غالب کے کرداروں کا تفہیمی ونفسیاتی مطالعہ
ہر کردار کا اپنا ذاتی طور طریقہ ، سلیقہ ،چلن اور سبھائو ہوتاہے ۔ وہ ان ہی کے حوالہ سے کوئی کام سرانجام دیتاہے یا اس سے کچھ وقوع میں آتا ہے۔ جس طرح کوئی قصہ کہانی ، واقعہ یا معاملہ بلا کردار وجود میں نہیں آتا اس طرح غزل کا ہر شعر کسی کردار کا مرہونِ احسان ہوتاہے ۔ ضروری نہیں کردار کوئی شخص ہی ہو۔ جذبہ، احساس ، اصطلاح ، استعارہ ، علامت یا اس کے سوا کوئی اور چیز غزل کا کردار ہوسکتی ہے ۔ کچھ وقوع میں آنے سے پہلے کردار کا اس میں،اس معاملہ کی حیثیت ،نوعیت اور اہمیت مادی مفادات اوراخلاقی میلانات و رجحانات کے مطابق ایک نفسیاتی رویہ ترکیب پاتاہے ۔ اس رویے کی پختگی اور توانائی (فورس) کے نتیجہ میں کچھ رونما ہوتاہے ۔ گویا وہ وقوعہ اس کے نفسیاتی عمل یا رد عمل کا عملی اظہار ہوتاہے۔
ہر کردار کا اپنا ذاتی طور طریقہ ، سلیقہ ،چلن اور سبھائو ہوتاہے ۔ وہ ان ہی کے حوالہ سے کوئی کام سرانجام دیتاہے یا اس سے کچھ وقوع میں آتا ہے۔ جس طرح کوئی قصہ کہانی ، واقعہ یا معاملہ بلا کردار وجود میں نہیں آتا اس طرح غزل کا ہر شعر کسی کردار کا مرہونِ احسان ہوتاہے ۔ ضروری نہیں کردار کوئی شخص ہی ہو۔ جذبہ، احساس ، اصطلاح ، استعارہ ، علامت یا اس کے سوا کوئی اور چیز غزل کا کردار ہوسکتی ہے ۔ کچھ وقوع میں آنے سے پہلے کردار کا اس میں،اس معاملہ کی حیثیت ،نوعیت اور اہمیت مادی مفادات اوراخلاقی میلانات و رجحانات کے مطابق ایک نفسیاتی رویہ ترکیب پاتاہے ۔ اس رویے کی پختگی اور توانائی (فورس) کے نتیجہ میں کچھ رونما ہوتاہے ۔ گویا وہ وقوعہ اس کے نفسیاتی عمل یا رد عمل کا عملی اظہار ہوتاہے۔
- No tags were found...
You also want an ePaper? Increase the reach of your titles
YUMPU automatically turns print PDFs into web optimized ePapers that Google loves.
یات<br />
<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> <strong>کرداروں</strong><br />
<strong>کا</strong><br />
<strong>تفہیمی</strong> ونفسی<br />
<strong>مطالعہ</strong><br />
مقصود حسن ی<br />
شیر ربانی <strong>کا</strong>لونی<br />
پاکستان<br />
قصور
یات<br />
یات<br />
ہر کردار <strong>کا</strong> اپنا ذاتی طور طریقہ ، سلیقہ ،چلن اور سبھائو<br />
ہوتاہے ۔ وہ ان ہی <strong>کے</strong> حوالہ سے کوئی <strong>کا</strong>م سرانجام<br />
دیتاہے یا اس سے کچھ وقوع میں اتا ہے۔ جس طرح کوئی<br />
قصہ کہانی یا معاملہ بال کردار وجود میں نہیں اتا<br />
اس طرح غزل <strong>کا</strong> ہر شعر کسی کردار <strong>کا</strong> مرہونِ احسان<br />
ہوتاہے ۔ ضروری نہیں کردار کوئی شخص ہی ہو۔ جذبہ،<br />
احساس ، اصطالح ، استعارہ ، عالمت یا اس <strong>کے</strong> سوا کوئی<br />
اور چیز غزل <strong>کا</strong> کردار ہوسکتی ہے ۔ کچھ وقوع میں انے<br />
سے پہلے کردار <strong>کا</strong> اس میں،اس معاملہ کی حیثیت ،نوعیت<br />
اور اہمیت مادی مفادات اوراخالقی میالنات و رجحانات <strong>کے</strong><br />
مطابق ایک نفسی رویہ ترکیب پاتاہے ۔ اس رویے کی<br />
پختگی اور توانائی )فورس( <strong>کے</strong> نتیجہ میں کچھ رونما<br />
ہوتاہے ۔ گویا وہ وقوعہ اس <strong>کے</strong> نفسی عمل یا رد عمل<br />
<strong>کا</strong> عملی اظہار ہوتاہے ۔<br />
، واقعہ<br />
غزل ، اردو شعر کی مقبول ترین صنف شعر رہی ہے ۔ اردو<br />
غزل نے ان گنت کردار تخلیق کئے ہیں۔ ان <strong>کرداروں</strong> <strong>کے</strong><br />
حوالہ سے بہت سے واقعات اور فکری عجوبے سامنے<br />
ائے ہیں ۔ ان فکری عجوبوں <strong>کے</strong> اکثر شیڈز ، زندگی <strong>کے</strong><br />
نہایت حساس گوشوں سے پیوست ہوتے ہیں ۔ انہیں<br />
کہیں نہ کہیں کسی ا<strong>کا</strong>ئی میں تالشا جاسکتاہے۔ یہ بھی کہ<br />
ان شیڈز اور زاویوں <strong>کے</strong> تحت اس عہد کی جزوی یا کلی<br />
نفسیات <strong>کا</strong> کھوج کرنامشکل نہیں رہتا۔ بات یہاں تک محدود
یان<br />
نہیں، ان شیڈز اور زاویوں کی تاثیر حال پر اثر انداز ہوکر<br />
مختلف نوع <strong>کے</strong> رویوں کی خالق بنتی ہے۔ پہلے سے<br />
موجود رویوں میں تغیرات <strong>کا</strong> سبب ٹھہرتی ہے ۔<br />
رویوں کی پیمائش <strong>کا</strong> <strong>کا</strong>م ٣٠- ٣٩٢٠<strong>کے</strong> درمی عرصہ<br />
میں شروع ہوا۔ رویے تین طرح <strong>کے</strong> ہوسکتے ہ یں<br />
الف۔ وہ رویے جنھیں عرصہ دراز تک استحقام رہتا ہے<br />
تاوقتکہ کوئی بہت بڑاحادثہ وقوع میں نہیں اجاتا یاکوئی<br />
ہنگامی صورتحال پیدانہیں ہوجاتی ۔<br />
وہ رویے جوحاالت ، وقت اور ضرورتوں <strong>کے</strong> تحت ب<br />
تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔<br />
وہ رویے جو جلد اور فوراً تبدیل ہوجاتے ہیں انہیں ج۔<br />
سیمابی رویے بھی کہا جاسکتاہے ۔<br />
کسی قوم <strong>کے</strong> اجتماعی رویے کی پیمائش ناممکن نہیں تو<br />
مشکل <strong>کا</strong>م ضرورہے کیونکہ قومیں التعداد ا<strong>کا</strong>ئیوں <strong>کا</strong><br />
مجموعہ ہوتی ہیں۔ ہر ا<strong>کا</strong>ئی تک اپروچ کٹھن گزار <strong>کا</strong>م ہے ۔<br />
سطحی جائزے دریافت <strong>کے</strong> عمل میں حقیقی کردار ادا نہیں<br />
کرتے۔ اس موڑ پر ا<strong>کا</strong>ئیوں <strong>کے</strong> لڑیچر <strong>کے</strong> <strong>کرداروں</strong><br />
<strong>کا</strong><strong>مطالعہ</strong> کسی حدتک سودمند رہتاہے ۔اس <strong>کے</strong> توسط سے
<strong>کرداروں</strong> <strong>کے</strong> <strong>کا</strong>م ، طرز عمل ، مزاج ، چلن ، سلوک خاطر<br />
، سلیقہ ، باہمی سبھائو ، اُوروں سے تعلق ، طور، انداز<br />
وغیرہ <strong>کے</strong> حوالہ سے اس ا<strong>کا</strong>ئی <strong>کا</strong> کردار متعین کیا جا<br />
سکتا ہے۔ اسی حوالہ سے انہیں اچھے یا برے نام دئیے<br />
جاتے ہیں ۔ شیطان <strong>کا</strong> اصل نام عزازئیل ہے۔ اس کی<br />
<strong>کا</strong>رگزاری، سبھائو ، چلن وغیرہ <strong>کے</strong> تحت شیطان یا<br />
رکھشش کہاجاتاہے ۔<br />
موثرکردار وہی کہالتا ہے جو ویسا ہی کرے جیسا وہ کرتا<br />
ہے یا جیسا کرنے کی توقع وابستہ ہوتی ہے ۔ تاہم دریا<br />
میں بہتے تختے پر شیر خوار بچے کی ماں کی اور شداد<br />
کی ارم میں داخل ہوتے سمے جان قبض کرنے پر<br />
عزرائیل کو رحم اسکتا ہے ۔ کردار ویساہی کرتاہے جیسا<br />
وہ بن گیا ہوتا ہے یا جیسا اس نے خود کو بنایا ہوتا ہے ۔<br />
غزل <strong>کے</strong> ہر شعر کو ایک فن پارے <strong>کا</strong> درجہ حاصل ہوتاہے<br />
۔ اس کی تشریح وتفہیم اس <strong>کے</strong> اپنے حوالہ سے کرنا ہوتی<br />
ہے ۔ اس شعر <strong>کا</strong> کردار <strong>کا</strong>رگزاری )پرفورمنس <strong>کے</strong> حوالہ<br />
سے جتنا جاندار، حقیقی ، متحرک اور سیمابی خصائل <strong>کا</strong><br />
حامل ہوگا، شعر بھی اتنا اور اسی تناسب سے متاثر کرے<br />
گا۔ شعر <strong>کے</strong> اچھا بُرا ہونے <strong>کا</strong> انحصار شعر سے جڑے<br />
کردار پر ہے ۔<br />
)
یات<br />
یگئ<br />
اگلے صفحات میں <strong>غالب</strong> کی اردو غزل <strong>کے</strong> چند <strong>کرداروں</strong><br />
<strong>کا</strong>نفسی <strong>مطالعہ</strong> پیش کرنے کی جسارت کی ہے۔ اس<br />
سے اشعار <strong>غالب</strong> کو سمجھنے اور تشریح وتعبیر میں مدد<br />
مل س<strong>کے</strong> گی اور <strong>مطالعہ</strong> اشعار ِ<strong>غالب</strong> <strong>کا</strong> حظ بڑھ جائے گا ۔<br />
ادم ی<br />
لفظ ادمی سننے <strong>کے</strong> بعد ذہن میں یہ تصور ابھرتا ہے کہ<br />
نسل ادم میں سے کسی کی بات ہورہی تاہم اس لفظ <strong>کے</strong><br />
حوالہ سے کسی قسم <strong>کا</strong> رویہ سامنے نہیں اتا۔ ادمی<br />
چونکہ خیر وشر <strong>کا</strong> مجموعہ ہے اس سے دونوں طرح<br />
<strong>کے</strong> افعال کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ کسی اچھے فعل <strong>کے</strong><br />
سرزد ہونے کی صورت میں ادم کو فرشتوں <strong>کے</strong> سجدہ<br />
کرنے واال واقعہ یا د اجاتاہے۔ اور اس طر ح ادمی کی<br />
عظمت <strong>کا</strong> تسلسل برقرار رہتاہے کسی برائی کی صورت میں<br />
شیطان سے بہ<strong>کا</strong>ئے جاننے واال <strong>کے</strong> طور پر سامنے<br />
اتاہے۔ گویا کسی فعل <strong>کے</strong> سرزد ہونے <strong>کے</strong> بعد ہی اس <strong>کے</strong><br />
متعلق منفی یا مثبت رویہ ترکیب پاتاہے ۔<br />
اردو غزل مےں مختلف حوالوں سے اس لفظ <strong>کا</strong> استعمال<br />
ہوتا ایا ہے۔ منفی اور مثبت دونوں طرح <strong>کے</strong> معامالت اور
یعن ال ِ<br />
واقعات اس سے منسوب رہے ہیں ۔ کہیں عظمتوں اور<br />
رفعتوں <strong>کا</strong> مینار اور کہیں حیوان ، درندہ ، وحشی<br />
رکھشش اور شیطان سے بھی بد تر نظر اتا ہے۔ اردوغزل<br />
میں اس کی شخصیت <strong>کے</strong> دونوں پہلونظر اتے ہیں ۔<br />
خواجہ درد نے ادمی کی شخصیت <strong>کے</strong> دوپہلو نمایاں کئے<br />
: ہیں<br />
،<br />
ہم نے کہا بہت اسے پرنہ ہوایہ ادم ی<br />
زاہدِ خشک بھی کوئی سخت ہی خردماغ ہے<br />
ادمی زُہد اختیار کرنے <strong>کے</strong> بعد حددرجے <strong>کا</strong> ضدی<br />
ہوجاتاہے۔ادمی، ادمی نہیں رہتا بلکہ فرشتوں کی صف<br />
میں کھڑا ہونے کی سعی ی کرتاہے۔ بشریت <strong>کا</strong> تقاضا<br />
ہے کہ ادمی سے کوتاہی ہو ، کوئی غلطی کرے تاکہ<br />
دوسرے ادمی کو اس سے اجنبیت <strong>کا</strong> احساس نہ ہو۔ زاہد<br />
سے مالقات <strong>کے</strong> بعد خوف سا طاری ہوجاتا ہے کہ مالقاتی<br />
<strong>کے</strong> لباس اور طرز تکلم کو کس زوایہ سے لے ۔ نتیجہ <strong>کا</strong>ر<br />
مسئلے <strong>کے</strong> حل کی بجائے کوئی لےکچر نہ سننا پڑے یا<br />
مسئلہ مسترد ہی نہ ہوجائے ۔ ادمی <strong>کا</strong> یہ روپ خوف اور<br />
ضدی پنے کو سامنے التاہے ۔<br />
گھر تودونوں پاس لےکن مالقاتی ں کہاں<br />
امدورفت ادمی کی ہے پہ وہ باتی ں کہاں
خواجہ درد<strong>کا</strong><br />
یہ شعر ادمی سے متعلق چار چیزوں کی<br />
وضاحت کررہاہے<br />
مل بیٹھنے کو جگہ موجود ہونے <strong>کے</strong> باوجود ادمی، ادمی<br />
1 سے دورہے<br />
اس <strong>کا</strong> اناجانا تو رہتاہے لیکن دکھ سکھ کی سانجھ ختم<br />
2 ہوگئی ہے<br />
ادمی، ادمی<br />
<strong>کے</strong> قریب تو نظر اتاہے لیکن منافقت،<br />
محبتیں چٹ کرگئی<br />
۔<br />
3 ہے<br />
‘‘<br />
ایک دوسرے <strong>کے</strong> <strong>کا</strong>م انے <strong>کا</strong> جذبہ دم توڑ گی اہے<br />
خواجہ درد <strong>کے</strong> ہاں ’’ادمی <strong>کے</strong> جوخصائص بیان ہوئے<br />
ہیں ان <strong>کے</strong> حوالہ سے ادمی <strong>کے</strong> متعلق مثبت رویہ نہیں<br />
بنتا ۔ ادمی معاشرتی حیوان ہے تنہا زندگی کرنا اس <strong>کے</strong><br />
لئے ممکن نہیں ۔ تنہائی سو طرح <strong>کے</strong> عوارض <strong>کا</strong> سبب<br />
بنتی ہے ۔<br />
نے ادمی <strong>غالب</strong><br />
کو تین حوالوں سے موضع <strong>کا</strong>لم بنای ا ہے
‘‘<br />
ہیں اج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند<br />
گستاخی ِ فرشتہ ہماری جناب م یں<br />
ادمی گزرے کل میں معزز اورمحترم تھا۔ عزازئیل نے<br />
’’ادمی کی شان میں گستاخی کی ۔ اسے اس <strong>کے</strong> اس<br />
جرم کی پاداش میں قیامت تک <strong>کے</strong> لئے لعنتی قرار دے دیا<br />
گیا اور درگاہ سے ن<strong>کا</strong>ل باہر کیاگیا ۔ اج وہی ’’ادمی‘‘ ذلت<br />
کی پستیوں میں دھکیل دیا گیاہے۔ اس طرح سے ادمی<br />
<strong>کے</strong> لئے دوہرا معیار سامنے اتاہے ۔<br />
پکڑے جاتے ہی ں فرشتوں <strong>کے</strong> لکھے پر ناحق<br />
دمی‘‘ کوئی ہمارا دم تحریر بھی<br />
!ا تھا؟’’<br />
شعر کو چار زوایوں سے<br />
دی کھا جاسکتاہے<br />
کل تک سجدہ کرنے والے )فرشتے( غیر ادمی، ادمی الف ۔<br />
<strong>کے</strong> قول وفعل کو نوٹ کرنے <strong>کے</strong> لئے مقرر کر دئیے گئے<br />
ہیں<br />
ب۔کسی معاملے میں ’’ادمی‘‘<strong>کے</strong> حق میں یاخالف شہادت<br />
دینے <strong>کا</strong> حق ’’ادمی‘‘ہی رکھتا ہے۔ کسی غیر ادمی‘ کی<br />
شہادت ،’’ادمی‘‘ <strong>کے</strong> لئے کیونکر معتبر یا اصول شہادت<br />
<strong>کے</strong> مطابق قرار دی جا سکتی ہے
یغ<br />
یک<br />
یرہ<br />
یات<br />
’’ ج۔<br />
ر ادمی‘‘کی حیثیت کیسی بھی<br />
لکھے پر مواخذہ یکطرفہ ڈگری<br />
ہو، کہے یا<br />
<strong>کے</strong> مترادف ہوگ ی<br />
ا بعید کہ وہ روزِ اول <strong>کا</strong> بدلہ لینے پر اتر ا ئے<br />
د۔<br />
شہادت <strong>کے</strong> حوالہ سے ’’ادمی‘‘کی حیثیت معتبر رہتی ہے۔<br />
اس شعر میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ملتاہے کہ<br />
ادمی کی خلوت بھی ، خلوت نہیں رہی ۔ اس کی خلوت<br />
)پرائےویسی( پر بھی پہرے بیٹھا دئیے گئے ہیں ۔ اس کی<br />
ازادی محض رسمی اور دکھاوے کی ہے۔ وہ کھل<br />
کرخواہش اور استعداد <strong>کے</strong> مطابق اچھائی یا برائی کرنے<br />
پرقادر نہیں کیونکہ اس سے کمتر مخلوق اس پر کیمرے<br />
فٹ کئے ہوئے ہے۔ نگرانی ، صحت مند کو بھی نفسی<br />
مریض بنا دیتی ہے۔ ازادی سلب ہونے <strong>کا</strong> احساس<br />
اورمواخذے <strong>کا</strong>خوف ، ادھورے پن <strong>کا</strong>ش<strong>کا</strong>ر رکھے گا۔ <strong>غالب</strong><br />
نے ’’ادمی‘‘کی زمین پر حیثیت <strong>کا</strong>یہ حوالہ پیش کر<strong>کے</strong> ادمی<br />
<strong>کے</strong> معتبر اور خود مختار ہونے <strong>کے</strong> فلسفے کو رد کر<br />
دیاہے۔ قیدی پابند <strong>کے</strong> قول وفعل پر انگشت رکھنا کسی<br />
طرح واجب نہیں ۔ا گر پہر ے اٹھا لئے جائیں تو ہی<br />
’’ادمی‘‘<strong>کے</strong> قول وفعل کی وسعتوں <strong>کا</strong> اندازہ لگایا<br />
جاسکتاہے۔ بصور ت دیگر ثواب وگناہ <strong>کے</strong> پیمانے اپنی<br />
حدود پر شر مندہ رہیں گے ۔
۔٠<br />
۔٠<br />
۔ا٤<br />
ایک تیسرے شعر میں <strong>غالب</strong> نے ’’ادمی‘‘<strong>کے</strong> معتبر ہونے<br />
:<strong>کا</strong> پیمانہ بھی پیش کی ا ہے<br />
بسکہ دشوار ہے ہر<strong>کا</strong>م <strong>کا</strong> ا ساں ہونا<br />
ادمی کو بھی میسر نہی ں انساں ہونا<br />
انسان ، نسیان یا انس سے مشتق ہے۔ یہ دونوں ماد ے<br />
اس میں موجود ہوتے ہیں گویا انسان <strong>کا</strong> شریف النفس<br />
ہونا، مرتبہء کمال انسانیت پر فائز ہوناہے اور اسی حوالہ<br />
سے وہ انسان کہالنے <strong>کا</strong> مستحق ٹھہرتا ہے ۔ اس شعر <strong>کے</strong><br />
حوالہ سے انسان اور ادمی میں فرق ہے۔ گو<br />
: یا<br />
ادمی سے انسان تک <strong>کا</strong> سفر بڑا مشکل اور دشوار گزار<br />
ہے<br />
۔٩ سزا وجزا <strong>کے</strong> لئے ادمی<br />
<strong>کے</strong> لئے ادمی کی شہادت امر<br />
الزم <strong>کا</strong> درجہ رکھتی ہے<br />
گواہی<br />
قبول کی کی ، اس ادمی<br />
جائے جوادمی<br />
<strong>کے</strong> درجے<br />
پر فائز ہو<br />
دمی<br />
<strong>کے</strong> لئے غیر ادمی<br />
کی شہادت ، اصولِ شہادت <strong>کے</strong>
۔٦<br />
۔غی٥<br />
منافی<br />
ہے بصورت دیگر شہادتی<br />
)گواہ(<br />
پر انگلی<br />
اٹھے گ ی<br />
ر معتبر<br />
گواہی کی )غیر ادمی(<br />
فسخ ہوجائے گ ی<br />
گواہی کی غرر ادمی<br />
پر فرصلہ<br />
)معاذہللا( منصف <strong>کے</strong><br />
انصاف پ ر دھبہ ہوگا<br />
ا سمان<br />
یہ لفظ <strong>کا</strong>ئنات کی تخلیق کی طرح بہت پرانا ہے یہ لفظ<br />
سنتے ہی پانچ طرح کی خیاالت ذہن <strong>کے</strong> پردوں پر تھرانے<br />
: لگتے ہ یں<br />
اَن حدوسعت یں اول ۔<br />
ہل<strong>کے</strong> نیلے رنگ کی چھت دوم ۔<br />
یح رت انگی ز توازن <strong>کا</strong>مظہر سوم ۔
یال<br />
چہارم ۔ بادل<br />
کہاجاتاہے، اسمان پر موجود ستاروں کی گردش <strong>کے</strong> پنجم ۔<br />
باعث خوشی یا پریشانی الحق ہوتی ہے۔ سماوی افتیں بھی<br />
اہل زمین <strong>کا</strong> مقدر رہی ہے<br />
اسمان کی وسعتوں میں جانے کتنے سورج ، چاند اور<br />
ستارے سمائے ہوئے ہیں ۔ سورج نہ صرف دن التاہے<br />
بلکہ دھرتی باسیوں کو حدت بھی فراہم کرتاہے۔ چاند<br />
ستارے حسن اور ترتیب <strong>کا</strong> مظہر ہیں ۔ سورج چاند اور<br />
ستاروں سے متعلق بھی اردوغزل میں <strong>کا</strong>فی مواد<br />
ملتاہے ۔<br />
اسمان بطور چھت، ہر قسم کی تمیز وامتیاز سے باال<br />
رہاہے۔ بادلی جہاں بھی ائے ہیں گرج چمک <strong>کے</strong> ساتھ<br />
ائے ہیں اور بارش الئے ہیں ۔ گرج چمک سے خوف<br />
پھیلتا ہے جبکہ بارش فضا کو نکھارنے اورزمین کو<br />
سیراب کر<strong>کے</strong> ہری <strong>کا</strong> ذریعہ بنی ہے۔ اسمان <strong>کے</strong> جملہ<br />
حوالے )توازن، ترتیب و تنظیم ، وسعتیں، سیرابی<br />
تمیز و امتیاز ، خوف وغیرہ انسانی ذہن پر اثرات مرتب<br />
کرتے ہیں ۔ اسمان <strong>کا</strong> کردار انسانی ذہن میں ہلچل مچانے<br />
<strong>کے</strong> ساتھ ساتھ اسے وسیع ، فراخ اور متوازن کرتاہے۔<br />
اردو غزل نے اسمان <strong>کے</strong> کردار کو ہمیشہ بائیں انکھ پر<br />
، حسن ،<br />
)
قائم چاند پوری<br />
رکھاہے ۔<br />
<strong>کا</strong> زیر اسمان جی گھبراتا ہے۔ اسمان <strong>کا</strong> کیا<br />
بھروسہ کب ٹھ<strong>کا</strong>نہ ہی چھی ن لے<br />
کیوں نہ جی گھبرائے زیر ا سماں<br />
گھر تو ہے مطبوع پر بس مختصر<br />
خواجہ درد اسمان کو کمینہ اورکینہ پرور قرار دیتے ہ یں<br />
نہ ہاتھ اٹھائے فلک گوہمارے کی نے سے<br />
کسے دماغ کہ ہو دوبدکمی نے سے<br />
مرزاسودا <strong>کے</strong> نزدیک اسمان ، درد دینے واال اور کنج قفس<br />
کو سونپ دی نے واال ہے<br />
سو مجہ کو ا سمان نے کنج قفس کو سونپ<br />
اب چہچے چمن میں کی جے فراغتوں سے<br />
میاں دمحمی<br />
مائل اسمان کو دکھ <strong>کے</strong> موسم <strong>کا</strong> ساتھی<br />
سمجھتے ہ یں<br />
ہے جہاں پرخروش اس غم سوں<br />
ا سمان سبز پوش اس غم سوں
خواجہ درد اسمان سے متعلق دواور حوالوں <strong>کا</strong> ذکر کر<br />
تے ہ یں<br />
اول<br />
اسماں <strong>کے</strong> زیر سایہ حرص <strong>کا</strong> بندہ خرم نہیں رہ سکتا<br />
کیونکہ اسمان حرص <strong>کے</strong> حوالہ سے میسر خوشی <strong>کے</strong><br />
دنوں کو پھیردی تاہے<br />
ہے محال ِ عقل، زیرِ ا سماں<br />
حرص ہو جس دلی می ں وہ خرم رہے<br />
دوم اسمان خود گردش میں ہے جانے کی ا تال ش رہاہے<br />
لیتانہیں کبود کی اپنے عناں ہنوز<br />
پھر تا ہے کس تالش میں یہ ا سماں ہنوز<br />
اسماں <strong>کا</strong> درج باال کردار انسانی ذہن پر مثبت اثرات مرتب<br />
نہیں کرتا ۔ دوسری طرف یہ بات بھی سمجھ میں اتی ہے<br />
کہ جوخود ’’چکروں‘‘ میں ہے اوروں کو کیونکر پر<br />
سکون رہنے دے گا ۔<br />
<strong>غالب</strong> اسمان کو قابلِ پیمائش و فہمائش سمجھتے ہیں۔<br />
ان
<strong>کے</strong> نزدیک اسمان، انسان سے کہی ں کمتر ہے<br />
کرتے ہومجھ کو منع قد مبوس کس لئے<br />
!کیا اسمان <strong>کے</strong> بھی برابر نہیں ہوں می ں ؟<br />
فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موج رنگ <strong>کا</strong><br />
یاں زمیں سے ا سماں تک سوختن <strong>کا</strong> باب تھا<br />
<strong>غالب</strong> کو پڑھ کر تسکین ہوتی ہے کہ اسماں المحدود نہیں۔<br />
دوسرا وہ انسان <strong>کے</strong> بالمقابل کمتر، ادنی اور حقیر ہے۔<br />
<strong>غالب</strong> <strong>کا</strong> یہ مصرع اسمان کی عظمتوں، وسعتوں، بلندیوں<br />
اور رفعتوں <strong>کا</strong> بھانڈا پھوڑ دی تاہے<br />
کیااسمان <strong>کے</strong> بھی<br />
برابر نہیں ہوں می<br />
! ں؟<br />
<strong>غالب</strong><br />
نے ایک نظر یہ یہ بھی دیا ہے کہ اسمان دن رات گردش<br />
میں ہے۔ اس کی گردش زمین باسیوں کومتاثرکرتی ہے۔<br />
اس کی گردش <strong>کے</strong> حوالہ سے ’’کچھ نہ کچھ‘‘ وقوع پذیر<br />
ہوتا ہی رہے گااور یہ مسلسل جبر <strong>کا</strong> عمل ہے۔ اس پر<br />
انسان کی دسترس ہی نہیں ۔ جب کچھ نہ کچھ ہونا طے ہے<br />
تو گھبرانا محض نادانی ہے
یعن<br />
‘‘<br />
رات دن گردش میں ہیں سات ا سماں<br />
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں ک یا<br />
جبر مشیت کو واضح کر رہاہے ۔ جب کسی ’’<br />
ہو رہے گا انسانی مرضی <strong>کا</strong> عمل دخل ہی نہےں تواس پر<br />
<strong>کا</strong>م میں اپنی صالحیتوں <strong>کا</strong> استعمال، نادانی نہیں؟ حوادث <strong>کا</strong>ڈٹ کر<br />
کیوں مقابلہ کیا جائے۔ اس حوالہ سے، حساب کتاب اور<br />
ٹھہرتاہے۔ میر صاحب تو مختاری<br />
جوابدہی <strong>کا</strong> عمل ال ی <strong>کا</strong> نام دیتے ہ<br />
کی خبر کو ’’ناحق تہمت ‘‘ یں<br />
:<br />
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختار ی کی<br />
چاہتے ہیں سو اپ کریں، ہم کو عبث بدنام ک یا<br />
انکھ یں<br />
ادمی اشیا کو انکھوں سے دیکھتا ہے ۔ دیکھنے <strong>کے</strong><br />
حوالہ سے اس کی رائے اور رویہ بنتاہے۔ ہر قسم <strong>کا</strong> عمل<br />
اور ردعمل دیکھنے سے تعلق رکھتاہے۔ انکھوں کو بہت<br />
بڑی نعمت <strong>کا</strong> درجہ دیا جاتاہے۔ دیکھنا ، روشنی <strong>کے</strong> تابع
ہے۔ روشنی، اشیا کو واضح اور نمایاں کرتی ہے۔ انسان<br />
<strong>کے</strong> دماغ میں اعصابی سلسلے انکھوں <strong>کے</strong> لئے زیادہ<br />
<strong>کا</strong>م کرتے ہیں اور دماغ <strong>کے</strong> اعلی ترین دماغی رابطے<br />
اسے زیادہ ذہین بناتے ہیں۔انکھ کی معمولی کجی دماغ <strong>کے</strong><br />
اعلی ترین رابطوں کی راہ <strong>کا</strong> پتھر بن جاتی ہے۔ جو عضو<br />
بدن اتنا اہم اورحساس ہو اس کی اہمیت وضرورت سے<br />
کیونکر ان<strong>کا</strong>ر کیا جاسکتاہے ۔<br />
انسان اشیا کو مکمل صاف اور واضح دیکھنے <strong>کا</strong> ہمیشہ<br />
سے متمنی رہا ہے اور یہ سب اس <strong>کے</strong> دماغ کی بنیادی<br />
ضرورت ہے۔ بصری <strong>کا</strong>ر گزاری کی بہتری <strong>کے</strong> لئے اس<br />
نے خوردبین اور دوربین ایجادکیں ۔ فیصلوں میں چشم<br />
دید شہادت کو الزمہ اورلوازمہ کی حیثیت حاصل رہی ہے<br />
جسم <strong>کے</strong> کسی عضو کی اہمیت سے ان<strong>کا</strong>ر ممکن نہیں۔ وہ<br />
اسودگی اور حظ <strong>کے</strong> تمنائی رہتے ہیں لیکن ہر عضو<br />
دوسرے عضو پر انحصار کرتاہے۔ اسودگی اور حظ <strong>کے</strong><br />
ضمن میں جسم <strong>کے</strong> تمام عضو’’انکھوں‘‘پر انحصار کرتے<br />
ہیں۔ ان <strong>کے</strong> بغیر وہ اپنی <strong>کا</strong>رگزاری میں )بڑی حدتک<br />
معذور رہتے ہیں ۔ انکھوں کی سیرابی ، اسودگی، حظ اور<br />
استفادہ کسی دوسرے عضو پر منحصر نہیں ہوتا ۔<br />
دوسرے اعضائی مفلوج ہوجائیں تو بھی حسِ تمنا زوال <strong>کا</strong><br />
ش<strong>کا</strong>ر نہیں ہوت ی<br />
)
یول<br />
‘‘<br />
گو ہاتھ کو جنبش نہیں انکھوں می ں تودم ہے<br />
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے ا گے<br />
<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> اس شعر سے انداز ہ ہوتاہے کہ اشیا <strong>کا</strong>تصرف<br />
ہی حظ فراہم نہیں کرتا بلکہ انہیں دےکھنے سے بھی<br />
تسکین اور اسودگی میسر اتی ہے ۔<br />
اردو غزل میں انکھوں <strong>کا</strong> کردار نظر انداز نہیں ہوا<br />
کیونکہ یہ ہرہونے <strong>کا</strong> بنیادی محرک ہوتی ہیں ۔ وکنی<br />
نے انکھ <strong>کے</strong> لئے ’’نین <strong>کا</strong> لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ اس<br />
<strong>کا</strong>کہنا ہے ا نکھ <strong>کا</strong> حسن، <strong>کا</strong>ئنات <strong>کے</strong> حسن کو متاثر کرتاہے<br />
تیری نین کوں دیکھ <strong>کے</strong> گلشن می ں گل بدن<br />
نرگس ہو اہے شوق سوں بےمار الغی اث<br />
ہاتف <strong>کے</strong> نزدیک انکھوں<br />
<strong>کا</strong> حسن، بناوٹ <strong>کے</strong> حوالہ سے<br />
گرویدہ بنالی تاہے<br />
انکھیاں تری اور زلف سے <strong>کا</strong>فر ہوا ساراجہاں<br />
اسالم اور تقوی کہاں، زہد اور مسلمانی کدھر<br />
افتاب <strong>کے</strong> نزدیک انکھیں، غصے یا پھر مہر نظر <strong>کے</strong><br />
حوالہ سے تن من جال کر رکھ دیتی ہیں
اس شمع روصنم سے ہے میری لگن لگائ ی<br />
تن من مرا جالیا، ان ا نکھوں <strong>کا</strong> برا ہو<br />
میر صاحب <strong>کے</strong> نزدیک انکھوں کی پسند پر جسم <strong>کا</strong> کوئی<br />
عضواعتراض نہیں کرتا بلکہ انکھوں کی<br />
سرا نکھوں پر بےٹھاتاہے<br />
پسند ،<br />
تو وہ متاع ہے کہ پڑی جس کی تجھ پہ ا نکھ<br />
وہ جی کو بیچ کر بھی خریدار ہوگ یا<br />
انکھوں کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ محبوب کی راہ<br />
دیکھتی ہیں۔ محبوب کی امد سے، جسم <strong>کے</strong> ہر اعضا سے<br />
پہلے اگاہی پاتی ہیں۔ہجر کی صورت میں پورے جسم کی<br />
نمائندگی کرتی ہیں ۔ میر محمود صابر کی زبانی مالحظہ<br />
فرمائ یں<br />
رہیں کل رات کی اب تک جو تجھ رہ میں کھلی اکھی اں<br />
انجھوں <strong>کے</strong> جوش سوں گنگا ہو جمنا بہہ چلی اکھی اں<br />
جہاں<br />
یہ فرارکی راہ اختیار کرتی ہیں وہاں غلط اور<br />
گنہگار ہونے <strong>کا</strong> ثبوت بھی بن جاتی ہیں۔<br />
حمیدہ بائی نقاب کہتی ہیں
وہ کیا منہ دکھائیں گے محشر می ں مجھ کو<br />
جو انکھیں ابھی سے چرائے ہوئے ہ یں<br />
معاملے کسی<br />
یا واقع <strong>کا</strong> اثر سب سے پہلے انکھوں پر<br />
ہوتاہے۔ اس ضمن می ں <strong>غالب</strong> <strong>کا</strong> کہناہے<br />
بجلی اک کوند گئی انکھوں <strong>کے</strong> ا گے تو <strong>کے</strong><br />
بات کرتے کہ میں لب تشنہء تقریر بھی تھا<br />
زندگی<br />
<strong>کے</strong> خاتمے <strong>کا</strong> اعالن، انکھیں کرتی<br />
کہتے ہ یں ہیں۔<br />
مندگئیں کھولتے ہی<br />
کھولتے انکھی ں <strong>غالب</strong><br />
یار الئے مری<br />
بالیں پہ اسے، پر<br />
! وقت؟ کسی<br />
جوبھی سہی ’’انکھیں‘‘ اپنی ضرورت اور اہمیت <strong>کے</strong> حوالہ<br />
سے مختلف انداز میں توجہ <strong>کا</strong> باعث بنتی ہیں ۔<br />
اس یر
یرہ<br />
لفظ اسیر گھٹن ، پابندی ، بے چینی اور بے بسی <strong>کے</strong><br />
دروازے کھولتا ہے ۔ اس <strong>کے</strong> ہر استعمال میں پابندی اور<br />
گھٹن <strong>کے</strong> عناصر یکساں طور پرملتے ہیں ۔ اردو غزل<br />
میں بھی یہی حوالے سامنے ائے ہیں ۔ میر صاحب<br />
’’جہان‘‘ کو تنگ قیدخانہ اور انسان کواس قید خانے <strong>کا</strong><br />
اسیر قرار دیتے ہیں ۔ اس حوالہ سے انہوں نے زندگی<br />
کی گھٹن ، بے چینی اور الچاری کو واضح کیاہے<br />
:اور انسان جیتے جی ایک ہیجان می ں مبتالہے<br />
، پابندی<br />
مرگیا جو اسیرِ قیدِحی ات<br />
تنگ نائے جہان سے ن<strong>کا</strong>ل<br />
قائم چاندپوری<br />
<strong>کے</strong> نزدیک عشرت <strong>کا</strong> نتیجہ اس ماحول کی<br />
اسیری <strong>کے</strong> سوا کچھ نہ یں<br />
یہ رنگِ طائربو، ہم اسیر، اے صی اد<br />
وہ ہیں کہ جن <strong>کا</strong>گلوں بیچ اشی انا تھا<br />
اسیری زلف گرہ گیری ہی کی کیوں نہ ہو ادمی دوسرے<br />
مشاغل سے کٹ جاتاہے۔ زلف کی اسیری کچھ اور سوچنے<br />
نہیں دیتی ۔اس ضمن میں غالم علی حیدری <strong>کا</strong> کہناہے<br />
یہ دلی<br />
اسیر زلف گرہ گی<br />
رہا
مجنوں ہمارا بستہ زنجیر ہی<br />
رہا<br />
مرز الطیف علی بیگ سپند غم کی گرفت م یں<br />
انے والے کو بھی ’’اسیر‘‘ ہی <strong>کا</strong> نام دیتے ہیں۔ اسیری<br />
سے چار عناصر وابستہ ہیں۔<br />
پابند ی<br />
دیگر فیلڈز <strong>کے</strong> دروازے بندہوجاتے ہ یں<br />
ایک معاملے <strong>کے</strong> سوا کچھ نہی ں سوجھتا<br />
بے چینی<br />
اور اضطرار کی<br />
کیفیت طاری<br />
ہے ہوجاتی<br />
غم پر یہ چاروں عناصر پورے اترتے ہیں ۔ گویاغم بھی<br />
اسیری <strong>کے</strong> مترادف چیز ہے۔ سپند <strong>کا</strong>شعر مالحظہ ہو<br />
ہے اسیر غم کہاں اور کوچہ قات ل کہاں<br />
یہ معلوم نہیں دلی جاکر ہوا گھائل کہاں<br />
اسیری بالشبہ بڑی خوفناک بال ہے۔ یہ نہ صرف محدود<br />
کرتی ہے بلکہ غالمی مسلط کر دیتی ہے۔ شخصیت <strong>کے</strong><br />
لئے گھن بن جاتی ہے۔ شخصیت <strong>کا</strong>تنزل یا جمود ، فکری<br />
حوالوں کو کمزور کر دیتاہے۔ فکری معذوری ترقی اور
’’<br />
انسانی اقدار کی<br />
پانوئ دابنے<br />
موت بن جاتی ہے۔<br />
پر مجبور کر دیتی<br />
اسیری ،راہزن <strong>کے</strong><br />
ہے۔ <strong>غالب</strong> <strong>کا</strong> کہنا ہے<br />
‘‘<br />
بھاگے تھے ہم بہت سواسی کی سزا ہے یہ<br />
ہوکر اسیر دابتے ہی ں راہزن <strong>کے</strong> پانوں<br />
انسان<br />
ادم کی نسل سے متعلق ہر ادمی کوانسان کہاجاتاہے۔انسان<br />
اور ادمی میں بنیادی فرق یہ کہ ادمی <strong>کا</strong> شریف النفس ہونا،<br />
مرتبہ کمال ِ انسانیت پر پہنچاتاہے اور اِسی حوالہ سے وہ<br />
’’انسان ‘‘کہالنے <strong>کا</strong> مستحق ٹھہرتاہے ۔ انسان ، نسیان یا<br />
انس سے مشتق ہے جبکہ یہ دونوں مادے اس <strong>کے</strong> خمیر<br />
میں پائے جاتے ہیں ۔ جب وہ انس <strong>کا</strong>نمونہ بن کرسامنے<br />
اتاہے تواسے انسان <strong>کے</strong> نام سے پ<strong>کا</strong>ر اجاتاہے۔ بصورت<br />
دیگر اسے ادمی کہنا ہی مناسب ہوتاہے۔ انسا ن <strong>کے</strong> مرتبے<br />
پر فائز ہونا بال شبہ بڑاکٹھن گزار ہوتاہے۔ اُردو غزل <strong>کے</strong><br />
شعرا <strong>کے</strong> ہاں لفظ ’’انسان بکثرت اور بہت سے حوالوں<br />
<strong>کے</strong> ساتھ استعمال میں ای<br />
‘‘<br />
: اہے
میاں دمحمی مائل نے ’’انسان‘‘<br />
سے کہاہے کہ انسان کی زندگی<br />
<strong>کے</strong> فانی ہونے <strong>کے</strong> حوالہ<br />
کی معیادہی کہاہے ۔ دم ایا<br />
ایا' نہ ایا نہ ا یا<br />
کچھ تعجب نہیں گر مرگیا مائل تی را<br />
بار کی الگتا ہے انسان <strong>کے</strong> مرجانے کو<br />
امجد <strong>کے</strong> نزدیک خدا کی<br />
ذات انسان میں ملتی<br />
ہے<br />
سنتاتھا جسے کعبہ وبت خانہ میں ا خر<br />
امجد میں اُسے حضرتِ انسان میں دی کھا<br />
خواجہ درد <strong>کا</strong> موقف ہے کہ خدا <strong>کے</strong> سب جلوے حضرت<br />
انسان میں مالحظہ کئے جاسکتے ہ یں<br />
جلوہ توہر اک طرح <strong>کا</strong>ہرشان میں دی کھا<br />
جوکچھ کہ سنا تجھ میں سو انسان میں دی کھا<br />
ایک دوسری<br />
جگہ پر انسان <strong>کے</strong> خلق کرنے <strong>کا</strong><br />
مقصددردمندی بتاتے ہ یں<br />
دردِدلی <strong>کے</strong> واسطے پیدا کی ا انسان کو<br />
ورنہ طاعت <strong>کے</strong> لئے کچھ کم نہ تھے کر وبی اں
میر جگنو ارزاں <strong>کے</strong> مطابق انسان <strong>کے</strong> وجود خاکی میں<br />
ایک <strong>کا</strong>ئنات پنہاں ہے تام غوروفکر کی ضرورت ہے<br />
زمین واسماں اور مہر ومہ سب تجھ میں ہی ں انساں<br />
نظر بھر دیکھ مشتِ خاک میں کیاکی ا جھمکتا<br />
مصطفے علی خان یکرنگ <strong>کا</strong> کہنا ہے کہ اس حسین پیکر<br />
والے کو محض انسان ہی نہ سمجھ ، یہ اپنی ذات میں کیا<br />
ہے، کھوج کرنے کی ضرورت ہے<br />
اس پری پی کر کو مت انسان بوجھ<br />
شک میں کیوں پڑتا ہے اے دلی جان بوجھ<br />
حافظ عبدالواہاب سچل <strong>کے</strong> نزدیک انسان <strong>کا</strong>ئنات <strong>کا</strong> دلداد<br />
بننے <strong>کے</strong> لئے وجود میں ایا ہے۔ انسان حضرت باری <strong>کا</strong><br />
گویا تمثالی اظہار ہے<br />
برائے خواہشِ الفت ہوا اظہار وہ بے چوں<br />
اسی دنیا میں وہ دلدار بن انسان ای اہے<br />
<strong>غالب</strong> انسان کو کوئی فوق الفطرت وجود نہیں سمجھتے ۔<br />
ان <strong>کے</strong> نزدیک یہ مختلف حالتوں اور کیفیتوں سے دوچار
ہوتاہے۔اس پر<br />
گھبراہٹ بھی<br />
ہے ہوتی طاری<br />
کیوں گردشِ مدام سے گھبرانہ جائے دل ی<br />
انسان ہوں پیالہ وساغر نہیں ہوں م یں<br />
انسان کوئی شے نہیں بلکہ محسوس کرنے والی مخلوق<br />
ہے۔ حاالت کی گرمی سردی اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔ تاہم<br />
پہم ای ک سے حاالت سے خوگر<br />
بھی ہوجاتاہے اور پھر حاالت <strong>کے</strong> طالطم<br />
کو معمول سمجھ کر زندگی گزار دیتاہے۔ <strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> نزدیک<br />
ادمی سے انسان بننے تک، ادمی کو نہایت کھٹن گزار<br />
مراحل سے گزرنا پڑتاہے<br />
(Adjuest)<br />
بسکہ دشوار ہے ہر <strong>کا</strong>م <strong>کا</strong> ا ساں ہونا<br />
ادمی کو بھی میسر نہی ں انساں ہونا<br />
انسان بننا دشوار سہی ، ام<strong>کا</strong>ن سے باہر نہیں۔ اردو غزل<br />
<strong>کے</strong> شعر ا نے انسان سے متعلق جو نقشہ پیش کیا ہے وہ<br />
بڑا دلکش اور پرکشش ہے۔ ادمی <strong>کے</strong> اندر انسان بننے کی<br />
خواہش ابھرتی ہے لیکن جب یہ شدت اختیار کرتی ہے تو<br />
اعتبار میں اضافہ ہوتاچال جاتاہے۔ اعتبار جب معتبر<br />
ہوجاتاہے تو انسان اپنے خالق سے جاملتاہے ۔ گویا<br />
اعتبار، انسان کو ادمیوں میں محترم ٹھہراتاہے ۔
اک شخص: لفظ ’’شخص‘‘ <strong>کے</strong> حوالہ سے کوئی رویہ<br />
سامنے نہیں اتا ۔’’ اک‘‘ <strong>کا</strong> سابقہ اسےعمومی سے<br />
خصوصی <strong>کا</strong> درجہ عطا کرتاہے۔ وہ شخص کون ہے ، ظاہر<br />
نہیں ہوتا لےکن اس کی <strong>کا</strong>رگزاری اسے محترم اور منفر د<br />
کر دیتی ہے۔’’ اک ‘‘ سے متعلق سیا ق وسباق اس <strong>کے</strong> کر<br />
دار کو واضح کرتے ہیں۔<strong>غالب</strong> <strong>کا</strong> ’’اک شخص‘‘ کرداری<br />
حوالہ سے بڑا اہم ہے۔ اس <strong>کے</strong> نہ ہونے سے زندگی غیر<br />
متحرک ہوجاتی ہے۔ وہ تھا تو خیاالت میں جوالنی تھی'<br />
رعنائی تھ ی<br />
‘‘<br />
وہ تھی ’’<br />
اک شخص <strong>کے</strong> تصور سے<br />
اب وہ رعنائی ِ خی ال کہاں<br />
اردو شاعری میں شخص کی تخصیص <strong>کے</strong> لئے مختلف<br />
نوح <strong>کے</strong> سابقے الحقے استعمال میں ائے ہ یں<br />
ان سابقوں اور الحقوں <strong>کے</strong> حوالہ سے ان <strong>کے</strong> کردار کی<br />
نوعیت سامنے اتی ہے<br />
ساحل تمام اشک ِ ندامت سے اٹ گ یا<br />
دریاسے ’’کوئی شخص‘‘ تو پیاسا پلٹ گ یا
یوہ<br />
‘‘<br />
شک یب<br />
یہ ’’کوئی شخص دریا پر اکر بھی پیاسا رہا ۔ دریا سے<br />
کچھ میسر نہ انا یقینا دریاکی توہین ہے۔ دریا دوہرے کرب<br />
<strong>کا</strong> ش<strong>کا</strong>ر ہے<br />
کوئی ۔ الف<br />
اس <strong>کے</strong> پاس اکر مای وس رہا<br />
پیاسا ہی ۔ ب<br />
رہے گا؟<br />
اس طرح دریا <strong>کے</strong> ہونے <strong>کا</strong> جواز ہی باقی نہیں رہا۔ اس <strong>کا</strong><br />
ہونا نہ ہونا ایک ہی بات ہے ۔<br />
دونوں حوالوں سے دریا <strong>کے</strong> وجود پر گہری چوٹ پڑتی<br />
ہے ۔<br />
اخر کو’’ شخص‘‘ بنادشمنِ جاں<br />
وہ شخص جو سرمای ہ جان تھا پہلے<br />
قمر ساحر ی<br />
وہ شخص ‘‘اس امر کو واضح کرتاہے کہ حاالت ایک سے<br />
نہیں رہتے ۔ دوستی دشمنی میں اور دشمنی دوستی میں<br />
تبدیل ہوسکتی ہے اور یہ کسی وقت بھی ہوسکتا ہے ۔ اس
یعن<br />
<strong>کے</strong> لئے کسی بڑی اور معقول وجہ <strong>کا</strong> ہونا ضروری نہیں ۔<br />
گہری دوستی کسی فریق <strong>کے</strong> حوالہ سے استوار ہوئی۔ یہ<br />
دوستی پھلی، پھولی، مفاد پورا ہونے <strong>کے</strong> بعد دم توڑ گئی ۔<br />
ایسے میں فریقِ ثانی <strong>کا</strong> غصہ ، مالل یا پھر شدید رد عمل<br />
الی اور غیر فطری نہ ہوگا۔ بامعنی ، بے معنی ہو کر رہ<br />
:گیا<br />
جو حال ہے بستی <strong>کا</strong> تمہارے ہاتھوں<br />
ہر شخص <strong>کے</strong> چہرے پہ نظر ا وے ہے<br />
ہر شخص ، کسی کی درندگی اور ظلم و استبداد <strong>کا</strong> گواہ ہے<br />
کیونکہ وہ خودظلم و درندگی <strong>کا</strong> ش<strong>کا</strong>ر ہے ۔ اسے اپنے<br />
بارے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔ اس <strong>کے</strong> چہرے پر<br />
کسی فرعون کی فرعونیت جلی حروف میں رقم ہے ۔<br />
باغبان<br />
اردوغزل میں ’’باغبان‘‘ <strong>کا</strong> کردار ،عالمتی اور غیر عالمتی<br />
حوالوں سے معروف چال اتاہے ۔ تزئین وارائش، حفاظت و<br />
نگہانی اور اباد <strong>کا</strong>ری <strong>کے</strong> حوالہ سے ، اس کردار پر توجہ
رہتی ہے۔ اس کردار کی دانستہ یا نادانستہ غفلت شعاری<br />
سے ناقابل ِ تالفی نقصان <strong>کا</strong> احتمال ہوتاہے ۔ اس کردار کی<br />
محتاط روی ، توجہ، محنت و <strong>کا</strong>وش اور اپنے منصب سے<br />
لگن <strong>کے</strong> سبب باغ پھل پھول سکتاہے۔ اس لفظ <strong>کے</strong> حوالہ<br />
سے ایک بڑاہی ذمہ دار کر دار ذہن <strong>کے</strong> کینوس پر ابھر<br />
تاہے ۔ اس کی ہر حرکت توجہ <strong>کا</strong> مرکز رہتی ہے کیونکہ ا<br />
س کی <strong>کا</strong>رگزاری <strong>کے</strong> ساتھ فناوبقا <strong>کا</strong> معاملہ جڑا ہوتاہے۔<br />
: اردو غزل سے چند مثالی ں مالحظہ ہوں<br />
ارے بلبل کسے پر باندھتی ہے اشی اں اپنا<br />
نہ گل اپنا، نہ باغ اپنا، نہ لطفِ باغباں اپنا<br />
میاں دمحم سرفراز عباس ی<br />
میاں دمحم سرفراز عباسی)متوفی ٠٢٠٠ھ( <strong>کا</strong> یہ شعر عجب<br />
مخمصے <strong>کا</strong> سبب بنتاہے<br />
باغبان کی عنایت ہر جانبداری سے باال ہوتی ہے لیکن شعر<br />
میں کہا گیا ہے کہ باغبان <strong>کا</strong> لطف میسر ہی نہیں۔ اس میں<br />
متعلق سے انحراف اگیا ہے ۔ جب باغبان توجہ کھینچ لے<br />
توخیر کی توقع حماقت <strong>کے</strong> سوا کچھ نہیں۔ دوسری طر ف<br />
یہ معاملہ بھی سامنے اتاہے کہ دنیا <strong>کے</strong> نمبر دار غیر<br />
ہوگئے ہیں اور اپنوں ہی سے منہ پھیرے بیٹھے ہیں۔ اس<br />
لئے اپنے ہی دیس میں غربت سے دوچار ہوں توٹھ<strong>کا</strong>نہ
یعن<br />
یپت<br />
یپت<br />
یکل<br />
بنانے <strong>کا</strong> سوال الی ٹھہرتاہے۔باغبان تواپنے باغ کی<br />
، بوٹے بوٹے سے پیار کرتاہے۔ باغبان سراپا لطف<br />
وعنایت ہو کر بھی بانٹ میں ڈنڈی مارتاہے ۔<br />
بعض کو<br />
یکسر نظر انداز کرتاہے اور کچھ کو جو باغ <strong>کے</strong><br />
لئے با معنی ہیں جڑسے ن<strong>کا</strong>ل باہرکرتاہے ۔<br />
مرزا مظہر جانِ جاناں <strong>کے</strong> ہاں بھی<br />
کچھ اسی قسم <strong>کا</strong><br />
مضمون ملتاہے<br />
یہ حسرت رہ گئی کیا کیا مزے سے زندگی کرتے<br />
اگر ہوتا چمن اپنا، گل اپنا باغ باں اپنا<br />
مظہر<br />
کوکلی جانبداری <strong>کے</strong> معنوں میں بھی لیا جاسکتا ‘‘اپنا’’<br />
یک ہے ۔ جانبداری <strong>کے</strong> سبب غیر مستحق جانبدار ی<br />
توقع ہوتی ہے تاہم اس <strong>کے</strong> یہ معنی بھی نہیں بنتے کہ وہ<br />
جانتا ہی نہیں۔ انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ بانٹ<br />
بالشراکت غیرے اسی <strong>کے</strong> حصہ میں ائے۔ وہ چاہتا ہے اقا<br />
<strong>کا</strong> لطف اسی سے مخصوص رہے۔ اتش کو بھی شکوہ ہے<br />
کہ باغبان کی نوازشیں متوازن نہیں ہ یں
باغبان انصاف پر بلبل سے ا یا چاہ یے<br />
پہنچی اس کو زرگل کی پہنچایا چاہ یے<br />
ا تش<br />
<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> ہاں باغبان بطور تشبیہ استعمال میں ایا ہے۔<br />
باغبان <strong>کے</strong> دامن میں کیا کچھ نہیں ہوتا لیکن وہ مخصوص<br />
موقعوں پر دامن کھولتاہے ۔ موقع گزر جانے <strong>کے</strong> بعد اس<br />
<strong>کا</strong> دامنِ عنایت بند ہوجاتاہے ۔ گویا باغبان ہمہ وقت <strong>کا</strong> دیا<br />
لو نہیں ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں باغبان سے<br />
وابستہ توقعات باطل ٹھہرتی ہیں۔ لہذا اس سے توقعات<br />
وابستہ کرنا فعلِ الحاصل سے زیادہ نہیں۔ وہ نہ صرف بخیل<br />
سے بلکہ جانبدار اور گرہ <strong>کا</strong> پ<strong>کا</strong> ہے ۔<br />
یا شب کو دی کھتے تھے کہ ہر گوشہء بساط<br />
دامانِ باغبان وکفِ گل فروش ہے<br />
باغبان اپنے پھولوں کی<br />
بولی<br />
چڑھا رہاہے اس سے زیادہ<br />
اندھیر کیا ہوگا ۔<br />
بت
یرہ<br />
انسانی معاشرتوں میں بت پرستی عام اور عروج پر رہی<br />
ہے ۔ بتوں سے بہت ساری شکتیاں منسوب رہی ہےں<br />
۔انسان دوستوں کی انسان دوستی سے متاثر ہو کر ان <strong>کے</strong><br />
بت بنا کر پوجا کی جاتی ہے۔ انہیں طاقت <strong>کا</strong> سرچشمہ<br />
سمجھا گیا ہے ۔ کھدائیوں میں مختلف اقوام <strong>کے</strong> بنائے<br />
گئے بت ملے ہیں ۔جس سے بتوں کی اہمیت واضح ہوتی<br />
ہے۔ شکتی <strong>کے</strong> باعث ’’بت‘‘ معاشروں <strong>کے</strong> حقیقی اقتدار<br />
اعلی سمجھے گئے ہیں ۔ بت، موحد <strong>کے</strong> لئے کراہت جبکہ<br />
بت پرستوں <strong>کے</strong> دلوں میں احترام <strong>کے</strong> احساس پیدا کرتے<br />
ہےں ۔<br />
اردوغزل میں لفظ’’بت‘‘ <strong>کا</strong> زیادہ تر محبوب <strong>کے</strong> معنوں<br />
میں استعمال ہواہے۔ انشا نے بت کو ایسا خوبصورت<br />
محبوب جو دلی میں دوئی بن کر براجمان ہوجائے، <strong>کے</strong><br />
:حوالہ سے نظم کی ا ہے<br />
اور قدہے جادو ہے نگہ چھب ہے غضب قہر ہے مکھڑا<br />
قی امت<br />
ہللا کی قدرت غارت گردی ں ہے وہ بت <strong>کا</strong>فر ہے سراپا<br />
انشا
یگئ<br />
بت <strong>کے</strong> ساتھ ’’<strong>کا</strong>فر‘‘ پیوند کر<strong>کے</strong> اس کی <strong>کا</strong>رگزاری<br />
) )غارتگردیں واضح کر دی ہے ۔<br />
دمحم شاکر ناجی <strong>کے</strong> ہاں، وہ جو اپنے وصف <strong>کے</strong> سبب اچھا<br />
لگے، اس <strong>کے</strong> متعلق باتیں سننا خوش اتا ہوگویا دلی<br />
ودماغ میں گھر کرے اور یاد مسلسل بن جائے ، <strong>کے</strong><br />
معنوں میں استعمال کیا گیاہے ۔<br />
جرات نے بت کو فلرٹ کرنے واال’’چالو‘‘<br />
اے صبا کہہ بہار کی بات یں<br />
اس بت گلعذار کی بات یں<br />
ناج ی<br />
اورعیار <strong>کے</strong> طور<br />
پر استعمال کی<br />
: اہے<br />
کیا بات کوئی اس بت عیار کی سمجھے<br />
بولے ہے جو ہم سے تو اشارت کہی ں اور<br />
جرات<br />
<strong>غالب</strong> نے ایسا محبوب جس سے پوجا کی حدتک محبت کی<br />
جائے، <strong>کے</strong> معنوں میں لی اہے
چھوڑوں گا می ں نہ اس بتِ <strong>کا</strong>فر <strong>کا</strong> پوجنا<br />
چھوڑے نہ خلق گو مجھے <strong>کا</strong>فر کہے بغ یر<br />
ایک دوسری<br />
جگہ، اس کی<br />
محبت کو، ایمان <strong>کا</strong> درجہ دے<br />
رہے ہ یں<br />
کیونکر اس بات سے رکھوں جان عز یز<br />
کیا نہیں ہے مجھے ایمان عز یز<br />
ایک شعر میں طنز<strong>کا</strong> نشانہ بناتے ہ یں<br />
تم بت ہو پھر تمہیں پندارِ خدائی کی وں ہے<br />
تم خداوند ہی کہالئو خدا اور سہ ی<br />
درج باال مثالوں میں بت <strong>کے</strong> ساتھ لف ِظ<br />
تخصیص بھی نظم<br />
ہواہے<br />
بت ِ<strong>کا</strong>فر<br />
انشا، <strong>غالب</strong><br />
بت ِگلعذار<br />
ناج ی
بت ِعی ار<br />
جرات<br />
اُس بت<br />
<strong>غالب</strong><br />
تم بت<br />
<strong>غالب</strong><br />
ان سابقوں اور الحقوں کی مدد سے بت پہچان سے باہر<br />
نہیں رہتا۔ایسے ہی جیسے الت و منات، شیو، وشنویا<br />
برہما، شنی کی مورتیاں ۔ یہ بت سونے چاندی اور<br />
پھولوں سے لدھے رہتے ہیں۔ محبوب بھی بنائو سنگار<br />
سے غافل نہیں ہوتے ۔<br />
برہمن<br />
برہمن کو بتکدے<br />
کی )مندر(<br />
حرمت اور احترام <strong>کا</strong> امین
سمجھا جاتارہاہے ۔ اس کی وجہ سے ہندودانش <strong>کے</strong> تمام<br />
حوالے ہندوسماج میں پھلے پھولے ہیں۔ اسے ہندودھرم<br />
<strong>کا</strong> رکھواال اور پرچارک سمجھا جاتا رہاہے۔ ہندوگےان<br />
دھیان سے متعلق اس نے دوسروں سے زیادہ علم اور<br />
ویدان حاصل کیا ہوتاہے۔ دوسراوہ اونچی ذات سے متعلق<br />
ہوتاہے اس لئے ہندو سماج میں محترم رہاہے۔ اسے<br />
’’برہمن دیوتا‘‘ بھی کہا جاتارہاہے ۔ برہمن اپنے موقف میں<br />
ضدی، اڑیل اور ہٹھیل سمجھا جاتاہے ۔ لفظ برہمن جب ذہن<br />
<strong>کے</strong> پردوں سے ٹکراتاہے تو ہندو دھرم سے متعلق لوگوں<br />
<strong>کے</strong> روم روم میں پرنام <strong>کے</strong> چشمے ابلنے لگتے ہیں ۔ لفظ<br />
برہمن اُردو شاعری میں مختلف حوالوں سے نمودار ہوا<br />
ہے<br />
مومن نے فدا ہوجانے واال، اَڑ جانے واال، تل جانے واال،<br />
دیوانہ وغیرہ <strong>کے</strong> معنوں میں استعمال کیاہے ۔<br />
بن ترے اے شعلہ رواتشکدہ تن ہوگ یا<br />
شمع قدپر میرے پروانہ برہمن ہوگ یا<br />
مومن<br />
یقین نا<strong>کا</strong>می<br />
پر سٹپٹانے واال <strong>کے</strong> معنوں میں استعمال کرتے<br />
ہیں۔
یدل<br />
برہمن سر کو پیٹتا تھا دیر <strong>کے</strong> ا گے<br />
خداجانے تری صورت سے بتخانے پر کی ا گزرا<br />
یقین<br />
دمحم عظیم الدین عظیم فنا ہوکر وصل <strong>کا</strong> طالب ، جس <strong>کا</strong> جذب<br />
و خلوص اور استقالل متاثرکرے، وہ جسے ہرکوئی<br />
دے بیٹھے ، ایسا محبوب جو بہت سوئوں <strong>کا</strong> عشق اپنے<br />
سینے میں مخفی رکھنے واالوغیرہ معنوں میں استعمال<br />
کیاہے :<br />
برہمن جس <strong>کے</strong> دلی میں ارزو ہے مر<strong>کے</strong> درسن ک ی<br />
مجھے ہے ارزو ہر وقت درسن اس برہمن ک ی<br />
عظیم اس حسنِ عشق امیز نے مجھ دلی کوں گھی راہے<br />
برہمن ہر <strong>کا</strong>عشق ہے،می ں عاشق ہوں برہمن <strong>کا</strong><br />
<strong>غالب</strong> نے ستاروں <strong>کا</strong> حساب کر<strong>کے</strong> مستقبل کی پیش گوئی<br />
کرنے وال اور دھرم سے وفاداری کرنے واال <strong>کے</strong> معنوں<br />
میں نظم کی اہے<br />
دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا ف یض
اک برہمن نے کہا<br />
ی ہ سال اچھا ہے<br />
وفاداری بشرطِ استواری اصل ای ماں ہے<br />
مرے بت خانے میں توکعبے می ں گاڑو برہمن کو<br />
بسمل<br />
بسمل جان قربان کرنے <strong>کے</strong> حوالہ سے اپنا جواب نہیں<br />
رکھتا ۔ وفاداری او ر استواری اس کردار <strong>کا</strong>خصوصی<br />
وصف سمجھا جاتاہے۔ میدان میں اترنے والے <strong>کے</strong> ہاں<br />
زندہ رہنے کی امید ہوتی ہے لیکن بسمل کو تڑپ تڑپ کر<br />
کشتہ ہونے <strong>کا</strong> یقےن ہوتاہے۔ وہ اس کو ہی اپنی <strong>کا</strong>مےاب<br />
اورمنزل سمجھتا ہے۔ اِسی حوالہ سے وہ ’’بسمل‘‘ <strong>کے</strong><br />
لقب سے ملقوب ہوتاہے۔ جلتے ہوئے تڑپنا معشوق کو<br />
تسکین دیتاہے ۔ اسے اس <strong>کے</strong> عاشقِ صادق ہونے <strong>کا</strong> یقین<br />
ہوجاتاہے تاہم دوسری طرف اذیت پسندی <strong>کے</strong> الزام سے<br />
بھی بری نہیں ہو پاتا ۔ اذیت پسندی پیمانے متوازن نہیں<br />
رہنے دیتی ۔ بسمل <strong>کے</strong> حوالہ سے تین طرح <strong>کے</strong> رویے<br />
: ابھرتے ہ یں<br />
یح رت انگیز وفاداری اور استوار ی الف ۔
یعن<br />
<strong>کے</strong> وفاداری<br />
یقین <strong>کے</strong> لئے اتنی کھٹن ازمائش کہ ب۔<br />
عاشق جان سے جائے<br />
ج۔عشق کی<br />
یقین دہانی<br />
<strong>کے</strong> لئے جان پر کھیل جانا سراسر<br />
حماقت اور نادانی ہے<br />
جوبھی سہی<br />
’’بسمل‘‘<br />
کو جان دینے اورمعشوق کو ازمانے<br />
میں اسودگی حاصل ہوتی ہے<br />
اردو شاعری میں یہ کردار پوری اب وتاب سے زندہ نظر<br />
اتاہے ۔<br />
کرم دادخاں درد <strong>کا</strong>کہنا ہے۔ محبوب <strong>کے</strong> استانے <strong>کا</strong> احترام<br />
ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بسمل <strong>کے</strong> لئے الزم ہے کہ وہ<br />
تڑپے لیکن محبوب <strong>کے</strong> استانے کی خا ک پر با ل وپر نہ<br />
لگنے پائیں ۔محبوب ، عاشق صادق کی تڑپت <strong>کا</strong>نظارہ کرے۔<br />
ساتھ میں اس <strong>کے</strong> استانے کی خاک کسی <strong>کے</strong> خون سے<br />
الودہ نہ ہو ی اس خاک پر خون ہونے <strong>کا</strong> الزام بھی نہ<br />
انے پائے ۔<br />
ادب ضرورہے اس خاک ا<br />
ستانے <strong>کا</strong><br />
تڑپھ تو اس طرح بسمل کہ بال وپر نہ لگے
درد<br />
خواجہ درد <strong>کا</strong> موقف ہے کشتے <strong>کا</strong> کچارہ جانا اور کشتہ <strong>کا</strong>ر<br />
<strong>کا</strong>اس سے غافل ہوجانا درست نہیں کشتہ۔ میں خامی نہ<br />
رہناہی کشتہ <strong>کا</strong>ر<strong>کا</strong>کمال ہے ۔<br />
نیم بسمل کوئی کسوکو چھوڑ<br />
اس طرح بیٹھ تا ہے غافل ہو<br />
درد<br />
مہ لقابائی<br />
چندا نے نکتہ ن<strong>کا</strong>ال ہے<br />
قدموں پہ سر تھا کوئی روبروئے ت یغ<br />
ابھی تڑپ سے رہا بسملوں <strong>کا</strong> ج ی<br />
چندا<br />
<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> نزدیک بسمل کو اذیت لطف دیتی ہے لہذا جس<br />
قدر ممکن ہے اذیت )مشق ناز( دو ۔ متقولین <strong>کا</strong>خون میں<br />
اپنی گردن پر لی تاہوں<br />
بسمل<br />
ہے کس انداز <strong>کا</strong> قاتل سے کہتاہے
کہ مشق ِناز کر خونِ دوعالم میری<br />
گردن پر<br />
اسد<br />
کردار وفا شعاری، استقامت، استواری اور معاملے سے<br />
کمٹ منٹ <strong>کا</strong> الجواب نمونہ ۔<br />
بشر<br />
‘‘<br />
بندہ بشر عام بوال جانے واالمحاورہ ہے۔ اس محاورے ’<br />
میں لغزش ادم <strong>کا</strong> واضح طور پر اشارہ موجود ہے۔ گویا<br />
بشر سے غلطی کوتاہی ناممکنات میں نہیں ۔ وہ انسانیت<br />
<strong>کے</strong> کسی بھی درجے پر فائز ہوجائے اس سے چوک ہوہی<br />
جاتی ہے ۔ لفظ بشر ایسے کردار کو سامنے التاہے جو<br />
ضدین <strong>کا</strong> مجموعہ ہے۔ اس کی کسی لغزش یاکسی <strong>کا</strong>رنامے<br />
پرحیرت نہیں ہونی چاہیے۔ اچھائی دونوں عناصر<br />
اس کی فطرت <strong>کا</strong>حصہ ہیں ۔<br />
‘‘<br />
، برائی<br />
محتاط اور بڑے لوگوں کی ’’بشری کوتاہیوں <strong>کا</strong> ری<strong>کا</strong>رڈ<br />
تاریخ اور اسمانی کتابوں میں موجودہے ۔ اردو غزل میں<br />
لفظ ’’بشر‘‘مختلف حوالوں سے پینٹ ہواہے ۔
حافظ عبدالوہاب سچل <strong>کا</strong>کہناہے بشر <strong>کے</strong> ظاہر کو دیکھ کر<br />
کوئی اندازہ لگا لینا مناسب نہیں ۔ بشر <strong>کے</strong> باطن میں<br />
جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ وہ اپنے باطن میں کیا کمال<br />
<strong>کے</strong> خزینے چھپائے بی ٹھا ہے<br />
صور ت بشر کی ہے مری ، ظاہر گد اگر ہوں بنا<br />
باطن کی پہچانے مرے، سلطان ہوں، سلطان ہوں<br />
عالمہ حالی <strong>کے</strong> نزدیک بشر اگر کوئی <strong>کا</strong>رنامہ سر انجام<br />
نہیں دیتا تو اس کی حیثیت صفر زیادہ نہ یں۔<br />
بشر سے کچھ ہوس<strong>کے</strong> نہ ایسے جینے سے کی ا فائدہ<br />
ہمیشہ بے<strong>کا</strong>ر تجھ کو پایا ، کبھی نہ سرگرم <strong>کا</strong>ردی کھا<br />
حال ی<br />
<strong>غالب</strong> بشر سے ’’بندہ بشر‘‘ ہی مراد لے رہے ہ یں۔<br />
دیا ہے دلی اگر اس کو، بشر ہے،کیا کہ یے<br />
ہوا رقیب توہو، نامہ برہے، کیاکہ یے<br />
بشر کوئی فوق الفطرت مخلوق نہیں جواس سے صرف<br />
خیر کی توقع رکھی جائے۔ اس سے خیانت اور بددیانتی<br />
،
یگئ<br />
حیرت کی کوئی<br />
۔ بات نہیں<br />
بلبل<br />
بلبل ایران <strong>کا</strong> خوش گلو پرندہ ہے ۔<br />
فارسی اور اردو شعرا نے اس لفظ کو مختلف مفاہیم میں<br />
استعمال کیا ہے ۔ عالمتی اور استعاراتی استعمال بھی<br />
پڑھنے کو ملتا ہے ۔ اس لفظ <strong>کے</strong> استعماالت کی نوعیت <strong>کے</strong><br />
مطابق، مختلف قسم <strong>کے</strong> سماجی اور سیاسی<br />
حوالے ذہن میں ابھراتے ہیں ۔تاہم خوش الحانی اس کردار<br />
<strong>کا</strong> بنیادی وصف رہاہے ۔ درد سوز وگداز اور نوحہ گری کی<br />
مختلف صورتیں بھی سامنے اتی ہیں ۔ ارد وغزل میں یہ<br />
کردار مختلف حوالوں سے بڑا متحرک رہاہے۔ مثالً<br />
، معاشرتی<br />
مظہر جان جاناں <strong>کے</strong> ہاں عشق میں محبوب <strong>کے</strong> ہاتھوں<br />
سب کچھ لٹا دی نے واال <strong>کے</strong> طور پر نمودار ہواہے<br />
اخر جال کر گل <strong>کے</strong> ہاتھوں اشی اں اپنا<br />
نہ چھوڑا ہائے بلبل نے چمن می ں کچھ نشاں اپنا
یدل<br />
مظہر<br />
بہادر مرزاخرد <strong>کے</strong> مطابق محبوب جب ازادی چھین لینے<br />
کی تمنا کرتاہے تویہ اس کی تمناکی تکمیل <strong>کے</strong> لئے از خود<br />
پابہ زنجی ر ہوجاتاہے<br />
اڑا <strong>کے</strong> پہنچا ، جب ہوااس گل کوشوق ِ ص ید<br />
بلبل کو پر لگادئی ے شوقِ ش<strong>کا</strong>رنے<br />
خرد<br />
خواجہ برہان الدین اثمی نے بلبل <strong>کے</strong> ذریعے اپنے عہدے<br />
<strong>کے</strong> پرگھٹن حاالت اور شخص کی بے اختیاری کو واضح<br />
کیاہے۔ بے اختیار اور ازادی سے محروم چہرے پر<br />
مسکراہٹ حرام ہوجاتی ہے لیکن وہ روبھی نہیں سکتا ۔<br />
اس کی حیثیت کسی کل پرزے سے زیادہ نہیں ہوت ی<br />
میں وہ بلبل ہوں کہ صیاد <strong>کے</strong> گھر بیچ پی دا ہوا<br />
جہاں میں انکھ جو کھولی قفس میں اشیاں دیکھ ا<br />
اثم ی
میر باقر حزیں <strong>کے</strong> مطابق خوبصورت حاالت میسر ہوں<br />
تو نقل م<strong>کا</strong>نی کی کو ن سوچتا ہے تاہم غاصب <strong>کے</strong> جبر <strong>کے</strong><br />
زیر اثر سب کچھ چھوڑنا پڑتاہے۔ حزیں نے ’’بلبل <strong>کے</strong><br />
حوالہ سے حاالت کی ناخوشگواری واضح کی ہے ۔<br />
‘‘<br />
یہ کہہ <strong>کے</strong> باغ سے رخصت ہوئی بلبل کہ ی اقسمت<br />
لکھا تھا یوں کہ فصل ِ گل میں چھوڑیں اشی اں اپنا<br />
حرد یں<br />
<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> ہاں یہ کردار بطور نوحہ گر استعمال ہواہے۔<br />
انسانی فطرت ، مختلف حاالت میں مختلف رویے اختیار<br />
کرتی ہے۔ دکھ یا ڈپریشن کی صورت میں حاالت اور<br />
ماحول کی تبدیلی اسے ریلیف مہیا کرتی ہے ۔<br />
جب نوحہ گر ساتھ میں ہوگا تووہ ناخوشگواری کوکیونکر<br />
بھولنے دے گا ۔<br />
ہمہ وقت <strong>کا</strong> رونا دھونا نہ صرف زندگی <strong>کا</strong> لطف چھین<br />
لیتاہے بلکہ کچھ کر گزرنے کی حس کو بھی ناقابل تالفی<br />
نقصان پہنچتاہے۔ دیکھئ یے<br />
<strong>غالب</strong> اس باب میں کیا کہتے ہ یں<br />
مجھ کو ارزانی<br />
رہے تجھ کو مبارک ہوج یو
نالہء بلبل <strong>کا</strong> د رد اور خندہ گل <strong>کا</strong> نمک<br />
بلبل گویا ایسا کردار ہے جو مسلسل مایوسی اور پریشانی<br />
پھیالتا ہے۔ اس <strong>کے</strong> نالے شخص <strong>کے</strong> درد کو تازہ رکھتے<br />
ہیں۔<br />
بلبل <strong>کا</strong> متراد ف عندلیب اردو غزل میں استعمال ہوتاایاہے ۔<br />
یکرنگ اس کردار <strong>کے</strong> حوالہ سے نکتہ ن<strong>کا</strong>لتے ہیں کہ<br />
عندلیب کی شایستہ اور کومل اواز اور اس کی اہ وفغاں<br />
چار سو پھیل کر توجہ حاصل کر لیتی ہے۔ توجہ پھر جانے<br />
<strong>کے</strong> سبب افسردگی <strong>کا</strong> عالم طاری ہوجاتاہے<br />
کم نہیں کچھ بوئے گل سیتی فغان عندل یب<br />
برگِ گل سے ھیگی نازک ترزبان ِعندل یب<br />
ی کرنگ<br />
<strong>کے</strong> ہاں اس کردار کی <strong>کا</strong>ر فرمائی<br />
ہے۔ شادی میں نوحہ گری کی<br />
<strong>غالب</strong><br />
اور ہی رنگ کی حامل<br />
موجودگی بھال کس کو<br />
خوش اتی ہے<br />
اے عندلیب<br />
یک کف خس بہر اشی اں
طوفان ا مدا مد فصل بہارہے<br />
امدِ فصل بہار میں نوحہ گر کو ’’اشیاں چھوڑنے <strong>کا</strong> ‘‘<br />
مشورہ دینا ہی صائب لگتاہے کہ خواہ مخواہ رنگ میں<br />
بھنگ ڈالے گا ۔<br />
بی مار<br />
یہ تے )طے( سی بات ہے کہ بیمار <strong>کے</strong> شب و روز<br />
ناگواری اور وسوسوں <strong>کا</strong> ش<strong>کا</strong>ررہتے ہیں ۔یہی<br />
نہیں بےماری اس <strong>کے</strong> اعصاب چٹ کر جاتی ہے اور اس<br />
<strong>کے</strong> سوچ کو منفی حوالوں <strong>کے</strong> ساتھ جوڑے رکھتی ہے۔<br />
بےمار، تکلیف ، کمزوری اور سوچ <strong>کے</strong> منفی زوایوں <strong>کے</strong><br />
سبب زندگی <strong>کے</strong> کسی میدان میں کوئی کردار اداکرنے سے<br />
قاصر رہتاہے۔ ’’لفظ بیمار‘‘ سنتے ہی ایک ایسے شخص <strong>کا</strong><br />
تصور سامنے اجاتاہے۔ جوہمدردی <strong>کا</strong> مستحق ہوتاہے لیکن<br />
اس کی ہر وقت کی مایوسی اور ہائے وائے دماغ پر بوجھ<br />
سابن جاتی ہے۔ اردو غزل میں یہ کردار نظر انداز نہیں<br />
ہوا۔ بےمارِ عشق <strong>کے</strong> عالوہ بےماروں <strong>کا</strong> ذکر بھی<br />
ملتاہے ۔<br />
، پریشانی
مرزاسودا <strong>کا</strong> کہنا ہے عارضے میں مبتال شخص <strong>کا</strong> عجب<br />
حال ہو جاتاہے ۔ ہجر <strong>کا</strong> عارضہ سوچ کو جامد کر<strong>کے</strong> رکھ<br />
دیتاہے۔ ہجر کی بیماری انسان کو اندر سے کھائے چلی<br />
جاتی ہے<br />
تیری دوری سے عجب حال ہے اب سودا <strong>کا</strong><br />
میں تو دیکھا نہیں ایسا کوئی بیم ار ہنور<br />
سودا<br />
میاں دمحمی<br />
مائل <strong>کا</strong> خیال ہے کہ بیماری کی ’’ہوس‘‘ بڑھ<br />
جاتی ہے۔ اگرچہ ہوس بھی ذہنی عارضہ ہے<br />
کیا کہوں میں تجھ سے دلی زار کی ہوس<br />
مشہور ہے جہاں میں بیمارکی ہوس<br />
مائل<br />
اللہ نول رائے وفا <strong>کے</strong> نزدیک بیمار کی بیماری سے اندازہ<br />
ہوجاتاہے کہ وہ زیادہ دیر <strong>کا</strong> نہ یں<br />
کہنے لگا وہ من <strong>کے</strong> مرا نالہ وفغاں<br />
یا رب جیا کرئے گا یہ بی مار کب تلک
وفا<br />
میر دمحمی قربان <strong>کے</strong> نزدیک ’’نگہ <strong>کا</strong> بےمار‘‘ مسیحا کی<br />
دسترس سے باہر ہوتاہے۔ کوئی معالجہ )سمجھانا بجھانا(<br />
اس پر <strong>کا</strong>رگر ثابت نہیں ہوتا بلکہ نیتجہ الٹ ہی نکلتا ہے ۔<br />
نگ اہ الفت کہ نگاہِ قہر <strong>کا</strong> ڈساالعالج ہوتا ہے<br />
کسی کی برگشتہ <strong>کا</strong> ہوں می ں بےمار<br />
یاں مسیحا کی ہوئی جاتی ہے تدیبر الٹ ی<br />
قربان<br />
جہاں دار <strong>کا</strong> بھی<br />
نظری ہ ہے یہی<br />
تیرے بیمار اب <strong>کے</strong> تیئں جو دی کھا<br />
مسیحا کی نہیں کرتی دوا خوب<br />
جہاں دار<br />
محبت خاں محبت <strong>کے</strong> خیال میں بیمارِ عشق <strong>کا</strong> جینا مرنا<br />
سے بے<strong>کا</strong>ر ِمحض برابر ہوتاہے ۔وہ عمرانی حوالہ<br />
ہوتاہے ۔
یات<br />
جس کو تیری ا نکھوں سے سرو<strong>کا</strong>ر رہے گا<br />
بالفرض جیا بھی تو وہ بی مار رہے گا<br />
محبت<br />
<strong>غالب</strong> نے عاشق <strong>کے</strong> ساتھ ’’بیمار‘‘<strong>کا</strong> پیوند کر<strong>کے</strong> عشق کو<br />
بیماری قرار دیا ہے۔ان <strong>کے</strong> نزدیک یہ بیماری جان لے کر<br />
دم لیتی ہے<br />
مندگئیں کھولتے ہی کھولتے انکھی ں ہے ہے<br />
خوب وقت ائے تم اس عاشق بی مار <strong>کے</strong> پاس<br />
بیمار <strong>کا</strong> مترادف لفظ’’ مریض‘‘ بھی اردو غزل میں اپنی<br />
الگ سے پہچان رکھتاہے۔ یہاں بھی عاشق ہی مریض سے<br />
ملقوب نظر اتاہے میرصاحب <strong>کے</strong> نزدیک مرضِ عشق جان<br />
لے کر چھوڑتا ہے۔ عشق گویا ایک نفسی عارضہ ہے<br />
جس کی شدت سے جان بھی جاسکتی ہے ۔<br />
مت کر عجب جو میر ترے غم میں مرگ یا<br />
جینے <strong>کا</strong> اس مریض <strong>کے</strong> کوئی بھی ڈھنگ تھا؟<br />
میر
قائم <strong>کے</strong> خیال میں مریضِ عشق <strong>کا</strong> مرجاناہی اچھا ہے ۔<br />
اس <strong>کا</strong> ہردم وبال ہوتاہے۔ وبال)اذیت( <strong>کا</strong> جینا بھی کیا جینا<br />
ہے۔ اس سے مرجان ہی بہتر ہوتاہے<br />
چھوٹا ترا مریض اگر مرگی ا کہ شوخ<br />
جو دم تھا زندگی <strong>کا</strong> سو اس پر وبال تھا<br />
قائم<br />
میاں جگنو <strong>کے</strong> نزدیک ، مریض عشق، عارضہ عشق میں<br />
رہے تو اچھا ہے ۔ اس <strong>کا</strong> بہتر ہونا دوسروں کو بیمار کر<br />
دیتاہے۔ وہ قصہءعشق سنا سنا کر اوروں کو ہل<strong>کا</strong>ن کردے<br />
گا ۔<br />
ایسے مریض عشق کو ازار ہی بھال<br />
اچھا کبھی نہ ہووے یہ بیمار ہی بھال<br />
کہتے ہیں مریضِ عشق کی حالت دیکھنے واال ، مریض<br />
کی مرض سے زیادہ واقف ہوتا ہے۔ اگر کوئی معالج،<br />
تیمادار کی رائے کو نظر انداز کر<strong>کے</strong> دعوی باندھے کہ یہ<br />
اچھا ہو جائے گا اور اگر وہ اچھا نہ ہو تو مسیحا کو
یمت<br />
سزا)جرمانہ(<br />
جائے ۔ دی<br />
ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جب تک مرضِ عشق کو<br />
ہوا دینے والے باقی رہیں گے کسی کی مسیحائی <strong>کا</strong>م نہ<br />
. ی اس<strong>کے</strong> گ<br />
لوہم مریضِ عشق <strong>کے</strong> تیمادار ہ یں<br />
اچھا اگرنہ ہو تو مسیحا <strong>کا</strong> کی ا عالج<br />
پروانہ<br />
اس لفظ <strong>کا</strong> عال اور استعارتی استعمال ہوتا ایا ہے۔<br />
پروانہ ، ایثار، قربانی اور ممتا کی عالمت ہے۔ اسے ہر<br />
حال میں قربان ہونا ہوتا ہے۔ اردو غزل میں یہ کردار بڑا<br />
معتبر ، متحرک اور جاندار چال اتا ہے۔ یہ عاشق ، دھرتی<br />
اور مذہب پر قربان ہونے واال <strong>کے</strong> طور پر پڑھنے کو<br />
ملتاہے۔ استاد ذوق <strong>کے</strong> نزدیک وہ جو منزل مقصود سے<br />
دور اور منزل تک رسائی <strong>کے</strong> وسائل نہ رکھتا ہو<br />
بلبل ہوں صحن باغ سے دور اور شکستہ پر<br />
پروانہ ہوں چراغ سے دور اور شکستہ پر
ذوق<br />
پروانہ <strong>کے</strong> لئے لفظ پتنگا بھی استعمال ہواہے ۔ خسرو نے<br />
اس سے مراد عشق کی اگ میں جل مرنے واال لیاہے ۔<br />
میرا جو بن تم نے لیا تم نے اٹھا غم کو د یا<br />
تم نے مجھے ایسا کیا جیسا پنتگا ا گ پر<br />
<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> ہاں بطور حسن شناس ، محبوب <strong>کے</strong> متعلق<br />
کسی قسم کی ش<strong>کا</strong>یت پر و<strong>کا</strong>لت کرنے واال <strong>کے</strong> معنوں میں<br />
لیاگیا ہے ۔<br />
جاں در ہوائے ی ک نگہ ِگرم ہے اسد<br />
پروانہ ہے وکیل ترے داد خواہ <strong>کا</strong><br />
جالد<br />
لفظ ’’جالد‘‘ خوف اور نفرت پیداکرتاہے۔ ظالم ، جابرا ور<br />
اذیت پسند <strong>کے</strong> لئے بوالجاتاہے۔ یہ سر<strong>کا</strong>ری مالزم ہوتاہے۔<br />
اپنی مرضی سے کسی کو کوڑے نہیں لگاتا اور نہ ہی<br />
کسی کی جان لیتا ہے۔ حاکم <strong>کے</strong> حکم سے جیلر یاکسی
یول<br />
دوسرے عہدےدار کی موجودگی میں ، حاکم <strong>کے</strong> حکم کی<br />
تعمیل کرتاہے اوراِس ضمن میں کسی رورعایت سے <strong>کا</strong>م<br />
نہیں لیتا۔ ترس یارحم کی صورت میں حاکم <strong>کے</strong> حکم کی<br />
تعمیل نہیں ہو پات ی۔<br />
سنگدلی اور بے حسی <strong>کے</strong> حوالہ سے کنایتہ جالد <strong>کا</strong> لفظ<br />
استعمال میں اتاہے ۔<br />
انعام ہللا یقین نے زندگی کی کھٹورتاکو سامنے رکھتے<br />
ہوئے جالد <strong>کے</strong> کردار کوواضح کیاہے کہ وہ زندگی <strong>کے</strong><br />
مصائب واالم سے نجات دالتاہے۔ اس لئے خون بہااسی کو<br />
پہنچنا چاہ یے<br />
چھٹے ہم زندگی کی قی د سے اور داد کو پہنچے<br />
وصی ت ہے ہمارا خوں بہا جالد کو پہنچے<br />
یقین<br />
دکنی فلک کو جالد <strong>کا</strong> نام دے رہے ہیں۔ تاہم انسان <strong>کا</strong><br />
’’غمزہ ئ خون ریز‘‘ کی تاب وہ بھی نہی ں ال سکتا<br />
زخمی ہے جالدِ فلک تجھ غمزہئ خوں ری ز <strong>کا</strong><br />
ہے شور دریا می ں سدا تجھ زلف عنبربےزر <strong>کا</strong>
یول<br />
سید عبدالولی عزلت <strong>کا</strong> کہناہے جب زندگی سے نجات کی<br />
خواہش ہوتی ہے جالد زندگی سے نجات نہیں دالتا بلکہ<br />
اذیت میں مبتال کودیکھتا رہتاہے ۔<br />
نیم بسمل ہوا میں تیغ نگہ تب رکھ ل ی<br />
کس بھلے وقت برا ہوگی ا جالد کہ بس<br />
عزلت<br />
شہید <strong>کے</strong> نزدیک جال د بےاعتبارا ہے۔ ارزو <strong>کا</strong> قتل کرتا<br />
ہے۔ مارنے سے زیادہ دکھ میں دیکھ کر اسودگی محسوس<br />
کرتا ہے<br />
شہید اخر مقدر تھا ہمیں حسرت میں جی دی<br />
ہمارے سر پر اکر پھر گیا جالد ی اقسم<br />
\ تا<br />
t<br />
شہ ید<br />
<strong>غالب</strong> جالد <strong>کے</strong> حوالہ سے محبوب کی اذیت پسندی اجاگر<br />
کرتے ہیں ۔ جالد بڑی بے دردی سے ماررہاہے۔ وہ<br />
توسنگدل ہے ہی، محبوب کہے جارہاہے ’’اور مارو، اور
مارو‘‘۔ محبوب کو اذیت نواز سے واسطہ ہے ۔ کہتے ہیں<br />
جالد کی بےرحمی <strong>کے</strong> سبب جان ہی کیوں نہ چلی جائے<br />
لیکن محبوب کی اواز ’’اور مارو‘‘ <strong>کا</strong> ن میں پڑتی رہنی<br />
چاہیے۔محبوب رحم سے کوسوں دور ہے جبکہ مضروب<br />
کو محبوب کی عدم تسکین لطف دے رہی ہے<br />
مرتا ہوں اس ا واز پہ ہر چند سراڑ جائے<br />
جالد کو لیکن وہ کہے جائی ں کہ ہاں اور<br />
حسن<br />
ہللا تعالی نے انسان کی سرشت میں ذوقِ جمال رکھ دیا<br />
ہے۔ اس لئے حسن شناسی کی تاریخ انسان <strong>کے</strong> ساتھ چلتی<br />
ہے۔ جس <strong>کا</strong> ثبوت ہابیل <strong>کا</strong> قتل ہے۔ ’’حسن‘‘ اپنا الگ سے<br />
وجود نہ رکھتے ہوئے انسانی زندگی میں بڑے معتبر اور<br />
متحرک کردار <strong>کا</strong> حامل ہے۔ حسن نے بال امتحان کسی کو<br />
اپنا نہیں بنایا ۔ اردو غزل میں حسن <strong>کے</strong> کردار کو مختلف<br />
حوالوں اور زوایوں سے اجاگر کیاگیا ہے ۔<br />
شاہ ولی ہللا ولی<br />
<strong>کا</strong> کہنا ہے حسن ایک معجزہ ہے۔ شکتی<br />
دیتا ہے، روشنی پھی التا
یول<br />
یعن<br />
خوبی اعجاز حسن ِ ی ار گر انشا کروں<br />
بے تکلف صفحہء<strong>کا</strong>غذ ید بی ضاکروں<br />
دمحم عظیم الدین عظیم <strong>کے</strong> مطابق حسن اگ ہے جواس <strong>کے</strong><br />
قریب ہوتاہے جل کر کباب ہوجاتاہے ۔<br />
گلشن می ں جب وہ گل رومستِ شراب ہوئے<br />
اس حسن ِ اتشی ں پر بلبل کباب ہوئے<br />
، خوبصورتی<br />
عظ یم<br />
انسان نیکی اورہم اہنگی کی جانب فطری<br />
میالن رکھتاہےاس لئے لفظ ’’حسن اس <strong>کے</strong> تمام حواس<br />
بیدا ر کردیتا ہے اور اپنے ارد گرد اس کو تالشنے لگتاہے۔<br />
اشیا <strong>کے</strong> مثبت پہلوؤں پر غور کرتاہے۔ اشےائ مےں<br />
خوبیاں تالش کر تاہے پھر اسے بدبو دار کوڑا بھی برا<br />
نہیں لگتا اور کراہت کی حیثیت الی ہوکر رہ جاتی ہے ۔<br />
حسن درحقیقت تحریک <strong>کا</strong> دوسرانام ہے۔ ’’حسن‘‘ ظاہر میں<br />
کچھ ہے اور بعض اوقات اپنی کریہہ ہےئت <strong>کے</strong> سبب وجہ<br />
ء امتحان ٹھہرتاہے ۔جونہی ظاہری لبادہ چاک ہوتاہے<br />
‘‘
افادے <strong>کا</strong> دروازہ کھل جاتاہے ۔یہ بھی ممکن ہے ظاہر جاذ ِب<br />
نظر ہو جبکہ باطن کریہہ اور قابل نفرت بھی نہ ہو<br />
۔ حسن اپنی سرشت میں مقناطیست رکھتاہے اس لئے وہ<br />
متاثرہ کرتاہے تاہم ہرکسی پر اس <strong>کے</strong> فیوض <strong>کے</strong> خزانے<br />
نہیں کھلتے ۔<br />
:بقول غالم رسول مہر<br />
خود کوسادہ اور بے خبر ظاہرکرتاہے لیکن اپنی اصل میں<br />
بڑا ہوشیار اور پر<strong>کا</strong>ر ہوتاہے۔ لوگوں <strong>کے</strong> حوصلے ہمت<br />
اور صبر واستقال ل <strong>کا</strong> امتحان لےتاہے<br />
<strong>غالب</strong> کی<br />
۔ زبانی سنیئے<br />
سادگی و پر<strong>کا</strong>ری وبے خودی وہشیار ی<br />
حسن کو تغافل میں جرات ازماپا یا<br />
دشمن<br />
نفرت اور محبت انسانی زندگی <strong>کا</strong> حصہ رہے ہیں۔ جہاں<br />
انسان، انسان <strong>کے</strong> دکھوں <strong>کا</strong>مداوا کرتاچالارہاہے وہاں
ینئ<br />
انسان دشمنی بھی عروج پر رہی ہے۔ چونکہ تضاد انسان<br />
کی فطرت <strong>کا</strong>جزو ہے اس لئے دوستی <strong>کے</strong> ساتھ دشمنی<br />
ایسی کوئی اور انوکھی چیزنہیں ہے۔ یہ لفظ برصغیر<br />
کی مختلف زبانوں میں اسی طرح یاتھوڑی بہت تبدیلی <strong>کے</strong><br />
ساتھ رائج چال اتاہے۔ یہ لفظ ڈر خوف اور نفرت <strong>کے</strong> ساتھ<br />
ساتھ تحفظ ذات <strong>کا</strong>احساس بھی پیداکرتاہے ۔<br />
شاہ نصیر <strong>کے</strong> نزدیک کسی سبب <strong>کے</strong> باعث دشمنی جنم<br />
لیتی ہے<br />
مجنوں سے ہے جو ناقہ ء لیلی کو دوست ی<br />
دشمن ہے اس لئے وہ بیاباں می ں خار <strong>کا</strong><br />
شاہ نص یر<br />
مرزا مظہر جانِ جاناں ایسے دوست جس <strong>کا</strong> کردار بدترین<br />
دشمن <strong>کا</strong> ساہو، <strong>کے</strong> لئے دشمن <strong>کا</strong> لفظ استعمال کرتے ہیں ۔<br />
جو تونے کی سو دشمن بھی نہی ں دشمن سے کرتاہے<br />
غلط تھا تجھ کو جوہم جانتے تھے مہرباں اپ نا<br />
جاناں
یوہ<br />
رقیب <strong>کے</strong> لئے بھی ’’دشمن ‘‘<br />
ہی<br />
لفظ استعمال میں التے<br />
ہیں ۔<br />
<strong>کے</strong>وں نہےں اٹھتی قیامت ماجراکی اہے<br />
ہمارے سامنے پہلو میں وہ دشمن <strong>کے</strong> بیٹھے ہ یں<br />
’’دشمن <strong>غالب</strong> ‘‘<br />
<strong>کے</strong> ایک دوسرے کردار پر روشنی ڈالتے<br />
ہیں<br />
عشق میں بیدادرشک ِغی ر نے مارا مجھے<br />
کشتہءدشمن ہوں ا خر گرچہ تھا بےمار دوست<br />
بالشبہ رقیب سے بڑ ادشمن کون ہوگا۔<br />
رقابت قطرہ قطرہ<br />
نچوڑتی ہے ۔<br />
دوست<br />
لفظ دوست تہذیبی اور ثقافتی تاریخ میں بڑا مضبوط اور<br />
توانا حوالہ رکھتاہے۔ انسانوں نے انسانوں کو اور قوموں
یات<br />
نے قوموں کو معامالت ِحیات <strong>کے</strong> ضمن میں، وقت پڑنے<br />
پر یا پھر من <strong>کا</strong> بوجھ ہل<strong>کا</strong> کرنے <strong>کے</strong> لئے دوست بنایاہے۔<br />
ان پر اعتماد کیا ہے ان سے معاشی لین دین رکھاہے۔ ان<br />
سے خونی رشتے استوار کئے ہیں ۔ان <strong>کے</strong> لئے خون بہایا<br />
ہے۔ تاہم اعتماد جیت کر برباد کرنے والے بھی دوست ہی<br />
رہے ہیں ۔ اس منفی حقیقت <strong>کے</strong> باوجود لفظ ’’دوست<br />
اپنے دامن میں وسعت، توانائی ، خلوص و محبت اور<br />
پاکیزگی رکھتا ہے۔ انسان <strong>کا</strong> اعتمادبحال کرتاہے۔ حوصلے<br />
اور تسلی <strong>کا</strong> سبب بنتاہے۔ یہ لفظ یقینا بڑاخوبصورت اور<br />
اعصاب پر مثبت اثرات مرتب کرنے اور نفسی تسکین<br />
فراہم کرنے واال ہے ۔<br />
دوست <strong>کا</strong> کردار ہمیشہ سے متحرک رہاہے۔ خدااور معشوق<br />
<strong>کے</strong> لئے بھی یہ استعمال میں اتا رہاہے۔ اردو غزل سے<br />
چند مثالی ں مالحظہ ہوں<br />
‘‘<br />
میر حیدر الدین <strong>کا</strong>مل <strong>کا</strong> کہنا ہے کہ دوست، دوست کی<br />
خطاؤں سے درگذرکرتاہے اور اسے معاف کردیتاہے۔<br />
دوست <strong>کا</strong>یہ کردار سچی اور سُچی دوستی کی نشاندہی<br />
کرتاہے ۔<br />
دوست بخشے گ ا دوست سب <strong>کے</strong> سب<br />
گرچہ عاصی ہوں اس <strong>کا</strong> اسی ہوں
<strong>کا</strong>مل<br />
دوستی<br />
<strong>کا</strong>یہ پیمانہ ہللا تعالی کی ذاتِ گرامی پر فٹ اتاہے<br />
۔تاہم دوستی ایسے حوالوں کی متقاضی ہے ۔<br />
داغ دہلوی<br />
کہتے ہیں دوست ،دوست <strong>کے</strong> لئے مخبری<br />
<strong>کا</strong>فریضہ بھی انجام دی تاہے<br />
قسم دے کر انہی پوچھ لو تم رنگ ڈھنگ ان <strong>کے</strong><br />
تمہاری بزم میں کچھ دوست بھی دشمن <strong>کے</strong> بیٹھے ہ یں<br />
داغ<br />
مرزامظہر جان ِجاناں <strong>کے</strong> مطابق دوست اپنابناکر لو ٹ<br />
لیتے ہ یں<br />
ہمارے ساتھ سے یہ دلی بھی بھاگالے <strong>کے</strong> جاں اپنا<br />
ہم اس کو جانتے تھے دوست مہرباں اپنا<br />
جاناں<br />
خواجہ درد <strong>کے</strong> نزدیک دوستوں کی دوستی بھی مقدر سے<br />
میسر اتی ہے۔ نصیب یاوری نہ کرے تو دوست دشمن بن
۔ جاتے ہیں<br />
یاوری دیکھیے نصیبوں ک ی<br />
دوست بھی ہوگئے مرے دشمن<br />
درد<br />
:<strong>غالب</strong> <strong>کا</strong> انداز بیاں اور بقول شاداں بلگرام ی<br />
دوست ہمیشہ ہمدردی اور غمخواری کرتے ہیں تاہم ’’<br />
دوست <strong>کا</strong>نوں <strong>کے</strong> کچے اور چغلی سن کر بدگمان بھی<br />
ہوجاتے ہ یں۔<br />
دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے ک یا<br />
زخم <strong>کے</strong> بھرانے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے ک یا<br />
ایک دوسری<br />
جگہ کہتے ہ یں<br />
تاکرے نہ غمازی کر لی اہے دشمن کو<br />
دوست کی ش<strong>کا</strong>یت می ں ہم نے ہم زباں اپنا
یائ<br />
رق یب<br />
‘‘<br />
کسی معاملے کی پوشیدگی <strong>کے</strong> ساتھ ساتھ من <strong>کا</strong> بوجھ<br />
ہل<strong>کا</strong> کرنے، صالح ومشورہ، واسطوں اور رابطوں <strong>کے</strong><br />
لئے کسی ’’اپنے‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اکثر و بےشتر<br />
’’یہ اپنے نقصان <strong>کا</strong> سبب بنتے ہیں ۔ جوپہلے سے رقابت<br />
رکھتا ہو اس سے نبر دازما ہونا، مشکل <strong>کا</strong>م نہیں ہوتا تاہم<br />
خفیہ رقابت نقصان <strong>کا</strong> موجب بنتی ہے۔ جب بھی اس قسم<br />
<strong>کے</strong> کردار <strong>کا</strong>حوالہ سامنے اتاہے ۔ نفرت اور کراہت <strong>کے</strong><br />
جذبات ابھرتے ہیں اس لئے ایسے کردار سے خوف<br />
کھانافطری سی بات ہے ۔ ایک ہی محبوب <strong>کے</strong> دوعاشق<br />
اپس میں رقیب ہوتے ہ یں۔<br />
اردو غزل میں سے چند مثالیں مالحظہ فرمائ یں<br />
شاہ ولی ہللا اشتیاق نے دعوی باندھنے اور رائے دہندہ<br />
<strong>کے</strong> معنوں میں یہ لفظ استعمال کی اہے<br />
نہ چھوڑا ماربھی کھاکر گزر گلی <strong>کا</strong>تر ی<br />
رقیب کو مرے دعوی ہے بے حی <strong>کا</strong><br />
دمحم عظیم الدین عظیم نے گھات میں رہنے وال، نشانہ ہدف<br />
بنانے واال، جس سے خوف اتاہو <strong>کے</strong> معنوں میں استعمال<br />
کی اہے
چھپ دیکھتا ہوں تجھ کو رقی باں <strong>کے</strong> خوف سے<br />
مکھ میں نین ،نین میں نظر، میں نظر می ں ہوں<br />
عظ یم<br />
خواجہ درد نے رقیب کو حاسد <strong>کے</strong> معنی<br />
پہنائے ہ یں۔<br />
ا نسومرے جوانہوں نے پونچھے<br />
کل دیکھ رقیب جل گ یا<br />
درد<br />
چندا نے ر<strong>کا</strong>وٹ ڈالنے واال، حائل ہونے واال <strong>کے</strong> معنوں<br />
میں نظم کی اہے<br />
دیکھا چمن می ں واسطے بلبل <strong>کے</strong> جابجا<br />
ہر گز نہیں رقیب سواکوئی خار گل<br />
چندا<br />
میر سعادت علی سعادت <strong>کے</strong> نزدیک رقیب وہ نادان کردار<br />
ہے جس کی نادانی <strong>کے</strong> سبب کسی دوسرے <strong>کا</strong> <strong>کا</strong>م سنور
یکئ<br />
جاتاہے ۔<br />
<strong>غالب</strong> انتہائی قرابت دار اورہم راز کو رقیب <strong>کا</strong> نام دیتے<br />
ہیں ۔ قرابت <strong>کے</strong> سبب رقابت میں مبتال ہوکر دشمنی پر<br />
اتراتاہے ۔ خیانت <strong>کا</strong> مرتکب ہوتاہے ۔ بھروسہ اور یقین<br />
سے فائدہ اٹھاکر نقصان پہنچاتاہے<br />
ذکر اس پری وش <strong>کا</strong> پھر بی اں اپنا <strong>غالب</strong><br />
بن گیا رقیب ا خر تھا جوراز داں اپنا<br />
ساق ی<br />
لفظ ’’ساقی ‘‘ شراب پالنے والے <strong>کے</strong> لئے بوال جاتاہے۔<br />
اس سے ہادی، پیرو مرشد ، حضور، محبوب ، معشوق<br />
وغیرہ معنی بھی مراد لئے جاتے ہیں ۔<br />
یہ لفظ عوامی نہیں لیکن اردو اور برصغیر کی دوسر<br />
ی زبانوں کی شاعری میں نظم ہوتا ارہا ہے ۔ یہ لفظ اہل<br />
ذوق پہ رنشہ کی کیفیت طاری کر دیتاہے۔ کسی سابقے<br />
یاالحقے <strong>کے</strong> جڑنے سے کسی مخصوص کردار کی طرف<br />
توجہ مبذول کرواد یتا ہے۔ مرکب کی صور ت میں دماغ پر<br />
مختلف نوعیت <strong>کے</strong> اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اردو شاعری<br />
میں لفظ ساقی <strong>کے</strong> استعمال کی چند مثالی ں مالحظہ ہوں
ینب<br />
بھگونت رائے راحت اس سے مہر ومحبت سے فیض یاب<br />
کرنے واال مراد لیتے ہ یں<br />
رہوں<br />
پال مجھ کو ساقی محبت <strong>کا</strong> ج ام<br />
یاد میں اوس کی سرخوش خرام<br />
راحت<br />
پیرمرادشاہ <strong>کا</strong> کہتے ہیں وہ جس کی شراب حالل اور اس<br />
<strong>کے</strong> عنایت کئے گئے جام میں نبی <strong>کا</strong> جمال نظر اتاہو۔<br />
ساقی بمعنی تقیسم کنندہ، اس کی می شرعی جواز رکھتی<br />
ہو<br />
پالمجھ کو ساقی شرابِ حالل<br />
<strong>کا</strong> نظر اوے جس می ں جمال<br />
پی ر مراد شاہ<br />
دمحم صابر محمود ساقی سے عنایت کرنے واال، فیض یاب<br />
کرنے واال ،پر جوش عنایت واال مراد لیتے ہ یں<br />
دیتا ہے بادہ ساقی مینائے اتشی<br />
رکھتاہے مست دلی کوں گلرنگ بےغشی<br />
سوں<br />
سوں<br />
صابر
ذوق <strong>کے</strong> نزدیک وہ جوکسی<br />
اور <strong>کے</strong> اشارے سے بانٹ کر<br />
تاہو<br />
ساقی<br />
کرتاہے ہالل ابروئے پُرخم ہے اشارہ<br />
کو کہ بھردے بادے سے کشتی طالئ ی<br />
عبدالحی<br />
تاباں اس کو ساقی<br />
ذوق<br />
مانتے ہیں جو تقاضوں سے<br />
باال تر ہوکر پالئے<br />
ایمان ودیں سے تاباں مطلب نہی ں ہے ہم کو<br />
ساقی ہو اور مے ہومی نا ہو اور ہم ہوں<br />
تاباں<br />
<strong>غالب</strong> <strong>کا</strong> اپنا ہی رنگ ہے۔ ایسا کردار جواپنی فیاضی پر<br />
اِتراتاہولیکن مےخوار کی بالنوشی اس <strong>کا</strong> غرور خاک میں<br />
مالکر رکھ دے<br />
لے گئی ساقی کی نخوت، قلزم اشامی مر ی<br />
موج مے کی اج رگِ مینا کی گرد ن میں نہ یں
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ ساقی وہ ہے جوہر انے<br />
والے کو پالئے۔ خواہ اس کی مرضی ہو یانہ ہو ۔<br />
گویاہر حالت می ں پالئے<br />
میں اور بزم مے سے<br />
گرمیں نے کی تھی<br />
یوں تشنہ <strong>کا</strong>م ا ئوں<br />
توبہ،ساقی کوکی اہوا<br />
ایک تیسری جگہ ’’کوثر‘‘ <strong>کا</strong> الحقہ بڑھاکر جناب امیر)ع(<br />
کی ذاتِ عالیہ مراد لیتے ہیں کہ ان کی ذات ایسی نہیں<br />
جوبخل سے <strong>کا</strong>م لے<br />
کل <strong>کے</strong> لئے کر اج نہ خست شراب م یں<br />
یہ سوئے ظن ہے ساق ِی کوثر <strong>کے</strong> باب م یں<br />
ستمگر<br />
اردو غزل میں یہ لفظ زیادہ تر محبوب <strong>کے</strong> لئے مستعمل<br />
رہاہے ۔<br />
یہ لفظ سنتے ہی بڑا ظالم ، بات نہ سننے واال، ضدی، خود<br />
پسندمحض نازنخرے واال محبوب، انکھوں <strong>کے</strong> سامنے
گھوم جاتاہے۔ امےر شہر <strong>کے</strong> لئے بھی یہ لفظ نامناسب<br />
نہیں سمجھا گیا ۔<br />
رائے ٹیک چند بہارنے اس کردار سے کچھ ایسی ہی<br />
خوبیاں منسوب کی ہیں<br />
مکمل گرفت میں لی نے واال<br />
متاثر کرنے کی<br />
طاقت رکھنے واال<br />
جوبالوجہ قتل )<br />
)گرویدہ<br />
کرتاہے<br />
کرئے ہے یہ ستمگر قتل بے تقصیر کیا کہی جے<br />
مرنا ہے تقدیر کیاکہی جے<br />
بہار<br />
یوں<br />
جواُن <strong>کے</strong> ہاں عبدالحی<br />
تاباں نے اس سے ایساکردار مراد لیا ہے جوظالم<br />
تو ہے لیکن اہ وزاری سے متاثر بھی ہوتاہے<br />
اب مہرباں ہو اہے تاباں تراستمگر<br />
اہیں تیری کسی نے شاید جاکر سنائیاں ہ یں<br />
تاباں
<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> نزدیک یہ ایسا کردار ہے جس <strong>کے</strong> ظلم وستم کی<br />
کوئی حدنہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ستم <strong>کے</strong> ش<strong>کا</strong>ر<br />
کی موت پر بھی اکتفا نہیں کرتا۔ وہ اس سے بڑھ کر ستم<br />
<strong>کا</strong>خواہش مند ہوتاہے۔ نہ مرنے دیتاہے اور نہ جی نے<br />
می ں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چُھوٹوں<br />
وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا<br />
<strong>غالب</strong> اس امر<br />
<strong>کا</strong> اعالن کرتے ہیں کہ ستمگر سے اچھائی<br />
اور بہتری کی امید نہیں کی جاسکت ی<br />
وہ دن بھی ہوکہ اس ستمگر سے<br />
ناز کھی نچوں بجائے حسرت ناز<br />
ان <strong>کے</strong> نزدیک<br />
یہ کردار طعنہ زنی کرتارہتاہے کہ کچھ کھا<br />
کر مرکیوں نہی ں جاتے<br />
زہر ملتا ہی نہی ں مجھ کو ستمگر ورنہ<br />
کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں<br />
شمع
روشنی کی ضرورت واہمیت سے کبھی بھی ان<strong>کا</strong>ر نہیں<br />
کیاگیا ۔ شمع ہمیشہ سے بہتر <strong>کا</strong>رگزاری <strong>کا</strong> وسیلہ رہی ہے۔<br />
روشنی <strong>کے</strong> کئی معنی لئے جاتے ہیں ۔ مثالً<br />
۔<br />
چراغ<br />
ہدایت ، ہدایت دی نے واال<br />
رہنمائی رہنما<br />
جومحفل ،معاشرہ<br />
یا تہذیب<br />
کو اپنی<br />
دانش اور حکمت سے<br />
چار چاند لگا دے<br />
‘‘<br />
خوبصورت محبوب ، جس پر ای ک زمانہ مرتاہو<br />
عادل حاکمِ وقت<br />
شمع روشنی <strong>کا</strong> ذریعہ ہے روشنی براہ راست بصارت<br />
سے تعلق رکھتی ہے۔روشنی جتنی بہتر، سازگار،شفاف اور<br />
ضرورت <strong>کے</strong> مطابق ہوگی بصارت کی <strong>کا</strong>رگزاری اتنی ہی<br />
بہتر اور واضح ہوگی۔ مشاہدے <strong>کا</strong> واضح اور شفاف ہونا<br />
ادراک <strong>کے</strong> ابہام دورکرنے <strong>کا</strong> سبب بنتاہے۔لفظ شمع اردو<br />
غزل میں بطور کردار، عالمت، استعارہ، مشبہ بہ بکثرت
یعن<br />
میر عبدالحی<br />
تاباں نے نرم دلی<br />
استعمال ہواہے ۔<br />
کو موضوع گفتگو بنای ا ہے<br />
محفل <strong>کے</strong> بیچ سن کر مرے سوز دلی <strong>کا</strong>حال<br />
بے اختیار شمع <strong>کے</strong> ا نسو ڈھلک پڑے<br />
تاباں<br />
گویا شمع وہ کردار ہے جوکسی دوسرے <strong>کا</strong> درد اپنے<br />
سینے میں محسوس کر<strong>کے</strong> دکھی ہوتاہے۔ بطور استعارہ<br />
ہمدرد اور نرم دلی شخص معنی لئے جاسکتے ہیں ۔<br />
حافظ عبدالوہاب سچل <strong>کے</strong> مطابق شمع وہ کردار ہے جس<br />
پر بال کہے ی اپ ہی سے اس <strong>کے</strong> چاہنے والے جان تک<br />
وار دیتے ہیں ۔ شمع <strong>کے</strong> ہاتھوں قتل ہوکر فخر اور خوشی<br />
محسوس کر تے ہیں۔ انہیں اپنی موت پر افسوس نہیں<br />
ہوتا۔ حسین پر قربان ہونے والے خوش تھے اور اسے<br />
اپنی سعادت سمجھتے تھے<br />
اس شمع پر پتنگے، ائے ہیں کی ا اچھل کر<br />
ترسیں گے وہ نہ ہرگز جن کو ملی مم یات
غالم مصطفے<br />
خاں<br />
سچل<br />
یکرنگ شمع <strong>کا</strong> تعلق کر بال سے<br />
جوڑتے ہ یں۔<br />
اندھیر ے جہاں میں کہ اب شامی وں <strong>کے</strong> ہاتھ<br />
ہے سربری دہ شمعِ شبستان ِ کربال<br />
ی کرنگ<br />
سودا نے بطور مشبہ بہ استعمال کر<strong>کے</strong> شمع <strong>کے</strong> ہررنگ<br />
میں جلنے کو واضح کی ا ہے<br />
نہیں معلوم اس سینے میں کیاجوں<br />
شمع جلتاہے<br />
دھواں نو ک زبان سے بات کرنے می ں نکلتاہے<br />
سودا<br />
<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> ہاں شمع بطور استعارہ استعمال ہوئی<br />
ہے<br />
کیا شمع <strong>کے</strong> نہیں ہی ں ہواخواہ اہلِ بزم<br />
ہو غم ہی جان گداز تو غمخوار کیا کر یں
شوق<br />
شوق ایک احساس اور جذبے <strong>کا</strong> نام ہے۔ اس <strong>کا</strong> کوئی t<br />
مادی وجود نہیں چونکہ اس <strong>کا</strong> تعلق انسان او راس کی<br />
<strong>کا</strong>رگزاری سے ہے اس لئے اس <strong>کا</strong> وجود انسانی معاشرت<br />
میں بڑا مستحکم ہے ۔ یہی نہیں اس <strong>کے</strong> حوالہ سے<br />
انسان میں تحریک پیدا ہوتی ہے اوروہ ، وہ کچھ کر<br />
جاتاجس <strong>کے</strong> متعلق سوچا بھی نہیں جاسکتا۔’’شوق‘‘<br />
قوموں کو اسمان کی بلندیوں سے ہمکنار کرتا۔ منفی<br />
شوق پتال میں بھی ٹکنے نہیں دیتا ۔ اس لئے شوق <strong>کے</strong><br />
کرداری حوالوں کوکسی بھی صور ت میں نظر انداز نہیں<br />
کیا جاسکتا۔ اردو غزل میں ’’شوق ‘‘بڑا توانا کردار ہے ۔<br />
: چند مثالی ں مالحظہ ہوں<br />
میر حیدر الدی ن ابو تراب <strong>کا</strong>مل<br />
شوق کو بے کلی، بے چینی اور ناگزیریت <strong>کا</strong> سبب قرار<br />
دیتے ہ یں۔<br />
خط ترے <strong>کا</strong> شوق اکھی اں <strong>کا</strong> لکھا<br />
ہرن کوں سبزے بنا چارا نہ یں
<strong>کا</strong>مل<br />
میر محمود صابر <strong>کا</strong> کہنا ہے کہ یہ انکھ کو تجس اور<br />
جستجو فراہم کرنے <strong>کا</strong> ذریعہ وسی لہ ہے<br />
زحیرت دیدہءحیراں نہ کھولوں غی ر <strong>کے</strong> مکھ پر<br />
چو ائےنہ بچشمِ شوق دیکھوں گر نگار اپنا<br />
صابر<br />
لعل بہا گوہر <strong>کے</strong> نزدیک<br />
’’شوق‘‘ شخص کوہمہ وقت<br />
مصروف رکھتاہے ۔<br />
مژدہ اے شوق ہم اغوش کہ جاگے ہیں نص یب<br />
لے <strong>کے</strong> انگڑا وہ کہتے ہیں کہ نیند ائی ہے<br />
گوہر<br />
عالمہ حالی <strong>کے</strong> خیال میں ’’شوق‘‘ کبھی ساتھ نہیں<br />
چھوڑتا بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوتاہے<br />
شوق بڑھتا گی ا جوں جوں <strong>کے</strong> اس شوخ سے ہم<br />
یہ سبق وہ ہے کہ بھولے سے سوا ی اد رہے
یاب<br />
یاب<br />
یچل<br />
ینئ<br />
حال ی<br />
تالش اور جستجو <strong>کا</strong> مادہ روز اول سے انسانی فطرت میں<br />
رکھ دیاگیا ہے ۔ پالینے اور کھوج ن<strong>کا</strong>لنے کی دھن اسے<br />
بڑے سے بڑے خطرے کی اگ میں جھونک دیتی ہے۔<br />
شوق منہ زور علتِ وقوع اور حرکت <strong>کا</strong>سبب ہے۔حواس<br />
مشاہدے میں اضافہ کرتے ہیں جبکہ مشاہدہ ، حواس کی<br />
خوبیداہ توانائیاں بےدار کرتاہے ۔<br />
یہ دونوں ترقی پذیر ہیں۔ نا<strong>کا</strong>می کی صور ت میں <strong>کا</strong>می<br />
<strong>کے</strong> لئے جبکہ <strong>کا</strong>می کی صورت میں مزید <strong>کا</strong>میابیوں<br />
<strong>کے</strong> لئے شوق شخص کو دوڑائے رکھتاہے۔ انسان کی<br />
جتنی عمر ہے ’’شوق‘‘کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے۔<br />
حرف ش <strong>کے</strong> ساتھ ’’ارتعاش‘‘ وابستہ ہے اس لئے انسانی<br />
سماج خوب سے خوب تراور ہر خوب کی اش<strong>کا</strong>ل اور<br />
نئے روپ <strong>کا</strong>متمنی رہتاہے۔اس طرح اس فیلڈ میں<br />
نکھار،جدت اور بہتری پیداہوتی جاتی ہے۔ دریافت کی<br />
رہیں وا ہوتی رہتی ہیں ۔<br />
<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> ہاں یہ لفظ نظر انداز نہیں ہوا۔ ان <strong>کے</strong> نزدیک<br />
شوق ر<strong>کا</strong>وٹیں دور کر دیتا ہے۔ بقول شاداں بلگرامی <strong>غالب</strong><br />
<strong>کے</strong> نزد یک
شوق نے بند نقاب حسن کھول دئیے ہیں اوردید کی راہ<br />
میں کوئی ر<strong>کا</strong>وٹ رہنے نہیں د ی<br />
گویا شوق بالواسطہ کھوجنے <strong>کا</strong> موجب بنتا ہے۔ انکشات<br />
<strong>کے</strong> درواز ے کھولتاہے<br />
واکر دیئے ہی ں شوق نے بند نقابِ حسن<br />
غیر از نگا ہ اب کوئی حائل نہی ں رہا<br />
صاحب<br />
عمومی بول چال <strong>کا</strong> لفظ ہے جوکسی شخص <strong>کے</strong> احترام یا<br />
پھر اپنے سے باال افسر <strong>کے</strong> لئے بوال جاتاہے۔ اردو<br />
شاعری میں یہ لفظ مختلف حوالوں سے مستعمل چال<br />
اتاہے۔ پیر مراد شاہ الہوری نے ’’جناب‘‘ <strong>کے</strong> معنوں میں<br />
استعمال ہے<br />
جو پونچھا تو بوال وہ خواجہ سرا<br />
کہ صاحب ی ہ کل ہے بڑامسخرہ<br />
روحل فقیر’’صاحب‘‘ سے ذات باری<br />
تعالی<br />
مراد لیتے ہ یں
تیراصاحب تجھ ہی مانہیں، تم تجو اور ا س<br />
سر دئے صاحب ملے ،اچرج اچنبا ہاس<br />
دیوان صورت سنگھ صورت نے متحرک <strong>کے</strong> ’’حامی گیر ‘‘<br />
<strong>کے</strong> لئے لفظ صاحب استعمال <strong>کے</strong>اہے<br />
اپ صاحب <strong>کا</strong>م <strong>کے</strong> لئے <strong>کا</strong>م کی <strong>کے</strong>سی خبر<br />
<strong>کا</strong>م سیں تھا<strong>کا</strong>م اب یارب کدھر جائوں ہم یں<br />
<strong>غالب</strong> نے<br />
ی ہ لفظ محبوب <strong>کے</strong> لئے بوالہے<br />
ائےنہ دی کھ اپنا سا منہ لے <strong>کے</strong> رہ گئے<br />
صاحب کو دلی نہ دی نے پہ کتنا غرور تھا<br />
صی اد<br />
صیادعمومی بول چال <strong>کا</strong>لفظ نہیں تاہم اردو غزل میں اس<br />
<strong>کا</strong> استعمال بکثرت پڑھنے کوملتاہے۔ شاعری <strong>کا</strong> ذوق<br />
رکھنے والوں <strong>کے</strong> ذہنوں میں صیاد <strong>کے</strong> حوالہ سے ظالم
یدل<br />
یعن<br />
اور بے رحم کردار ابھرتاہے۔ یہ کردار محبوب <strong>کے</strong> عالوہ<br />
عالمتی بھی استعمال ہوتا چالاتاہے۔ رائے ٹیک چند بہار<br />
<strong>کے</strong> نزدیک یہ ایسا بے رحم کردار ہے جو اپنے ش<strong>کا</strong>ر کی<br />
کیفی ت سے الپرواہ رہتاہے<br />
تڑپتا ہے پڑا نیم بسمل خاک وخوں میں دل ی<br />
عقوبت ہے جو کچھ اس صید پر ، صیاد کی ا جانے<br />
نواب امیر خاں عمدۃ الملک انجام <strong>کا</strong>کہنا ہے ایسا ش<strong>کا</strong>ری<br />
جو بھاگ جانے <strong>کا</strong> موقع ہی نہ دے ی چاک وجوبند<br />
ش<strong>کا</strong>ر ی<br />
ٹک تو فرصت دے کہ ہولیں رخصت اے صی اد ہم<br />
مدتوں اس باغ <strong>کے</strong> سائے میں تھے ا باد ہم<br />
بھگونت رائے راحت <strong>کے</strong> نزدیک جو ش<strong>کا</strong>ر صیاد کی گرفت<br />
سے نکل جاتاہے وہ دوبارہ قابو میں نہیں اتاگویا ایسا ال<br />
پرواہ ش<strong>کا</strong>ری جس کی گرفت سے ش<strong>کا</strong>ر نکل بھی جاتاہے۔<br />
کہ جودام سے مرغ ا زاد ہو<br />
کہاں پھر وہ تسخیر صی ادہو
یدل<br />
<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> ہاں اس کردار کی<br />
<strong>کا</strong>رفرمائی<br />
مالحظہ ہو ۔<br />
ہوں گرفتار ِ الفت ِ صی اد<br />
اور نہ باقی ہے طاقتِ پرواز<br />
صیاد بمعنی وہ جو اپنی محبت میں گرفتار کرلے ۔<br />
اغاز باقر، نظم طباطبائی اور بے خود موہانی <strong>کے</strong> حوالہ<br />
کہتے ہیں<br />
تعلقات ِ دنیا ، جو اسیر کر لیتے ہ یں<br />
ظالم<br />
اردو غزل میں بڑا عام استعمال ہونے واال لفظ ہے۔یہ لفظ<br />
و دماغ پر ناخوشگوار اثرات مرتب کرتاہے ۔ اس لفظ<br />
<strong>کے</strong> ہر نوعیت <strong>کے</strong> مفاہیم اعصابی تنائو اور نفرت <strong>کا</strong>باعث<br />
بنتے ہیں ۔ مثالً<br />
معاش <strong>کا</strong> قاتل<br />
جھوٹااورجھوٹ <strong>کا</strong> ساتھ دی نے واال
دھوکہ اور دغا سے <strong>کا</strong>م ن<strong>کا</strong>لنے واال<br />
ضرورت پڑنے پر ساتھ چھوڑ دی نے واال<br />
مفادات کو اپنی<br />
ذات تک محدود کرنے واال<br />
انسانی<br />
احساس کو مجروح کرنے واال<br />
وہ جو قتل وغارت <strong>کا</strong> بازار گرم کرتارہتاہو<br />
لوگوں کی<br />
رگوں می ں نشہ اتارنے واال<br />
غنڈہ گردی<br />
اور چھینا جھپٹی<br />
کرنے واال<br />
پرواہ نہ کرنے واال محبو ب<br />
معشوق<br />
بے انصاف<br />
غرض ایسے بہت سے افعال سے وابستہ افراد <strong>کے</strong> لئے<br />
لفظ ’’ظالم‘‘ بوالجاتاہے ۔
جعفر زٹلی<br />
نے خلقِ خدا پر افت توڑنے والے <strong>کے</strong> لئے لفظ<br />
ظالم نظم کی اہے<br />
گیا اخالص عالم سے عجب یہ دور ای اہے<br />
ڈرے سب خلق ظالم سے عجب یہ دور ا یا<br />
جعفر ز ٹل ی<br />
مرادشاہ مراد الہوری <strong>کے</strong> ہاں وفاداری <strong>کا</strong> ڈھونگ رچاکر<br />
باالخربے وفائی کرنے والے <strong>کے</strong> لئے یہ لفظ استعمال<br />
ہواہے<br />
وہ ظالم یہ طوفان کیا کر گئ ی<br />
وفاکرتے کرتے جفاکر گئ ی<br />
مراد شا ہ الہور ی<br />
شاہ مبارک ابرو نے جس کی<br />
محبت فراموش نہ ہوس<strong>کے</strong> ،<br />
<strong>کے</strong> لئے ی ہ لفظ باندھا ہے<br />
جدائی<br />
<strong>کے</strong> زمانے کی<br />
میاں کیا زیادتی<br />
کہ یے<br />
کہ اس ظالم کی<br />
جوہم پر گھڑی<br />
گزری سو جگ بی تا
ا برو<br />
دمحم احسن ہللا احسن نے ہمیشہ رالتارہنے والے <strong>کے</strong> لئے یہ<br />
لفظ نظم کی اہے<br />
تیرے تل سے مجھے نت می نہ <strong>کا</strong> سودا ہے اے ظالم<br />
عجب نہیں ہے اگر تو تی ل نکساوے مرے سرسوں<br />
احسن<br />
سودا نے جذبات مجروح کرنے والے، دلی چرانے<br />
اورزیادتی کرنے والے <strong>کے</strong> لئے یہ لفظ استعمال کی ا ہے<br />
تونے سودا <strong>کے</strong> تئیں قتل کیا ، کہتے ہ یں<br />
یہ اگر سچ ہے تو ظالم اسے کیاکہتے ہ یں<br />
سودا<br />
حافظ عبدالوہاب سچل نے گرفت کرنے والے <strong>کے</strong> لئے اس<br />
لفظ <strong>کا</strong> انتخاب کی اہے<br />
ایانظر میں اژدر مجھ کو وہ زلف پی چاں
رخ پہ لٹک رہی ہے ظالم ، یہ زلف <strong>کا</strong>ل ی t\<br />
سچل<br />
<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> ہاں اس لفظ <strong>کا</strong> استعمال ظاہر کررہاہے کہ اس کر<br />
دار سے خیر اور بھالئی کی توقع وابستہ نہیں کی<br />
جاسکتی۔ ایک جگہ ایسا محبوب جس کی وفا <strong>کا</strong> معاملہ<br />
تذبذب <strong>کا</strong> ش<strong>کا</strong>ر ہو،<strong>کے</strong> لئے استعمال کرتے ہ یں<br />
ظالم مرے گماں سے مجھے منفعل نہ چاہ<br />
ہے ہے خدانہ کردہ تجھے بے وفا کہوں<br />
<strong>غالب</strong> اس لفظ کو اس شخص پر بھی فٹ کرتے ہیں جس<br />
کی مہر بانی پر بھی اعتماد کرنا<br />
حماقت سے کم نہ ہو<br />
ہماری سادگی تھی التفاتِ ناز پ ر مرنا<br />
تراانا نہ تھا ظالم مگر تمہید جانے ک ی<br />
عشق<br />
عشق درحقیقت سچی<br />
لگن اور مقصد سے اٹوٹ کمنٹ
یات<br />
یات<br />
یگل<br />
منٹ <strong>کا</strong> نام ہے۔ بعض لوگ اس لفظ کو نفسی حوالوں<br />
تک محدود رکھتے ہیں جبکہ اس <strong>کے</strong> حدود <strong>کا</strong>تعین<br />
ایسااسان <strong>کا</strong>م نہیں ۔ سقراط ہوکہ حسین ، فرہاد ہوکہ ٹیپو ،<br />
ہر کسی نے اپنے مخصوص <strong>کا</strong>ز سے وفا کی ۔اگر ان <strong>کا</strong><br />
استقال ل لغزش <strong>کا</strong> ش<strong>کا</strong>ر ہوتا تو <strong>کا</strong>ز سے کمٹ منٹ خام<br />
ٹھہرتی۔ عشق انسانی سماج <strong>کا</strong> حصہ رہاہے۔ اسے مختلف<br />
زاویوں اور حوالوں سے دیکھا اور پرکھا جاتارہاہے۔<br />
اشخاص اور اقوام کو اس کر دار نے زندہ رکھا ہے۔ عشق<br />
انسان کونفسی طور پر یاس کی دلد ل سے ن<strong>کا</strong>ل کر ایثار<br />
اور قربانی کی دہلیز پر الکھڑا کرتاہے۔عشق کوئی دیکھی<br />
جانے والی شے نہیں لیکن بطور جذبہ انسانی لہو میں<br />
شامل ہوکر اپنے حصہ <strong>کا</strong> کردار ادا کرتاہے ۔<br />
یہ انسان کو تنہانہیں چھوڑتا اس کی تنہائی اباد رکھتاہے۔<br />
اردو غزل میں عشق <strong>کا</strong> کردار مختلف حوالوں سے واضح<br />
ہواہے۔ مثالً<br />
لطف علی<br />
لطفی<br />
<strong>کے</strong> نزدیک عشق زخمی<br />
کرتاہے<br />
میں عشق کی میں گھای ل پڑا تھا ، تس پر<br />
حوبن <strong>کا</strong> ماتا اکر مجھ کو کھنڈل کرگی اہے<br />
لطف ی
یول<br />
یمل<br />
شاہ ولی ہللا ول ی<br />
<strong>کے</strong> مطابق عشق جوش وخروش پیداکر<strong>کے</strong> دلی کی<br />
دھرکنوں کو تیز کر دی تاہے<br />
نہ پوچھو عشق میں جوش وخروش دل کی ماہ یت<br />
برنگ ِ ابر دری ابار ہے رومال عاشق <strong>کا</strong><br />
بھگونت رائے راحت <strong>کا</strong> کہنا ہے عشق سرمہ بنا دیتاہے۔<br />
فناکر دی تاہے<br />
کیا عشق نے توتی ا طور کو<br />
عشق سے دار منصور کو<br />
راحت<br />
<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> نزدیک عشق، افراطِ حُب <strong>کا</strong> نام جسے الحق<br />
ہوتاہے اسے نخیف ونزار کر دیتاہے جبکہ زندگی عشق<br />
<strong>کے</strong> بغیر ایک درد ہے۔ عشق زندگی میں لطف اور مز اپیدا<br />
کرتاہے ۔<br />
بقول شاداں بلگرام ی
یپن<br />
اس <strong>کے</strong> بغیر زندگی<br />
بے کیف ہوتی<br />
ہے لیکن<br />
یہ خود مرض<br />
العالج ہے<br />
اب عشق کی<br />
حقیقت <strong>غالب</strong> کی<br />
سنئے زبانی<br />
عشق سے طبعیت نے زیست <strong>کا</strong> مزا پا یا<br />
درد کی دوا پائی دردِبے دوا پا یا<br />
غافل<br />
یہ کردار انسانی معاشرت میں ہمیشہ سے رہاہے ۔ اس<br />
کر دار سے نہ صرف دوسروں کو نقصان پہنچتاہے بلکہ<br />
ےہ خود اپنے لئے بھی باعث ِ نقصان رہاہے۔ اس کی دو<br />
صورتیں رہی ہیں<br />
اس سے دانستہ معاملہ پوشی دہ رکھا گےاہو<br />
الف<br />
ا<br />
عدم دلچسپی<br />
<strong>کے</strong> باعث معاملہ جاننے کی کوشش ب۔<br />
ہی نہ کرتاہو
پہلی صورت میں اس کی غفلت شعاری گوارہ کی جا سکتی<br />
ہے جبکہ دوسری صورت کسی بھی حوالہ سے نظر انداز<br />
نہیں ک ی<br />
۔ جاسکتی<br />
اس کردار سے مل کر خوشی نہیں ہوتی بلکہ<br />
اعصابی تنائو بڑھ جاتاہے ۔<br />
اردو غزل میں<br />
یہ کردار مختلف حوالوں سے وارد ہواہے ۔<br />
خواجہ درد نے اس کردار <strong>کے</strong> دو پہلو واضح کئے ہ یں<br />
غافل اپنا معاملہ خوب<br />
یاد رکھتاہے ۔<br />
الف<br />
ب۔<br />
دوسروں کو، غافل اپنا معاملہ خوب یاد رکھتا ہے۔ ہاں<br />
تک کہ خدا کو بھی بھول جاتا ہے ۔<br />
گویاغافل اپنے معاملے <strong>کا</strong> پ<strong>کا</strong>ہوتاہے۔ اپنے مفادات کسی<br />
بھی صورت میں فراموش نہیں کرتا جبکہ دوسروں <strong>کے</strong><br />
معامالت بھول جاتاہے یا ان کی انجام دہی میں کوتاہی اور<br />
تساہل سے <strong>کا</strong>م لی تاہے<br />
غافل خداکی ےاد پہ مت بھول زی نہار<br />
اپنے تئی ں بھالدے اگر تو بھال س<strong>کے</strong>
یگئ<br />
درد<br />
شاکرناج ی<br />
<strong>کا</strong>کہنا ہے کہ ’’غافل‘‘ ایک ہی ڈگر پر چالجانے واال<br />
ہوتاہے۔ وہ وقت اور حاالت کی ضرورت نہیں دیکھتا ۔<br />
لمحے اسے اس کی غفلت شعاری <strong>کا</strong> احساس دال کر گزر<br />
جاتے ہیں لیکن وہ اپنی روش نہیں بدلتا۔ تبدیلی کی<br />
ضرورت ہی محسوس نہی ں کرتا<br />
بلند اواز سے گھڑی ال کہتاہے کہ اے غافل<br />
یہ بھی گھڑی تجھ عمرسے اور تو نہیں چی تا<br />
t<br />
ہے<br />
ناج ی<br />
قائم چاند پوری <strong>کے</strong> نزدیک غافل سوچ سمجھ کر قدم نہیں<br />
اٹھاتا۔ اس <strong>کا</strong> ہر فعل بے خبری کی چادر میں ملفوف<br />
ہوتاہے<br />
غافل قدم کو اپنے رکھےو سنبھال کری اں<br />
ہر سنگِ رہ گزر<strong>کا</strong> دو<strong>کا</strong>نِ شی شہ گرہے<br />
قائم
<strong>غالب</strong> نے غافل سے وہ کردار مراد لیا ہے جوغلط فہمی <strong>کا</strong><br />
ش<strong>کا</strong>ر ہویاجو معلومات ک ی<br />
کمی <strong>کے</strong> باعث معاملے کی اصل تک نہ پہنچ پائے۔ یہ بھی<br />
کہ جومعاملے کو سمجھنے <strong>کے</strong> لئے غلط یا غیر متعلق<br />
پیمانے اختیار کرتاہو۔ غافل کچھ کو کچھ سمجھنے واال کر<br />
دار ہے ۔ اس طرح یہ نتیجہ ن<strong>کا</strong>لنا پڑے گاکہ ایسا شخص<br />
جس کی کہی ہوئی بات پر یقین نہیں کی ا جاسکتا<br />
حاالنکہ ہے یہ سیل ِی خارا سے اللہ رنگ<br />
غافل کو میرے شی شے پر مے <strong>کا</strong> گمان ہے<br />
غمحوار<br />
دکھ دینے والوں <strong>کے</strong> ساتھ دکھ <strong>کا</strong> مداوا کرنے یاتشفی<br />
دینے والوں کی بھی کمی نہیں رہی ۔ ایسے افراد کو<br />
ہمیشہ عزت واحترام کی نگا ہ سے دیکھا جاتارہاہے۔ یہ<br />
لفظ ایک ہمدرد اور تعاون کرنے واال کردار سامنے التاہے ۔<br />
اس سے مالقات کرتے وقت اچھا لگتاہے ۔<br />
بسااوقات یہ کردار در پردہ یا پھراپنی کسی نادانی <strong>کے</strong> سبب<br />
معاملہ بگائو بھی دیتاہے اور اس سے دشمن سے زیادہ
نقصان پہنچ جاتاہے ۔ غمخوار <strong>کے</strong> حوالہ سے معاملے کی<br />
تشہیر بھی ہوجاتی ہے۔ غمخوار خودہی کی اڑ<br />
میں گھائل کر دیتاہے اور گھائل کو معلوم بھی نہیں ہوپاتا<br />
کہ اس <strong>کے</strong> ساتھ کیا ہوگیاہے ۔<br />
، غمخواری<br />
اردو غزل میں یہ کردار مختلف حوالوں سے پےنٹ<br />
ہواہے۔ اس سے ملتے وقت کسی قسم کی اجنبیت <strong>کا</strong>احساس<br />
نہیں ہوتا۔ غمخوار <strong>کا</strong> متبادل مترادف غمگسار بھی اردو<br />
غزل میں پڑھنے کوملتاہے۔ غمگسار <strong>کا</strong> کردار بھی ہمدرد<br />
اور مونس و شفیق <strong>کے</strong> طور پر نمودار ہوتاہے ۔<br />
صاحب رام فریاد غمگسار کو غم بانٹنے واال <strong>کے</strong> معنوں<br />
میں استعمال کرتے ہ یں<br />
غم جسے ہواہے ی اردل <strong>کا</strong><br />
کوئی نہی ں غمگسار دل <strong>کا</strong><br />
فری اد<br />
اخوند قاسم ساؤئی<br />
ہاالئی<br />
نےغم غلط کرنے والے کو<br />
غمگسار <strong>کا</strong> نام دی اہے<br />
مدام پل پل دو بھر بھر دالارے ساق ی
کہ ہے عجؤب مرای ارِ غمگسار قدح<br />
ہاالئ ی<br />
شیخ عثمان بے کسوں اور بے بسوں <strong>کے</strong> <strong>کا</strong>م انے والے<br />
کو غمخوار <strong>کے</strong> لقب سے نواز تے ہ یں<br />
اے تو کسِ بےکساں مونسِ بے چارگاں<br />
غمخوارِ اوارگاں اؤ پی ار سے حبؤب<br />
شی خ عثمان<br />
<strong>غالب</strong> نے’’ غمخوار ‘‘کو بڑے الگ سے معنی دے دشیخے<br />
ہشیخں ۔وہ جو دوست <strong>کا</strong> غم برداشت نہ کرس<strong>کے</strong> اور سارا<br />
معاملہ بازار میں لے ا ئے<br />
کیا غمخوار نے رسوا ، لگے ا گ اس محبت کو<br />
نہ الوے تاب جو غم کی، وہ مراراز داں کی وں ہو<br />
غیر<br />
لفظ غیر کو اہل لغت صفت قراردیتے ہیں تاہم یہ لفظ<br />
بطور سابقہ، مفرد لفظ سے مرکب ہوکر بطور کر دار بھی
یات<br />
استعمال ہوتاہے۔ لفظ اجنبیت کی فضا پیدا کرتاہے اور کسی<br />
غیر متعلق ، نامحرم اور ناواقف شخص <strong>کا</strong> تصور سامنے<br />
التاہے۔ نفسی سطح پر ’’غیر‘‘ معاملہ کی پوشیدگی پر<br />
راغب کرتاہے۔ اس <strong>کا</strong> تعلق محدود یا عدم تعاون سے<br />
وابستہ رہتاہے۔ اس لئے اس سے کوئی خاص گفتگو<br />
کرناممکن نہیں ہوتا۔ اردوغزل میں ’’غیر‘‘ بطور کردار<br />
مختلف حوالوں سے استعمال ہوتاایاہے جو انسیت اور<br />
الفت سے کوسوں دور نظر اتاہے۔ بعض اوقات رقیب،<br />
حاسد اور حریف <strong>کے</strong> طور پر سامنے اتاہے۔ عاشق ،کسی<br />
دوسرے عاشق کو ایک ہی محبوب <strong>کے</strong> لئے غیر خیال<br />
کرتاہے ۔<br />
شاہ قلی<br />
خاں شاہی<br />
نے دوسرے عاشق <strong>کے</strong> معنوں میں<br />
اس لفظ <strong>کا</strong> استعمال کی اہے<br />
ملنا تمہن <strong>کا</strong> غیر سے کوئی جھوٹ کوئی سچ مچ کہے<br />
کس کس <strong>کا</strong> منہ موندوں سجن کوئی کچھ کہے کوئی کچھ<br />
کہے<br />
شاہ ی<br />
میر محمود صابر <strong>کے</strong> ہاں بھی<br />
دوسرے عاشق <strong>کے</strong> معنوں<br />
می ں ہواہے
مجلس میں دےکھ غی ر <strong>کے</strong> گلروکوں صابر<br />
ہے چشم ودل میں ہر مژہ خارارسی <strong>کے</strong> تئ یں<br />
صابر<br />
‘‘<br />
اشر ف علی<br />
فغاں نامحرم <strong>کے</strong> لئے<br />
’’غیر <strong>کا</strong>لفظ استعمال<br />
میں التے ہ یں<br />
ملے ہے غیر سے، ہر گز اسے حجاب نہ یں<br />
کہوں تو کہہ نہیں سکتا ہوں تو تاب نہ یں<br />
فغاں<br />
چندا نے بھی<br />
رقیب <strong>کے</strong> معنوں میں نظم کی اہے<br />
گر چھوڑ بزم ِغیر کو اجائے ی اں تلک<br />
دکھالؤں تجھ کو ایساہی جس <strong>کا</strong>ہے نام رقص<br />
خواجہ درد غیر سے مراد حاسد لیتے ہ یں<br />
چندا
غیر بکتے ہیں عبث ،میرے پیارے ت یری<br />
بے وفائی نہیں محتاج بداموزی کی<br />
درد<br />
ہر عاشق دوسرے عاشق کو اپنے محبوب <strong>کے</strong> لئے ’’غیر<br />
‘‘ سمجھتا ہے اوریہ فطری سی بات ہے ۔<br />
یہ صورت دونوں عاشقوں کی طر ف سے ہوتی ہے۔ <strong>غالب</strong><br />
قدما سے مختلف نہیں ہیں ۔ ہاں خفیف سافرق اور کھلی<br />
شوخی اسے دوسروں سے ممتاز بنادیتی ہے۔ غیر، جو<br />
عاشق ہے محبوب <strong>کے</strong> لئے اہ وزاری کرتاہے اور اپنی اہ<br />
وزاری <strong>کے</strong> ثمر بار ہونے کی توقع بھی رکھتاہے۔ دوسرا<br />
عاشق جو خو دکو حقیقی اورکسی دوسرے کو جھوٹا<br />
سمجھتا ہے اس کی حالت زار دیکھ کر خوش ہوتاہے۔ یہ<br />
صورتحال خطرناک بھی سکتی ہے۔ اس کی اہ وزاری پر<br />
محبوب کو رحم بھی اسکتاہے۔ بہرحال <strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> نزدیک وہ<br />
غیر ہے۔ اس کی اہ وزاری کو دیکھ کرعاشق نمبر ایک <strong>کا</strong><br />
کلیجہ ٹھنڈا ہونا کہ وہ اذیت میں، فطری سی بات ہے<br />
دیکھ کر غیر کو ہو کیوں نہ کلی جا ٹھنڈا
یاب<br />
نالہ کرتا تھا ولے طالبِ تاثیر بھی<br />
تھا<br />
)<br />
غیر )دوسرے عاشق <strong>کے</strong> لئے کی زبان میں مٹھاس<br />
ہوتی ہےاوروہ اس مٹھاس <strong>کے</strong> حوالہ سے <strong>کا</strong>می <strong>کا</strong><br />
خواہاں ہوتاہے<br />
ہوگئی ہے غیر کی شیریں زبانی <strong>کا</strong>رگر<br />
عشق <strong>کا</strong> اس کو گماں ہم بے زبانوں پر نہ یں<br />
فرشتہ<br />
یہ لفظ منفی اورمثبت مفاہیم میں رائج چال اتاہے۔ تاہم زیادہ<br />
تر منفی مفہوم <strong>کے</strong> لئے کسی سابقے یاالحقے کی ضرورت<br />
پیش اتی ہے۔ اسے مخبر )نکرین( <strong>کے</strong> معنوں میں بھی<br />
لیا جاتاہے۔ منفی صورتوں کی موجودگی <strong>کے</strong> باوجود یہ<br />
لفظ مثبت معنوں میں لیا جاتاہے۔ یہ لفظ سنتے ہی ڈھارس<br />
سی بندھ جاتی ہے ۔ مشکل کشائی کی امید جاگ اٹھتی ہے ۔<br />
اردو شاعری<br />
میں بطور کردار فرشتہ مختلف حوالوں سے<br />
وارد ہواہے۔ مثالً
شیخ محبوب عالم عرف شیخ جیون نے اسے منفی معنوں<br />
میں استعمال کی اہے<br />
تکبر سے شیطان داتا گ یا<br />
فرشتے سے وہ دیوداتا گ یا<br />
چالبہشت کوں وہ بنا کر براں<br />
غضب <strong>کے</strong> فر شتے نہیں کھی نچے پراں<br />
شیخ جی ون<br />
بھگوانت رائے راحت نے روپ بھیس بدلی لینے واال <strong>کے</strong><br />
معنوں میں استعمال کی ا ہے<br />
کیا کس نے یہ جاودئی سامر ی<br />
فرشتہ ہوا کس طرح سے پر ی<br />
راحت<br />
رائے ٹیک چند بہار نے حسن وجمال سے متاثر ہونے والی<br />
مخلوق <strong>کے</strong> طور پر نظم کی اہے<br />
اس گل بدن <strong>کا</strong> جو دوانا ہوتو کی ا اچرج
فرشتے <strong>کا</strong> بھی یدل<br />
پری ایسی<br />
اوپر لبھاتاہے<br />
ب ہار<br />
عالمہ الطاف حسین حالی ادمی <strong>کے</strong> روپ گنواتے ہوئے<br />
فرشتے کو بطور پیمانہ استعمال کرتے ہیں کہ ادمی بعض<br />
اوقات اچھائی کی مورتی بن جاتاہے<br />
جانور، ادمی ، فرشتہ خدا<br />
ادمی کی ہیں سیکڑوں قسم یں<br />
حال ی<br />
<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> ہاں بڑا خوبصور ت اور اچھوتااستعمال ملتاہے۔<br />
وہ اسے بطور منشی اور گواہ <strong>کے</strong> نظم کرتے ہ یں<br />
پکڑے جاتے ہی ں فرشتوں <strong>کے</strong> لکھے پر ناحق<br />
ادمی کوئی ہمارا،دمِ تحریر بھی تھا؟<br />
قاتل
قتل بڑاخطرناک اور گھنائونا فعل ہے ۔ اس <strong>کے</strong> باوجو د<br />
انسانی معاشروں میں روزاول سے سیاسی ،معاشی<br />
معاشرتی اور انسانی قتل ہوتے ائے ہیں اور قاتل<br />
اسی معاشرے میں بال خوف وترودگھومتے پھرتے ہیں۔ ان<br />
پر کبھی گرفت نہیں ہوتی ۔<br />
،<br />
، اخالقی<br />
لفظ قاتل سنتے ہی بے رحم اور سنگدلی شخص کی تصویر<br />
، انکھوں <strong>کے</strong> سامنے گھومنے لگتی ہے۔ غصہ، نفرت ،<br />
خوف اور تحفظ ِذات <strong>کا</strong> احساس جاگ اٹھتاہے۔ تل تل قتل<br />
ہوتے اورقتل کرتے لوگوں کی تصویر انکھوں <strong>کے</strong><br />
سامنے اجاتی ہے۔اردو شاعری میں یہ لفظ زیادہ تر<br />
محبوب <strong>کے</strong> لئے استعمال ہوتا ایاہے ۔<br />
مرزا مظہر جان ِجاناں نے متاثرکرنے، دلی بہالنے<br />
اورسوچیں جامد کرنے والے کو قاتل <strong>کا</strong> نام دی اہے<br />
خدا <strong>کے</strong> واسطے اس کو نہ ٹھوکو<br />
یہی اک شہر می ں قاتل رہاہے<br />
جاناں<br />
مرزا دبیر<strong>کے</strong> نزدیک قاتل موڈ میں رہتاہے اور اس کی<br />
بدمزاجی ہمیشہ برقرار رہتی ہے
منہ بنائے کیوں ہے قاتل پاس ہے تی غ نگاہ<br />
باغ میں ہنستے ہیں گل تو منہ بگاڑاچاہ یے<br />
<strong>غالب</strong> اس کردار کو اس کی دیدہ دلیری اور اس کی اذیت<br />
پسندی <strong>کے</strong> حوالہ سے پیش کر تے ہیں ۔ قاتل بڑا بے<br />
خوف ہوتاہے۔ اگر اس پر خوف طاری ہوجائے تو وہ قتل<br />
ایساخوفناک فعل ہی کیوں انجام دے۔ مقتول <strong>کا</strong> تڑپنا، پھڑکنا<br />
اور لوٹنا اسے خوش اتاہے ۔ جان جانے <strong>کا</strong> منظر اسے<br />
تسکین دی تاہے<br />
ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر<br />
وہ خوں جو چشم ترسے عمر بھی ی وں دمبدم نکلے<br />
ہوائے سیر گل،ائینہ بےمہری قاتل<br />
کہ اندازِ بخوں غلطیدن بسمل پسند ا یا<br />
یہ بھی واضح کر تے ہیں کہ قاتل <strong>کا</strong> دبدبہ اور سطوت ،<br />
ستائے ہوئے لوگوں کی اہ وزاری کو روک نہیں سکت ی<br />
نہ ائی سطوت ِ قاتل بھی مانع می رے نالوں کو<br />
لیا دانتوں میں جوتن<strong>کا</strong> ہوا ریشہ نی ستاں <strong>کا</strong>
<strong>کا</strong>فر<br />
یہ لفظ قدیم سے اردو میں مختلف مفاہیم میں رائج<br />
چالاتاہے ۔ شاعری میں اس سے محبوب مراد لیاجاتارہا<br />
ہے تاہم اس شخص <strong>کے</strong> لئے زیادہ معروف ہے جو دین<br />
اسالم <strong>کا</strong>ان<strong>کا</strong>ری ہو۔ یہ لفظ سنتے ہی ایک ضدی قسم <strong>کے</strong><br />
شخص <strong>کا</strong> خاکہ ذہن <strong>کے</strong> کینوس پر ترکیب پانے لگتاہے ۔<br />
حافظ عبدالوہاب سچل نے اسالم کو نہ ماننے والے <strong>کے</strong><br />
لئے اس لفظ <strong>کا</strong> استعمال کی اہے<br />
کبھی<br />
کبھی<br />
مومن کبھی مسلم، کبھی<br />
مال، کبھی قاضی<br />
<strong>کا</strong>فر کہا ہے<br />
بامن بالی ا ہے<br />
سچل<br />
، کبھی<br />
فقیر ہللا نے تسلیم نہ کرنے واال ، نہ ماننے واال، ان<strong>کا</strong>ر<br />
کرنے والے <strong>کے</strong> لئے لفظ <strong>کا</strong>فر نظم کی اہے<br />
گورای سے بوجھ منزہ ذات
ناہو <strong>کا</strong>فر ناکم ذات<br />
فقی ر ہللا<br />
میر صادق علی صادق بے مثل حسینہ ، جوگرفت میں نہ<br />
اتی ہو <strong>کے</strong> لئے یہ لفظ استعمال کرتے ہ یں<br />
ادا میں وہ <strong>کا</strong>فر توافات تھ ی<br />
جو صورت کی پوچھو تو کیابات تھ ی<br />
صادق<br />
پیرمراد شاہ مرادالہوری <strong>کے</strong> ہاں کم بخت زخمی کرنے واال<br />
، زخم دینے واال، وہ جو مجروح کر دیتاہے کہ معنوں میں<br />
باندھا گی اہے<br />
کیا زخمی کس <strong>کا</strong>فر نے ا ہ<br />
یہ حالت تری کس نے یوں کی تباہ<br />
مراد شاہ<br />
میر سجاد نے ستم ڈھانے والے ، بےد اد ، بےحس <strong>کے</strong>
معنوں میں اس لفظ<br />
<strong>کا</strong> استعمال کیاہے ۔<br />
<strong>کا</strong> فر بتوں سے دادنہ چاہو کہ یاں کوئ ی<br />
مر جائے ستم سے ان <strong>کے</strong>، توکہتے ہی ں حق ہوا<br />
می ر سجاد<br />
میر سوز نے معاشرت <strong>کے</strong> اصولوں <strong>کے</strong> منکر، مبتالئے<br />
محبت ،کسی غیر ہللا کو دلی میں جگہ دینے والے <strong>کے</strong><br />
لئے اس لفظ <strong>کا</strong> انتخاب کی اہے<br />
اہل ایماں سوز کوکہتے ہیں <strong>کا</strong>فر ہوگ یا<br />
اہ یار ب رازِ دل ان پر بھی ظاہر ہوگ یا<br />
می ر سوز<br />
اب <strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> ہاں اس کردار کی<br />
<strong>کا</strong>رگزاری<br />
مالحظہ ہو<br />
لے تو لوں سوتے می ں اس <strong>کے</strong> پائوں <strong>کا</strong> بوسہ مگر<br />
ایسی باتوں سے وہ <strong>کا</strong>فربدگماں ہوجائے گا<br />
تسلیم نہ کرنے واال،ضدی<br />
، ہٹ پر قائم
تنگ ِی دل <strong>کا</strong> گلہ کیا ی ہ وہ <strong>کا</strong>فردل ہے<br />
کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پری شاں ہوتا<br />
گدا<br />
لفظ گدا سماعت پر منفی اثرات مرتب کرتاہے ۔<br />
ناگواری ،حقارت اور نفرت سی پےداہوجاتی ہے۔ بالشبہ<br />
حاجات انسان <strong>کے</strong> ساتھ لگی ہوئی ہیں۔ خود داری <strong>کے</strong><br />
عوض حاجت کی براوری اچھی نہیں لگتی ۔ اردو شاعری<br />
میں اس <strong>کا</strong> مختلف مفاہیم میں استعمال پڑھنے کو ملتاہے۔<br />
اس <strong>کا</strong> مترادف بھ<strong>کا</strong>ری بھی استعمال ہوتا ایا ہے ۔<br />
شیخ بہاؤ الدین باجن ہللا سے حاجات کی براوری <strong>کے</strong><br />
خواستگار <strong>کے</strong> معنوں میں استعمال کرتے ہ یں<br />
جو کچھ قسمت میں ہے وہی ہے گا<br />
گدا کوں تب وہی برا تا رہے گا<br />
باجن<br />
غالم مصطفی خان یکرنگ متاثر ہونے واال ،گرفت میں<br />
اجانے وال ،حسن <strong>کا</strong> طالب ، حسن <strong>کے</strong> حصول کی حاجت
رکھنے وال ، مفتوح <strong>کے</strong> معنوں میں نظم کرتے ہ یں<br />
زبانِ شکوہ سے مہندی <strong>کا</strong> ہر پات<br />
مسخر حسن <strong>کے</strong> شاہ و گدا<br />
ی کرنگ<br />
دمحم عظیم الدین عظیم <strong>کے</strong> ہاں نہایت ڈھیٹ اور ضدی قسم<br />
<strong>کے</strong> عاشق <strong>کے</strong> لئے یہ لفظ استعمال میں ای اہے<br />
باہللا کہ اس <strong>کے</strong> در <strong>کا</strong> گدا ہورہوں گا م یں<br />
پایا ہوں مالِ حسن سے جس <strong>کے</strong> زات ا ج<br />
عظ یم<br />
صوفی ابراہیم شاہ فقیر نے معشوق <strong>کے</strong> دیدار کی حاجت<br />
رکھنے والے <strong>کے</strong> لئے گدا <strong>کا</strong> لفظ استعمال کی اہے<br />
گداہوں وہ پیا در <strong>کے</strong>، خزا ں ساماں سکندر <strong>کے</strong><br />
بجز دیدار دلبر <strong>کے</strong>، عمر جاندی<br />
ہے افرادی<br />
فق یر<br />
چند <strong>کے</strong> نزدیک نظرالتفات سے محروم رہنے واالگدا ہے۔
یا پھر وہ جو بے توجہگی<br />
<strong>کا</strong> ش<strong>کا</strong>ر رہتاہے<br />
گدا <strong>کے</strong> حا ل پر تونے نظر گاہے نہ کی ظالم<br />
کیا یہ فرض ہم نے، سرترے شاہی <strong>کا</strong>افسر تھا<br />
چندا<br />
<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> نزدیک گدا سے مراد حاجت مند لیکن دست سوال<br />
دراز کرنے کی خُو نہ رکھتا ہو<br />
بے طلب دیں تومزا اس می ں سواملتاہے<br />
وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال ،اچھا ہے<br />
مانگ کر لیا توکیا لیا ۔<br />
حاتم حاجت مند کی خوداری ذبح کر<strong>کے</strong> کچھ دے تو اس<br />
دینے <strong>کا</strong> فائدہ کیا اور اس لینے میں مزاکی ا ؟<br />
مہمان<br />
مہمان انسانی معاشروں میں ہمیشہ سے الئق احترام<br />
رہاہے اور اس کی امد پر خوشی <strong>کا</strong> اظہار کیا جاتاہے۔ جشن
یست<br />
منایا جاتاہے۔ اسے مناسب پروٹوکول دیاجاتاہے۔ مہمان<br />
مرضی <strong>کا</strong> ہوتو خوشی ہے کہنہ <strong>کا</strong>د رجہ اختیار کرلیتی ہے۔<br />
لفظ مہمان ، میزبانی کی تیاری پر اکساتاہے ۔ انسانی<br />
معاشرت ’’مہمان‘‘ <strong>کے</strong> احترام کی قائل رہی ہے۔ اردو<br />
شاعری میں مہمان <strong>کا</strong> کردار بڑامحترم اور نمایاں نظر<br />
اتاہے ۔<br />
اج بھی ، جب اپنی پوری نہیں پڑتی ،مہمان کی امدناگواری<br />
<strong>کا</strong> سبب نہیں بنتی ۔ مہمان <strong>کا</strong> پڑائو قطعی عارضی اور<br />
مختصر ہوتاہے ۔<br />
غالم مصطفی خاں یکرنگ مختصر اور عارضی پڑاؤ<br />
رکھنے والے کومہمان <strong>کا</strong> نام دیتے ہ یں<br />
کھانے چال ہے زخمِ ستم شامی وں <strong>کے</strong> ہاتھ<br />
وو ہاتھ زندگی مہمانِ کربال<br />
ی کر نگ<br />
چونکہ مہمان جہاں ڈیرے ڈالتا ہے وہ اس <strong>کا</strong> اپنا گھر نہیں<br />
ہوتا۔ الکھ ائو بھگت کی جائے اس <strong>کے</strong> اندر اجنبیت <strong>کا</strong><br />
احساس موجود رہتاہے۔ قربان علی سالک کی زبانی سنئیے
یاب<br />
تم اگئے تو ہو ش کہاں می زباں ہو کون<br />
اج اپ اپنے گھر میں ہی ں کچھ مہماں سے ہم<br />
<strong>غالب</strong> مہمان کی امد کو باعث مسرت قرار دیتے ہیں۔ اپنے<br />
اس شعر میں مہمان نوازی <strong>کا</strong> لوازمہ درج کرتے ہ یں<br />
مدت ہوئی ہے یا رکو مہاں کئے ہوئے<br />
جو شِ قدح سے بزم چراغاں کئے ہوئے<br />
ناصح<br />
انسان کی بھالئی، بہتری اور خیر کی اشاعت <strong>کے</strong> لئے نبی<br />
پغمبر ، پیر فقیر، مصلحین وناصحین وغیرہ اپنی اپنی حدود<br />
میں کوشش کرتے چلے ائے ہیں ۔ <strong>کا</strong>می اور نا<strong>کا</strong>می<br />
دونوں سے ان <strong>کا</strong> سامنا رہاہے۔ نا<strong>کا</strong>می میں بھی وہ چپ<strong>کے</strong><br />
نہیں رہتے بلکہ مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ عاشقی ایسا<br />
روگ ہے جوکسی دوا یا دعا سے دورنہیں ہوتا۔ دالئل<br />
عاشق <strong>کے</strong> لئے بکواسِ محض سے زیادہ حیثیت نہیں<br />
رکھتے۔ ناصح <strong>کا</strong> احترام اپنی جگہ لیکن اس <strong>کے</strong> کہے کو<br />
ایک <strong>کا</strong>ن سنتے اوردوسرے سے ن<strong>کا</strong>ل دیتے ہیں اور<br />
پرنالہ‘‘ اپنی مرضی کی جگہ پر رہنے دیتے ہیں ۔ ناصح کی<br />
،<br />
’’
تلخ گوئی یاسختی کی صورت میں اپنی ذات سے الجھ<br />
جاتے ہیں ۔ لفظ ناصح ، ایسے کردار کوسامنے التاہے<br />
جوہر وقت نصیحتوں <strong>کا</strong> تھیال بغل میں دبائے پھرتارہتاہے ۔<br />
انسان سیمابی فطرت لے کر زمین پراترا ہے۔ وہ ایک ہی<br />
قسم <strong>کے</strong> حاالت اور ماحول میں سکھی نہیں رہ سکتا۔ ہر<br />
لمحہ تبدیلیوں <strong>کا</strong> خواہشمند رہتاہے۔ یہ کہنادرست نہیں کہ<br />
وہ ناصح سے تعلق استوار نہیں کرنا چاہتا ۔<br />
دراصل ناصح <strong>کا</strong> ایک سارویہ اور ایک سے انداز سے<br />
خوش نہیں اتے۔ ناصح <strong>کا</strong> کہا اسی وجہ سے اس پر مثبت<br />
اثرات نہیں چھوڑتا اور وہ اس سے کنی کتراتاہے۔ یاپھر<br />
بڑے باریک انداز میں اسے برابھال بھی کہتاہے۔ لفظ<br />
ناصح سنتے ہی ایک ایسا شخص سامنے اجاتاہے جس<br />
<strong>کے</strong> ’’کھیسے‘‘ میں پہلے سے کئی بار کہی ہوئی باتوں<br />
<strong>کے</strong> سوا کچھ نہیں ہوتا۔ یہی نہیں اس کی مخصوص وضع<br />
قطع چال ڈھال اور اسلوب تکلم ذہن <strong>کے</strong> گوشوں میں گھوم<br />
گھوم جاتاہے ۔<br />
اردوغزل میں یہ کردار پوری حشرسامانیوں <strong>کے</strong> ساتھ<br />
جلوہ گرہے۔ اردو غزل <strong>کے</strong> شعرا نے اس کردار کو نہایت<br />
خوفناک بنا دیاہے۔ اس کردار <strong>کے</strong> تمام منفی پہلو بےان<br />
کردیتے ہیں ۔ خواجہ درد تو باقاعدہ ناصح کو مخاطب
)<br />
کر<strong>کے</strong> کہتے ہیں کہ میں تہی دامن )دین وایمان کھو چ<strong>کا</strong><br />
ہوں ہوں، اس لئے تمہاری نصیحتوں <strong>کا</strong> حاصل جز<br />
نا<strong>کا</strong>می <strong>کے</strong> کچھ نہیں ہوگا ۔<br />
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تمہاری نصیحتوں <strong>کے</strong> ردعمل<br />
میں دین ودلی سے محروم ہوگیاہوں۔ خواجہ درد <strong>کے</strong> کہے<br />
سے دو باتیں صاف ہوجاتی ہیں<br />
ناصح دلی<br />
ودین سے تہی<br />
لوگوں کو بھی نصیحت کی<br />
سان پر رکھتاہے<br />
ناصح <strong>کے</strong> کہے <strong>کا</strong> الٹا اثر ہوتاہے<br />
ناصح!<br />
میں دین ودلی <strong>کے</strong> تئی ں اب تو کھو چ<strong>کا</strong><br />
حاصل نصی حتوں سے جوہونا تھا، ہوچ<strong>کا</strong><br />
درد<br />
میر دمحم یار خاکسار <strong>کا</strong> کہناہے ناصح تو بے <strong>کا</strong>ر میں<br />
سمجھانے <strong>کا</strong> <strong>کا</strong>م کرتاہے جبکہ جس راہ پر میں گامزن<br />
ہوں اس میں میرے لئے راحت <strong>کا</strong> سامان موجو دہے ۔<br />
راحت کو تیاگ کرناصح <strong>کا</strong> کہا کون اور کی وں مانے؟<br />
کیاہے ناصح تجھے حاصل مرے سمجھانے م یں
‘‘ یعن<br />
اہ جوں شمع ہے راحت مجھے مرجانے م یں<br />
خاکسار<br />
واال جاشیدا <strong>کے</strong> نزدیک ناصح ان لوگوں کو بھی نصیحتیں<br />
کرتاہے جو اپنے اپے میں ہی نہیں ہوتے ۔ ایسے لوگوں<br />
کو نصیحتیں کرنے <strong>کا</strong> کیا فائدہ ۔ نصیحتیں کرنے والے<br />
کوعقل مند کون کہے گا<br />
بے فائدہ ناصح تری کب مست سنی ں گے<br />
بے ہوش ہیں ، اواز پہ اپنی نہی ں سنتے<br />
شی دا<br />
شیخ امین احمد اظہر <strong>کا</strong> دعوی ہے کہ ناصح نصیحتیں تو<br />
کرتاہے اگر اس ’’ائینہ رو‘‘ کو دیکھ لے خود ہی کو بھول<br />
جائے گا۔ گویا وہ نصیحتیں اس <strong>کے</strong> متعلق کررہاہے،<br />
جسے وہ جانتا ہی نہیں ۔ کسی معاملے چیزسے متعلق<br />
مکمل اگہی <strong>کے</strong> بغیرکچھ کہنا سننا، واجب نہیں ۔ اگہی <strong>کے</strong><br />
بغیر ہر ’’کہاگیا الی اور بےمعنی ہوتاہے<br />
شکل اس ائینہ رو کی دیکھی ناصح نے اگر<br />
محو حیرت بن <strong>کے</strong> وہ ائی نہ ساں ہوجائے گا
اظہر<br />
<strong>غالب</strong> کہتے ہیں کہ جب معاملہ حد بڑ ھ سے جائے تو<br />
ناصح <strong>کا</strong> احترام اپنی جگہ لیکن اس کی تکلیف فرمائی<br />
قطعی بے نتیجہ رہتی ہے۔ دوسرا ملوث شخص معاملے<br />
<strong>کے</strong> نتائج سے اگہی رکھتے ہوئے بھی ملوث چال اتاہے ۔<br />
ایسے میں ناصح <strong>کا</strong> کہا سنا اس پر کی ا اثر کرے گا<br />
کوئی<br />
حضرت ناصح گرا ئیں دی دہ ودل فرش راہ<br />
مجھ کو یہ توسمجھا دوکہ سمجھائیں توگے ک یا<br />
ناصح اگر سختی پراتراتا ہے توناصح پرزور نہ چلنے کی<br />
صورت میں پند لینے واال اپنی ذات نو سے الجھ جائے گا۔<br />
گویا ناصح کی <strong>کا</strong>روائی، معاملے <strong>کے</strong> حل میں مدد دینے<br />
کی بجائے معاملے کو مزید الجھا کر رکھ دے گ ی<br />
نہ لڑنا ناصح سے <strong>غالب</strong>، کیا ہوا اگراس نے شد ت ک ی<br />
ہمار ابھی تواخر زور چلتاہے گری باں پر<br />
نامہ بر
یکت<br />
تحریری<br />
پیغامات دوسروں تک پہنچانے کی حاجت انسان<br />
کو رہتی ہے۔ اس کی دو صورتیں ہ<br />
: یں<br />
وہ بات جو خود نہ کہی جا س ہو اس <strong>کے</strong> کہے جانے<br />
<strong>کے</strong> لئے کسی دوسرے <strong>کا</strong> سہارا لی نا پڑتا ہے<br />
دور دراز <strong>کے</strong> عالقوں میں پیغام پہنچانے <strong>کے</strong> لئے<br />
تیسرے شخص کی خدمات حاصل کی جائ یں<br />
اردو غزل میں اس فریضے کو انجام دینے والے کو نامہ<br />
بر کہا گیاہے۔ لفظ نامہ بر سنتے ہی کسی اچھی یا بری خبر<br />
<strong>کے</strong> لئے ذہنی طور پر تیار ہونا پڑتا ہے۔ وزیر نے پیغام<br />
النے والے کو نامہ بر <strong>کا</strong> نام دی اہے<br />
خط پہ خط الئے جومرغ نامہ بر<br />
بوئے ان مرغوں <strong>کا</strong> ڈربا کھل گ یا<br />
وز یر<br />
<strong>غالب</strong> نے نامہ بر کو مختلف زوایوں سے مالحظہ کیاہے
یک<br />
ا رہوں غربت میں خوش جب ہو حوادث <strong>کا</strong>ی ہ حال<br />
نامہ بر ال تا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھال<br />
وہ جو پیغام ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جائے<br />
لیکن پیغام کوپڑھ کر بددیانتی <strong>کا</strong> ارت<strong>کا</strong>ب کرے<br />
ہولئے کی و ں نامہ بر <strong>کے</strong> ساتھ ساتھ<br />
یارب اپنے خط کو ہم پہنچائیں ک یا<br />
پیغام لے کر جانے والے پرراز داری<br />
<strong>کا</strong> بھروسہ نہ یں<br />
وعظ<br />
انسانی سماج <strong>کا</strong> بڑا مضبوط اوراہم کردار رہاہے ۔ لوگوں<br />
کو نےکی پر لگانے اور بدی سے ہٹانے <strong>کے</strong> لئے اپنی سی<br />
کوشش کرتارہاہے ۔ ایسی بھی باتیں کرتارہاہے جن <strong>کا</strong><br />
عملی زندگی میں کوئی حوالہ موجو د نہیں رہاہوتا۔<br />
فردا<strong>کے</strong> حسین سپنے دکھاتاایاہے ۔ لفظ واعظ ایک ایسے<br />
شخص <strong>کا</strong> تصور سامنے التاہے جوخوف وہراس پھیالنے<br />
کی کوشش کرتا رہتا ہے اور اسے نیکی کی اشاعت <strong>کا</strong>نام
یدہ<br />
دیتا ہے۔ وہ اپنی پسند کی نیکی پھیالنے کی ٹھانے ہوتاہے<br />
۔ دھواں دھار تقریریں کرتاہے ۔ ایسی باتیں بھی کہہ<br />
جاتاہے جن پر وہ خود عمل نہیں کر رہاہوتا یا ان پر انجام<br />
<strong>کے</strong> حوالہ سے معذور ہوتاہے ۔<br />
یہ لفظ خشک ، سٹریل ، بدمزاج اورضدی قسم <strong>کا</strong> شخص<br />
سامنے ال کھڑا کرتاہے۔ اس کردار سے ملنے <strong>کا</strong> شوق<br />
پیدانہیں ہوتا بلکہ اس کی بےعمل، خشک اور خالئی<br />
گفتگو سے بچ کر نکلنے کی سوجھتی ہے۔ اس کردار سے<br />
متعلق اردو شاعری میں بہت سے زاویے اور حوالے<br />
موجودہیں ۔ مثالً<br />
ہمیں واعظ ڈراتا کی وں ہے دوزخ <strong>کے</strong> عذابوں سے<br />
معاصی گوہمارے بی ش ہوں کچھ مغفرت کم ہے<br />
بہار<br />
ڈر ،خوف اور ہرا س پھی النے واال<br />
جب اصل مذاہب کو واعظ سیتی ہم پوچھا<br />
تب ہم سے کہنے لگا قصہ وح<strong>کا</strong>یات یں
میر دمحم حسن کل یم<br />
غلط سلط اور غیر متعلق باتیں کرنے واال ۔ دوسرے<br />
لفظوں میں علم و دانش سے پیدل۔ الٹے سیدھے قصے<br />
سنا کر لوگوں کومخمصے میں ڈالنے واال اور پنے<br />
بہترین نالج <strong>کا</strong>سکہ بٹھانے کی کو شش کرنے واال<br />
واعظو، ا تشِ دوزخ سے جہاں کو تم نے<br />
یہ ڈرایا کہ خود بن گئے ڈر کی صور ت<br />
الطاف حسین حال ی<br />
لوگوں میں اخرت <strong>کے</strong> عذاب <strong>کے</strong> حوالہ سے اس قدر<br />
خوف ہراس پیدا کرنے واال کہ لوگ اس سے ملنے سے<br />
بھی خوف کھانے لگ یں۔<br />
ویسے تومیری راہوں میں پڑتے تھے می کدے<br />
واعظ تری نگاہوں سے ڈرنا پڑا مجھے<br />
ا شا پربھات<br />
<strong>غالب</strong> <strong>کا</strong> اپنا ڈھنگ ہے۔<br />
واعظ <strong>کے</strong> کہے پر حیران نہیں<br />
ہوتے بلکہ بڑا عام لیتے ہ یں
کوئی دنیا میں مگر باغ نہی ں ہے واعظ<br />
خلد بھی باغ ہے خیر اب وہوا اورسہ ی<br />
ی ار<br />
یار بڑا عام سا لفظ ہے اور ہمارے ہاں بہت سے معنوں<br />
میں استعمال ہوتاہے مثال ً گہرا دوست ،لنگوٹیا،<br />
مددگار،تعاون کرنے واال، بُرے وقت میں <strong>کا</strong>م انے واال ،<br />
دوستوں <strong>کا</strong> دوست ، نبھا کرنے واال ، بازاری معنوں میں<br />
کسی عورت <strong>کا</strong> عاشق وغیرہ ۔ یہ لفظ تسکین <strong>کا</strong> سبب بنتا<br />
ہے۔ ہمت بندھ جاتی ہے اور امداد ملنے <strong>کا</strong> احساس جاگ<br />
اٹھتا ہے۔ اعصابی تنائو کم ہو جاتا ہے ۔<br />
<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> ہاں<br />
یار، ہمددر <strong>کے</strong> معنوں میں استعمال ہواہے<br />
\مند گئیں کھولتے ہی کھولتے انکھی ں <strong>غالب</strong><br />
یا ر الئے مری بالی ں پہ اسے ، پر کس وقت<br />
ہمددر اور جگر ی<br />
دوست جو<br />
یار کو خوش رکھنے کو
بگڑے ،ناراض ، ضدی<br />
اوراڑیل کو بھی<br />
مناکر دوست <strong>کے</strong><br />
در پر لے ا ئیں۔<br />
موالناعبدی<br />
نے حضور <strong>کے</strong> لئے<br />
یار <strong>کا</strong> لفظ استعمال کیاہے<br />
ہللا موال پاک ہے جو جگ سر جن ہار<br />
جن دیا ی ارصد ق سوں سوے اترے پار<br />
موالنا عبد ی<br />
قزلباش خاں امید نے گھر <strong>کے</strong> محبوب ترین فرد <strong>کے</strong> لئے<br />
اس لفظ <strong>کا</strong> انتخاب کی ا ہے<br />
یار بن گھر می ں عجب صحبت ہے<br />
درودی وار سے اب صحبت ہے<br />
ام ید<br />
شاہ مبارک ابرو نے محبوب <strong>کے</strong> لئے استعمال کیا ہے جو<br />
پیار، محبت اور شوق کو فراموش کر دیتاہے۔ اس طرح<br />
انہوں نے محبوب پیشہ لوگوں <strong>کا</strong> وتیرا اورعمومی رویہ<br />
اورچلن کھول کر رکھ دی ا ہے
افسوس ہے کی مجھ کو وہ ی اربھول جائے<br />
وہ شوق وہ محبت وہ پی ار بھول جائے<br />
شاہ مبارک ا برو<br />
عبدالحی<br />
تاباں <strong>کے</strong> نزدیک جس <strong>کے</strong> بنا دلی بےچین<br />
وبےکل رہے<br />
بہت چاہا کہ اوے یار یا اس دل کو صبر ا وے<br />
نہ یار ایا نہ صبر ایا دیا جی می ں نداں اپنا<br />
تاباں<br />
میر علی<br />
اوسط رشک <strong>کے</strong> نزدیک ایسا دوست جس کی<br />
محبت ، چاؤ اور گرمجوشی سے تہی ہو<br />
یار کو ہم سے لگای نہ یں<br />
وہ محبت نہیں وہ چاؤنہ یں<br />
رشک
قدیم اردو شاعری<br />
میں<br />
یہ لفظ زیادہ تر محبوب معشوق <strong>کے</strong><br />
لئے استعمال ہواہے ۔<br />
لوگ<br />
لو گ ،عام استعمال <strong>کا</strong>لفظ ہے ۔<br />
فردواحد <strong>کے</strong> لئے نہیں بوال جاتا۔ اس لفظ <strong>کے</strong> ساتھ کوئی<br />
کردار مخصوص نہیں۔ کوئی ساکر دار اس لفظ <strong>کے</strong> ساتھ<br />
منسلک ہوسکتاہے۔ اس لفظ <strong>کے</strong> حوالہ سے سر زد ہونے<br />
والے افعال سابقوں اور الحقوں سے وابسطہ ہوتے ہیں۔<br />
<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> ہاں اس کر دار کی <strong>کا</strong>ر فرمائی مالحظہ ہو<br />
اگلے وقتوں <strong>کے</strong> ہیں یہ لوگ انہی ں کچھ نہ کہو<br />
جومے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہ یں<br />
سید ھے سادھے، بھولے، بےووقوف جن <strong>کا</strong>نالج درست<br />
نہ یں<br />
لفظ لوگ پہلے ہی<br />
جمع <strong>کے</strong> لئے استعمال ہوتاہے۔<strong>غالب</strong> اس<br />
کی جمع بھی استعمال میں الئے ہ یں
لوگوں کو ہے خورشی دِ جہاں تاب <strong>کا</strong> دھوکہ<br />
ہر روز دکھاتاہوں می ں اک داغ نہاں اور<br />
ناظرین جوغلط فہمی یا دھو<strong>کے</strong> میں ہوں۔ کسی <strong>کا</strong>م یا<br />
تماشے <strong>کے</strong> لئے ناظر ین کلیدی حیثیت <strong>کے</strong> حامل ہوتے<br />
ہیں۔ ورنہ <strong>کا</strong>رکردگی <strong>کے</strong> متعلق منفی یا مثبت رائے کون<br />
دے گا ۔<br />
شیخ جنید اخر کو واپس پھرنے واال، اس لفظ <strong>کا</strong> کردار<br />
متعین کرتے ہ یں<br />
نہ کس مونس بوددےگر نہ بھائی باپ مہتار ی<br />
تراگھر گوربسیار ند پھر کر لوگ گھر ا و<br />
شیخ جن ید<br />
می ر صاحب <strong>کے</strong> ہاں بطور جمع استعمال ہواہے<br />
اگے جواب سے ان لوگوں <strong>کے</strong> بارے معافی اپنی ہوئ ی<br />
ہم بھی فقیر ہوئے تھے لیکن ہم نے ترکِ سوال ک یا<br />
میر
’’<br />
<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> ہاں اہل‘‘ <strong>کے</strong> سابقے کی بڑھوتی سے کچھ<br />
جمع کردار تشکیل پائے ہیں۔ان <strong>کرداروں</strong> <strong>کے</strong> حوالہ سے<br />
کچھ نہ کچھ ضرور وقوع میں اتاہے ۔ نمونہ <strong>کے</strong> تین کردار<br />
مالحظہ ہوں ۔<br />
اہل بی نش<br />
دانشور حضرات <strong>کا</strong> زوایہء نظر دوسروں سے ہمیشہ<br />
مختلف رہاہے اور یہ طبقہ معاشروں <strong>کے</strong> وجود <strong>کے</strong> لئے<br />
دلیل وحجت رہاہے۔ <strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> ہاں اس طبقے <strong>کا</strong> کردار بڑی<br />
عمدگی سے واضح کیا گیاہے۔ یہ طبقہ حوادث سے سبق<br />
سیکھتا ہے اور ان حوادث <strong>کے</strong> حوالہ سے تنگ حاالت میں<br />
بھی راہیں تالش تا رہتاہے<br />
اہل بی نش کو ہے طوفان حوادث مکتب<br />
لطمہءموج کم ازسیلی استاد نہ یں<br />
اہل تمنا<br />
قسم کی بھی کسی<br />
تمنا کرنے رکھنے واال طبقہ ، ہمیشہ
سے انسانی معاشروں میں موجود رہاہے۔ <strong>غالب</strong> نے اس<br />
طبقے <strong>کے</strong> کردار کو کمال عمدگی سے پینٹ کیاہے۔ محبوب<br />
<strong>کا</strong> جلوہ جو اہل تمنا کو فنا کردے۔ یہ اہل تمنا کی انتہائی<br />
درجے کی عیاشی می ں شمار ہوتاہے<br />
عشرتِ قتل گہِ اہل تمنامت پوچھ<br />
عید نظارہ ہے شمشیر <strong>کا</strong> عری اں ہونا<br />
اہل ہمت<br />
اہل ہمت <strong>کا</strong> ہونا کسی معاشرے <strong>کے</strong> ہونے کی گرانٹی<br />
ہے۔<strong>غالب</strong> بڑے پائے کی بات کہہ رہے ہیں ۔<br />
<strong>کا</strong>ئنات کی ان گنت چیزیں ازاد ہیں اور انسانی تصرف میں<br />
نہیں ہیں ۔ اگر اہل ہمت موجو د ہوتے تو یہ ازادنہ ہوتیں<br />
۔انسان انہیں کھا پی گیا ہوتا۔ اہل ہمت <strong>کے</strong> ظرف <strong>کا</strong><br />
بھالکون اندازاہ کر سکتا ہے۔ مثال یہ دیتے ہیں مے خانے<br />
میں شراب باقی ہے تویہ اس امر کی دلیل ہے کہ اہل ہمت<br />
موجود نہیں ہیں۔ شعر دی کھئے<br />
رہا ا بادعالم اہل ہمت <strong>کے</strong> نہ ہونے سے<br />
بھر ے ہیں جس قدر جام و سیو مےخانہ خالی ہے
اہل ‘‘ سے ترکیب پانے والے الفاظ کردار اپنی ذات میں<br />
حد درجہ جامعیت رکھتے ہیں ۔انسانی فکر کو حرکت<br />
اوربالیدگی سے سرفراز کرتے ہیں ۔<br />
<strong>غالب</strong> نے کچھ مرکب الفاظ سے کردار تخلیق کئے ہیں ۔<br />
مثالً پری وش ، پری پیکر ، بہشت شمائل وغیرہ ۔ یہ کردار<br />
محبوب سے متعلق ہیں۔ یہ محبوب کی شوخی، نازو نخرا،<br />
حسن وجمال ادائوں وغیرہ کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہ کردار<br />
<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> ذوق ِجمال <strong>کا</strong> بڑاعمدہ نمونہ ہ یں۔<br />
مثالً<br />
نہ سمجھوں اس کی باتیں گو نہ پائوں اس <strong>کا</strong> بھ ید<br />
پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پی کر کھال<br />
ضمائر<br />
میں ، مجھ ، مجھے ، میرا ، میری ، میرے ایسی ضمائر<br />
ہیں جو شخص کی اپنی ذات سے متعلق ہوتی ہیں ۔ یہ بھی<br />
کہنے والے <strong>کے</strong> ماضی الضمیر سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں ۔<br />
ان کی نقل وحرکت اور <strong>کا</strong>رگزاری انسانی نفسیات پر اثر
انداز ہوتی ہے ۔<br />
جب کوئی شخص اپنی کہنے لگتاہے توان ضمائر <strong>کا</strong><br />
استعمال کرتاہے۔ اس ضمن میں دوتین مثالیں بطو رنمونہ<br />
مالحظہ ہوں<br />
میں نے رو<strong>کا</strong> رات <strong>غالب</strong> کو وگرنہ دی کھتے<br />
اُس <strong>کے</strong> سیلِ گریہ می ں گردوں کف سےالب تھا<br />
میں <strong>کا</strong> کردار بڑا توانا ہے اس <strong>کے</strong> حوالہ سے خطرناک<br />
صورتحال <strong>کا</strong> خطرہ ٹل جاتا ہے<br />
نہ سمجھوں اس کی باتیں گونہ پاؤں اس <strong>کا</strong> بھ ید<br />
پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پی کر کھال<br />
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شبِ غم بُری بال ہے<br />
مجھے کیا براتھا مرنا اگر ای ک بار ہوتا<br />
تو، تجھ ،تم ، تیرا، تیرے اس ، اپ ، وہ وغیرہ <strong>کے</strong> حوالے<br />
سے افعال کی وقوع پذیری سامنے التے ہیں ۔<br />
مثالً<br />
تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم جب اٹھی ں گے<br />
لے ائی ں گے بازار سے جاکر دل وجاں اور
ارہا وہ<br />
مرے ہمسایہ می ں تو سائے سے<br />
ہوئے فدا درودیوار پر دردی وار<br />
حواش ی<br />
سورہ البقر<br />
دیوان جہاں دار، مرتب ڈاکٹر وحید قر یشی<br />
دیوان مہ لقا بائی چندا، مرتب شفقت رضو ی<br />
دیوان حالی، خواجہ الطاف حسین حال ی<br />
ید وان درد، مرتب خلیل الرحمن داود ی<br />
کلیات ولی ، نور الحسن ہاشم ی<br />
کلیات میر ج ا، مرتب کلب علی خانفائق<br />
کلی ات قائم،مرتب اقتدار حسن<br />
کلی ات مرزا دمحم رفی ع سودا<br />
تذکرہ مخزن ن<strong>کا</strong>ت، قائم چاند پور ی<br />
تذکرہ حیدری، مولف حیدر بخش حیدری ، مرتبہ ڈاکٹر<br />
عبادت بریلو ی<br />
تذکرہ خو ش معرکہ زی با ج ا، سعادت ناصر خاں<br />
تذکرہ بہار ستان ناز ، کلیم فصیح الد ین
یدل<br />
ینب<br />
پنجاب میں اردو، حافظ محمود شیران ی<br />
<strong>کا</strong> دبستان شاعری، نور الحسن ہاشم ی<br />
اردوئے قدیم، ڈاکٹر دمحم باقر<br />
سندھ میں ارد وشاعری ، مولف ڈاکٹر بخش خاں بلوچ<br />
شاہ عالم ثانی افتاب احوال و ادبی خدمات، ڈاکٹر دمحم خاور<br />
جم یل<br />
روح المطالب فی شرح دیوان ِ<strong>غالب</strong>، شاداں بلگرام ی<br />
بیان <strong>غالب</strong>، ا غا باقر<br />
نوائے سروش، غالم رسول مہر<br />
نفسیات،حمیراہاشم ی