16.04.2015 Views

غالب کے کرداروں کا تفہیمی ونفسیاتی مطالعہ

ہر کردار کا اپنا ذاتی طور طریقہ ، سلیقہ ،چلن اور سبھائو ہوتاہے ۔ وہ ان ہی کے حوالہ سے کوئی کام سرانجام دیتاہے یا اس سے کچھ وقوع میں آتا ہے۔ جس طرح کوئی قصہ کہانی ، واقعہ یا معاملہ بلا کردار وجود میں نہیں آتا اس طرح غزل کا ہر شعر کسی کردار کا مرہونِ احسان ہوتاہے ۔ ضروری نہیں کردار کوئی شخص ہی ہو۔ جذبہ، احساس ، اصطلاح ، استعارہ ، علامت یا اس کے سوا کوئی اور چیز غزل کا کردار ہوسکتی ہے ۔ کچھ وقوع میں آنے سے پہلے کردار کا اس میں،اس معاملہ کی حیثیت ،نوعیت اور اہمیت مادی مفادات اوراخلاقی میلانات و رجحانات کے مطابق ایک نفسیاتی رویہ ترکیب پاتاہے ۔ اس رویے کی پختگی اور توانائی (فورس) کے نتیجہ میں کچھ رونما ہوتاہے ۔ گویا وہ وقوعہ اس کے نفسیاتی عمل یا رد عمل کا عملی اظہار ہوتاہے۔

ہر کردار کا اپنا ذاتی طور طریقہ ، سلیقہ ،چلن اور سبھائو ہوتاہے ۔ وہ ان ہی کے حوالہ سے کوئی کام سرانجام دیتاہے یا اس سے کچھ وقوع میں آتا ہے۔ جس طرح کوئی قصہ کہانی ، واقعہ یا معاملہ بلا کردار وجود میں نہیں آتا اس طرح غزل کا ہر شعر کسی کردار کا مرہونِ احسان ہوتاہے ۔ ضروری نہیں کردار کوئی شخص ہی ہو۔ جذبہ، احساس ، اصطلاح ، استعارہ ، علامت یا اس کے سوا کوئی اور چیز غزل کا کردار ہوسکتی ہے ۔ کچھ وقوع میں آنے سے پہلے کردار کا اس میں،اس معاملہ کی حیثیت ،نوعیت اور اہمیت مادی مفادات اوراخلاقی میلانات و رجحانات کے مطابق ایک نفسیاتی رویہ ترکیب پاتاہے ۔ اس رویے کی پختگی اور توانائی (فورس) کے نتیجہ میں کچھ رونما ہوتاہے ۔ گویا وہ وقوعہ اس کے نفسیاتی عمل یا رد عمل کا عملی اظہار ہوتاہے۔

SHOW MORE
SHOW LESS
  • No tags were found...

You also want an ePaper? Increase the reach of your titles

YUMPU automatically turns print PDFs into web optimized ePapers that Google loves.

یات<br />

<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> <strong>کرداروں</strong><br />

<strong>کا</strong><br />

<strong>تفہیمی</strong> ونفسی<br />

<strong>مطالعہ</strong><br />

مقصود حسن ی<br />

شیر ربانی <strong>کا</strong>لونی<br />

پاکستان<br />

قصور


یات<br />

یات<br />

ہر کردار <strong>کا</strong> اپنا ذاتی طور طریقہ ، سلیقہ ‏،چلن اور سبھائو<br />

ہوتاہے ۔ وہ ان ہی <strong>کے</strong> حوالہ سے کوئی <strong>کا</strong>م سرانجام<br />

دیتاہے یا اس سے کچھ وقوع میں اتا ہے۔ جس طرح کوئی<br />

قصہ کہانی یا معاملہ بال کردار وجود میں نہیں اتا<br />

اس طرح غزل <strong>کا</strong> ہر شعر کسی کردار <strong>کا</strong> مرہونِ‏ احسان<br />

ہوتاہے ۔ ضروری نہیں کردار کوئی شخص ہی ہو۔ جذبہ،‏<br />

احساس ، اصطالح ، استعارہ ، عالمت یا اس <strong>کے</strong> سوا کوئی<br />

اور چیز غزل <strong>کا</strong> کردار ہوسکتی ہے ۔ کچھ وقوع میں انے<br />

سے پہلے کردار <strong>کا</strong> اس میں،اس معاملہ کی حیثیت ‏،نوعیت<br />

اور اہمیت مادی مفادات اوراخالقی میالنات و رجحانات <strong>کے</strong><br />

مطابق ایک نفسی رویہ ترکیب پاتاہے ۔ اس رویے کی<br />

پختگی اور توانائی ‏)فورس(‏ <strong>کے</strong> نتیجہ میں کچھ رونما<br />

ہوتاہے ۔ گویا وہ وقوعہ اس <strong>کے</strong> نفسی عمل یا رد عمل<br />

<strong>کا</strong> عملی اظہار ہوتاہے ۔<br />

، واقعہ<br />

غزل ، اردو شعر کی مقبول ترین صنف شعر رہی ہے ۔ اردو<br />

غزل نے ان گنت کردار تخلیق کئے ہیں۔ ان <strong>کرداروں</strong> <strong>کے</strong><br />

حوالہ سے بہت سے واقعات اور فکری عجوبے سامنے<br />

ائے ہیں ۔ ان فکری عجوبوں <strong>کے</strong> اکثر شیڈز ، زندگی <strong>کے</strong><br />

نہایت حساس گوشوں سے پیوست ہوتے ہیں ۔ انہیں<br />

کہیں نہ کہیں کسی ا<strong>کا</strong>ئی میں تالشا جاسکتاہے۔ یہ بھی کہ<br />

ان شیڈز اور زاویوں <strong>کے</strong> تحت اس عہد کی جزوی یا کلی<br />

نفسیات <strong>کا</strong> کھوج کرنامشکل نہیں رہتا۔ بات یہاں تک محدود


یان<br />

نہیں،‏ ان شیڈز اور زاویوں کی تاثیر حال پر اثر انداز ہوکر<br />

مختلف نوع <strong>کے</strong> رویوں کی خالق بنتی ہے۔ پہلے سے<br />

موجود رویوں میں تغیرات <strong>کا</strong> سبب ٹھہرتی ہے ۔<br />

رویوں کی پیمائش <strong>کا</strong> <strong>کا</strong>م ٣٠- ‎٣٩٢٠‎<strong>کے</strong> درمی عرصہ<br />

میں شروع ہوا۔ رویے تین طرح <strong>کے</strong> ہوسکتے ہ یں<br />

الف۔ وہ رویے جنھیں عرصہ دراز تک استحقام رہتا ہے<br />

تاوقتکہ کوئی بہت بڑاحادثہ وقوع میں نہیں اجاتا یاکوئی<br />

ہنگامی صورتحال پیدانہیں ہوجاتی ۔<br />

وہ رویے جوحاالت ، وقت اور ضرورتوں <strong>کے</strong> تحت ب<br />

تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔<br />

وہ رویے جو جلد اور فوراً‏ تبدیل ہوجاتے ہیں انہیں ج۔<br />

سیمابی رویے بھی کہا جاسکتاہے ۔<br />

کسی قوم <strong>کے</strong> اجتماعی رویے کی پیمائش ناممکن نہیں تو<br />

مشکل <strong>کا</strong>م ضرورہے کیونکہ قومیں التعداد ا<strong>کا</strong>ئیوں <strong>کا</strong><br />

مجموعہ ہوتی ہیں۔ ہر ا<strong>کا</strong>ئی تک اپروچ کٹھن گزار <strong>کا</strong>م ہے ۔<br />

سطحی جائزے دریافت <strong>کے</strong> عمل میں حقیقی کردار ادا نہیں<br />

کرتے۔ اس موڑ پر ا<strong>کا</strong>ئیوں <strong>کے</strong> لڑیچر <strong>کے</strong> <strong>کرداروں</strong><br />

<strong>کا</strong><strong>مطالعہ</strong> کسی حدتک سودمند رہتاہے ۔اس <strong>کے</strong> توسط سے


<strong>کرداروں</strong> <strong>کے</strong> <strong>کا</strong>م ، طرز عمل ، مزاج ، چلن ، سلوک خاطر<br />

، سلیقہ ، باہمی سبھائو ، اُوروں سے تعلق ، طور،‏ انداز<br />

وغیرہ <strong>کے</strong> حوالہ سے اس ا<strong>کا</strong>ئی <strong>کا</strong> کردار متعین کیا جا<br />

سکتا ہے۔ اسی حوالہ سے انہیں اچھے یا برے نام دئیے<br />

جاتے ہیں ۔ شیطان <strong>کا</strong> اصل نام عزازئیل ہے۔ اس کی<br />

<strong>کا</strong>رگزاری،‏ سبھائو ، چلن وغیرہ <strong>کے</strong> تحت شیطان یا<br />

رکھشش کہاجاتاہے ۔<br />

موثرکردار وہی کہالتا ہے جو ویسا ہی کرے جیسا وہ کرتا<br />

ہے یا جیسا کرنے کی توقع وابستہ ہوتی ہے ۔ تاہم دریا<br />

میں بہتے تختے پر شیر خوار بچے کی ماں کی اور شداد<br />

کی ارم میں داخل ہوتے سمے جان قبض کرنے پر<br />

عزرائیل کو رحم اسکتا ہے ۔ کردار ویساہی کرتاہے جیسا<br />

وہ بن گیا ہوتا ہے یا جیسا اس نے خود کو بنایا ہوتا ہے ۔<br />

غزل <strong>کے</strong> ہر شعر کو ایک فن پارے <strong>کا</strong> درجہ حاصل ہوتاہے<br />

۔ اس کی تشریح وتفہیم اس <strong>کے</strong> اپنے حوالہ سے کرنا ہوتی<br />

ہے ۔ اس شعر <strong>کا</strong> کردار <strong>کا</strong>رگزاری ‏)پرفورمنس <strong>کے</strong> حوالہ<br />

سے جتنا جاندار،‏ حقیقی ، متحرک اور سیمابی خصائل <strong>کا</strong><br />

حامل ہوگا،‏ شعر بھی اتنا اور اسی تناسب سے متاثر کرے<br />

گا۔ شعر <strong>کے</strong> اچھا بُرا ہونے <strong>کا</strong> انحصار شعر سے جڑے<br />

کردار پر ہے ۔<br />

)


یات<br />

یگئ<br />

اگلے صفحات میں <strong>غالب</strong> کی اردو غزل <strong>کے</strong> چند <strong>کرداروں</strong><br />

<strong>کا</strong>نفسی <strong>مطالعہ</strong> پیش کرنے کی جسارت کی ہے۔ اس<br />

سے اشعار <strong>غالب</strong> کو سمجھنے اور تشریح وتعبیر میں مدد<br />

مل س<strong>کے</strong> گی اور <strong>مطالعہ</strong> اشعار ‏ِ<strong>غالب</strong> <strong>کا</strong> حظ بڑھ جائے گا ۔<br />

ادم ی<br />

لفظ ادمی سننے <strong>کے</strong> بعد ذہن میں یہ تصور ابھرتا ہے کہ<br />

نسل ادم میں سے کسی کی بات ہورہی تاہم اس لفظ <strong>کے</strong><br />

حوالہ سے کسی قسم <strong>کا</strong> رویہ سامنے نہیں اتا۔ ادمی<br />

چونکہ خیر وشر <strong>کا</strong> مجموعہ ہے اس سے دونوں طرح<br />

<strong>کے</strong> افعال کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ کسی اچھے فعل <strong>کے</strong><br />

سرزد ہونے کی صورت میں ادم کو فرشتوں <strong>کے</strong> سجدہ<br />

کرنے واال واقعہ یا د اجاتاہے۔ اور اس طر ح ادمی کی<br />

عظمت <strong>کا</strong> تسلسل برقرار رہتاہے کسی برائی کی صورت میں<br />

شیطان سے بہ<strong>کا</strong>ئے جاننے واال <strong>کے</strong> طور پر سامنے<br />

اتاہے۔ گویا کسی فعل <strong>کے</strong> سرزد ہونے <strong>کے</strong> بعد ہی اس <strong>کے</strong><br />

متعلق منفی یا مثبت رویہ ترکیب پاتاہے ۔<br />

اردو غزل مےں مختلف حوالوں سے اس لفظ <strong>کا</strong> استعمال<br />

ہوتا ایا ہے۔ منفی اور مثبت دونوں طرح <strong>کے</strong> معامالت اور


یعن ال ِ<br />

واقعات اس سے منسوب رہے ہیں ۔ کہیں عظمتوں اور<br />

رفعتوں <strong>کا</strong> مینار اور کہیں حیوان ، درندہ ، وحشی<br />

رکھشش اور شیطان سے بھی بد تر نظر اتا ہے۔ اردوغزل<br />

میں اس کی شخصیت <strong>کے</strong> دونوں پہلونظر اتے ہیں ۔<br />

خواجہ درد نے ادمی کی شخصیت <strong>کے</strong> دوپہلو نمایاں کئے<br />

: ہیں<br />

،<br />

ہم نے کہا بہت اسے پرنہ ہوایہ ادم ی<br />

زاہدِ‏ خشک بھی کوئی سخت ہی خردماغ ہے<br />

ادمی زُہد اختیار کرنے <strong>کے</strong> بعد حددرجے <strong>کا</strong> ضدی<br />

ہوجاتاہے۔ادمی،‏ ادمی نہیں رہتا بلکہ فرشتوں کی صف<br />

میں کھڑا ہونے کی سعی ی کرتاہے۔ بشریت <strong>کا</strong> تقاضا<br />

ہے کہ ادمی سے کوتاہی ہو ، کوئی غلطی کرے تاکہ<br />

دوسرے ادمی کو اس سے اجنبیت <strong>کا</strong> احساس نہ ہو۔ زاہد<br />

سے مالقات <strong>کے</strong> بعد خوف سا طاری ہوجاتا ہے کہ مالقاتی<br />

<strong>کے</strong> لباس اور طرز تکلم کو کس زوایہ سے لے ۔ نتیجہ <strong>کا</strong>ر<br />

مسئلے <strong>کے</strong> حل کی بجائے کوئی لےکچر نہ سننا پڑے یا<br />

مسئلہ مسترد ہی نہ ہوجائے ۔ ادمی <strong>کا</strong> یہ روپ خوف اور<br />

ضدی پنے کو سامنے التاہے ۔<br />

گھر تودونوں پاس لےکن مالقاتی ں کہاں<br />

امدورفت ادمی کی ہے پہ وہ باتی ں کہاں


خواجہ درد<strong>کا</strong><br />

یہ شعر ادمی سے متعلق چار چیزوں کی<br />

وضاحت کررہاہے<br />

مل بیٹھنے کو جگہ موجود ہونے <strong>کے</strong> باوجود ادمی،‏ ادمی<br />

1 سے دورہے<br />

اس <strong>کا</strong> اناجانا تو رہتاہے لیکن دکھ سکھ کی سانجھ ختم<br />

2 ہوگئی ہے<br />

ادمی،‏ ادمی<br />

<strong>کے</strong> قریب تو نظر اتاہے لیکن منافقت،‏<br />

محبتیں چٹ کرگئی<br />

۔<br />

3 ہے<br />

‘‘<br />

ایک دوسرے <strong>کے</strong> <strong>کا</strong>م انے <strong>کا</strong> جذبہ دم توڑ گی اہے<br />

خواجہ درد <strong>کے</strong> ہاں ‏’’ادمی <strong>کے</strong> جوخصائص بیان ہوئے<br />

ہیں ان <strong>کے</strong> حوالہ سے ادمی <strong>کے</strong> متعلق مثبت رویہ نہیں<br />

بنتا ۔ ادمی معاشرتی حیوان ہے تنہا زندگی کرنا اس <strong>کے</strong><br />

لئے ممکن نہیں ۔ تنہائی سو طرح <strong>کے</strong> عوارض <strong>کا</strong> سبب<br />

بنتی ہے ۔<br />

نے ادمی <strong>غالب</strong><br />

کو تین حوالوں سے موضع <strong>کا</strong>لم بنای ا ہے


‘‘<br />

ہیں اج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند<br />

گستاخی ِ فرشتہ ہماری جناب م یں<br />

ادمی گزرے کل میں معزز اورمحترم تھا۔ عزازئیل نے<br />

‏’’ادمی کی شان میں گستاخی کی ۔ اسے اس <strong>کے</strong> اس<br />

جرم کی پاداش میں قیامت تک <strong>کے</strong> لئے لعنتی قرار دے دیا<br />

گیا اور درگاہ سے ن<strong>کا</strong>ل باہر کیاگیا ۔ اج وہی ‏’’ادمی‘‘‏ ذلت<br />

کی پستیوں میں دھکیل دیا گیاہے۔ اس طرح سے ادمی<br />

<strong>کے</strong> لئے دوہرا معیار سامنے اتاہے ۔<br />

پکڑے جاتے ہی ں فرشتوں <strong>کے</strong> لکھے پر ناحق<br />

دمی‘‘‏ کوئی ہمارا دم تحریر بھی<br />

‏!ا تھا؟’’‏<br />

شعر کو چار زوایوں سے<br />

دی کھا جاسکتاہے<br />

کل تک سجدہ کرنے والے ‏)فرشتے(‏ غیر ادمی،‏ ادمی الف ۔<br />

<strong>کے</strong> قول وفعل کو نوٹ کرنے <strong>کے</strong> لئے مقرر کر دئیے گئے<br />

ہیں<br />

ب۔کسی معاملے میں ‏’’ادمی‘‘<strong>کے</strong> حق میں یاخالف شہادت<br />

دینے <strong>کا</strong> حق ‏’’ادمی‘‘ہی رکھتا ہے۔ کسی غیر ادمی‘‏ کی<br />

شہادت ‏،’’ادمی‘‘‏ <strong>کے</strong> لئے کیونکر معتبر یا اصول شہادت<br />

<strong>کے</strong> مطابق قرار دی جا سکتی ہے


یغ<br />

یک<br />

یرہ<br />

یات<br />

’’ ج۔<br />

ر ادمی‘‘کی حیثیت کیسی بھی<br />

لکھے پر مواخذہ یکطرفہ ڈگری<br />

ہو،‏ کہے یا<br />

<strong>کے</strong> مترادف ہوگ ی<br />

ا بعید کہ وہ روزِ‏ اول <strong>کا</strong> بدلہ لینے پر اتر ا ئے<br />

د۔<br />

شہادت <strong>کے</strong> حوالہ سے ‏’’ادمی‘‘کی حیثیت معتبر رہتی ہے۔<br />

اس شعر میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ملتاہے کہ<br />

ادمی کی خلوت بھی ، خلوت نہیں رہی ۔ اس کی خلوت<br />

‏)پرائےویسی(‏ پر بھی پہرے بیٹھا دئیے گئے ہیں ۔ اس کی<br />

ازادی محض رسمی اور دکھاوے کی ہے۔ وہ کھل<br />

کرخواہش اور استعداد <strong>کے</strong> مطابق اچھائی یا برائی کرنے<br />

پرقادر نہیں کیونکہ اس سے کمتر مخلوق اس پر کیمرے<br />

فٹ کئے ہوئے ہے۔ نگرانی ، صحت مند کو بھی نفسی<br />

مریض بنا دیتی ہے۔ ازادی سلب ہونے <strong>کا</strong> احساس<br />

اورمواخذے <strong>کا</strong>خوف ، ادھورے پن <strong>کا</strong>ش<strong>کا</strong>ر رکھے گا۔ <strong>غالب</strong><br />

نے ‏’’ادمی‘‘کی زمین پر حیثیت <strong>کا</strong>یہ حوالہ پیش کر<strong>کے</strong> ادمی<br />

<strong>کے</strong> معتبر اور خود مختار ہونے <strong>کے</strong> فلسفے کو رد کر<br />

دیاہے۔ قیدی پابند <strong>کے</strong> قول وفعل پر انگشت رکھنا کسی<br />

طرح واجب نہیں ۔ا گر پہر ے اٹھا لئے جائیں تو ہی<br />

‏’’ادمی‘‘<strong>کے</strong> قول وفعل کی وسعتوں <strong>کا</strong> اندازہ لگایا<br />

جاسکتاہے۔ بصور ت دیگر ثواب وگناہ <strong>کے</strong> پیمانے اپنی<br />

حدود پر شر مندہ رہیں گے ۔


۔‎٠‎<br />

۔‎٠‎<br />

۔ا‎٤‎<br />

ایک تیسرے شعر میں <strong>غالب</strong> نے ‏’’ادمی‘‘<strong>کے</strong> معتبر ہونے<br />

‏:<strong>کا</strong> پیمانہ بھی پیش کی ا ہے<br />

بسکہ دشوار ہے ہر<strong>کا</strong>م <strong>کا</strong> ا ساں ہونا<br />

ادمی کو بھی میسر نہی ں انساں ہونا<br />

انسان ، نسیان یا انس سے مشتق ہے۔ یہ دونوں ماد ے<br />

اس میں موجود ہوتے ہیں گویا انسان <strong>کا</strong> شریف النفس<br />

ہونا،‏ مرتبہء کمال انسانیت پر فائز ہوناہے اور اسی حوالہ<br />

سے وہ انسان کہالنے <strong>کا</strong> مستحق ٹھہرتا ہے ۔ اس شعر <strong>کے</strong><br />

حوالہ سے انسان اور ادمی میں فرق ہے۔ گو<br />

: یا<br />

ادمی سے انسان تک <strong>کا</strong> سفر بڑا مشکل اور دشوار گزار<br />

ہے<br />

۔‎٩‎ سزا وجزا <strong>کے</strong> لئے ادمی<br />

<strong>کے</strong> لئے ادمی کی شہادت امر<br />

الزم <strong>کا</strong> درجہ رکھتی ہے<br />

گواہی<br />

قبول کی کی ، اس ادمی<br />

جائے جوادمی<br />

<strong>کے</strong> درجے<br />

پر فائز ہو<br />

دمی<br />

<strong>کے</strong> لئے غیر ادمی<br />

کی شہادت ، اصولِ‏ شہادت <strong>کے</strong>


۔‎٦‎<br />

۔غی‎٥‎<br />

منافی<br />

ہے بصورت دیگر شہادتی<br />

‏)گواہ(‏<br />

پر انگلی<br />

اٹھے گ ی<br />

ر معتبر<br />

گواہی کی ‏)غیر ادمی(‏<br />

فسخ ہوجائے گ ی<br />

گواہی کی غرر ادمی<br />

پر فرصلہ<br />

‏)معاذہللا(‏ منصف <strong>کے</strong><br />

انصاف پ ر دھبہ ہوگا<br />

ا سمان<br />

یہ لفظ <strong>کا</strong>ئنات کی تخلیق کی طرح بہت پرانا ہے یہ لفظ<br />

سنتے ہی پانچ طرح کی خیاالت ذہن <strong>کے</strong> پردوں پر تھرانے<br />

: لگتے ہ یں<br />

اَن حدوسعت یں اول ۔<br />

ہل<strong>کے</strong> نیلے رنگ کی چھت دوم ۔<br />

یح رت انگی ز توازن <strong>کا</strong>مظہر سوم ۔


یال<br />

چہارم ۔ بادل<br />

کہاجاتاہے،‏ اسمان پر موجود ستاروں کی گردش <strong>کے</strong> پنجم ۔<br />

باعث خوشی یا پریشانی الحق ہوتی ہے۔ سماوی افتیں بھی<br />

اہل زمین <strong>کا</strong> مقدر رہی ہے<br />

اسمان کی وسعتوں میں جانے کتنے سورج ، چاند اور<br />

ستارے سمائے ہوئے ہیں ۔ سورج نہ صرف دن التاہے<br />

بلکہ دھرتی باسیوں کو حدت بھی فراہم کرتاہے۔ چاند<br />

ستارے حسن اور ترتیب <strong>کا</strong> مظہر ہیں ۔ سورج چاند اور<br />

ستاروں سے متعلق بھی اردوغزل میں <strong>کا</strong>فی مواد<br />

ملتاہے ۔<br />

اسمان بطور چھت،‏ ہر قسم کی تمیز وامتیاز سے باال<br />

رہاہے۔ بادلی جہاں بھی ائے ہیں گرج چمک <strong>کے</strong> ساتھ<br />

ائے ہیں اور بارش الئے ہیں ۔ گرج چمک سے خوف<br />

پھیلتا ہے جبکہ بارش فضا کو نکھارنے اورزمین کو<br />

سیراب کر<strong>کے</strong> ہری <strong>کا</strong> ذریعہ بنی ہے۔ اسمان <strong>کے</strong> جملہ<br />

حوالے ‏)توازن،‏ ترتیب و تنظیم ، وسعتیں،‏ سیرابی<br />

تمیز و امتیاز ، خوف وغیرہ انسانی ذہن پر اثرات مرتب<br />

کرتے ہیں ۔ اسمان <strong>کا</strong> کردار انسانی ذہن میں ہلچل مچانے<br />

<strong>کے</strong> ساتھ ساتھ اسے وسیع ، فراخ اور متوازن کرتاہے۔<br />

اردو غزل نے اسمان <strong>کے</strong> کردار کو ہمیشہ بائیں انکھ پر<br />

، حسن ،<br />

)


قائم چاند پوری<br />

رکھاہے ۔<br />

<strong>کا</strong> زیر اسمان جی گھبراتا ہے۔ اسمان <strong>کا</strong> کیا<br />

بھروسہ کب ٹھ<strong>کا</strong>نہ ہی چھی ن لے<br />

کیوں نہ جی گھبرائے زیر ا سماں<br />

گھر تو ہے مطبوع پر بس مختصر<br />

خواجہ درد اسمان کو کمینہ اورکینہ پرور قرار دیتے ہ یں<br />

نہ ہاتھ اٹھائے فلک گوہمارے کی نے سے<br />

کسے دماغ کہ ہو دوبدکمی نے سے<br />

مرزاسودا <strong>کے</strong> نزدیک اسمان ، درد دینے واال اور کنج قفس<br />

کو سونپ دی نے واال ہے<br />

سو مجہ کو ا سمان نے کنج قفس کو سونپ<br />

اب چہچے چمن میں کی جے فراغتوں سے<br />

میاں دمحمی<br />

مائل اسمان کو دکھ <strong>کے</strong> موسم <strong>کا</strong> ساتھی<br />

سمجھتے ہ یں<br />

ہے جہاں پرخروش اس غم سوں<br />

ا سمان سبز پوش اس غم سوں


خواجہ درد اسمان سے متعلق دواور حوالوں <strong>کا</strong> ذکر کر<br />

تے ہ یں<br />

اول<br />

اسماں <strong>کے</strong> زیر سایہ حرص <strong>کا</strong> بندہ خرم نہیں رہ سکتا<br />

کیونکہ اسمان حرص <strong>کے</strong> حوالہ سے میسر خوشی <strong>کے</strong><br />

دنوں کو پھیردی تاہے<br />

ہے محال ِ عقل،‏ زیرِ‏ ا سماں<br />

حرص ہو جس دلی می ں وہ خرم رہے<br />

دوم اسمان خود گردش میں ہے جانے کی ا تال ش رہاہے<br />

لیتانہیں کبود کی اپنے عناں ہنوز<br />

پھر تا ہے کس تالش میں یہ ا سماں ہنوز<br />

اسماں <strong>کا</strong> درج باال کردار انسانی ذہن پر مثبت اثرات مرتب<br />

نہیں کرتا ۔ دوسری طرف یہ بات بھی سمجھ میں اتی ہے<br />

کہ جوخود ‏’’چکروں‘‘‏ میں ہے اوروں کو کیونکر پر<br />

سکون رہنے دے گا ۔<br />

<strong>غالب</strong> اسمان کو قابلِ‏ پیمائش و فہمائش سمجھتے ہیں۔<br />

ان


<strong>کے</strong> نزدیک اسمان،‏ انسان سے کہی ں کمتر ہے<br />

کرتے ہومجھ کو منع قد مبوس کس لئے<br />

‏!کیا اسمان <strong>کے</strong> بھی برابر نہیں ہوں می ں ؟<br />

فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موج رنگ <strong>کا</strong><br />

یاں زمیں سے ا سماں تک سوختن <strong>کا</strong> باب تھا<br />

<strong>غالب</strong> کو پڑھ کر تسکین ہوتی ہے کہ اسماں المحدود نہیں۔<br />

دوسرا وہ انسان <strong>کے</strong> بالمقابل کمتر،‏ ادنی اور حقیر ہے۔<br />

<strong>غالب</strong> <strong>کا</strong> یہ مصرع اسمان کی عظمتوں،‏ وسعتوں،‏ بلندیوں<br />

اور رفعتوں <strong>کا</strong> بھانڈا پھوڑ دی تاہے<br />

کیااسمان <strong>کے</strong> بھی<br />

برابر نہیں ہوں می<br />

! ں؟<br />

<strong>غالب</strong><br />

نے ایک نظر یہ یہ بھی دیا ہے کہ اسمان دن رات گردش<br />

میں ہے۔ اس کی گردش زمین باسیوں کومتاثرکرتی ہے۔<br />

اس کی گردش <strong>کے</strong> حوالہ سے ‏’’کچھ نہ کچھ‘‘‏ وقوع پذیر<br />

ہوتا ہی رہے گااور یہ مسلسل جبر <strong>کا</strong> عمل ہے۔ اس پر<br />

انسان کی دسترس ہی نہیں ۔ جب کچھ نہ کچھ ہونا طے ہے<br />

تو گھبرانا محض نادانی ہے


یعن<br />

‘‘<br />

رات دن گردش میں ہیں سات ا سماں<br />

ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں ک یا<br />

جبر مشیت کو واضح کر رہاہے ۔ جب کسی ’’<br />

ہو رہے گا انسانی مرضی <strong>کا</strong> عمل دخل ہی نہےں تواس پر<br />

<strong>کا</strong>م میں اپنی صالحیتوں <strong>کا</strong> استعمال،‏ نادانی نہیں؟ حوادث <strong>کا</strong>ڈٹ کر<br />

کیوں مقابلہ کیا جائے۔ اس حوالہ سے،‏ حساب کتاب اور<br />

ٹھہرتاہے۔ میر صاحب تو مختاری<br />

جوابدہی <strong>کا</strong> عمل ال ی <strong>کا</strong> نام دیتے ہ<br />

کی خبر کو ‏’’ناحق تہمت ‘‘ یں<br />

:<br />

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختار ی کی<br />

چاہتے ہیں سو اپ کریں،‏ ہم کو عبث بدنام ک یا<br />

انکھ یں<br />

ادمی اشیا کو انکھوں سے دیکھتا ہے ۔ دیکھنے <strong>کے</strong><br />

حوالہ سے اس کی رائے اور رویہ بنتاہے۔ ہر قسم <strong>کا</strong> عمل<br />

اور ردعمل دیکھنے سے تعلق رکھتاہے۔ انکھوں کو بہت<br />

بڑی نعمت <strong>کا</strong> درجہ دیا جاتاہے۔ دیکھنا ، روشنی <strong>کے</strong> تابع


ہے۔ روشنی،‏ اشیا کو واضح اور نمایاں کرتی ہے۔ انسان<br />

<strong>کے</strong> دماغ میں اعصابی سلسلے انکھوں <strong>کے</strong> لئے زیادہ<br />

<strong>کا</strong>م کرتے ہیں اور دماغ <strong>کے</strong> اعلی ترین دماغی رابطے<br />

اسے زیادہ ذہین بناتے ہیں۔انکھ کی معمولی کجی دماغ <strong>کے</strong><br />

اعلی ترین رابطوں کی راہ <strong>کا</strong> پتھر بن جاتی ہے۔ جو عضو<br />

بدن اتنا اہم اورحساس ہو اس کی اہمیت وضرورت سے<br />

کیونکر ان<strong>کا</strong>ر کیا جاسکتاہے ۔<br />

انسان اشیا کو مکمل صاف اور واضح دیکھنے <strong>کا</strong> ہمیشہ<br />

سے متمنی رہا ہے اور یہ سب اس <strong>کے</strong> دماغ کی بنیادی<br />

ضرورت ہے۔ بصری <strong>کا</strong>ر گزاری کی بہتری <strong>کے</strong> لئے اس<br />

نے خوردبین اور دوربین ایجادکیں ۔ فیصلوں میں چشم<br />

دید شہادت کو الزمہ اورلوازمہ کی حیثیت حاصل رہی ہے<br />

جسم <strong>کے</strong> کسی عضو کی اہمیت سے ان<strong>کا</strong>ر ممکن نہیں۔ وہ<br />

اسودگی اور حظ <strong>کے</strong> تمنائی رہتے ہیں لیکن ہر عضو<br />

دوسرے عضو پر انحصار کرتاہے۔ اسودگی اور حظ <strong>کے</strong><br />

ضمن میں جسم <strong>کے</strong> تمام عضو’’انکھوں‘‘پر انحصار کرتے<br />

ہیں۔ ان <strong>کے</strong> بغیر وہ اپنی <strong>کا</strong>رگزاری میں ‏)بڑی حدتک<br />

معذور رہتے ہیں ۔ انکھوں کی سیرابی ، اسودگی،‏ حظ اور<br />

استفادہ کسی دوسرے عضو پر منحصر نہیں ہوتا ۔<br />

دوسرے اعضائی مفلوج ہوجائیں تو بھی حسِ‏ تمنا زوال <strong>کا</strong><br />

ش<strong>کا</strong>ر نہیں ہوت ی<br />

)


یول<br />

‘‘<br />

گو ہاتھ کو جنبش نہیں انکھوں می ں تودم ہے<br />

رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے ا گے<br />

<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> اس شعر سے انداز ہ ہوتاہے کہ اشیا <strong>کا</strong>تصرف<br />

ہی حظ فراہم نہیں کرتا بلکہ انہیں دےکھنے سے بھی<br />

تسکین اور اسودگی میسر اتی ہے ۔<br />

اردو غزل میں انکھوں <strong>کا</strong> کردار نظر انداز نہیں ہوا<br />

کیونکہ یہ ہرہونے <strong>کا</strong> بنیادی محرک ہوتی ہیں ۔ وکنی<br />

نے انکھ <strong>کے</strong> لئے ‏’’نین <strong>کا</strong> لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ اس<br />

<strong>کا</strong>کہنا ہے ا نکھ <strong>کا</strong> حسن،‏ <strong>کا</strong>ئنات <strong>کے</strong> حسن کو متاثر کرتاہے<br />

تیری نین کوں دیکھ <strong>کے</strong> گلشن می ں گل بدن<br />

نرگس ہو اہے شوق سوں بےمار الغی اث<br />

ہاتف <strong>کے</strong> نزدیک انکھوں<br />

<strong>کا</strong> حسن،‏ بناوٹ <strong>کے</strong> حوالہ سے<br />

گرویدہ بنالی تاہے<br />

انکھیاں تری اور زلف سے <strong>کا</strong>فر ہوا ساراجہاں<br />

اسالم اور تقوی کہاں،‏ زہد اور مسلمانی کدھر<br />

افتاب <strong>کے</strong> نزدیک انکھیں،‏ غصے یا پھر مہر نظر <strong>کے</strong><br />

حوالہ سے تن من جال کر رکھ دیتی ہیں


اس شمع روصنم سے ہے میری لگن لگائ ی<br />

تن من مرا جالیا،‏ ان ا نکھوں <strong>کا</strong> برا ہو<br />

میر صاحب <strong>کے</strong> نزدیک انکھوں کی پسند پر جسم <strong>کا</strong> کوئی<br />

عضواعتراض نہیں کرتا بلکہ انکھوں کی<br />

سرا نکھوں پر بےٹھاتاہے<br />

پسند ،<br />

تو وہ متاع ہے کہ پڑی جس کی تجھ پہ ا نکھ<br />

وہ جی کو بیچ کر بھی خریدار ہوگ یا<br />

انکھوں کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ محبوب کی راہ<br />

دیکھتی ہیں۔ محبوب کی امد سے،‏ جسم <strong>کے</strong> ہر اعضا سے<br />

پہلے اگاہی پاتی ہیں۔ہجر کی صورت میں پورے جسم کی<br />

نمائندگی کرتی ہیں ۔ میر محمود صابر کی زبانی مالحظہ<br />

فرمائ یں<br />

رہیں کل رات کی اب تک جو تجھ رہ میں کھلی اکھی اں<br />

انجھوں <strong>کے</strong> جوش سوں گنگا ہو جمنا بہہ چلی اکھی اں<br />

جہاں<br />

یہ فرارکی راہ اختیار کرتی ہیں وہاں غلط اور<br />

گنہگار ہونے <strong>کا</strong> ثبوت بھی بن جاتی ہیں۔<br />

حمیدہ بائی نقاب کہتی ہیں


وہ کیا منہ دکھائیں گے محشر می ں مجھ کو<br />

جو انکھیں ابھی سے چرائے ہوئے ہ یں<br />

معاملے کسی<br />

یا واقع <strong>کا</strong> اثر سب سے پہلے انکھوں پر<br />

ہوتاہے۔ اس ضمن می ں <strong>غالب</strong> <strong>کا</strong> کہناہے<br />

بجلی اک کوند گئی انکھوں <strong>کے</strong> ا گے تو <strong>کے</strong><br />

بات کرتے کہ میں لب تشنہء تقریر بھی تھا<br />

زندگی<br />

<strong>کے</strong> خاتمے <strong>کا</strong> اعالن،‏ انکھیں کرتی<br />

کہتے ہ یں ہیں۔<br />

مندگئیں کھولتے ہی<br />

کھولتے انکھی ں <strong>غالب</strong><br />

یار الئے مری<br />

بالیں پہ اسے،‏ پر<br />

! وقت؟ کسی<br />

جوبھی سہی ‏’’انکھیں‘‘‏ اپنی ضرورت اور اہمیت <strong>کے</strong> حوالہ<br />

سے مختلف انداز میں توجہ <strong>کا</strong> باعث بنتی ہیں ۔<br />

اس یر


یرہ<br />

لفظ اسیر گھٹن ، پابندی ، بے چینی اور بے بسی <strong>کے</strong><br />

دروازے کھولتا ہے ۔ اس <strong>کے</strong> ہر استعمال میں پابندی اور<br />

گھٹن <strong>کے</strong> عناصر یکساں طور پرملتے ہیں ۔ اردو غزل<br />

میں بھی یہی حوالے سامنے ائے ہیں ۔ میر صاحب<br />

‏’’جہان‘‘‏ کو تنگ قیدخانہ اور انسان کواس قید خانے <strong>کا</strong><br />

اسیر قرار دیتے ہیں ۔ اس حوالہ سے انہوں نے زندگی<br />

کی گھٹن ، بے چینی اور الچاری کو واضح کیاہے<br />

‏:اور انسان جیتے جی ایک ہیجان می ں مبتالہے<br />

، پابندی<br />

مرگیا جو اسیرِ‏ قیدِحی ات<br />

تنگ نائے جہان سے ن<strong>کا</strong>ل<br />

قائم چاندپوری<br />

<strong>کے</strong> نزدیک عشرت <strong>کا</strong> نتیجہ اس ماحول کی<br />

اسیری <strong>کے</strong> سوا کچھ نہ یں<br />

یہ رنگِ‏ طائربو،‏ ہم اسیر،‏ اے صی اد<br />

وہ ہیں کہ جن <strong>کا</strong>گلوں بیچ اشی انا تھا<br />

اسیری زلف گرہ گیری ہی کی کیوں نہ ہو ادمی دوسرے<br />

مشاغل سے کٹ جاتاہے۔ زلف کی اسیری کچھ اور سوچنے<br />

نہیں دیتی ۔اس ضمن میں غالم علی حیدری <strong>کا</strong> کہناہے<br />

یہ دلی<br />

اسیر زلف گرہ گی<br />

رہا


مجنوں ہمارا بستہ زنجیر ہی<br />

رہا<br />

مرز الطیف علی بیگ سپند غم کی گرفت م یں<br />

انے والے کو بھی ‏’’اسیر‘‘‏ ہی <strong>کا</strong> نام دیتے ہیں۔ اسیری<br />

سے چار عناصر وابستہ ہیں۔<br />

پابند ی<br />

دیگر فیلڈز <strong>کے</strong> دروازے بندہوجاتے ہ یں<br />

ایک معاملے <strong>کے</strong> سوا کچھ نہی ں سوجھتا<br />

بے چینی<br />

اور اضطرار کی<br />

کیفیت طاری<br />

ہے ہوجاتی<br />

غم پر یہ چاروں عناصر پورے اترتے ہیں ۔ گویاغم بھی<br />

اسیری <strong>کے</strong> مترادف چیز ہے۔ سپند <strong>کا</strong>شعر مالحظہ ہو<br />

ہے اسیر غم کہاں اور کوچہ قات ل کہاں<br />

یہ معلوم نہیں دلی جاکر ہوا گھائل کہاں<br />

اسیری بالشبہ بڑی خوفناک بال ہے۔ یہ نہ صرف محدود<br />

کرتی ہے بلکہ غالمی مسلط کر دیتی ہے۔ شخصیت <strong>کے</strong><br />

لئے گھن بن جاتی ہے۔ شخصیت <strong>کا</strong>تنزل یا جمود ، فکری<br />

حوالوں کو کمزور کر دیتاہے۔ فکری معذوری ترقی اور


’’<br />

انسانی اقدار کی<br />

پانوئ دابنے<br />

موت بن جاتی ہے۔<br />

پر مجبور کر دیتی<br />

اسیری ‏،راہزن <strong>کے</strong><br />

ہے۔ <strong>غالب</strong> <strong>کا</strong> کہنا ہے<br />

‘‘<br />

بھاگے تھے ہم بہت سواسی کی سزا ہے یہ<br />

ہوکر اسیر دابتے ہی ں راہزن <strong>کے</strong> پانوں<br />

انسان<br />

ادم کی نسل سے متعلق ہر ادمی کوانسان کہاجاتاہے۔انسان<br />

اور ادمی میں بنیادی فرق یہ کہ ادمی <strong>کا</strong> شریف النفس ہونا،‏<br />

مرتبہ کمال ِ انسانیت پر پہنچاتاہے اور اِسی حوالہ سے وہ<br />

‏’’انسان ‏‘‘کہالنے <strong>کا</strong> مستحق ٹھہرتاہے ۔ انسان ، نسیان یا<br />

انس سے مشتق ہے جبکہ یہ دونوں مادے اس <strong>کے</strong> خمیر<br />

میں پائے جاتے ہیں ۔ جب وہ انس <strong>کا</strong>نمونہ بن کرسامنے<br />

اتاہے تواسے انسان <strong>کے</strong> نام سے پ<strong>کا</strong>ر اجاتاہے۔ بصورت<br />

دیگر اسے ادمی کہنا ہی مناسب ہوتاہے۔ انسا ن <strong>کے</strong> مرتبے<br />

پر فائز ہونا بال شبہ بڑاکٹھن گزار ہوتاہے۔ اُردو غزل <strong>کے</strong><br />

شعرا <strong>کے</strong> ہاں لفظ ‏’’انسان بکثرت اور بہت سے حوالوں<br />

<strong>کے</strong> ساتھ استعمال میں ای<br />

‘‘<br />

: اہے


میاں دمحمی مائل نے ‏’’انسان‘‘‏<br />

سے کہاہے کہ انسان کی زندگی<br />

<strong>کے</strong> فانی ہونے <strong>کے</strong> حوالہ<br />

کی معیادہی کہاہے ۔ دم ایا<br />

ایا'‏ نہ ایا نہ ا یا<br />

کچھ تعجب نہیں گر مرگیا مائل تی را<br />

بار کی الگتا ہے انسان <strong>کے</strong> مرجانے کو<br />

امجد <strong>کے</strong> نزدیک خدا کی<br />

ذات انسان میں ملتی<br />

ہے<br />

سنتاتھا جسے کعبہ وبت خانہ میں ا خر<br />

امجد میں اُسے حضرتِ‏ انسان میں دی کھا<br />

خواجہ درد <strong>کا</strong> موقف ہے کہ خدا <strong>کے</strong> سب جلوے حضرت<br />

انسان میں مالحظہ کئے جاسکتے ہ یں<br />

جلوہ توہر اک طرح <strong>کا</strong>ہرشان میں دی کھا<br />

جوکچھ کہ سنا تجھ میں سو انسان میں دی کھا<br />

ایک دوسری<br />

جگہ پر انسان <strong>کے</strong> خلق کرنے <strong>کا</strong><br />

مقصددردمندی بتاتے ہ یں<br />

دردِدلی <strong>کے</strong> واسطے پیدا کی ا انسان کو<br />

ورنہ طاعت <strong>کے</strong> لئے کچھ کم نہ تھے کر وبی اں


میر جگنو ارزاں <strong>کے</strong> مطابق انسان <strong>کے</strong> وجود خاکی میں<br />

ایک <strong>کا</strong>ئنات پنہاں ہے تام غوروفکر کی ضرورت ہے<br />

زمین واسماں اور مہر ومہ سب تجھ میں ہی ں انساں<br />

نظر بھر دیکھ مشتِ‏ خاک میں کیاکی ا جھمکتا<br />

مصطفے علی خان یکرنگ <strong>کا</strong> کہنا ہے کہ اس حسین پیکر<br />

والے کو محض انسان ہی نہ سمجھ ، یہ اپنی ذات میں کیا<br />

ہے،‏ کھوج کرنے کی ضرورت ہے<br />

اس پری پی کر کو مت انسان بوجھ<br />

شک میں کیوں پڑتا ہے اے دلی جان بوجھ<br />

حافظ عبدالواہاب سچل <strong>کے</strong> نزدیک انسان <strong>کا</strong>ئنات <strong>کا</strong> دلداد<br />

بننے <strong>کے</strong> لئے وجود میں ایا ہے۔ انسان حضرت باری <strong>کا</strong><br />

گویا تمثالی اظہار ہے<br />

برائے خواہشِ‏ الفت ہوا اظہار وہ بے چوں<br />

اسی دنیا میں وہ دلدار بن انسان ای اہے<br />

<strong>غالب</strong> انسان کو کوئی فوق الفطرت وجود نہیں سمجھتے ۔<br />

ان <strong>کے</strong> نزدیک یہ مختلف حالتوں اور کیفیتوں سے دوچار


ہوتاہے۔اس پر<br />

گھبراہٹ بھی<br />

ہے ہوتی طاری<br />

کیوں گردشِ‏ مدام سے گھبرانہ جائے دل ی<br />

انسان ہوں پیالہ وساغر نہیں ہوں م یں<br />

انسان کوئی شے نہیں بلکہ محسوس کرنے والی مخلوق<br />

ہے۔ حاالت کی گرمی سردی اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔ تاہم<br />

پہم ای ک سے حاالت سے خوگر<br />

بھی ہوجاتاہے اور پھر حاالت <strong>کے</strong> طالطم<br />

کو معمول سمجھ کر زندگی گزار دیتاہے۔ <strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> نزدیک<br />

ادمی سے انسان بننے تک،‏ ادمی کو نہایت کھٹن گزار<br />

مراحل سے گزرنا پڑتاہے<br />

(Adjuest)<br />

بسکہ دشوار ہے ہر <strong>کا</strong>م <strong>کا</strong> ا ساں ہونا<br />

ادمی کو بھی میسر نہی ں انساں ہونا<br />

انسان بننا دشوار سہی ، ام<strong>کا</strong>ن سے باہر نہیں۔ اردو غزل<br />

<strong>کے</strong> شعر ا نے انسان سے متعلق جو نقشہ پیش کیا ہے وہ<br />

بڑا دلکش اور پرکشش ہے۔ ادمی <strong>کے</strong> اندر انسان بننے کی<br />

خواہش ابھرتی ہے لیکن جب یہ شدت اختیار کرتی ہے تو<br />

اعتبار میں اضافہ ہوتاچال جاتاہے۔ اعتبار جب معتبر<br />

ہوجاتاہے تو انسان اپنے خالق سے جاملتاہے ۔ گویا<br />

اعتبار،‏ انسان کو ادمیوں میں محترم ٹھہراتاہے ۔


اک شخص:‏ لفظ ‏’’شخص‘‘‏ <strong>کے</strong> حوالہ سے کوئی رویہ<br />

سامنے نہیں اتا ۔’’‏ اک‘‘‏ <strong>کا</strong> سابقہ اسےعمومی سے<br />

خصوصی <strong>کا</strong> درجہ عطا کرتاہے۔ وہ شخص کون ہے ، ظاہر<br />

نہیں ہوتا لےکن اس کی <strong>کا</strong>رگزاری اسے محترم اور منفر د<br />

کر دیتی ہے۔’’‏ اک ‘‘ سے متعلق سیا ق وسباق اس <strong>کے</strong> کر<br />

دار کو واضح کرتے ہیں۔<strong>غالب</strong> <strong>کا</strong> ‏’’اک شخص‘‘‏ کرداری<br />

حوالہ سے بڑا اہم ہے۔ اس <strong>کے</strong> نہ ہونے سے زندگی غیر<br />

متحرک ہوجاتی ہے۔ وہ تھا تو خیاالت میں جوالنی تھی'‏<br />

رعنائی تھ ی<br />

‘‘<br />

وہ تھی ’’<br />

اک شخص <strong>کے</strong> تصور سے<br />

اب وہ رعنائی ِ خی ال کہاں<br />

اردو شاعری میں شخص کی تخصیص <strong>کے</strong> لئے مختلف<br />

نوح <strong>کے</strong> سابقے الحقے استعمال میں ائے ہ یں<br />

ان سابقوں اور الحقوں <strong>کے</strong> حوالہ سے ان <strong>کے</strong> کردار کی<br />

نوعیت سامنے اتی ہے<br />

ساحل تمام اشک ِ ندامت سے اٹ گ یا<br />

دریاسے ‏’’کوئی شخص‘‘‏ تو پیاسا پلٹ گ یا


یوہ<br />

‘‘<br />

شک یب<br />

یہ ‏’’کوئی شخص دریا پر اکر بھی پیاسا رہا ۔ دریا سے<br />

کچھ میسر نہ انا یقینا دریاکی توہین ہے۔ دریا دوہرے کرب<br />

<strong>کا</strong> ش<strong>کا</strong>ر ہے<br />

کوئی ۔ الف<br />

اس <strong>کے</strong> پاس اکر مای وس رہا<br />

پیاسا ہی ۔ ب<br />

رہے گا؟<br />

اس طرح دریا <strong>کے</strong> ہونے <strong>کا</strong> جواز ہی باقی نہیں رہا۔ اس <strong>کا</strong><br />

ہونا نہ ہونا ایک ہی بات ہے ۔<br />

دونوں حوالوں سے دریا <strong>کے</strong> وجود پر گہری چوٹ پڑتی<br />

ہے ۔<br />

اخر کو’’‏ شخص‘‘‏ بنادشمنِ‏ جاں<br />

وہ شخص جو سرمای ہ جان تھا پہلے<br />

قمر ساحر ی<br />

وہ شخص ‏‘‘اس امر کو واضح کرتاہے کہ حاالت ایک سے<br />

نہیں رہتے ۔ دوستی دشمنی میں اور دشمنی دوستی میں<br />

تبدیل ہوسکتی ہے اور یہ کسی وقت بھی ہوسکتا ہے ۔ اس


یعن<br />

<strong>کے</strong> لئے کسی بڑی اور معقول وجہ <strong>کا</strong> ہونا ضروری نہیں ۔<br />

گہری دوستی کسی فریق <strong>کے</strong> حوالہ سے استوار ہوئی۔ یہ<br />

دوستی پھلی،‏ پھولی،‏ مفاد پورا ہونے <strong>کے</strong> بعد دم توڑ گئی ۔<br />

ایسے میں فریقِ‏ ثانی <strong>کا</strong> غصہ ، مالل یا پھر شدید رد عمل<br />

الی اور غیر فطری نہ ہوگا۔ بامعنی ، بے معنی ہو کر رہ<br />

‏:گیا<br />

جو حال ہے بستی <strong>کا</strong> تمہارے ہاتھوں<br />

ہر شخص <strong>کے</strong> چہرے پہ نظر ا وے ہے<br />

ہر شخص ، کسی کی درندگی اور ظلم و استبداد <strong>کا</strong> گواہ ہے<br />

کیونکہ وہ خودظلم و درندگی <strong>کا</strong> ش<strong>کا</strong>ر ہے ۔ اسے اپنے<br />

بارے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔ اس <strong>کے</strong> چہرے پر<br />

کسی فرعون کی فرعونیت جلی حروف میں رقم ہے ۔<br />

باغبان<br />

اردوغزل میں ‏’’باغبان‘‘‏ <strong>کا</strong> کردار ‏،عالمتی اور غیر عالمتی<br />

حوالوں سے معروف چال اتاہے ۔ تزئین وارائش،‏ حفاظت و<br />

نگہانی اور اباد <strong>کا</strong>ری <strong>کے</strong> حوالہ سے ، اس کردار پر توجہ


رہتی ہے۔ اس کردار کی دانستہ یا نادانستہ غفلت شعاری<br />

سے ناقابل ِ تالفی نقصان <strong>کا</strong> احتمال ہوتاہے ۔ اس کردار کی<br />

محتاط روی ، توجہ،‏ محنت و <strong>کا</strong>وش اور اپنے منصب سے<br />

لگن <strong>کے</strong> سبب باغ پھل پھول سکتاہے۔ اس لفظ <strong>کے</strong> حوالہ<br />

سے ایک بڑاہی ذمہ دار کر دار ذہن <strong>کے</strong> کینوس پر ابھر<br />

تاہے ۔ اس کی ہر حرکت توجہ <strong>کا</strong> مرکز رہتی ہے کیونکہ ا<br />

س کی <strong>کا</strong>رگزاری <strong>کے</strong> ساتھ فناوبقا <strong>کا</strong> معاملہ جڑا ہوتاہے۔<br />

: اردو غزل سے چند مثالی ں مالحظہ ہوں<br />

ارے بلبل کسے پر باندھتی ہے اشی اں اپنا<br />

نہ گل اپنا،‏ نہ باغ اپنا،‏ نہ لطفِ‏ باغباں اپنا<br />

میاں دمحم سرفراز عباس ی<br />

میاں دمحم سرفراز عباسی)متوفی ‎٠٢٠٠‎ھ(‏ <strong>کا</strong> یہ شعر عجب<br />

مخمصے <strong>کا</strong> سبب بنتاہے<br />

باغبان کی عنایت ہر جانبداری سے باال ہوتی ہے لیکن شعر<br />

میں کہا گیا ہے کہ باغبان <strong>کا</strong> لطف میسر ہی نہیں۔ اس میں<br />

متعلق سے انحراف اگیا ہے ۔ جب باغبان توجہ کھینچ لے<br />

توخیر کی توقع حماقت <strong>کے</strong> سوا کچھ نہیں۔ دوسری طر ف<br />

یہ معاملہ بھی سامنے اتاہے کہ دنیا <strong>کے</strong> نمبر دار غیر<br />

ہوگئے ہیں اور اپنوں ہی سے منہ پھیرے بیٹھے ہیں۔ اس<br />

لئے اپنے ہی دیس میں غربت سے دوچار ہوں توٹھ<strong>کا</strong>نہ


یعن<br />

یپت<br />

یپت<br />

یکل<br />

بنانے <strong>کا</strong> سوال الی ٹھہرتاہے۔باغبان تواپنے باغ کی<br />

، بوٹے بوٹے سے پیار کرتاہے۔ باغبان سراپا لطف<br />

وعنایت ہو کر بھی بانٹ میں ڈنڈی مارتاہے ۔<br />

بعض کو<br />

یکسر نظر انداز کرتاہے اور کچھ کو جو باغ <strong>کے</strong><br />

لئے با معنی ہیں جڑسے ن<strong>کا</strong>ل باہرکرتاہے ۔<br />

مرزا مظہر جانِ‏ جاناں <strong>کے</strong> ہاں بھی<br />

کچھ اسی قسم <strong>کا</strong><br />

مضمون ملتاہے<br />

یہ حسرت رہ گئی کیا کیا مزے سے زندگی کرتے<br />

اگر ہوتا چمن اپنا،‏ گل اپنا باغ باں اپنا<br />

مظہر<br />

کوکلی جانبداری <strong>کے</strong> معنوں میں بھی لیا جاسکتا ‏‘‘اپنا’’‏<br />

یک ہے ۔ جانبداری <strong>کے</strong> سبب غیر مستحق جانبدار ی<br />

توقع ہوتی ہے تاہم اس <strong>کے</strong> یہ معنی بھی نہیں بنتے کہ وہ<br />

جانتا ہی نہیں۔ انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ بانٹ<br />

بالشراکت غیرے اسی <strong>کے</strong> حصہ میں ائے۔ وہ چاہتا ہے اقا<br />

<strong>کا</strong> لطف اسی سے مخصوص رہے۔ اتش کو بھی شکوہ ہے<br />

کہ باغبان کی نوازشیں متوازن نہیں ہ یں


باغبان انصاف پر بلبل سے ا یا چاہ یے<br />

پہنچی اس کو زرگل کی پہنچایا چاہ یے<br />

ا تش<br />

<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> ہاں باغبان بطور تشبیہ استعمال میں ایا ہے۔<br />

باغبان <strong>کے</strong> دامن میں کیا کچھ نہیں ہوتا لیکن وہ مخصوص<br />

موقعوں پر دامن کھولتاہے ۔ موقع گزر جانے <strong>کے</strong> بعد اس<br />

<strong>کا</strong> دامنِ‏ عنایت بند ہوجاتاہے ۔ گویا باغبان ہمہ وقت <strong>کا</strong> دیا<br />

لو نہیں ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں باغبان سے<br />

وابستہ توقعات باطل ٹھہرتی ہیں۔ لہذا اس سے توقعات<br />

وابستہ کرنا فعلِ‏ الحاصل سے زیادہ نہیں۔ وہ نہ صرف بخیل<br />

سے بلکہ جانبدار اور گرہ <strong>کا</strong> پ<strong>کا</strong> ہے ۔<br />

یا شب کو دی کھتے تھے کہ ہر گوشہء بساط<br />

دامانِ‏ باغبان وکفِ‏ گل فروش ہے<br />

باغبان اپنے پھولوں کی<br />

بولی<br />

چڑھا رہاہے اس سے زیادہ<br />

اندھیر کیا ہوگا ۔<br />

بت


یرہ<br />

انسانی معاشرتوں میں بت پرستی عام اور عروج پر رہی<br />

ہے ۔ بتوں سے بہت ساری شکتیاں منسوب رہی ہےں<br />

۔انسان دوستوں کی انسان دوستی سے متاثر ہو کر ان <strong>کے</strong><br />

بت بنا کر پوجا کی جاتی ہے۔ انہیں طاقت <strong>کا</strong> سرچشمہ<br />

سمجھا گیا ہے ۔ کھدائیوں میں مختلف اقوام <strong>کے</strong> بنائے<br />

گئے بت ملے ہیں ۔جس سے بتوں کی اہمیت واضح ہوتی<br />

ہے۔ شکتی <strong>کے</strong> باعث ‏’’بت‘‘‏ معاشروں <strong>کے</strong> حقیقی اقتدار<br />

اعلی سمجھے گئے ہیں ۔ بت،‏ موحد <strong>کے</strong> لئے کراہت جبکہ<br />

بت پرستوں <strong>کے</strong> دلوں میں احترام <strong>کے</strong> احساس پیدا کرتے<br />

ہےں ۔<br />

اردوغزل میں لفظ’’بت‘‘‏ <strong>کا</strong> زیادہ تر محبوب <strong>کے</strong> معنوں<br />

میں استعمال ہواہے۔ انشا نے بت کو ایسا خوبصورت<br />

محبوب جو دلی میں دوئی بن کر براجمان ہوجائے،‏ <strong>کے</strong><br />

‏:حوالہ سے نظم کی ا ہے<br />

اور قدہے جادو ہے نگہ چھب ہے غضب قہر ہے مکھڑا<br />

قی امت<br />

ہللا کی قدرت غارت گردی ں ہے وہ بت <strong>کا</strong>فر ہے سراپا<br />

انشا


یگئ<br />

بت <strong>کے</strong> ساتھ ‏’’<strong>کا</strong>فر‘‘‏ پیوند کر<strong>کے</strong> اس کی <strong>کا</strong>رگزاری<br />

) ‏)غارتگردیں واضح کر دی ہے ۔<br />

دمحم شاکر ناجی <strong>کے</strong> ہاں،‏ وہ جو اپنے وصف <strong>کے</strong> سبب اچھا<br />

لگے،‏ اس <strong>کے</strong> متعلق باتیں سننا خوش اتا ہوگویا دلی<br />

ودماغ میں گھر کرے اور یاد مسلسل بن جائے ، <strong>کے</strong><br />

معنوں میں استعمال کیا گیاہے ۔<br />

جرات نے بت کو فلرٹ کرنے واال’’چالو‘‘‏<br />

اے صبا کہہ بہار کی بات یں<br />

اس بت گلعذار کی بات یں<br />

ناج ی<br />

اورعیار <strong>کے</strong> طور<br />

پر استعمال کی<br />

: اہے<br />

کیا بات کوئی اس بت عیار کی سمجھے<br />

بولے ہے جو ہم سے تو اشارت کہی ں اور<br />

جرات<br />

<strong>غالب</strong> نے ایسا محبوب جس سے پوجا کی حدتک محبت کی<br />

جائے،‏ <strong>کے</strong> معنوں میں لی اہے


چھوڑوں گا می ں نہ اس بتِ‏ <strong>کا</strong>فر <strong>کا</strong> پوجنا<br />

چھوڑے نہ خلق گو مجھے <strong>کا</strong>فر کہے بغ یر<br />

ایک دوسری<br />

جگہ،‏ اس کی<br />

محبت کو،‏ ایمان <strong>کا</strong> درجہ دے<br />

رہے ہ یں<br />

کیونکر اس بات سے رکھوں جان عز یز<br />

کیا نہیں ہے مجھے ایمان عز یز<br />

ایک شعر میں طنز<strong>کا</strong> نشانہ بناتے ہ یں<br />

تم بت ہو پھر تمہیں پندارِ‏ خدائی کی وں ہے<br />

تم خداوند ہی کہالئو خدا اور سہ ی<br />

درج باال مثالوں میں بت <strong>کے</strong> ساتھ لف ‏ِظ<br />

تخصیص بھی نظم<br />

ہواہے<br />

بت ‏ِ<strong>کا</strong>فر<br />

انشا،‏ <strong>غالب</strong><br />

بت ‏ِگلعذار<br />

ناج ی


بت ‏ِعی ار<br />

جرات<br />

اُس بت<br />

<strong>غالب</strong><br />

تم بت<br />

<strong>غالب</strong><br />

ان سابقوں اور الحقوں کی مدد سے بت پہچان سے باہر<br />

نہیں رہتا۔ایسے ہی جیسے الت و منات،‏ شیو،‏ وشنویا<br />

برہما،‏ شنی کی مورتیاں ۔ یہ بت سونے چاندی اور<br />

پھولوں سے لدھے رہتے ہیں۔ محبوب بھی بنائو سنگار<br />

سے غافل نہیں ہوتے ۔<br />

برہمن<br />

برہمن کو بتکدے<br />

کی ‏)مندر(‏<br />

حرمت اور احترام <strong>کا</strong> امین


سمجھا جاتارہاہے ۔ اس کی وجہ سے ہندودانش <strong>کے</strong> تمام<br />

حوالے ہندوسماج میں پھلے پھولے ہیں۔ اسے ہندودھرم<br />

<strong>کا</strong> رکھواال اور پرچارک سمجھا جاتا رہاہے۔ ہندوگےان<br />

دھیان سے متعلق اس نے دوسروں سے زیادہ علم اور<br />

ویدان حاصل کیا ہوتاہے۔ دوسراوہ اونچی ذات سے متعلق<br />

ہوتاہے اس لئے ہندو سماج میں محترم رہاہے۔ اسے<br />

‏’’برہمن دیوتا‘‘‏ بھی کہا جاتارہاہے ۔ برہمن اپنے موقف میں<br />

ضدی،‏ اڑیل اور ہٹھیل سمجھا جاتاہے ۔ لفظ برہمن جب ذہن<br />

<strong>کے</strong> پردوں سے ٹکراتاہے تو ہندو دھرم سے متعلق لوگوں<br />

<strong>کے</strong> روم روم میں پرنام <strong>کے</strong> چشمے ابلنے لگتے ہیں ۔ لفظ<br />

برہمن اُردو شاعری میں مختلف حوالوں سے نمودار ہوا<br />

ہے<br />

مومن نے فدا ہوجانے واال،‏ اَڑ جانے واال،‏ تل جانے واال،‏<br />

دیوانہ وغیرہ <strong>کے</strong> معنوں میں استعمال کیاہے ۔<br />

بن ترے اے شعلہ رواتشکدہ تن ہوگ یا<br />

شمع قدپر میرے پروانہ برہمن ہوگ یا<br />

مومن<br />

یقین نا<strong>کا</strong>می<br />

پر سٹپٹانے واال <strong>کے</strong> معنوں میں استعمال کرتے<br />

ہیں۔


یدل<br />

برہمن سر کو پیٹتا تھا دیر <strong>کے</strong> ا گے<br />

خداجانے تری صورت سے بتخانے پر کی ا گزرا<br />

یقین<br />

دمحم عظیم الدین عظیم فنا ہوکر وصل <strong>کا</strong> طالب ، جس <strong>کا</strong> جذب<br />

و خلوص اور استقالل متاثرکرے،‏ وہ جسے ہرکوئی<br />

دے بیٹھے ، ایسا محبوب جو بہت سوئوں <strong>کا</strong> عشق اپنے<br />

سینے میں مخفی رکھنے واالوغیرہ معنوں میں استعمال<br />

کیاہے :<br />

برہمن جس <strong>کے</strong> دلی میں ارزو ہے مر<strong>کے</strong> درسن ک ی<br />

مجھے ہے ارزو ہر وقت درسن اس برہمن ک ی<br />

عظیم اس حسنِ‏ عشق امیز نے مجھ دلی کوں گھی راہے<br />

برہمن ہر <strong>کا</strong>عشق ہے،می ں عاشق ہوں برہمن <strong>کا</strong><br />

<strong>غالب</strong> نے ستاروں <strong>کا</strong> حساب کر<strong>کے</strong> مستقبل کی پیش گوئی<br />

کرنے وال اور دھرم سے وفاداری کرنے واال <strong>کے</strong> معنوں<br />

میں نظم کی اہے<br />

دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا ف یض


اک برہمن نے کہا<br />

ی ہ سال اچھا ہے<br />

وفاداری بشرطِ‏ استواری اصل ای ماں ہے<br />

مرے بت خانے میں توکعبے می ں گاڑو برہمن کو<br />

بسمل<br />

بسمل جان قربان کرنے <strong>کے</strong> حوالہ سے اپنا جواب نہیں<br />

رکھتا ۔ وفاداری او ر استواری اس کردار <strong>کا</strong>خصوصی<br />

وصف سمجھا جاتاہے۔ میدان میں اترنے والے <strong>کے</strong> ہاں<br />

زندہ رہنے کی امید ہوتی ہے لیکن بسمل کو تڑپ تڑپ کر<br />

کشتہ ہونے <strong>کا</strong> یقےن ہوتاہے۔ وہ اس کو ہی اپنی <strong>کا</strong>مےاب<br />

اورمنزل سمجھتا ہے۔ اِسی حوالہ سے وہ ‏’’بسمل‘‘‏ <strong>کے</strong><br />

لقب سے ملقوب ہوتاہے۔ جلتے ہوئے تڑپنا معشوق کو<br />

تسکین دیتاہے ۔ اسے اس <strong>کے</strong> عاشقِ‏ صادق ہونے <strong>کا</strong> یقین<br />

ہوجاتاہے تاہم دوسری طرف اذیت پسندی <strong>کے</strong> الزام سے<br />

بھی بری نہیں ہو پاتا ۔ اذیت پسندی پیمانے متوازن نہیں<br />

رہنے دیتی ۔ بسمل <strong>کے</strong> حوالہ سے تین طرح <strong>کے</strong> رویے<br />

: ابھرتے ہ یں<br />

یح رت انگیز وفاداری اور استوار ی الف ۔


یعن<br />

<strong>کے</strong> وفاداری<br />

یقین <strong>کے</strong> لئے اتنی کھٹن ازمائش کہ ب۔<br />

عاشق جان سے جائے<br />

ج۔عشق کی<br />

یقین دہانی<br />

<strong>کے</strong> لئے جان پر کھیل جانا سراسر<br />

حماقت اور نادانی ہے<br />

جوبھی سہی<br />

‏’’بسمل‘‘‏<br />

کو جان دینے اورمعشوق کو ازمانے<br />

میں اسودگی حاصل ہوتی ہے<br />

اردو شاعری میں یہ کردار پوری اب وتاب سے زندہ نظر<br />

اتاہے ۔<br />

کرم دادخاں درد <strong>کا</strong>کہنا ہے۔ محبوب <strong>کے</strong> استانے <strong>کا</strong> احترام<br />

ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بسمل <strong>کے</strong> لئے الزم ہے کہ وہ<br />

تڑپے لیکن محبوب <strong>کے</strong> استانے کی خا ک پر با ل وپر نہ<br />

لگنے پائیں ۔محبوب ، عاشق صادق کی تڑپت <strong>کا</strong>نظارہ کرے۔<br />

ساتھ میں اس <strong>کے</strong> استانے کی خاک کسی <strong>کے</strong> خون سے<br />

الودہ نہ ہو ی اس خاک پر خون ہونے <strong>کا</strong> الزام بھی نہ<br />

انے پائے ۔<br />

ادب ضرورہے اس خاک ا<br />

ستانے <strong>کا</strong><br />

تڑپھ تو اس طرح بسمل کہ بال وپر نہ لگے


درد<br />

خواجہ درد <strong>کا</strong> موقف ہے کشتے <strong>کا</strong> کچارہ جانا اور کشتہ <strong>کا</strong>ر<br />

<strong>کا</strong>اس سے غافل ہوجانا درست نہیں کشتہ۔ میں خامی نہ<br />

رہناہی کشتہ <strong>کا</strong>ر<strong>کا</strong>کمال ہے ۔<br />

نیم بسمل کوئی کسوکو چھوڑ<br />

اس طرح بیٹھ تا ہے غافل ہو<br />

درد<br />

مہ لقابائی<br />

چندا نے نکتہ ن<strong>کا</strong>ال ہے<br />

قدموں پہ سر تھا کوئی روبروئے ت یغ<br />

ابھی تڑپ سے رہا بسملوں <strong>کا</strong> ج ی<br />

چندا<br />

<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> نزدیک بسمل کو اذیت لطف دیتی ہے لہذا جس<br />

قدر ممکن ہے اذیت ‏)مشق ناز(‏ دو ۔ متقولین <strong>کا</strong>خون میں<br />

اپنی گردن پر لی تاہوں<br />

بسمل<br />

ہے کس انداز <strong>کا</strong> قاتل سے کہتاہے


کہ مشق ‏ِناز کر خونِ‏ دوعالم میری<br />

گردن پر<br />

اسد<br />

کردار وفا شعاری،‏ استقامت،‏ استواری اور معاملے سے<br />

کمٹ منٹ <strong>کا</strong> الجواب نمونہ ۔<br />

بشر<br />

‘‘<br />

بندہ بشر عام بوال جانے واالمحاورہ ہے۔ اس محاورے ’<br />

میں لغزش ادم <strong>کا</strong> واضح طور پر اشارہ موجود ہے۔ گویا<br />

بشر سے غلطی کوتاہی ناممکنات میں نہیں ۔ وہ انسانیت<br />

<strong>کے</strong> کسی بھی درجے پر فائز ہوجائے اس سے چوک ہوہی<br />

جاتی ہے ۔ لفظ بشر ایسے کردار کو سامنے التاہے جو<br />

ضدین <strong>کا</strong> مجموعہ ہے۔ اس کی کسی لغزش یاکسی <strong>کا</strong>رنامے<br />

پرحیرت نہیں ہونی چاہیے۔ اچھائی دونوں عناصر<br />

اس کی فطرت <strong>کا</strong>حصہ ہیں ۔<br />

‘‘<br />

، برائی<br />

محتاط اور بڑے لوگوں کی ‏’’بشری کوتاہیوں <strong>کا</strong> ری<strong>کا</strong>رڈ<br />

تاریخ اور اسمانی کتابوں میں موجودہے ۔ اردو غزل میں<br />

لفظ ‏’’بشر‘‘مختلف حوالوں سے پینٹ ہواہے ۔


حافظ عبدالوہاب سچل <strong>کا</strong>کہناہے بشر <strong>کے</strong> ظاہر کو دیکھ کر<br />

کوئی اندازہ لگا لینا مناسب نہیں ۔ بشر <strong>کے</strong> باطن میں<br />

جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ وہ اپنے باطن میں کیا کمال<br />

<strong>کے</strong> خزینے چھپائے بی ٹھا ہے<br />

صور ت بشر کی ہے مری ، ظاہر گد اگر ہوں بنا<br />

باطن کی پہچانے مرے،‏ سلطان ہوں،‏ سلطان ہوں<br />

عالمہ حالی <strong>کے</strong> نزدیک بشر اگر کوئی <strong>کا</strong>رنامہ سر انجام<br />

نہیں دیتا تو اس کی حیثیت صفر زیادہ نہ یں۔<br />

بشر سے کچھ ہوس<strong>کے</strong> نہ ایسے جینے سے کی ا فائدہ<br />

ہمیشہ بے<strong>کا</strong>ر تجھ کو پایا ، کبھی نہ سرگرم <strong>کا</strong>ردی کھا<br />

حال ی<br />

<strong>غالب</strong> بشر سے ‏’’بندہ بشر‘‘‏ ہی مراد لے رہے ہ یں۔<br />

دیا ہے دلی اگر اس کو،‏ بشر ہے،کیا کہ یے<br />

ہوا رقیب توہو،‏ نامہ برہے،‏ کیاکہ یے<br />

بشر کوئی فوق الفطرت مخلوق نہیں جواس سے صرف<br />

خیر کی توقع رکھی جائے۔ اس سے خیانت اور بددیانتی<br />

،


یگئ<br />

حیرت کی کوئی<br />

۔ بات نہیں<br />

بلبل<br />

بلبل ایران <strong>کا</strong> خوش گلو پرندہ ہے ۔<br />

فارسی اور اردو شعرا نے اس لفظ کو مختلف مفاہیم میں<br />

استعمال کیا ہے ۔ عالمتی اور استعاراتی استعمال بھی<br />

پڑھنے کو ملتا ہے ۔ اس لفظ <strong>کے</strong> استعماالت کی نوعیت <strong>کے</strong><br />

مطابق،‏ مختلف قسم <strong>کے</strong> سماجی اور سیاسی<br />

حوالے ذہن میں ابھراتے ہیں ۔تاہم خوش الحانی اس کردار<br />

<strong>کا</strong> بنیادی وصف رہاہے ۔ درد سوز وگداز اور نوحہ گری کی<br />

مختلف صورتیں بھی سامنے اتی ہیں ۔ ارد وغزل میں یہ<br />

کردار مختلف حوالوں سے بڑا متحرک رہاہے۔ مثالً‏<br />

، معاشرتی<br />

مظہر جان جاناں <strong>کے</strong> ہاں عشق میں محبوب <strong>کے</strong> ہاتھوں<br />

سب کچھ لٹا دی نے واال <strong>کے</strong> طور پر نمودار ہواہے<br />

اخر جال کر گل <strong>کے</strong> ہاتھوں اشی اں اپنا<br />

نہ چھوڑا ہائے بلبل نے چمن می ں کچھ نشاں اپنا


یدل<br />

مظہر<br />

بہادر مرزاخرد <strong>کے</strong> مطابق محبوب جب ازادی چھین لینے<br />

کی تمنا کرتاہے تویہ اس کی تمناکی تکمیل <strong>کے</strong> لئے از خود<br />

پابہ زنجی ر ہوجاتاہے<br />

اڑا <strong>کے</strong> پہنچا ، جب ہوااس گل کوشوق ِ ص ید<br />

بلبل کو پر لگادئی ے شوقِ‏ ش<strong>کا</strong>رنے<br />

خرد<br />

خواجہ برہان الدین اثمی نے بلبل <strong>کے</strong> ذریعے اپنے عہدے<br />

<strong>کے</strong> پرگھٹن حاالت اور شخص کی بے اختیاری کو واضح<br />

کیاہے۔ بے اختیار اور ازادی سے محروم چہرے پر<br />

مسکراہٹ حرام ہوجاتی ہے لیکن وہ روبھی نہیں سکتا ۔<br />

اس کی حیثیت کسی کل پرزے سے زیادہ نہیں ہوت ی<br />

میں وہ بلبل ہوں کہ صیاد <strong>کے</strong> گھر بیچ پی دا ہوا<br />

جہاں میں انکھ جو کھولی قفس میں اشیاں دیکھ ا<br />

اثم ی


میر باقر حزیں <strong>کے</strong> مطابق خوبصورت حاالت میسر ہوں<br />

تو نقل م<strong>کا</strong>نی کی کو ن سوچتا ہے تاہم غاصب <strong>کے</strong> جبر <strong>کے</strong><br />

زیر اثر سب کچھ چھوڑنا پڑتاہے۔ حزیں نے ‏’’بلبل <strong>کے</strong><br />

حوالہ سے حاالت کی ناخوشگواری واضح کی ہے ۔<br />

‘‘<br />

یہ کہہ <strong>کے</strong> باغ سے رخصت ہوئی بلبل کہ ی اقسمت<br />

لکھا تھا یوں کہ فصل ِ گل میں چھوڑیں اشی اں اپنا<br />

حرد یں<br />

<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> ہاں یہ کردار بطور نوحہ گر استعمال ہواہے۔<br />

انسانی فطرت ، مختلف حاالت میں مختلف رویے اختیار<br />

کرتی ہے۔ دکھ یا ڈپریشن کی صورت میں حاالت اور<br />

ماحول کی تبدیلی اسے ریلیف مہیا کرتی ہے ۔<br />

جب نوحہ گر ساتھ میں ہوگا تووہ ناخوشگواری کوکیونکر<br />

بھولنے دے گا ۔<br />

ہمہ وقت <strong>کا</strong> رونا دھونا نہ صرف زندگی <strong>کا</strong> لطف چھین<br />

لیتاہے بلکہ کچھ کر گزرنے کی حس کو بھی ناقابل تالفی<br />

نقصان پہنچتاہے۔ دیکھئ یے<br />

<strong>غالب</strong> اس باب میں کیا کہتے ہ یں<br />

مجھ کو ارزانی<br />

رہے تجھ کو مبارک ہوج یو


نالہء بلبل <strong>کا</strong> د رد اور خندہ گل <strong>کا</strong> نمک<br />

بلبل گویا ایسا کردار ہے جو مسلسل مایوسی اور پریشانی<br />

پھیالتا ہے۔ اس <strong>کے</strong> نالے شخص <strong>کے</strong> درد کو تازہ رکھتے<br />

ہیں۔<br />

بلبل <strong>کا</strong> متراد ف عندلیب اردو غزل میں استعمال ہوتاایاہے ۔<br />

یکرنگ اس کردار <strong>کے</strong> حوالہ سے نکتہ ن<strong>کا</strong>لتے ہیں کہ<br />

عندلیب کی شایستہ اور کومل اواز اور اس کی اہ وفغاں<br />

چار سو پھیل کر توجہ حاصل کر لیتی ہے۔ توجہ پھر جانے<br />

<strong>کے</strong> سبب افسردگی <strong>کا</strong> عالم طاری ہوجاتاہے<br />

کم نہیں کچھ بوئے گل سیتی فغان عندل یب<br />

برگِ‏ گل سے ھیگی نازک ترزبان ‏ِعندل یب<br />

ی کرنگ<br />

<strong>کے</strong> ہاں اس کردار کی <strong>کا</strong>ر فرمائی<br />

ہے۔ شادی میں نوحہ گری کی<br />

<strong>غالب</strong><br />

اور ہی رنگ کی حامل<br />

موجودگی بھال کس کو<br />

خوش اتی ہے<br />

اے عندلیب<br />

یک کف خس بہر اشی اں


طوفان ا مدا مد فصل بہارہے<br />

امدِ‏ فصل بہار میں نوحہ گر کو ‏’’اشیاں چھوڑنے <strong>کا</strong> ‘‘<br />

مشورہ دینا ہی صائب لگتاہے کہ خواہ مخواہ رنگ میں<br />

بھنگ ڈالے گا ۔<br />

بی مار<br />

یہ تے ‏)طے(‏ سی بات ہے کہ بیمار <strong>کے</strong> شب و روز<br />

ناگواری اور وسوسوں <strong>کا</strong> ش<strong>کا</strong>ررہتے ہیں ۔یہی<br />

نہیں بےماری اس <strong>کے</strong> اعصاب چٹ کر جاتی ہے اور اس<br />

<strong>کے</strong> سوچ کو منفی حوالوں <strong>کے</strong> ساتھ جوڑے رکھتی ہے۔<br />

بےمار،‏ تکلیف ، کمزوری اور سوچ <strong>کے</strong> منفی زوایوں <strong>کے</strong><br />

سبب زندگی <strong>کے</strong> کسی میدان میں کوئی کردار اداکرنے سے<br />

قاصر رہتاہے۔ ‏’’لفظ بیمار‘‘‏ سنتے ہی ایک ایسے شخص <strong>کا</strong><br />

تصور سامنے اجاتاہے۔ جوہمدردی <strong>کا</strong> مستحق ہوتاہے لیکن<br />

اس کی ہر وقت کی مایوسی اور ہائے وائے دماغ پر بوجھ<br />

سابن جاتی ہے۔ اردو غزل میں یہ کردار نظر انداز نہیں<br />

ہوا۔ بےمارِ‏ عشق <strong>کے</strong> عالوہ بےماروں <strong>کا</strong> ذکر بھی<br />

ملتاہے ۔<br />

، پریشانی


مرزاسودا <strong>کا</strong> کہنا ہے عارضے میں مبتال شخص <strong>کا</strong> عجب<br />

حال ہو جاتاہے ۔ ہجر <strong>کا</strong> عارضہ سوچ کو جامد کر<strong>کے</strong> رکھ<br />

دیتاہے۔ ہجر کی بیماری انسان کو اندر سے کھائے چلی<br />

جاتی ہے<br />

تیری دوری سے عجب حال ہے اب سودا <strong>کا</strong><br />

میں تو دیکھا نہیں ایسا کوئی بیم ار ہنور<br />

سودا<br />

میاں دمحمی<br />

مائل <strong>کا</strong> خیال ہے کہ بیماری کی ‏’’ہوس‘‘‏ بڑھ<br />

جاتی ہے۔ اگرچہ ہوس بھی ذہنی عارضہ ہے<br />

کیا کہوں میں تجھ سے دلی زار کی ہوس<br />

مشہور ہے جہاں میں بیمارکی ہوس<br />

مائل<br />

اللہ نول رائے وفا <strong>کے</strong> نزدیک بیمار کی بیماری سے اندازہ<br />

ہوجاتاہے کہ وہ زیادہ دیر <strong>کا</strong> نہ یں<br />

کہنے لگا وہ من <strong>کے</strong> مرا نالہ وفغاں<br />

یا رب جیا کرئے گا یہ بی مار کب تلک


وفا<br />

میر دمحمی قربان <strong>کے</strong> نزدیک ‏’’نگہ <strong>کا</strong> بےمار‘‘‏ مسیحا کی<br />

دسترس سے باہر ہوتاہے۔ کوئی معالجہ ‏)سمجھانا بجھانا(‏<br />

اس پر <strong>کا</strong>رگر ثابت نہیں ہوتا بلکہ نیتجہ الٹ ہی نکلتا ہے ۔<br />

نگ اہ الفت کہ نگاہِ‏ قہر <strong>کا</strong> ڈساالعالج ہوتا ہے<br />

کسی کی برگشتہ <strong>کا</strong> ہوں می ں بےمار<br />

یاں مسیحا کی ہوئی جاتی ہے تدیبر الٹ ی<br />

قربان<br />

جہاں دار <strong>کا</strong> بھی<br />

نظری ہ ہے یہی<br />

تیرے بیمار اب <strong>کے</strong> تیئں جو دی کھا<br />

مسیحا کی نہیں کرتی دوا خوب<br />

جہاں دار<br />

محبت خاں محبت <strong>کے</strong> خیال میں بیمارِ‏ عشق <strong>کا</strong> جینا مرنا<br />

سے بے<strong>کا</strong>ر ‏ِمحض برابر ہوتاہے ۔وہ عمرانی حوالہ<br />

ہوتاہے ۔


یات<br />

جس کو تیری ا نکھوں سے سرو<strong>کا</strong>ر رہے گا<br />

بالفرض جیا بھی تو وہ بی مار رہے گا<br />

محبت<br />

<strong>غالب</strong> نے عاشق <strong>کے</strong> ساتھ ‏’’بیمار‘‘<strong>کا</strong> پیوند کر<strong>کے</strong> عشق کو<br />

بیماری قرار دیا ہے۔ان <strong>کے</strong> نزدیک یہ بیماری جان لے کر<br />

دم لیتی ہے<br />

مندگئیں کھولتے ہی کھولتے انکھی ں ہے ہے<br />

خوب وقت ائے تم اس عاشق بی مار <strong>کے</strong> پاس<br />

بیمار <strong>کا</strong> مترادف لفظ’’‏ مریض‘‘‏ بھی اردو غزل میں اپنی<br />

الگ سے پہچان رکھتاہے۔ یہاں بھی عاشق ہی مریض سے<br />

ملقوب نظر اتاہے میرصاحب <strong>کے</strong> نزدیک مرضِ‏ عشق جان<br />

لے کر چھوڑتا ہے۔ عشق گویا ایک نفسی عارضہ ہے<br />

جس کی شدت سے جان بھی جاسکتی ہے ۔<br />

مت کر عجب جو میر ترے غم میں مرگ یا<br />

جینے <strong>کا</strong> اس مریض <strong>کے</strong> کوئی بھی ڈھنگ تھا؟<br />

میر


قائم <strong>کے</strong> خیال میں مریضِ‏ عشق <strong>کا</strong> مرجاناہی اچھا ہے ۔<br />

اس <strong>کا</strong> ہردم وبال ہوتاہے۔ وبال)اذیت(‏ <strong>کا</strong> جینا بھی کیا جینا<br />

ہے۔ اس سے مرجان ہی بہتر ہوتاہے<br />

چھوٹا ترا مریض اگر مرگی ا کہ شوخ<br />

جو دم تھا زندگی <strong>کا</strong> سو اس پر وبال تھا<br />

قائم<br />

میاں جگنو <strong>کے</strong> نزدیک ، مریض عشق،‏ عارضہ عشق میں<br />

رہے تو اچھا ہے ۔ اس <strong>کا</strong> بہتر ہونا دوسروں کو بیمار کر<br />

دیتاہے۔ وہ قصہءعشق سنا سنا کر اوروں کو ہل<strong>کا</strong>ن کردے<br />

گا ۔<br />

ایسے مریض عشق کو ازار ہی بھال<br />

اچھا کبھی نہ ہووے یہ بیمار ہی بھال<br />

کہتے ہیں مریضِ‏ عشق کی حالت دیکھنے واال ، مریض<br />

کی مرض سے زیادہ واقف ہوتا ہے۔ اگر کوئی معالج،‏<br />

تیمادار کی رائے کو نظر انداز کر<strong>کے</strong> دعوی باندھے کہ یہ<br />

اچھا ہو جائے گا اور اگر وہ اچھا نہ ہو تو مسیحا کو


یمت<br />

سزا)جرمانہ(‏<br />

جائے ۔ دی<br />

ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جب تک مرضِ‏ عشق کو<br />

ہوا دینے والے باقی رہیں گے کسی کی مسیحائی <strong>کا</strong>م نہ<br />

. ی اس<strong>کے</strong> گ<br />

لوہم مریضِ‏ عشق <strong>کے</strong> تیمادار ہ یں<br />

اچھا اگرنہ ہو تو مسیحا <strong>کا</strong> کی ا عالج<br />

پروانہ<br />

اس لفظ <strong>کا</strong> عال اور استعارتی استعمال ہوتا ایا ہے۔<br />

پروانہ ، ایثار،‏ قربانی اور ممتا کی عالمت ہے۔ اسے ہر<br />

حال میں قربان ہونا ہوتا ہے۔ اردو غزل میں یہ کردار بڑا<br />

معتبر ، متحرک اور جاندار چال اتا ہے۔ یہ عاشق ، دھرتی<br />

اور مذہب پر قربان ہونے واال <strong>کے</strong> طور پر پڑھنے کو<br />

ملتاہے۔ استاد ذوق <strong>کے</strong> نزدیک وہ جو منزل مقصود سے<br />

دور اور منزل تک رسائی <strong>کے</strong> وسائل نہ رکھتا ہو<br />

بلبل ہوں صحن باغ سے دور اور شکستہ پر<br />

پروانہ ہوں چراغ سے دور اور شکستہ پر


ذوق<br />

پروانہ <strong>کے</strong> لئے لفظ پتنگا بھی استعمال ہواہے ۔ خسرو نے<br />

اس سے مراد عشق کی اگ میں جل مرنے واال لیاہے ۔<br />

میرا جو بن تم نے لیا تم نے اٹھا غم کو د یا<br />

تم نے مجھے ایسا کیا جیسا پنتگا ا گ پر<br />

<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> ہاں بطور حسن شناس ، محبوب <strong>کے</strong> متعلق<br />

کسی قسم کی ش<strong>کا</strong>یت پر و<strong>کا</strong>لت کرنے واال <strong>کے</strong> معنوں میں<br />

لیاگیا ہے ۔<br />

جاں در ہوائے ی ک نگہ ‏ِگرم ہے اسد<br />

پروانہ ہے وکیل ترے داد خواہ <strong>کا</strong><br />

جالد<br />

لفظ ‏’’جالد‘‘‏ خوف اور نفرت پیداکرتاہے۔ ظالم ، جابرا ور<br />

اذیت پسند <strong>کے</strong> لئے بوالجاتاہے۔ یہ سر<strong>کا</strong>ری مالزم ہوتاہے۔<br />

اپنی مرضی سے کسی کو کوڑے نہیں لگاتا اور نہ ہی<br />

کسی کی جان لیتا ہے۔ حاکم <strong>کے</strong> حکم سے جیلر یاکسی


یول<br />

دوسرے عہدےدار کی موجودگی میں ، حاکم <strong>کے</strong> حکم کی<br />

تعمیل کرتاہے اوراِس ضمن میں کسی رورعایت سے <strong>کا</strong>م<br />

نہیں لیتا۔ ترس یارحم کی صورت میں حاکم <strong>کے</strong> حکم کی<br />

تعمیل نہیں ہو پات ی۔<br />

سنگدلی اور بے حسی <strong>کے</strong> حوالہ سے کنایتہ جالد <strong>کا</strong> لفظ<br />

استعمال میں اتاہے ۔<br />

انعام ہللا یقین نے زندگی کی کھٹورتاکو سامنے رکھتے<br />

ہوئے جالد <strong>کے</strong> کردار کوواضح کیاہے کہ وہ زندگی <strong>کے</strong><br />

مصائب واالم سے نجات دالتاہے۔ اس لئے خون بہااسی کو<br />

پہنچنا چاہ یے<br />

چھٹے ہم زندگی کی قی د سے اور داد کو پہنچے<br />

وصی ت ہے ہمارا خوں بہا جالد کو پہنچے<br />

یقین<br />

دکنی فلک کو جالد <strong>کا</strong> نام دے رہے ہیں۔ تاہم انسان <strong>کا</strong><br />

‏’’غمزہ ئ خون ریز‘‘‏ کی تاب وہ بھی نہی ں ال سکتا<br />

زخمی ہے جالدِ‏ فلک تجھ غمزہئ خوں ری ز <strong>کا</strong><br />

ہے شور دریا می ں سدا تجھ زلف عنبربےزر <strong>کا</strong>


یول<br />

سید عبدالولی عزلت <strong>کا</strong> کہناہے جب زندگی سے نجات کی<br />

خواہش ہوتی ہے جالد زندگی سے نجات نہیں دالتا بلکہ<br />

اذیت میں مبتال کودیکھتا رہتاہے ۔<br />

نیم بسمل ہوا میں تیغ نگہ تب رکھ ل ی<br />

کس بھلے وقت برا ہوگی ا جالد کہ بس<br />

عزلت<br />

شہید <strong>کے</strong> نزدیک جال د بےاعتبارا ہے۔ ارزو <strong>کا</strong> قتل کرتا<br />

ہے۔ مارنے سے زیادہ دکھ میں دیکھ کر اسودگی محسوس<br />

کرتا ہے<br />

شہید اخر مقدر تھا ہمیں حسرت میں جی دی<br />

ہمارے سر پر اکر پھر گیا جالد ی اقسم<br />

\ تا<br />

t<br />

شہ ید<br />

<strong>غالب</strong> جالد <strong>کے</strong> حوالہ سے محبوب کی اذیت پسندی اجاگر<br />

کرتے ہیں ۔ جالد بڑی بے دردی سے ماررہاہے۔ وہ<br />

توسنگدل ہے ہی،‏ محبوب کہے جارہاہے ‏’’اور مارو،‏ اور


مارو‘‘۔ محبوب کو اذیت نواز سے واسطہ ہے ۔ کہتے ہیں<br />

جالد کی بےرحمی <strong>کے</strong> سبب جان ہی کیوں نہ چلی جائے<br />

لیکن محبوب کی اواز ‏’’اور مارو‘‘‏ <strong>کا</strong> ن میں پڑتی رہنی<br />

چاہیے۔محبوب رحم سے کوسوں دور ہے جبکہ مضروب<br />

کو محبوب کی عدم تسکین لطف دے رہی ہے<br />

مرتا ہوں اس ا واز پہ ہر چند سراڑ جائے<br />

جالد کو لیکن وہ کہے جائی ں کہ ہاں اور<br />

حسن<br />

ہللا تعالی نے انسان کی سرشت میں ذوقِ‏ جمال رکھ دیا<br />

ہے۔ اس لئے حسن شناسی کی تاریخ انسان <strong>کے</strong> ساتھ چلتی<br />

ہے۔ جس <strong>کا</strong> ثبوت ہابیل <strong>کا</strong> قتل ہے۔ ‏’’حسن‘‘‏ اپنا الگ سے<br />

وجود نہ رکھتے ہوئے انسانی زندگی میں بڑے معتبر اور<br />

متحرک کردار <strong>کا</strong> حامل ہے۔ حسن نے بال امتحان کسی کو<br />

اپنا نہیں بنایا ۔ اردو غزل میں حسن <strong>کے</strong> کردار کو مختلف<br />

حوالوں اور زوایوں سے اجاگر کیاگیا ہے ۔<br />

شاہ ولی ہللا ولی<br />

<strong>کا</strong> کہنا ہے حسن ایک معجزہ ہے۔ شکتی<br />

دیتا ہے،‏ روشنی پھی التا


یول<br />

یعن<br />

خوبی اعجاز حسن ِ ی ار گر انشا کروں<br />

بے تکلف صفحہء<strong>کا</strong>غذ ید بی ضاکروں<br />

دمحم عظیم الدین عظیم <strong>کے</strong> مطابق حسن اگ ہے جواس <strong>کے</strong><br />

قریب ہوتاہے جل کر کباب ہوجاتاہے ۔<br />

گلشن می ں جب وہ گل رومستِ‏ شراب ہوئے<br />

اس حسن ِ اتشی ں پر بلبل کباب ہوئے<br />

، خوبصورتی<br />

عظ یم<br />

انسان نیکی اورہم اہنگی کی جانب فطری<br />

میالن رکھتاہےاس لئے لفظ ‏’’حسن اس <strong>کے</strong> تمام حواس<br />

بیدا ر کردیتا ہے اور اپنے ارد گرد اس کو تالشنے لگتاہے۔<br />

اشیا <strong>کے</strong> مثبت پہلوؤں پر غور کرتاہے۔ اشےائ مےں<br />

خوبیاں تالش کر تاہے پھر اسے بدبو دار کوڑا بھی برا<br />

نہیں لگتا اور کراہت کی حیثیت الی ہوکر رہ جاتی ہے ۔<br />

حسن درحقیقت تحریک <strong>کا</strong> دوسرانام ہے۔ ‏’’حسن‘‘‏ ظاہر میں<br />

کچھ ہے اور بعض اوقات اپنی کریہہ ہےئت <strong>کے</strong> سبب وجہ<br />

ء امتحان ٹھہرتاہے ۔جونہی ظاہری لبادہ چاک ہوتاہے<br />

‘‘


افادے <strong>کا</strong> دروازہ کھل جاتاہے ۔یہ بھی ممکن ہے ظاہر جاذ ‏ِب<br />

نظر ہو جبکہ باطن کریہہ اور قابل نفرت بھی نہ ہو<br />

۔ حسن اپنی سرشت میں مقناطیست رکھتاہے اس لئے وہ<br />

متاثرہ کرتاہے تاہم ہرکسی پر اس <strong>کے</strong> فیوض <strong>کے</strong> خزانے<br />

نہیں کھلتے ۔<br />

‏:بقول غالم رسول مہر<br />

خود کوسادہ اور بے خبر ظاہرکرتاہے لیکن اپنی اصل میں<br />

بڑا ہوشیار اور پر<strong>کا</strong>ر ہوتاہے۔ لوگوں <strong>کے</strong> حوصلے ہمت<br />

اور صبر واستقال ل <strong>کا</strong> امتحان لےتاہے<br />

<strong>غالب</strong> کی<br />

۔ زبانی سنیئے<br />

سادگی و پر<strong>کا</strong>ری وبے خودی وہشیار ی<br />

حسن کو تغافل میں جرات ازماپا یا<br />

دشمن<br />

نفرت اور محبت انسانی زندگی <strong>کا</strong> حصہ رہے ہیں۔ جہاں<br />

انسان،‏ انسان <strong>کے</strong> دکھوں <strong>کا</strong>مداوا کرتاچالارہاہے وہاں


ینئ<br />

انسان دشمنی بھی عروج پر رہی ہے۔ چونکہ تضاد انسان<br />

کی فطرت <strong>کا</strong>جزو ہے اس لئے دوستی <strong>کے</strong> ساتھ دشمنی<br />

ایسی کوئی اور انوکھی چیزنہیں ہے۔ یہ لفظ برصغیر<br />

کی مختلف زبانوں میں اسی طرح یاتھوڑی بہت تبدیلی <strong>کے</strong><br />

ساتھ رائج چال اتاہے۔ یہ لفظ ڈر خوف اور نفرت <strong>کے</strong> ساتھ<br />

ساتھ تحفظ ذات <strong>کا</strong>احساس بھی پیداکرتاہے ۔<br />

شاہ نصیر <strong>کے</strong> نزدیک کسی سبب <strong>کے</strong> باعث دشمنی جنم<br />

لیتی ہے<br />

مجنوں سے ہے جو ناقہ ء لیلی کو دوست ی<br />

دشمن ہے اس لئے وہ بیاباں می ں خار <strong>کا</strong><br />

شاہ نص یر<br />

مرزا مظہر جانِ‏ جاناں ایسے دوست جس <strong>کا</strong> کردار بدترین<br />

دشمن <strong>کا</strong> ساہو،‏ <strong>کے</strong> لئے دشمن <strong>کا</strong> لفظ استعمال کرتے ہیں ۔<br />

جو تونے کی سو دشمن بھی نہی ں دشمن سے کرتاہے<br />

غلط تھا تجھ کو جوہم جانتے تھے مہرباں اپ نا<br />

جاناں


یوہ<br />

رقیب <strong>کے</strong> لئے بھی ‏’’دشمن ‘‘<br />

ہی<br />

لفظ استعمال میں التے<br />

ہیں ۔<br />

<strong>کے</strong>وں نہےں اٹھتی قیامت ماجراکی اہے<br />

ہمارے سامنے پہلو میں وہ دشمن <strong>کے</strong> بیٹھے ہ یں<br />

‏’’دشمن <strong>غالب</strong> ‘‘<br />

<strong>کے</strong> ایک دوسرے کردار پر روشنی ڈالتے<br />

ہیں<br />

عشق میں بیدادرشک ‏ِغی ر نے مارا مجھے<br />

کشتہءدشمن ہوں ا خر گرچہ تھا بےمار دوست<br />

بالشبہ رقیب سے بڑ ادشمن کون ہوگا۔<br />

رقابت قطرہ قطرہ<br />

نچوڑتی ہے ۔<br />

دوست<br />

لفظ دوست تہذیبی اور ثقافتی تاریخ میں بڑا مضبوط اور<br />

توانا حوالہ رکھتاہے۔ انسانوں نے انسانوں کو اور قوموں


یات<br />

نے قوموں کو معامالت ‏ِحیات <strong>کے</strong> ضمن میں،‏ وقت پڑنے<br />

پر یا پھر من <strong>کا</strong> بوجھ ہل<strong>کا</strong> کرنے <strong>کے</strong> لئے دوست بنایاہے۔<br />

ان پر اعتماد کیا ہے ان سے معاشی لین دین رکھاہے۔ ان<br />

سے خونی رشتے استوار کئے ہیں ۔ان <strong>کے</strong> لئے خون بہایا<br />

ہے۔ تاہم اعتماد جیت کر برباد کرنے والے بھی دوست ہی<br />

رہے ہیں ۔ اس منفی حقیقت <strong>کے</strong> باوجود لفظ ‏’’دوست<br />

اپنے دامن میں وسعت،‏ توانائی ، خلوص و محبت اور<br />

پاکیزگی رکھتا ہے۔ انسان <strong>کا</strong> اعتمادبحال کرتاہے۔ حوصلے<br />

اور تسلی <strong>کا</strong> سبب بنتاہے۔ یہ لفظ یقینا بڑاخوبصورت اور<br />

اعصاب پر مثبت اثرات مرتب کرنے اور نفسی تسکین<br />

فراہم کرنے واال ہے ۔<br />

دوست <strong>کا</strong> کردار ہمیشہ سے متحرک رہاہے۔ خدااور معشوق<br />

<strong>کے</strong> لئے بھی یہ استعمال میں اتا رہاہے۔ اردو غزل سے<br />

چند مثالی ں مالحظہ ہوں<br />

‘‘<br />

میر حیدر الدین <strong>کا</strong>مل <strong>کا</strong> کہنا ہے کہ دوست،‏ دوست کی<br />

خطاؤں سے درگذرکرتاہے اور اسے معاف کردیتاہے۔<br />

دوست <strong>کا</strong>یہ کردار سچی اور سُچی دوستی کی نشاندہی<br />

کرتاہے ۔<br />

دوست بخشے گ ا دوست سب <strong>کے</strong> سب<br />

گرچہ عاصی ہوں اس <strong>کا</strong> اسی ہوں


<strong>کا</strong>مل<br />

دوستی<br />

<strong>کا</strong>یہ پیمانہ ہللا تعالی کی ذاتِ‏ گرامی پر فٹ اتاہے<br />

۔تاہم دوستی ایسے حوالوں کی متقاضی ہے ۔<br />

داغ دہلوی<br />

کہتے ہیں دوست ‏،دوست <strong>کے</strong> لئے مخبری<br />

<strong>کا</strong>فریضہ بھی انجام دی تاہے<br />

قسم دے کر انہی پوچھ لو تم رنگ ڈھنگ ان <strong>کے</strong><br />

تمہاری بزم میں کچھ دوست بھی دشمن <strong>کے</strong> بیٹھے ہ یں<br />

داغ<br />

مرزامظہر جان ‏ِجاناں <strong>کے</strong> مطابق دوست اپنابناکر لو ٹ<br />

لیتے ہ یں<br />

ہمارے ساتھ سے یہ دلی بھی بھاگالے <strong>کے</strong> جاں اپنا<br />

ہم اس کو جانتے تھے دوست مہرباں اپنا<br />

جاناں<br />

خواجہ درد <strong>کے</strong> نزدیک دوستوں کی دوستی بھی مقدر سے<br />

میسر اتی ہے۔ نصیب یاوری نہ کرے تو دوست دشمن بن


۔ جاتے ہیں<br />

یاوری دیکھیے نصیبوں ک ی<br />

دوست بھی ہوگئے مرے دشمن<br />

درد<br />

‏:<strong>غالب</strong> <strong>کا</strong> انداز بیاں اور بقول شاداں بلگرام ی<br />

دوست ہمیشہ ہمدردی اور غمخواری کرتے ہیں تاہم ’’<br />

دوست <strong>کا</strong>نوں <strong>کے</strong> کچے اور چغلی سن کر بدگمان بھی<br />

ہوجاتے ہ یں۔<br />

دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے ک یا<br />

زخم <strong>کے</strong> بھرانے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے ک یا<br />

ایک دوسری<br />

جگہ کہتے ہ یں<br />

تاکرے نہ غمازی کر لی اہے دشمن کو<br />

دوست کی ش<strong>کا</strong>یت می ں ہم نے ہم زباں اپنا


یائ<br />

رق یب<br />

‘‘<br />

کسی معاملے کی پوشیدگی <strong>کے</strong> ساتھ ساتھ من <strong>کا</strong> بوجھ<br />

ہل<strong>کا</strong> کرنے،‏ صالح ومشورہ،‏ واسطوں اور رابطوں <strong>کے</strong><br />

لئے کسی ‏’’اپنے‘‘‏ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اکثر و بےشتر<br />

‏’’یہ اپنے نقصان <strong>کا</strong> سبب بنتے ہیں ۔ جوپہلے سے رقابت<br />

رکھتا ہو اس سے نبر دازما ہونا،‏ مشکل <strong>کا</strong>م نہیں ہوتا تاہم<br />

خفیہ رقابت نقصان <strong>کا</strong> موجب بنتی ہے۔ جب بھی اس قسم<br />

<strong>کے</strong> کردار <strong>کا</strong>حوالہ سامنے اتاہے ۔ نفرت اور کراہت <strong>کے</strong><br />

جذبات ابھرتے ہیں اس لئے ایسے کردار سے خوف<br />

کھانافطری سی بات ہے ۔ ایک ہی محبوب <strong>کے</strong> دوعاشق<br />

اپس میں رقیب ہوتے ہ یں۔<br />

اردو غزل میں سے چند مثالیں مالحظہ فرمائ یں<br />

شاہ ولی ہللا اشتیاق نے دعوی باندھنے اور رائے دہندہ<br />

<strong>کے</strong> معنوں میں یہ لفظ استعمال کی اہے<br />

نہ چھوڑا ماربھی کھاکر گزر گلی <strong>کا</strong>تر ی<br />

رقیب کو مرے دعوی ہے بے حی <strong>کا</strong><br />

دمحم عظیم الدین عظیم نے گھات میں رہنے وال،‏ نشانہ ہدف<br />

بنانے واال،‏ جس سے خوف اتاہو <strong>کے</strong> معنوں میں استعمال<br />

کی اہے


چھپ دیکھتا ہوں تجھ کو رقی باں <strong>کے</strong> خوف سے<br />

مکھ میں نین ‏،نین میں نظر،‏ میں نظر می ں ہوں<br />

عظ یم<br />

خواجہ درد نے رقیب کو حاسد <strong>کے</strong> معنی<br />

پہنائے ہ یں۔<br />

ا نسومرے جوانہوں نے پونچھے<br />

کل دیکھ رقیب جل گ یا<br />

درد<br />

چندا نے ر<strong>کا</strong>وٹ ڈالنے واال،‏ حائل ہونے واال <strong>کے</strong> معنوں<br />

میں نظم کی اہے<br />

دیکھا چمن می ں واسطے بلبل <strong>کے</strong> جابجا<br />

ہر گز نہیں رقیب سواکوئی خار گل<br />

چندا<br />

میر سعادت علی سعادت <strong>کے</strong> نزدیک رقیب وہ نادان کردار<br />

ہے جس کی نادانی <strong>کے</strong> سبب کسی دوسرے <strong>کا</strong> <strong>کا</strong>م سنور


یکئ<br />

جاتاہے ۔<br />

<strong>غالب</strong> انتہائی قرابت دار اورہم راز کو رقیب <strong>کا</strong> نام دیتے<br />

ہیں ۔ قرابت <strong>کے</strong> سبب رقابت میں مبتال ہوکر دشمنی پر<br />

اتراتاہے ۔ خیانت <strong>کا</strong> مرتکب ہوتاہے ۔ بھروسہ اور یقین<br />

سے فائدہ اٹھاکر نقصان پہنچاتاہے<br />

ذکر اس پری وش <strong>کا</strong> پھر بی اں اپنا <strong>غالب</strong><br />

بن گیا رقیب ا خر تھا جوراز داں اپنا<br />

ساق ی<br />

لفظ ‏’’ساقی ‘‘ شراب پالنے والے <strong>کے</strong> لئے بوال جاتاہے۔<br />

اس سے ہادی،‏ پیرو مرشد ، حضور،‏ محبوب ، معشوق<br />

وغیرہ معنی بھی مراد لئے جاتے ہیں ۔<br />

یہ لفظ عوامی نہیں لیکن اردو اور برصغیر کی دوسر<br />

ی زبانوں کی شاعری میں نظم ہوتا ارہا ہے ۔ یہ لفظ اہل<br />

ذوق پہ رنشہ کی کیفیت طاری کر دیتاہے۔ کسی سابقے<br />

یاالحقے <strong>کے</strong> جڑنے سے کسی مخصوص کردار کی طرف<br />

توجہ مبذول کرواد یتا ہے۔ مرکب کی صور ت میں دماغ پر<br />

مختلف نوعیت <strong>کے</strong> اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اردو شاعری<br />

میں لفظ ساقی <strong>کے</strong> استعمال کی چند مثالی ں مالحظہ ہوں


ینب<br />

بھگونت رائے راحت اس سے مہر ومحبت سے فیض یاب<br />

کرنے واال مراد لیتے ہ یں<br />

رہوں<br />

پال مجھ کو ساقی محبت <strong>کا</strong> ج ام<br />

یاد میں اوس کی سرخوش خرام<br />

راحت<br />

پیرمرادشاہ <strong>کا</strong> کہتے ہیں وہ جس کی شراب حالل اور اس<br />

<strong>کے</strong> عنایت کئے گئے جام میں نبی <strong>کا</strong> جمال نظر اتاہو۔<br />

ساقی بمعنی تقیسم کنندہ،‏ اس کی می شرعی جواز رکھتی<br />

ہو<br />

پالمجھ کو ساقی شرابِ‏ حالل<br />

<strong>کا</strong> نظر اوے جس می ں جمال<br />

پی ر مراد شاہ<br />

دمحم صابر محمود ساقی سے عنایت کرنے واال،‏ فیض یاب<br />

کرنے واال ‏،پر جوش عنایت واال مراد لیتے ہ یں<br />

دیتا ہے بادہ ساقی مینائے اتشی<br />

رکھتاہے مست دلی کوں گلرنگ بےغشی<br />

سوں<br />

سوں<br />

صابر


ذوق <strong>کے</strong> نزدیک وہ جوکسی<br />

اور <strong>کے</strong> اشارے سے بانٹ کر<br />

تاہو<br />

ساقی<br />

کرتاہے ہالل ابروئے پُرخم ہے اشارہ<br />

کو کہ بھردے بادے سے کشتی طالئ ی<br />

عبدالحی<br />

تاباں اس کو ساقی<br />

ذوق<br />

مانتے ہیں جو تقاضوں سے<br />

باال تر ہوکر پالئے<br />

ایمان ودیں سے تاباں مطلب نہی ں ہے ہم کو<br />

ساقی ہو اور مے ہومی نا ہو اور ہم ہوں<br />

تاباں<br />

<strong>غالب</strong> <strong>کا</strong> اپنا ہی رنگ ہے۔ ایسا کردار جواپنی فیاضی پر<br />

اِتراتاہولیکن مےخوار کی بالنوشی اس <strong>کا</strong> غرور خاک میں<br />

مالکر رکھ دے<br />

لے گئی ساقی کی نخوت،‏ قلزم اشامی مر ی<br />

موج مے کی اج رگِ‏ مینا کی گرد ن میں نہ یں


ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ ساقی وہ ہے جوہر انے<br />

والے کو پالئے۔ خواہ اس کی مرضی ہو یانہ ہو ۔<br />

گویاہر حالت می ں پالئے<br />

میں اور بزم مے سے<br />

گرمیں نے کی تھی<br />

یوں تشنہ <strong>کا</strong>م ا ئوں<br />

توبہ،ساقی کوکی اہوا<br />

ایک تیسری جگہ ‏’’کوثر‘‘‏ <strong>کا</strong> الحقہ بڑھاکر جناب امیر)ع(‏<br />

کی ذاتِ‏ عالیہ مراد لیتے ہیں کہ ان کی ذات ایسی نہیں<br />

جوبخل سے <strong>کا</strong>م لے<br />

کل <strong>کے</strong> لئے کر اج نہ خست شراب م یں<br />

یہ سوئے ظن ہے ساق ‏ِی کوثر <strong>کے</strong> باب م یں<br />

ستمگر<br />

اردو غزل میں یہ لفظ زیادہ تر محبوب <strong>کے</strong> لئے مستعمل<br />

رہاہے ۔<br />

یہ لفظ سنتے ہی بڑا ظالم ، بات نہ سننے واال،‏ ضدی،‏ خود<br />

پسندمحض نازنخرے واال محبوب،‏ انکھوں <strong>کے</strong> سامنے


گھوم جاتاہے۔ امےر شہر <strong>کے</strong> لئے بھی یہ لفظ نامناسب<br />

نہیں سمجھا گیا ۔<br />

رائے ٹیک چند بہارنے اس کردار سے کچھ ایسی ہی<br />

خوبیاں منسوب کی ہیں<br />

مکمل گرفت میں لی نے واال<br />

متاثر کرنے کی<br />

طاقت رکھنے واال<br />

جوبالوجہ قتل )<br />

‏)گرویدہ<br />

کرتاہے<br />

کرئے ہے یہ ستمگر قتل بے تقصیر کیا کہی جے<br />

مرنا ہے تقدیر کیاکہی جے<br />

بہار<br />

یوں<br />

جواُن <strong>کے</strong> ہاں عبدالحی<br />

تاباں نے اس سے ایساکردار مراد لیا ہے جوظالم<br />

تو ہے لیکن اہ وزاری سے متاثر بھی ہوتاہے<br />

اب مہرباں ہو اہے تاباں تراستمگر<br />

اہیں تیری کسی نے شاید جاکر سنائیاں ہ یں<br />

تاباں


<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> نزدیک یہ ایسا کردار ہے جس <strong>کے</strong> ظلم وستم کی<br />

کوئی حدنہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ستم <strong>کے</strong> ش<strong>کا</strong>ر<br />

کی موت پر بھی اکتفا نہیں کرتا۔ وہ اس سے بڑھ کر ستم<br />

<strong>کا</strong>خواہش مند ہوتاہے۔ نہ مرنے دیتاہے اور نہ جی نے<br />

می ں نے چاہا تھا کہ اندوہِ‏ وفا سے چُھوٹوں<br />

وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا<br />

<strong>غالب</strong> اس امر<br />

<strong>کا</strong> اعالن کرتے ہیں کہ ستمگر سے اچھائی<br />

اور بہتری کی امید نہیں کی جاسکت ی<br />

وہ دن بھی ہوکہ اس ستمگر سے<br />

ناز کھی نچوں بجائے حسرت ناز<br />

ان <strong>کے</strong> نزدیک<br />

یہ کردار طعنہ زنی کرتارہتاہے کہ کچھ کھا<br />

کر مرکیوں نہی ں جاتے<br />

زہر ملتا ہی نہی ں مجھ کو ستمگر ورنہ<br />

کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں<br />

شمع


روشنی کی ضرورت واہمیت سے کبھی بھی ان<strong>کا</strong>ر نہیں<br />

کیاگیا ۔ شمع ہمیشہ سے بہتر <strong>کا</strong>رگزاری <strong>کا</strong> وسیلہ رہی ہے۔<br />

روشنی <strong>کے</strong> کئی معنی لئے جاتے ہیں ۔ مثالً‏<br />

۔<br />

چراغ<br />

ہدایت ، ہدایت دی نے واال<br />

رہنمائی رہنما<br />

جومحفل ‏،معاشرہ<br />

یا تہذیب<br />

کو اپنی<br />

دانش اور حکمت سے<br />

چار چاند لگا دے<br />

‘‘<br />

خوبصورت محبوب ، جس پر ای ک زمانہ مرتاہو<br />

عادل حاکمِ‏ وقت<br />

شمع روشنی <strong>کا</strong> ذریعہ ہے روشنی براہ راست بصارت<br />

سے تعلق رکھتی ہے۔روشنی جتنی بہتر،‏ سازگار،شفاف اور<br />

ضرورت <strong>کے</strong> مطابق ہوگی بصارت کی <strong>کا</strong>رگزاری اتنی ہی<br />

بہتر اور واضح ہوگی۔ مشاہدے <strong>کا</strong> واضح اور شفاف ہونا<br />

ادراک <strong>کے</strong> ابہام دورکرنے <strong>کا</strong> سبب بنتاہے۔لفظ شمع اردو<br />

غزل میں بطور کردار،‏ عالمت،‏ استعارہ،‏ مشبہ بہ بکثرت


یعن<br />

میر عبدالحی<br />

تاباں نے نرم دلی<br />

استعمال ہواہے ۔<br />

کو موضوع گفتگو بنای ا ہے<br />

محفل <strong>کے</strong> بیچ سن کر مرے سوز دلی <strong>کا</strong>حال<br />

بے اختیار شمع <strong>کے</strong> ا نسو ڈھلک پڑے<br />

تاباں<br />

گویا شمع وہ کردار ہے جوکسی دوسرے <strong>کا</strong> درد اپنے<br />

سینے میں محسوس کر<strong>کے</strong> دکھی ہوتاہے۔ بطور استعارہ<br />

ہمدرد اور نرم دلی شخص معنی لئے جاسکتے ہیں ۔<br />

حافظ عبدالوہاب سچل <strong>کے</strong> مطابق شمع وہ کردار ہے جس<br />

پر بال کہے ی اپ ہی سے اس <strong>کے</strong> چاہنے والے جان تک<br />

وار دیتے ہیں ۔ شمع <strong>کے</strong> ہاتھوں قتل ہوکر فخر اور خوشی<br />

محسوس کر تے ہیں۔ انہیں اپنی موت پر افسوس نہیں<br />

ہوتا۔ حسین پر قربان ہونے والے خوش تھے اور اسے<br />

اپنی سعادت سمجھتے تھے<br />

اس شمع پر پتنگے،‏ ائے ہیں کی ا اچھل کر<br />

ترسیں گے وہ نہ ہرگز جن کو ملی مم یات


غالم مصطفے<br />

خاں<br />

سچل<br />

یکرنگ شمع <strong>کا</strong> تعلق کر بال سے<br />

جوڑتے ہ یں۔<br />

اندھیر ے جہاں میں کہ اب شامی وں <strong>کے</strong> ہاتھ<br />

ہے سربری دہ شمعِ‏ شبستان ِ کربال<br />

ی کرنگ<br />

سودا نے بطور مشبہ بہ استعمال کر<strong>کے</strong> شمع <strong>کے</strong> ہررنگ<br />

میں جلنے کو واضح کی ا ہے<br />

نہیں معلوم اس سینے میں کیاجوں<br />

شمع جلتاہے<br />

دھواں نو ک زبان سے بات کرنے می ں نکلتاہے<br />

سودا<br />

<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> ہاں شمع بطور استعارہ استعمال ہوئی<br />

ہے<br />

کیا شمع <strong>کے</strong> نہیں ہی ں ہواخواہ اہلِ‏ بزم<br />

ہو غم ہی جان گداز تو غمخوار کیا کر یں


شوق<br />

شوق ایک احساس اور جذبے <strong>کا</strong> نام ہے۔ اس <strong>کا</strong> کوئی t<br />

مادی وجود نہیں چونکہ اس <strong>کا</strong> تعلق انسان او راس کی<br />

<strong>کا</strong>رگزاری سے ہے اس لئے اس <strong>کا</strong> وجود انسانی معاشرت<br />

میں بڑا مستحکم ہے ۔ یہی نہیں اس <strong>کے</strong> حوالہ سے<br />

انسان میں تحریک پیدا ہوتی ہے اوروہ ، وہ کچھ کر<br />

جاتاجس <strong>کے</strong> متعلق سوچا بھی نہیں جاسکتا۔’’شوق‘‘‏<br />

قوموں کو اسمان کی بلندیوں سے ہمکنار کرتا۔ منفی<br />

شوق پتال میں بھی ٹکنے نہیں دیتا ۔ اس لئے شوق <strong>کے</strong><br />

کرداری حوالوں کوکسی بھی صور ت میں نظر انداز نہیں<br />

کیا جاسکتا۔ اردو غزل میں ‏’’شوق ‏‘‘بڑا توانا کردار ہے ۔<br />

: چند مثالی ں مالحظہ ہوں<br />

میر حیدر الدی ن ابو تراب <strong>کا</strong>مل<br />

شوق کو بے کلی،‏ بے چینی اور ناگزیریت <strong>کا</strong> سبب قرار<br />

دیتے ہ یں۔<br />

خط ترے <strong>کا</strong> شوق اکھی اں <strong>کا</strong> لکھا<br />

ہرن کوں سبزے بنا چارا نہ یں


<strong>کا</strong>مل<br />

میر محمود صابر <strong>کا</strong> کہنا ہے کہ یہ انکھ کو تجس اور<br />

جستجو فراہم کرنے <strong>کا</strong> ذریعہ وسی لہ ہے<br />

زحیرت دیدہءحیراں نہ کھولوں غی ر <strong>کے</strong> مکھ پر<br />

چو ائےنہ بچشمِ‏ شوق دیکھوں گر نگار اپنا<br />

صابر<br />

لعل بہا گوہر <strong>کے</strong> نزدیک<br />

‏’’شوق‘‘‏ شخص کوہمہ وقت<br />

مصروف رکھتاہے ۔<br />

مژدہ اے شوق ہم اغوش کہ جاگے ہیں نص یب<br />

لے <strong>کے</strong> انگڑا وہ کہتے ہیں کہ نیند ائی ہے<br />

گوہر<br />

عالمہ حالی <strong>کے</strong> خیال میں ‏’’شوق‘‘‏ کبھی ساتھ نہیں<br />

چھوڑتا بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوتاہے<br />

شوق بڑھتا گی ا جوں جوں <strong>کے</strong> اس شوخ سے ہم<br />

یہ سبق وہ ہے کہ بھولے سے سوا ی اد رہے


یاب<br />

یاب<br />

یچل<br />

ینئ<br />

حال ی<br />

تالش اور جستجو <strong>کا</strong> مادہ روز اول سے انسانی فطرت میں<br />

رکھ دیاگیا ہے ۔ پالینے اور کھوج ن<strong>کا</strong>لنے کی دھن اسے<br />

بڑے سے بڑے خطرے کی اگ میں جھونک دیتی ہے۔<br />

شوق منہ زور علتِ‏ وقوع اور حرکت <strong>کا</strong>سبب ہے۔حواس<br />

مشاہدے میں اضافہ کرتے ہیں جبکہ مشاہدہ ، حواس کی<br />

خوبیداہ توانائیاں بےدار کرتاہے ۔<br />

یہ دونوں ترقی پذیر ہیں۔ نا<strong>کا</strong>می کی صور ت میں <strong>کا</strong>می<br />

<strong>کے</strong> لئے جبکہ <strong>کا</strong>می کی صورت میں مزید <strong>کا</strong>میابیوں<br />

<strong>کے</strong> لئے شوق شخص کو دوڑائے رکھتاہے۔ انسان کی<br />

جتنی عمر ہے ‏’’شوق‘‘کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے۔<br />

حرف ش <strong>کے</strong> ساتھ ‏’’ارتعاش‘‘‏ وابستہ ہے اس لئے انسانی<br />

سماج خوب سے خوب تراور ہر خوب کی اش<strong>کا</strong>ل اور<br />

نئے روپ <strong>کا</strong>متمنی رہتاہے۔اس طرح اس فیلڈ میں<br />

نکھار،جدت اور بہتری پیداہوتی جاتی ہے۔ دریافت کی<br />

رہیں وا ہوتی رہتی ہیں ۔<br />

<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> ہاں یہ لفظ نظر انداز نہیں ہوا۔ ان <strong>کے</strong> نزدیک<br />

شوق ر<strong>کا</strong>وٹیں دور کر دیتا ہے۔ بقول شاداں بلگرامی <strong>غالب</strong><br />

<strong>کے</strong> نزد یک


شوق نے بند نقاب حسن کھول دئیے ہیں اوردید کی راہ<br />

میں کوئی ر<strong>کا</strong>وٹ رہنے نہیں د ی<br />

گویا شوق بالواسطہ کھوجنے <strong>کا</strong> موجب بنتا ہے۔ انکشات<br />

<strong>کے</strong> درواز ے کھولتاہے<br />

واکر دیئے ہی ں شوق نے بند نقابِ‏ حسن<br />

غیر از نگا ہ اب کوئی حائل نہی ں رہا<br />

صاحب<br />

عمومی بول چال <strong>کا</strong> لفظ ہے جوکسی شخص <strong>کے</strong> احترام یا<br />

پھر اپنے سے باال افسر <strong>کے</strong> لئے بوال جاتاہے۔ اردو<br />

شاعری میں یہ لفظ مختلف حوالوں سے مستعمل چال<br />

اتاہے۔ پیر مراد شاہ الہوری نے ‏’’جناب‘‘‏ <strong>کے</strong> معنوں میں<br />

استعمال ہے<br />

جو پونچھا تو بوال وہ خواجہ سرا<br />

کہ صاحب ی ہ کل ہے بڑامسخرہ<br />

روحل فقیر’’صاحب‘‘‏ سے ذات باری<br />

تعالی<br />

مراد لیتے ہ یں


تیراصاحب تجھ ہی مانہیں،‏ تم تجو اور ا س<br />

سر دئے صاحب ملے ‏،اچرج اچنبا ہاس<br />

دیوان صورت سنگھ صورت نے متحرک <strong>کے</strong> ‏’’حامی گیر ‘‘<br />

<strong>کے</strong> لئے لفظ صاحب استعمال <strong>کے</strong>اہے<br />

اپ صاحب <strong>کا</strong>م <strong>کے</strong> لئے <strong>کا</strong>م کی <strong>کے</strong>سی خبر<br />

<strong>کا</strong>م سیں تھا<strong>کا</strong>م اب یارب کدھر جائوں ہم یں<br />

<strong>غالب</strong> نے<br />

ی ہ لفظ محبوب <strong>کے</strong> لئے بوالہے<br />

ائےنہ دی کھ اپنا سا منہ لے <strong>کے</strong> رہ گئے<br />

صاحب کو دلی نہ دی نے پہ کتنا غرور تھا<br />

صی اد<br />

صیادعمومی بول چال <strong>کا</strong>لفظ نہیں تاہم اردو غزل میں اس<br />

<strong>کا</strong> استعمال بکثرت پڑھنے کوملتاہے۔ شاعری <strong>کا</strong> ذوق<br />

رکھنے والوں <strong>کے</strong> ذہنوں میں صیاد <strong>کے</strong> حوالہ سے ظالم


یدل<br />

یعن<br />

اور بے رحم کردار ابھرتاہے۔ یہ کردار محبوب <strong>کے</strong> عالوہ<br />

عالمتی بھی استعمال ہوتا چالاتاہے۔ رائے ٹیک چند بہار<br />

<strong>کے</strong> نزدیک یہ ایسا بے رحم کردار ہے جو اپنے ش<strong>کا</strong>ر کی<br />

کیفی ت سے الپرواہ رہتاہے<br />

تڑپتا ہے پڑا نیم بسمل خاک وخوں میں دل ی<br />

عقوبت ہے جو کچھ اس صید پر ، صیاد کی ا جانے<br />

نواب امیر خاں عمدۃ الملک انجام <strong>کا</strong>کہنا ہے ایسا ش<strong>کا</strong>ری<br />

جو بھاگ جانے <strong>کا</strong> موقع ہی نہ دے ی چاک وجوبند<br />

ش<strong>کا</strong>ر ی<br />

ٹک تو فرصت دے کہ ہولیں رخصت اے صی اد ہم<br />

مدتوں اس باغ <strong>کے</strong> سائے میں تھے ا باد ہم<br />

بھگونت رائے راحت <strong>کے</strong> نزدیک جو ش<strong>کا</strong>ر صیاد کی گرفت<br />

سے نکل جاتاہے وہ دوبارہ قابو میں نہیں اتاگویا ایسا ال<br />

پرواہ ش<strong>کا</strong>ری جس کی گرفت سے ش<strong>کا</strong>ر نکل بھی جاتاہے۔<br />

کہ جودام سے مرغ ا زاد ہو<br />

کہاں پھر وہ تسخیر صی ادہو


یدل<br />

<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> ہاں اس کردار کی<br />

<strong>کا</strong>رفرمائی<br />

مالحظہ ہو ۔<br />

ہوں گرفتار ِ الفت ِ صی اد<br />

اور نہ باقی ہے طاقتِ‏ پرواز<br />

صیاد بمعنی وہ جو اپنی محبت میں گرفتار کرلے ۔<br />

اغاز باقر،‏ نظم طباطبائی اور بے خود موہانی <strong>کے</strong> حوالہ<br />

کہتے ہیں<br />

تعلقات ِ دنیا ، جو اسیر کر لیتے ہ یں<br />

ظالم<br />

اردو غزل میں بڑا عام استعمال ہونے واال لفظ ہے۔یہ لفظ<br />

و دماغ پر ناخوشگوار اثرات مرتب کرتاہے ۔ اس لفظ<br />

<strong>کے</strong> ہر نوعیت <strong>کے</strong> مفاہیم اعصابی تنائو اور نفرت <strong>کا</strong>باعث<br />

بنتے ہیں ۔ مثالً‏<br />

معاش <strong>کا</strong> قاتل<br />

جھوٹااورجھوٹ <strong>کا</strong> ساتھ دی نے واال


دھوکہ اور دغا سے <strong>کا</strong>م ن<strong>کا</strong>لنے واال<br />

ضرورت پڑنے پر ساتھ چھوڑ دی نے واال<br />

مفادات کو اپنی<br />

ذات تک محدود کرنے واال<br />

انسانی<br />

احساس کو مجروح کرنے واال<br />

وہ جو قتل وغارت <strong>کا</strong> بازار گرم کرتارہتاہو<br />

لوگوں کی<br />

رگوں می ں نشہ اتارنے واال<br />

غنڈہ گردی<br />

اور چھینا جھپٹی<br />

کرنے واال<br />

پرواہ نہ کرنے واال محبو ب<br />

معشوق<br />

بے انصاف<br />

غرض ایسے بہت سے افعال سے وابستہ افراد <strong>کے</strong> لئے<br />

لفظ ‏’’ظالم‘‘‏ بوالجاتاہے ۔


جعفر زٹلی<br />

نے خلقِ‏ خدا پر افت توڑنے والے <strong>کے</strong> لئے لفظ<br />

ظالم نظم کی اہے<br />

گیا اخالص عالم سے عجب یہ دور ای اہے<br />

ڈرے سب خلق ظالم سے عجب یہ دور ا یا<br />

جعفر ز ٹل ی<br />

مرادشاہ مراد الہوری <strong>کے</strong> ہاں وفاداری <strong>کا</strong> ڈھونگ رچاکر<br />

باالخربے وفائی کرنے والے <strong>کے</strong> لئے یہ لفظ استعمال<br />

ہواہے<br />

وہ ظالم یہ طوفان کیا کر گئ ی<br />

وفاکرتے کرتے جفاکر گئ ی<br />

مراد شا ہ الہور ی<br />

شاہ مبارک ابرو نے جس کی<br />

محبت فراموش نہ ہوس<strong>کے</strong> ،<br />

<strong>کے</strong> لئے ی ہ لفظ باندھا ہے<br />

جدائی<br />

<strong>کے</strong> زمانے کی<br />

میاں کیا زیادتی<br />

کہ یے<br />

کہ اس ظالم کی<br />

جوہم پر گھڑی<br />

گزری سو جگ بی تا


ا برو<br />

دمحم احسن ہللا احسن نے ہمیشہ رالتارہنے والے <strong>کے</strong> لئے یہ<br />

لفظ نظم کی اہے<br />

تیرے تل سے مجھے نت می نہ <strong>کا</strong> سودا ہے اے ظالم<br />

عجب نہیں ہے اگر تو تی ل نکساوے مرے سرسوں<br />

احسن<br />

سودا نے جذبات مجروح کرنے والے،‏ دلی چرانے<br />

اورزیادتی کرنے والے <strong>کے</strong> لئے یہ لفظ استعمال کی ا ہے<br />

تونے سودا <strong>کے</strong> تئیں قتل کیا ، کہتے ہ یں<br />

یہ اگر سچ ہے تو ظالم اسے کیاکہتے ہ یں<br />

سودا<br />

حافظ عبدالوہاب سچل نے گرفت کرنے والے <strong>کے</strong> لئے اس<br />

لفظ <strong>کا</strong> انتخاب کی اہے<br />

ایانظر میں اژدر مجھ کو وہ زلف پی چاں


رخ پہ لٹک رہی ہے ظالم ، یہ زلف <strong>کا</strong>ل ی t\<br />

سچل<br />

<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> ہاں اس لفظ <strong>کا</strong> استعمال ظاہر کررہاہے کہ اس کر<br />

دار سے خیر اور بھالئی کی توقع وابستہ نہیں کی<br />

جاسکتی۔ ایک جگہ ایسا محبوب جس کی وفا <strong>کا</strong> معاملہ<br />

تذبذب <strong>کا</strong> ش<strong>کا</strong>ر ہو،<strong>کے</strong> لئے استعمال کرتے ہ یں<br />

ظالم مرے گماں سے مجھے منفعل نہ چاہ<br />

ہے ہے خدانہ کردہ تجھے بے وفا کہوں<br />

<strong>غالب</strong> اس لفظ کو اس شخص پر بھی فٹ کرتے ہیں جس<br />

کی مہر بانی پر بھی اعتماد کرنا<br />

حماقت سے کم نہ ہو<br />

ہماری سادگی تھی التفاتِ‏ ناز پ ر مرنا<br />

تراانا نہ تھا ظالم مگر تمہید جانے ک ی<br />

عشق<br />

عشق درحقیقت سچی<br />

لگن اور مقصد سے اٹوٹ کمنٹ


یات<br />

یات<br />

یگل<br />

منٹ <strong>کا</strong> نام ہے۔ بعض لوگ اس لفظ کو نفسی حوالوں<br />

تک محدود رکھتے ہیں جبکہ اس <strong>کے</strong> حدود <strong>کا</strong>تعین<br />

ایسااسان <strong>کا</strong>م نہیں ۔ سقراط ہوکہ حسین ، فرہاد ہوکہ ٹیپو ،<br />

ہر کسی نے اپنے مخصوص <strong>کا</strong>ز سے وفا کی ۔اگر ان <strong>کا</strong><br />

استقال ل لغزش <strong>کا</strong> ش<strong>کا</strong>ر ہوتا تو <strong>کا</strong>ز سے کمٹ منٹ خام<br />

ٹھہرتی۔ عشق انسانی سماج <strong>کا</strong> حصہ رہاہے۔ اسے مختلف<br />

زاویوں اور حوالوں سے دیکھا اور پرکھا جاتارہاہے۔<br />

اشخاص اور اقوام کو اس کر دار نے زندہ رکھا ہے۔ عشق<br />

انسان کونفسی طور پر یاس کی دلد ل سے ن<strong>کا</strong>ل کر ایثار<br />

اور قربانی کی دہلیز پر الکھڑا کرتاہے۔عشق کوئی دیکھی<br />

جانے والی شے نہیں لیکن بطور جذبہ انسانی لہو میں<br />

شامل ہوکر اپنے حصہ <strong>کا</strong> کردار ادا کرتاہے ۔<br />

یہ انسان کو تنہانہیں چھوڑتا اس کی تنہائی اباد رکھتاہے۔<br />

اردو غزل میں عشق <strong>کا</strong> کردار مختلف حوالوں سے واضح<br />

ہواہے۔ مثالً‏<br />

لطف علی<br />

لطفی<br />

<strong>کے</strong> نزدیک عشق زخمی<br />

کرتاہے<br />

میں عشق کی میں گھای ل پڑا تھا ، تس پر<br />

حوبن <strong>کا</strong> ماتا اکر مجھ کو کھنڈل کرگی اہے<br />

لطف ی


یول<br />

یمل<br />

شاہ ولی ہللا ول ی<br />

<strong>کے</strong> مطابق عشق جوش وخروش پیداکر<strong>کے</strong> دلی کی<br />

دھرکنوں کو تیز کر دی تاہے<br />

نہ پوچھو عشق میں جوش وخروش دل کی ماہ یت<br />

برنگ ِ ابر دری ابار ہے رومال عاشق <strong>کا</strong><br />

بھگونت رائے راحت <strong>کا</strong> کہنا ہے عشق سرمہ بنا دیتاہے۔<br />

فناکر دی تاہے<br />

کیا عشق نے توتی ا طور کو<br />

عشق سے دار منصور کو<br />

راحت<br />

<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> نزدیک عشق،‏ افراطِ‏ حُب <strong>کا</strong> نام جسے الحق<br />

ہوتاہے اسے نخیف ونزار کر دیتاہے جبکہ زندگی عشق<br />

<strong>کے</strong> بغیر ایک درد ہے۔ عشق زندگی میں لطف اور مز اپیدا<br />

کرتاہے ۔<br />

بقول شاداں بلگرام ی


یپن<br />

اس <strong>کے</strong> بغیر زندگی<br />

بے کیف ہوتی<br />

ہے لیکن<br />

یہ خود مرض<br />

العالج ہے<br />

اب عشق کی<br />

حقیقت <strong>غالب</strong> کی<br />

سنئے زبانی<br />

عشق سے طبعیت نے زیست <strong>کا</strong> مزا پا یا<br />

درد کی دوا پائی دردِبے دوا پا یا<br />

غافل<br />

یہ کردار انسانی معاشرت میں ہمیشہ سے رہاہے ۔ اس<br />

کر دار سے نہ صرف دوسروں کو نقصان پہنچتاہے بلکہ<br />

ےہ خود اپنے لئے بھی باعث ِ نقصان رہاہے۔ اس کی دو<br />

صورتیں رہی ہیں<br />

اس سے دانستہ معاملہ پوشی دہ رکھا گےاہو<br />

الف<br />

ا<br />

عدم دلچسپی<br />

<strong>کے</strong> باعث معاملہ جاننے کی کوشش ب۔<br />

ہی نہ کرتاہو


پہلی صورت میں اس کی غفلت شعاری گوارہ کی جا سکتی<br />

ہے جبکہ دوسری صورت کسی بھی حوالہ سے نظر انداز<br />

نہیں ک ی<br />

۔ جاسکتی<br />

اس کردار سے مل کر خوشی نہیں ہوتی بلکہ<br />

اعصابی تنائو بڑھ جاتاہے ۔<br />

اردو غزل میں<br />

یہ کردار مختلف حوالوں سے وارد ہواہے ۔<br />

خواجہ درد نے اس کردار <strong>کے</strong> دو پہلو واضح کئے ہ یں<br />

غافل اپنا معاملہ خوب<br />

یاد رکھتاہے ۔<br />

الف<br />

ب۔<br />

دوسروں کو،‏ غافل اپنا معاملہ خوب یاد رکھتا ہے۔ ہاں<br />

تک کہ خدا کو بھی بھول جاتا ہے ۔<br />

گویاغافل اپنے معاملے <strong>کا</strong> پ<strong>کا</strong>ہوتاہے۔ اپنے مفادات کسی<br />

بھی صورت میں فراموش نہیں کرتا جبکہ دوسروں <strong>کے</strong><br />

معامالت بھول جاتاہے یا ان کی انجام دہی میں کوتاہی اور<br />

تساہل سے <strong>کا</strong>م لی تاہے<br />

غافل خداکی ےاد پہ مت بھول زی نہار<br />

اپنے تئی ں بھالدے اگر تو بھال س<strong>کے</strong>


یگئ<br />

درد<br />

شاکرناج ی<br />

<strong>کا</strong>کہنا ہے کہ ‏’’غافل‘‘‏ ایک ہی ڈگر پر چالجانے واال<br />

ہوتاہے۔ وہ وقت اور حاالت کی ضرورت نہیں دیکھتا ۔<br />

لمحے اسے اس کی غفلت شعاری <strong>کا</strong> احساس دال کر گزر<br />

جاتے ہیں لیکن وہ اپنی روش نہیں بدلتا۔ تبدیلی کی<br />

ضرورت ہی محسوس نہی ں کرتا<br />

بلند اواز سے گھڑی ال کہتاہے کہ اے غافل<br />

یہ بھی گھڑی تجھ عمرسے اور تو نہیں چی تا<br />

t<br />

ہے<br />

ناج ی<br />

قائم چاند پوری <strong>کے</strong> نزدیک غافل سوچ سمجھ کر قدم نہیں<br />

اٹھاتا۔ اس <strong>کا</strong> ہر فعل بے خبری کی چادر میں ملفوف<br />

ہوتاہے<br />

غافل قدم کو اپنے رکھےو سنبھال کری اں<br />

ہر سنگِ‏ رہ گزر<strong>کا</strong> دو<strong>کا</strong>نِ‏ شی شہ گرہے<br />

قائم


<strong>غالب</strong> نے غافل سے وہ کردار مراد لیا ہے جوغلط فہمی <strong>کا</strong><br />

ش<strong>کا</strong>ر ہویاجو معلومات ک ی<br />

کمی <strong>کے</strong> باعث معاملے کی اصل تک نہ پہنچ پائے۔ یہ بھی<br />

کہ جومعاملے کو سمجھنے <strong>کے</strong> لئے غلط یا غیر متعلق<br />

پیمانے اختیار کرتاہو۔ غافل کچھ کو کچھ سمجھنے واال کر<br />

دار ہے ۔ اس طرح یہ نتیجہ ن<strong>کا</strong>لنا پڑے گاکہ ایسا شخص<br />

جس کی کہی ہوئی بات پر یقین نہیں کی ا جاسکتا<br />

حاالنکہ ہے یہ سیل ‏ِی خارا سے اللہ رنگ<br />

غافل کو میرے شی شے پر مے <strong>کا</strong> گمان ہے<br />

غمحوار<br />

دکھ دینے والوں <strong>کے</strong> ساتھ دکھ <strong>کا</strong> مداوا کرنے یاتشفی<br />

دینے والوں کی بھی کمی نہیں رہی ۔ ایسے افراد کو<br />

ہمیشہ عزت واحترام کی نگا ہ سے دیکھا جاتارہاہے۔ یہ<br />

لفظ ایک ہمدرد اور تعاون کرنے واال کردار سامنے التاہے ۔<br />

اس سے مالقات کرتے وقت اچھا لگتاہے ۔<br />

بسااوقات یہ کردار در پردہ یا پھراپنی کسی نادانی <strong>کے</strong> سبب<br />

معاملہ بگائو بھی دیتاہے اور اس سے دشمن سے زیادہ


نقصان پہنچ جاتاہے ۔ غمخوار <strong>کے</strong> حوالہ سے معاملے کی<br />

تشہیر بھی ہوجاتی ہے۔ غمخوار خودہی کی اڑ<br />

میں گھائل کر دیتاہے اور گھائل کو معلوم بھی نہیں ہوپاتا<br />

کہ اس <strong>کے</strong> ساتھ کیا ہوگیاہے ۔<br />

، غمخواری<br />

اردو غزل میں یہ کردار مختلف حوالوں سے پےنٹ<br />

ہواہے۔ اس سے ملتے وقت کسی قسم کی اجنبیت <strong>کا</strong>احساس<br />

نہیں ہوتا۔ غمخوار <strong>کا</strong> متبادل مترادف غمگسار بھی اردو<br />

غزل میں پڑھنے کوملتاہے۔ غمگسار <strong>کا</strong> کردار بھی ہمدرد<br />

اور مونس و شفیق <strong>کے</strong> طور پر نمودار ہوتاہے ۔<br />

صاحب رام فریاد غمگسار کو غم بانٹنے واال <strong>کے</strong> معنوں<br />

میں استعمال کرتے ہ یں<br />

غم جسے ہواہے ی اردل <strong>کا</strong><br />

کوئی نہی ں غمگسار دل <strong>کا</strong><br />

فری اد<br />

اخوند قاسم ساؤئی<br />

ہاالئی<br />

نےغم غلط کرنے والے کو<br />

غمگسار <strong>کا</strong> نام دی اہے<br />

مدام پل پل دو بھر بھر دالارے ساق ی


کہ ہے عجؤب مرای ارِ‏ غمگسار قدح<br />

ہاالئ ی<br />

شیخ عثمان بے کسوں اور بے بسوں <strong>کے</strong> <strong>کا</strong>م انے والے<br />

کو غمخوار <strong>کے</strong> لقب سے نواز تے ہ یں<br />

اے تو کسِ‏ بےکساں مونسِ‏ بے چارگاں<br />

غمخوارِ‏ اوارگاں اؤ پی ار سے حبؤب<br />

شی خ عثمان<br />

<strong>غالب</strong> نے’’‏ غمخوار ‏‘‘کو بڑے الگ سے معنی دے دشیخے<br />

ہشیخں ۔وہ جو دوست <strong>کا</strong> غم برداشت نہ کرس<strong>کے</strong> اور سارا<br />

معاملہ بازار میں لے ا ئے<br />

کیا غمخوار نے رسوا ، لگے ا گ اس محبت کو<br />

نہ الوے تاب جو غم کی،‏ وہ مراراز داں کی وں ہو<br />

غیر<br />

لفظ غیر کو اہل لغت صفت قراردیتے ہیں تاہم یہ لفظ<br />

بطور سابقہ،‏ مفرد لفظ سے مرکب ہوکر بطور کر دار بھی


یات<br />

استعمال ہوتاہے۔ لفظ اجنبیت کی فضا پیدا کرتاہے اور کسی<br />

غیر متعلق ، نامحرم اور ناواقف شخص <strong>کا</strong> تصور سامنے<br />

التاہے۔ نفسی سطح پر ‏’’غیر‘‘‏ معاملہ کی پوشیدگی پر<br />

راغب کرتاہے۔ اس <strong>کا</strong> تعلق محدود یا عدم تعاون سے<br />

وابستہ رہتاہے۔ اس لئے اس سے کوئی خاص گفتگو<br />

کرناممکن نہیں ہوتا۔ اردوغزل میں ‏’’غیر‘‘‏ بطور کردار<br />

مختلف حوالوں سے استعمال ہوتاایاہے جو انسیت اور<br />

الفت سے کوسوں دور نظر اتاہے۔ بعض اوقات رقیب،‏<br />

حاسد اور حریف <strong>کے</strong> طور پر سامنے اتاہے۔ عاشق ‏،کسی<br />

دوسرے عاشق کو ایک ہی محبوب <strong>کے</strong> لئے غیر خیال<br />

کرتاہے ۔<br />

شاہ قلی<br />

خاں شاہی<br />

نے دوسرے عاشق <strong>کے</strong> معنوں میں<br />

اس لفظ <strong>کا</strong> استعمال کی اہے<br />

ملنا تمہن <strong>کا</strong> غیر سے کوئی جھوٹ کوئی سچ مچ کہے<br />

کس کس <strong>کا</strong> منہ موندوں سجن کوئی کچھ کہے کوئی کچھ<br />

کہے<br />

شاہ ی<br />

میر محمود صابر <strong>کے</strong> ہاں بھی<br />

دوسرے عاشق <strong>کے</strong> معنوں<br />

می ں ہواہے


مجلس میں دےکھ غی ر <strong>کے</strong> گلروکوں صابر<br />

ہے چشم ودل میں ہر مژہ خارارسی <strong>کے</strong> تئ یں<br />

صابر<br />

‘‘<br />

اشر ف علی<br />

فغاں نامحرم <strong>کے</strong> لئے<br />

‏’’غیر <strong>کا</strong>لفظ استعمال<br />

میں التے ہ یں<br />

ملے ہے غیر سے،‏ ہر گز اسے حجاب نہ یں<br />

کہوں تو کہہ نہیں سکتا ہوں تو تاب نہ یں<br />

فغاں<br />

چندا نے بھی<br />

رقیب <strong>کے</strong> معنوں میں نظم کی اہے<br />

گر چھوڑ بزم ‏ِغیر کو اجائے ی اں تلک<br />

دکھالؤں تجھ کو ایساہی جس <strong>کا</strong>ہے نام رقص<br />

خواجہ درد غیر سے مراد حاسد لیتے ہ یں<br />

چندا


غیر بکتے ہیں عبث ‏،میرے پیارے ت یری<br />

بے وفائی نہیں محتاج بداموزی کی<br />

درد<br />

ہر عاشق دوسرے عاشق کو اپنے محبوب <strong>کے</strong> لئے ‏’’غیر<br />

‘‘ سمجھتا ہے اوریہ فطری سی بات ہے ۔<br />

یہ صورت دونوں عاشقوں کی طر ف سے ہوتی ہے۔ <strong>غالب</strong><br />

قدما سے مختلف نہیں ہیں ۔ ہاں خفیف سافرق اور کھلی<br />

شوخی اسے دوسروں سے ممتاز بنادیتی ہے۔ غیر،‏ جو<br />

عاشق ہے محبوب <strong>کے</strong> لئے اہ وزاری کرتاہے اور اپنی اہ<br />

وزاری <strong>کے</strong> ثمر بار ہونے کی توقع بھی رکھتاہے۔ دوسرا<br />

عاشق جو خو دکو حقیقی اورکسی دوسرے کو جھوٹا<br />

سمجھتا ہے اس کی حالت زار دیکھ کر خوش ہوتاہے۔ یہ<br />

صورتحال خطرناک بھی سکتی ہے۔ اس کی اہ وزاری پر<br />

محبوب کو رحم بھی اسکتاہے۔ بہرحال <strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> نزدیک وہ<br />

غیر ہے۔ اس کی اہ وزاری کو دیکھ کرعاشق نمبر ایک <strong>کا</strong><br />

کلیجہ ٹھنڈا ہونا کہ وہ اذیت میں،‏ فطری سی بات ہے<br />

دیکھ کر غیر کو ہو کیوں نہ کلی جا ٹھنڈا


یاب<br />

نالہ کرتا تھا ولے طالبِ‏ تاثیر بھی<br />

تھا<br />

)<br />

غیر ‏)دوسرے عاشق <strong>کے</strong> لئے کی زبان میں مٹھاس<br />

ہوتی ہےاوروہ اس مٹھاس <strong>کے</strong> حوالہ سے <strong>کا</strong>می <strong>کا</strong><br />

خواہاں ہوتاہے<br />

ہوگئی ہے غیر کی شیریں زبانی <strong>کا</strong>رگر<br />

عشق <strong>کا</strong> اس کو گماں ہم بے زبانوں پر نہ یں<br />

فرشتہ<br />

یہ لفظ منفی اورمثبت مفاہیم میں رائج چال اتاہے۔ تاہم زیادہ<br />

تر منفی مفہوم <strong>کے</strong> لئے کسی سابقے یاالحقے کی ضرورت<br />

پیش اتی ہے۔ اسے مخبر ‏)نکرین(‏ <strong>کے</strong> معنوں میں بھی<br />

لیا جاتاہے۔ منفی صورتوں کی موجودگی <strong>کے</strong> باوجود یہ<br />

لفظ مثبت معنوں میں لیا جاتاہے۔ یہ لفظ سنتے ہی ڈھارس<br />

سی بندھ جاتی ہے ۔ مشکل کشائی کی امید جاگ اٹھتی ہے ۔<br />

اردو شاعری<br />

میں بطور کردار فرشتہ مختلف حوالوں سے<br />

وارد ہواہے۔ مثالً‏


شیخ محبوب عالم عرف شیخ جیون نے اسے منفی معنوں<br />

میں استعمال کی اہے<br />

تکبر سے شیطان داتا گ یا<br />

فرشتے سے وہ دیوداتا گ یا<br />

چالبہشت کوں وہ بنا کر براں<br />

غضب <strong>کے</strong> فر شتے نہیں کھی نچے پراں<br />

شیخ جی ون<br />

بھگوانت رائے راحت نے روپ بھیس بدلی لینے واال <strong>کے</strong><br />

معنوں میں استعمال کی ا ہے<br />

کیا کس نے یہ جاودئی سامر ی<br />

فرشتہ ہوا کس طرح سے پر ی<br />

راحت<br />

رائے ٹیک چند بہار نے حسن وجمال سے متاثر ہونے والی<br />

مخلوق <strong>کے</strong> طور پر نظم کی اہے<br />

اس گل بدن <strong>کا</strong> جو دوانا ہوتو کی ا اچرج


فرشتے <strong>کا</strong> بھی یدل<br />

پری ایسی<br />

اوپر لبھاتاہے<br />

ب ہار<br />

عالمہ الطاف حسین حالی ادمی <strong>کے</strong> روپ گنواتے ہوئے<br />

فرشتے کو بطور پیمانہ استعمال کرتے ہیں کہ ادمی بعض<br />

اوقات اچھائی کی مورتی بن جاتاہے<br />

جانور،‏ ادمی ، فرشتہ خدا<br />

ادمی کی ہیں سیکڑوں قسم یں<br />

حال ی<br />

<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> ہاں بڑا خوبصور ت اور اچھوتااستعمال ملتاہے۔<br />

وہ اسے بطور منشی اور گواہ <strong>کے</strong> نظم کرتے ہ یں<br />

پکڑے جاتے ہی ں فرشتوں <strong>کے</strong> لکھے پر ناحق<br />

ادمی کوئی ہمارا،دمِ‏ تحریر بھی تھا؟<br />

قاتل


قتل بڑاخطرناک اور گھنائونا فعل ہے ۔ اس <strong>کے</strong> باوجو د<br />

انسانی معاشروں میں روزاول سے سیاسی ‏،معاشی<br />

معاشرتی اور انسانی قتل ہوتے ائے ہیں اور قاتل<br />

اسی معاشرے میں بال خوف وترودگھومتے پھرتے ہیں۔ ان<br />

پر کبھی گرفت نہیں ہوتی ۔<br />

،<br />

، اخالقی<br />

لفظ قاتل سنتے ہی بے رحم اور سنگدلی شخص کی تصویر<br />

، انکھوں <strong>کے</strong> سامنے گھومنے لگتی ہے۔ غصہ،‏ نفرت ،<br />

خوف اور تحفظ ‏ِذات <strong>کا</strong> احساس جاگ اٹھتاہے۔ تل تل قتل<br />

ہوتے اورقتل کرتے لوگوں کی تصویر انکھوں <strong>کے</strong><br />

سامنے اجاتی ہے۔اردو شاعری میں یہ لفظ زیادہ تر<br />

محبوب <strong>کے</strong> لئے استعمال ہوتا ایاہے ۔<br />

مرزا مظہر جان ‏ِجاناں نے متاثرکرنے،‏ دلی بہالنے<br />

اورسوچیں جامد کرنے والے کو قاتل <strong>کا</strong> نام دی اہے<br />

خدا <strong>کے</strong> واسطے اس کو نہ ٹھوکو<br />

یہی اک شہر می ں قاتل رہاہے<br />

جاناں<br />

مرزا دبیر<strong>کے</strong> نزدیک قاتل موڈ میں رہتاہے اور اس کی<br />

بدمزاجی ہمیشہ برقرار رہتی ہے


منہ بنائے کیوں ہے قاتل پاس ہے تی غ نگاہ<br />

باغ میں ہنستے ہیں گل تو منہ بگاڑاچاہ یے<br />

<strong>غالب</strong> اس کردار کو اس کی دیدہ دلیری اور اس کی اذیت<br />

پسندی <strong>کے</strong> حوالہ سے پیش کر تے ہیں ۔ قاتل بڑا بے<br />

خوف ہوتاہے۔ اگر اس پر خوف طاری ہوجائے تو وہ قتل<br />

ایساخوفناک فعل ہی کیوں انجام دے۔ مقتول <strong>کا</strong> تڑپنا،‏ پھڑکنا<br />

اور لوٹنا اسے خوش اتاہے ۔ جان جانے <strong>کا</strong> منظر اسے<br />

تسکین دی تاہے<br />

ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر<br />

وہ خوں جو چشم ترسے عمر بھی ی وں دمبدم نکلے<br />

ہوائے سیر گل،ائینہ بےمہری قاتل<br />

کہ اندازِ‏ بخوں غلطیدن بسمل پسند ا یا<br />

یہ بھی واضح کر تے ہیں کہ قاتل <strong>کا</strong> دبدبہ اور سطوت ،<br />

ستائے ہوئے لوگوں کی اہ وزاری کو روک نہیں سکت ی<br />

نہ ائی سطوت ِ قاتل بھی مانع می رے نالوں کو<br />

لیا دانتوں میں جوتن<strong>کا</strong> ہوا ریشہ نی ستاں <strong>کا</strong>


<strong>کا</strong>فر<br />

یہ لفظ قدیم سے اردو میں مختلف مفاہیم میں رائج<br />

چالاتاہے ۔ شاعری میں اس سے محبوب مراد لیاجاتارہا<br />

ہے تاہم اس شخص <strong>کے</strong> لئے زیادہ معروف ہے جو دین<br />

اسالم <strong>کا</strong>ان<strong>کا</strong>ری ہو۔ یہ لفظ سنتے ہی ایک ضدی قسم <strong>کے</strong><br />

شخص <strong>کا</strong> خاکہ ذہن <strong>کے</strong> کینوس پر ترکیب پانے لگتاہے ۔<br />

حافظ عبدالوہاب سچل نے اسالم کو نہ ماننے والے <strong>کے</strong><br />

لئے اس لفظ <strong>کا</strong> استعمال کی اہے<br />

کبھی<br />

کبھی<br />

مومن کبھی مسلم،‏ کبھی<br />

مال،‏ کبھی قاضی<br />

<strong>کا</strong>فر کہا ہے<br />

بامن بالی ا ہے<br />

سچل<br />

، کبھی<br />

فقیر ہللا نے تسلیم نہ کرنے واال ، نہ ماننے واال،‏ ان<strong>کا</strong>ر<br />

کرنے والے <strong>کے</strong> لئے لفظ <strong>کا</strong>فر نظم کی اہے<br />

گورای سے بوجھ منزہ ذات


ناہو <strong>کا</strong>فر ناکم ذات<br />

فقی ر ہللا<br />

میر صادق علی صادق بے مثل حسینہ ، جوگرفت میں نہ<br />

اتی ہو <strong>کے</strong> لئے یہ لفظ استعمال کرتے ہ یں<br />

ادا میں وہ <strong>کا</strong>فر توافات تھ ی<br />

جو صورت کی پوچھو تو کیابات تھ ی<br />

صادق<br />

پیرمراد شاہ مرادالہوری <strong>کے</strong> ہاں کم بخت زخمی کرنے واال<br />

، زخم دینے واال،‏ وہ جو مجروح کر دیتاہے کہ معنوں میں<br />

باندھا گی اہے<br />

کیا زخمی کس <strong>کا</strong>فر نے ا ہ<br />

یہ حالت تری کس نے یوں کی تباہ<br />

مراد شاہ<br />

میر سجاد نے ستم ڈھانے والے ، بےد اد ، بےحس <strong>کے</strong>


معنوں میں اس لفظ<br />

<strong>کا</strong> استعمال کیاہے ۔<br />

<strong>کا</strong> فر بتوں سے دادنہ چاہو کہ یاں کوئ ی<br />

مر جائے ستم سے ان <strong>کے</strong>،‏ توکہتے ہی ں حق ہوا<br />

می ر سجاد<br />

میر سوز نے معاشرت <strong>کے</strong> اصولوں <strong>کے</strong> منکر،‏ مبتالئے<br />

محبت ‏،کسی غیر ہللا کو دلی میں جگہ دینے والے <strong>کے</strong><br />

لئے اس لفظ <strong>کا</strong> انتخاب کی اہے<br />

اہل ایماں سوز کوکہتے ہیں <strong>کا</strong>فر ہوگ یا<br />

اہ یار ب رازِ‏ دل ان پر بھی ظاہر ہوگ یا<br />

می ر سوز<br />

اب <strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> ہاں اس کردار کی<br />

<strong>کا</strong>رگزاری<br />

مالحظہ ہو<br />

لے تو لوں سوتے می ں اس <strong>کے</strong> پائوں <strong>کا</strong> بوسہ مگر<br />

ایسی باتوں سے وہ <strong>کا</strong>فربدگماں ہوجائے گا<br />

تسلیم نہ کرنے واال،ضدی<br />

، ہٹ پر قائم


تنگ ‏ِی دل <strong>کا</strong> گلہ کیا ی ہ وہ <strong>کا</strong>فردل ہے<br />

کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پری شاں ہوتا<br />

گدا<br />

لفظ گدا سماعت پر منفی اثرات مرتب کرتاہے ۔<br />

ناگواری ‏،حقارت اور نفرت سی پےداہوجاتی ہے۔ بالشبہ<br />

حاجات انسان <strong>کے</strong> ساتھ لگی ہوئی ہیں۔ خود داری <strong>کے</strong><br />

عوض حاجت کی براوری اچھی نہیں لگتی ۔ اردو شاعری<br />

میں اس <strong>کا</strong> مختلف مفاہیم میں استعمال پڑھنے کو ملتاہے۔<br />

اس <strong>کا</strong> مترادف بھ<strong>کا</strong>ری بھی استعمال ہوتا ایا ہے ۔<br />

شیخ بہاؤ الدین باجن ہللا سے حاجات کی براوری <strong>کے</strong><br />

خواستگار <strong>کے</strong> معنوں میں استعمال کرتے ہ یں<br />

جو کچھ قسمت میں ہے وہی ہے گا<br />

گدا کوں تب وہی برا تا رہے گا<br />

باجن<br />

غالم مصطفی خان یکرنگ متاثر ہونے واال ‏،گرفت میں<br />

اجانے وال ‏،حسن <strong>کا</strong> طالب ، حسن <strong>کے</strong> حصول کی حاجت


رکھنے وال ، مفتوح <strong>کے</strong> معنوں میں نظم کرتے ہ یں<br />

زبانِ‏ شکوہ سے مہندی <strong>کا</strong> ہر پات<br />

مسخر حسن <strong>کے</strong> شاہ و گدا<br />

ی کرنگ<br />

دمحم عظیم الدین عظیم <strong>کے</strong> ہاں نہایت ڈھیٹ اور ضدی قسم<br />

<strong>کے</strong> عاشق <strong>کے</strong> لئے یہ لفظ استعمال میں ای اہے<br />

باہللا کہ اس <strong>کے</strong> در <strong>کا</strong> گدا ہورہوں گا م یں<br />

پایا ہوں مالِ‏ حسن سے جس <strong>کے</strong> زات ا ج<br />

عظ یم<br />

صوفی ابراہیم شاہ فقیر نے معشوق <strong>کے</strong> دیدار کی حاجت<br />

رکھنے والے <strong>کے</strong> لئے گدا <strong>کا</strong> لفظ استعمال کی اہے<br />

گداہوں وہ پیا در <strong>کے</strong>،‏ خزا ں ساماں سکندر <strong>کے</strong><br />

بجز دیدار دلبر <strong>کے</strong>،‏ عمر جاندی<br />

ہے افرادی<br />

فق یر<br />

چند <strong>کے</strong> نزدیک نظرالتفات سے محروم رہنے واالگدا ہے۔


یا پھر وہ جو بے توجہگی<br />

<strong>کا</strong> ش<strong>کا</strong>ر رہتاہے<br />

گدا <strong>کے</strong> حا ل پر تونے نظر گاہے نہ کی ظالم<br />

کیا یہ فرض ہم نے،‏ سرترے شاہی <strong>کا</strong>افسر تھا<br />

چندا<br />

<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> نزدیک گدا سے مراد حاجت مند لیکن دست سوال<br />

دراز کرنے کی خُو نہ رکھتا ہو<br />

بے طلب دیں تومزا اس می ں سواملتاہے<br />

وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال ‏،اچھا ہے<br />

مانگ کر لیا توکیا لیا ۔<br />

حاتم حاجت مند کی خوداری ذبح کر<strong>کے</strong> کچھ دے تو اس<br />

دینے <strong>کا</strong> فائدہ کیا اور اس لینے میں مزاکی ا ؟<br />

مہمان<br />

مہمان انسانی معاشروں میں ہمیشہ سے الئق احترام<br />

رہاہے اور اس کی امد پر خوشی <strong>کا</strong> اظہار کیا جاتاہے۔ جشن


یست<br />

منایا جاتاہے۔ اسے مناسب پروٹوکول دیاجاتاہے۔ مہمان<br />

مرضی <strong>کا</strong> ہوتو خوشی ہے کہنہ <strong>کا</strong>د رجہ اختیار کرلیتی ہے۔<br />

لفظ مہمان ، میزبانی کی تیاری پر اکساتاہے ۔ انسانی<br />

معاشرت ‏’’مہمان‘‘‏ <strong>کے</strong> احترام کی قائل رہی ہے۔ اردو<br />

شاعری میں مہمان <strong>کا</strong> کردار بڑامحترم اور نمایاں نظر<br />

اتاہے ۔<br />

اج بھی ، جب اپنی پوری نہیں پڑتی ‏،مہمان کی امدناگواری<br />

<strong>کا</strong> سبب نہیں بنتی ۔ مہمان <strong>کا</strong> پڑائو قطعی عارضی اور<br />

مختصر ہوتاہے ۔<br />

غالم مصطفی خاں یکرنگ مختصر اور عارضی پڑاؤ<br />

رکھنے والے کومہمان <strong>کا</strong> نام دیتے ہ یں<br />

کھانے چال ہے زخمِ‏ ستم شامی وں <strong>کے</strong> ہاتھ<br />

وو ہاتھ زندگی مہمانِ‏ کربال<br />

ی کر نگ<br />

چونکہ مہمان جہاں ڈیرے ڈالتا ہے وہ اس <strong>کا</strong> اپنا گھر نہیں<br />

ہوتا۔ الکھ ائو بھگت کی جائے اس <strong>کے</strong> اندر اجنبیت <strong>کا</strong><br />

احساس موجود رہتاہے۔ قربان علی سالک کی زبانی سنئیے


یاب<br />

تم اگئے تو ہو ش کہاں می زباں ہو کون<br />

اج اپ اپنے گھر میں ہی ں کچھ مہماں سے ہم<br />

<strong>غالب</strong> مہمان کی امد کو باعث مسرت قرار دیتے ہیں۔ اپنے<br />

اس شعر میں مہمان نوازی <strong>کا</strong> لوازمہ درج کرتے ہ یں<br />

مدت ہوئی ہے یا رکو مہاں کئے ہوئے<br />

جو شِ‏ قدح سے بزم چراغاں کئے ہوئے<br />

ناصح<br />

انسان کی بھالئی،‏ بہتری اور خیر کی اشاعت <strong>کے</strong> لئے نبی<br />

پغمبر ، پیر فقیر،‏ مصلحین وناصحین وغیرہ اپنی اپنی حدود<br />

میں کوشش کرتے چلے ائے ہیں ۔ <strong>کا</strong>می اور نا<strong>کا</strong>می<br />

دونوں سے ان <strong>کا</strong> سامنا رہاہے۔ نا<strong>کا</strong>می میں بھی وہ چپ<strong>کے</strong><br />

نہیں رہتے بلکہ مصروفِ‏ عمل رہتے ہیں۔ عاشقی ایسا<br />

روگ ہے جوکسی دوا یا دعا سے دورنہیں ہوتا۔ دالئل<br />

عاشق <strong>کے</strong> لئے بکواسِ‏ محض سے زیادہ حیثیت نہیں<br />

رکھتے۔ ناصح <strong>کا</strong> احترام اپنی جگہ لیکن اس <strong>کے</strong> کہے کو<br />

ایک <strong>کا</strong>ن سنتے اوردوسرے سے ن<strong>کا</strong>ل دیتے ہیں اور<br />

پرنالہ‘‘‏ اپنی مرضی کی جگہ پر رہنے دیتے ہیں ۔ ناصح کی<br />

،<br />

’’


تلخ گوئی یاسختی کی صورت میں اپنی ذات سے الجھ<br />

جاتے ہیں ۔ لفظ ناصح ، ایسے کردار کوسامنے التاہے<br />

جوہر وقت نصیحتوں <strong>کا</strong> تھیال بغل میں دبائے پھرتارہتاہے ۔<br />

انسان سیمابی فطرت لے کر زمین پراترا ہے۔ وہ ایک ہی<br />

قسم <strong>کے</strong> حاالت اور ماحول میں سکھی نہیں رہ سکتا۔ ہر<br />

لمحہ تبدیلیوں <strong>کا</strong> خواہشمند رہتاہے۔ یہ کہنادرست نہیں کہ<br />

وہ ناصح سے تعلق استوار نہیں کرنا چاہتا ۔<br />

دراصل ناصح <strong>کا</strong> ایک سارویہ اور ایک سے انداز سے<br />

خوش نہیں اتے۔ ناصح <strong>کا</strong> کہا اسی وجہ سے اس پر مثبت<br />

اثرات نہیں چھوڑتا اور وہ اس سے کنی کتراتاہے۔ یاپھر<br />

بڑے باریک انداز میں اسے برابھال بھی کہتاہے۔ لفظ<br />

ناصح سنتے ہی ایک ایسا شخص سامنے اجاتاہے جس<br />

<strong>کے</strong> ‏’’کھیسے‘‘‏ میں پہلے سے کئی بار کہی ہوئی باتوں<br />

<strong>کے</strong> سوا کچھ نہیں ہوتا۔ یہی نہیں اس کی مخصوص وضع<br />

قطع چال ڈھال اور اسلوب تکلم ذہن <strong>کے</strong> گوشوں میں گھوم<br />

گھوم جاتاہے ۔<br />

اردوغزل میں یہ کردار پوری حشرسامانیوں <strong>کے</strong> ساتھ<br />

جلوہ گرہے۔ اردو غزل <strong>کے</strong> شعرا نے اس کردار کو نہایت<br />

خوفناک بنا دیاہے۔ اس کردار <strong>کے</strong> تمام منفی پہلو بےان<br />

کردیتے ہیں ۔ خواجہ درد تو باقاعدہ ناصح کو مخاطب


)<br />

کر<strong>کے</strong> کہتے ہیں کہ میں تہی دامن ‏)دین وایمان کھو چ<strong>کا</strong><br />

ہوں ہوں،‏ اس لئے تمہاری نصیحتوں <strong>کا</strong> حاصل جز<br />

نا<strong>کا</strong>می <strong>کے</strong> کچھ نہیں ہوگا ۔<br />

یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تمہاری نصیحتوں <strong>کے</strong> ردعمل<br />

میں دین ودلی سے محروم ہوگیاہوں۔ خواجہ درد <strong>کے</strong> کہے<br />

سے دو باتیں صاف ہوجاتی ہیں<br />

ناصح دلی<br />

ودین سے تہی<br />

لوگوں کو بھی نصیحت کی<br />

سان پر رکھتاہے<br />

ناصح <strong>کے</strong> کہے <strong>کا</strong> الٹا اثر ہوتاہے<br />

ناصح!‏<br />

میں دین ودلی <strong>کے</strong> تئی ں اب تو کھو چ<strong>کا</strong><br />

حاصل نصی حتوں سے جوہونا تھا،‏ ہوچ<strong>کا</strong><br />

درد<br />

میر دمحم یار خاکسار <strong>کا</strong> کہناہے ناصح تو بے <strong>کا</strong>ر میں<br />

سمجھانے <strong>کا</strong> <strong>کا</strong>م کرتاہے جبکہ جس راہ پر میں گامزن<br />

ہوں اس میں میرے لئے راحت <strong>کا</strong> سامان موجو دہے ۔<br />

راحت کو تیاگ کرناصح <strong>کا</strong> کہا کون اور کی وں مانے؟<br />

کیاہے ناصح تجھے حاصل مرے سمجھانے م یں


‘‘ یعن<br />

اہ جوں شمع ہے راحت مجھے مرجانے م یں<br />

خاکسار<br />

واال جاشیدا <strong>کے</strong> نزدیک ناصح ان لوگوں کو بھی نصیحتیں<br />

کرتاہے جو اپنے اپے میں ہی نہیں ہوتے ۔ ایسے لوگوں<br />

کو نصیحتیں کرنے <strong>کا</strong> کیا فائدہ ۔ نصیحتیں کرنے والے<br />

کوعقل مند کون کہے گا<br />

بے فائدہ ناصح تری کب مست سنی ں گے<br />

بے ہوش ہیں ، اواز پہ اپنی نہی ں سنتے<br />

شی دا<br />

شیخ امین احمد اظہر <strong>کا</strong> دعوی ہے کہ ناصح نصیحتیں تو<br />

کرتاہے اگر اس ‏’’ائینہ رو‘‘‏ کو دیکھ لے خود ہی کو بھول<br />

جائے گا۔ گویا وہ نصیحتیں اس <strong>کے</strong> متعلق کررہاہے،‏<br />

جسے وہ جانتا ہی نہیں ۔ کسی معاملے چیزسے متعلق<br />

مکمل اگہی <strong>کے</strong> بغیرکچھ کہنا سننا،‏ واجب نہیں ۔ اگہی <strong>کے</strong><br />

بغیر ہر ‏’’کہاگیا الی اور بےمعنی ہوتاہے<br />

شکل اس ائینہ رو کی دیکھی ناصح نے اگر<br />

محو حیرت بن <strong>کے</strong> وہ ائی نہ ساں ہوجائے گا


اظہر<br />

<strong>غالب</strong> کہتے ہیں کہ جب معاملہ حد بڑ ھ سے جائے تو<br />

ناصح <strong>کا</strong> احترام اپنی جگہ لیکن اس کی تکلیف فرمائی<br />

قطعی بے نتیجہ رہتی ہے۔ دوسرا ملوث شخص معاملے<br />

<strong>کے</strong> نتائج سے اگہی رکھتے ہوئے بھی ملوث چال اتاہے ۔<br />

ایسے میں ناصح <strong>کا</strong> کہا سنا اس پر کی ا اثر کرے گا<br />

کوئی<br />

حضرت ناصح گرا ئیں دی دہ ودل فرش راہ<br />

مجھ کو یہ توسمجھا دوکہ سمجھائیں توگے ک یا<br />

ناصح اگر سختی پراتراتا ہے توناصح پرزور نہ چلنے کی<br />

صورت میں پند لینے واال اپنی ذات نو سے الجھ جائے گا۔<br />

گویا ناصح کی <strong>کا</strong>روائی،‏ معاملے <strong>کے</strong> حل میں مدد دینے<br />

کی بجائے معاملے کو مزید الجھا کر رکھ دے گ ی<br />

نہ لڑنا ناصح سے <strong>غالب</strong>،‏ کیا ہوا اگراس نے شد ت ک ی<br />

ہمار ابھی تواخر زور چلتاہے گری باں پر<br />

نامہ بر


یکت<br />

تحریری<br />

پیغامات دوسروں تک پہنچانے کی حاجت انسان<br />

کو رہتی ہے۔ اس کی دو صورتیں ہ<br />

: یں<br />

وہ بات جو خود نہ کہی جا س ہو اس <strong>کے</strong> کہے جانے<br />

<strong>کے</strong> لئے کسی دوسرے <strong>کا</strong> سہارا لی نا پڑتا ہے<br />

دور دراز <strong>کے</strong> عالقوں میں پیغام پہنچانے <strong>کے</strong> لئے<br />

تیسرے شخص کی خدمات حاصل کی جائ یں<br />

اردو غزل میں اس فریضے کو انجام دینے والے کو نامہ<br />

بر کہا گیاہے۔ لفظ نامہ بر سنتے ہی کسی اچھی یا بری خبر<br />

<strong>کے</strong> لئے ذہنی طور پر تیار ہونا پڑتا ہے۔ وزیر نے پیغام<br />

النے والے کو نامہ بر <strong>کا</strong> نام دی اہے<br />

خط پہ خط الئے جومرغ نامہ بر<br />

بوئے ان مرغوں <strong>کا</strong> ڈربا کھل گ یا<br />

وز یر<br />

<strong>غالب</strong> نے نامہ بر کو مختلف زوایوں سے مالحظہ کیاہے


یک<br />

ا رہوں غربت میں خوش جب ہو حوادث <strong>کا</strong>ی ہ حال<br />

نامہ بر ال تا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھال<br />

وہ جو پیغام ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جائے<br />

لیکن پیغام کوپڑھ کر بددیانتی <strong>کا</strong> ارت<strong>کا</strong>ب کرے<br />

ہولئے کی و ں نامہ بر <strong>کے</strong> ساتھ ساتھ<br />

یارب اپنے خط کو ہم پہنچائیں ک یا<br />

پیغام لے کر جانے والے پرراز داری<br />

<strong>کا</strong> بھروسہ نہ یں<br />

وعظ<br />

انسانی سماج <strong>کا</strong> بڑا مضبوط اوراہم کردار رہاہے ۔ لوگوں<br />

کو نےکی پر لگانے اور بدی سے ہٹانے <strong>کے</strong> لئے اپنی سی<br />

کوشش کرتارہاہے ۔ ایسی بھی باتیں کرتارہاہے جن <strong>کا</strong><br />

عملی زندگی میں کوئی حوالہ موجو د نہیں رہاہوتا۔<br />

فردا<strong>کے</strong> حسین سپنے دکھاتاایاہے ۔ لفظ واعظ ایک ایسے<br />

شخص <strong>کا</strong> تصور سامنے التاہے جوخوف وہراس پھیالنے<br />

کی کوشش کرتا رہتا ہے اور اسے نیکی کی اشاعت <strong>کا</strong>نام


یدہ<br />

دیتا ہے۔ وہ اپنی پسند کی نیکی پھیالنے کی ٹھانے ہوتاہے<br />

۔ دھواں دھار تقریریں کرتاہے ۔ ایسی باتیں بھی کہہ<br />

جاتاہے جن پر وہ خود عمل نہیں کر رہاہوتا یا ان پر انجام<br />

<strong>کے</strong> حوالہ سے معذور ہوتاہے ۔<br />

یہ لفظ خشک ، سٹریل ، بدمزاج اورضدی قسم <strong>کا</strong> شخص<br />

سامنے ال کھڑا کرتاہے۔ اس کردار سے ملنے <strong>کا</strong> شوق<br />

پیدانہیں ہوتا بلکہ اس کی بےعمل،‏ خشک اور خالئی<br />

گفتگو سے بچ کر نکلنے کی سوجھتی ہے۔ اس کردار سے<br />

متعلق اردو شاعری میں بہت سے زاویے اور حوالے<br />

موجودہیں ۔ مثالً‏<br />

ہمیں واعظ ڈراتا کی وں ہے دوزخ <strong>کے</strong> عذابوں سے<br />

معاصی گوہمارے بی ش ہوں کچھ مغفرت کم ہے<br />

بہار<br />

ڈر ‏،خوف اور ہرا س پھی النے واال<br />

جب اصل مذاہب کو واعظ سیتی ہم پوچھا<br />

تب ہم سے کہنے لگا قصہ وح<strong>کا</strong>یات یں


میر دمحم حسن کل یم<br />

غلط سلط اور غیر متعلق باتیں کرنے واال ۔ دوسرے<br />

لفظوں میں علم و دانش سے پیدل۔ الٹے سیدھے قصے<br />

سنا کر لوگوں کومخمصے میں ڈالنے واال اور پنے<br />

بہترین نالج <strong>کا</strong>سکہ بٹھانے کی کو شش کرنے واال<br />

واعظو،‏ ا تشِ‏ دوزخ سے جہاں کو تم نے<br />

یہ ڈرایا کہ خود بن گئے ڈر کی صور ت<br />

الطاف حسین حال ی<br />

لوگوں میں اخرت <strong>کے</strong> عذاب <strong>کے</strong> حوالہ سے اس قدر<br />

خوف ہراس پیدا کرنے واال کہ لوگ اس سے ملنے سے<br />

بھی خوف کھانے لگ یں۔<br />

ویسے تومیری راہوں میں پڑتے تھے می کدے<br />

واعظ تری نگاہوں سے ڈرنا پڑا مجھے<br />

ا شا پربھات<br />

<strong>غالب</strong> <strong>کا</strong> اپنا ڈھنگ ہے۔<br />

واعظ <strong>کے</strong> کہے پر حیران نہیں<br />

ہوتے بلکہ بڑا عام لیتے ہ یں


کوئی دنیا میں مگر باغ نہی ں ہے واعظ<br />

خلد بھی باغ ہے خیر اب وہوا اورسہ ی<br />

ی ار<br />

یار بڑا عام سا لفظ ہے اور ہمارے ہاں بہت سے معنوں<br />

میں استعمال ہوتاہے مثال ً گہرا دوست ‏،لنگوٹیا،‏<br />

مددگار،تعاون کرنے واال،‏ بُرے وقت میں <strong>کا</strong>م انے واال ،<br />

دوستوں <strong>کا</strong> دوست ، نبھا کرنے واال ، بازاری معنوں میں<br />

کسی عورت <strong>کا</strong> عاشق وغیرہ ۔ یہ لفظ تسکین <strong>کا</strong> سبب بنتا<br />

ہے۔ ہمت بندھ جاتی ہے اور امداد ملنے <strong>کا</strong> احساس جاگ<br />

اٹھتا ہے۔ اعصابی تنائو کم ہو جاتا ہے ۔<br />

<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> ہاں<br />

یار،‏ ہمددر <strong>کے</strong> معنوں میں استعمال ہواہے<br />

‏\مند گئیں کھولتے ہی کھولتے انکھی ں <strong>غالب</strong><br />

یا ر الئے مری بالی ں پہ اسے ، پر کس وقت<br />

ہمددر اور جگر ی<br />

دوست جو<br />

یار کو خوش رکھنے کو


بگڑے ‏،ناراض ، ضدی<br />

اوراڑیل کو بھی<br />

مناکر دوست <strong>کے</strong><br />

در پر لے ا ئیں۔<br />

موالناعبدی<br />

نے حضور <strong>کے</strong> لئے<br />

یار <strong>کا</strong> لفظ استعمال کیاہے<br />

ہللا موال پاک ہے جو جگ سر جن ہار<br />

جن دیا ی ارصد ق سوں سوے اترے پار<br />

موالنا عبد ی<br />

قزلباش خاں امید نے گھر <strong>کے</strong> محبوب ترین فرد <strong>کے</strong> لئے<br />

اس لفظ <strong>کا</strong> انتخاب کی ا ہے<br />

یار بن گھر می ں عجب صحبت ہے<br />

درودی وار سے اب صحبت ہے<br />

ام ید<br />

شاہ مبارک ابرو نے محبوب <strong>کے</strong> لئے استعمال کیا ہے جو<br />

پیار،‏ محبت اور شوق کو فراموش کر دیتاہے۔ اس طرح<br />

انہوں نے محبوب پیشہ لوگوں <strong>کا</strong> وتیرا اورعمومی رویہ<br />

اورچلن کھول کر رکھ دی ا ہے


افسوس ہے کی مجھ کو وہ ی اربھول جائے<br />

وہ شوق وہ محبت وہ پی ار بھول جائے<br />

شاہ مبارک ا برو<br />

عبدالحی<br />

تاباں <strong>کے</strong> نزدیک جس <strong>کے</strong> بنا دلی بےچین<br />

وبےکل رہے<br />

بہت چاہا کہ اوے یار یا اس دل کو صبر ا وے<br />

نہ یار ایا نہ صبر ایا دیا جی می ں نداں اپنا<br />

تاباں<br />

میر علی<br />

اوسط رشک <strong>کے</strong> نزدیک ایسا دوست جس کی<br />

محبت ، چاؤ اور گرمجوشی سے تہی ہو<br />

یار کو ہم سے لگای نہ یں<br />

وہ محبت نہیں وہ چاؤنہ یں<br />

رشک


قدیم اردو شاعری<br />

میں<br />

یہ لفظ زیادہ تر محبوب معشوق <strong>کے</strong><br />

لئے استعمال ہواہے ۔<br />

لوگ<br />

لو گ ‏،عام استعمال <strong>کا</strong>لفظ ہے ۔<br />

فردواحد <strong>کے</strong> لئے نہیں بوال جاتا۔ اس لفظ <strong>کے</strong> ساتھ کوئی<br />

کردار مخصوص نہیں۔ کوئی ساکر دار اس لفظ <strong>کے</strong> ساتھ<br />

منسلک ہوسکتاہے۔ اس لفظ <strong>کے</strong> حوالہ سے سر زد ہونے<br />

والے افعال سابقوں اور الحقوں سے وابسطہ ہوتے ہیں۔<br />

<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> ہاں اس کر دار کی <strong>کا</strong>ر فرمائی مالحظہ ہو<br />

اگلے وقتوں <strong>کے</strong> ہیں یہ لوگ انہی ں کچھ نہ کہو<br />

جومے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہ یں<br />

سید ھے سادھے،‏ بھولے،‏ بےووقوف جن <strong>کا</strong>نالج درست<br />

نہ یں<br />

لفظ لوگ پہلے ہی<br />

جمع <strong>کے</strong> لئے استعمال ہوتاہے۔<strong>غالب</strong> اس<br />

کی جمع بھی استعمال میں الئے ہ یں


لوگوں کو ہے خورشی دِ‏ جہاں تاب <strong>کا</strong> دھوکہ<br />

ہر روز دکھاتاہوں می ں اک داغ نہاں اور<br />

ناظرین جوغلط فہمی یا دھو<strong>کے</strong> میں ہوں۔ کسی <strong>کا</strong>م یا<br />

تماشے <strong>کے</strong> لئے ناظر ین کلیدی حیثیت <strong>کے</strong> حامل ہوتے<br />

ہیں۔ ورنہ <strong>کا</strong>رکردگی <strong>کے</strong> متعلق منفی یا مثبت رائے کون<br />

دے گا ۔<br />

شیخ جنید اخر کو واپس پھرنے واال،‏ اس لفظ <strong>کا</strong> کردار<br />

متعین کرتے ہ یں<br />

نہ کس مونس بوددےگر نہ بھائی باپ مہتار ی<br />

تراگھر گوربسیار ند پھر کر لوگ گھر ا و<br />

شیخ جن ید<br />

می ر صاحب <strong>کے</strong> ہاں بطور جمع استعمال ہواہے<br />

اگے جواب سے ان لوگوں <strong>کے</strong> بارے معافی اپنی ہوئ ی<br />

ہم بھی فقیر ہوئے تھے لیکن ہم نے ترکِ‏ سوال ک یا<br />

میر


’’<br />

<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> ہاں اہل‘‘‏ <strong>کے</strong> سابقے کی بڑھوتی سے کچھ<br />

جمع کردار تشکیل پائے ہیں۔ان <strong>کرداروں</strong> <strong>کے</strong> حوالہ سے<br />

کچھ نہ کچھ ضرور وقوع میں اتاہے ۔ نمونہ <strong>کے</strong> تین کردار<br />

مالحظہ ہوں ۔<br />

اہل بی نش<br />

دانشور حضرات <strong>کا</strong> زوایہء نظر دوسروں سے ہمیشہ<br />

مختلف رہاہے اور یہ طبقہ معاشروں <strong>کے</strong> وجود <strong>کے</strong> لئے<br />

دلیل وحجت رہاہے۔ <strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> ہاں اس طبقے <strong>کا</strong> کردار بڑی<br />

عمدگی سے واضح کیا گیاہے۔ یہ طبقہ حوادث سے سبق<br />

سیکھتا ہے اور ان حوادث <strong>کے</strong> حوالہ سے تنگ حاالت میں<br />

بھی راہیں تالش تا رہتاہے<br />

اہل بی نش کو ہے طوفان حوادث مکتب<br />

لطمہءموج کم ازسیلی استاد نہ یں<br />

اہل تمنا<br />

قسم کی بھی کسی<br />

تمنا کرنے رکھنے واال طبقہ ، ہمیشہ


سے انسانی معاشروں میں موجود رہاہے۔ <strong>غالب</strong> نے اس<br />

طبقے <strong>کے</strong> کردار کو کمال عمدگی سے پینٹ کیاہے۔ محبوب<br />

<strong>کا</strong> جلوہ جو اہل تمنا کو فنا کردے۔ یہ اہل تمنا کی انتہائی<br />

درجے کی عیاشی می ں شمار ہوتاہے<br />

عشرتِ‏ قتل گہِ‏ اہل تمنامت پوچھ<br />

عید نظارہ ہے شمشیر <strong>کا</strong> عری اں ہونا<br />

اہل ہمت<br />

اہل ہمت <strong>کا</strong> ہونا کسی معاشرے <strong>کے</strong> ہونے کی گرانٹی<br />

ہے۔<strong>غالب</strong> بڑے پائے کی بات کہہ رہے ہیں ۔<br />

<strong>کا</strong>ئنات کی ان گنت چیزیں ازاد ہیں اور انسانی تصرف میں<br />

نہیں ہیں ۔ اگر اہل ہمت موجو د ہوتے تو یہ ازادنہ ہوتیں<br />

۔انسان انہیں کھا پی گیا ہوتا۔ اہل ہمت <strong>کے</strong> ظرف <strong>کا</strong><br />

بھالکون اندازاہ کر سکتا ہے۔ مثال یہ دیتے ہیں مے خانے<br />

میں شراب باقی ہے تویہ اس امر کی دلیل ہے کہ اہل ہمت<br />

موجود نہیں ہیں۔ شعر دی کھئے<br />

رہا ا بادعالم اہل ہمت <strong>کے</strong> نہ ہونے سے<br />

بھر ے ہیں جس قدر جام و سیو مےخانہ خالی ہے


اہل ‘‘ سے ترکیب پانے والے الفاظ کردار اپنی ذات میں<br />

حد درجہ جامعیت رکھتے ہیں ۔انسانی فکر کو حرکت<br />

اوربالیدگی سے سرفراز کرتے ہیں ۔<br />

<strong>غالب</strong> نے کچھ مرکب الفاظ سے کردار تخلیق کئے ہیں ۔<br />

مثالً‏ پری وش ، پری پیکر ، بہشت شمائل وغیرہ ۔ یہ کردار<br />

محبوب سے متعلق ہیں۔ یہ محبوب کی شوخی،‏ نازو نخرا،‏<br />

حسن وجمال ادائوں وغیرہ کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہ کردار<br />

<strong>غالب</strong> <strong>کے</strong> ذوق ‏ِجمال <strong>کا</strong> بڑاعمدہ نمونہ ہ یں۔<br />

مثالً‏<br />

نہ سمجھوں اس کی باتیں گو نہ پائوں اس <strong>کا</strong> بھ ید<br />

پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پی کر کھال<br />

ضمائر<br />

میں ، مجھ ، مجھے ، میرا ، میری ، میرے ایسی ضمائر<br />

ہیں جو شخص کی اپنی ذات سے متعلق ہوتی ہیں ۔ یہ بھی<br />

کہنے والے <strong>کے</strong> ماضی الضمیر سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں ۔<br />

ان کی نقل وحرکت اور <strong>کا</strong>رگزاری انسانی نفسیات پر اثر


انداز ہوتی ہے ۔<br />

جب کوئی شخص اپنی کہنے لگتاہے توان ضمائر <strong>کا</strong><br />

استعمال کرتاہے۔ اس ضمن میں دوتین مثالیں بطو رنمونہ<br />

مالحظہ ہوں<br />

میں نے رو<strong>کا</strong> رات <strong>غالب</strong> کو وگرنہ دی کھتے<br />

اُس <strong>کے</strong> سیلِ‏ گریہ می ں گردوں کف سےالب تھا<br />

میں <strong>کا</strong> کردار بڑا توانا ہے اس <strong>کے</strong> حوالہ سے خطرناک<br />

صورتحال <strong>کا</strong> خطرہ ٹل جاتا ہے<br />

نہ سمجھوں اس کی باتیں گونہ پاؤں اس <strong>کا</strong> بھ ید<br />

پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پی کر کھال<br />

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شبِ‏ غم بُری بال ہے<br />

مجھے کیا براتھا مرنا اگر ای ک بار ہوتا<br />

تو،‏ تجھ ‏،تم ، تیرا،‏ تیرے اس ، اپ ، وہ وغیرہ <strong>کے</strong> حوالے<br />

سے افعال کی وقوع پذیری سامنے التے ہیں ۔<br />

مثالً‏<br />

تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم جب اٹھی ں گے<br />

لے ائی ں گے بازار سے جاکر دل وجاں اور


ارہا وہ<br />

مرے ہمسایہ می ں تو سائے سے<br />

ہوئے فدا درودیوار پر دردی وار<br />

حواش ی<br />

سورہ البقر<br />

دیوان جہاں دار،‏ مرتب ڈاکٹر وحید قر یشی<br />

دیوان مہ لقا بائی چندا،‏ مرتب شفقت رضو ی<br />

دیوان حالی،‏ خواجہ الطاف حسین حال ی<br />

ید وان درد،‏ مرتب خلیل الرحمن داود ی<br />

کلیات ولی ، نور الحسن ہاشم ی<br />

کلیات میر ج ا،‏ مرتب کلب علی خانفائق<br />

کلی ات قائم،مرتب اقتدار حسن<br />

کلی ات مرزا دمحم رفی ع سودا<br />

تذکرہ مخزن ن<strong>کا</strong>ت،‏ قائم چاند پور ی<br />

تذکرہ حیدری،‏ مولف حیدر بخش حیدری ، مرتبہ ڈاکٹر<br />

عبادت بریلو ی<br />

تذکرہ خو ش معرکہ زی با ج ا،‏ سعادت ناصر خاں<br />

تذکرہ بہار ستان ناز ، کلیم فصیح الد ین


یدل<br />

ینب<br />

پنجاب میں اردو،‏ حافظ محمود شیران ی<br />

<strong>کا</strong> دبستان شاعری،‏ نور الحسن ہاشم ی<br />

اردوئے قدیم،‏ ڈاکٹر دمحم باقر<br />

سندھ میں ارد وشاعری ، مولف ڈاکٹر بخش خاں بلوچ<br />

شاہ عالم ثانی افتاب احوال و ادبی خدمات،‏ ڈاکٹر دمحم خاور<br />

جم یل<br />

روح المطالب فی شرح دیوان ‏ِ<strong>غالب</strong>،‏ شاداں بلگرام ی<br />

بیان <strong>غالب</strong>،‏ ا غا باقر<br />

نوائے سروش،‏ غالم رسول مہر<br />

نفسیات،حمیراہاشم ی

Hooray! Your file is uploaded and ready to be published.

Saved successfully!

Ooh no, something went wrong!