<br />
لیکن ہمارا خیال ہے کہ انسان نے یہ دیکھتے ہوئے کہ،<br />
اس گھوڑے کو روکا نہیں جا سکتا، اسے محبت اور عشق<br />
جیسے پاکیزہ نام دے کر، اس کی باگ موڑنے کی کوشش<br />
کی ہے۔ اور بہت حد تک کامیاب بھی ہؤا ہے۔ یہ وہ طریقہ<br />
ہے جو مرد کو عورت اور عورت کو مرد پسند کرنے کی<br />
اجازت بھی دیتا ہے، اور غلظت سے دور بھی رکھتا ہے۔<br />
ہمارے نذدیک وہ تمام کہانیاں جو عشق و محبت کی<br />
پاکیزگی بیان کرتی ہیں اور انسان کو اس بات پر امادہ کر<br />
دیتی ہیں کہ وہ انہیں خوبصورت جذبے کا نام دے کر،<br />
برائی سے دور رہے، وہ اس قدر غلط نہیں ہیں۔ سوائے
اس ایک بات کے، کہ وہ عشق اور محبت کی ناکامی کی<br />
صورت میں، انسان کو لغر اور بےکار بن جانے کی<br />
ترغیب دیتی ہیں۔ اس کو روکنا بہت ضروری ہے۔اب اس پر<br />
باقی کچھ ہم کہہ نہیں سکتے، کیونکہ ہم خود ان لوگوں<br />
میں سے ہیں جو بقول شخصے یہ چاہتے ہیں کہ ہماری<br />
بیوی وہ کچھ نہ کرے جو وہ چاہتے ہیں کہ پڑوسی کی<br />
بیوی کرے۔ تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد۔ رواں<br />
رکھیں۔ انہیں پڑھ کر ہمیں بہت فائدہ ہوتا ہے۔ کچھ دیر<br />
سوچنے کا موقع ملتا ہے اور اپنے اپ کو پرکھنے کا بھی۔<br />
وی بی جی<br />
جی درست فرمایا اپ نے۔ ظلم تو واقعی ہے۔ ہم لوگ اج<br />
بھی خلیفہ ہارون الرشید کی تعریفیں کتابوں میں پڑھتے<br />
ہیں، بلکہ تمام مسلمان بادشاہوں، جیسے مغلیہ خاندان<br />
وغیرہ کی تعریف کرتے ہیں۔ کبھی نہیں کہتے کہ، خاندا Lن<br />
برامکہ کا کیا حال ہؤا تھا، کبھی نہیں لکھتے کہ فرقہ<br />
معتذلہ کیا تھا، کبھی نہیں پڑھتے کہ، امام احمد بن حنبل<br />
کے ساتھ کیا سلوک ہؤا۔ تب بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ لیکن<br />
افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ اب بھی ہم ایسا ہی کر<br />
رہے ہیں۔ بقول فراز» یہاں قلم کی نوک پر ہے نوک خنجر<br />
کیاپ کی دعاؤں کا شکریہ۔ ہم گم ہو جائیں تو :اLنا ل: پڑھ
لیا کیجے۔ سنا ہے کوئی چیز گم ہو جائے تو یہی پڑھنا<br />
چاہیئے۔ اگر دنیا میں نہ ہوئے تو مغفرت کے کام ائے گی۔<br />
وی بی جی<br />
جواب کا سکتہ<br />
اپریل<br />
2014 ,04<br />
اپ کی کچھ تحریریں ایسی ہوتی ہیں، کہ انہیں پڑھ کر<br />
انسان کو لگتا ہے کہ ابھی اور اس پر سوچنے کی ضرورت<br />
ہے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ پڑھ کر انسان جو<br />
کچھ محسوس کرتا ہے اسے الفاظ نہیں دے پاتا۔ کئی<br />
افسانے اپ کے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ کہتے کچھ نظر<br />
اتے ہیں لیکن کہہ کچھ اور رہے ہوتے ہیں۔ :نقاد: تو بہت<br />
اونچا مرتبہ ہے، ہم تو صرف ایک عام ادمی کی سی عقل<br />
کے حامل ہیں اور صرف یہ سوچ کر اپنی رائے کا اظہار<br />
کرتے ہیں کہ جو ہم نے محسوس کیا وہ اپ تک پہنچ<br />
جائے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ جو کچھ اپ اپنی تحریر میں<br />
کہہ رہے ہوتے ہیں، ہم جزوی یا پھر ہو سکتا ہے کہ کلی<br />
طور پر بھی نہ سمجھ پائے ہوں۔ ہمارے بیان سے اپ کو<br />
اتنا تو علم ہو ہی جائے گا کہ ایک عام شخص نے پڑھ کر
کیا محسوس کیا۔یہ تحریر بھی سوال چھوڑ جاتی ہے،<br />
افسانے کا ہیرو چونکہ خود ایک اسامیاں پھنسانے وال<br />
شخص ہے اس لیئے اس کے اپنی بیوی کے بارے جو بھی<br />
خیالت ہیں وہ مشکوک ہیں اور بھروسے کے لئق نہیں۔<br />
دوسری طرف بیویوں کے عام رویوں کی طرف اشارہ ہے<br />
کہ اپنے بچے اسے اپنے بچے ہی ہوتے ہیں جبکہ شوہر<br />
کسی اور کا بچہ ہوتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی محسوس<br />
ہوتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ رقیہ کو معلوم ہو کہ اس کا<br />
شوہر باہر کے کھانے پسند کرتا ہے سو اس نے پہلے دن<br />
ہی اس کو خوش کر دیا ہو)۔ یہ بھی اخض نہیں کیا جا سکتا<br />
کہ وہ اپنے بچوں کو حرام نہیں کھلنا چاہتی تھی کیونکہ<br />
گھر کا کھانا بھی تو اسی کمائی کا ہو گا۔ویسے بیوی کے<br />
معاملے میں زیادہ سوچنا نہیں چاہیئے کیونکہ اس کے کئی<br />
کام عقل سے باہر ہی ہوتے ہیناور عورتوں کا منطقی طرزL<br />
علم مردوں سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔اس معمے کو<br />
معاشرتی طرز عمل سے دریافت کرنے اور پھر الفاظ دینے<br />
پر داد قبول کیجے<br />
وی بی جی<br />
مئی<br />
ماسٹر جی<br />
2014 ,02
بہت اچھی تحریر جناب۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول<br />
کیجے۔ اپ بات کرنے کا فن جانتے ہیں۔ خوبی یہ ہے کہ<br />
معاشرے کے ایک تلخ رویئے کو اپ نے ایک چھوٹی سی<br />
کہانی میں سمو دیا ہے۔ اور پھر پر اثر بھی ہے۔ پڑھ کر<br />
ہمیں کچھ کچھ محسوس ہؤا کہ ماسٹر جی شکل ہم سے<br />
کچھ ملتی جلتی سی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو<br />
تلقین کرنا ماسٹر جی کا اصلی روپ، یا اصلی چہرہ تھا۔ اور<br />
اس پر کتنے ہی نقاب ڈال لیئے جائیں وہ اس سے بچ نہیں<br />
سکتے تھے۔ مذہب وال نقطہ بھی ١٠٠ فی صد درست ہے،<br />
کہ اس میں ویسے ہی عقل کو ایک طرف رکھ دیا جانا ہوتا<br />
ہے سو ان معاملوں میں سمجھ کی ضرورت تو ہوتی نہیں۔<br />
مولوی صاحب کے ساتھ بھی یہی ہؤا کہ ایک دن اصلی<br />
چہرہ سامنے ا ہی گیا۔ ہماری طرف سے بھروپر داد قبول<br />
کیجے۔<br />
وی بی جی<br />
سچ پوچھیں تو ہم شروع میں یہاں ائے تھے تو اپ کے<br />
لکھے کی طرف انا دشوار سا لگتا تھا کہ لمبی تحریروں کو<br />
کون پڑھے اور وہ بھی توجہ مانگتی ہیں۔ پھر ایک ادھ بار<br />
پڑھا تو دل کو بہت بھایا۔ پھر ان پر لکھنے کی ہمت نہ پڑتی
تھی کہ صاحب ہماری داد کس لئق ہے اس قدر تفکر امیز<br />
تحریروں کے سامنے، لیکن پھر ہم سے رہا نہیں گیا۔ اپ<br />
نے 1993 کے بعد کوئی کتاب شائع نہیں کروائی، وجوہات<br />
بھی ہونگی۔ لیکن ہماری درخواست یہی رہے گی کہ جہاں<br />
تک ہو سکے، ہمیں ان سے مستفیض ہونے کا شرف دیتے<br />
رہیئے گا۔ داد و تحسین، اپ جانتے ہی ہیں، کہ کوئی حیثیت<br />
نہیں رکھتی۔ :ہم تو پکھی واس ہوویں: سو جانے یہاں کب<br />
تک ہیں، لیکن یہ سلسلہ جاری رہے تو اچھا ہے۔ کوئی نہ<br />
کوئی ان سے استفاضہ حاصل کرتا رہے گا۔ اپ جانتے ہی<br />
ہیں کہ انٹرنیٹ پر اگر کوئی چیز ٢٠٠ لوگ پڑھتے ہیں تو<br />
١٠٠ لوگ پسند بھی کرتے ہیں، لیکن اپنی پسند کا اظہار<br />
فقط کوئی ایک ادھ شخص ہی کرتا ہے۔ بہار اتی ہے کویل<br />
کوکتی ہے، کوئی سنے نہ سنے۔ ایسے ہی اپ کے یہ<br />
خوبصورت احساسات ہیں، جو پڑھنے والوں کے زہنوں کو<br />
پختگی دیتے ہیں۔ مردہ ضمیر کو زندہ کرتے ہیں۔ اپ کو<br />
قدرت نے یہ صلحیت دی ہے کہ اپ کی تحریر صرف ایک<br />
قول کی طرح اچھا یا برا بتا نہیں دیتی، بلکہ ضمیر کو<br />
جگاتی ہے۔ صرف اچھائی کی تغیب اور برائی چھوڑنے کی<br />
تلقین نہیں کرتی، بلکہ اچھائی کرواتی ہے اور برائی کی<br />
طرف بڑھتا ہاتھ روکتی ہے۔ بقول ہمارے ہیکھولے نہ<br />
کھولے در کوئی، ہے مجھ کو اس سے کیامیں چیختا رہوں<br />
گا تیرے در کے سامنےا پاک کا ہمیشہ کرم رہے اپ پر۔
وی بی جی<br />
اپریل<br />
بڑے ابا<br />
2014<br />
,28<br />
بہت ہی خوبصورت تحریر ہے۔ جہاں اپ نے انسان کے<br />
بٹتے چلے جانے کی بات کی ہے وہاں یہ تحریر ایک<br />
دوسرے کے ساتھ محبتوں کے ساتھ جینے کا بھی سبق<br />
دیتی ہے۔ تحریر میں موجود کرب کا احساس اسے اور<br />
زیادہ جاندار کر رہا ہے۔ واقعی صفر کا ہندسہ بہت طاقت<br />
رکھتا ہے، اور اپ نے اسے اپنے انداز میں بہت<br />
خوبصورتی سے معاملے کے ساتھ جوڑا ہے۔ صفر کے<br />
ساتھ صرف ایک کا اضافہ اسے بہت طاقتور کر دیتا ہے<br />
اور خود بھی بہت طاقتور ہو جاتا ہے بشرطیکہ کہ :صحیح<br />
سمت: میں اضافہ ہو۔ غلط سمت میں اگر ایک کا اضافہ ہو<br />
تو ایک، ایک ہی رہتا ہے لیکن صفر اپنا وجود بھی کھو<br />
دیتا ہے۔ ایک کو چاہیئے کہ کوشش کرے کہ کئی صفروں<br />
کے ساتھ لگ جائے اور اسی طرح اپنی اور دوسروں کی<br />
قیمت میں اضافہ کرے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول<br />
کیجے۔ بہت ہی عمدہ تحریر ہے۔ہم نے انسان کے بٹنے کے
عمل کو ایک اور نقطہ نظر سے بھی دیکھا ہے۔ شیکسپئر<br />
کے مطابق :ال دا ورلڈ از سٹیج: ۔ انہوں نے انسان کی<br />
زندگی کے ادوار کو کردار دیئے ہیں، جبکہ ہمارا خیال ہے<br />
کہ انسان ایک ہی وقت میں کئی کردار بھی نبھاتا ہے۔ باپ<br />
بھی ہے بیٹا بھی۔ دفتر میں ایک چہرہ تو رشتہ داروں کے<br />
سامنے کوئی اور چہرہ۔ کہیں اداب بھری محفل میں ایک<br />
مؤدب شخص تو دوستوں کے سامنے ایک گالم گلوچ والے<br />
انسان کا چہرہ۔ کہیں چالک اور مکار تو مولوی صاحب کے<br />
سامنے عجز و انکسار۔ کہیں خوشی نہ ہوتے بھی ہنسنا<br />
پڑتا ہے تو کہیں کسی کو موت پر زبردستی رونے کی<br />
کوشش کرتا ہے۔ کردار نبھاتا ہے۔ اور انہیں کرداروں میں<br />
بٹتا بٹتا، اپنا اصلی چہرہ بھول جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک کردار<br />
یہ :وی بی: ہے جس میں ہمیں اپنا چہرہ نظر اتا ہے اور ہم<br />
اس کے ساتھ وقت گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم نے<br />
اپ کی تحریر پڑھ کر زیادہ وقت نہیں لیا، سو جذباتی سی<br />
چند باتیں جو ذہن میں ابھریں بیان کر گئے ہیں، جس پر<br />
معذرت بھی چاہتے ہیں۔ ائندہ کوشش کریں گے کہ اپ کی<br />
تحریر کے ساتھ زیادہ وقت گزاریں تاکہ جذبات کچھ ٹھنڈے<br />
ہو جائیں اور ہم کچھ عقل کو لگتی کہہ سکیں۔اپ کی یہ<br />
تحریر بھی بہت خوب ہے، اور ہمیں یقین ہے کہ پڑھنے<br />
والے اس سے ضرور اثر لیں گے۔ کیونکہ یہ جذبات اور<br />
احساسات سے لبریز ہے۔ایک بار پھر بھرپور داد کے
ساتھ۔۔<br />
وی بی جی<br />
اپریل<br />
گناہ گار<br />
2014<br />
,26<br />
ماشاا جناب یہ تحریر بھی بہت خوب ہے۔ کمال یہ ہے کہ<br />
اپ اس قدر وسعت رکھتے ہیں کہ اپ کا لکھا جب پڑھا<br />
بالکل مختلف سا ہی ہوتا ہے اور یہ انفرادیت اپ کے قلم کی<br />
پہچان ہے۔ ہر بار ایک نئی اور علیحدہ دنیا کی ہی سیر<br />
کرواتے ہیں۔ اس کے لیئے شکر گزار بھی ہیں ہم اور اپنے<br />
ساتھ بھرپور داد بھی لئے ہیں جو پیشL خدمت ہے۔رزق<br />
سے متعلق چونکہ بات ہو رہی تھی سو ہم نے بہت غور<br />
سے پڑھا اپ کے خیالت کو۔ لیکن ایک فقرہ ہے جس کی<br />
تشریح ہم ٹھیک سے نہیں کر پا رہے ہیں۔ وجہ شائید اس<br />
فقرے میں موجود یہ الفاظ ہیں : تو وہ اس شخص کے اندر<br />
رزق فراہم کرنے کی قدرت رکھتا ہے: ۔ فقرہ درج L ذیل ہے۔<br />
انہوں نے‘ اس سے آگے فرمایا‘ کہ اگر انسان سے زمینی:
استحصال پسند قوتیں‘ رزق چھین لیں‘ تو وہ اس شخص<br />
کے اندر‘ رزق فراہم کرنے کی قدرت رکھتا ہے‘ اور کوئی<br />
نہیں‘ جو مزاحم آ سکے:ممکن ہے کتابت کی چھوٹی سی<br />
کوئی غلطی ہو لیکن چونکہ ہم خود کم فہم قسم کے شخص<br />
ہیں تو ذیادہ تر امکان اسی بات کا ہے کہ ہم اپ کے مفہوم<br />
تک نہ پہنچ پا رہے ہیں۔مولنا ازاد» صاحب بہت مثبت سوچ<br />
رکھنے والے شخص تھے، سنتے ہیں کہ ایک بار کسی نے<br />
ان سے کہا کہ فLلں بادشاہ کے دور میں عورتیں کپڑے<br />
نہیں پہنتی تھیں بلکہ اپنے جسم پر کپڑوں کی سی تصویر<br />
(پینٹنگ) بنوا لیا کرتی تھیں۔ مولنا صاحب کا مثبت جواب<br />
دیکھیئے کہ فرمایا کہ اس بات سے اس زمانے کے<br />
مصوروں کی فنی صلحیتوں کا پتہ چلتا ہے کہ کس قدر<br />
مہارت رکھتے تھے۔تو صاحب رزق اور خدا سے مطعلق<br />
بھی ہمارا ایسا ہی مثبت اور سادہ وطیرہ ہے۔ اگر رزق مل<br />
جائے تو ا نے دیا، نہ مل تو حکومت یا مسلمانوں کی<br />
دین سے دوری ذمہ دار۔ اگر انعامی بانڈ نکل ایا تو ا کا<br />
شکر، نہ مLل تو اسی میں بھلئی تھی، اپ ہی کی مثال سے<br />
دونوں پستانوں کا دودھ ‘ ذائقہ اور تاثیر میں‘ ایک سا نہیں<br />
ہوتا تو واہ کیا ہی خوب قدرت کا کمال ہے اگر ایک سا ہے<br />
تو بھی واہ کیا ہی خوب قدرت کا کمال ہے کہ دو الگ الگ<br />
پستانوں سے ایک سا دودھ ۔ دنیا کو دیکھ کر اندازہ لگاتے<br />
رہتے ہیں کہ فلں کام اچھا ہؤا یا برا۔ اگر اچھا ہؤا ہے تو
واہ ا تیرا کمال، اگر برا ہؤا تو شیطان مردود۔ ا کا خوف<br />
ہے کہ کہیں کچھ غلط منہ سے نکل تو نقصان نہ اٹھانا<br />
پڑے اس لیئے ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے، کہ سوچتے<br />
پھریں کہ دنیا میں جو جL تنا کال ہے اتنا بدحال اور جو جL تنا<br />
گورا ہے اتنا خوشحال کیوں ہے۔ یا یہ کہ ان کے حالت کا<br />
ذمہ دار ان کا رنگ ہے یا ان کی رنگت ان کی خوشحالی کی<br />
نسبت ٹھہری ہے۔اپ کے خیالت اس معاملے میں بہت<br />
اچھے ہیں اور مثبت ہیں، یہ اچھی بات ہے۔ افسانہ بھی<br />
بہت خوبصورت ہے۔ ا پاک اپ کے قلم کو مذید وسعت<br />
دے۔ایک چھوٹی سی شکایت بھی ہے کہ اپ داد وصول<br />
کرنے کی بجائے داد دینے لگ گئے ہینہمیں احتیاط کرنی<br />
پڑے گی۔<br />
وی بی جی<br />
اپریل<br />
گناہ گار<br />
2014<br />
,26<br />
جناب داد کی بات نہیں کر رہے، وہ تو اپ کی تحریریں ہم<br />
سے ہمارا گریبان پکڑ کر لے لیتی ہیں، ایسے ہی جیسے ہم<br />
ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو اپنی تنخواہ کی پائی پائی تک
مشین سے وصول کرتے ہیں۔ ہم اپنے خیالت کی اظہار کی<br />
بات کر رہے تھے کہ ہم ذرا اLدھر ادھر کی ہانکنا کم کر دیں،<br />
وگرنہ ہمیں یقین ہے کہ اپ جس طرح کی نظر رکھتے ہیں<br />
ہم پر بھی اپ کی تجزیہ کی تیز نگاہ ہو گی، اور ممکن ہے<br />
کہ کسی دن ایک عجیب کردار کی صورت میں اپ کی کسی<br />
تحریر کا حصہ بن جائیں گے۔ اپ کا شکریہ کہ ہمیں ان<br />
تحریروں سے فیضیاب ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔طال Lب<br />
دعا<br />
ماشاا جناب۔ بہت ہی خوب۔ ایک تو ہمارے علم میں اضافہ<br />
ہؤا کہ :رزق اندر: کے کیا معنی ہیں دوسرا اپ کے اس<br />
فقرے کے معنی جان کر بہت اچھا لگا۔ واقعی وہ رزق دیتا<br />
ہے تو کہاں نہیں دیتا۔<br />
توجہ اور رہنمائی کا شکریہ۔۔<br />
وی بی جی<br />
اپریل<br />
انا کی تسکین<br />
2014 ,18<br />
بہت اچھی تحریر ہے، داد قبول کیجے۔ (ہم :تحریر: اس
لیئے کہتے ہیں کہ کم علمی کے سبب، ہم :انشائیہ:،<br />
:افسانہ: وغیرہم میں تفریق کرنے سے قاصر ہیں)اپ نے<br />
فرمایا تھا کہ ہم خصوصی برتاؤ رکھتے ہیں تو جناب ایسا<br />
ہرگز نہیں ہے۔ ہم تو جیسا پڑھتے ہیں ویسا بیان کرتے ہیں۔<br />
یہ اپ کی تحریریں ہیں جو ہمیں یہاں لتی ہیں۔ اگرچہ اپ<br />
جانتے ہی ہیں کہ مصروفیات اج کے دور میں بہت زیادہ ہو<br />
چکی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ایک :ابا جی: کماتے تھے اور<br />
سارا :ٹ⁄بر: کھاتا تھا، اور ایک یہ وقت ہے کہ :سارا :ٹ⁄بر:<br />
کماتا ہے اور ایک :ابا جی: کو نہیں کھLل سکتا۔ سو ہماری<br />
حاضری کم رہتی ہے، وجہ یہ بھی ہے کہ اپ کی تحریر کو<br />
سرسری نظر سے دیکھنا، ہم سے ممکن نہیں۔ یہ خود ہی<br />
توجہ چھین لیتی ہے۔ اپ کے شکر گزار ہیں ہم کہ احباب<br />
اگر کم توجہ بھی دیں تو اپ ان تحریروں کو یہاں پیش<br />
کرتے رہتے ہیں، اور کم از کم ہم اس سے استفاضہ کرتے<br />
رہتے ہیں۔یہ تحریر بہت تلخ محسوس ہوئی، اور ایسا ہی<br />
ہونا چاہیئے تھا۔ اس قدر الفاظ میں نفرت بھری ہے کہ<br />
جیسے صاحبL قلم کو خود بھی چوٹ پڑی ہو۔ ایک جملہ<br />
ہے اپ کا، اس پر داد بھی قبول کیجے۔<br />
اقتباس<br />
بڑی اور شہرت یافتہ دکان سے‘ کھلنے پلنے کی صورت<br />
میں‘ فائل کی بلند پروازی پر‘ شاہین بھی شرمندہ ہو جاتا
ہے۔<br />
ہم لوگوں نے :حرام: پر تحقیق کی اور اس کی بھی کئی<br />
اقسام مرتب کیں۔ اقسام بھی دو قسم کے نقطہ نظر سے کی<br />
گئی ہیں۔ پہل نقطہ نظر۔ایک تو :اپنے لیئے حرام، دوسرے<br />
کے لیئے حلل: اور دوسرا :اپنے لیئے حلل، دوسرے کے<br />
لیئے حرام: جیسا کہ اپ کی تحریر نے بھی وضاحت کی<br />
ہے۔دوسرا نقطہ نظراگرچہ یہ اقسام بہت ہیں لیکن ہم چیدہ<br />
چیدہ کا ذکر کئیے دیتے ہیں۔<br />
پہلی قسم: اسے کبھی مسلمان اپنے لیئے حلل نہیں:<br />
سمجھتے۔ جیسے سور اور کتے کا گوشت۔<br />
دوسری قسم: اسے حسبL طبیعیت استعمال کیا جا سکتا:<br />
ہے۔ جیسے شراب، جؤا۔<br />
تیسری قسم: ایسی چیزیں جنہیں کہنا تو حرام ہوتا ہے:<br />
لیکن ان کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں، بلکہ ترغیب دی<br />
جاتی ہے۔ جیسے سود، کسی دوسرے مسلمان بھائی کا مال<br />
و زن۔ کچھ مفتی حضرات کے بھی ہم احسانمند ہیں کہ<br />
انہوں نے اس کو کئی اور نام دے کر نہ صرف عوام کو<br />
سہولت مہیا کی بلکہ خود بھی لکھوں روپے ماہانہ لے کر<br />
دین کی خدمت کر رہے ہیں۔ (ویسے ہم خود بھی ایسے ہی
کسی ضمیر فروش مفتی کی تلش میں ہیں جو ہمیں روزہ<br />
میں سگریٹ پینے کی اجازت کا فتوی دے دے)۔اپ کی<br />
تحریریں ایسی ہوتی ہیں کہ ہم اپنا رونے بیٹھ جاتے ہیں۔<br />
اس پر معذرت بھی چاہتے ہیں۔ یہ تحریر پڑھ کر ہمارا نہیں<br />
خیال کہ کوئی پڑھے گا اور اثر نہ لے گا۔ ایک بار پھر<br />
بھرپور داد کے ساتھ<br />
وی بی جی<br />
جناب یہ تو اپ نے حد سے بڑھ کر عزت دے دی ہماری<br />
عامیانہ سی رائے کو۔ عامیانہ اس لیئے کہا کہ ایک عام<br />
سے ادمی کی رائے ہے، ہم نہ مفکر ہیں اور نہ دبیر۔ اور<br />
نہ ہی کوئی عالم فاضل ہیں کہ :علوم فضول: حاصل کر<br />
رکھے ہوں اور نہ ہمارا نام :علما فضل: میں اتا ہے :وی<br />
بی جی: ۔ سو صاحب، اگر ہم سے کوئی کام کی بات سرزد<br />
ہو جائے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ یہ کس نے کی۔<br />
ایک اور گزارش کرنا چاہیں گے کہ ہم اپنا نام یہاں نہیں<br />
لئے ہیں۔ ہمارے ہمذاد ہیں، ایک کردار :وی بی جی: وہ<br />
یہاں ائے ہیں اور ان کا یہی نام ہے۔ اگر وقت اجازت دیتا ہو<br />
تو ہماری یہ نظمیہ غزل ایک نظر پڑھ لیجے گا۔.امید ہے<br />
خفا نہ ہونگے۔اپ نے اس نالئق کو اس لئق سمجھا ہے<br />
جس پر سراپا سپاس ہیں اور ایک بار پھر شکریہ ادا کرتے
ہیں۔ ہمیں :چوتھی: مرغی بھی ذبح کرنی ہے سو وہاں<br />
چلتے ہیں۔<br />
وی بی جی<br />
اپریل<br />
انگریزی فیل<br />
2014 ,18<br />
معذرت خواہ ہیں کہ دیر سے حاضر ہوئے۔ یہ موضوع<br />
اگرچہ اس قدر انوکھا نہیں ہے، لیکن اپ کے قلم نے اسے<br />
اپنی طرز سے بیان کیا ہے اور بہت ہی خوب کیا ہے۔ ہکے<br />
پھلکے انداز میں اپ نے کہانی بیان کی ہے جو پڑھنے<br />
والے کو کسی ذہنی دباؤ میں نہیں ڈالتی۔ اس کا فائدہ یہ ہے<br />
کہ وہ قارئین جو گہرے فلسفوں سے کتراتے ہیں یا سمجھ<br />
نہیں پاتے وہ بھی اس سے محظوظ ہو پاتے ہیں اور کچھ<br />
نہ کچھ بات کا اثر ضرور لے کر جاتے ہیں۔ ہماری طرف<br />
سے بھپور داد قبول کیجے۔ویسے ہمارا خیال اس سے<br />
متعلق تو یہ ہے کہ ایک تو جو شاگرد رٹہ نہیں لگا سکتے<br />
ان کو اساتذہ سے شاباش بھی شاز و نادر ہی ملتی ہے،<br />
وگرنہ نہیں ملتی۔ ہمارا اپنا المیہ یہی رہا ہے۔ دوسری بات<br />
یہ کہ اس میں صرف انگریزی ہی کارفرما نہیں ہے، بلکہ
کئی ایسی چیزیں ہمارے نصاب کا حصہ ہیں جس کی کوئی<br />
تک نہیں ملتی۔ یقین جانئیے اج تک ہمیں الجبرا ، جسے<br />
جبراø پڑھایا جاتا ہے، کو استعمال کرنے کا کوئی موقع<br />
زندگی نے نہیں دیا۔ ہم ایکسوں میں سے وائیاں تفریق<br />
کیئے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ نہ مرہٹوں کی لڑائیوں کی<br />
تاریخوں کی کہیں ضرورت پڑی ہے۔ اور تو اور قائدLاعظم<br />
کے چودہ نقاط جسے ہم چوتھی جماعت سے لے کر<br />
مسلسل چودھویں جماعت تک یاد کرنے کی کوشش کرتے<br />
رہے ہیں، نہ تو اج تک کبھی یاد ہوئے ہیں اور نہ کبھی<br />
اس کی ضرورت پڑی ہے۔یہاں کسی کام کو کرنے کے لیئے<br />
اس کام لیئے موزوں ترین شخص بھی تلش کرنے کا کوئی<br />
اصول درست نہیں ہے۔ ہم جہاں کام کر رہے ہیں وہاں بھی<br />
صرف اس لیئے کہ ہمیں :ڈائریکٹ، ان ڈائریکٹ:، :ایکٹو،<br />
پیسLو:، :دعائے قنوت:، اور اپنے وزیرL اطلعات کا نام یاد<br />
تھا۔ ہم اس سے بھی اچھا عہدہ پا سکتے تھے لیکن<br />
چونکہ ہمیں نہ صرف :امریکہ کے صدر کین⁄ڈی: کے قاتل کا<br />
نام یاد نہیں تھا بلکہ یہ تک معلوم نہ تھا کہ :بلبل: کی<br />
اوسط عمر کLتنی ہوتی ہے، اس لیئے ہم اس عہدے کے<br />
لئق نہ تھے۔ اس لیئے ہم سمجھتے ہیں کہ نہ صرف یہ<br />
شعور دینا ضروری ہے کہ تعلیم کا مقصد کیا ہے اور اس<br />
میں کردار سازی کی کیا اہمیت ہے۔ بلکہ یہ بھی کہ کسی<br />
کام کو کرنے کے لیئے موزوں ترین شخص کا انتخاب
کیسے کرنا چاہیئے۔ اگر ہمارے بس میں ہو تو ، حافظ،<br />
سعدی اور عرفی جیسے لوگوں کا کلم، بلکہ قصہ چہار<br />
درویش کو نصاب کا حصہ بنائیں اور بہت سی خرافات کو<br />
اس میں سے نکال پھینکیں۔ ورنہ ہمارا تو یہی حال ہے<br />
بقول سعدی کہ اگر کوئی شخص علم حاصل کرے اور پھر<br />
اسے استعمال نہ کرے تو ایسے ہی ہے جیسے کسی گدھے<br />
پر کتابوں کا بوجھ لدا ہو۔ تحریر پر ایک بار پھر داد کے<br />
ساتھ۔<br />
وی بی جی<br />
چوتھی مرغی<br />
اپریل<br />
2014 ,26 ,<br />
بہت ہی خوبصورت تحریر ہے۔ اپ ماشاا بہت ہی گہری<br />
نظر رکھتے ہیں۔ اور پھر اپ کے پاس نہ صرف خیالت کو<br />
الفاظ دینے کا ہنر ہے بلکہ وہ طاقت بھی ہے کہ اپ کی<br />
تحریر پڑھنے وال نہ صرف قائل ہو جاتا ہے بلکہ ہمیں<br />
یقین ہے کہ اثر بھی لیتا ہے۔ ایک معاشرتی مسئلہ کہ اپ<br />
نے کہاں مرغی سے شروع کیا ہے اور کیسے تمام کہانی<br />
کے بعد اسے وہیں سمیٹا ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد
قبول کیجے۔ اپ کہاں :اسیل: مرغی پر چھری پھLروا رہے<br />
تھے جناب یہ تو مرغے لڑانے والوں کی نظر میں :کفر:<br />
سے کم نہیں۔ اپ کی تحریر پڑھ کر کچھ باتیں ذہن میں ائی<br />
ہیں ایک تو یہ کہ عام خیال ہہی ہے کہ پڑھنے لکھنے کا<br />
مطلب ہے رزق میں اضافہ اور یقین دہانی۔ ایک فارمول کہہ<br />
لیجے کہ جL تنا ذیادہ پڑھا لکھا ہو گا انسان، اتنا ہی ذیادہ اس<br />
کا رزق ہونا چاہیئے۔ اور دوسری بات یہ کہ جنگل کا قانون<br />
برا ہوتا ہے، انسانوں کے قوانین اچھے ہوتے ہیں اور<br />
انہیں ہی رائج ہونا چاہیئے۔ رزق کے بارے تو ہمارا خیال<br />
ہے کہ اس کا کوئی فارمول نہیں ہے۔ ہم نے تو یہی دیکھا<br />
کہ اگر کوئی شخص ہماری طرح اپنی تعلیمی اخراجات کی<br />
رسیدیں جنہیں ڈگریاں بھی کہتے ہیں لیئے پھLرے، چاہے<br />
کوئی بڑا سائنس دان ہو، چاہے عالم ہو شاطر ہو، رزق کا<br />
حقدار اس ناطے سے نہیں ٹھہرتا۔ اس کو بانٹنے کا قدرت<br />
کا اگر کوئی فارمول ہے تو ہمیں ٹھیک سے سمجھ نہیں ایا<br />
اج تک۔ ایک طرف تو دین کہتا ہے کہ رزق صرف ا کے<br />
ہاتھ میں ہے، دوسری طرف ١٠٠ بچے بھوکے مر جاتے<br />
ہیں۔ الزام کLسے دیں؟ لے دے کر اگر رزق کا کوئی فارمول<br />
ہمیں دین سے مل ہے تو یہی ہے کہ صدقہ خیرات دو کہ یہ<br />
دوگنا ہو کر واپس ملے گا۔ جس کے پاس کچھ نہ ہو وہ کیا<br />
کرے یہ کہیں نہیں مLل۔ دوسری طرف اگر رزق ا کے ہاتھ<br />
نہ ہو تو پورے ملک کو وہ بیرونی کمپنیاں کھا جائیں، جو
ایک ہی وقت میں نہ صرف کئی قسم کے صابن بنا کر<br />
اشتہاروں میں اپس میں لڑ کر دکھاتی ہیں بلکہ انہیں<br />
صابنوں کے دو نمبر بھی خود ہی بناتی ہیں کہ کوئی دوسرا<br />
فریق کیوں بنا کر کمائے۔ جنگل کے قانون سے متعلق ہمارا<br />
خیال ہے کہ یہ انسان کی تعصب سے بھری ہوئی سوچ ہے<br />
کہ خود کو جانوروں سے بہتر سمجھتا ہے۔ انسان اشرف<br />
المخلوقات ہے لیکن یہاں انسان کی جو :تعریف: ہے وہ<br />
کچھ اور ہے۔ اپ خود ہی سوچئیے کونسی ایسی برائی ہے<br />
جو جانوروں نے کی ہوں اور انسانوں نے وہ برائی نہ کی<br />
ہو۔ اچھائیاں برائیں دونوں سوچ لیجے۔ ایک بھی ایسی نہ<br />
ملے گی۔ انسان، انسانوں تک کا گوشت محوارتاø نہیں بلکہ<br />
حقیقتاø کھا رہا ہے۔ ادھر انسانوں کی وہ برائیں دیکھ لیجے<br />
جو جانوروں نے کبھی نہ کی ہوں۔ اتنی لمبی فہرست نکلے<br />
گی کہ خدا کی پناہ۔ سو ہمارا خیال ہے کہ اگر تعصب کو<br />
تھوڑا سا ایک طرف رکھ کر سوچا جائے تو جانور بدرجحا<br />
بہتر نظر ائیں گے۔ وہ تو معصوم نظر اتے ہیں ہمیں۔ جنگل<br />
کے قوانین میں شکار تبھی ہوتا ہے جب بھوک لگے۔ یہاں<br />
الٹا معاملہ ہے، بھوک لگنے سے پہلے انتظام کرنا ہوتا<br />
ہے۔ بھیڑیے کی خصلت تھی کہ وہ کمزور پڑ جانے والے<br />
بھیڑیئے کو مل کھا جاتے ہیں۔ لیکن یہاں مل بانٹ کر بھی<br />
نہیں کھاتے۔ واہ رے انسان۔۔سو صاحب جب تک دنیا میں<br />
کمزور اور طاقتور موجود ہیں، کمزور کی گردن طاقتور کی
دو انگلیوں میں رہے گی۔ یہ اصول ہم نے صرف انسانوں<br />
کے گھٹیا معاشرے اور قوانین سے ہی نہیں اخذ کیا بلکہ<br />
جانوروں کے سلجھے ہوئے اور مہذب معاشرے اور جنگل<br />
کے قوانین سے بھی ثابت ہے۔اپ کی تحریر بہت خوب ہے۔<br />
امید ہے اگر نا انصافی کو دنیا سے ہم مٹا نہیں سکتے تو<br />
کسی حد تک کم کرنے کی جستجو تو کر سکتے ہیں۔ اور<br />
یہی اپ کر رہے ہیں۔ اپ کی یہ تحریر بھی اسی کاوش کا<br />
حصہ ہے اور مقام رکھتی ہے۔ ایک بار پھر بھرپور داد کے<br />
ساتھ ۔ ۔<br />
وی بی جی<br />
تنازعہ کے دروازے پر<br />
اپریل<br />
2014 ,16<br />
واہ جناب یہ پہلو بھی اپ نہیں چھوڑا۔ بہت اچھی تحریر<br />
ہے۔ داد حاضر ہے۔اب بات یہ ہے کہ جو کہانی اپ نے<br />
لکھی ہے وہ تاریخ میں قدم قدم پر دہرائی گئی ہے۔ سو سچ<br />
پوچھیں تو ہم ان کرداروں کی شناخت میں ناکام رہے ہیں۔<br />
اس کی ہمارے خیال سے دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو<br />
یہ کہ ہم اپنی کمزور سیاسی بصیرت کی وجہ سے کئی
تاریخی نقاط سے ناواقف ہیں سو ایسا ہونا لزم ہے۔<br />
دوسری بات یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اپ نے کئی کہانیوں<br />
کے کردار اپنی تحریر میں ایک واحد کردار میں سمو دیئے<br />
ہوں۔ جس کی وجہ سے اصل تک نہ پہنچ پا رہے ہوں۔ہم<br />
معذرت بھی چاہیں گے کہ اپنی کم علمی کی وجہ سے اپ<br />
کی تحریر کو وہ خراج نہیں پیش کر پائے جس کی یقیناø یہ<br />
مستحق ہو گی۔ اپ کی تمام گزشتہ تحریروں کو نظر میں<br />
رکھتے ہوئے ہمیں یقین ہے کہ یہ ہماری نا سمجھی کی<br />
وجہ سے ہے۔لیکن جس پہلو سے بھی ہم دیکھ سکے ہیں<br />
اور جہاں تک سمجھ سکے ہیں تحریر اچھی ہے اور داد اپ<br />
کا حق۔بھرپور داد کے ساتھ<br />
وی بی جی<br />
اپریل<br />
کامنا<br />
2014<br />
,14<br />
واہ جناب واہ۔ اپ کی نظر کہاں کہاں تک ہے، یہ تحریر پڑھ<br />
کر پتہ چل۔ پھر اپ کہتے ہیں کہ ریشماں جوان نہیں رہی۔<br />
صاحب اس تحریر کے اخر میں اپ نے مرہٹوں کی سرکوبی<br />
کی تاریخ رقم نہیں کی سو ہمارا خیال ہے کہ تحریر نئی
بھی ہے اور ریشماں کی جوانی کی سند بھی۔ اور صاحب<br />
ہمارے خیال سے ریشماں کبھی بوڑھی نہیں ہوتی، اس پر<br />
مرنے والی انکھیں بوڑھی ہو جاتی ہیں۔اس تحریر نے ہمیں<br />
جیت لیا ہے۔ ایک تو اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اپ کی<br />
نظر کہاں کہاں تک ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ موضوع کوئی بچوں<br />
کا کھیل نہیں ہے۔ اور اس پر لکھنے کا خیال تک انا، بہت<br />
بڑی بات ہے۔ دوسرا اپ کے علم کا بھی پتہ چلتا ہے کہ<br />
کس گہرائی سے اپ نے مشاہدہ کیا ہے۔ اگر اس موضوع<br />
سے متعلق باریک چیزوں کا علم نہ ہو تو ظاہر ہے کہ چند<br />
ٹوٹے پھوٹے فقروں کے سوا کوئی اس پر کچھ نہیں لکھ<br />
سکتا۔ اور اپ نے تو کمال حکایت بیان کی۔ دل عش عش کر<br />
اٹھتا ہے۔اسے پہلے پڑھا تو کئی باتیں ذہن میں ائیں لیکن<br />
اسے دوبارہ پڑھا اور پھر ایسا محسوس ہؤا کہ کچھ کہنے<br />
کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ اپ نے کوئی کونہ خالی نہ<br />
چھوڑا ہے۔ ویدی کا ویدان ہمارے اپنے خیال سے متعلق<br />
بھی یہی ہے۔ جب تک دنیا قائم ہے کوئی نہ کوئی گیانی<br />
کہیں نہ کہیں ایک ٹانگ پر کھڑا ہوتا رہے گا۔ اور شائید<br />
ذاتL باری تعالی بھی نہیں چاہتی کہ اذان کے ہوتے ہی<br />
سب :م⁄سیت: میں جا پڑیں۔ کچھ لوگ سیمنا گھروں میں<br />
بھی نظر اتے رہیں گے۔ہماری طرف سے بھرپور داد قبول<br />
کیجے۔ بہت ہی عمدہ تحریر ہے۔ اپ جیسے صاحبانL علم<br />
اس دنیا کا سرمایا ہیں، جسے بے قدرے لوگ صرف
عیاشی پر خرچ کرنا چاہتے ہیں۔ا پاک اپ کے علم اور<br />
صحت میں برکت عطا فرمائیں۔<br />
وی بی جی<br />
ابا جی کا ہم زاد<br />
اپریل<br />
2014 ,13<br />
اپ کی یہ شاندار تحریر پڑھی۔ بہت زوراور ہے اور اس<br />
میں اپ کا ایک نیا انداز نظر ایا۔ یا منفرد انداز کہہ لیجے۔<br />
یقین جانیئے کہ رشک ایا پڑھ کر اور دل سے داد نکلی۔ اپ<br />
نے ایک جگہ کہا کہ ہم کچھ زیادہ تعریف کر جاتے ہیں<br />
لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس تحریر کو ہی دیکھیئے۔ جتنی تعیف<br />
کی جائے کم ہے۔ اس موضوع کو اس انداس سے سوچنا<br />
ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ ہم ایسے کئی لوگ جب کسی<br />
مسئلہ میں ہوتے ہیں تو ویسا ہی کرنے کی کوشش کرتے<br />
ہیں جیسا کہ ان کے والد ایسے موقع پر کیا کرتے تھے،<br />
اور اگر کچھ لوگوں کو ایسا خیال نہیں ایا تو انہیں بھی ایسا<br />
ہی کرنا چاہیئے۔ یہ ہمارا خیال ہے اور ایسا ہی ہم نے اس<br />
تحریر سے بھی اخذ کیا ہے۔ اپ کی تحریر اگرچہ سوچنے<br />
پر مجبور کرتی ہے، اور ہر شخص اپنی سوچ کے حساب
سے نتیجہ یا نتائج اخذ کر سکتا ہے، لیکن ہمیں ایسا ہی<br />
محسوس ہؤا۔ ہمارے گھر میں کئی قسموں کے کردار تھے<br />
اور ہم انہی کو محسوس کرتے رہے۔ بابا، ماں، بہنیں،<br />
بھائی وغیرہ، لیکن دو ایسے کردار تھے جنہیں ہم نے<br />
کبھی محسوس نہیں کیا۔ اور وہ تھے ایک میاں اور ایک<br />
بیوی۔ یہ کردار پسL پردہ رہتے ہیں اور انسان کی شادی ہو<br />
جانے تک کبھی محسوس نہیں ہوتے۔ یا پھر ہمیں نہیں<br />
محسوس ہؤے۔ اپ نے کہاں سے بات شروع کی اور کہاں<br />
ل چھوڑی، قابل تحیسن ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد<br />
قبول کیجے۔ اس بات کا شکریہ بھی کہ ہمیں اپ کی تحریر<br />
کے توسط سے پتہ چل ہے کہ ہم بہت سے کام کیوں کرتے<br />
ہیں۔ ایک چھوٹی سی عرض بھی کرنا چاہیں گے کہ یا تو<br />
اپ نے :مقالموں: کو زیادہ توجہ نہیں دی یا پھر ہمیں<br />
افسانے اور کہانیاں وغیرہ پڑھنے کی عادت نہیں رہی۔ ہمیں<br />
مقالموں کو پڑھنے اور سمجھنے میں کچھ دقت ہوئی ہے۔<br />
یہ بات بیان کرنا اس لیئے ضروری سمجھا تاکہ اپ کے علم<br />
میں ہو کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہو سکتے ہیں جنہیں اس<br />
قسم کی مشکلت بھی پیش ا سکتی ہیں۔ایک بار پھر<br />
بھرپور داد کے ساتھ ۔<br />
وی بی جی
دو دھاری تلوار<br />
اپریل<br />
2014 ,09<br />
بہت جاندار تحریر ہے اور پھر اپ کا اندازL بیاں، منظر کشی<br />
بہت ہی جاندار اور خوبصورت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ<br />
ایسی تحریریں کردار سازی کے لیئے بہت ضروری ہیں۔ نہ<br />
صرف یہ کہ اچھے برے کی تمیز سکھاتی ہیں، بلکہ<br />
اچھائی کو پسند کرنے اور برائی سے نفرت کرنے پر<br />
مجبور کر دیتی ہیں۔ اپ کے اندازL بیاں مشکل پسندی سے<br />
دور ہے اس لیئے قاری کے ذہن پر اثر چھوڑتا ہے۔ اپ نے<br />
ڈارون کی بات کی، ہمارا تو خیال ہے کہ ان کے نظریہ میں<br />
ایک معمولی سی تبدلی کر لی جائے تو بالکل درست ہے۔<br />
اور وہ تبدیلی یہ ہے کہ نظریہ کی مشہور تصویر میں<br />
دکھائے گئے قطار میں موجود تمام کے تمام اراکین اپنا رخ<br />
موڑ کر پیچھے کی طرف کر لیں۔ انسان کی پریشان حال<br />
زندگی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اصل میں انسان ترقی کرتے<br />
کرتے بندر بن گئے ہیں۔ مغربی ممالک کے تیزی سے ترقی<br />
کرتے ہوئے لوگوں میں یہ ترقی صاف دکھائی بھی دیتی<br />
ہے۔ ان کی بڑھتی ہوئی معصومیت دیکھ کر ہمیں وہ جانور<br />
ہی لگنے لگ گئے ہیں۔اس وقت جو ڈارون کا نظریہ موجود<br />
ہے اس میں ایک سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر بندر
ترقی کر کہ انسان بنا ہے تو پھر ابھی تک ہماری دنیا میں<br />
اتنے بندر کیوں ہیں اور ان کی ترقی میں کیا رکاوٹ ہے؟<br />
ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ جانوروں کے خاندان ہوتے ہیں<br />
جیسے، گھوڑا، گدھا، خچر، زیبرا وغیرہ۔ خرگوش، چوہا،<br />
گلہری، نیول وغیرہ۔ ایسے ہی انسان کا خاندان بندروں کا<br />
ہی ہے، لیکن یہ علیحدہ نسل ہے۔ اور جس چیز نے انہیں<br />
اتنی ترقی دی ہے وہ صرف زبان ہے۔ جس نے انہیں ایک<br />
دوسرے کے تجربات سے بھی سیکھنے کی طاقت دی۔خیر،<br />
اپ کی تحریر کا صرف ایک حصہ ہے ڈارون کا نظریہ،<br />
اصل تو یہی ہے کہ انسان کو انسانوں اور جانوروں میں<br />
فرق رکھنا چاہیئے۔اپ کی تحریر بہت پسند ائی۔ بہت شکریہ<br />
کہ اپ یہاں رقم کر دیتے ہیں اور ہم فیضیاب ہو پاتے ہیں۔<br />
وی بی جی<br />
مارچ<br />
شیدا حرام دا<br />
2014 ,27<br />
آپ کا انشائیہ پڑھا اور کچھ سوچ کر بیٹھ گیا۔ یہ مسئلہ<br />
کوئی آج کا تو نہیں ہے۔ یہ ہمارے معاشرہ کا ازلی المیہ<br />
ہے۔ ہم نماز، روزے، حج کو اسلم کی ابتدا اور انتہا جانتے
ہیں اور اس پیمانہ پر ہر ایک کو پرکھتے ہیں۔ سو تو ٹھیک<br />
ہے لیکن جب ایمانداری، رشوت ، بد عنوانی، حرام خوری<br />
کا مرحلہ آتا ہے تو سوائے "میرے" ہر شخص مجرم ہوتا<br />
ہے اور گردن زدنی۔ اپنے گریبان میں کوئی جھانک کر نہیں<br />
دیکھتا۔ پچھلے دنوں ہندوستان گیا تو ایک بزرگ (جو کہ<br />
عمر بھر کچہری میں صدر قانونگو رہے ہیں اور رشوت پر<br />
گزارہ ہی نہیں کیا بلکہ مکان دوکان بنوائے ہوئے ہیں)<br />
سے میں ملنے گیا۔ وہ اپنے صاحبزادے کو سمجھا رہے<br />
تھے کہ دفتر نہ جایاکرو۔ جب دوسرے نہیں آتے تو تم کیوں<br />
جاتے ہو۔ بس پہلی تاریخ کو جا کر تنخواہ لے آیا کرو۔<br />
موصوف کے ہاتھ بھر سفید داڑھی ہے اور پنج وقتہ نماز<br />
پر سختی سے عامل ہیں ۔ میں نے جب ادب سے عرض کی<br />
کہ آپ اپنی اولد کو حرام کام کے لئے تاکید کر رہے ہیں تو<br />
الٹے مجھ پر بگڑ پڑے کہ دنیا کرتی ہے تو ہم کیوں نہ<br />
کریں۔ عرض کیا کہ دنیا زنا کرے گی تو آپ بھی کریں گے<br />
اور ۔۔۔۔۔ کھائے گی تو وہ آپ بھی کھائیں گے؟ صاحب وہ<br />
ایسے بکھرے کہ ا دے اور بندہ لے۔ میں نے اپنی عافیت<br />
اسی میں جانی کہ اٹھ کر چل جائوں۔اب امریکہ کی سنئے۔<br />
میں یہاں تقریبا پچاس سال سے مقیم ہوں۔ ا کو حاضر و<br />
ناظر جان کر کہتا ہوں کہ اس عرصہ میں نہ تو میں نے<br />
کسی کو ایک پیسہ رشوت دی اور نہ ایک پیسہ رشوت لی<br />
اور ا کے فضل سے سرکاری اور غیر سرکاری سارے
کام ہوتے چلے گئے اور آج بھی ہورہے ہیں۔ یہ ایک "کافر<br />
ملک" کا حال ہے اور وہ ایک "مسلم" مملکت کی کیفیت<br />
ہے۔ ببیں تفاوت رہ از کجاست تا بکجا۔<br />
۔سرور عالم راز<br />
اپ کی یہ تحریر کافی دن پہلے پڑھ لی تھی، لیکن اپ کی<br />
تحریرں کچھ ایسی ہوتی ہیں کہ اLن کا جھٹ سے جواب دینا<br />
نا انصافی معلوم ہوتا ہے۔ اسے تحمل سے پڑھنا، اس پر<br />
سوچتے رہنا اور پھر کہیں جا کر کچھ کہا جا سکتا ہے۔ ہم<br />
تو پڑھ کر ایسے جذباتی ہوئے تھے کہ اگر اسی وقت<br />
لکھنے بیٹھ جاتے تو جانے اس معاشرے پر کیا کیا لLکھ<br />
جاتے۔ بہت جاندار تحریر ہے اور اتنے بڑے معاشرتی<br />
مسائل کو اپ کا اس چھوٹی سی تحریر میں بیان کر دینا<br />
لئقL صد تحسین ہے۔ ہماری نا چیز داد قبول کیجے۔ اس<br />
: تحیر سے متعلق لکھنا تو بہت کچھ تھا کہ<br />
ہزار نکتہ باریک تر رموز ایں جا ہست<br />
لیکن اب قلم کو سنبھال لیا ہے ہم نے۔ اتنا کہنا چاہیں گے<br />
کہ ہمارے ہاں یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ تعلیم سے تہذیب<br />
اور کردار سازی ہوتی ہے۔ حالنکہ ہمارا خیال ہے کہ اب<br />
ایسا نہیں رہا۔ ہزاروں سال پہلے سے لے کر شائید تھوڑا
عرصہ پہلے یعنی شیخ سعدی مرحوم کے زمانے تک<br />
شائید، کردار سازی تعلیم کی اولین ترجیح ہوتی تھی۔ اب<br />
صرف رٹہ رہ گیا ہے۔ اتنی فضولیات تعلیم کا حصہ بن گئی<br />
ہے۔ کردار سازی کے لیئے چند گھLسی پ L ٹی حکایات پڑھا دی<br />
جاتی ہیں جن میں :پیاسا کوا: جب کنکریاں ڈالتا ہے تو<br />
ہمارا پہلی جماعت کا 6 سالہ بچہ بھی ہنستا ہے کہ کوا ایسا<br />
نہیں کر سکتا۔ پڑھ لLکھ لینے سے کچھ نہیں ہوتا، اہم یہ<br />
ہے کہ کیا پڑھا ہے۔ ہمارا تو خیال ہے کہ مسلمان سؤر بھی<br />
صرف اس لیئے نہیں کھاتا کہ کئی صدیوں سے نہیں کھایا<br />
اور اب کھا کر متلی ہو گی وگرنہ تو شراب و سود بھی<br />
حرام ہیں۔ اور ہمارا یہ خیال بھی ہے کہ اب صرف ادیب ہی<br />
یہ کوششیں کر رہے ہیں، اور انہیں بھی بہت کام کرنے کی<br />
ضرورت ہے۔<br />
ہم نے اپ کا بہت وقت لے لیا۔ جس پر معذرت چاہیں گے۔<br />
تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ۔۔<br />
وی بی جی<br />
عللتی استعارے<br />
جولئی<br />
2014 ,23
کچھ عرصہ غیر حاضر رہے۔ اپ جانتے ہی ہیں کہ رمضان<br />
میں ہم ایسوں کو قید ہی کر لیا جاتا ہے<br />
جناب کیا ہی اچھا مضمون ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور<br />
داد قبول کیجے۔ درست فرمایا اپ نے کہ اخلقی اور<br />
روحانی بیماریوں کی کسی کو فکر نہیں۔ ہم تو پہلے سے<br />
ہی قائل ہیں کہ اپ کی نظر بہت گہرائی میں معاشرتی رویوں<br />
پر ٹکی ہے۔ ماشا ا بہت وسعت دی ہے اپ کے خیال کو<br />
قدرت نے۔<br />
ویسے زیادہ تر یہ خودساختہ بیماریاں خواتین کو لحق<br />
ہوتی ہیں، لیکن کئی مرد حضرات بھی اس کا شکار ہو<br />
جاتے ہیں۔ ہر وقت یہی رونا روتے رہتے ہیں۔ ان سب<br />
بیماریوں کی اہم بات یہ ہوتی ہے کہ یہ کسی ڈاکٹر کو<br />
سمجھ نہیں اتیں اور ان میں افاقہ نہیں ہوتا۔ گھر میں اتنی<br />
اقسام کی دوائیاں ہوتی ہیں کہ توبہ اور ایک وقت میں<br />
کھانے کے بعد اتنی گولیاں کھائی جاتی ہیں کہ سالن کی<br />
بجائے، چند نان فقط گولیوں کے ساتھ کھائے جا سکتے<br />
ہیں۔ اگر کوئی ان کو یہ کہے کہ خدا نہ خواستہ اب وہ<br />
ہشاش بشاش نظر ا رہے ہیں تو وہ اس شخص کے دشمن<br />
ہو جاتے ہیں۔ ایک جیسے چند لوگ مل کر بیٹھ جاتے ہیں<br />
تو مرغوں کی طرح بیماریوں کا مقابلہ کراتے ہیں۔ ہر کوئی
دوسرے سے بڑھ کر اور حیران کن بیماری بتاتا ہے۔ ایک<br />
دوسرے کی بات سنتے کم ہیں اور دوسرے کی بات کاٹ کر<br />
اپنی بیماری بیان کرنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ انہیں<br />
دوسروں کی کچھ بیماریاں سن کر افسوس بھی ہوتا دکھائی<br />
دیتا ہے کہ یہ بیماری انہیں کیوں نہ ہوئی۔<br />
اخر میں بات اپ کے بیان پر ہی ختم ہوتی ہے کہ یہ خود<br />
ایک روحانی و اخلقی بیماری ہی ہے۔<br />
تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد<br />
وی بی جی<br />
آپ کی تحریر ہمیشہ کی طرح دلچسپ ہے۔ آپ کے پیر<br />
صاحب نے لوگوں کا جو تجزیہ کیا ہے وہ تو بالکل صحیح<br />
ہے لیکن اس صورت حال کا علج کیا ہے یہ نہ معلوم ہو<br />
سکا۔ ایک بات اور عرض کروں کہ پڑھنے کے بعد احساس<br />
تشنگی رہ گیا۔ ایک تو آپ کبھی کبھی پنجابی کے کچھ<br />
مخصوص الفاظ اور محاورے لکھ جاتے ہیں جن سے ہر<br />
شخص واقف نہیں ہے گو سیاق وسباق سے اکثر معنی اخذ<br />
کئے جا سکتے ہیں۔ دوسرے اس انشائیہ کا اختتام کسی<br />
نتیجہ پر قاری کو نہیں پہنچا سکا۔ یہ ممکن ہے کہ میرا<br />
تاثر بالکل ہی غلط ہو۔ اس صورت میں آپ سے معذرت کا
طالب ہوں۔<br />
باقی راوی سب چین بولتا ہے۔<br />
سرور عالم راز<br />
اردو انجمن پر باباجی مقصود حسنی کے دستیاب افسانے<br />
-١<br />
-٢<br />
-٣<br />
پٹھی بابا<br />
کریمو دو نمبری<br />
میں ابھی اسلم ہی تھا<br />
-٤<br />
جواب کا سکتہ<br />
-٥<br />
-٦<br />
-٧<br />
-٨<br />
-٩<br />
-١٠<br />
ماسٹر جی<br />
بڑے ابا<br />
گناہ گار<br />
انا کی تسکین<br />
چوتھی مرغی<br />
انگریزی فیل
-١١<br />
تنازعہ کے دروازے پر<br />
-١٢<br />
-١٣<br />
-١٤<br />
-١٦<br />
-١٥<br />
-١٧<br />
کامنا<br />
ابا جی کا ہم زاد<br />
کمل کہیں کا<br />
دو دھاری تلوار<br />
آوارہ الفاظ<br />
شیدا حرام دا<br />
١٨<br />
-١٩<br />
-٢٠<br />
زینہ<br />
ممتا عشق کی صلیب پر<br />
مائی جنتے زندہ باد<br />
-٢١<br />
-٢٢<br />
-٢٣<br />
-٢٥<br />
-٢٤<br />
حللہ<br />
بڑا آدمی<br />
من کا بوجھ<br />
آنچل جلتا رہے گا<br />
بیوہ طوائف<br />
جنگ ٢٦-
-٢٧<br />
-٢٨<br />
-٢٩<br />
-٣٠<br />
دو لقمے<br />
فقیر بابا<br />
بازگشت<br />
میری ناچیز بدعا<br />
-٣١<br />
-٣٣<br />
-٣٢<br />
دو منافق<br />
آخری کوشش<br />
معالجہ<br />
٣٤- ابھی وہ زندہ تھا<br />
-٣٥<br />
-٣٦<br />
سچائی کی زمین<br />
لروا اور انڈے بچے<br />
ان پڑھ ٣٧-<br />
٣٨- پاخانہ خور مخلوق<br />
-٣٩<br />
دائیں ہاتھ کا کھیل<br />
-٤٠<br />
-٤١<br />
-٤٢<br />
پنگا<br />
ا جانے<br />
وہ کون تھے
-٤٣<br />
-٤٤<br />
-٤٥<br />
دروازے سے دروازے تک<br />
یہ کوئی نئی بات نہ تھی<br />
اسے پیاسا ہی رہنا ہے<br />
-٤٦<br />
-٤٧<br />
-٤٨<br />
پہل قدم<br />
ادریس شرلی<br />
اسلم اگلی نشت پر<br />
-٤٩<br />
-٥٠<br />
-٥١<br />
-٥٢<br />
-٥٣<br />
موازنہ<br />
سرگوشی<br />
عللتی استعارے<br />
-٥٤<br />
-٥٥<br />
-٥٦<br />
-٥٧<br />
دوسری بار<br />
آخری کوشش<br />
چار چہرے<br />
بازگشت<br />
بیوہ طوائف<br />
کیچڑ کا کنول
درج بال تفصیلت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اردو<br />
انجمن کتنی امیر اور جاندار ہے۔ یہ مواد صرف ایک شخص<br />
سے متعلق ہے۔ اگر شخصی حوالہ سے مواد کی اصناف<br />
کے تحت جمع بندی ہو جائے تو مشرق و مغرب کی جامعات<br />
کو بہت سا معیاری مواد میسر آ جائے گا اور اس پر تحقیقی<br />
نوعیت کا کام کرنا آسان ہو جائے گا۔ اردو انجمن کا کوئی<br />
رکن بھی یہ کام کرنے کا بیڑا اٹھا سکتا ہے۔ بلشبہ اہل<br />
تحقیق اور اہل نقد پر یہ بہت بڑا احسان ہو گا۔<br />
محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سلم<br />
یہاں تو زیادہ تر ہمارے بیانات کو جمع کر دیا گیا ہے۔ اور<br />
ہمیں نہیں معلوم کہ یہ کوئی شرمندگی کی بات ہے یا نہیں،<br />
لیکن ہمارا حال اس تمام سلسہ کو دیکھنے کے بعد کچھ<br />
ایسا ہو رہا ہے، جیسے اچانک بلی کے بچے پر پیر ا گیا<br />
ہو۔ ہمیں سمجھ نہیں ائی کہ اپ کی تصنیفات پر ہم نے جو<br />
اپنا خیال ظاہر کیا ہے، اس کا تحقیق سے کیا تعلق ہو سکتا<br />
ہے۔ تحریر سے متعلق، ہم تو اپنے اوٹ پٹانگ خیالت<br />
چھوڑ جاتے ہیں جو ہمارے اپنے خیال کے مطابق
تصوراتی ذیادہ ہیں اور حقیقی کم۔ ان میں قابلL اعتماد<br />
سنجیدگی نہیں ہوتی۔<br />
ہمیں شرمندگی محسوس ہو رہی ہے کہ اپ نے اس پر اتنی<br />
محنت کی ہے، اور معلوم نہیں اس کا کیا فائدہ ہو سکتا ہو<br />
گا۔<br />
دعا گو<br />
وی بی جی<br />
----------------------------------------<br />
حوالہ جات<br />
[- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9023.0<br />
2- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7975.0<br />
3- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8365.0<br />
4- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9069.0<br />
5- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9044.0<br />
6- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9019.0<br />
7- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9000.0<br />
8- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8987.0
9- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8972.0<br />
10- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8952.0<br />
11- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8976.0<br />
12- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8944.0<br />
13- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8934.0<br />
14- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8916.0<br />
15- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8904.0<br />
16- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8895.0<br />
17- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8580.0<br />
18- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8673.0<br />
19- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8880.0<br />
20- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8885.0<br />
21- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8863.0<br />
22- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8753.0<br />
23- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8844.0<br />
24- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8840.0<br />
25- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?<br />
PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf57&topic=8809.0<br />
26- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?<br />
PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf57&topic=8808.0<br />
27- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?<br />
PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf57&topic=8841.0<br />
28-http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?<br />
PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf57&topic=8798.0<br />
29-http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?<br />
PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf57&topic=8794.0<br />
30- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?
PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf57&topic=8787.0<br />
31- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9097.0<br />
32-http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?<br />
topic=9162.msg56757[/size<br />
مقصود حسنی کی شعری و نثری تخلقات اور اردو انجن کے<br />
اہل نقد و نظر<br />
قاضی جرار حسنی<br />
لکھنا تو الگ' اس لکھے کو مختلف جگہوں سے اکٹھا<br />
کرنا' آسان کام نہیں۔ اردو انجمن ڈاٹ کام' بڑے سنجیدہ اور<br />
صاحب نظر کا ادبی پلیٹ فورم ہے۔ مقصود حسنی کے<br />
مزاح' شاعری' تصوف' ترجمہ اور تنقید پر ورقہ ورقہ<br />
الٹنے پلٹنے کے بعد' اہل قلم کی آرا جمع کرنے کی کوشش<br />
کی گئی ہے۔ کمی کوتاہی بعید از قیاس نہیں' اس کے لیے<br />
معذرت۔<br />
ساتھ میں حوالے بھی درج کر دیے ہیں تا کہ قاری کو'<br />
اصل تک رسائی میں آسانی رہے۔
قاضی جرار حسنی<br />
مقصود حسنی کا مزاح نگاری<br />
ایک دفع کا ذکر ہے<br />
مکرمی و محترمی حسنی صاحب: سلم علیکم<br />
مدت ہوئی کہ آشتی چشم وگوش ہے! کتنا عرصہ ہوگیا کہ<br />
آپ سے نیاز حاصل نہ کر سکا۔ اس زندگی اور اس کے<br />
خراج کا برا ہو کہ اپنے بیگانوں سے سلم دعا بھی اب ہونا<br />
مشکل ہوچل ہے۔ معذرت خواہ ہوں۔ امید ہے کہ اپ بعافیت<br />
ہوں گے۔ قلم کی شگفتگی تو بظاہر بدستور قایم ہے،ا<br />
سے دعا ہے کہ آپ بذات خود بھی حسب معمول شکفتہ<br />
ہوں۔ آپ کا انشائیہ حسب دستور سابق دلچسپ اور پر لطف<br />
ہے۔ پڑھتا رہا اور مزے لیتا رہا۔ اور جب "بے نکاحی"<br />
گالیوں تک پہنچا تو بے اختیار قہقہہ منھ سے نکل گیا۔<br />
کیوں صاحب یہ "نکاحی" گالیاں کیسی ہوتی ہیں؟ دو ایک<br />
مثالیں عنایت فرمائیں تاکہ فرق معلوم ہو سکے۔ آپ کی
زبان میں جا بجا پنجابی کا چٹخارہ لگا ہوتا ہے جو عجیب<br />
مزا دیتا ہے۔ پنجابی ویسے خاصی کھردری زبان ہے لیکن<br />
مزاح میں خوب کام آتی ہے۔ انشائیہ پر خادم کی داد حاضر<br />
ہے۔ اسی طرح لکھتے رہئے اور ثواب دارین سمیٹتے<br />
رہئے۔ اور ہاں "نکاحی" اور "بے نکاحی" گالیوں کا فرق<br />
!ضرور بتائیں<br />
سرور عالم راز<br />
محاورہ پیٹ سے ہونا کے حقیقی معنی<br />
عزیز مکرم حسنی صاحب: سلم مسنون<br />
آپ کا مضمون پڑھ تو لیا تھا لیکن لکھنے کا موقع نہ مل<br />
سکا۔ معذرت خواہ ہوں۔ آپ کے مضامین نہایت دلچسپ اور<br />
پر لطف ہوتے ہیں۔ خاص طور سے جہاں آپ پنجابی کا ہلکا<br />
سا لشکارا لگاتے ہیں یا کوئی کہاوت لکھتے ہیں۔ اب<br />
کہاوت کہنے اور سمجھنے والے خود افسانہ ہوتے جا رہے<br />
ہیں۔ میں نے حال ہی میں "ہماری کہاوتیں" کے عنوان
سے ایک کتاب تالیف کی ہےجو راولپنڈی سے شائع ہونے<br />
والی ہے۔ اس کی ترویج کے دوران اندازہ ہوا کہ کہاوتیں<br />
اب بڑے بوڑھوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہیں اور<br />
کوئی دن جاتا ہے جب یہ ہمارے ادبی منظر نامے سے<br />
بالکل غائب ہو جائیں گی۔ اور یہ بہت بڑا سانحہ ہو گا۔ نئی<br />
نسل تو ان سے بالکل ہی بیگانہ ہے۔ اس صورت حال کا<br />
کوئی علج بھی نہیں ہے۔<br />
زمین چمن گل کھلتی ہے کیا کیا<br />
دکھاتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے<br />
ایک کامیاب اور دلکش تحریر پر میری داد قبول کیجئے۔<br />
باقی راوی سب چین بولتا ہے۔<br />
سرور عالم راز<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8709.0<br />
آزاد معاشرے اہل علم اور صعوبت کی جندریاں
جناب محترم ڈاکٹر حسنی صاحب<br />
سلم مسنون پیشL خدمت ہے<br />
جناب عالی L آپ کے قلم کی مار اہلL قلم کے لئے باعثL ترقªی<br />
ء فہم و دانش ہے ، کس محبت اور خوبصورتی سے آپ<br />
نے قلم کی بناوٹ سے لیکر اسکی وجہL تخیلق اور ذمہ<br />
داری پر روشنی ڈالی یقیناøبہت پر مغز باکمال تحریر ہے<br />
جسے طنز و مزاح کے ساتھ مگر پرفکر انداز میں آپ نے<br />
پیش کیا اور قارئین کی توجہ حاصل کرنا چاہی ، میری<br />
جانب سے داد اور شکریہ اس دلکش تحریر سے مستفید<br />
فرمانے کے لئے قبول فرمائیے ، اس ضمن میں آپ کی اور<br />
قارئین کرام کی توجہ بھی چاہوں گا کہ آج ہم جس دور سے<br />
گزر رہے ہیں اس میں قلم تو زندگیوں سے تقریباøنکل ہی<br />
چکا ہے الª دیہاتوں میں مگر پین بال پین پینسل بھی نکلتی<br />
جارہی ہے ، ہم ڈیجیٹل پین استعمال کرنے لگے ہیں<br />
الیکٹرونکس پین سوفٹ ویئر کی بورڈز اور مزید آگے ہی<br />
آگے بڑھ رہے ہیں اب ایسا وقت آنے وال ہے یا تجرباتی<br />
طور پر آچکا ہے کہ جس میں آپ بات کریں گے اور<br />
کمپیوٹر صاحب یا رائیٹنگ ڈیوائس آپ کی بات کو اسکرین<br />
پر ٹائیپ کردے گی آپ چاہے کسی بھی زبان کے بولنے<br />
والے کیوں نہ ہوں تو قلم کی تو ہو گئی چھٹªی ۔۔۔ کسی<br />
زمانے میں پرندوں کے پر اور روشنائی کی مدد سے کاغذ
پر لکھی جانے والے محبت نامے اب ایس ایم ایس کے<br />
ذریعے ہوا کے پروں پر سوار ہو کر الیکٹرانک قلم سے دل<br />
کا حال محبوب کو جب سناتے ہیں تو چند سیکنڈ لگتے ہیں<br />
دونوں طرف کی آگ کے شعلے ایک دوسرے کو لپیٹ لیتے<br />
ہیں ، پرانے وقتوں میں پاگل ہونے والے کو ذرا وقت لگتا<br />
تھا اب تو لمحے لگتے ہیں مر مٹنے کے لئے دیوانہ ہو<br />
جانے کے لئے پاگل بن جانے کے لئے کبوتر کی بھی چھٹªی<br />
قلم کی بھی چھٹªی کاغذ کی بھی چھٹªی وقت کی بھی چھٹªی<br />
لمحوں میں نفرت کی مار لمحوں میں محبت کی بانہوں کے<br />
ہار دلوں کی جیت لمحوں میں دنیا اتھل پتھل ہونے میں<br />
صرف چند لمحے ادھر کی دنیا ادھر بیچ میں سیٹلئیٹ<br />
سسٹم محکمہ ء پیغام رساں عرف (ٹیلی کمیونیکیشن<br />
(سسٹم<br />
نہ وہ عاشق نہ وہ معشوق نہ وہ خون سے لکھی تحریریں<br />
نہ وہ پیغام رساں کبوتر نہ وہ انتظار نہ وہ بے قراری نہ وہ<br />
پیار نہ وہ قلم نہ وہ محبوب نہ وہ محب سب ڈیجیٹل ہے<br />
سب الیکٹرونک کی دنیا کا کمال ہے محبت بھی الیکٹرانک<br />
نفرت بھی الیکٹرونک چاہت بھی الیکڑونک بے قراری بھی<br />
الیکٹرونک رشتے بھی الیکٹرونک ، غم بھی الیکٹرونگ<br />
روگ بھی الیکٹرونک وفا بھی الیکٹرونک بے وفائی بھی
الیکٹرونک جدائی بھی الیکٹرونک<br />
شاعری بھی اب کچھ اس طرح ہو گی جسے محمد رفیع<br />
مرحوم صاحب کچھ یوں فرما تے<br />
ایس ایم ایس جو کئے تمھاری یاد میں<br />
بیلنس نہیں تھا وہ پینڈنگ چلے گئے<br />
اپ لوڈنگ سے میرا ریچارج سیل ہوا<br />
میسج مل کہ تم کسی اور کے ہو گئے<br />
صاحب جاری رکھئے ا کرے زورL قلم اور زیادہ<br />
اسماعیل اعجاز<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8439.0<br />
قصہ زہرا بٹیا سے ملقات کا<br />
السلم علیکم
مجھے علم نہیں ہے کہ محترمہ زھرا کون ہیں، قرین قیاس<br />
یہی ہے کہ انکا تعلق بزم سے ہوسکتا ہے۔ ملقات کی<br />
روداد میں گھریلو ماحول کی عکاسی بہت عمدگی سے کی<br />
گی ہے، اور یہ وہ کہانی ہے جو گھر گھر کی ہے۔ اہل خانہ<br />
پر گھبراہٹ کا عالم اور اندیشہ ہاے دور دراز، گھر کے<br />
سربراہ کی واقعی جان پر بن آتی ہے۔ ایک لطیف تحریر<br />
جس سے لطف اندوز ہرنے کا حق ہر قاری کو ہے<br />
مخلص<br />
خلش<br />
عزیز مکرم حسنی صاحب: سلم مسنون<br />
آپ کا انشائیہ حسب معمول نہایت دلچسپ اور شگفتہ تھا۔<br />
پڑھ کر لطف آ گیا۔ اس زندگی کی بھاگ دوڑ اور گھما گھمی<br />
میں چند لمحات ہنسنے کے مل جائیں تو ا کا شکر ادا<br />
کرنا چاہئے۔ ہاں یہ پڑھ کرانتہائی حیرت ہوئی کہ زہرا<br />
صاحبہ برقعہ میں آئین! یا میرا چشمہ ہی خراب ہو گیا ہے؟
ایک نہایت پر لطف اور دل پذیر تحریر کے لئے داد قبول<br />
کیجئے۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔<br />
سرور عالم راز<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8318.0<br />
ہدایت نامہ خاوند<br />
محترم مقصود حسنی صاحب، سلم۔<br />
آپ کا عنایت کردہ ہدایت نامہ توجہ سے پڑھا اور اس سے<br />
محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ بہت ہی خوبصورتی سے آپ<br />
نے سب ذمہ دااریاں قبول کرتے ہوئے معاملے کی سچائی<br />
کو سفرL ازدواج کے پرانے اور نئے مسافروں کے سامنے<br />
رکھا ہے اور صدقہL جاریہ کا ثواب لوٹ لیا ہے :)۔<br />
تخلیق کی عمدگی پر داد اور یہاں پیش کرنے پر شکریہ<br />
قبول کیجیے اور محفل کو یوں ہی رونق بخشتے رہیے۔
احقر<br />
عامر عباس<br />
عزیز مکرم حسنی صاحب:سلم مسنون<br />
آپ کا انشائیہ پڑھا اور محظوظ و مستفید ہوا۔ جب سب کچھ<br />
پڑھ چکا تو گریبان میں جھانک کر دیکھا اور اس کے بعد<br />
خاموشی میں ہی بہتری نظر آئی۔ صاحب! اتنی ذمہ داریاں<br />
نبھانے سے بہتر تو یہ ہے کہ آدمی شادی ہی نہ کرے! بہر<br />
کیف آپ کی انشا پردازی کا یہ مضمون بہت اچھا نمونہ ہے۔<br />
اب یہ نہیں معلوم کہ جتنا اچھا مضمون ہے اتنا ہی اچھا اس<br />
پر عمل بھی ہے یا آج کل کے مولوی صاحب کی طرح<br />
لوگوں سے درود شریف پڑھنے کی تاکید کر کے خود<br />
چائے پینے کا شغل پسند ہے۔ ہمارے بچپن میں مسجد کے<br />
مولوی صاحب میلد شریف پڑھتے وقت بار بار لوگوں سے<br />
کہتے تھے کہ "بھائیو، آپ زور زور سے درود شریف<br />
پڑھیں ، تب تک میں چائے کا ایک آدھ گھونٹ لے لوں"۔<br />
مذاق برطرف انشائیوں کا سلسلہ جاری رکھیں۔ اور ثواب<br />
دارین حاصل کریں۔
باقی راوی سب چین بولتا ہے۔<br />
سرور عالم راز<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8315.0<br />
مشتری ہوشیآر باش<br />
سلم<br />
بہت خوب تحریر، حقیقت سے آنکھیں چرانا ہی حقیقت ہے<br />
خلش<br />
مکرمی بندہ حسنی صاحب: سلم مسنون<br />
آپ کا یہ نہایت دلچسپ انشائیہ پڑھا اور بہت محظوظ و<br />
مستفید ہوا۔ جب اس کے اصول کا خود پر اطلق کیا تو
اتنے نام اور خطاب نظر آئے کہ اگر ان کا اعلن کر دوں تو<br />
دنیا اور عاقبت دونوں میں خوار ہوں۔ سو خاموشی سے<br />
سر جھکا کر یہ خط لکھنے بیٹھ گیا ۔ انشا ئیہ بہت مزیدار<br />
ہے شاید اس لئے کہ حقیقت پر مبنی ہے۔ اس آئنیہ میں<br />
سب اپنی صورت دیکھ سکتے ہیں۔ بہت شکریہ مضمون<br />
عنایت کرنے کا۔<br />
باقی راوی سب چین بولتا ہے۔<br />
سرور عالم راز<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8277.0<br />
میری ناچیز بدعا<br />
محترمی حسنی صاحب : سلم مسنون<br />
آپ کے انشائیے پر لطف ہوتے ہیں۔ خصوصا اس لئے بھی<br />
کہ آپ ان میں اپنی طرف کی یا پنجابی کی معرور عوامی<br />
اصطلحات (میں تو انہیں یہی سمجھتا ہوں۔ ہو سکتا ہوں<br />
کہ غلطی پر ہوں) استعمال کرتے ہیں جن کامطلب سر
کھجانے کے بعد آدھا پونا سمجھ میں آ ہی جاتی ہے جیسے<br />
ادھ گھر والی یا کھرک۔ یا ایم بی بی ایس۔ اس میں تو کوئی<br />
شک نہیں کہ کھرک جیسا با مزہ مرض ابھی تک جدید<br />
سائنس نے ایجاد نہیں کیا ہے۔ والللہ بعض اوقات تو جی<br />
چاہتا ہے کہ یہ مشغلہ جاری رہے اور تا قیامت جاری رہے۔<br />
اس سے یہ فائدہ بھی ہے کہ صور کی آواز کو پس پشت<br />
ڈال کر ہم :کھرک اندازی: میں مشغول رہیں گے۔ ا ا<br />
خیر سل۔<br />
لکھتے رہئے اور شغل جاری رکھئے۔ باقی راوی سب چین<br />
بولتا ہے<br />
سرور عالم راز<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8069.0<br />
لٹھی والے کی بھینس<br />
مکرم بندہ جناب حسنی صاحب: سلم شوق<br />
خدا گواہ ہے کہ اردو انجمن نہایت خوش قسمت ہے کہ اس
کو بیک وقت آپ اور اعجاز خیال صاحب جیسے انشائیہ<br />
نگار مل گئے ۔ آپ دوسری محفلوں کو دیکھیں تو قحط<br />
الرجال کی کیفیت طاری معلوم ہوتی ہے۔ ویسے بھی اردو<br />
دنیا میں نثرنگاری اور نثر نگاروں کاکال پڑا ہوا ہے۔ انجمن<br />
آپ دونوں کی احسان مند ہے اور شکرگزار بھی۔ کیا ہی<br />
اچھا ہو کہ آپ دونوں احباب اپنے انشائیوں پر نظر ثانی کر<br />
کے اور انھیں مزید نکھار کے کتابی شکل میں اشاعت کی<br />
فکر کریں۔ کیا خیال ہے آپ دونوں کا؟<br />
باقی راوی سب چین بولتا ہے۔<br />
سرورعالم راز<br />
جناب محترم ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب ، جناب محترم<br />
سرور عالم راز سرور صاحب اور صاحبانL محفل ،عید<br />
مبارک کے ساتھ ساتھ آداب عرض ہیں<br />
جنابL عالی کچھ تاخیر سے حاضر ہوا مگر جیسے جیسے<br />
آپ کی تحریر پڑھتا گیا ہنسی کا ضط کرنا ناگزیر ہوتا چل<br />
گیا اور آخر میں میری حالت پاکستان میں کسی زمانے میں<br />
جی ٹی روڈ پر چلنے والی اس کھچاڑا جی ٹی ایس
) گورننمٹ ٹرانسپورٹ سروس)<br />
کی طرح ہوگئی جو رک جانے کے بعد بھی ہلتی رہتی تھی ،<br />
بڑی دیر تک لطف اندوز ہونے کے بعد سوچا اپنی اندرونی<br />
کیفیت کا اظہار کر ہی دیا جائے<br />
وہ کہتے ہیں ناں کہ کہ جس سے پیار ہوجائے تو اس کا<br />
اظہار کر دو کہ مبادا دیر نہ ہو جائے<br />
تو جناب ڈاکٹر صاحب میری جانب سے ڈھیروں داد آپ کے<br />
قلم کے کمال کی نذر کہ جس سے چہروں پر مسکراہٹیں<br />
بکھر جائیں<br />
اور آخر میں جناب محترم سرور عالم راز صاحب کا<br />
شکرگزار ہوں کہ مجھے عزªت عطا فرمائی<br />
ا آپ سبھی کو دونوں جہانوں کی عزªتیں عطا فرمائے<br />
ممنون<br />
اسماعیل اعجاز<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7963.0
انشورنس والے اور میں اور تو کا فلسفہ<br />
! عزیز گرامی حسنی صاحب :سلم شوق<br />
اپ کا انشائیہ پڑھ کر مزا آ گیا۔ کاش آپ اپنی اس صلحیت<br />
پر مزید محنت کریں اور مزاح اور طنز کی دنیا میں ایک<br />
مقام بنا لیں۔ آپ کا قلم نہایت شگفتہ و شستہ ہے، خیال<br />
آرائی اور منظر کشی میں آپ ماہر ہیں،زبان و بیان بہت<br />
اچھے ہیں تو پھر دیر کس بات کی؟ میری مخلصانہ گزارش<br />
ہے کہ طنز ومزاح کی جانب سجنیدگی سے توجہ دیں اور<br />
اپنے انداز فکر و سخن کو نکھاریں۔ اردو میں طنز و مزاح<br />
بہت کم ہے کیونکہ ہماری زندگی اور معاشرہ خود درد و<br />
رنج اور استحصال کا مارا ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب انسان<br />
کی زندگی عذاب ہو تو اس کو ہنسی کیسے سوجھے گی؟<br />
اس حوالے سے مزاح نگار ایک رحمت بن جاتا ہے کیونکہ<br />
وہ لوگوں کو ہنساتا ہے اور سبق سکھاتا ہے۔ آپ کا انشائیہ<br />
صرف واپڈا کا انشائیہ نہیں ہے بلکہ ہر ایسے ادارہ اور<br />
ایسے لوگوں کا خاکہ ہے جنہوں نے عوام کی زندگی عذاب<br />
بنا رکھی ہے۔<br />
اچھے انشائیہ پر داد قبول کیجئے اور میری گزارش پر
ضرور سوچئے اور کام کیجئے۔ شکریہ ۔ باقی راوی سب<br />
چین بولتا ہے۔<br />
سرور عالم راز<br />
اس محبت اور توجہ کے لیے احسان مند ہوں۔ پچھلے<br />
تقریبا پچاس برس سے لکھنے پڑھنے اور پڑھانے سے<br />
رشتہ و تعلق ہے۔ بساط بھر لکھتا رہتا ہوں۔ کتابیں بھی<br />
شاءع ہوئ ہیں۔ رساءل وغیرہ میں بھی مواد شاءع ہوتا<br />
رہتا ہے۔ ابتدا افسانہ سے ہوئ۔ لسانیات اور غالب فیلڈ ہیں۔<br />
حال ہی میں ۔۔۔۔۔۔ زبان غالب کا لسانی و ساختیاتی<br />
مطالعہ ۔۔۔۔۔۔ کتاب شاءع ہوئ ہے۔ آپ کی توجہ میرے لیے<br />
بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ ا آپ کو خوش رکھے۔<br />
مقصود حسنی<br />
مکرم بندہ حسنی صاحب: سلم مسنون<br />
سبحان ا ! آپ غالبیات کے ماہر ہیں اور ہم مرزا نوشہ<br />
کے متوالے! انشا ا آپ سے استفادہ ضرور رہے گا۔ آپ<br />
کی کتاب غالبا پاکستان میں شائع ہوئی ہو گی۔ اگر ایسا ہے
تو اس کا حصول مشکل ہے۔ خیر کوئی بات نہیں۔ اگر نیٹ<br />
پر وہ کسی صورت میں دستیاب ہو تو ضرور بتائیں۔ محفل<br />
کے کچھ دوست اس کوحاصل کرنے کا شوق رکھتے ہیں۔<br />
آپ سے ایک گزارش ہے۔ غالب کے بہت سے اشعار معمے<br />
کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر آپ گاہے گاہے مرزا غالب کے<br />
ایسے اشعار کی تشریح سے محفل کو نوازتے رہیں تو بڑی<br />
عنایت ہو گی۔ غالب سے زیادہ شاید ہی کسی اور شاعر کی<br />
شرحیں لکھی گئی ہیں لیکن بہت سی باتیں اب تک پردہ خفا<br />
میں ہی ہیں۔ کیا آپ ہماری انجمن کے لئے یہ کام کرسکیں<br />
گے؟ پیشگی شکریہ قبول فرمائیں۔<br />
سرور عالم راز<br />
جناب محترم ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب<br />
سلم مسنون پیشL خدمت ہے<br />
بہت خوب تحریر ہے طنز و مزاح کا شہکار اور ساما Lن<br />
عبرتL غور و فکر اور اس میں آپ کا اندازL بیاں خوب ہے<br />
داد میری جانب سے قبول فرمائیے ،<br />
نیازمند
اسماعیل اعجاز<br />
شکریہ جناب<br />
ماہر تو نہیں کہہ سکتے ہاں البتہ کچھ مطالعے کی سعی کی<br />
ہے۔ غالب فکر کا شاعر ہے۔ دوسرا وہ تغلق کی طرح وقت<br />
سے پہلے پیدا ہو گیا تھا۔<br />
کیوں نہیں حضور کچھ ناکچھ عرض کرتا رہوں گا۔<br />
لسانیات غالب<br />
غالب اور اس کا عہد<br />
ایک کوئی اور کتاب نام یاد آ رہا‘ پہلے چھپ چکی ہیں۔<br />
فرہنگ غالب کمپوز ہو رہی ہے<br />
زبان غالب کا لسانی و تحقیقی مطالعہ۔۔۔۔۔۔ یہ ڈاکڑیٹ کا<br />
مقالہ تھا بھی ان شاءا اسی سال میں شاءع ہو جاءیں<br />
گے۔<br />
آپ کا ایڈریس میرے پاس نہیں ورنہ ڈاک سے بھیج دیتا۔<br />
ویسے سکربڈڈاٹکام پر کچھ مواد موجود ہے۔<br />
ایک بار پھر توجہ کے لیے احسان مند ہوں۔۔<br />
ا آپ کو سلمت رکھے۔
مقصود حسنی<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7974.0<br />
غیرملکی بداطواری دفتری اخلقیات اور برفی کی چاٹ<br />
مکرمی حسنی صاحب: سلم علیکم<br />
میرے اس خط کو نشانی سمجھ لیں کہ آپ کا انشائیہ میں<br />
نے مزے لے لے کر اور با ضابطہ عبرت پکڑپکڑ کر پڑھ<br />
لیا ہے۔ اگر انشائیہ کا تعلق آپ کے وطن سے مخصوص نہ<br />
ہوتا اور میں ہندوستان کا سابق شہری نہ ہوتا تو کچھ<br />
عرض کرتا لیکن تجربوں سے ظاہر ہوگیا ہے کہ ایسے<br />
نازک معاملت میں خاموشی اچھی ہوتی ہے۔ سو میری<br />
خاموشی قبول کیجئے اور ساتھ ہی داد بھی۔<br />
سرور عالم راز<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7961.0<br />
اس پرچم تلے
محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سلم<br />
خوب شگوفے ہیں جناب۔ ہم بھی اس ع⁄لم (ا⁄لم) کے سائے<br />
میں اپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ نصیحت تو انہیں حاصل کرنی<br />
چاہیئے جن کے جملہ حقوق ہنوز غیر محفوظ ہیں۔<br />
اچھا لگا پڑھ کر۔<br />
۔۔۔۔<br />
ایک اور بات قابلL ذکر ہے کہ اپ نے طوطے کو ت سے<br />
لکھ کر اس کی چونچ کے نقوش مٹا دیئے ہیں اور اس کا<br />
حلیہ بدل سا گیا ہے۔ یقین جانئیے ت سے لکھا ہؤا توتا تو<br />
ہمیں ہرا بھی نہیں دکھ رہا۔<br />
دعا گو<br />
وی بی جی<br />
محب مکرم حسنی صاحب: سلم مسنون<br />
ہماری طرف ایک محاورہ مستعمل ہے "ہر فن مول"۔ شاید
آپ نے بھی سنا ہوگا۔ سو آپ بھی "ہر فن مول" ہیں۔ کیا<br />
نظم، کیا غزل، کیا تحقیقی مضمون اور کیا انشائیہ اور اب<br />
کیا ہی لطیفے۔ ہر میدان میں آپ پورے ہیں۔ سبحان ا۔ دعا<br />
ہے کہ اپ اور آپ کا قلم دونوں اسی طرح چلتے رہیں اور<br />
ہم مستفید ہوتے رہیں۔ آپ کی یہ پھلجھڑیاں خوب ہیں۔<br />
"ڈانگر ڈاکٹر" والے لطیفے کا آخری جملہ پڑھ کر میں بے<br />
اختیار ہنس پڑا۔ یہ کہنا بالکل سچ ہے کہ انجمن کی رونق<br />
آپ جیسے لوگوں سے ہی قائم ہے۔ باقی راوی سب چین<br />
بولتا ہے۔<br />
سرور عالم راز<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9179.0<br />
تصوف<br />
میں ناہیں سبھ توں۔۔۔۔۔۔۔چند معروضات<br />
محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سلم<br />
معذرت چاہتے ہیں کہ اتنا وقت لیا۔ وجہ اپ جانتے ہی ہیں
کہ ایک تو مصروفیت اور پھر ایسے موضوع جن کو جتنا<br />
بھی وقت دیا جائے، وقت کی کمی ہی رہتی ہے۔ یہاں بھی<br />
کچھ ایسا ہی ہؤا ہے۔ یہ موضوع ایسا ہے کہ اس میں شاید<br />
ذیادہ کچھ کہہ نہ سکیں ہم۔<br />
پہلے تو اس عمدہ تحریر پر دل سے داد قبول کیجے۔ سالک<br />
کے لیئے لزم ہے کہ وہ اپنا اپ ختم کرے یہ سیڑھی کا پہل<br />
اور سب سے اہم زینہ ہے۔ امام غزالی رحمت ا علیہ تو<br />
اتنا بھی فرما گئے ہیں کہ بہتر تو یہ ہے کہ سالک یا تو<br />
شادی نہ کرے لیکن اگر شادی شدہ ہو تو اپنی بیوی بچوں<br />
سے الگ ہو جائے کیونکہ دنیا کی رغبت ان کی موجودگی<br />
میں انسان کے ساتھ ہی رہتی ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے<br />
تو ان کے حقوق کی نفی لزمی ہو جاتی ہے جو بہتر نہیں۔<br />
حضرت مجدد الف ثانی رحمت ا علیہ نے جب نظریہ<br />
وحدت الشہود کی بنیاد رکھی تو اسلم کی مکمل پابندی کو<br />
لزم قرار دیا۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں دنیاوی حقوق و<br />
فرائض سے بھی نبرد ازما ہونا پڑتا ہے جو کہ نہایت<br />
مشکل کام ہے۔ ان نظریات کے حامل ہونے کے باوجود پہل<br />
زینہ بغیر کسی ترمیم کے وہی رکھا گیا ہے، جسے اپ<br />
نے :میں ناہیں سبھ توں: میں بیان کیا ہے۔
ہماری عقل کے حساب سے :میں ناہیں سبھ توں: ایسا<br />
نظریہ ہے کہ جو وحدت الوجود اور وحدت الشہود ، دونوں<br />
صورتوں میں لزم ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی<br />
دنیا سے کنارہ کیا اور ا کو اکیلے میں پکارا، وہ یا تو<br />
ولی ہؤا یا نبی۔ اب چونکہ انبیا کا سلسلہ ختم ہؤا تو اولیا کا<br />
راستہ ہی یہی ہے۔ عام لوگوں کو بھی چاہیئے کہ کسی حد<br />
تک ا کو اکیلے میں پکاریں۔ :میں: کو ختم کریں اور :تو:<br />
کی تلش کریں۔<br />
اپ نے نہایت ہمیشہ کی طرح نہایت دقیق نقطہ کی طرف قلم<br />
دوڑایا ہے۔ اور نہایت خوبصورت تحریر پڑھنے کو ملی۔<br />
ایک بار پھر بھرپور داد قبول کیجے۔<br />
دعا گو<br />
وی بی جی<br />
محب مکرم حسنی صاحب: سلم مسنون<br />
آپ کا یہ انشائیہ بہت پہلے دیکھ لیا تھا۔ لکھنے کی ہمت نہ
ہوئی کہ اس موضوع پر میری معلومات صفر سے بھی کم<br />
ہے۔ وی بی جی آپ کی طرح صاحب علم ہیں سو ہر<br />
موضوع پر لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں۔ ان کے<br />
حواشی پڑھے تو خیال ہوا کہ کم سے کم رسید تو دے ہی<br />
دوں۔ اس کو انگلی کٹوا کر شہیدوں میں داخل بھی نہیں کہہ<br />
سکتا ہوں کیونکہ اس ضمن میں بھی بالکل پیدل ہوں، میرا<br />
اصول یہ ہے کہ جو میں نہیں جانتا اس میں خاموشی<br />
اختیار کروں اور سیکھنے کی کوشش کروں۔ وہ وحدت<br />
الوجود کا نطریہ ہو یو وحدت الشہود کی فکر میں ہر دو<br />
فلسفوں سے نا بلد ہوں۔ ویسے عقل یہ کہتی ہے کہ جو<br />
تعلیم یہ کہے کہ انسان دنیا چھوڑ کر بس ا کا ہی ہو رہے<br />
وہ نا قابل عمل ہے اور خلف فطرت بھی ہے۔ اسلم نے یہ<br />
تعلیم تو انبیا کو بھی نہیں دی۔ ان کے یہاں بھی بیوی بچے<br />
اور دنیا کی ذمہ داریاں تھیں۔ ایک بھی ایسا شخص کبھی<br />
نہیں رہا جو دنیا سے مکمل بے نیاز رہ سکا ہو۔ یہ تو<br />
مطلق نا ممکن ہے۔ اسلم نام ہی حقوق ا اور حقوق العباد<br />
میں توازن رکھنے اور ان کو اسی طرح ادا کرنے کا نام<br />
ہے۔ "میں نائیں، سبھ توں" سے اپنی انا کی نفی تو سمجھ<br />
میں آتی ہے لیکن دنیا کی نفی سمجھ میں نہیں آتی۔ بہر<br />
کیف یہ فلسفہ مجھ جیسے کم فہم اور کم علم کی دسترس<br />
سے ما ورا ہے۔<br />
آپ بہت اچھا لکھتے ہیں ۔ ا آپ کو قائم رکھے۔ باقی راوی
سب چین بولتا ہے۔<br />
سرور عالم راز<br />
جناب محترم ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب جناب محترم سرور<br />
عالم راز سرور صاحب جناب وی بی جی اور قارئین کرام<br />
آداب عرض ہیں<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
ڈاکٹر صاحب آپ کی تحریریں قابلL ستائش ہیں ما شاءا آپ<br />
کا خلوص آپ کی لگن اردو انجمن کے لئے بہت قیمتی<br />
سرمایا ہے ، ا آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ، جناب<br />
سرور عالم راز سرور صاحب کی بات سے سو فیصد اتفاق<br />
کرتے ہوئے یہی کہنا چاہوں گا کہ اسلم زندگی کے تمام<br />
شعبوں میں رہ کر اپنے اپنے مقام اور اپنی اپنی حیثیت میں<br />
جو جو ذمہ داریاں ہم سب پر عائید ہوتی ہیں انہیں انفرادی<br />
و اجتماعی زندگی میں رواج دینے کا نام ہے جس کی<br />
تعلیمات جنابL رسولL پاک علیہ صلو ۃ و سلم اور ان کے کم<br />
و بیش سوالکھ جاں نثاروں کی عملی زندگی سے ہمیں<br />
ملتی ہیں<br />
رحبانیت کا کہیں درس نہیں دیا گیا ال کہ جب فنیوں کا دور
شروع ہو جائے ان فتنوں سے بچنے کے لئے اس<br />
معاشرے سے کٹا جائے<br />
آپ تمام احباب کی دعاؤں کا طلبگار<br />
اسماعیل اعجاز<br />
محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سلم<br />
اپ نے واضح نہیں کیا کہ اپ کس سے مخاطب ہیں۔ اندازہ<br />
یہی ہے کہ اپ ہم سے فرما رہے ہیں سو ہم اسے پھر ایک<br />
دو بار غور سے پڑھ کر کچھ بات کہہ سکیں گے۔ ہمیں<br />
عموماø اپنی کم فہمی پر شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے سو<br />
معذرت چاہتے ہیں۔ ہم دوبارہ حاضر ہونگے۔<br />
دعا گو<br />
وی بی جی<br />
جناب محترم ڈاکٹر حسنی صاحب<br />
میری خوشنصیبی ہے کہ آپ صرف مجھ سے مخاطب ہیں<br />
جبکہ میں آپ سے وی بی جی سے اور جناب محترم سرور
عالم راز سرور صاحب کے ساتھ ساتھ قارئین کرام سے<br />
مخاطب ہوں بلکہ ساریL عالم L انسانیت سے مخاطب ہوں<br />
آپ نے فرمایا کہ<br />
اقتباس<br />
درج بال معروضات کے حوالہ سے‘ ذات کا تیاگ ممکن<br />
نہیں۔ یہ وتیرہ‘ اہل جاہ اور اہل ثروت کو کس طرح خوش آ<br />
سکتا ہے۔ حق اور انصاف کی باتیں‘ اور ا کے حکم کے<br />
خلف انجام پانے والے امور پر تنقید اور برآت‘ کسی<br />
بادشاہ یا اہل ثروت کو‘ کس طرح خوش آ سکتی ہے۔ صاف<br />
ظاہر ہے‘ ایسے لوگوں کو ظاہر پلیا جائے گا۔ بادشاہ یا اہل<br />
ثروت بھول جاتے ہیں‘ کہ میں ناہیں سب توں‘ کے حامل<br />
مر نہیں سکتے۔ دوسرا وہ پہلے ہی کب ہوتے ہیں۔ موت تو<br />
ہونے کو آتی ہے۔ میں کو موت آتی ہے‘ تو کے لیے موت<br />
نہیں۔ میں مخلوق ہے‘ تو مخلوق نہیں۔<br />
جناب وی بی جی نے فرمایا کہ<br />
اقتباس<br />
پہلے تو اس عمدہ تحریر پر دل سے داد قبول کیجے۔ سالک<br />
کے لیئے لزم ہے کہ وہ اپنا اپ ختم کرے یہ سیڑھی کا پہل<br />
اور سب سے اہم زینہ ہے۔ امام غزالی رحمت ا علیہ تو
اتنا بھی فرما گئے ہیں کہ بہتر تو یہ ہے کہ سالک یا تو<br />
شادی نہ کرے لیکن اگر شادی شدہ ہو تو اپنی بیوی بچوں<br />
سے الگ ہو جائے کیونکہ دنیا کی رغبت ان کی موجودگی<br />
میں انسان کے ساتھ ہی رہتی ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے<br />
تو ان کے حقوق کی نفی لزمی ہو جاتی ہے جو بہتر نہیں۔<br />
حضرت مجدد الف ثانی رحمت ا علیہ نے جب نظریہ<br />
وحدت الشہود کی بنیاد رکھی تو اسلم کی مکمل پابندی کو<br />
لزم قرار دیا۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں دنیاوی حقوق و<br />
فرائض سے بھی نبرد ازما ہونا پڑتا ہے جو کہ نہایت<br />
مشکل کام ہے۔ ان نظریات کے حامل ہونے کے باوجود پہل<br />
زینہ بغیر کسی ترمیم کے وہی رکھا گیا ہے، جسے اپ<br />
نے :میں ناہیں سبھ توں: میں بیان کیا ہے۔<br />
ہماری عقل کے حساب سے :میں ناہیں سبھ توں: ایسا<br />
نظریہ ہے کہ جو وحدت الوجود اور وحدت الشہود ، دونوں<br />
صورتوں میں لزم ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی<br />
دنیا سے کنارہ کیا اور ا کو اکیلے میں پکارا، وہ یا تو<br />
ولی ہؤا یا نبی۔ اب چونکہ انبیا کا سلسلہ ختم ہؤا تو اولیا کا<br />
راستہ ہی یہی ہے۔ عام لوگوں کو بھی چاہیئے کہ کسی حد<br />
تک ا کو اکیلے میں پکاریں۔ :میں: کو ختم کریں اور :تو:<br />
کی تلش کریں۔
جناب محترم سرور عالم راز سرور صاحب نے فرمایا کہ<br />
اقتباس<br />
محب مکرم حسنی صاحب: سلم مسنون<br />
آپ کا یہ انشائیہ بہت پہلے دیکھ لیا تھا۔ لکھنے کی ہمت نہ<br />
ہوئی کہ اس موضوع پر میری معلومات صفر سے بھی کم<br />
ہے۔ وی بی جی آپ کی طرح صاحب علم ہیں سو ہر<br />
موضوع پر لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں۔ ان کے<br />
حواشی پڑھے تو خیال ہوا کہ کم سے کم رسید تو دے ہی<br />
دوں۔ اس کو انگلی کٹوا کر شہیدوں میں داخل بھی نہیں کہہ<br />
سکتا ہوں کیونکہ اس ضمن میں بھی بالکل پیدل ہوں، میرا<br />
اصول یہ ہے کہ جو میں نہیں جانتا اس میں خاموشی<br />
اختیار کروں اور سیکھنے کی کوشش کروں۔ وہ وحدت<br />
الوجود کا نطریہ ہو یو وحدت الشہود کی فکر میں ہر دو<br />
فلسفوں سے نا بلد ہوں۔ ویسے عقل یہ کہتی ہے کہ جو<br />
تعلیم یہ کہے کہ انسان دنیا چھوڑ کر بس ا کا ہی ہو رہے<br />
وہ نا قابل عمل ہے اور خلف فطرت بھی ہے۔ اسلم نے یہ<br />
تعلیم تو انبیا کو بھی نہیں دی۔ ان کے یہاں بھی بیوی بچے<br />
اور دنیا کی ذمہ داریاں تھیں۔ ایک بھی ایسا شخص کبھی<br />
نہیں رہا جو دنیا سے مکمل بے نیاز رہ سکا ہو۔ یہ تو
مطلق نا ممکن ہے۔ اسلم نام ہی حقوق ا اور حقوق العباد<br />
میں توازن رکھنے اور ان کو اسی طرح ادا کرنے کا نام<br />
ہے۔ "میں نائیں، سبھ توں" سے اپنی انا کی نفی تو سمجھ<br />
میں آتی ہے لیکن دنیا کی نفی سمجھ میں نہیں آتی۔ بہر<br />
کیف یہ فلسفہ مجھ جیسے کم فہم اور کم علم کی دسترس<br />
سے ما ورا ہے۔<br />
آپ بہت اچھا لکھتے ہیں ۔ ا آپ کو قائم رکھے۔ باقی راوی<br />
سب چین بولتا ہے۔<br />
سرور عالم راز<br />
جس پہ میں نے یہ عرض کیا کہ<br />
اقتباس<br />
جناب محترم ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب جناب محترم سرور<br />
عالم راز سرور صاحب جناب وی بی جی اور قارئین کرام<br />
آداب عرض ہیں<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
ڈاکٹر صاحب آپ کی تحریریں قابلL ستائش ہیں ما شاءا آپ<br />
کا خلوص آپ کی لگن اردو انجمن کے لئے بہت قیمتی
سرمایا ہے ، ا آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ، جناب<br />
سرور عالم راز سرور صاحب کی بات سے سو فیصد اتفاق<br />
کرتے ہوئے یہی کہنا چاہوں گا کہ اسلم زندگی کے تمام<br />
شعبوں میں رہ کر اپنے اپنے مقام اور اپنی اپنی حیثیت میں<br />
جو جو ذمہ داریاں ہم سب پر عائید ہوتی ہیں انہیں انفرادی<br />
و اجتماعی زندگی میں رواج دینے کا نام ہے جس کی<br />
تعلیمات جنابL رسولL پاک علیہ صلو ۃ و سلم اور ان کے کم<br />
و بیش سوالکھ جاں نثاروں کی عملی زندگی سے ہمیں<br />
ملتی ہیں<br />
رحبانیت کا کہیں درس نہیں دیا گیا ال کہ جب فتنوں کا دور<br />
شروع ہو جائے ان فتنوں سے بچنے کے لئے اس<br />
معاشرے سے کٹا جائے<br />
آپ تمام احباب کی دعاؤں کا طلبگار<br />
میں نے جناب سرور عالم راز سرور صاحب کی تحریر اور<br />
جناب وی بی جی کی بات کو سامنے رکھ کر اپنی بات پیش<br />
کی بتائیے میں نے کیا برا کیا ، جو آپ صرف مجھ سے<br />
مخاطب ہوئے<br />
بہر حال آپ کا بےحد شکریہ<br />
اسماعیل اعجاز
محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سلم مکرر<br />
اصل میں غلطی ہم سے ہوئی ہے۔ ہمیں تو اپ جانتے ہی<br />
ہیں کہ جہاں تک جتنا اور جو سمجھ ائے اس پر اپنے<br />
خیالت کا اظہار کر دیتے ہین۔ ہؤا کچھ یوں، کہ اپ نے<br />
معروضات کی روشنی میں جو نتائج، تحریر میں اخذ کئیے<br />
ہیں ان سے ہمیں مکمل اتفاق نہیں تھا، یعنی کہ اہل جاہ و<br />
ثروت اور بادشاہ ہی کیوں، سبھی انسان کیوں نہیں۔ پھر<br />
کچھ غور کے بعد یہی سمجھ میں ایا کہ ظاہر ہے کہ ان کے<br />
لیئے فقر کا راستہ نسبتاø زیادہ مشکل ہے گو کہ سدھارتو<br />
جیسی مثالیں بھی ہمارے پاس ہیں۔ ایسی صورت میں ہمیں<br />
ذیادہ اہم اور خوبصورت بات :میں ناہیں سبھ توں: ہی لگی<br />
اور اس پر ہم نے اپنے خیالت بیان کر دیئے۔<br />
ہم نے اپنے بیان کو زیادہ واضح کر کہ نہیں لکھا کہ اس پر<br />
پہلے بھی اپ سے بات ہو چکی ہے۔ ہمیں اندازہ نہیں تھا<br />
کہ احباب ہمارا بیان بھی پڑھیں گے۔ احباب نے اپ کی<br />
تحریر لزماø پڑھی ہو گی، لیکن ہمارا بیان کچھ گمراہ کن<br />
ثابت ہؤا ہے۔ نتیجتاø بات یہاں ا کر اٹک گئی کہ دنیا سے<br />
تیاگ درست یا ممکن ہے کہ نہیں۔ اگرچہ ہم حضرت مجدد
الف ثانی رحمت ا علیہ کی تجدید کے بعد یہ سمجھتے<br />
ہیں کہ ممکن بھی ہے اور قابل عمل بھی ہے۔ باقی تو<br />
احباب ہی اس پر اپنی رائے دے سکتے ہیں۔<br />
دعا گو<br />
وی بی جی<br />
مقصود حسنی کے تراجم<br />
کلم: حضرت بو علی قلندر<br />
مکرم بندہ حسنی صاحب سلم مسنون<br />
حضرت بو علی قلندر کا کلم عطا کرنے کا بے حد شکریہ۔<br />
کاش یہ ترجمہ با وزن بھی ہوتا تو مزا دوبال ہو جاتا۔ خیر<br />
معنی قاری تک پہنچا دینا بھی بہت بڑا کام ہے۔ ہم اہل<br />
انجمن خوش قسمت ہیں کہ آپ کی ذات یہاں موجود ہے جو<br />
ایسے بے بہا کام انجام دیتی رہتی ہے۔ جزاک ا خیرا<br />
سرور عالم راز<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10160.0
ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب السلم علیکم<br />
بہترین نظم کا بہترین ترجمہ۔ ۔۔۔۔ یہی تو بدقسمتی ہے۔ کیا<br />
کہنے۔<br />
اپ کی تمام تحریریں جنھیں میں نے پڑھا کمال کا ہے<br />
صاحب۔ معلوماتی، تاریخی شاہکار، بہت خوب۔ ا اپ مزید<br />
توفتیق دے۔<br />
طالبL دعا<br />
کفیل احمد<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10128.0<br />
مقصود حسنی کی شاعری<br />
جب تک<br />
محترمی ڈاکٹر حسنی صاحب:آداب عرض<br />
آپ کی نثری نظم پڑھی اور مستفید ہوا۔ نثری نظم کی
ضرورت میری سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ نثری نظم دراصل<br />
اچھی نثر کو چھوٹے بڑے ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا<br />
دوسرا نام ہے۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔ مجھ کو آپ کی<br />
یہ نثری نظم اس لئے اچھی لگی کہ اس کا موضوع وقت<br />
کی پکار ہے۔ جس طرح ساری دنیا میں اور خاص طور<br />
سے دنیائے اسلم میں :سیٹھوں، وڈیروں: کے ہاتھوں<br />
عوام کا استحصال ہو رہا ہے وہ بہت عبرتناک ہے۔ افسوس<br />
کہ اس کا علج سمجھ میں نہیں آتا۔ ایک سوال دل میں اٹھتا<br />
ہے کہ اس قدر ظلم ہو رہا ہے تو وہ ہستی جس کو ہم :ا،<br />
خدا، بھگوان، گاڈ: کہتے ہیں کیوں خاموش ہے؟ اگر سب<br />
کچھ اس کے ہاتھ میں ہے تو پھر وہ کچھ کرتی کیوں نہیں؟<br />
آپ نے بھی اس پر سوچا ہوگا۔ مناسب جانیں تو اس پر<br />
لکھیں۔ شکریہ۔<br />
خادم<br />
مشیر شمسی<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8503.0<br />
صبح ہی سے<br />
!واہ... بہت عمدہ
فیصل فارانی<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8488.0<br />
نوحہ<br />
محترمی جناب حسنی صاحب :آداب عرض<br />
میں شاعر نہیں ہوں بس ادب کا شوق ضرور ہے مجھ کو۔<br />
اس لئے اگر کوئی غلط بات کہہ جائوں تو معاف کر دیجئے<br />
گا۔ آپ کی نظم "نوحہ" میری سمجھ میں نہیں آئی۔ ایسا<br />
محسوس ہوا جیسے اپ کا مطلب الفاظ کے پیچ و خم میں<br />
کہیں گم ہو گیا۔ کئی مرتبہ نظم پڑھی اور غور کیا لیکن بات<br />
پوری طرح واضح نہیں ہوئی۔۔ یہ ضرور میری کوتاہی ہے۔<br />
بڑی عنایت ہوگی اگر آپ اپنے خیال اور طرز بیان پر کچھ<br />
روشنی ڈآلیں۔ میرا خیال ہے کہ اس سے کچھ اور دوستوں<br />
کابھی فائدہ ہو گا۔ شکریہ پیشگی قبول کیجئے۔ آپ کی<br />
وضاحت کا انتظار رہے گا۔<br />
خادم : مشیر شمسی<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8504.0
سچ کے آنگن میں<br />
مکرم بندہ حسنی صاحب: سلم علیکم<br />
ایک مدت کے بعد آپ کی خدمت میں حاضر ہورہا ہوں۔ بہانہ<br />
کوئی نہیں ہے۔ بس زندگی جب جس کام کی مہلت دے دے<br />
وہی غنیمت ہے۔ انجمن آتا رہا ہوں، ادھر لکھنا پڑھنا پھر<br />
شروع کردیا ہے۔ آپ حال میں انجمن میں نظر نہیں آئے۔<br />
یقین ہے کہ اپنے ارادت مندوں سے خفا نہیں ہوئے ہوں<br />
گے۔ آپ کی انجمن کو اور اردو کوبہت ضرورت ہے۔<br />
نثرنگاری کا فن اب بہت مضمحل ہو گیا ہے۔ آپ جیسا<br />
لکھتے ہیں ویسا لکھنے والے اب خال خال رہ گئے ہیں۔<br />
سو اگر کوئی گستاخی ہو گئی ہو تو ازراہ بندہ نوازی<br />
درگذرکیجئے اور یہاں آنا جانا برابر قائم رکھئے۔ جزاک ا<br />
خیرا۔<br />
آج آپ کی تلش میں اس طرف نکل آیا تو یہ آزاد نظم نظر<br />
آئی۔ یقین جانئے کہ کئی مرتبہ اسے پڑھا اور بہت غور<br />
سے پڑھا۔ کچھ ا کا "انعام" ایسا مجھ پر ہے کہ آزاد<br />
شاعری بڑی مشکل سے ذہن میں اتر پاتی ہے۔ شاید یہ اس<br />
تربیت کا اثر ہے جو بچپن سے مجھ کو ملتی رہی ہے۔ بہر<br />
کیف میں کوشش تو بہت کرتا ہوں لیکن ہاتھ بہت کم آتا ہے<br />
اور مشکل سے آتا ہے۔ آپ کی نظم مختصر ہے لیکن میرے
لئے جوئے شیر بن کر رہ گئی ہے۔ جس طرح نظم شروع<br />
ہوئی ہے اور جس طرح اختتام کو پہنچی ہے وہ ایک الجھن<br />
میں ڈال گیا ہے۔ اگر آپ نظم کو نثر میں چند جملوں کے<br />
ذریعہ واضح کر دیں تو مجھ پر عنایت ہوگی۔ یہ کوئی مذاق<br />
یا طنز نہیں ہے بلکہ اظہار حقیقت ہے۔ کھلواڑ نہیں ہے<br />
بلکہ نظم کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش ہے۔ امید ہے<br />
کہ آپ توجہ فرمائیں گے۔ شکریہ<br />
سرور عالم راز<br />
استر<br />
gadhy ya goray ka bacha nahain hota balkah khachar male aur<br />
khachar female<br />
ke milap se paida hota hai. bala ka taqatwaar hota hai bara khata<br />
hai nichla nahain baithta.<br />
tikta nahain aur nahi tiknay daita.<br />
hirs issi se mamasal hai<br />
dr maqsood hasni<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9301.0<br />
میں نے دیکھا
مکرم بندہ جناب حسنی صاحب: سلم مسنون<br />
آزاد شاعری عام طور پر میرے سر پر سے گزر جاتی ہے۔<br />
جب تک میں اس کے تانے بانے سلجھاتا ہوں پچھلے<br />
پڑھے ہوئے مصرعے ذہن کی تہوں میں کہیں گم ہو جاتے<br />
ہیں اور میں پھر نظم پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش میں<br />
گرفتار ہو جاتا ہوں۔ آپ کی اس نظم کے مطالعہ میں ایسا<br />
صرف ایک بار ہوا اور میں جلد ہی منزل مقصود تک پہنچ<br />
گیا۔ یہ شاید اس لئے ہوا کہ آپ کی نظم پر دلسوزی اور<br />
خلوص دل کی مہر لگی ہوئی ہے جیسے آپ اپنی آپ بیتی<br />
بیان کر رہے ہوں۔ نظم پڑھ کر متاثر ہوا۔ نظم کا پیغام عام<br />
سہی لیکن اہم ضرور ہے۔ ہم اہل دنیا بے تحاشہ اہل اقتدار<br />
کی جانب بھاگتے ہیں اور اس تگ و دو میں بھول جاتے<br />
ہیں کہ دینے وال تو کوئی اور ہی ہے۔ ا رحم کرے۔ ایسے<br />
ہی لکھتے رہئے۔ ا آپ کو ہمت اور طاقت عطا فرمائے۔<br />
صلحیت اور توفیق سے تو اپ بھر پور ہیں ہی۔ باقی راوی<br />
سب چین بولتا ہے۔<br />
سرور عالم راز<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9132.0
حیرت تو یہ ہے<br />
جناب مقصود حسنی صاحب سلم مسنون<br />
واہ واہ بہت خوب چبھتی ہوئی نظم ہے۔ ا‡پ نے چہرہ کو<br />
گرد سے صاف کرنے کو کہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ<br />
ہمارا چہرہ اتنا مسخ ہو چکا ہے کہ اس کو صاف کرنے<br />
کی نہیں بلکہ ایک بڑے اپریشن کی ضرورت ہے کہ جس<br />
سے وہ چہرہ نکھرے جو کہ ہمارا اصلی اور بے مثالی<br />
چہرہ سامنے ا‡ئے۔<br />
ایک دفع پھر داد۔<br />
طالب دعا<br />
کفیل احمد<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9121.0<br />
دروازہ کھولو
جناب محترم ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب<br />
آپ کا یہ کلم پڑھن کے نال ہی دماغ کے بوہے پہ جینویں<br />
کسی نے آکر دستک دینڑ کے بجائے کسھن ماریا ،وجا جا<br />
کے ٹھا کرکے بڑا ای سواد آیا ، کیا ای بات ہے ہماری<br />
طرف سے ایس سوہنی تے من موہنی تحریر سے فیض یاب<br />
فرمانڑ کے واسطے چوہلیاں پرھ پرھ داد پیش ہےگی<br />
تواڈا چاہنے وال<br />
اسماعیل اعجاز<br />
عاری<br />
محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! اسلم علیکم<br />
اپ کی نظموں پر اج پہلی بار نظر پڑی۔ ہم نے اLنھیں بہت<br />
ہی فLکر انگیز اور ولولہ انگیز پایا۔ یہ نظم ہمیں بہت پسند<br />
ائی ہے۔ اگرچہ ہم اپ کے عLلم کے مقابلے میں شائید اLسے<br />
ان معنوں تک سمجھ نہ پائے ہوں۔ جہاں تک ہم سمجھے<br />
ہیں اپ اLس میں اLنسان سے مخاطL ب ہیں اور کہہ رہے ہیں
کہ اLنسان صرف قدرت کی عطا کی ہوئی چیزوں سے کچھ<br />
حاصل کرتا ہے۔ اگر اLس سے سب کچھ چھین لیا جائے تو<br />
اLنسان کے اپنے پاس کچھ بھی نہیں، فقط مٹی کا ڈھیر ہے۔<br />
اLنسان کو قدرت کی تراشی چیزیں بہت کچھ دیتی ہیں، لیکن<br />
اLنسان اLن مخلوقات کو کچھ نہیں دے سکتا۔ البتہ جبرائیل<br />
والی بات ہم سمجھ نہیں سکے ہیں اور اپنی کم عLلمی پر<br />
نادم ہیں۔<br />
اگر ہم سمجھنے میں کلی یا جزوی طور پر غلط ہوں تو<br />
مہربانی فرما کر اLس ناچیز کی بات پر خفا نہ ہوئیے گا۔<br />
ہمارا عLلم و ادراک فقط اLتنا ہی ہے، جL س پر ہم مجبور ہیں<br />
اور شرمسار بھی۔<br />
طالبL دعا<br />
وی بی جی<br />
tovajo ke liay ehsan'mand hoon.<br />
Allah aap ko khush rahe<br />
jald hi tafsilun arz karne ki koshesh
karoon ga<br />
lane lay janay ka kaam jabreel hi karta<br />
hai.<br />
aql-e-kul bhi maroof hai<br />
adami bila aql kaam chala rara hai<br />
natijatun jo ho raha hai samnay hai<br />
dr maqsood hasni<br />
محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سلم مسنون<br />
شکر گزار تو ہم ہیں کہ اپ نے ہماری الجھن دور کی اور<br />
ہمیں اLس نظم کا صحیح معنوں میں مزا لینے اور سمجھنے<br />
میں مدد دی۔ اپ کی اس بات<br />
aql-e-kul bhi maroof hai<br />
نے بات واضح کر دی ہے اور ہمارے عLلم میں اضافے کا
باعث بھی کیا۔<br />
شکریہ اور دعاؤں کے ساتھ<br />
خاکسار<br />
وی بی جی<br />
ایندھن<br />
ڈاکٹر صاحب ! خوب نظم ہے<br />
ایک سطر کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں , کیا مفہوم<br />
?کے اعتبار سے یہ یوں ہی ہے نا<br />
کر) سکنے کی منزل سے دور کھڑا)<br />
سمندر میں نئے رنگوں کا پانی چھوڑ آیا ہوں
میں اس کی آنکھ میں اپنی نشانی چھوڑ آیا ہوں<br />
فیصل فارانی<br />
bari bari meharbani janab<br />
کر) سکنے کی منزل سے دور کھڑا)<br />
aap darust samjhe hain<br />
dr maqsood hasni<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8492.0<br />
Eak Nasri Ghazl<br />
بروز: جون 10:28:33 2009, 11, شام<br />
janaab moHtaram Dr.maqsood hasni SaaHeb<br />
aadaab arz haiN<br />
mujhe paihlee baar naCree Ghazal paRhne kaa<br />
sharf HaaSil huwaa hai ,Hayeraan bhee hooN
pareshaan bhee hooN ,baRee zor kee haNsee<br />
bhee aarahee hai :laugh:<br />
mu'aaf keejiye gaa ,<br />
meree jaanib se bohot see daad aap kee<br />
Khidmat meN ,aur SaaHeb e ilm Hazraat kee<br />
aaraa aur nazar e inaayat kaa intizaar bhee keh<br />
is Sinf aur iss ke Haawaale se<br />
kuchh seekhne sikhaane ke amal ko isteHkaam<br />
aur faroGh HaaSil ho<br />
niyaaz mand<br />
Ismaa'eel Aijaaz<br />
muHtaramee Hasni SaaHeb: tasleemaat!<br />
sab se pehle to aap kaa Urdu Anjuman meN<br />
Khair-maqdam kartaa hooN. aap se guzaarish<br />
hai keh aate raheN. aap ko yahaaN ke dost aur<br />
maau,Hol donoN hee pasand aaYeN ge. inshaa
Allah. agar aap Jaan Pehchaan ke baab meN<br />
apnaa ta,a'aruf likh deN to nawaazish ho gee.<br />
aap kaa kalaam dekhaa. Khayaal SaaHeb se<br />
maiN muttafiq hooN. aaj se qabl aazaad<br />
naz^m, nacree naz^m, Ghazal-e-mu,a'rraa to<br />
naam sune the lekin Nacree Ghazal nah<br />
kaheeN sunee thee aur nah hee naz^ar se<br />
guzree thee. aap kee i'naayat se ma'loom<br />
huwaa keh aisee bhee koyee Sinf-e-suKhan<br />
hai! ab aap se ek guzaarish hai.<br />
har Sinf-e-suKhan ke kuchh uSool hote haiN jin<br />
kee bunyaad par us ke likhne waale us kee<br />
pairawee karte haiN aur likhte haiN. aap se<br />
iltimaas hai keh aap Nacree Ghazal ke<br />
bunyaadee uSool aur qawaaneen yahaaN likh<br />
deN taa.k log aap kee taKhleeqaat ko samajh<br />
aur parakh sakeN. maujoodah Soorat meN
chooN.k sab hee (aap ke i'laawah) is se naawaaqif<br />
haiN is liYe kisee ke liYe kuchh likhnaa<br />
mumkin naheeN hai. ummeed hai keh aap<br />
hameN apne Khayaalaat se sarfaraaz<br />
farmaaYeN ge. shukriyah.<br />
Sarwar A. Raz<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=3717.0<br />
مرے آگے<br />
بازییچہءاسہال ہے دنیا مرے آگے<br />
بہتا ہے شب و روز دریا مرے آگے<br />
گو ساس کو جنبش نہیں سالوں میں تو دم ہے<br />
رہنے دو ابھی مرچوں کا کونڈا مرے آگے<br />
شوہر ہوں سامان اٹھائ ہے مرا کام<br />
گدھے کو برا کہتی ہے زوجہ مرے آگے
پھر دیکھیے طور چھترافشانی اغیار<br />
رکھ دے کوئ مجنوں کا چہرہ مرے آگے<br />
ہے موج میں وہ زن کاش یہی ہوتا رہے<br />
ہو دریا اس کے پیچھے موقع مرے آگے<br />
(غالب سے معذرت کے ساتھ)<br />
سلم<br />
نظم کے اخر میں قوسین میں اپکی کردہ معذرت غالب تک<br />
کیسے پہونجائی جائے۔ چلیے اپ نے ھمت تو کی، اسی کی<br />
داد وصول کیجئے<br />
مخلص<br />
خلش<br />
مقصود حسنی کی تنقئد<br />
غزالی اور اقبال کی فکر۔۔۔۔۔۔ایک جائزہ
مکرم بندہ حسنی صاحب: سلم مسنون<br />
آپ کے مضامین پڑھ کر دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔ معلوم ہوتا<br />
ہے کہ آپ کا مطالعہ کس قدر وسیع اور عمیق ہے۔ کتابیں<br />
پڑھ لینا اور بات ہے اور اس مطالعہ سے کتابوں کا نچوڑ<br />
نکال لینا اور بات ہے۔ اس سے قبل میں نے گزارش کی<br />
تھی کہ آپ کے مضامین کتابی شکل میں شائع ہونے<br />
چاہئیں۔ اب پھر اسی بات کا اعادہ کرتا ہوں۔ ایسا نہ ہوا تو<br />
یہ بیش قیمت سرمایہ ضائع ہو جائے گا۔ اب ایسی چیزیں<br />
پڑھنے والے اور ان پر لکھنے والے خال خال رہ گئے ہیں۔<br />
جو چیز محفوظ ہوجائے اس کو غنیمت جاننا چاہئے۔ آپ<br />
اس جانب بہت سنجید گی سے سوچیں۔ انشا ا اس طرز<br />
فکر کے اچھے نتائج ظاہر ہو ں گے۔ باقی راوی سب چین<br />
بولتا ہے۔<br />
سرور عالم راز<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8661.0<br />
اقبال کا فلسفہءخودی
محترمی حسنی صاحب: سلم مسنون<br />
آپ کے مضامین جب جب پڑھتا ہوں یہ احساس بڑھتا جاتا<br />
ہے کہ ان کو ایک کتاب کی شکل میں جمع کر کے شائع<br />
کرانا چاہئے۔ کیا کبھی آپ نے اس بارے میں سوچا ہے؟ آپ<br />
کے خیال و بیان میں جو ندرت وانفرادیت ہے وہ بہت کم<br />
لوگوں میں نظر آتی ہے۔ خودی پر اس قدر لکھا جا چکا<br />
ہے کہ ا اکبر۔ پھر بھی اس کا سرا کسی کی گرفت میں<br />
نظر نہیں آتا۔ میرے جیسا شخص تو صرف پڑھ کر<br />
سمجھنے کی کوشش ہی کر سکتا ہے۔ سو آپ سے دست<br />
بستہ گزارش ہے کہ اپنے مضامین کو جمع کر کے ان کی<br />
اشاعت کی جانب توجہ دیں۔ یہ ایک کار خیر ہوگا اور اس<br />
سے بہت سوں کا بھل ہوگا۔ انشا ا۔<br />
سرور عالم راز<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8642.0<br />
اقبال لندن میں
مکرم بندہ حسنی صاحب: سلم مسنون<br />
آپ کا مضمون نہایت شوق سے پڑھا۔ آپ نے علمہ اقبال<br />
کی زندگی کے ایک ایسے پہلو کو واضح کیا ہے جس کے<br />
متعلق بہت کم لوگوں کو علم تھا۔ مجھ کو یہ تو معلوم تھا<br />
کہ وہ لندن گئے تھے لیکن وہاں ان کی سرگرمیوں کا<br />
تفصیل سے علم نہیں تھا۔ اسی طرح اور دوست بھی ہوں<br />
گے جو اس مقالہ سے مستفید ہوئے ہوں گے۔ آپ کی<br />
مہربانی کا دلی شکریہ۔ یہ اور اسی طرح کے سلسلے جاری<br />
رکھین۔ ا کرے زور قلم اور زیادہ۔<br />
سرور عالم راز<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8322.0<br />
ادبی تحقیق وتنقید‘ جامعاتی اطوار اور کرنے کے کام<br />
!ڈاکٹر صاحب, آداب<br />
میں آپ کی تحریریں بہت شوق سے پڑھتا ہوں, تنگئی وقت
کے ہاتھوں اگر اLن تحریروں پر کچھ لکھنے کا موقع نہیں<br />
ملتا تو اLس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ میں آپ کے علم<br />
سے مستفید نہیں ہو رہا- از راہL کرم آپ یہ سلسلہ جاری<br />
-رکھیں, مجھ جیسے بہت سوں کا بھل ہو رہا ہے<br />
فیصل فارانی<br />
مکرم بندہ حسنی صاحب:سلم مسنون<br />
جب آپ نے یہ انشائیہ یہاں لگایا تھا تو میرا ارادہ تھا کہ<br />
اس پر اظہار خیال کروں گا۔ لیکن زندگی کی تگ و دو میں<br />
بھول گیا۔ خدا بھل کرے فیصل صاحب کا کہ آج انہوں نے<br />
اپنے خط کے توسط سے مجھ کو اپنی کوتاہی سے آگاہ کیا۔<br />
آپ کے انشائیے اور دوسرے مضامیں پر مغز اور علم<br />
پرور ہوتے ہیں۔ میں ان کوہمیشہ پڑھتا ہوں اور حسب<br />
استعداد و توفیق لکھنے کی کوشش بھی کرتا ہوں۔ آج کل<br />
لوگوں کو غزل نے ایسا مار رکھا ہے کہ ان کو اور کچھ<br />
دکھائی ہی نہیں دیتا۔ معلوم نہیں انہیں اس کا احساس کیوں<br />
نہیں ہوتا کہ کوئی زبان بھی صرف ایک صنف سخن کے<br />
بوتے پر فلح نہیں پا سکتی۔ اس سہل انگاری کا علج بھی<br />
کوئی نہیں ہے
ہمارے یہاں تعلیمی اداروں کا جو حال ہے اس سے آپ<br />
بخوبی واقف ہیں۔ میں علی گڑھ یونیورسٹی کا پڑھا ہوا ہوں<br />
اور پھر وہیں دس سال پڑھا بھی چکا ہوں۔ اب وہاں جاتا<br />
ہوں تو پہلے کے مقابلہ میں ہر چیز زوال پذیر دیکھتا ہوں۔<br />
نہ وہ استاد ہیں،نہ وہ شاگرد اور نہ وہ معیار۔ بس گاڑی چل<br />
رہی ہے ۔ اداروں کے علوہ ہمارے استادوں کا عجیب حال<br />
ہے۔ میں ایک صاحب سے واقف ہوں جنہوں نے اعتراف<br />
کیا ہے کہ وہ لڑکوں کو معاوضہ پر پی ایچ ڈی کے مقالے<br />
لکھ کر دیتے ہیں۔ میں نے جب ان سے کہا کہ یہ بات تو<br />
بالکل غلط ہے۔ آپ ان کو لکھنے کا گر سکھائیں تو یہ بہتر<br />
ہوگا تو مجھ سےخفا ہو گئے اور آج تک خفا ہیں۔<br />
آپ سے استدعا ہےکہ اسی طرح لکھتے رہیں۔ ا آپ کو<br />
طاقت اور ہمت عطا فرمائے۔<br />
سرور عالم راز<br />
جناب ڈاکٹر حسنی صاحب<br />
آداب و تسلیمات
آپ کے تحقیقی مضامین بل شبہ قابل L ستائش ہیں<br />
آپ کا یہ مضمون بہت شوق سے پڑھا ہے ۔ امید ہے کہ یہ<br />
سلسلہ جاری رہے گا<br />
ممنون و طالب L دعا<br />
زاہدہ رئیس راجی<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8472.0<br />
پی ایچ ڈی راگ جنگہ کی دہلیز پر<br />
تباس<br />
اپنی قسمت ہی کچھ ایسی تھی کہ دل ٹوٹ گیا<br />
بول میں کہیں کمی بیشی نظر آئے تو معافی کا خواستگار<br />
نہیں ہوں کیوں کہ اپنی قسمت ہی کچھ ایسی ہے‘ کہ ربط<br />
اور ضبط ٹوٹ گیا ہے۔ یقیں مانئیے‘ یہ حافظے کا قصور<br />
ہے۔ کچھ باتیں سچی مچی بھول جاتا ہوں ورنہ ہر وہ بات<br />
جو دینی آتی ہو‘ سماج کے مزاج کی طرح دماغ سے<br />
دانستہ اور معلوم ہوتے ہوئے بھی بھول جاتا ہوں۔
بہت لطف آیا مضون پڑھ کر۔ میرا موڈ ہشاش بشاش کردیا<br />
ہے<br />
ممنون<br />
(زاہدہ رئیس راجی)<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8538.0<br />
میجک ان ریسرچ اور میری تفہیمی معروضات<br />
صدیق مکرم حسنی صاحب:سلم مسنون<br />
اپ کا انشائیہ کئی بار پڑھ چکاہوں اور اس کی تہ تک<br />
پہنچنے کی کوشش ابھی تک جاری ہے۔ اس انشائیہ میں<br />
اپ نے جو نظریہ پیش کیاہےوہ ذہنی الجھن میں ڈال سکتا<br />
ہے بلکہ مجھ کوتو ڈال ہی دیا ہے۔ امید ہے کہ مزید فکر<br />
سے اس کو بہتر طور پر سمجھ سکوں گا۔ ایک خیال آیا تو<br />
سوچا کہ آپ سے پوچھ لوں۔ آپ نے سکندر کی جومثال دی<br />
ہےکیامیں اسے دہریوں پر یہ کہہ کر منطبق کر سکتا ہوں<br />
کہ وہ خدا کے منکر ہوتے ہیں اس لئے ان کا خدا سے<br />
منکر ہونے کا نظریہ ان کا خدا ہے؟ آپ سوچیں تو خدا بھی
تو ایک نظریہ ہی ہے۔ کسی نے اسے دیکھا نہیں بس سوچا<br />
ہی ہے۔ اسی لئے بعض مفکرکہتے ہیں کہ خدا نے انسان<br />
کو پیدا نہیں کیا ہے بلکہ انسان نے خدا کو بنایا ہے کیوں<br />
کہ خدا انسان کی نفسیاتی ضرورت ہے۔ آپ بتائیں کہ یہ<br />
منطق درست ہے کہ نہیں؟ کیا یہ بھی میجک ان ریسرچ ہو<br />
گی؟<br />
باقی راوی سب چین بولتا ہے۔<br />
سرور عالم راز<br />
محترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! اسلم علیکم<br />
اپ کی تحریر پڑھی۔ اپ نے جL س طرح مثالوں سے :میجک<br />
ان ریسرچ: کی حقیقت سمجھائی ہے۔ ہمیں بہت لطف ایا۔<br />
خاص طور سے سLکندرL اعظم کے حوالے سے اپ کی کہی<br />
باتیں بہت معنی خیز ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ شائید سLکندرL<br />
اعظم کو عظیم نہ مانLنا صL رف ہمارے عLلم کی کمی کا نتیجہ<br />
ہے۔ لیکLن اپ کی باتوں سے کافی حوصلہ ہؤا ہے۔ بLل مقصد<br />
تلوار نLکال کر دنیا فتح کرنے نLکلنا یقیناø کوئی بہادری نہیں۔<br />
اگرچہ راجہ پورس کے ہاتھی اپنی ہی فوج کو لتاڑنے کے<br />
ذمہ دار ٹھہرائے جاتے ہیں لیکن اپنی فوج کا اLنکار کرنا
بھی ایک جرنیل کے لئیے معیوب ہے۔ ہمارے ناقص عLلم<br />
کے مطابق سLکندرL اعظم، جL ن کے ہاں اپنی حکومت کا یہ<br />
حال تھا کہ بادشاہ اور شہزادہ ہوتے ہوئے کھانے کی میز<br />
پر مرغی کی ٹانگ پر باپ بیٹا تلوار نLکال لیا کرتے تھے،<br />
نے بادشاہوں کی ایسی شان و شوکت کبھی دیکھی تھی جو<br />
ہندوستان میں راجا پورس سے بھی کئی سال پہلے کوتلیہ<br />
چانکیہ کے دور سے نافذ رہی تھی۔ ایسے مخملیں تاج و<br />
تخت دیکھ کر بھی حضرت کا دLل ضرور کچھ میل ہؤا ہو گا۔<br />
یہی وجہ تھی کہ واپس جاتے ہوئے ایران کے راستے دارا<br />
کو شLکست دی اور اس کے تخت پر بھی کئی دLن کھانسے۔<br />
اپ نے ارسطو کے بارے چونکہ ذیادہ بیان نہ کیا ہے سو<br />
ہم ابھی تک اسے ایک اچھا استاد ہی گردانتے ہیں۔ جو<br />
سLکندرL اعظم کو بنایا جانا مقصود تھا وہ انھوں نے بنا لیا،<br />
اگرچہ وہ خود اLس پر خوش نہ تھے۔<br />
اپ کی تحریر بہت جاندار ہے۔ اور جL س انداز میں اپ نے<br />
عورتوں اور بچوں کا ذLکر کیا ہے، ولولہ انگیز بھی۔ امید<br />
ہے اپ کی مذید تحریروں سے ہم استفادہ حاصل کرتے<br />
رہیں گے۔ اپ کے عLلمی اور ادبی مقام کو ہم سلم پیش<br />
کرتے ہیں۔
دعا گو<br />
وی بی جی<br />
صدیق مکرم حسنی صاحب:سلم مسنون<br />
اپ کا انشائیہ کئی بار پڑھ چکاہوں اور اس کی تہ تک<br />
پہنچنے کی کوشش ابھی تک جاری ہے۔ اس انشائیہ میں<br />
اپ نے جو نظریہ پیش کیاہےوہ ذہنی الجھن میں ڈال سکتا<br />
ہے بلکہ مجھ کوتو ڈال ہی دیا ہے۔ امید ہے کہ مزید فکر<br />
سے اس کو بہتر طور پر سمجھ سکوں گا۔ ایک خیال آیا تو<br />
سوچا کہ آپ سے پوچھ لوں۔ آپ نے سکندر کی جومثال دی<br />
ہےکیامیں اسے دہریوں پر یہ کہہ کر منطبق کر سکتا ہوں<br />
کہ وہ خدا کے منکر ہوتے ہیں اس لئے ان کا خدا سے<br />
منکر ہونے کا نظریہ ان کا خدا ہے؟ آپ سوچیں تو خدا بھی<br />
تو ایک نظریہ ہی ہے۔ کسی نے اسے دیکھا نہیں بس سوچا<br />
ہی ہے۔ اسی لئے بعض مفکرکہتے ہیں کہ خدا نے انسان<br />
کو پیدا نہیں کیا ہے بلکہ انسان نے خدا کو بنایا ہے کیوں<br />
کہ خدا انسان کی نفسیاتی ضرورت ہے۔ آپ بتائیں کہ یہ<br />
منطق درست ہے کہ نہیں؟ کیا یہ بھی میجک ان ریسرچ ہو<br />
گی؟
باقی راوی سب چین بولتا ہے۔<br />
سرور عالم راز<br />
محترم جناب سرور راز صاحب! سلم<br />
ہم نے سوچا کہ اگر یہاں کوئی شہدا کی فLہرست تیار ہو رہی<br />
ہو تو ہم بھی اپنی انگلی کا زخم دLکھا دیں، شائید کوئی<br />
صورت نLکل ہی ائے اور ہمارا نام بھی شامل ہو جائے۔<br />
ہم اLس ادبی گستاخی پر پہلے تو معافی مانگنا چاہیں گے<br />
کیونکہ اپ جناب محترم ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب سے<br />
مخاطب ہیں، اور پھLر عرض کریں گے کہ اLس بارے ہمارے<br />
بھی کچھ نظریات ہیں چاہے طLفلنہ ہی کیوں نہ ہوں۔ اLن پر<br />
ہنسنے میں کوئی حرج نہیں لیکLن جان کی امان چاہیں گے<br />
کہ اساتذا کے سامنے اLن خیالت کا اظہار کر رہے ہیں۔ اپ<br />
نے بات شروع کی ہے تو اپ سے اور محترم ڈاکٹر مقصود<br />
حسنی صاحب سے ہمیں بھی رہنمائی مLلے گی۔<br />
ہمارے خیال کے مطابق مفکرین کے اLس خیال، کہ خدا کو
اLنسان نے پیدا کیا ہے کیونکہ وہ اLن کی نفسیاتی ضرورت<br />
ہے، کی جڑ نعرہL انالحق ہے۔ جL س کو عقل کے پیمانے پر<br />
تولتے ہوئے انھوں نے یہ نتیجہ بھی نLکال لیا۔ شایئد<br />
وولٹیئر نے یہ کہا کہ اگر خدا کا وجود نہیں تو اLنسان کو<br />
چاہئے کہ ایک بنا ڈالے۔ ویسے اگر ہم دیکھیں تو اLنسان کی<br />
کوئی بھی ایسی ضرورت نہیں، جL س کا وجود ہی نہ ہو۔<br />
دراصل امام غزالی رحمت ا نے جو طریقت اور صوفیا کی<br />
راہیں بیان کیں، بلکہ سLکھائی ہیں، ان کے تحت کوئی بھی<br />
شخص، چاہے مسلمان ہو یا نہ ہو، ا کو حاصل کر سکتا<br />
ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ کئی سادھو بابے بھی تھوڑی بہت<br />
کوشش سے اLس لئق ہو جاتے ہیں کہ کرامات دLکھانے<br />
لگتے ہیں۔ اLس طرح کئی ہندو اور مسلمان اLس راہ پر<br />
دLکھائی بھی دئے (جL ن میں ہمارے خیال کے مطابق سLکھوں<br />
کے بابا گرو نانک کے عLلوہ 10 یا پھر 11 صوفی بھی<br />
شامLل ہیں)۔ اLس بات کو بھانپتے ہوئے جناب مجدLد الLف ثانی<br />
رحمت ا نے اپنی کLتابیں لکھیں بلکہ جL ہاد کیا اور معاملہ<br />
لوگوں کو سمجھایا۔ انھوں نے لوگوں کو بتایا کہ اLس راہ پر<br />
ذرا برابر بھی غلطی اLنسان کو بھٹکا دیتی ہے سو صحیح<br />
طریقہ و ہی ہے کہ اLنسان اLسلم پر ایمان لئے اور اس کے<br />
تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے اLس راہ پر قدم رکھے۔<br />
انھوں نے ہی بتایا کہ جب صوفی اپنے اپ کو نور بن کر ا
پاک کے نور کے منبہ میں جذب ہوتے محسوس کرتا ہے<br />
(یعنی مجذوب) تو وہ اپنے اپ کو خدا پاتا ہے۔ کچھ<br />
صوفیوں نے اپنے اپ کو خدا اور کچھ نے یہ بات بھی کہی<br />
کہ اLنسان ہے تو خدا بھی ہے ورنہ خدا کا وجود نہیں۔ یہ<br />
بھی جناب مجدLد الLف ثانی رحمت ا نے بتایا کہ عام صوفی<br />
اLس درجہ کو اLنتہا سمجھتے ہیں اور اناالحق کا نعرہ لگا<br />
دیتے ہیں، لیکن اس سے بھی اوپر کا درجہ موجود ہے<br />
جہاں اLنسان خود کو روشنی سے الگ ہو کر اپنے وجود<br />
اور ا کے وجود کو الگ پاتا ہے، جL سے عام صوفی زوال<br />
سمجھتے ہیں حالنکہ وہ زوال نہیں۔ یہ بھی انھی نے صاف<br />
صاف لLکھا ہے کہ بالکل اخری وقت پر منصور کو اLس بات<br />
کا عLلم ہو گیا تھا۔ یعنی یہ کہ اناالحق کا نعرہ درست نہ تھا۔<br />
ہم نثر نLگار نہیں ہیں سو پتہ نہیں اپنی بات کو صحیح طرح<br />
بیان کر پائے یا نہیں، اور وہ بھی بزرگ اور اپنے سے<br />
بہتر عLلم رکھنے والوں کے سامنے۔ اپ کی بات پر صحیح<br />
رائے تو جناب محترم ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب ہی دیں<br />
گے اور یہ بھی بتائیں گے کہ :میجک ان ریسرچ: کا اLس<br />
میں کہاں تک دخل ہے۔ ہمارے ذہن میں کچھ باتیں ایسے<br />
ہی ا رہی تھیں جیسے کھانسی اتی ہے کہ روکے نہیں<br />
رکتی۔
اپنی غلطیوں گستاخیوں پر معذرت کے ساتھ<br />
دعا گو<br />
وی بی جی<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8545.0<br />
استاد غالب ضدین اور آل ہند کی زبان<br />
مکرم بندہ جناب حسنی صاحب: سلم علیکم<br />
بوجوہ اس وقت آپ کی یہ تحریر سرسری طور پر ہی دیکھ<br />
سکا ہوں ۔ رات کا بارہ بجا چاہتا ہے چنانچہ شاید کل ہی<br />
اسے پڑھ سکوں گا۔ اس وقت صرف آپ کے آخری چند<br />
جملوں کا جواب مقصود ہے جو شاید آپ نے قدرے غصہ<br />
کی حالت میں لکھے ہیں۔ اول تو میں کوئی عالم فاضل نہیں<br />
ہوں۔ یہ آپ کا حسن ظن ہے۔ دوسرے اگر ہوتا بھی تو اس<br />
کا انجمن کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تیسرے یہ<br />
کہ میں نے "فخر" سے نہیں کہا کہ انجمن میں صرف اردو<br />
اور رومن اردو میں ہی چیزیں لگائی جاتی ہیں۔ میں بارہا
لکھ چکا ہوں (آپ چونکہ انجمن میں نسبتا نو وارد ہیں اس<br />
لئے شاید آپ کی نطر سے نہ گزرا ہو) کہ رومن اردو<br />
ہماری ترجیح یا پسند نہیں ہے بلکہ مجبوری ہے۔ اس<br />
اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ انجمن جب قائم ہوئی تھی تو اس<br />
وقت نیٹ پر اردو لکھنا صرف ان لوگوں کے لئے ممکن<br />
تھا جن کے پاس اردو کا کوئی پروگرام مثل ان پیج تھا۔ اس<br />
زمانے میں گوگل اور مائکروسوفٹ کی طرف سے یہ<br />
سہولت نہیں آئی تھی جس کی مدد سے میں یہ خط لکھ رہا<br />
ہوں۔ چونکہ انجمن کے ہر رکن کے پاس اردو پروگرام نہیں<br />
تھا اس لئے رومن اردو قابل قبول قرار دی گئی تھی۔ آج<br />
وہی پالیسی چلی آ رہی ہے۔ آج بھی کچھ لوگ ایسے ہیں<br />
(مثال کے طور پر جاوید بدایونی صاحب) جن کو رومن اردو<br />
میں لکھنا اردو کے مقابلے میں آسان لگتا ہے۔ یہاں<br />
لکھنے والوں کی جس قدر کمی ہے اس سے اپ خوب<br />
واقف ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ رومن اردو پر اپنے دروازے<br />
بند کر کے اپنے دوستوں کے لئے یہاں آنا ہی نا ممکن بنا<br />
دیں۔ چنانچہ یہ اجازت قائم ہے اور ہماری رائے میں اس<br />
میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ آپ ذرا دوسری اردو محفلوں میں<br />
جا کر دیکھیں تو وہاں بھی یہی صورت دکھائی دے گی۔<br />
مجھے افسوس ہے کہ آپ کو میری پالیسی پسند نہ آئی<br />
لیکن انجمن جو کام کر رہی ہے اس کے لئے یہی مناسب<br />
ہے جو کیا جا رہا ہے۔ امید ہے کہ بات صاف ہوگئی ہو گی۔
از راہ کرم اس خط کا جواب نہ دیں کیونکہ یہ کوئی بحث<br />
طلب مسئلہ نہیں ہے۔ میں آپ کا بے حد شکر گزار ہوں کہ<br />
انجمن پر آپ اس قدر کرم فرماتے ہیں۔ امید ہے کہ یہ نگاہ<br />
کرم قائم رہے گی۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔<br />
سرور عالم راز<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8593.0<br />
میجک ان ریسرچ اور جناب سرور عالم راز<br />
مکرمی حسنی صاحب: سلم مسنون<br />
بہت تاخیر سے لکھ رہا ہوں۔ اس کے لئے معذرت خواہ<br />
ہوں۔ زندگی میں کچھ نہ کچھ لگا ہی رہتا ہے۔ ابھی ابھی<br />
اپنی دو چوپالیں درست کروائی ہیں۔ لوگوں کو خدا جانے<br />
دوسروں کو ستا کر کیا مزا ملتا ہے۔ کسی ستم ظریف نے<br />
حملہ کر کے میری چوپالیں مسخ کر دی تھین۔ آج ہی بحال<br />
ہو سکی ہیں۔ اب دیکھئے کیا ہوتا ہے۔<br />
آپ کی دلچسپ تحریر ہمیشہ ہی غور وفکر کے لئے سامان
مہیا کرتی ہے۔ میں نے جو سوالت کئے تھے ان کا مقصد<br />
بھی حصول علم تھا۔ نفس مضمون میں میری معلومات نہ<br />
ہونے کے برابر ہے۔ اس لئے میں زیادہ کچھ کہہ نہیں<br />
سکتا ہوں۔ ا کو جو میں نے نظریہ لکھا ہے وہ میرا خیال<br />
نہیں ہے بلکہ بہت سوں کاہے۔ میرے لئے ا ایسے ہی<br />
عقیدہ کی حیثیت رکھتا ہے جیسے آپ کے لئے۔ کسی کی دل<br />
شکنی کا کیا سوال ہے۔ ایسا تو کبھی منشا نہیں تھا۔ تبادلہ<br />
خیال ہو گا تو یہ امکان تو رہے گا کہ ایک کی کوئی بات<br />
دوسرے کو نہ پسند آئے۔ ابھی چند دن قبل ایک قادیانی<br />
صاحبہ سے گفتگو ہوئی تو مجھ کو وہ کچھ کہنا ہی پڑا جو<br />
میرے لئے درست اور ان کے لئے غلط اوران کی دل<br />
گرفتگی کا باعث ہوا ۔ ایں ہم اندر عاشقی بالئے غم ہائے<br />
دگر۔<br />
اپنے انشائیوں کا سلسلہ جاری رکھئے۔ افسوس کہ دیگر<br />
احباب بار بار کہنے کے باوجود ان کی جانب توجہ نہیں<br />
کرتے ہیں۔ آپ لکھیں ، کم سے کم یہ خاکسار تو پڑھنے<br />
کے لئے موجودہے۔<br />
سرور عالم راز<br />
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8560.0
نثر اور شعر کے امتیازات اور لوازمات<br />
برصغیر میں اوازن کے تحت وجود پانے والے کلم کو ہی<br />
شاعری سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کا قاری<br />
اور سامع اسی قسم کی شاعری سننے کے شوقین رہے ہیں<br />
اور اس سے ہٹ کر شاعری انھیں کبھی خوش نہیں آئ۔ یہ<br />
بھی کہ اسے نثر ہی سمجھا گیا ہے۔ دوسری طرف نثر بھی<br />
بےسری نہیں رہی‘ وہ بھی پیمانے کی پابند ہوتی ہے۔ اگر<br />
نحو کو نثر لکھتے وقت نظرانداز کر دیا جاءے تو وہ نثر<br />
بھدی صورت اختیار کر لے گی۔ ابلغ بھی متاثر ہو گا۔ خیال<br />
درست طور پر قرطاس کی زینت نہیں بن سکے گا۔ شاعری<br />
کو نحوی پیمانے پر رکھیں تو وہ درست قرار نہیں پائے<br />
گی۔ اس حقیقیت کے باوجود اسے غلط نہیں کہا جا سکتا۔<br />
گویا شاعری میں اوازن جبکہ نثر میں نحو معیار رہے ہیں۔<br />
میر تقی میر کا یہ شہر جو بڑا شہرہ رکھتا ہے‘ نحوی<br />
اصولوں پر نہیں اترتا اس کے باجود ابلغ میں کہیں خرابی<br />
نہیں آتی۔<br />
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے پنکھڑی اک گلب کی سی<br />
ہے<br />
گویا شاعری ہو یا نثر‘ دونوں کے الگ سے زاویے ہیں۔
شاعری میں ردیف و قافیہ سماعتوں کا لزمہ رہے ہیں۔<br />
جدید عہد کے آغاز میں ردیف و قافیہ کے بغیر شعر کہنے<br />
کا آغاز ہوا اور اس قسم کے کلم کو معری کا نام دیا گیا۔<br />
اس کے بعد آزاد شاعری کا آغاز ہوا جس میں ردیف و<br />
قافیہ ہی کیا‘ مصرعوں میں ارکان برابر نہ رہے۔ ہر دو<br />
متذکرہ کو شاعری ہی کہا گیا۔ اس کے بعد مجوزہ بحور<br />
سے انحراف کرکے لکھنے کا رواج ہوا۔اس قسم کے کلم<br />
سے مباحث کے دروازے کھل گیے۔ اسے شاعری کی صف<br />
میں شامل نہ کیا گیا۔ انیس ناگی ‘ مبارک احمد‘ نسرین انجم<br />
بھٹی اور مقصود حسنی اہم اوراس صنف کے ابتدائ شعرا<br />
میں سے ہیں۔<br />
١٩٩٣<br />
میں مقصود حسنی کی کتاب اردو میں نئ نظم شاءع ہوئ۔<br />
اس کتاب میں موصوف نے اس صنف سخن کی بھرپور<br />
انداز میں وکالت کی۔ زبردست مخالفت کے باوجود اس<br />
صنف شعر میں طبع آزمائ کی جاتی رہی۔ بالغ نظر اور<br />
شعری لوازمات سے آگاہ ڈاکٹرسعادت سعید اور ڈاکٹر تبسم<br />
کاشمیری جیسے اہل قلم اس کے ساتھ ساتھ رہے۔ اس<br />
صنف کی مستقل مزاجی اور عصری ضرورت کی وجہ سے<br />
یہ زندہ رہی۔ چونکہ یہ شاعری ہی تھی‘ اس لیے کسی<br />
مخالفت کا اس کی صحت پر برا اثر مرتب نہ ہوا بلکہ یہ
مزید ابھری اور اس میں نکھار آیا۔ آج آزاد اور نثری کا<br />
سابقہ ہی ختم ہو گیا ہے۔ عوامی سطع پر مقام رکھتی ہے۔<br />
عوامی سطع پر بھی مانوسیت پیدا ہو گئ ہے۔ آج اس صنف<br />
سخن پر بحث بھی تقریبا ختم ہو گئ ہے۔ دوسری طرف یہ<br />
معاملہ آج بھی غور طلب ہے کہ نثر اور شاعری میں کیا<br />
فرق ہے۔<br />
نثر میں کسی بات کے بیان کرنے اور فکری ابلغ کے لیے<br />
کئ صفحات درکار ہوتے ہیں جبکہ شاعری میں بیان کرنے<br />
کے لیے اختصار مدنظر رہتا ہے اور سمجھنے کا معاملہ<br />
قاری کی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ اختصار ہی<br />
درحقیقت شاعری کا حسن ہے۔ جیسا کہ یہ شعری لءنیں<br />
وسیع تناظر میں تفہیم کا تقاضا کرتی ہیں۔<br />
تاریکی سے لڑنا ہے تو<br />
جا پہلے جا کر<br />
سورج بھر سینے میں<br />
ہاءیکو<br />
مرے دور کے سچ نے<br />
طلق مانگ لی ہے<br />
زبان دراز ہے
دو اور دو کو<br />
چھے نہیں کہتا<br />
اخلص کی چڑیا<br />
اپنے گھونسلے کے<br />
تنکے لے گئ ہے<br />
کہ کلم<br />
زیر عتاب ہے<br />
نظم:کلم زیر عتاب ہے<br />
عموما داستانوں میں فوق الفطرت عناصر پائے جاتے ہیں<br />
لیکن زبان فوق الفطرت نہیں ہوتی جب کہ شاعری میں فوق<br />
الفطرت زبان پڑھنے کو ملتی ہے۔ اس فوق الفطرت زبان کا<br />
اطلق جیتی جاگتی زندگی پر ہوتا ہے۔ اس زبان کی تفہیم<br />
عملی زندگی سے متعلق ہوتی ہے۔ ذرا یہ شعری سطور<br />
دیکھیے۔<br />
لمبڑ کے ڈیرے پر بیٹھے<br />
آنکھوں میں پتھر رکھ کر<br />
پکون کے گیت گائیں
لوکن کے گھر<br />
بھوک کا بھنگڑا<br />
گلیوں میں موت کا خنجر<br />
کھیتوں میں خوف کی کاشت<br />
جیون<br />
تذبذب کی صلیب پر لٹکا<br />
تخلیق کی ابجد<br />
تقدیر کی ریکھا<br />
کیسے ٹھہرے گا؟<br />
نظم:حرص کی رم جم<br />
شاعری میں کسی ناکسی سطع پر ذومعنویت ہوتی ہے۔ ایک<br />
پہلو سے بھی کئ پہلو وابسطہ ہوتے ہیں۔ بطور نمونہ یہ<br />
شعری لئنیں ملحظہ ہوں۔ عام تفہیم کے حامل الفاظ بھی<br />
سادہ تفہیم نہیں رکھتے۔<br />
حرص کی ننگی رانوں میں<br />
تخلیق کے بہتے دریا میں<br />
سوچ کا سورج ڈوب رہا ہے
نظم:رات کے افق پر<br />
میرے نزدیک نثر‘ شاعری سے اس لیے بھی الگ تر ہے<br />
کہ وہ رواں دواں سادہ اور جلد سمجھ میں آ جاتی ہے۔ اس<br />
کے برعکس شاعری کے مفاہیم تک رسائ کے لیے غور و<br />
فکر کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ مثل یہ لئینیں<br />
دیکھیے ان کے مفاہیم غور کرنے پر ہی سمجھ میں آتے<br />
ہیں۔<br />
ساحل کے پتھر سے<br />
موجیں جب ٹکراتی ہیں<br />
کرچی کرچی ہو جاتی ہیں<br />
کوئ کہہ دے پروانے سے<br />
کیا ہو گا مر جانے سے<br />
جب بھی آنکھ کے ساحل پر<br />
ابھریں موت کے منظر<br />
کہہ دینا اشکوں سے<br />
بلوے کے سب بول<br />
منڈیر پر رکھ دیں
نظم:ساحل کا پتھر<br />
شاعری میں آہنگ بنیادی شعری لزمہ اور لوازمہ ہے۔<br />
آہنگ شاعری میں شعریت پیدا کرتا ہے۔ اس سے غنائیت<br />
اور موسیقیت پیدا ہوتی ہے۔ بطور مثال یہ شعری لئنیں<br />
ملحظہ ہوں۔<br />
دیکھ کے چاند مرے آنگن کا<br />
جانے کیوں پھیکا پڑ جائے ہے<br />
چنچل روپ بہاروں کا<br />
ہائیکو<br />
جیون کے<br />
کانچ دریچوں میں<br />
دیکھوں تو<br />
ارمانوں کے موسم جھلسیں<br />
نادیکھوں تو<br />
کال پتھر ٹھہروں<br />
نظم:کانچ دریچوں میں<br />
آنکھ میں پانی
آب کوثر<br />
شبنم<br />
گل کے ماتھے کا جھومر<br />
جل ‘جل کر<br />
دھرتی کو جیون بخشے<br />
گنگا جل ہو کہ<br />
زم زم کے مست پیالے<br />
دھو ڈالیں کالک کے دھبے<br />
جل اک قطرہ ہے<br />
جیون بے انت سمندر<br />
نظم:بے انت سمندر<br />
شاعری میں حسن شعر کے جملہ عناصر موجود ہوتے ہیں۔<br />
شاعر کلم میں استعارات‘ تشبیہات‘ تلمیحات‘ اشارے<br />
کناءے وغیرہ برت کر ناصرف کلم میں حسن‘ چاشنی اور<br />
چشتی پیدا کرتا ہے بلکہ نئے مضامین کے دروازے کھول<br />
دیتا ہے۔ یہ کلم میں اختصار کے ساتھ ساتھ دلچسپی کا<br />
سبب بھی بنتے ہیں۔ ذیل میں شعری لئنیں ملحظہ ہوں۔<br />
ساگر پی کر بھی
ہر قطرہ پیاس سمنر<br />
پلکوں کا ساون<br />
جانے کب برسے گا<br />
فرات کا دامن<br />
شعلے لے کر بھاگا ہے<br />
ساحل کس سے شکتی مانگے<br />
مٹھی بند کر لو<br />
پلکوں کے اس کنارے پر<br />
راتوں کے سپنے<br />
سورج کی آنکھوں میں بھی<br />
بھیک کے ککرے<br />
کالی زلفوں کے مندر<br />
مسکن ہیں کالی جب والوں کے<br />
جانے سے پہلے<br />
آنکھوں میں دھواں بھر لو<br />
چاند کا چہرا
راون کی شکتی لے کر<br />
عیسی کے خون سے<br />
اوباماہی رب<br />
لکھ رہا ہے<br />
نظم:فرات کا دامن<br />
شاعری کا تعلق احساس سے جڑا ہوتا ہے۔ یہ ہر موڑ اور<br />
ہر سطع پر احساس کے تاروں کو چھیڑتی ہے۔ جذبات میں<br />
ہلچل مچا دیتی ہے۔ سوچ اور فکر کو نیا زاویہ اور نیا انداز<br />
عطا کرتی ہے۔ شعر سنا کر داد کے لیے کہنا نہیں پڑتا بلکہ<br />
قاری یا سامع کے منہ سے از خود واہ واہ نکل پڑتا ہے۔<br />
گویا شاعری میں مسرور کرنے کی صلحیت موجود ہوتی<br />
ہے۔ مثل یہ سطور دیکھیے۔<br />
وہ قتل ہو گیا<br />
پھر قتل ہوا<br />
ایک بار پھر قتل ہوا<br />
اس کے بعد بھی قتل ہوا<br />
وہ مسلسل قتل ہوتا رہا<br />
جب تک سیٹھوں کی بھوک‘ نہیں مٹ جاتی
جب تک خواہشوں کا‘ جنازہ نہیں اٹھ جاتا<br />
وہ قتل ہوتا رہے گا<br />
وہ قتل ہوتا رہے گا<br />
نظم:جب تک<br />
یہ نظم پڑھ کر کٹر عروضی شاعر بھی کہنے پر مجبور ہو<br />
گیا۔<br />
محترمی ڈاکٹر حسنی صاحب:آداب عرض<br />
آپ کی نثری نظم پڑھی اور مستفید ہوا۔ نثری نظم کی<br />
ضرورت میری سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ نثری نظم دراصل<br />
اچھی نثر کو چھوٹے بڑے ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا<br />
دوسرا نام ہے۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔ مجھ کو آپ کی<br />
یہ نثری نظم اس لئے اچھی لگی کہ اس کا موضوع وقت<br />
کی پکار ہے۔ جس طرح ساری دنیا میں اور خاص طور<br />
سے دنیائے اسلم میں :سیٹھوں، وڈیروں: کے ہاتھوں<br />
عوام کا استحصال ہو رہا ہے وہ بہت عبرتناک ہے۔ افسوس<br />
کہ اس کا علج سمجھ میں نہیں آتا۔ ایک سوال دل میں اٹھتا<br />
ہے کہ اس قدر ظلم ہو رہا ہے تو وہ ہستی جس کو ہم :ا،<br />
خدا، بھگوان، گاڈ: کہتے ہیں کیوں خاموش ہے؟ اگر سب
کچھ اس کے ہاتھ میں ہے تو پھر وہ کچھ کرتی کیوں نہیں؟<br />
آپ نے بھی اس پر سوچا ہوگا۔ مناسب جانیں تو اس پر<br />
لکھیں۔ شکریہ۔<br />
خادم<br />
مشیر شمسی<br />
نثر اور شاعری میں بنیادی فرق یہ ہے کہ نثار دیکھ کر<br />
لکھتا جبکہ شاعر محسوس کرکے لکھتا ہے۔ شاعر کی<br />
احساس کی آنکھ وہاں تک رسائ حاصل کرتی ہے جہاں<br />
تک خصوص کی آنکھ بھی رسائ حاصل نہیں کر پاتی۔ اس<br />
ضمن یہ شعری سطور ملحظہ ہوں۔<br />
وہ قیدی نہ تھا<br />
خیر وشر سے بے خبر<br />
معصوم<br />
فرشتوں کی طرح<br />
جھوٹے برتنوں کے گرد<br />
انگلیاں محو رقص تھیں اس کی<br />
ہر برتن کی زبان پہ
اس کی مرحوم ماں کا نوحہ<br />
باپ کی بےحسی اور<br />
جنسی تسکین کا بین تھا<br />
آنکھوں کی زبان پہ<br />
اک سوال تھا<br />
‘اس کو زندگی کہتے ہیں<br />
یہی زندگی ہے؟؟؟<br />
نظم:نوحہ<br />
نظم کی تفہیم کی پچیدگی کے حوالہ سے یہ خط ملحظہ ہو۔<br />
محترمی جناب حسنی صاحب :آداب عرض<br />
میں شاعر نہیں ہوں بس ادب کا شوق ضرور ہے مجھ کو۔<br />
اس لئے اگر کوئی غلط بات کہہ جائوں تو معاف کر دیجئے<br />
گا۔ آپ کی نظم "نوحہ" میری سمجھ میں نہیں آئی۔ ایسا<br />
محسوس ہوا جیسے اپ کا مطلب الفاظ کے پیچ و خم میں<br />
کہیں گم ہو گیا۔ کئی مرتبہ نظم پڑھی اور غور کیا لیکن بات<br />
پوری طرح واضح نہیں ہوئی۔۔ یہ ضرور میری کوتاہی ہے۔
بڑی عنایت ہوگی اگر آپ اپنے خیال اور طرز بیان پر کچھ<br />
روشنی ڈآلیں۔ میرا خیال ہے کہ اس سے کچھ اور دوستوں<br />
کابھی فائدہ ہو گا۔ شکریہ پیشگی قبول کیجئے۔ آپ کی<br />
وضاحت کا انتظار رہے گا۔<br />
خادم : مشیر شمسی<br />
محترم سید صاحب<br />
آپ نے توجہ فرمائ‘ دل و جان سے احسان مند ہوں۔<br />
ا آپ کو خوش رکھے۔<br />
آپ کی تحریر بتاتی ہے‘ آپ ا کے فضل سے آسوددہ حال<br />
ہیں۔ آپ کو تیسرے اور چوتھے درجے کے کسی ہوٹل میں<br />
بیٹھ کر‘ چاءے سے شغل فرمانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ آپ نے<br />
کسی بڑے گھر میں‘ کسی معصوم بچے کو برتن صاف<br />
کرتے نہیں دیکھا۔ اگر یہ آپ نے ملحظہ فرمایا ہوتا‘ تو<br />
سب سمجھ میں آ جاتا۔<br />
قبلہ میں نے دیکھا ہے اور دیکھتا رہتا ہوں۔ میں گلی میں<br />
دس بارہ برس کے بچوں کی‘ رات گیے‘ گرم انڈے کی<br />
آوازیں سنتا ہوں۔<br />
اگر جناب پر مطلب واضع نہ ہوا ہو‘ تو چشم تصور میں‘
میری بھیگی پلکوں کو دیکھ لیں‘ ممکن ہے‘ مطلب واضح<br />
ہو جائے۔<br />
مقصود حسنی<br />
نثر اور شاعری کے لفظوں کی نشت و برخواست کا طور و<br />
سلیقہ ہی مختلف ہوتا ہے۔ شاعری میں کسی ناکسی سطع<br />
پر نثر کے نحوی ضابطوں سے انحراف پایا جاتا ہے۔ ذرا<br />
یہ لئنیں ملحظہ ہوں۔<br />
ہوا کے دوش پر اڑتے پرندے<br />
اپنی ذات میں مکمل کب ہیں<br />
نہ مٹھی کھولنا کہ لمحے<br />
کسی تتلی کی طرح<br />
اڑ نہ جائیں<br />
تمہارے جسم کے پنچھی نے<br />
سمیٹے پر<br />
سلخوں سے نکل کر<br />
فلک پر رنگ بکھیرے<br />
اور روح کی اڑانیں
بیکراں تا بیکراں ہیں<br />
نظم:روح کی اڑانیں<br />
طرز تکلم کا اختلف شاعری اور نثر میں امتیاز کا سبب بنتا<br />
ہے۔ ایک نظم کو نثری انداز میں پیش کرتا ہوں ملحظہ<br />
فرماءیں۔<br />
یہ سچ ہے اور ہم کو یقین ہے دل کو سکون دیتی ہے سوچ<br />
کو شفاف رکھتی ہے۔ محبت بےبدل سہی سوال یہ نہیں کہ<br />
اس کا احترام کرنا ہے۔ اپنا بنا لینا ہے۔ ہم اس کا احترام<br />
کریں کیسے ؟زندگی کے کالر پر سجا لیں کیسے؟ ہم تو<br />
بھوکے ہیں پیاسے ہیں زندگی محفوظ نہیں ہمیں زندگی<br />
بچانا ہے اس کی پسلیوں کے نیچے دل نہیں ہماری روٹی کا<br />
بیری گھات میں ہے کیا کریں محبت ہمارے لیے نہیں ہے<br />
صبر سے ہہمارا کوئ کام نہیں زندگی محفوظ نہیں ہمیں<br />
زندگی بچانا ہے۔<br />
یہ سچ ہے‘ اور ہم کو یقین ہے۔ دل کو سکون دیتی ہے۔<br />
سوچ کو شفاف رکھتی ہے۔ محبت‘ بےبدل سہی‘ سوال یہ<br />
نہیں‘ کہ اس کا احترام کرنا ہے۔ اپنا بنا لینا ہے۔ ہم اس کا<br />
احترام کریں کیسے؟ زندگی کے کالر پر سجا لیں کیسے؟ ہم<br />
تو بھوکے ہیں۔ پیاسے ہیں۔ زندگی محفوظ نہیں۔ ہمیں زندگی<br />
بچانا ہے اس کی پسلیوں کے نیچے‘ دل نہیں‘ ہماری روٹی<br />
کا بیری‘ گھات میں ہے۔ کیا کریں‘ محبت ہمارے لیے نہیں۔
ہے صبر سے ہمارا کوئ کام نہیں۔ زندگی محفوظ نہیں‘<br />
ہمیں زندگی بچانا ہے۔<br />
اب یہی اوپر نیچے لکھ کر پیش کرتا ہوں۔ فرق واضح ہو<br />
جائے گا۔<br />
ہمیں زندگی بچانا ہے<br />
یہ سچ ہے اور ہم کو یقین ہے<br />
دل کو سکون دیتی ہے<br />
سوچ کو شفاف رکھتی ہے<br />
محبت‘ بےبدل سہی<br />
سوال یہ نہیں کہ<br />
اس کا احترام کرنا ہے<br />
اپنا بنا لینا ہے<br />
ہم اس کا احترام کریں کیسے<br />
زندگی کے کالر پر<br />
سجا لیں کیسے<br />
ہم تو بھوکے ہیں
پیاسے ہیں<br />
زندگی محفوظ نہیں<br />
ہمیں زندگی بچانا ہے<br />
اس کی پسلیوں کے نیچے<br />
دل نہیں<br />
ہماری روٹی کا بیری<br />
گھات میں ہے<br />
کیا کریں<br />
محبت ہمارے لیے نہیں ہے<br />
صبر سے ہمارا کوئ کام نہیں<br />
زندگی محفوظ نہیں<br />
ہمیں زندگی بچانا ہے<br />
اس ذیل میں ایک اور مثال ملحظہ ہو۔<br />
خواہش کا کنول اس کنارے پر انا کا ہاتھ تھامے مری بے<br />
بسی پر مسکراتا ہے اتراتا ہے میری سوچ کی<br />
بے کسی کا منہ چڑاتا ہے کنارے دو سہی ہیں تو ایک ہی
دریا کا حصار انھیں تا ابد دور رہنا ہے بے کسی اور<br />
بےبسی من کے دریا کے دو حصار وہ اس پار سے دور یہ<br />
اس پار سے دور خواہش کو تا ابد خواہش رہنا ہے<br />
خواہش کا کنول‘ اس کنارے پر‘ انا کا ہاتھ تھامے‘ مری بے<br />
بسی پر مسکراتا ہے‘ اتراتا ہے۔ میری سوچ کی بے کسی<br />
کا‘ منہ چڑاتا ہے۔ کنارے دو سہی‘ ہیں تو ایک ہی دریا کا<br />
حصار‘ انھیں تا ابد دور رہنا ہے۔ بے کسی اور بےبسی‘ من<br />
کے دریا کے دو حصار‘ وہ اس پار سے دور‘ یہ اس پار<br />
سے دور‘ خواہش کو‘ تا ابد خواہش رہنا ہے۔<br />
اب اوپر نیچے سطروں کے تحت ملحظہ فرمائیں۔<br />
خواہش کا کنول<br />
اس کنارے پر<br />
انا کا ہاتھ تھامے<br />
مری بے بسی پر<br />
مسکراتا ہے<br />
اتراتا ہے<br />
میری سوچ کی<br />
بے کسی کا منہ چڑاتا ہے
کنارے دو سہی<br />
ہیں تو<br />
ایک ہی دریا کا حصار<br />
انھیں تا ابد<br />
دور رہنا ہے<br />
بے کسی اور بےبسی<br />
من کے دریا کے<br />
دو حصار<br />
وہ اس پار سے دور<br />
یہ اس پار سے دور<br />
خواہش کو تا ابد<br />
خواہش رہنا ہے<br />
کنارے دو سہی<br />
اب دو پابند شاعری کے شعر ملحظہ فرمائیں<br />
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے رہنے دو<br />
ابھی ساگر و مینا مرے آگے۔<br />
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے پنکھڑی اک گلب کی سی
ہے۔<br />
گو‘ ہاتھ کو جنبش نہیں‘ آنکھوں میں تو دم ہے‘ رہنے دو<br />
ابھی‘ ساگر و مینا مرے آگے۔<br />
نازکی اس کے لب کی‘ کیا کہیے‘ پنکھڑی‘ اک گلب کی<br />
سی ہے۔<br />
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے<br />
رہنے دو ابھی ساگر و مینا مرے آگے<br />
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے<br />
پنکھڑی اک گلب کی سی ہے۔<br />
شاعری میں الفاظ کی معنویت زیادہ ہوتی ہے۔ شاعری میں<br />
الفاظ کو خیال کے ساتھ ساتھ احساسات کی سردی گرمی<br />
بھی میسر آتی ہے۔ بعض الفاظ اصطلحی معنی میں استعمال<br />
ہوتے ہیں۔ اسی طرح نئے مرکبات تشکیل پاتے ہیں اور ان<br />
کی تفہیم بالکل الگ انداز سے ممکن ہوتی ہے۔ گویا نثر<br />
سے ہٹ کر شعری الفاظ کی تفہیم ممکن ہوتی ہے۔ مثل یہ<br />
سطور دیکھیے۔<br />
پریت بت کی شناسئ مانگے<br />
عشق کربل سی آبلہ پائ مانگے
حسن طلوع کے دوش<br />
بل کا گل نوش<br />
چشم بکف نکل<br />
سب نے ہاتھوں ہاتھ لیا<br />
دھوپ میں سایہ ء شجر ٹھہرا<br />
کوئئ اسے نمود سحر سمجھا<br />
کسی نے جلوہء خدا کہا<br />
وہ پیکر فردوس<br />
آنکھ کے سب ترکش<br />
جو ساتھ لیا تھا<br />
کب چل پایا تھا<br />
اپنے ہی ساءے سے لٹ گیا<br />
آئینہ پتھروں سے<br />
اپنی کرچیوں کی بینائ مانگے<br />
لفظوں کی بے نوا دستک<br />
فاختاؤں سے بے ریائ مانگے
پارسائ مانگے<br />
دریا بارش<br />
صحرا بادلوں سے رہائ مانگے<br />
زیست کا ہر نقش<br />
صلہ ء بے ردائ مانگے<br />
آئینہ پتھروں سے<br />
اپنی کرچیوں کی بینائ مانگے<br />
نظم:بے نوا دستک<br />
شاعری میں جذبات احساسات اور معاملت کی پیش کش<br />
الہامی اور وجدانی سی ہوتی ہے۔ بطور نمونہ یہ سطور<br />
ملحظہ ہوں۔<br />
تم چپ ہو کہ<br />
مجھ میں تم بولتے ہو<br />
میرے دل کے بربط پر<br />
تری انگلی ہے<br />
تم چپ ہو کہ<br />
یہ دل تیرا مسکن ہے
گھر کے باسی<br />
اپنی مرضی کے مالک ہوتے ہیں<br />
تم چپ ہو کہ<br />
شعور کی ہر کھزکی میں<br />
تیرا چہرا ہے<br />
کھڑکی بند کرتے ہیں تو<br />
دم گھٹتا ہے<br />
کھڑکی کھولے رکھنا<br />
گھر کی باتوں کو باہر لنا ہے<br />
باہر کے موسم<br />
راون بستی کے منظر ہیں<br />
تم چپ ہو کہ<br />
اندر کے سب موسم تیرے ہیں<br />
دروازہ کھولو<br />
تیرے ہونٹوں کی مستی<br />
من کے کورے پنوں پر
آنکھ سے چن کر رکھ دوں<br />
تم چپ ہو کہ<br />
چپ میں سکھ ہے<br />
چپ کے کھسے میں<br />
کلیاں ہی کلیاں ہیں<br />
تم چپ ہو کہ<br />
تحسین کے کلمے<br />
برہما کے بردان سے اٹھتےہیں<br />
------ تم چپ ہو کہ<br />
نظم:دروازہ کھولو<br />
شاعر اپنے عہد کا عکاس ہوتا ہے۔ وہ اپنے عہد کے<br />
معاملت کو کسی ناکسی رنگ میں پیش کرکے اپنے عہد کا<br />
امین بن جاتا ہے۔ بعض کو ان ہی کے عہد میں دار کا سامنا<br />
کرنا پڑتا ہے تاہم اس کے پاس نثار سے زیادہ پوشیدگی<br />
کے عناصر ہوتے ہیں۔ بطور نمونہ یہ شعری سطور ملحظہ<br />
ہوں۔<br />
جب بھی
آسمان سے<br />
جب بھی<br />
من وسلوی اترتا ہے<br />
زمین زرد پڑ جاتی ہے<br />
کہ بے محنت کا ثمرہ<br />
حرکت کے در بند کر دیتا ہے<br />
سجدہ سے منحرف مخلوق<br />
حساس دلوں کی دھڑکنیں<br />
چھین لیتے ہیں<br />
آسمان سے<br />
جب بھی<br />
من وسلوی اترتا ہے<br />
انسان کے سوا<br />
بلندیاں اتراتی ہیں<br />
نظم:آسمان سے<br />
آسمان کو اپنے قہر و ستم پر ناز تھا
اسے خنجر چلتا دیکھ کر<br />
شرم سے پانی ہو گیا<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
جبریل کا اب یہاں کام نہیں<br />
زمین کا بڑا کہتا ہے<br />
لنکن کی کتاب کافی ہے انسان کے لیے<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
نثر میں نثرنگار ذات سے کائنات کی طرف بڑھ کر معلومات<br />
اکٹھی کرتا ہے اور انھیں سائنسی ترتیب کے ساتھ پیش<br />
کرتا ہے لیکن شاعر کا سفر کاءنات سے ذات کی طرف اور<br />
کبھی ذات سے کائنات کی طرف ہوتا ہے اور دوبارہ سے<br />
ذات کی طرف لوٹ آتا ہے۔ ذات کا کرب کاءنات کا کرب بنا<br />
کر پیش کرتا ہے۔ کاءنات کا درد بھی اس کی ذات کا کرب<br />
بن کر ابھرتا ہے۔ اس کی ترتیب سائنسی نہیں وجدانی سی<br />
ہوتی ہے۔ اس ذیل میں یہ شعری سطور ملحظہ ہوں۔<br />
پاگل پن<br />
آنچ دریچوں میں<br />
دیکھوں تو
خواہش کے سب موسم جلتے ہیں<br />
نا دیکھوں تو<br />
احساس سے عاری<br />
اورابلیس کا پیرو ٹھہروں<br />
جانے کے موسم میں<br />
آنے کی سوچیں تو<br />
گنگا الٹی بہتی ہے<br />
دن کو<br />
چاند اور تاروں کا سپنا<br />
پاگل پن ہی تو ہے<br />
من کے پاگل پن کو<br />
وید حکیم کیا جانیں<br />
جو جانے<br />
عشق کی دنیا کا کب باسی ہے<br />
شاعری کا لہجہ‘ طرز تکلم طرز مخاطب نثر سے قطعی الگ<br />
اور ہٹ کر ہوتا ہے۔ شاعر کا مخاطب بھی واضح نہیں ہوتا۔
وہ جس سے یا جس کا نام لے کر بات کر رہا ہوتا ہے<br />
ضروری نہیں وہ وہی ہو جس سے بات کہہ رہا ہو۔ اس کا<br />
مخاطب کوئ دوسرا ہو سکتا ہے۔ محبوب کا نام لے کر امیر<br />
شہر سے گلہ شکوہ شکایت یا طنز کر سکتا ہے۔ ذرا<br />
سطریں دیکھیے۔<br />
چاند اب دریا میں نہیں اترے گا<br />
جذبے لہو جیتے ہیں<br />
معاش کے زنداں میں<br />
مچھروں کی بہتات ہے<br />
سہاگنوں کے کنگن<br />
بک گءے ہیں<br />
پرندوں نے اڑنا چھوڑ دیا<br />
کہ فضا میں تابکاری ہے<br />
پجاری سیاست کے قیدی ہیں<br />
تلواریں زہر بجھی ہیں<br />
محافظ سونے کی میخیں گنتا ہے<br />
چھوٹی مچھلیاں فاقہ سے ہیں
کہ بڑی مچھلیوں کی دمیں بھی<br />
شکاری آنکھ رکھتی ہیں<br />
دریا کی سانسیں اکھڑ گئ ہیں<br />
صبح ہو کہ شام<br />
جنگی بیڑے گشت کرتے ہیں<br />
چاند دھویں کی آغوش میں ہے<br />
اب وہ<br />
دریا میں نہیں اترے گا<br />
تنہائ بنی آدم کی ہمرکاب ہے<br />
کہ اس کا ہمزاد بھی<br />
تپتی دھوپ میں<br />
کب کا<br />
کھو گیا ہے<br />
چاند اب دریا میں نہیں اترے گا<br />
جیون سپنا
آنکھ سمندر میں تھا<br />
جیون سپنا<br />
کہ کل تک تھا وہ اپنا<br />
جب سے اس گھر میں<br />
چاندی اتری ہے<br />
میرے من کی ہر رت<br />
پت جھڑ ٹھری ہے<br />
بارش صحرا کو چھو لے تو<br />
وہ سونا اگلے<br />
مری آنکھ کے قطرے نے<br />
جنت خوابوں کو<br />
یم لوک میں بدل ہے<br />
کیسے چھو لوں<br />
تری مسکانوں میں<br />
طنز کی پیڑا<br />
پیڑا تو سہہ لوں
پیڑا میں ہو جو اپناپن<br />
آس دریچوں میں<br />
تری نفرت کا<br />
باشک ناگ جو بیٹھا ہے<br />
ہونٹوں پر مہر صبر کی<br />
جیبا پر<br />
حنطل بولوں کی سڑکن<br />
یاد کے موسم میں<br />
خوشبو کی پریاں<br />
یاد کی شاموں کا<br />
جب بھنگڑا ڈالیں گی<br />
آنکھ ہر جائے گی<br />
آس مر جائے گی<br />
آنکھ سمندر میں تھا<br />
جیون سپنا<br />
شاعری کی زبان میں فطری میٹھاس اور ریشمیت اور
ملئمیت کا عنصر غالب رہتا ہے۔ تلخ سے تلخ بات<br />
ہضم ہو جاتی ہے۔ بطور نمونہ یہ سطور ملحظہ ہوں۔<br />
اب جب بھی<br />
کوئ کنول چہرا<br />
اب جب بھی دیکھتا ہوں<br />
خوف کا موتیا<br />
آنکھوں میں اتر آتا ہے<br />
کلیوں کا جوبن چرا کر<br />
غرض کا جن<br />
پریوں کی اداؤں میں<br />
من آنگن میں<br />
قدم رکھتا ہے<br />
خواہشوں کی انگور بیلیں<br />
سوکھ جاتی ہیں<br />
خوش فہمی کے سورج کی<br />
تاریک کرنیں
ست کے سارے شبد<br />
کھا جاتی ہیں<br />
اگلے داؤ کے یقین پر<br />
جیون کے سب ارمان<br />
مر جاتے ہیں مر جاتے ہیں<br />
آس کے ٹوٹے ٹھوٹھے میں<br />
آشا کے کچھ بول رکھنے کو<br />
غرض کی برکی نہ بن جائے<br />
وشنو چھپنے کو<br />
برہما لوک کا رستہ بھول جاتا ہے<br />
گلب کے ہونٹوں پر<br />
بے سدھ ہونے کی اچھا<br />
تھرکنے لگتی ہےموتیا<br />
کوئ کنول چہرا<br />
اب جب بھی دیکھتا ہوں<br />
خوف کا موتیا
آنکھوں میں اتر آتا ہے<br />
درج بال حقاءق کی روشنی میں ہم نثر کو شاعری نہیں کہہ<br />
سکتے۔ شاعری اور نثر میں اول تا آخر ان کی امتیازی<br />
صورتیں باقی رہتی ہیں۔ نثری سطور کو اوپر نیچے لکھ کر<br />
شاعری کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ اسی طرح اوپر نیچے<br />
لکھی لءینوں میں درج بال امور ملتے ہیں تو‘ وہ شاعری<br />
ہے۔ اسے نثر کا نام دینا سراسر زیادتی کے مترادف ہو گا۔<br />
اس مضمون میں پیش کی جانے والی مثالیں مقصود حسنی<br />
کے چہار مجموعہ ہا کلم‘ سپنے اگلے پہر کے‘ اوٹ سے‘<br />
سورج کو روک لو اور کاجل ابھی پھیل نہیں سے لی گئ<br />
ہیں۔ مقصود حسنی کی شاعری اس صنف سخن کے ماضی<br />
اور حال سے رشتہ رکھتی ہے۔ ان کو اس صنف سخن کا<br />
نماءندہ شاعر ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ ان کے ہاں جملہ<br />
شعری لوازمات ملتے ہیں‘ جن کے سبب اس صنف سخن<br />
کو شاعری تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے۔<br />
1/29/2014<br />
مقصود حسنی کے چند شعری مرکبات
شاعری ہمیشہ سے نئ زبان دیتی آئ ہے۔ الفاظ کو نءے<br />
معنی دینے کے معاملہ میں ہمشہ پیش پیش رہی ہے۔ کوئ<br />
شخص عام حالت میں نئے مرکبات‘ ترکیبات اوراصطلحات<br />
گھڑنے پر قدرت نہیں رکھتا جبکہ شعر گو اپنے خیالت کو<br />
لفظوں کا لباس عطا کرتا ہے تو روانی میں کئ مرکبات<br />
ترکیبات اور بعض لفظوں کواصطلحی مفاہیم عطا کر دیتا<br />
ہے۔ نثری اصناف میں افسانہ کسی حد تک یہ چیزیں مہیا<br />
کرتا ہے۔ تاہم اس تخلیقی جوہر کو شاعری کے مقابل کھڑا<br />
نہیں کیا جا سکتا۔<br />
ان مرکبات کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ عموم اور<br />
مستعمل زبان سے قطعی ہٹ کر ہوتے ہیں۔ ان میں صوتی<br />
حسن اور شعریت موجود ہوتی ہے۔ یہی نہیں فطری آہنگ<br />
کی صورت بھی پائ جاتی ہے۔ یہ مرکبات خیال‘ فکر‘ سوچ<br />
جذبے اور احساس کو تجسیم دے رہے ہوتے ہیں۔ کسی<br />
ناکسی سطع پر ان میں تمثالی کیفیت ضرور موجود ہوتی<br />
ہے۔ یہ اپنے قاری کے احساس کو ارتعاش دینے کا سبب<br />
بنتے ہیں۔ اس کو نئ سمت سجھا رہے ہوتے ہیں۔ عمومی<br />
و خصوصی فکر پر غلط اور درست کی مہر بھی ثبت کر<br />
رہے ہوتے ہیں۔ ان کے حوالہ سے انسانی اور سماجی<br />
اصول و ضوابط کی بھی نشان دہی ہو رہی ہوتی ہے۔ یہ
-١<br />
-٢<br />
-٣<br />
مرکبات شخصی مزاج اور رویے کو بھی واضح کر رہے<br />
ہوتے ہیں۔<br />
یہ مرکبات شخص کا سماج اور زمین سے تعلق وضح کر<br />
رہے ہوتے ہیں یا پھر اس تعلق کی وضاحت کر رہے ہوتے<br />
ہیں جو انسان کی فکری معاشی معاشرتی علمی اور ادبی<br />
معاملت کی طرف اشارہ کر رہے ہوتے ہیں اور ان میں<br />
معاملت کے منفی یا مثبت ہونے کی صورتوں کو بھی<br />
اجاگر کر رہے ہوتے ہیں۔<br />
ان میں کسی حد تک زمینی سماجی نظریاتی اور قومی<br />
عصبیت کا عنصر بھی موجود ہوتا ہے۔ ان میں عموم و<br />
خصوص کے درمیان موجود قربتوں اور فاصلوں کی<br />
نشاندہی موجود ہوتی ہے۔ گویا تقابلی صورت سی موجود<br />
رہتی ہے۔ ان میں تین صورتیں بڑی اہمیت کی حامل ہوتی<br />
ہیں<br />
ذومعنویت<br />
فوق الفطرت صورت حال<br />
الہامی وجدانی اور انکشاف کی سی صورت حال<br />
ذومعنویت کے حوالہ سے لفظ کے نءے نءے معنی<br />
دریافت ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جس سے زبان کی اظہاری<br />
قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ فوق الفطرت ہونے کے حوالہ
کسی نءے اور انوکھے جہان میں ہونے کا احساس جنم<br />
لیتا ہے۔ گویا فوق الفطرت طور اختیار کرکے انسانی<br />
نفسیات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان کے مطالعہ سے ان کی<br />
ہءیت ترکیبی پر نازلہ ہونے کا گمان سا گزرنے لگتا ہے۔<br />
جیسا کہ مرزا غالب کہتے ہیں<br />
آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں<br />
غالب صریر خامہ‘ نوائے سروش ہے<br />
بعض مرکبات یا پھر ایک مصرع عرف عام میں آ کر<br />
محاورے کا درجہ اختیار کر لیتا ہے۔ گویا تکیہء کلم بن<br />
جاتا ہے۔ مٹل غالب کا یہ مصرع<br />
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک<br />
محاورہ نہیں مگر رواج پا کر محاورہ بن گیا ہے۔<br />
جدید اردو شاعری کی صف میں مقصود حسنی اپنے عہد<br />
کے نمائندہ شعر ہیں۔ انہیں زبان وبیان پر قدرت حاصل ہے۔<br />
ان کی شاعری محدود خطے کی شاعری نہیں ہے۔ یہی وجہ<br />
ہے کہ ان کی شاعری کا محور انسان ہے۔ اس کا دکھ سکھ<br />
وہ اپنے سینے میں محسوس کرتے ہیں۔ ان کی ذات کا درد<br />
درحقیت انسان کا دکھ سکھ ہے۔ شخص کا مسلہ ان کا اپنا<br />
مسلہ ہوتا ہے۔ ان کی شاعری میں ان کی عملی زندگی کے<br />
رنگ گہرے اور نمایاں ہیں۔ وہ ہر صورت میں انسان کو
آسوودہ خوش حل اور متحرک دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں<br />
کہیں اور کسی سطع پر انسانی مسلے سے الگ نہیں کیا جا<br />
سکتا۔ ہر انسان ان کی ذات کا جزو محسوس ہوتا ہے۔<br />
وہ زیادہ تر کائنات اور عالمی سماج سے ذات کی طرف<br />
پھرتے نظر آتے ہیں۔ جب ذات سے کاءنات یا عالمی سماج<br />
کا رخ کرتے ہیں تو بھی انسانوں کا ایک گروہ ان کے ساتھ<br />
ہوتا ہے۔ ہاں البتہ یہ عنصر زیادہ نمایاں ہے کہ کمزور<br />
معذور اور پسے ہوءے لوگ ہی ان کے پہلو میں چل رہے<br />
ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں ترکیب پانے والے مرکبات کا مطالعہ<br />
اسی تناظر میں کیا جا سکتا ہے۔ ان مرکبات میں ظالم اور<br />
ظلم کے خلف انگارے برستے نظر آتے ہیں۔ مہذب انداز<br />
میں برا بھل کہنے سے بھی اجتناب نہیں برتتے۔ ان کا یہ<br />
جارحانہ انداز کمزور طبقے میں حرکت کا سبب بنتا ہے۔<br />
ان کے مرکبات کئ قسم کے ہیں۔ دو لفظوں سے ترکیب<br />
پانے والے مرکبات کا پہل لفظ صفتی ہوتا ہے۔ اسی طرح<br />
بہت سے مرکبات حروف رابطہ سے بنتے ہیں۔ تشبہی<br />
مرکبات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ مصادر سے بننے والے<br />
مرکبات پر مستعمل محاورے کا گمان ہونے لگتا ہے۔ ان<br />
کے مرکبات تہہ داری کے ساتھ ساتھ طرح داری اور وضع
داری بھی لیے ہوتے ہیں۔ ان کے مرکبات سماج اور کاءنات<br />
کا کوئ ناکوئ مسلہ معاملہ واقعہ یا پھر حادثہ ضرور لیے<br />
ہوتا ہے۔ ان میں کسی روایت رویے مزاجی کیفیت کی نشان<br />
دہی کی گئ ہوتی ہے۔ المختصر بیدار حواس ان کے مرکبات<br />
میں عصری حیات کی بےترتیب دھڑکنیں محسوس کر<br />
سکتے ہیں۔ مقصود حسنی کے کلم سے کچھ منتخبہ<br />
مرکبات پیش خدمت ہیں۔<br />
آنکھ دروازہ‘ آنکھ سمندر‘ اجڑے خواب‘ ارض بیمار‘ امن<br />
سلیقہ‘ برف آنکھیں‘ بش گزیدہ‘ بیوہ حسرتیں‘ بےنور<br />
دریچے‘ پامال ارمان‘ پیاس کنارے‘ پریم ساگر‘ خنجر<br />
دیواریں‘ دشت تنہائ‘ زخم زخم گونگا‘ سیاہ دھرتی‘<br />
سسکتی زمین‘ سوچ دریچے‘ سبد انتظار‘ شہر عشق‘<br />
شراب آنکھیں‘ شہر بے بصر‘ شعور ہستی‘ صبح بےنور‘<br />
عیار تبسم‘ فاقہ زدہ مردہ‘ قطرہءندامت‘ قفل ساکت‘ قاتل<br />
ہیروشیما‘ کالے موسم‘ کانچ جسم‘ کالے کلمے‘ کانچ<br />
سڑک‘ کالی ریتا‘ کانچ دریچے‘ کرخت اندھیرے‘ کنول<br />
چہرہ‘ گلب قاشیں‘ گداز پلکیں‘ ماتمی سدور‘ ممتا جذبے‘<br />
ناموس فطرت‘ نقلی چہرے<br />
آس کا دیپ‘آنکھ کا ساحل‘ آس کا رستہ‘ انا کا قتل‘ اشکوں<br />
کا شرینتر‘ بربک کا سنکھ‘ بشارت کا در‘ بہاروں کا بسیرا‘<br />
بھوک کا تاج محل‘ بھوک کا کوبرا‘ بےصبری کا تنور‘
بھوک کا چارہ‘ تاروں کا جنگل‘ تپسیا کا اترن‘ تسکین کا<br />
بین‘ تیرگی کا در‘ تذبذب کا بھوکم‘ جیون کا پچھل پہر‘ جسم<br />
کا پنچھی‘ جبر کا فرات‘ چپ کا دامن‘ خوف کا پہرہ‘ خوشبو<br />
کا پیکر‘ خوف کا موتیا‘ خوشبو کا کنول‘ خوشبو کا سفر‘<br />
دل کا بربط‘ دن کا مکھڑا‘ دماغ کا بخار‘ روٹی کا بندی‘<br />
رتجگوں کا لشہ‘ روشنی کا جناز‘ سچ کا سورج‘ سوچ کا<br />
آنگن‘ شعور کا دریچہ‘ شہوت کا سمندر‘ ظلمتوں کا سفر‘<br />
عشق کا سیکا‘ غربت کا کینسر‘ غیرت کا فکر کا لہو‘ کلیوں<br />
کا قتل‘ گنگا کا آنچل‘ لالہ کا وٹمن‘ لفظوں کا<br />
کروفر‘مسکانوں کا ثمر محبت کا صحیفہ‘ موت کا شعلہ‘<br />
وڈیائ کا سرطان‘ ہیرے کا جگر<br />
آس کی کشتی‘ آشا کی کہکشاں‘ آنکھوں کی برکھا‘ آنکھوں<br />
کی مستی‘ آشا کی جوت‘ افلس کی جھونپڑی‘ احساس کی<br />
آنکھ‘ انا کی تاریکی‘ افلس کی چڑیا‘ افلس کی دھوپ‘<br />
برتن کی زبان پچھلے پہر کی رعناءیوں پلکوں کی اوٹ‘<br />
تعصب کی آنسو گیس‘ جبر کی بجلیاں‘ حرص کی رم جم‘<br />
خوف کی فصل‘ خوشبو کی تمازت‘ خوشبو کی بجلیاں‘<br />
خلوص کی طشتری‘ روح کی زلفیں‘ روح کی اڑانیں‘ روح<br />
کی قوس قزاح‘ زلفوں کی شام‘ زیست کی حرارت‘ زیست<br />
کی پگڈنڈی‘ سپنوں کی مسکان‘ سکنے کی منزل‘ سہاگ کی<br />
چوڑیاں شکم کی دہلیز‘ ضمیر کی چیتا‘ ضبط کی پٹڑی‘ ظلم<br />
کی بھاشا‘ غرض کی برکی‘ غرض کی چتا‘ فیصلے کی
صلیب‘ گجروں کی گریہ زاری‘ گلبوں کی راہ‘ لفظوں کی<br />
حرمت‘ مروتوں کی منزل‘ مصلحت کی صلیب‘ من کی<br />
ریکھاءیں‘ مطلب کی آنکھیں‘ موت کی دہلیز‘ موڈ کی<br />
تکڑی‘ من کی قندیل‘ مسکانوں کی بارش‘ مساءل کی<br />
روڑی‘ ‘ ندامت کی دہلیز‘ نفرت کی تابکاری‘ وقت کی دہلیز‘<br />
وقت کی نبضیں‘ ہونٹوں کی سرخی<br />
آنکھ کے جگنو‘ ارمانوں کے موسم‘ اندر کے موسم‘ پکون<br />
کے گیت‘ پلکوں کے ستارے‘ تیاگ کے قدم‘ ڈر کے شعلے‘<br />
رات کے اس کنارے‘ جہیز کے صفحات‘ حرکت کے در‘<br />
خلیج کے بیمار‘ سانسوں کے رباب و چنگ‘ شبدوں کے<br />
جال‘ گذشتہ کے گلب و کنول‘ نفرت کے ایوان‘ نفرت کے<br />
صندوق‘ یادوں کے دیپ<br />
آگ میں ڈوبی سانسیں‘ چونچ میں نسل کی بقا‘ دھڑکن میں<br />
بسنا‘ زلفوں میں بارود‘ پلکوں پر شام‘ کاغذ پر جگر‘ شوخ<br />
صبح سا‘ لب گنگا کے<br />
آنکھوں میں مہتاب لکھنا‘ انکھوں میں عرش سجنا‘ آکاش<br />
سے دھند اترنا‘ افق میں لہو اترنا‘ بشارت کا در وا ہونا‘<br />
پلکوں پر خلوص سجانا‘ پتھر کا جسم بولنا‘ تیرگی بیچنا‘<br />
چہرے ٹٹولنا‘ خوشبو بانٹنا‘ خواب لکھنا‘ دیوار پر آنکھیں<br />
رکھنا‘ روشنی بیچنا‘ ساگر پینا‘ سوچ میں بسنا‘ سیماب<br />
پہننا‘ سینے میں سورج بھرنا‘ مسکانوں میں رہنا‘ عمر کا
تارا ٹوٹنا‘ قدم بیچنا‘ لہو‘ لہو ہونا‘ ہوا پر آنسو لکھنا<br />
مقصود حسنی کے کلم میں مشرقی تلمیحات کا استعمال<br />
برصغیر میں عربوں کی آمد کا سلسلہ صدیوں پرانا ہے۔ وہ<br />
یہاں تجارت کی غرض سے آتے رہتے تھے۔ اہل یونان کے<br />
لیے بھی یہ علقہ دلچسپی کا باعث رہا ہے۔ اہل ایران کے<br />
بھی اس خطہءارض سے رشتے بڑے مضبوط رہے ہیں۔<br />
ملتان سے گجرات اور وہاں سے گلبرگہ گولکنڈا بیجاپور<br />
وغیرہ سے ان کے روابط کافی دیرینہ ہیں۔ برصغیر کے<br />
لوگ بھی ایران جاتے تھے۔ جنوبی ہند میں خونی رشتوں کا<br />
سراغ ملتا ہے۔ جنگ سلسل میں ان کی شمولیت بتائ جاتی<br />
ہے۔<br />
برصغیر سے بدھ مذہب کے پرچارک برصغیر سے باہر<br />
گیے۔ برصغیر کا ان علقوں کے علوہ جاپان افغانستان<br />
انڈونیشیا مللیشیا وغیرہ سے بھی واسطہ رہا ہے۔<br />
برصغیر میں تبلیغ اسلم کے لیے عرب یہاں تشریف لئے۔<br />
صحابہ تابعین اور تبع تابعین یہاں تشریف لءے۔ بہت سے
یہاں کے ہو کر رہ گیے۔ ٤٤ہجری سے پہلے اور ٤٤ ہجری<br />
میں فوج کشی بھی ہوئ۔ تاہم ٧١٢ میں محمد بن قاسم<br />
بطور فاتح وارد ہوا اور اس کے بعد مسلم جرنیلوں کی آمد<br />
کا سلسلہ شروع ہو گیا اور یہ سلسلہ مغلیہ سلنطنت کے<br />
زوال تک جاری رہا۔ برصغیر پر ترکی خلفت کے حوالہ<br />
اثرافرینی رہی۔ یہاں مسلم حکومت کی حکومت کی برقراری<br />
کے لیے خلفت کی جانب سے سند بھی اقتداری لزمہ رہی<br />
ہے۔<br />
برصغیر سے ان دور نزدیک کے ممالک اور ریاستوں سے<br />
تعلق کے نتیجہ میں سماجی معاشی عسکری اور سیاسی<br />
روایات اور رویے درآمد ہوءے۔ ان زبان کے الفاظ<br />
اصطلحات اسما کہاوتیں ضرب المثال محاورے اور<br />
تلمیحات وغیرہ بھی وافر درآمد ہوئیں۔ ان کا ناصرف<br />
روزمرہ کی بول چال میں رواج ہوا بلکہ تحریروں میں بھی<br />
مستعمل ہو گیں۔ گویا ہر بدیسی سوغات مقامی زبانوں کا<br />
لسانی ذخیرہ ٹھہری۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ناصرف<br />
مفاہیم میں تبدیلی آئ بلکہ اجنبیت بھی ختم ہو گئ۔ آج<br />
جلوس حور اسامی احوال راشی تماشا سیر اردو والوں کے<br />
لیے غیر نہیں رہے۔ جمشید اور محمود کو ہر کوئ جانتا<br />
ہے۔ نماز روزہ اور حج کے مفہوم سے غیر مسلم بھی آگاہ<br />
ہیں۔ منصف اور محتسب سے کون آگاہ نہیں۔ دعا سلم کے<br />
مسلم کلمے ہر کوئ جانتا ہے۔
دوسرے ممالک کے ساتھ پیدا ہونے والے تعلقات سے جو<br />
رسم و رواج معاشرتی معمولت کے تحت جو مواد میسر آیا<br />
اس سے زبانوں کو ثروت میسر آئ اور یہ سب یہاں کی<br />
زبانوں کا مستقل اثاثہ ٹھہرا۔ بہت ساری درآمدہ اصطلحات<br />
وغیرہ کا استعمال تلمیحی روپ اختیار کر گیا ہے۔<br />
عصری شعرا میں مقصود حسنی کے ہاں مغربی اسلمی<br />
ہندی کے علوہ بہت ساری دوسری مشرقی تلمیحات پڑھنے<br />
کو ملتی ہیں اور یہ دو چار نہیں سیکڑوں کی تعداد میں<br />
ہیں۔ اس معاملہ میں غالبا عصری شعرا میں نمایاں حیثیت<br />
کے حامل ہیں۔ ان تلمیحات میں اچھا خاصا تنوع ملتا ہے۔<br />
ان تلمیحات کے تناظر میں وہ نئے نئے مضامین دریافت<br />
کرتے ہیں۔ اس تنوع اور پیغامی شاعری کے تحت شاید آتا<br />
کل انہیں اس عہد کے بڑے شعرا کی صف میں کھڑا کرے<br />
گا۔ خیر یہ معاملہ آتا کل واضح کرے گا۔ سردست ان کی<br />
تلمیحات کی فہرست فراہم کرنا مقصود ہے۔ زیر نظر سطور<br />
میں ان مشرقی تلمیحات‘ مثالوں کے ساتھ درج کر رہا ہوں<br />
تا کہ قاری ان کے ہاں موجود مضامین کے نئے نئے انداز<br />
و اطوار سے آگاہی حاصل کر سکے
کل<br />
ارضی خداؤں کا منکر<br />
خوف باری سے لبریز<br />
پیام نبی کا نقیب تھا<br />
آج کو<br />
عظیم کر دو<br />
کہ آج‘ کل سے<br />
کم نہیں<br />
آج کو عظیم کر دو<br />
جمشید خبر کے لیے<br />
پیالے میں دیکھتا تھا<br />
ٹوٹ جاتا تو وہ بےبصر ہوتا<br />
حاجت نے ڈبو دیا اس کو<br />
ورنہ خبر تو<br />
مرد حق کی نظر میں ہوتی ہے<br />
نظر
قبر کا در وا ہوا<br />
بول<br />
قیامت ہو گئ ہے؟<br />
باہر کرخت اندھیرے تھے<br />
اجالوں میں<br />
سرخی ڈوب گئ تھی<br />
نہیں<br />
مجھے یہیں رہنے دو<br />
رہنے دو<br />
عریاں سماج<br />
راہ تکتے ہیں<br />
اک اور خمینی کی<br />
انتظار<br />
کوہ نور کا ہیرا لے گیے تھے وہ
کعبہ بھی لے جاءیں کے اب<br />
رک نہ جاءیں کہیں<br />
شراب وشباب کے<br />
خوشگوار سلسلے<br />
سلسلے<br />
عرش پر فرشتے<br />
آدم کے حضور<br />
سجدہ ریز رہے<br />
زمین پر آدم<br />
غیر معتبر ٹھہرا<br />
غیر معتبر<br />
ٹھہری ٹھہری نظروں سے<br />
سرخ لہو<br />
تم دیکھ رہے ہو<br />
میں دیکھ رہا ہوں
گوتم سے کوئ کہہ دے<br />
سنکھ بجاءے<br />
مسیحا زندہ کر دے<br />
پتھروں کو<br />
حجر اسود سے بال ہیں<br />
دھڑکنوں سے معمور ہوں<br />
اگر یہ پتھر<br />
پتھر :نظم<br />
ان کو<br />
بوتل کا دودھ پلیا ہو گا<br />
ان کی رگوں میں ترا دودھ نہیں<br />
دودھ‘ فقط تیرا دودھ ہوتا تو<br />
یہ خلفت ارضی کے وارث ہوتے<br />
آخری مانگ :نظم<br />
دیکھتا اندھا سنتا بہرا
سکنے کی منزل سے دور کھڑا<br />
ظلم دیکھتا ہے<br />
آہیں سنتا ہے<br />
بولتا نہیں کہتا نہیں<br />
جہنم ضرور جائے گا<br />
ایندھن<br />
دن کے اجالے<br />
خاموش اداس<br />
ہمالہ مٹی کا ڈھیر<br />
حرکت سے عاری<br />
تو‘ مٹی کا ڈھیر<br />
حرکت سے عاری<br />
نظم: عاری<br />
آوازوں کی اس بھیڑ میں<br />
سر جھٹک کر بول
تیز ہوا کا جھونکا ہو گا‘ جو<br />
خلیل جبران کے مجموعوں کےورق<br />
الٹ رہا ہے<br />
نظم:جھونکا<br />
شعلہ سا لپکا<br />
طور‘ طور نہ رہا<br />
راکھ کا ڈھیر ہوا<br />
کیا عروج ہے<br />
پی کے ہستی<br />
مدینے کا وہ کمبل پوش<br />
بہلے چپ رہا تھر مسکرا دیا<br />
نظم: کمبل پوش<br />
سنا ہے<br />
یوسف کی قیمت<br />
سوت کی اک انٹی لگی تھی
کہ وہ مجبور تھا<br />
دور حاضر کا مرد آزاد<br />
دھویں کے عوض<br />
ضمیر بیچ رہا ہے<br />
نظم: سنا ہے<br />
میز پر پڑا لل آمیزہ<br />
زندگی سے خالی تھا<br />
دامن میں پھر بھی اس کے<br />
مسیحائ کا بھرم تھا<br />
نظم: بھرم<br />
اس نے کہا<br />
میں آپ کا بھائ ہوں<br />
رفعت کیوں لٹ گئ؟<br />
نظم: وعدہ
ڈوبتی سانسوں کو<br />
مسیحا کی ضرورت نہیں<br />
گوشت گدھ کھائیں گے<br />
ہڈیاں فاسفورس کی کانیں ہیں<br />
نظم: سورج دوخی ہو گیا تھا<br />
وہ آگ<br />
عزازئیل کی جو سرشت میں تھی<br />
اس آگ کو نمرود نے ہوا دی<br />
اس آگ کا ایندھن<br />
قارون نے پھر خرید کیا<br />
اس آگ کو فرعون پی گیا<br />
اس آگ کو حر نے اگل دیا<br />
یزید مگر نگل گیا<br />
اس آگ کو<br />
میر جعفر نے سجدہ کیا<br />
میر قاسم نے مشعل ہوس روشن کی
اس آگ کے شعلے<br />
پھر بلند ہیں<br />
مخلوق ارضی<br />
ڈر سے سہم گئ ہے<br />
ابر باراں کی راہ دیکھ رہی ہے<br />
کوئ بادل کا ٹکڑا نہیں<br />
صبح ہی سے تو<br />
آسمان نکھر گیا ہے<br />
نظم: صبح ہی سے<br />
1980<br />
مخلوط نسل<br />
میت پر ماتم نہیں کرے گی<br />
گرجوں میں قرآن سجائے گی<br />
مسجدیں<br />
اصطبل ہوں گے
گھوڑوں کے<br />
نظم: قربت<br />
!جانتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟<br />
رند ہوں بدر کا<br />
جا مے میں<br />
حیدر کی جرآت<br />
بوزر کا فقر مل کے ل<br />
ٹیپو کی غیرت<br />
اقبال کی خودی مل کے ل<br />
ل ساقیا ل<br />
ایسی مے بنا کے ل<br />
نظم: بدر کا رند<br />
کئ بار گری<br />
آخر چڑھ ہی گئ<br />
چونٹی مگر وہ اس دور کی تھی
نظم:المیہ<br />
مجھے اس کی فکر نہیں<br />
کوئ ماں فرعون جنم دے گی<br />
ہاں نیل کا سکوت دیکھ کر<br />
ڈر جاتا ہوں<br />
اب وہ آ کر جائے گا نہیں<br />
بنی اسرائیل کے بچوں کا قتل<br />
کوئ موسی روکنے نہیں آئے گا کہ<br />
نبوت کے سب در بند ہیں<br />
نظم:در بن<br />
ماں‘ ماں ہوتی ہے<br />
اس کی آنکھوں میں<br />
دو عالم کے سکھ<br />
اس کا سایہ<br />
بھگوان کی کرپا
رحمان کی دیا<br />
ماں‘ ماں ہوتی ہے<br />
ذلیخا کا عشق سچا سہی<br />
وہ برہنہ پا کب چلی تھی<br />
وقت کیسا انقلب لیا ہے<br />
کہنے لگا: میں خدا ہوں<br />
فرش کا وارث<br />
عرش کا وارث<br />
بڑھ کر میرے قدم لو<br />
.............<br />
لوگوں کی آنکھوں میں بے بسی<br />
ہونٹوں سے لپٹی بے کسی تھی<br />
ہاتھ اٹھے ہوے تھے<br />
کوئ موسی آئے<br />
ساتھ اپنے عصا لئے<br />
نہ اب کربل کا کوئ سامان ہو
کہ تدبیر کی<br />
اس کے پاس کب کمی ہے<br />
رحمت خدا کی<br />
پتھر کو موم کر دے<br />
کہ وہ رحمان و رحیم ہے<br />
یا ظلم مٹے<br />
اس کے قہر و غضب سے<br />
کہ وہ قہار و جبار ہے<br />
خوشبو کی تمازت سے<br />
زیست کے ہونٹوں پہ<br />
پیاس رکھ دی<br />
جیون کا نم<br />
خون جکر پی کر<br />
ہستی کی ناتمام آرزوں پر<br />
مسکرایا<br />
آدم سٹپٹایا
حیات کا سفر<br />
موت کی دہلیز تلک لے آیا<br />
ان دیکھے کھیل<br />
بھوک پیاس اور غلمی<br />
آسمان سے کب اترے ہیں<br />
فرعون کا یہ تحفہ<br />
نحیف کندھوں سے<br />
نحیف کندھوں تک<br />
موت کی علمت بن کر<br />
زیست کو<br />
ورثہ میں مل ہے<br />
جام سقراط کو<br />
جی بسم ا کہہ کر<br />
ہونٹوں سے لگا لو<br />
یا پھر
ہونٹ سی کر<br />
لوسی فر کے چرنوں میں<br />
اپنے کندھے رکھ دو<br />
کہ زیست شانت رہے<br />
ورثہ<br />
میر جعفر نے<br />
مگر لوٹ لیا ہے<br />
کس سے فریاد کریں<br />
جس ہاتھ میں<br />
گلب وسنبل<br />
اس کی بغل میں خنجر<br />
کمزور کی جیون ریکھا کا<br />
رام بھلی کرے گا<br />
آنکھ میں پانی<br />
آب کوثر
.........<br />
گنگا جل ہو کہ<br />
زم زم کے مست پیالے<br />
دھو ڈالیں کالک کے دھبے<br />
بے انت سمندر<br />
مرے بولوں کی تڑپت<br />
مرے گیتوں کی پیڑا<br />
مرزے کی کوئ ہیک نہیں<br />
مرے اشکوں کا شرینتر تھا<br />
اس سے پہلے<br />
آنکھوں میں دھواں بھر لو<br />
چاند کا چہرا<br />
راون کی شکتی لے کر<br />
عیسی کے خون سے<br />
اوباما ہی رب لکھ رہا ہے
فرات کا دامن<br />
آس کے پنچھی<br />
پون کی کامنا لے کر<br />
صاحب ولیت کے در پر<br />
کھڑے ہیں<br />
غربی ہبل<br />
اساس کے موسم سی کر<br />
کھنڈر ہونٹوں پر<br />
سچ کی موت کا قصہ<br />
حسین کے جیون کی گیتا<br />
وفا کے اشکوں سے<br />
لکھ کر<br />
برس ہوئے<br />
مکت ہوا<br />
ممتا
اس کی گردن کا سریا<br />
کس ٹیپو نے توڑا ہے<br />
............<br />
سننے میں آیا ہے<br />
ہم آگے بڑھ گئے ہیں<br />
ترقی کر گئے ہیں<br />
موسی اور عیسی<br />
گرجے اور ہیکل سے<br />
مکت ہوئے ہیں?<br />
................<br />
سننے میں آیا ہے<br />
ہم آگے بڑھ گئے ہیں<br />
ترقی کر گئے ہیں<br />
گوئٹے اور بالی<br />
ٹیگور تے جامی<br />
سیوفنگ اور شیلی
?سب کے ٹھہرے ہیں<br />
................<br />
منصف<br />
?ایمان قرآن کی کہتتا ہے<br />
سننے میں آیا ہے<br />
الفت میں کچھ دے کر<br />
پانے کی اچھا<br />
حاتم سے ہے چھل<br />
...............<br />
مہر محبت سے بھرپور<br />
نیم کا پانی<br />
نہ کڑا نہ کھارا<br />
وہ تو ہے<br />
آب زم زم<br />
اس میں رام کا بل<br />
چل' محمد کے در پر چل
قانون کے رکھوالے<br />
چوراہے پر<br />
ٹکٹکی لے کر بیٹھے ہیں<br />
صلیب پر لٹکا دو<br />
مفتی کا فتوی ہے<br />
در وا کر دو<br />
قیس کی بولی تو سب بولیں<br />
ستے کے سب رستے<br />
جعفر کے گھر کو جاتے ہیں<br />
منصور نے جیتے جی<br />
سچ کو<br />
کب بکتے دیکھا تھا<br />
میں تم سے کہتا ہوں<br />
جس مٹی سے<br />
خمیر اٹھا تھا<br />
اس مٹی کا رشتہ
برس ہوئے<br />
ہونٹوں پر<br />
چپ کی مہر ثبت کیے<br />
بوزر کی شکتی<br />
ڈھونڈ رہا تھا<br />
برس ہوءے<br />
کرائے کے قاتل<br />
کیا بھکشا دیں گے؟<br />
کرن ہماری کھا جا ہے<br />
ہم موسی کے کب پیرو ہیں<br />
جو آسمان سے من و سلوی اترے گا<br />
بارود کے موسم<br />
قسمت اچھی ہوتی تو<br />
راکھشش جیون پراس<br />
قرآن راج نہ ہوتاL؟
قرآن راج<br />
ترے در پر<br />
مرنے کا مزا چھوڑ کر<br />
خلد کی تمنا<br />
جس روسیاہ کوہو گی<br />
ابلیس کا ہمسایہ رہا ہو گا<br />
ابلیس کا ہمسایہ<br />
زیست کے واسطے سارے<br />
سورگ کے دیو<br />
عرش کے فرشتے سارے<br />
مسجد ومحراب<br />
کلیسا و مندر سارے<br />
دیر وحرم<br />
اہل صوف کے<br />
میکدے سارے
کہکشاؤں کے سلسلے<br />
نمو کی شبنم طرازیاں<br />
بہاروں کی زمزمہ پردازیاں<br />
حضور کے عشق کی<br />
مسکانوں کا ثمر ہیں<br />
ثمر<br />
رام اور عیسی کے بول<br />
ناچوں کی پھرتی<br />
بے لباسی میں رل کر<br />
بے گھر بےدر ہوئے ہیں<br />
دفتری ملں کےمنہ میں<br />
..................<br />
طاقت کی بیلی میں<br />
کربل کربل کرتے یہ کیڑے<br />
ہانیمن اور اجمل کا منہ چڑاتے ہیں<br />
سورج ڈوب رہا ہے
دریا کا پانی<br />
بھیگی بلی<br />
حر بربک کے سنکھ میں رہتے ہیں<br />
جینے کو تو سب جیتے ہیں<br />
اس سے کہہ دو<br />
ان کی پلکوں کے قطرے<br />
صدیوں بے توقیر رہے<br />
پھر بھی ہونٹوں پر<br />
جبر کی بھا میں جلتے<br />
سہمے سہمے سے بول<br />
مسیحا بن سکتے ہیں<br />
اس سے کہہ دو<br />
انارکلی کے<br />
دیواروں میں چننے کا موسم
جب بھی آتا ہے<br />
آس کے موسم مر جاتے ہیں<br />
ہر جاتے ہیں<br />
شاہ کی لٹھی<br />
پلکوں کی شام<br />
ہر شام پر بھاری ہے<br />
ڈرتا ہے اس سے<br />
حشر کا منظر<br />
پلکوں کی شام<br />
کنگلے عاشق کے آنسو<br />
مطلب کی آنکھیں کیوں دیکھیں<br />
میں تو<br />
پھولوں کے موسم کی لیلی ہوں<br />
آنکھوں دیکھے موسم
تیری آنکھوں کے مست پیمانے سے<br />
کچھ سی بچا کر<br />
آب زم زم میں مل کر<br />
امرتا کے ایوانوں میں<br />
خود کو<br />
پھر تم کو کھوجوں گا<br />
تم مرے کوئ نہیں ہو<br />
اسمبلی کے اکھاڑے میں<br />
رقص ابلیس ہوتا ہے<br />
گریب گلیوں میں<br />
مقدر سوتا ہے<br />
بھوک جاگتی ہے<br />
فقیروں کی بستی میں<br />
بینائ کا منبع<br />
آنکھیں کھو بیٹھا
ہر آشا زخمی زخمی<br />
ہر نغمہ عزراءیلی اسرافیلی<br />
خون مں بھیگا<br />
گنگاکا آنچل<br />
پلکوں پر شام<br />
شناخت اداس اداس<br />
کنارے اس سمندر کے<br />
پرسکون سہی<br />
تہہ مینسامری کا ببچھڑا<br />
اور صلیب عیسی<br />
آنکھ سمندر<br />
پریت بت کی شناسئ مانگے<br />
عشق کربل سی آبلہ پائ مانگے<br />
...............<br />
وہ پیکر فردوس
آنکھ کے سب ترکش<br />
جو ساتھ لیا تھا<br />
کب چل پایا تھا<br />
بے نوا دستک<br />
تو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
آب زم زم میں دھل کر<br />
حوض کوثر میں کھل گلب<br />
ا کی عنایت<br />
محمد کی نظر عطا<br />
حوض کوثر میں کھل گلب<br />
ترے سینے میں<br />
مری پیاس کےدیپ جلیں<br />
ماں کے دل کی دھک دھک<br />
خلد کے گیت سنائے<br />
شہد سمندر
چپ<br />
مت بولو<br />
چپ کا روزہ رکھ لو<br />
ہم حسین نہیں جو بولیں<br />
یزید اترا ہے<br />
فاختہ کا اترن لے کر<br />
مت بولو<br />
میں کب کافر رہا ہوں<br />
کہ محبت کی عظمتوں سے انکار کرتا<br />
خدا سے محبت ملی تو<br />
فرشتوں نے سجدہ کیا<br />
زمین کا وارث ہوا<br />
کتابیں آسمان سے اتریں<br />
پھلوں پر استحقاق ٹھہرا<br />
سب پھول میرے ہوئے
آزاد پنچھی<br />
رات اک شخص<br />
ٹیپو کی قبر کی دھول میں<br />
غیرت ایمانی تلش رہا تھا<br />
ہائیکو<br />
اندھیروں سے کہہ دو<br />
جلتے دیے جھونپڑوں کے<br />
بننے والے ہیں خمینی<br />
ہائیکو<br />
آؤ ایک صف میں سب<br />
سجدہ کریں کہ شاید<br />
‘مہربان ہو جائے<br />
مہربان ہونا اس کی عادت ہے<br />
ہائیکو<br />
تقلید حسین میں
زندگی آج پھر<br />
جبر سے برسر پیکار ہے<br />
ہائیکو<br />
انسان قطرے میں سمندر<br />
خدا کا ادنی کمال ہے<br />
تم اپنا ہنر کہو کوئ<br />
ہائیکو<br />
جبر کا فرات<br />
جوش میں ہے آج<br />
آؤ عمر کا خط تلش کریں<br />
ہائیکو<br />
کاٹ شمشر کی فتح کی ضامن نہیں<br />
کار جہاد میں مذاکرات‘ حیلے بیکار<br />
قوت بازو شیر میسور پیدا کر<br />
ہائیکو
قطرہءندامت تریاق عصیاں<br />
شعلہءنخوت‘ عذاب حشر<br />
دونوں ہم سفر ہوئے ہیں میرے<br />
ہائیکو<br />
فرات تو اک نقاب تھا ورنہ<br />
ہر اجلے چہرے میں<br />
فرعون کا چہرا ہو گا<br />
ہائیکو<br />
انسان کی ساری شکتی<br />
اب بھوک کا<br />
تاج محل تعمیر کرے گی<br />
ہائیکو<br />
ابن آدم اپنے کمال میں<br />
خدا کی طرح
ل زوال ہے<br />
ہائیکو<br />
مر کر جینے والے<br />
کیسے ہوں گے<br />
آؤ جاپان جا کر دیکھیں<br />
ہائیکو<br />
جبریل کا اب یہا ں کام نہیں<br />
زمین کا بڑا کہتا ہے<br />
لنکن کی کتاب کافی ہے انسان کے لیے<br />
ہائیکو<br />
میں فرہاد نہیں‘ خود کشی کر لوں گا<br />
محبت اور حساب<br />
دو مضمون رہے ہیں‘ مری نظر میں<br />
ہائیکو
جب سے بش کو امام کیا ہے<br />
گھر گھر سے<br />
روشنی کا جنازہ اٹھنے لگا ہے<br />
ہائیکو<br />
سورج کو روک لو‘<br />
١٩٩٧<br />
دیوتاؤں سے وہ کچھ کم نہ تھا<br />
دجال کی یہ خصلت اگر اس میں نہ ہوتی<br />
اسی آنکھ سے دیکھتا رہا میرے رقیب کو<br />
...............<br />
انتخابی پوسٹر دیکھ کر یوں لگا<br />
شہر میں کئ پیغمبر اتر آئے ہیں<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
حجرے میں بیٹھ کر رہ عشق میں<br />
مرنے کی بات تو کرتا ہے وعظ<br />
بڑا مشکل ہے تلوار پر آنا<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سجدہ میں جو گر گیے‘ کون جانتا ہے ان کو<br />
میں بھی سجدہ میں گر جاتا اگر<br />
تری کاوشوں میں منفرد ہوتا کیسے؟<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
دل توڑتے نہیں مرے شہر کے فتوی گر<br />
رقیب تو کافر تھا ہی<br />
مسلمان بھی تو مسلمان نہ رہا<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
چل اٹھ‘ یہاں کیا رکھا ہے<br />
وعدہءفردا نہیں ہوتا<br />
جن تلوں میں‘ تیل ہوتا ہے<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
کس امید پر سچائ پیش کروں<br />
بھوک بڑھ گئ ہو تو<br />
بھیڑ کا بچہ‘ سچا نہیں ہوتا<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس کارواں کا ہو وہ امیر<br />
وہاں لٹیرے لینے آئیں گے کیا<br />
فرشتہءاجل کو بھی‘ سکوں مل سکے گا<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
ہر آنکھ میں نہ بس<br />
کسی ایک کا ہو جا<br />
طواءف ترس جاتی ہے‘ گھر کے لیے<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
اس کی محبت میں سب کچھ ہار دیا<br />
وہ تو باشندہ تھا چاند ستاروں کا<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
یقین دولت سہی‘ میں نہیں مانتا<br />
عیسی کے حواری‘ کب دار تک آئے<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
حسن کسے متاثر نہیں کرتا<br />
پھر بھی احتیاط اچھی ہے
گلب میں چھپا ہوتا ہے سانپ اکثر<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
میں نے زنجیر عدل ہلئ تو<br />
الحاد کا طعنہ ہر زبان پر تھا<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
اندر سے خالی ہوتا ہے وہ مکان<br />
جو باہر سے تاج محل دکھائ دے<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
بھیگنے سے کیوں ڈرتے ہو؟<br />
برستا نہیں وہ بادل<br />
جو ہر پل گرجتا دکھائ دے<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
جانا مجھے ہو‘ رستہ حضرت خضر بتاءیں<br />
اس سے بڑھ کر‘ توہین منزل کیا ہو گی؟<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
خدمت کہو
صیاد کی مہربانی<br />
مطلب سے خالی نہیں ہوتی<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
ان برف آنکھوں میں<br />
سورج نہ اتارو<br />
زمین‘ طوفان نوح کی متحمل نہیں<br />
............<br />
اپنے عشق پر تمہیں ناز سہی<br />
مگر اس سے دور رہو<br />
تم مقصود ہو‘ براہیم نہیں<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
عمر بھر طواف کیا ترے مے خانے کا<br />
اب لے رہا ہوں اپنے عشق کا امتحان<br />
اب مے خانہ کرے طواف‘ مرے آگے<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
ہبل کو تم خدا سمجھو تو سمجھو<br />
شرک اب مجھ سے نہیں ہو گا
مسلمان ہو گیا ہوں میں<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
ندیم و وزیر کو کیوں پڑھتا<br />
غیض و غضب میں اک چہرا<br />
دیوان میر و میزا سے کم نہ تھا<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
ارادے تو پہاڑ ہوتےہیں<br />
ہواؤں میں اتنی سکت کہاں<br />
پھیر دیں رخ پہاڑوں کا<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
آفتاب اگر مری دسترس میں ہوتا<br />
بچھا دیتا میں اس کو‘ تیرگی کے در پر<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
گو سب رستے فرات کو جاتے ہیں<br />
جو پانی اصغر کا مقدر نہ بن سکا<br />
اس پانی کو میں منہ لگاؤں کیسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
جب کبھی پانی میں مہتاب اترے<br />
تم من میں اپنے پیاس اتر کر نکلو<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
فرشتوں کو گناہ کی لذت کیا معلوم تھی<br />
اسی لیے ان کو<br />
خلفت ارضی نہیں ملی تھی<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
پیٹ کا جہنم جب بھڑک اٹھا<br />
قدموں کو بیچ کر<br />
بیساکھیاں وہ خرید رہا تھا<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
جس چونچ میں اک نسل کی بقا ہو<br />
قیامت ہے‘ اس چونچ پر‘ کوئ عقاب اترے<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
سانپ بچے سے عزیز تھا اس کو
اپنے ہاتھوں وہ اس کو<br />
دودھ پل رہا تھا<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
وہ نظر کب نظر رہتی ہے<br />
اٹھ جاتی ہے جو سرکار کی جانب<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
اک تسلسل سا ہے قصہ ہائے عشق میں<br />
آخر کب تک تقلید مجنوں و فرہاد کریں<br />
................<br />
فرشتے سجدہ میں کیوں نہ گرتے<br />
آدم کو اپنے ہونے پر یقین تھا<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
جو غیرت چمن تھا<br />
صلیب پہ لٹکا ہوا تھا<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
جس لہو میں سرخی ہوتی ہے<br />
وہ لہو گبھراتا نہیں
سرنگاپٹم کوچ کرنے سے<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
یقین کرنے ناکرنے سے کیا فرق پڑتا ہے<br />
خدا معمہ ہی رہے گا روبرو آنے تک<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
جو آگ میں کود گیا وہ خلیل تھا<br />
مرے لیے آگ؛ آگ رہے گی‘ یقین آنے تک<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
ابھی پڑا رہنے دو مرا جنازہ ان کے در پر<br />
جا نہ سکیں گے وہ مرے رقیب کے در پر<br />
...........<br />
جلد! خاک ترا یہ کمال ہے<br />
امن پسندوں کو<br />
مرنے والوں کی سسکیاں‘ سونے نہیں دیتیں<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
نشہ شراب کا ہو کہ شباب کا<br />
معبود بنا دیتا ہے انسان کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
چپ ہو جا‘ اپنی نصیحت پاس ہی رکھ<br />
اگر وہ جلنا ترک کر دیں گے<br />
انھیں پروانہ کون کہے گا<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
محبت سے جب کوئ مرا نام لیتا ہے<br />
سمجھ جاتا ہوں میں<br />
امتحان کی پل صراط سے‘ گزرنے وال ہوں<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
وہ گھوڑے بیچ کر سوتا رہا<br />
ادھر رات کھا گئ روشنی کو<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
سر محفل جھوٹ کھول دیتا مگر<br />
مروت کی قبا تھی<br />
مرے بدن پر<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توڑ آیا وہ فاختاوں کے انڈے<br />
یہ بول‘ پتھر کا جسم بول رہا تھا<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
مرے انکار کی داستان تو لکھ دی<br />
اس کے ہاتھ پر لہو‘ مورخ لکھ نہ سکا<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
جانے کب عیسی اسمان سے اترے<br />
کربل کی خاک سے نمود صبح ہو گی<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
وہ آنکھیں جو ہر کسی پر پتھر برساتی ہیں<br />
لوگ ہیں کہ بدھ کے بھکشو ہوں جیسے<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
ریت کے دریا میں پیاس اگ آئ ہے<br />
پھر کوئ زینب ننگے سر آگئ ہو جیسے<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
درس صداقت سے پہلے وعظ
جا کربل سے جا کر<br />
صداقت کی قیمت تو پوچھ<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
لے لیا تھا اس نے مرے فرشتوں سے قلم<br />
لکھ دیا اپنا حساب‘ مرے حساب میں<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
میں بیوی سے کب ڈرتا ہوں<br />
کانپ جاتا ہوں<br />
جب کوئ تحفہ پکار اٹھتا ہے<br />
میں تو ترے جوتے ترا سر ہوں<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
مری نادانی تو ذرا دیکھو<br />
جو بےکسی کے کیچڑ میں پڑا تھا<br />
میں ڈھونڈھتا رہا اسے ستاروں میں<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
مری قبر پہ چراغاں نہ کرو
روشنی بچا لو<br />
ادھر آ رہا ہے محبوب تمہارا<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
جب ہر سو موت کا منظر ہو<br />
ابابیلوں کے پر کاٹ کر<br />
حسن کی رکھشا کیسے ہو گی<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
تم مرے اپنے ہو<br />
کیسے یقین کر لوں<br />
شناختی کارڈ جعلی بننے لگے ہیں<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
مقصود حسنی کی شاعری میں ہندی تلمیحات کا استعمال<br />
جسے آج اردو اور ہندی کا نام دیا جاتا ہے‘ بہت پہلے سے<br />
برصغیر کی زبان تھی تاہم موجودہ تینوں رسم الخط بہت بعد
کی دین ہیں۔ عربوں سے پہلے کا رسم الخط کیسا تھا تحقیق<br />
طلب مسلہ ہے اور اس جانب سنجیدہ توجہ دینے کی<br />
ضرورت ہے۔ عربوں نے اپنی اظہاری ضرورت کے لیے<br />
اس زبان کو اختیار کیا‘ البتہ اسے عربی جامہ عطا کیا<br />
جسے بعد میں ایرانیوں نے اس رسم الخط کو تقویت بخشی۔<br />
اس زبان کو عربی فارسی رسم اخط ہی نہیں اپنے فکری<br />
سرماءے سے بھی سرفراز کیا۔ علوہ ازیں یہ زبان ان کے<br />
مزاج‘ رسوم سماجی اور عمرانی رویوں سے بھی آشنا<br />
ہوئ۔ اسے بہت سارے عربی فارسی لسانی سلیقے میسر<br />
آءے۔ عربی فارسی آوازیں اس کے ذخیرے میں داخل<br />
ہوءیں اور اس کا حصہ بن گیں۔ مقامی الفاظ میں داخل ہو<br />
گیں جیسے گریب سے غریب اوال میں ح شامل ہو گئ ور<br />
پر ح کا اضافہ ہوا۔ اس قسم کی سیکڑوں مثالیں اردو میں<br />
موجود ہیں۔<br />
عربی اور فارسی چونکہ حاکم زبانیں تھیں‘ اس لیے ان کا<br />
مقامی زبانوں پر اثر انداز ہونا غیر فطری بات نہ تھی۔<br />
زبانیں تو دوستوں اور میل جول رکھنے والوں سے بھی<br />
متاثر ہوتی ہیں۔ اس لیے زبانوں کا زبانوں سے متاثر ہونا<br />
کوئ بڑی بات نہیں۔<br />
مغلیہ سلطنت کو زیر کرنے کے بعد انگریز نے محکوم<br />
عوام پر اپنے اثرات مرتب کرنے کے لیے بڑی عیاری سے
تقسیم کے نظریے کو اختیار کیا۔ ایک طرف یہاں کے لوگوں<br />
سے رابطے کے لیے رومن خط کو رواج دیا تو دوسری<br />
طرف فورٹ ولیم کالج کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے<br />
لیے خط نستعلیق اور ہندوں کے لیے دیوناگری کو راءج<br />
کیا۔ اس طرح ایک ہی زبان کے تین رسم الخط رواج پا<br />
گیے۔ اس تقسیم کی سازش کے باوجود دیوناگری عربی<br />
فارسی اور خط نستعلیق مقامی اور ہندو رسم و رواج سے<br />
دستکش نہ ہوئ۔ جس کا واضح ثبوب اردو شعر ونثر میں<br />
ہندو سماج و معاشرت کے متعلق الفاظ اور تلمیحات وافر<br />
تعداد میں ملتی ہیں۔ یہ صورت جدید وقدیم اردو شعری ادب<br />
میں ملتی ہے۔<br />
برصغیر میں بیرونی لوگوں کی آمدورفت کا سلسلہ ہمیشہ<br />
سے رہا ہے۔ اس کی شکل کچھ بھی رہی ہو‘ ان کی آمد<br />
سے بیرونی سماج ومعاشرت اور معاش سے متعلق روایات<br />
اور رویے بھی درآمد ہوءے ہیں۔ ان کے زیر اثر زبان کو<br />
لفظوں کا ذخیرہ دستیاب ہوا ہے۔ یہاں کے باشندوں کی ذاتی<br />
اصطلحات‘ استعارے‘ تلمیحات وغیرہ متروک نہیں ہوءیں۔<br />
ان کا استعمال اپنے پورے وجود کے ساتھ رہا ہے۔<br />
ہر دو رسم الخط والوں میں سے بہت سوؤں نے انتہا<br />
پسندی سے کام لیا۔ اصلح زبان کے نام پر ان سماجی
اصطلحات اور الفاظ کو حرف غلط کی طرح مٹانے کی<br />
کوشش کی۔ ان کی جگہ مترادفات کو رواج دینے کی بھی<br />
کوشش کی لیکن ان کوششوں کو خاطرخواہ کامیابی نصیب<br />
نہیں ہو سکی۔ ان کی کوششیں زیادہ تر کتاب کی دنیا تک<br />
محدود رہیں ہیں کیونکہ زبان بولنے کی مرضی تابع رہتی<br />
ہے۔ اس کی بنیادی وجہ زبان کے بولنے والے کا سماج<br />
سے رشتے کی نوعیت ہوتی ہے۔ شخص اپنے سماج سے<br />
کسی سطع پر رشتہ ختم نہیں کر سکتا۔ سماجی روایات کی<br />
جڑیں اس کے لشعور میں اپنی جگہ بنا چکی ہوتی ہیں۔<br />
قدیم و جدید شعری ادب میں ہندی الفاظ اصطلحات اور<br />
تلمیحات کا استعمال نظر آتا ہے جو زبان کو لب و لہجے کی<br />
مٹھاس سے ہمکنار کرتا ہے۔ جدید اردو شعرا میں مقصود<br />
حسنی کی شاعری میں ہندی الفاظ اور اصطلحات کا<br />
استعمال ہوا ہے‘ لیکن ہندی تلمیحات کے حوالہ سے وہ<br />
معتبر نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاں استعمال ہونے والی<br />
تلمیحات برمحل اور فکر سے مطابقت رکھتی ہیں۔ وہ اپنی<br />
شاعری کے ذریعے بین المذاہب کے اتحاد کا درس دیتے<br />
نظر آتے ہیں۔ وہ جملہ مذاہب کے متعلق لوگوں کو عزت کی<br />
نگاہ سے دیکھتے اور پیش کرتے ہیں۔ وہ اکثر ان کو ایک<br />
صف میں ل کھزا کرتے ہیں۔ پیش نظر سطور میں ان کی<br />
شاعری میں استعمال ہونے والی ہندی تلمیحات درج کی جا<br />
رہی ہیں تاکہ قاری ان کی فکری اپروچ تک بآسانی رسائ
حاصل کر سکے۔<br />
چتا کو آگ دکھا دی ہے<br />
جذبوں سے کہہ دو<br />
موقع ہے<br />
ستی ہو جائیں<br />
مسیحا جل رہا ہے<br />
تم بھی جل جاؤ<br />
گوریاں جب اشنان کریں گی<br />
جسموں کو چھو لینا<br />
کہ کوئ کرشن پیدا ہو<br />
راجیو کے ہاتھوں کو<br />
ہات میں لے لے گا<br />
قید روحیں شنانت ہو جائیں گی<br />
نظم:جذبوں سے کہہ دو<br />
ماتمی سندور مانگ میں سجا کر<br />
رات مانگ رہی ہے
حق مہر مجھ سے<br />
ہائیکو<br />
بارش برسی تو کل شب بھر<br />
جیون کے جلتے شعلوں میں<br />
روپ کنور یاد آئ مجھ کو<br />
ہائیکو<br />
اک لقمہ ہو جس کی قیمت<br />
تم ہی کہو وہ سستا انسان<br />
دلی جھنڈے گاڑے گا کیا<br />
ہائیکو<br />
رادھا کی چتا کے پھول<br />
گنگا کی لہروں سے ٹکراتے<br />
میں نے خود دیکھے ہیں<br />
نظم: میں نے دیکھا ہے<br />
رواج کے پتھروں کی برسات میں<br />
ٹھٹھرتے انسانوں نے
انا کی حدت کے لیے<br />
روپ کنور کو ستی کر دیا<br />
نظم:سرشام<br />
دعا کو اٹھتے ہات<br />
گلب کی مہک<br />
مٹی سے رشتے<br />
کب پوتر رہے ہیں؟؟؟<br />
درگاوتی کی عصمت<br />
مرنے کے بعد<br />
اپنوں کے ہات<br />
لٹ گئ تھی<br />
نظم: سورج دوزخی ہو گیا تھا<br />
گوتم سے کوئ کہہ دے<br />
سنکھ بجائے<br />
مسیح زندہ کر دے<br />
پتھروں کو
نظم: پتھر<br />
آنکھیں بند تھیں<br />
رام کا نام زبان پر تھا<br />
آستین میں کوئ بول رہا تھا<br />
نظم:تضاد<br />
حرص کی رم جم میں<br />
ملں پنڈت<br />
گرجے کا فادر<br />
گر کا امین<br />
لمبڑ کے ڈیرے پر بیٹھے<br />
آنکھوں میں پتھر رکھ کر<br />
پکون کے گیت گاءیں<br />
حرص کی رم جم<br />
اس کا غصہ<br />
پریم کا ساگر
اس کے چرنوں میں<br />
سورگ کا جھرنا<br />
ماں‘ ماں ہوتی ہے<br />
اس کا سایہ<br />
بھگوان کی کرپا<br />
ماں‘ ماں ہوتی ہے<br />
لوبھی قانون کا رکھوال<br />
بےبس زخمی زخمی<br />
منصف ہوا ہے<br />
مقولہ باقی ہےاور یہ<br />
چڑھ جا بیٹا سولی<br />
رام بھلی کرے گا<br />
رام بھلی کرے گا<br />
آنکھ میں پانی<br />
آب کوثر<br />
شبنم
گل کے ماتھے کا جھومر<br />
جل ‘جل کر<br />
دھرتی کو جیون بخشے<br />
گنگا جل ہو کہ<br />
زم زم کے مست پیالے<br />
دھو ڈالیں کالک کے دھبے<br />
جل اک قطرہ ہے<br />
جیون بے انت سمندر<br />
بے انت سمندر<br />
مرے جیون کا<br />
ہر جلتا بجھتا پل<br />
مجھ کو واپس کر دو<br />
جو دن خوشییوں میں گزرا<br />
تقدیر نہیں<br />
مرے عشق کی تپسیا کا اترن تھا<br />
اس سے پہلے
آنکھوں میں دھواں بھر لو<br />
چاند کا چہرا<br />
راون کی شکتی لے کر<br />
عیسی کے خون سے<br />
اوباماہی رب<br />
لکھ رہا ہے<br />
فرات کا دامن<br />
غربی ہبل<br />
عزازیل کا بردانی ہے<br />
برہما تو<br />
ایسا بردان نہیں دیتا<br />
غربی ہبل<br />
تمہارے جانے سے پہلے<br />
یہ سب کچھ نہ تھا<br />
تمہارے جانے کے بعد<br />
گنگا الٹا بہنے لگی ہے
گنگا الٹا بہنے لگی ہے<br />
بدھ رام بہا<br />
کہ نانک کے پیرو ہوں<br />
یا پھر<br />
چیراٹ شریف کے باسی<br />
اپنا جیون جیتے ہیں<br />
سننے میں آیا ہے<br />
کل تا کل<br />
جب بھی<br />
پل کی بگڑی کل<br />
در نانک کے<br />
بیٹھا بےکل<br />
چل' محمد کے در پر چل<br />
ترے منہ کے<br />
الہامی شبدوں کے جادو<br />
میری سماعتوں پر
عشق کے گرنتھ کی تکمیل میں<br />
تیرے آنے کے رستوں کو<br />
برہما کی کرپا کا بردان سمجھیں<br />
بردان<br />
آنکھ کے اک اشارے پر<br />
اپنی منشا کے رنگین پنے<br />
کل کے حسین سپنے<br />
تیاگ کے قدموں میں رکھے<br />
چاہت کے کنول<br />
کھونٹ پر لٹکی ور مال<br />
آس کے رستوں سے پوچھے ہے<br />
مانگ میں تارے بھرنے وال<br />
کب لوٹ کر آءے گا<br />
میں تم سے کہتا ہوں<br />
اج کا سچ تو یہ ہے<br />
گنگا کرتی ہے چھل
شنی کو طلق کرو<br />
چندر کی روشن کرنیں<br />
ظلمت کی بھاشا بولے ہیں<br />
میں تم سے کہتا ہوں<br />
بلوان کا کھیسہ تو<br />
گن کی گتھلی ہے<br />
میں تم سے کہتا ہوں<br />
تیری انگلی کے ارتعاش سے<br />
مہتاب دو لخت ہوا<br />
جنت بنی سورگ بنا<br />
ویدی کا یہی ویدان تھا<br />
کہ سب دیو تخلیق ہوں<br />
مسکان کے بطن سے<br />
اس کے ننھے ہاتھوں کی<br />
الجھی لکیریں<br />
میری آنکھوں میں
سوال بنتی رہتی ہیں<br />
ان الجھی ریکھاؤں کو<br />
برہما لوک سے<br />
کب کوئ سلجھانے اترے گا<br />
سکھ کا سارا ناواں<br />
دھرتی کا اندر<br />
اپنی مٹھی میں رکھ کر<br />
سیتا کا بلی دان<br />
راون تپسیا کا بردان سمجھے<br />
سیاست کی دوکان<br />
چمکائے بیٹھا ہے<br />
دھرتی کا اندر<br />
کراءے کے قاتل<br />
کیا بھکشا دیں گے؟<br />
کرن ہماری کھا جا ہے<br />
بارود کے موسم
کھڑکی کھولے رکھنا<br />
اندر کی باتوں کو باہر لنا ہے<br />
باہر کے سارے موسم<br />
راون بستی کے منظر ہیں<br />
چپ ہو کہ سارے موسم تیرے ہیں<br />
قرآن راج<br />
چپ کے دامن میں<br />
ہاں اور ناں کی لکھوں گانٹھیں ہیں<br />
چپ ہو کہ ہر گانٹھ<br />
برہما کے بردان پر کھلتی ہے<br />
بردان تو قسمت کے کھیسے کا بندی ہے<br />
قسمت اچھی ہوتی تو<br />
راکھشش جیون پراس<br />
قرآن راج نہ ہوتاL؟<br />
قرآن راج<br />
شب آنکھوں میں
تاروں کا جنگل<br />
پیاس کنارے<br />
ہراس میں ڈوبے<br />
گنگاکے دامن میں<br />
ضد کا کاجل<br />
بے چہرا جیون<br />
قرآن ہو کہ گیتا<br />
راماءن کا ہر قصا<br />
گرنتھ کا ہر نقطا<br />
میرا بھی تو ہے<br />
............<br />
مساءل کی روڑی پر بیٹھا<br />
میں گونگا بہرا بے بس زخمی<br />
نانک سے بدھ<br />
لچھمن سے ویر تلشوں<br />
مدنی کریم کی راہ دیکھوں<br />
علی علی پکاروں کہ
سورج ڈوب رہا ہے<br />
سورج ڈوب رہا ہے<br />
تو انمول سہی<br />
نایاب سہی<br />
ہے تواس چترکار کا دان<br />
دان کا سونا<br />
مٹی سے کمتر<br />
...............<br />
تیری شکشا کے طور نرالے<br />
ہنسے کبھی غصہ میں آءے<br />
ساون بولی بولے<br />
ردے کی ہر دھڑکن<br />
دان کا سونا<br />
کرنے کے جذبے<br />
روٹی کے بندی<br />
دریا کا پانی
بھیگی بلی<br />
حر بربک کے سنکھ میں رہتے ہیں<br />
جینے کو تو سب جیتے ہیں<br />
تری آغوش میں پلتی مسکانیں<br />
مری تری مرتیو کو<br />
امرتا کے بردان میں ٹانکیں<br />
مجھ کو من مندر میں سجا لو<br />
کہ کام دیوا<br />
ہر بار کب<br />
خوش بختی کا منگل سوتر<br />
گلب گلو میں رکھتا ہے<br />
آنکھ دریچوں سے<br />
تری مسکانوں کی بارش<br />
شور زمینوں کو<br />
برہما کے بردان سے بڑھ کر<br />
جب تم مجھ کو سوچو گے
جب دل دریا میں<br />
ڈول عشق کا ڈالو گے<br />
ارتعاش تو ہو گا<br />
من مندر کا ہر جذبہ<br />
ہیر کا داس تو ہو گا<br />
بالوں میں بکھری چاندی<br />
چاندنی راتوں میں<br />
دور امرجہ کے کھلیانوں میں<br />
سیرابی دیتے ہیں<br />
لب گنگا کے پیاس بھجاتے ہیں<br />
بالوں میں بکھری چاندی<br />
جب بھی<br />
پل کی بگڑی کل<br />
در نانک کے بیٹھا بےکل<br />
اک پل<br />
ہر نغمہ
عزازیلی اسرافیلی<br />
خون میں بھیگا آنچل<br />
گنگا کا<br />
پلکوں پر شام<br />
آس کے ٹوٹے ٹھوٹھے میں<br />
آشا کے کچھ بول رکھنے کو<br />
غرض کی برکی نہ بن جءے<br />
وشنو چھپنے کو<br />
برہما لوک کا رستہ بھول جاتا ہے<br />
اب جب بھی<br />
جانے کے موسم میں<br />
آنے کی سوچیں تو<br />
گنگا الٹی بہتی ہے<br />
پاگل پن<br />
سوچنا یہ ہے<br />
کس کردہ جرم کی سزا
سقراط کا زہر ہے<br />
میرے سوچ پر<br />
خوف کا پہرا ہے<br />
روبرو راون کا چہرا ہے<br />
کاجل ابھی پھیل نہیں<br />
سب موسم تم کو مل جاءیں<br />
سچل دل کی کلیاں<br />
اپنے دامن میں<br />
سورگ کے سکھ رکھتی ہیں<br />
آنکھوں دیکھے موسم<br />
تم چپ ہو کہ<br />
تحسین کے کلمے<br />
برہما کے بردان سے اٹھتےہیں<br />
دروازہ کھولو<br />
فقیروں کی بستی میں<br />
اسلم کی بوتلیں
اندر لوک کی ہوتی ہیں<br />
شراب یم لوک سےآتی ہے<br />
لیبل گورا ہاؤس میں لگتا ہے<br />
اسمبلی کے اکھاڑے میں<br />
رقص ابلیس ہوتا ہے<br />
فقیروں کی بستی میں<br />
تو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
آب زم زم میں دھل کر<br />
حوض کوثر میں کھل گلب<br />
ا کی عنایت<br />
محمد کی نظر عطا<br />
برہما کا بردان<br />
ایشور کی کرپا<br />
نانک کی دیا<br />
یسوع کی برکت<br />
مری ماں مری جان
تری چاہت تری محبت<br />
تری شفقت تری عظمت کے<br />
بصد احترام و احتشام<br />
قدم لے کر<br />
مرا سلم مرا پرنام<br />
حوض کوثر میں کھل گلب<br />
یہی تو<br />
بھگوان کی لیل ہے<br />
تم آکاش ہوئے میں دھرتی ٹھرا<br />
ترے ہاتھ جیون مرتیو<br />
تر بھوجن<br />
مرے ہاتھ<br />
یہی تو<br />
(اردو کی پہلی سنکوءین (<br />
مقصود حسنی کے کلم میں مغربی تلمیحات کا استعمال
اردو ادب میں شاعری ابتدائ اور قدیم صنف سخن ہے جس<br />
میں عروض کو بڑا عمل دخل رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ<br />
عروض سے متعلق شاعر اور نقاد غیر عروضی شعرا کو<br />
تسلیم نہیں کرتے رہے۔ دوسری طرف یہ بھی ٹھوس حقیت<br />
رہی ہے کہ عروض کے عمل دخل سے فکر اور خیال اپنی<br />
پپوری توانائ اورر اصلیت کے مطابق شعر میننہیں ڈھل<br />
سکے جس کے نتیجہ میں ناصرف بات ادھوری رہی ہے<br />
بلکہ بسااوقات کچھ کی کچھ ہو گئ ہے۔۔ اس کے برعکس<br />
غیر عروضی شعرا کے ہاں شاز ہی ایسا رہا ہو۔ فکر خیال<br />
یا جذبے کا بلند ہونا اس سے قطعی الگ بات ہے۔ غیر<br />
عروضی شعرا عموما خیال کو فکری اور صوتی آہنگ کے<br />
ساتھ شعریت کے لبادے میں ملفوف کرکے پیش کرتے ہیں۔<br />
اس جدید شاعری کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔<br />
ایک تو آزاد نظم جبکہ دوسری کو نثری نظم کا نام دیا گیا۔<br />
اب یہ دونوں سابقے باقی نہیں رہ اور ناہی یہ غیر معروف<br />
رہی ہے۔ ڈاکٹر علامہ بیدل حیدری نٹری نظم کی ذیل میں<br />
رقم طراز ہیں<br />
نثری نظم کی درست اور ناقابل تردید تعریف یہ ہے کہ جب<br />
کوئ اعلی وارفع مضمون شعری اوازن و بحور اور ردیف
قافیے کی مجبوری کی وجہ سے شعری پیکر میں نہ ڈھل<br />
سکے تو اس کو آہنگ و صوت اور وجدان کے تحت اس<br />
طرح صحفہءقرطاس کی زینت بنا دیا جاتا ہے کہ قاری پر<br />
پڑھتے ہی ایک لمحے کے لیے سکتے اور حیرت کی فضا<br />
طاری ہو جاتی ہے اور اس کے سحر میں گرفتار ہو جاتا “<br />
اوٹ سے ١٩٩١ ص: ٥<br />
شعری لوازمات میں تلمیح کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔<br />
شرق و غرب کی شاعری میں کسی ناکسی سطع پر اس کا<br />
وجود ملتا ہے۔ چونکہ شاعری میں کسی واقعے وغیرہ کی<br />
تفصیلت کو درج کرنے کی گنجاءش نہیں ہوتی اس لیے<br />
اختصار کے ضمن میں تلمیح اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ تلیح<br />
سے درحقیقت مراد یہ ہے کہ شاعر اپنے کلم میں کوئ<br />
ایسا نشان چھوڑتا ہے جو کسی واقعے‘ قصے‘ معاملے‘<br />
ضرورت‘ حادثے‘ رویے وغیرہ کی نشاندہی کرتا ہے۔ مثل<br />
مرزا غالب کا یہ شعر ملحظہ ہو<br />
ابن مریم ہوا کرے کوئ<br />
مرے دکھ کی دوا کرے کوئ<br />
کیا کیا خضر نے سکندر سے<br />
اب کسے راہنما کرے کوئ
احمد ندیم قاسمی نے اس شعر میں سقراط کو بطور تلمیح<br />
استعمال کیا ہے<br />
:<br />
نءءے انسان سے تعارف جو ہوا‘ تو بول<br />
میں ہوں سقراط ‘ مجھے زہر پلیا جاءے<br />
تلمیحی حوالوں کی کئ صورتیں ہو سکتی ہیں۔ مثل اسمائ‘<br />
اصطلحی‘ استعارتی‘ اشارتی‘ ارضیاتی‘ ادویاتی‘ امرجاتی‘<br />
ادارتی‘ بحریاتی‘ جماداتی‘ حیواناتی‘ سماواتی‘ فلکیاتی‘<br />
مسکای‘ داستانی‘ سماجیاتی‘ تمثالی‘ محاوراتی‘ وغیرہ<br />
وغیرہ<br />
مغلیہ کے بعد انگریز اقتدار کا دور دورہ ہوا۔ انگریز عہد<br />
میں مغربی تلمیحات کو اکبرالہ آبادی نےکثرت سے استعمال<br />
کیا۔ ان کے بعد بہت سے اردو شعرا نے مغربی تلمیحات کا<br />
استعمال اپنے کلم میں کیا۔ جن میں اقبال‘ ن م راشد اور<br />
فیض‘ مجید امجد قابل ذکر ہیں۔ جدید نظم کے شعرا میں<br />
مقصود حسنی خصوصی اور نمایاں حیثیت کے حمل ہیں۔ ان<br />
کے ہاں مغربی تلمیحات کا اسعمال عصری حالت و واقعات<br />
کے تناظر میں ہوا ہے۔ اگر ان کی شاعری کو تلمحی<br />
استعارے کی شاعری کا نام دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ یہ<br />
بھی کہ یہ صورت بہت کم شعرا کے ہاں ملتی ہے۔ ان کی<br />
شعری زبان کو وسیع کینوس پر رکھ کر ہی سمجھا جا
سکتا ہے۔<br />
ان کی شعری خصوصیات کو بہت سے اہل قلم نے اپنے<br />
اپنے انداز میں خراج تحسین پیش کیا ہے جن میں سے چند<br />
ایک کے نام درج خدمت ہیں<br />
ڈاکٹر آغا سہیل‘ ڈاکٹر ابو سعید نورالدین‘ ڈاکٹر اسلم ثاقب‘<br />
ڈاکٹر اختر شمار‘ اکبر کاظمی‘ اشرف پال‘ اطہر ناسک‘ ایاز<br />
آر قیصر‘ ڈاکٹر علمہ بیدل حیدری‘ جمشید مسرور‘ سید<br />
اکبر گیلنی‘ ڈاکٹر سید اسعد گیلنی‘ ڈاکٹر صابر آفاقی‘ ڈاکٹر<br />
صادق جنجوعہ‘ صفدر حسین برق‘ ضیغم رضوی‘ طفیل ابن<br />
گل‘ ڈاکٹر ظہورر احمد چودھری‘ ڈاکٹر عطاالرحمن‘ عیاس<br />
تابش‘ ڈاکٹر عارف نور‘ غضنفر ندیم‘ ڈاکٹر فرمان فتح<br />
پوری‘ ڈاکٹر گوہرنوشاہی‘ ڈاکٹر محمد امین‘ ڈاکٹر مبارک<br />
علی‘ ڈاکٹر منیرالدین احمد‘ ڈاکٹر محمد عبدا قاضی‘<br />
پروفیسر محمد اکرام ہوشیارپوری‘ مہر کاچیلوی‘ ندیم<br />
شعیب‘ ڈاکٹر علمہ وفا راشدی‘ ڈاکٹر وقار احمد رضوی‘<br />
ڈاکٹر وزیر آغا‘ یوسف عالمگیرین‘ پروفیسر محمد یونس<br />
حسن وغیرہ<br />
مقصود حسنی کی کتب<br />
سپنے اگلے پہر کے نتری ہاءیکو<br />
١٩٨٦<br />
اس کا پنجابی‘ گرمکھی‘ سندھی‘ پشتو انگریزی میں ترجمہ
ہوا۔<br />
اوٹ سے نثری نظم<br />
١٩٩١<br />
پروفیسر امجد علی شاکر نے اس مجموعہءکلم کا پنجابی<br />
ترجمہ کیا۔<br />
سورج کو روک لو نثری غزل<br />
ان کتب کے علوہ ایک مجموعہ کاجل ابھی پھیل نہیں<br />
مرتبہ ڈاکٹر ریاض انجم انٹرنیٹ پر موجود ہے۔علوہ ازیں<br />
اخبار ورساءل میں بھی ان کی بہت سی نظمیں شاءع ہو<br />
چکی ہیں۔<br />
مقصود حسنی کے کلم میں مغربی تلمیحات کے علوہ<br />
مقامی اور ایشیائ تلمیحات بھی بکثرت ملتی ہیں جن میں<br />
ہندی تلمیحات خصوصیت کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس حوالہ<br />
سے کسی دوسرے مضمون میں گفتگو کروں گا۔تفہیم<br />
وتشریح کے حوالہ سے یہ کام تحقیقی ڈگری سطع کا ہے<br />
سردست ان کی مغرب کے متعلق تلمیحات ملحظہ فرماءیں<br />
وہ گیندے کا پھول نہ تھا<br />
زلفوں میں بارود سجا رکھا تھا<br />
کیا کیا سامان کیے<br />
اس نے میری موت کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔<br />
جب سے بش کو امام کیا ہے<br />
گھر گھر سے<br />
روشنی کا جنازہ اٹھنے لگا ہے<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
سورج کو روک لو<br />
شہر عشق کو جانے وال<br />
کوئ سر سلمت نہیں رہا<br />
........................<br />
دیوتاؤں سے وہ کچھ کم نہ تھا<br />
دجال کی یہ خصلت اگر اس میں نہ ہوتی<br />
اسی آنکھ سے دیکھتا رہا میرے رقیب کو<br />
..........................<br />
جس آنچل میں پناہ چاہی تھی<br />
اس آنچل کے ہر تار میں<br />
ہائیڈروجن تھی فاسفورس تھا<br />
..........................
جبریل کا اب یہا ں کام نہیں<br />
زمین کا بڑا کہتا ہے<br />
لنکن کی کتاب کافی ہے انسان کے لیے<br />
...........................<br />
وہ جن آنکھوں میں بس گیے<br />
آنکھیں وہ سلمت رہیں<br />
میں کیسے یقین کر لوں<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
درس آزادی دیتا پھرتا ہے نگر نگر<br />
کاٹ دیتا ہے پر<br />
جو پرندہ خل پر حق جتاتا دکھائ دے<br />
......................<br />
سات فرعونوں کے مقابل<br />
کب کوئ موسی رہا ہے<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
آسمان کو اپنے قہر و ستم پر ناز تھا<br />
اسے خنجر چلتا دیکھ کر
شرم سے پانی پانی ہو گیا<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
مرے سر کی دستار لے کر تو جا رہے ہو<br />
اس شہر کے لوگ<br />
بوجھ اٹھا سکیں گے دستار کا<br />
...............................<br />
غرب سے امن سلیقہ اترا<br />
مرے آنگن کی روشنی<br />
بےکار ہوئ<br />
بےوقار ہوئ<br />
نظم: دو بیلوں کی مرضی ہے<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔<br />
واشنگٹن کے مندر کا بت<br />
کس محمود نے توزا ہے<br />
سکندر کے گھوڑوں کا منہ<br />
کس بیاس نے موڑا ہے<br />
اس کی گردن کا سریا
کس ٹیپو نے توڑا ہے<br />
نظم: سوال یہ ہے<br />
........................<br />
جام سقراط کو<br />
جی بسم ا کہہ کر<br />
ہونٹوں سے لگا لو<br />
نظم: ورثہ<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
غیرت سے عاری<br />
وہ قطرہ سقرط کا زہر<br />
نہ گنگا جل<br />
نظم: چل‘ محمد کے در پر چل<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
سوچنا یہ ہے<br />
کس کردہ جرم کی سزا
سقراط کا زہر ہے<br />
نظم: کاجل ابھی پھیل نہیں<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
سقراط سے مرد حق کی<br />
دفن سے پہلے<br />
آنکھوں میں دیکھا<br />
شکوہ تھا نہ شکایت<br />
اک نصیحت ضرور تھی<br />
مرا انجام دیکھ لو<br />
کسی کو نصیحت نہ کرنا<br />
نظم: نصیحت<br />
...................<br />
میں مقدر کا سکندر ہوں<br />
ٹیکسوں کی شان کا سایہ<br />
مری رکھشا کرتا ہے<br />
نظم:میں مقدر کا سکندر<br />
........................
جورو کے موتر کی بو نے<br />
سکندر سے مردوں سے<br />
ظلم کی پرجا کے خواب چھین لیے ہیں<br />
دن کے مکھڑے پر<br />
راتوں کی کالک لکھ دی ہے<br />
نظم: اس سے کہ دو<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
طبیبو<br />
!<br />
غیرت اتارو<br />
مری رگوں میں<br />
بش گزیدہ ہوں میں<br />
نظم: علج<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
ذات کے قیدی<br />
مردوں سے بدتر<br />
سسی فس کاجیون جیتے ہیں
نظم: ذات کے قیدی<br />
..................<br />
لوسی فر کے چرنوں میں<br />
اپنے کندھے رکھ دو<br />
کہ زیست شانت رہے<br />
نظم: ورثہ<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
گوءٹے اور بالی<br />
ٹیگور اور جامی<br />
سیوفینگ اور شیلی<br />
سب کے ٹھہرے ہیں<br />
نظم:سننے میں آیا ہے<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
حرص کی رم جم میں<br />
ملں پنڈت<br />
گرجے کا فادر
ک گر کا امین<br />
لمبڑ کے ڈیرے پر بیٹھے<br />
پکون کے گیت گاءیں<br />
نظم: حرص کی رم جم میں<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔<br />
شیطانی آیات لکھنے والے<br />
ہاتھ قطع کون کرتا<br />
شیخ ملت کا ہات<br />
ڈیانہ کے ہاتھ تھا<br />
ہائیکو<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
آؤ زہد وتقا<br />
تقلید عصر میں<br />
پامیل کے نام کر دیں<br />
ہائیکو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
بندر کے بچوں کے<br />
آتے کل کی بھوک کے غم میں<br />
نظم:دو بیلوں کی مرضی ہے<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
گورکن کو بلواؤ کہ قبر کھودے<br />
سچ کا سورج<br />
دور غرب میں ڈوب رہا ہے<br />
ہائیکو<br />
......................<br />
قاتل ہیروشیما کا<br />
آج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
یو این او میں پردھان بنا بیٹھا ہے<br />
ہائیکو<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
تیسری دنیا کے لوگ
آستین کے سانپ کو<br />
پیکٹ کا دودھ پلتے رہے ہیں<br />
نظم: حماقت<br />
......................<br />
روٹی کپڑا دوں گا<br />
امریکی خدا کا وعدہ ہے<br />
آؤ امریکہ چلیں<br />
ہائیکو<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
خالی جیب کشمیروں کے لیے<br />
مغرب سے<br />
من سلوی کیوں نہیں آتا<br />
نظم: کیوں؟١<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
بڑے شیطان کے مرنے کی دعا<br />
قبول ہو بھی گئ تو کیا<br />
اس کے انڈے بچے
فتنہ پردازی میں<br />
اس سے بھی<br />
ایک قدم آگے ہیں<br />
نظم: زیادہ تر<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔<br />
سجدہ سے سر اٹھتا کیسے<br />
کمر پہ مری<br />
خدائے ارض و مریخ کا<br />
مقدس پاؤں تھا<br />
نظم:مجبوری<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
قباءیں اتار دو<br />
تمہارے تن کو<br />
ضرورت نہیں ان کی<br />
زمینی خدا نے
بھجوا دی ہیں عورتیں<br />
ضرورت تھی تم کو ان کی<br />
نظم: ضرورت<br />
.....................<br />
بے نام گزارو<br />
آج بھی بستے ہیں<br />
کالی زبان والے<br />
شیشے کے اس شہر میں<br />
نظم: مشورہ<br />
...................<br />
اس سے کہہ دو<br />
دو چار بم اور گرائے<br />
یتیمی کا دکھ سہتے<br />
بچوں کے نالے<br />
ٹوٹے گجروں کی گریہ زاری<br />
جلتے دوپٹوں کے آنسو<br />
عرش کے ابھی
اس پار ہیں<br />
نظم: اس سے کہہ دو<br />
..........................<br />
فرعون عصر کے طلسم نے<br />
ایشیا والوں کو<br />
شاہین سے<br />
کرگس کر دیا<br />
نظم: عنایت<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
اتھوپیا کا قحط<br />
بھیک مانگ رہا ہے<br />
روٹی کی<br />
حاتم دوراں<br />
فرصت ملی تو<br />
بارود بھجوا دے گا<br />
نظم: فرصت ملی تو<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھیں بند رکھتے ہیں<br />
اپنا ہوا ہے جب سے<br />
پتھر آنکھوں وال<br />
نظم: احتیاط<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
یورپ کی<br />
چڑیوں کی چونچ میں<br />
بے بس ہو کر<br />
عظیم ایشیا<br />
سسک رہا ہے<br />
الجھ رہا ہے<br />
نظم: روشنی<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔<br />
گدھ‘<br />
خلیج کے بیماروں کی<br />
سانسیں گگن رہے ہیں
نظم: سورج دوزخی ہو گیا تھا<br />
.....................<br />
یہی تو<br />
بھگوان کی لیل ہے<br />
تم آکاش ہوئے میں دھرتی ٹھہرا<br />
ترے ہاتھ جیون مرتیو<br />
تر بھوجن<br />
مرے ہاتھ<br />
:نظم<br />
‘یہی تو<br />
اردو کی پہلی سنکوئین<br />
..........................<br />
سمندروں میں طغیانی ہے<br />
طغیانی کے بیچ<br />
درندگی کا مسکن ہے<br />
ساحلوں سے کہہ دو<br />
کہیں اور بسیرا کر لیں
نظم: مشورہ<br />
.................<br />
جی میں آتا ہے<br />
من کا سارا زہر<br />
‘<br />
‘حیات کی سب سختیاں<br />
بھوک کی سب تلخیاں<br />
ارضی خداؤں کی رگوں میں انڈیل کر<br />
اپنے ڈرائنگ روم کی کھڑکی سے<br />
جو باہر کو کھلتی ہے<br />
‘<br />
انھیں تڑپتا دیکھ کر مسکراؤں<br />
نظم:جی میں آتا ہے<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
تزاب برساتے بادل<br />
گواہی دے رہے ہیں<br />
پالتو درندے
اپنی فطرت میں<br />
مہذب نہیں ہو سکتے<br />
نظم: فطرت<br />
..................<br />
سنا ہے<br />
بارود کی بدبو پھیلنے<br />
زہرا پر پہنچ گیا ہے<br />
درندگی ساتھ لے کر<br />
مغرب کا بندہءمفادات<br />
نظم: روبا<br />
.......................<br />
امرت کہہ کر<br />
غلمی اتار رہا ہے<br />
مری رگوں میں<br />
کوے کی وہ خصلت وال<br />
نظم: سازش<br />
.......................
تلواریں زہر آلود ہیں<br />
محافظ سونے کی میخیں گن رہا ہے<br />
چھوٹی مچھلیاں فاقہ سے ہیں<br />
کہ بڑی مچھلیوں کی دمیں بھی<br />
قاتل ہو گئ ہیں<br />
نظم: چاند اب دریا میں نہیں اترے گا<br />
.........................<br />
سکت نہیں رہی تو<br />
ابلیس عصر کی رگوں میں<br />
ہیروئن کیوں نہیں اتارتے<br />
نظم:ردعمل<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
چپ<br />
مت بولو<br />
چپ کا روزہ رکھ لو<br />
ہم حسین نہیں جو بولیں<br />
یزید اترا ہے
فاختہ کا اترن لے کر<br />
مت بولو<br />
:نظم<br />
..........................<br />
چاند کا چہرا<br />
راون کی شکتی لے کر<br />
اوباما ہی رب<br />
لکھ رہا ہے<br />
نظم: فرات کا دامن<br />
......................<br />
ہماری پسلیوں کے نیچے<br />
باما کا غلم چھپا بیٹھا ہے<br />
نظم:سوال یہ ہے<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
ایشیا کے لوگ<br />
بیٹھ بیٹھ کر
اس کے در پر<br />
چلنے کی عادت بھول گیے ہیں<br />
نظم: عادت<br />
..................<br />
دریا<br />
ان کشتیوں کو کیسے چلنے دے<br />
جن پر<br />
زمینی خدا کا جھنڈا نہیں ہوتا<br />
نظم: تم ہی کہو<br />
.............................<br />
کلیاں اور گلب و کنول بھی<br />
پیر مغرب کی ٹھوکر میں ہیں<br />
نظم: لہو کا تقدس<br />
...........................<br />
دریا کا پانی<br />
بھیگی بلی<br />
حر<br />
‘
بربک کے سنکھ میں رہتے ہیں<br />
نظم: جینے کو تو سب جیتے ہیں<br />
...........................<br />
آنکھیں ہی کیا<br />
کندھوں سے جدا سر<br />
بل کے ہاں<br />
گروی پڑا ہے<br />
مجھے اک خواب لکھنا ہے<br />
.................<br />
پرتھوی کیا<br />
ا کی ہر تخلیق کا<br />
ماما نہیں<br />
موچی درزی نائ بھی<br />
وارث ہو گا<br />
نظم:سننے میں آیا ہے<br />
...........................<br />
گورا ہاؤس کے چمچے کڑچھے
طاقت کی بیلی میں<br />
کربل کربل کرتے یہ کیڑے<br />
ہانیمن اور اجمل کا منہ چڑتے ہیں<br />
نظم: سورج ڈوب رہا ہے<br />
.........................<br />
فقیروں کی بستی میں<br />
اسلم کی بوتلیں<br />
اندر لوک سے آتی ہیں<br />
لیبل گورا ہاؤس میں لگتا ہے<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔<br />
شہوت کے سمندر میں<br />
زمین کے وارث<br />
ڈوب رہے ہں<br />
گرم بوسوں نے<br />
تیل کے کنوؤں میں<br />
آگ لگا دی ہے<br />
نظم: قربت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
سکھ کا سارا ناواں<br />
دھرتی کا اندر<br />
اپنی مٹھی میں رکھ کر<br />
سیتا کا بلی دان<br />
راون تپسیا کا بردان سمجھے<br />
سیاست کی دوکان<br />
چمکاءے بیٹھا ہے<br />
نظم: دھرتی کا اندر<br />
..............................<br />
ہبل کے ہات<br />
شرق کے لت ومنات<br />
اپنی انا بیچ چکے ہیں<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
غربی ہبل<br />
عزازیل کا بردانی ہے
برہما تو<br />
ایسا بردان نہیں دیتا<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
دور غرب سے<br />
اٹھتے بگولے<br />
گلبوں کی اداءیں<br />
چراغوں مسکانیں<br />
شبنمی ہواءیں<br />
کلیوں کی آشاءیں<br />
نگلتے ہیں<br />
نظم غربی ہبل<br />
...............<br />
واشنگٹن کے ایوان<br />
ایشیا کے لہو سے<br />
ایشیائ باشندے<br />
تعمیر اپنے ہات سے
کیوں کر رہے ہیں<br />
نظم: کیوں؟<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
مشرق سے اٹھا<br />
واشنگٹن پروان چڑھا<br />
مروں گا ماسکو جا کر<br />
میں کون ہوں<br />
بھول سا گیا ہوں<br />
نظم: یاد نہیں<br />
.................<br />
روٹی کپڑا دوں گا<br />
امریکی خدا کا وعدہ ہے<br />
آؤ امریکہ چلیں<br />
ہاءیکو۔<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
یہی مری تم سے التجا ہے<br />
امریکی گرین کارڈ
ہمراہ میت میرے دفن کرنا<br />
ہائیکو<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔<br />
اب وہ آنکھ ملتا نہیں<br />
شاید گڑار آیا ہے<br />
اپنی کچھ شامیں<br />
لندن کے بازاروں میں<br />
نظم: بےاعتنائ<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔<br />
آزادی جو چائتے ہیں<br />
امریکہ کی وہ غلمی کرلیں<br />
نظم:نسخہ<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
بھوک کا خوف مٹانے کے لیے<br />
بربط پر انگلیاں میں نے چلءیں<br />
کھا گیا وہ انگلیاں مری
پیشانی پہ اس کی<br />
یو ایس اے میڈ لکھا ہوا تھا<br />
نظم۔: انگلیاں<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
حرکت کرتے ہونٹ<br />
دنبی سٹی اور امریکن سنڈی سے<br />
بدتر لگتے ہیں<br />
نظم: دروازہ کھولو<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
اس ہوٹل کے<br />
باسی کھانے<br />
خراب چاءے<br />
نکمی شراب<br />
ولئیتی بوتلوں میں<br />
بک جاتی ہے ہاتھوں ہاتھ کہ<br />
بڑا وٹل ہونے کا
اس کو<br />
شرف حاصل ہے<br />
نظم: ہاتھوں ہاتھ<br />
.....................<br />
ہڈیاں<br />
فارسفورس کی کانیں ہیں<br />
یہودی لبی کےگلے ہیں<br />
بٹنوں کی بہت ضرورت ہے<br />
نظم: سورج دوزخی ہو گیا تھا<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
کوہ نور ہیرا لے گیے تھے وہ<br />
کعبہ بھی لے جائیں گے اب<br />
رک نہ جائیں کہیں<br />
شراب و شبابکے<br />
خوصگوار سلسلے<br />
نظم: سلسلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔<br />
جب سے مل ہوں تجھ کو<br />
سوچ نے قرض پہن لیا<br />
ہونٹ منجمد ہیں مرے<br />
ہائیکو<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔<br />
بیس تیس پچاس<br />
جمہوریت<br />
خبر مجذوب کی بڑ<br />
نظم:جمہوریت<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
ووٹوں کے مانگت<br />
تقاضوں کے قاتل ہیں<br />
نظم: یہاں سب قاتل ہیں<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
پاگل ہو تم
اخلص اور الفت کی باتیں<br />
ووٹ کی باتیں ہیں<br />
نظم: آنکھوں دیکھے موسم<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
ضمنی الیکشن میں لوگوں کی قسمت جاگی<br />
گھرکی کے مرنے سے یہ معلوم ہوا ہے<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
فقیروں کی بستی میں<br />
کچھ ووٹ کے شخص ہیں<br />
کچھ نوٹ کے شخص ہیں<br />
کچھ ربوٹ سے شخص ہیں<br />
.......................<br />
گریب کی بٹیا<br />
ڈولی چڑھے کیونکر<br />
گربت کے کینسر میں مبتل ہے<br />
نظم: بنیاد پرست<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
دیا اور کرپا کے سب جذبے<br />
شوگر کو ناءٹروکولین ہیں<br />
نظم: یہاں سب قاتل ہیں<br />
......................<br />
قطر برید سے پہلے<br />
کل نفس کا انجکشن<br />
لالہ کا وٹمن<br />
حبل الورید میں رکھ دو<br />
نظم: دروازہ کھولو<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔<br />
کلکیریا فلور کے فطرے<br />
لیزر شاعیں<br />
ان کے بھیجے کی<br />
پیپ آلودہ گلٹی کا تریاق نہہیں ہیں<br />
دروازہ کھولو<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔<br />
تقسیم کا در
جب بھی کھلتا ہے<br />
لٹ کے دفتر کا منشی<br />
بارود کا مالک<br />
پرچی کا مانگت<br />
عطا کے بوہے<br />
بند کر دیتا ہے<br />
نظم: سورج ڈوب رہا ہے<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔<br />
پنڈٹ اور فادر<br />
ہاں ناں کے پل پر بیٹھے<br />
توتے کو فاختہ کہتے ہیں<br />
نظم: سورج ڈوب رہا ہے<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔<br />
آس کا ہر جذبہ<br />
یہی کہتا ہے<br />
ہر پل
سبز ہوں کہ نیلے<br />
ڈالر کھیسے کی زینت رہیں<br />
نظم: کھیسے کی زینت<br />
...............<br />
وہ تصویر<br />
مرے خون سے جو مرتب ہوئ تھی<br />
اشکوں میں ڈوبی<br />
کہہ رہی تھی<br />
"<br />
"پاپا جہیز<br />
ہاتھ میں<br />
کاغذ کا ایک ٹکڑا بھی تھا<br />
نظم: کاغذ کا ٹکڑا<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
ہم تو<br />
حنوط شدہ ممیاں ہیں<br />
رگوں میں لہو کب
کیمیکل دوڑتا ہے کہ<br />
آکسیجن جلتی نہیں<br />
جلنے میں معاون ہے<br />
نظم: سورج دوزخی ہو گیا تھا<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔<br />
امن<br />
اس روز شہر میں کرفیو تھا<br />
نظم:برسر عدالت<br />
....................<br />
تصب کی آنسو گیس کا ہالہ<br />
پتھر اور کدال لیے<br />
بڑھ رہا ہے<br />
انسان کی حرمت مٹانے کے لیے<br />
نظم: وہ کہاں ہے؟<br />
....................<br />
جمہوریت کا ذکر چلتا ہے تو
غیر ملکی ایجنٹ غنذہ عناصر<br />
نظم: کہتے ہو<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
جب انرجی ہے ناکام رہا ہوں<br />
کل کی کوئ کل<br />
کب کس نے دیکھی ہے<br />
نظم: جال<br />
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />
مقصود حسنی بطورL تجزیہ نگار<br />
:از<br />
پروفیسر نیامت علی مرتضائی<br />
کچھ لوگوں کا وجود ہر کسی کے لئے مسعود ہوتا<br />
ہے۔ وہ ما ہ و مہر کی طرح ہر کسی کو نہ صرف نور
بانٹے ہیں بلکہ ان کی ہر طرح سے رہنمائی بھی<br />
کرتے ہیں۔ ان کے اندر آبL حیات کے ایسے چشمے<br />
ابلتے ہیں کہ جو بھی ان کی قربت کا جام نوش کرتا<br />
ہے عمرL جاوداں کا سرور پاتا ہے۔ آسمانL علم و ادب<br />
کا ایک ایسا ہی تابندہ ستارہ مقصود حسنی کے نام<br />
سے عالمی سطح پر اپنی کرنیں بکھیر رہا ہے۔وہ را Lہ<br />
ادب کے ہزاروں تشنہ لبوں کی منزلL مقصود ہیں۔ ان<br />
کی ادبی زندگی کا سفر نصف صدی سے زیادہ عرصے<br />
پر محیط ہے جس میں انہوں نے اپنی ذہانت کے<br />
تیشے کو فرہاد کے جذبے سے آشنا رکھ کر ادب کے<br />
کوہL گراں سے جوئے شیر نکالنے کی بامراد سعی<br />
فرمائی ہے۔انہوں نے اردو ادب کا دامن نت نئے<br />
موضوعات اور اصناف سے بھرنے کے ساتھ ساتھ<br />
بہت سے دوسرے شہسوارانL ادب کے لئے خضرL راہ<br />
کا کام بھی کیا ۔ علوہ ازیں انہوں نے تنقید جیسے<br />
حساس اور سائنس مزاج میدان میں بھی اپنا لوہا<br />
منوایا ہے۔<br />
بل شبہ تنقید ایک مشکل فیلڈ ہے۔ اس میں جانبداری<br />
سے اپنا دامن بچانا مشکل ہی نہیں بعض اوقات نا<br />
ممکن بھی ہو جاتا ہے۔ ’سچ آکھیاں بھانبڑ مچدا اے‘<br />
کی مصداق یہ صنفL ادب بہت سوں کو سچ کے قریب<br />
پھٹکنے کی اجازت بھی نہیں دیتی۔ اور وہ کسی تعلق
کے محور کے گرد ایسے گھومتے ہیں کہ تنقید بچاری<br />
ہاتھ ملتے رہ جاتی ہے۔قاضی کا عہدہ اگر انصاف کیا<br />
جائے تو سولوں کی سیج سے کسی طرح بھی کم نہیں<br />
ہوتا اور اگر نا انصافی کرنی ہو اس جیسی موج بھی<br />
کہیں نہیں ملتی۔مقصود حسنی نے پہل رستہ اپنایا ہے۔<br />
جس میں تنقید کا اصل کردار زندہ رہتا ہے یعنی کسی<br />
چیز کو اس کی اچھائی، برائی کے ساتھ بیان کرنا۔<br />
اگرچہ تکریمL انسانیت ان کا مذہب ہے لیکن وہ کسی<br />
ادب پارے کی تعریف و تحسین نا مناسب انداز میں<br />
کرنے سے مکمل طور پر اجتناب برتتے ہیں۔ وہ اصول<br />
رکھتے ہیں کہ تنقید کی حیثیت امانت جیسی ہے اس<br />
میں نا جائز تعریف یا تنقیص انسان کو توازن اور اعتد<br />
ال سے کوسوں دور کر دیتی ہے۔<br />
وہ جہاں تخلیق کے میدان میں سیمابی مزاج کے مالک<br />
ہیں وہاں تنقید میں بھی وہ کسی منزل کو آخری منزل<br />
نہیں سمجھتے۔ اگرچہ وہ بہت سی منازل طے کر<br />
چکے ہیں لیکن وہ اکتفا کہیں بھی نہیں کر رہے۔ اور<br />
کسی تخلیق یا تنقید کو اپنی آخری پیش کش نہیں<br />
گردانتے۔ کیوں کہ وہ یہ کام اس لئے نہیں کرتے کہ ان<br />
کا مزاج ادبی ہے بلکہ وہ یہ کام اس لئے کرتے ہیں<br />
کہ ان کی روح ادبی ہے جو کہیں تھک کر بیٹھ جانے<br />
کی قائل نہیں۔ان کی انتھک کاوش ہی کا ثمر ہے کہ آج
ان پر کتنے ہی ایم فل اور پی ایچ۔ڈی کے مقالے ہو<br />
رہے ہیں۔ ان کا کام صرف یہ نہیں کہ مقدار میں قارون<br />
کا خزانہ لگتا ہے بلکہ تخیل اور معیار میں بھی حاتم<br />
طائی کی سخاوت سے فزوں تر ہے۔ یہ سب کرشمے<br />
ان کی بے تاب روح کے ہیں جو ان کے ذہن کو نت<br />
نئے خیالت سے لبریز رکھتی ہے اور ان کا ذہن ، ان<br />
کے قلم کو محوL پرواز رہنے پر راضی رکھتا ہے۔<br />
لکھنا ان کی زندگی ہے۔ وہ لکھے بغیر وقت گزارنا<br />
معیوب سمجھتے ہیں۔<br />
وقت کا تقاضا ہے کہ اس گلوبل ولیج یا عالمی گاؤں<br />
کے معیاراتL تحقیق و تنقید سے بھی واقفیت حاصل ہو<br />
۔ جن سے شناسائی کے بغیر بات مشرق و مغرب میں<br />
یکساں طور پر پذیرائی مشکل ہے۔آج کی سوچ اورا<br />
ادراک علقائی نہیں بلکہ بین القوامی ہیں۔ اس لئے<br />
آج کے شعور کو مشرق و مغرب کی تفہیم رکھنا نا<br />
گزیر ہے۔ مقصود حسنی اس حقیقت سے کئی سال<br />
پہلے ہی آگاہی حاصل کر چکے تھے۔ انہوں نے مشرق<br />
کے ساتھ ساتھ مغرب کا بھی بھرپور مطالعہ کیا ہے۔<br />
اور اس طرح وہ صراطL مشرقین و مغربین ہیں۔ ان کی<br />
تجزیاتی اپروچ انہی افقوں سے ابھرتی ہوئی نصف<br />
النہار تک جا پہنچتی ہے جہاں ان سے اختلف کی<br />
گنجائش تو رہ سکتی ہے لیکن انکار کی گنجائش نہیں
رہتی۔<br />
ان کی تجزیاتی تحریریں قریباø قریباø ہر اس صنف پر<br />
ہیں جن کو ادب ایک صنف کا درجہ دیتا ہے۔ وہ<br />
شاعری اور نثر دونوں میں کمال کی مہارت اور<br />
بصیرت رکھتے ہیں۔اگرچہ کسی ایک صنف کا نقاد اس<br />
میں کہنہ مشق ہو کر ایک بہتریب رائے قائم کرتا ہے،<br />
لیکن مقصود حسنی کا کمال یہ ہے کہ وہ ہر صنف میں<br />
ہی کہنہ مشق اور با کمال لگتے ہیں۔ وہ نثرپاروں کی<br />
تجزیاتی توجیح کر رہے ہوں یا شاعری کی رمز آفرینی<br />
سے حظ اٹھا رہے ہوں ان کی باریک نگاہی سے کسی<br />
عیب و ہنر کا بچ نکلنا محال ہے۔ وہ سرسری بات میں<br />
بھی گہرائی تک رسائی کی دسترس رکھتے ہیں۔ اور<br />
جب وہ کسی ادبی کاوش کو تجزیہ نگاری کی خوردبین<br />
میں دیکھ رہے ہوتے ہیں تو ان کا فوکس کوئی ایک<br />
نقطہ یا مرکز نہیں ہوتا وہ اس ادب پارے کو ماضی ،<br />
حال اور مستقبل ہر زاویئے سے پرکھنے اور جانچنے<br />
کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔<br />
کی سی حیثیت رکھتا (tannar) ایک نقاد ایک ٹینر<br />
ہے وہ اس ادب پارے کی کھال سے جیسے چاہے<br />
چمڑے تیار کر سکتا ہے ۔ وہ اس کو جیسے چاہے<br />
رنگوں میں ڈھال کر دکھا سکتا ہے۔ لیکن یہ مہارت ہر
ٹینر میں نہیں ہوتی۔ مقصود حسنی کا بل شبہ ایسا<br />
دباغ کہا جا سکتا ہے جو کسی ادب پارے کی جیسی<br />
چاہے تجزی کر کے دکھا سکتا ہے۔ لیکن ایک بات<br />
ضرور ہے کہ وہ امانت اور دیانت کا دامن ہاتھ سے<br />
کسی قیمت پر نہیں چھوڑتے۔ وہ اپنے مخالف خیال<br />
لوگوں کی تخلیقات کو بھی انہی عدسوں کے ذریعے<br />
پرکھتے ہیں جن عدسوں سے وہ اپنے ہم خیال احباب<br />
کی تحریروں پر اظہارL خیال کرتے ہیں۔ان کے میزانL<br />
عدل ان کو غیر معقول کرنے ہی نہیں دیتا ۔ ان کی<br />
طرف سے کہی یا لکھی جانے والی ہر بات اپنے ساتھ<br />
معقولیت اور توازن رکھتی ہے۔وہ ضرورت سے زیادہ<br />
ایک لفظ کا استعمال بھی ادبی فضول خرچی سمجھتے<br />
ہیں اوراس سے مکمل اجتناب کرتے ہیں۔وہ جو اصول<br />
و ضوابط اپنی تحریروں پر نافذ کرتے ہیں انہیں<br />
دوسروں کی تخلیقات میں بھی تلش کرتے ہیں۔ وہ<br />
دوہرے معیار سے کام لینے کے قائل نہیں۔<br />
ان جائزوں سے یہ بات قاری پر یوں منکشف ہوتی<br />
ہے جیسے صبح کا اجالاپنے آپ کو منوا تاہے۔ان کے<br />
جائزے حوصلہ شکنی کی ڈگر پر نہیں چلتے بلکہ وہ<br />
بڑوں کا احترام اور چھوٹوں سے محبت کی پالیسی<br />
اختیار کرتے ہوئے تنقید کا کٹھن فریضہ انجام دیتے<br />
ہیں۔ وہ ادب پرور اور ادب افزاتجزیہ نگار ہیں۔ وہ
اصلح برائے بقا نہ کہ اصلح برائے فنا کے علمبردار<br />
ہیں۔ ان کے ادبی جائزوں نے بہت سوں میں نیا جوش<br />
و خروش لیکن پہلے سے زیادہ ہوش کے ساتھ پیدا<br />
کیا ہے۔ وہ کسی نووارد کا رستہ مسدود نہیں کرتے<br />
بلکہ اسے ایک گھنے برگد کی چھاؤں میں بیٹھ کر<br />
اپنی صلحیتوں کو چار چاند اور اپنے تیشہء تخلیق کو<br />
نئے پیکر تراشنے کا بھرپور موقع فراہم کرتے ہیں۔<br />
ان کے تجزیئے اپنی زبان کے لحاظ سے بھی قابلL<br />
تعریف ٹھہرتے ہیں۔ وہ زبان کو کبھی بھی قاری کا<br />
مسئلہ نہیں بننے دیتے اور نہ ہی اسے عامیانہ ہونے<br />
کی کھلی چھٹی دیتے ہیں۔ وہ ایسی نپی تلی زبان کا<br />
استعمال کرتے ہیں کہ ادب کی حلوت بھی رہتی ہے<br />
اور ابلغ کا فریضہ بھی ادا ہوتا ہے۔وہ پر کاری سے<br />
بھری سادگی کا خوب استعمال کرتے ہیں کہ<br />
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا<br />
ادب کے ساتھ ساتھ ادبی حلقوں میں ایک اور اجنبی<br />
مانوس ہوتا جا رہا ہے۔ اور اس اجنبی کا عام تعارف<br />
لسانیات کے نام سے کروایا جاتا ہے۔ مقصود حسنی<br />
کی دور رس نگاہوں نے بہت پہلے ہی اس اجنبی کے<br />
قدموں کی چاپ سن لی تھی اور اسے شیشے میں<br />
اتارنے کی بھرپور کوشش بھی کر لی تھی اور کسی
حد تک اتار بھی لیا تھا۔ انہوں نے لسانیات کے میدان<br />
کو بھی اپنے فیض سے محروم نہیں رکھا۔بلکہ اس<br />
میں بہت سا کام کر دکھایا اور اپنے ہم عصروں کو<br />
ورطہء حیرت میں ڈال دیا کہ وہ یہ بھی کر سکتے<br />
ہیں۔ یہی نہیں انہوں نے لسانیاتی تجزیئے بھی کر<br />
ڈالے اور ادب پاروں کی لسانیات پر یوں کھل کر بات<br />
کی کہ ادب کی بہت سی نام نہاد بڑی شخصیات انگشت<br />
بہ دنداں ہو گئیں۔ ان کے لسانی تجزیئے لسانیات پر<br />
کام کرنے والوں کے لئے مینارL نور ہیں ۔<br />
الغرض مقصود حسنی کے ادبی اور لسانی تجزیوں<br />
کے جائزے سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ<br />
اپنے اندر ایک اچھے نقاد سے زیادہ ایک اچھا انسان<br />
رکھتے ہیں۔ وہ عیب چھپاتے ہیں لیکن کسی کا حق<br />
نہیں مارتے۔ وہ تجزیئے میں مروت کا دامن بھی<br />
تھامے رکھتے ہیں۔وہ اصول و ضوابط کی حرمت کو<br />
پامال نہیں کرتے لیکن انسان کو ان سے بال تر بھی<br />
سمجھتے ہیں۔ وہ لفظ کوشخص کا تابع قرار دیتے ہیں۔<br />
وہ ادب اور انسانیت کو ایک قرار دیتے ہیں بلکہ<br />
انسانیت کو ادب پر ترجیح دیتے ہیں اور یہی اصول وہ<br />
اپنے تجزیوں میں بھی اپلئی کرتے نظر آتے ہیں۔<br />
...................
سائیں جیوے شال سدا سکھی پئے وسو<br />
پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی علم تے ادب دا ہک<br />
سورج اے جس دیا لٹان نال پوری دنیا منور ہو گئی<br />
اے ۔تساں ایہہ مضمون لکھ کے دنیا دے ہک مہان<br />
لکھاری نو چنگا خرج تحسین پیش کیتا اے ۔ا کریم<br />
تسانوں ایس دا اجر عظیم عطا فرمائے۔پاکستاب تے<br />
باہر دے ملکاں وچ ایس اچے پدھر دے لکھاری بارے<br />
کسے رعارد دی ضرورت نہیں۔ہزار توں ودھ مضمون<br />
لکھن ول تے پنجاہ تو ودھ کتاباں دا مصنف ساڈ ا مان<br />
تران اے۔<br />
ایسا کہاں سے لئیں کہ تجھ سا کہین جسے<br />
میں تے ایہہ گل کراں گا<br />
کون ستارے چھو سکتاہے<br />
راہ مین سانس اکھڑ جاتی ہے<br />
By: Sujawal Khan,<br />
D.G.Khan<br />
on Jan, 12 2016<br />
tosaan de khlous mohabat tay ais<br />
bharvein tovajo da shukarriya ada
karna mushkil ee naein na'momkin vi<br />
ay. maray tay lissay banday wal<br />
tohaday jay vaday zaraf walay bandy<br />
ee tovajo kar sakday ne. dua ay: Allah<br />
sohna tohanoon ki khush rakhe tay<br />
kisay da vi mahtaj na karay. Ohdi<br />
janab tohanoon rang bhag laee<br />
rakhe.<br />
By: maqsood hasni,<br />
kasur<br />
on Jan, 20 2016<br />
Thank you Sir .It is your wisdom and<br />
greatness that you gave your wise<br />
opinion on my humble<br />
comments.You are a legend of world<br />
literature<br />
سجاول خاں<br />
ڈی جی خاں<br />
By: sujawal Khan,<br />
D.G Khan on Jan,
20 2016<br />
میڈا سائیں جہوندے رہو تے پل پل سکھاں دے نال<br />
پئے وسو<br />
السلم علیکم<br />
پیر تے مرشد پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی ادب<br />
دی کہکشاں دا لٹاں ماردا خورشید اے۔ غالبیات<br />
اقبالیات، افسانے، تنقید، تحقیق، تدریس تے فلسفہ دے<br />
شعبت وچ پیر ہوراں دے اشہب قلم دیاں جولنیاں تو<br />
ساری دنیا واقف اے۔ میڈے گویڑ وچ ایہہ گل آندی اے<br />
کہ سائیں ہوریں قصور دے اسلمیہ کالج وچ اردو دے<br />
استاد سن۔ اوہناں کے شاگرد اپنے محسن استاد دا ذکر<br />
بہوں عقیدت نال کر دے نیں، ٹورنٹو وچ اوہناں دی<br />
ہک مداح ملی، جہڑی اوہناں دیاں لکھتاں انٹرنیٹ تے<br />
مطالعہ کردی سی۔ میں وی ایہہ لکھتاں پڑھیاں نیں۔<br />
چودہ طبق روشن ہو جاندے نیں۔ روشن خایل، جدت،<br />
تنوع، حریت فکر، حریت ضمیر دا ایہہ بلند معیار<br />
میکوں بھا گیا۔ میڈے ولوں ڈھیر مبھارکھاں۔ مضمون<br />
بہوں چنگا لگا اے۔ سچ لکھیا ای بھراوا<br />
توں اج دا گامن سچیار<br />
تیرے منھ وچ گھیو تے کھنڈ
عمر دراز ہووی شال سدا شاد، آباد تے آزاد پیا وسیں<br />
او سوہنا سانول۔ دل خوش کر دتا ای۔<br />
شیر خاں<br />
ٹورنٹو<br />
By: sher Khan,<br />
Toronto<br />
on Jan, 20 2016<br />
Alsalam o Alaikum<br />
It is my good fortune that I had an<br />
opportunity to talk about a great<br />
legend of world literature. Dr. Prof<br />
Syyed Maqsood Hasni is a great critic<br />
of linguistics.He inaugorated a<br />
wonderful polyphonic signifier to<br />
understand Ghalib. He rejected older<br />
terminology of criticism.The methods<br />
of literary scholarship introduced by<br />
this great scholar will be remembered<br />
for ever. I think respected critic<br />
believes in dialectical materialism.<br />
His services for bringing awareness
about synthesis of philosophical<br />
orientation of style ,discourse and<br />
language is worth mentioning.The<br />
mastery of material diversity in this<br />
article has impressed me. I pray for<br />
you. Pay my complements to the<br />
great legend of linguistics Dr.<br />
Prof,Syyed Maqsood Hasni. May God<br />
Almighty bless you all. Thank you<br />
very much sir, I appreciate your<br />
genius.<br />
By: Snober Khan,<br />
Rangoon<br />
on Jan, 21 2016<br />
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?<br />
id=70024