30.09.2015 Views

mphil_2015_09_30_20_40_49_474

  • No tags were found...

You also want an ePaper? Increase the reach of your titles

YUMPU automatically turns print PDFs into web optimized ePapers that Google loves.

ایم فل االؤنس<br />

اور<br />

میری معذرت خوانہ شرمندگی<br />

پیسہ'‏ طالت'‏ ہتھیار اور اختیار بولتے نہیں'‏ سر چڑھ<br />

کر'‏ گرجتے اور برستے ہیں۔ وہ زندگی اپنے طور اور<br />

اپنی مرضی سے بسر کرتے ہیں۔ کون جیتا اور کون<br />

مرتا ہے'‏ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ انہیں<br />

کبھی اور کسی سطح پر'‏ یہ امر خوش نہیں آتا کہ ان<br />

کے سوا'‏ کوئی اور بھی ہے۔ زندگی کی پگ ڈنڈی پر<br />

چلتے لوگ'‏ لوگ نہیں'‏ محض غالظت بھرے کیڑے<br />

لگتے ہیں۔ ان کے لیے'‏ ان کے پاس حمارت اور نفرت<br />

کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ وہ انہیں اپنے گراں لیمت<br />

جوتے سے'‏ ٹھوکر لگانا بھی پسند نہیں کرتے'‏ مبادہ<br />

آلودہ ہو جائیں گے۔ ایسے کام کے لیے'‏ ان کے پاس'‏<br />

چمچوں کڑچھوں کی کمی نہیں ہوتی۔<br />

پیسہ'‏ طالت'‏ ہتھیار اور اختیار خود کو اٹل اور مکمل<br />

سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک'‏ ان کا کیا اور کہا'‏ ہر<br />

کجی سے باالتر ہے۔ اس پر انگلی رکھنا'‏ موت اور


دکھ درد کو ماسی کہنے کے مترداف ہوتا ہے۔ چوری<br />

خور مورکھ اور لصیدہ گزار شاعر'‏ اس سب کو'‏ الوال<br />

و افعال زریں لرار دے دیتا ہے۔<br />

جہاں کہیں یہ باطورگیسٹ'‏ باطالع یا بال اطالع ورد<br />

ہوتے ہیں'‏ پروٹوکول'‏ حفاظت اور دوسرے معامالت<br />

کے حوالہ سے'‏ وختہ پڑ جاتا ہے۔ لوگوں کو سمجھ<br />

نہیں آتا کہ انہیں بٹھائیں کہاں'‏ ڈکارنے اور پھاڑنے<br />

کے لیے ‏'کیا پیش کریں۔ اس ذیل میں'‏ جملہ چمچگان<br />

اپنے پیچھے کا پورا زور لگا دیتے ہیں۔ یہ سب کرنے<br />

کے باوجود'‏ انسان ہونے کے ناتے'‏ کہیں ناکہیں کوئی<br />

کمی کوتاہی رہ ہی جاتی ہے۔ سارے کیتے کترائے پر'‏<br />

پانی پھر جاتا ہے۔ کسی چہاڑ چھنب کے باوجود'‏ انہیں<br />

غصہ نہیں آتا۔ غصہ کرنے کا'‏ انہیں حك بھی حاصل<br />

نہیں ہوتا۔ وہ کسی اگلی بار'‏ اس کمی کوتاہی کو دور<br />

کرنے کا'‏ اپنی ذات سے عہد باندھ لیتے ہیں۔<br />

پیسہ'‏ طالت'‏ ہتھیار اور اختیار کی معمولی خوشی پر'‏<br />

رو بہ رو ہی نہیں'‏ دور دراز عاللوں میں رہتے ہوئے<br />

لوگ'‏ دوہائی کا جشن مناتے ہیں۔ ظاہری اور باطنی<br />

سطح پر'‏ وہ خالص اور اصلی ہی دکھائی پڑتا ہے۔


درحمیمت انہیں معلوم ہوتا ہے'‏ کہ مخبر کی آنکھیں<br />

کھلی اور معاملہ شناس ہوتی ہیں۔ دوسرا ممامی حرف<br />

گر'‏ منٹ منٹ کی خبریں'‏ لرطاس ہنر پر رلم کر رہا<br />

ہوتا ہے۔ وہ اس ساری عمومی کوشش کو'‏ حتی<br />

الممدور اپنی کوشش اور خوشی ثابت کرنے کی<br />

کوشش کرتا ہے۔ زیادہ تر کامیاب بھی ٹھہرتا ہے اور<br />

آوٹ آف ٹرن ترلی بھی حاصل کر لیتا'‏ ورنہ گڈ بک<br />

میں اس کا نام نامی اسم گرامی'‏ زعفرانی روشنائی<br />

سے'‏ بالتکلف درج ہو جاتا ہے اور کسی دوسرے<br />

ولت'‏ پچھلے کیے کا بھی انعام گرہ لگتا ہے۔<br />

معمولی ناسازی طبع'‏ یا گماشتے جی حضوری میں'‏<br />

اپنے کمال کا شیرہ ڈال کر'‏ شفا گاہوں کے درودیوار<br />

اور ان کے اکڑوند باسی'‏ ہال کر رکھ دیتے ہیں۔ گویا یہ<br />

پہلی ترجیح کالس ایمرجنسی ہوتی ہے۔ اس ڈرامے<br />

کے دورانیے میں'‏ کتنے بی اور تھرڈ کالس'‏<br />

ایمرجنسی میں پڑے لوگ'‏ جان سے جاتے ہیں یا جان<br />

جانے کی اسٹیج پر پہنچ جاتے ہیں.‏ یہ سب'‏ کسی<br />

کھاتے پر نہیں چڑھتا'‏ ہاں یہ پہلی ترجیح پلس<br />

ایمرجنسی'‏ یادوں کے کھاتے پر چڑھ جاتی ہے۔


میں نے پیسہ'‏ طالت'‏ ہتھیار اور اختیارکو'‏ کوئی<br />

شخصی نام نہیں دیا'‏ کیوں کہ یہ خود کو فرعون کی<br />

پیروی میں خدا نہیں کہتے'‏ حاالں کہ ان کا کہنا اور<br />

کرنا'‏ فرعون کا سا ہی ہوتا ہے۔ انسان اس لیے نہیں<br />

کہا جا سکتا'‏ کہ وہ انسانوں کو کیڑے مکوڑے<br />

سمجھتے ہیں۔ گزشتہ سے عبرت لینا'‏ ان کے مزاج<br />

میں داخل نہیں ہوتا۔ فنا کا فلسفہ اور ان گنت مثالیں'‏<br />

ان کے مزاجی نالج میں داخل نہیں ہوتیں۔ اگر کوئی'‏<br />

یاد دالنے کی کوشش میں'‏ سدھار اور ان ہی کی<br />

خیرخواہی کا جتن کرتا ہے'‏ تو جان سے جاتا ہے۔ گویا<br />

فنا ان کے لیے نہیں ہے اور مالک کے دربار'‏ ان کی<br />

حضوری کا کوئی تعلك واسطہ نہیں۔ ہر کوئی ان کے<br />

حضور حاضری کا پابند ہے۔ زندگی کے آخری موڑ پر<br />

بھی'‏ دنیا سے جانا یاد میں نہیں آتا اور یہ گمان سے<br />

نکل نہیں پاتا کہ میں کے لیے فنا ہے اور بما تو صرف<br />

اورصرف هللا ہی کی ذات کو ہے اور وہ ہی بالی رہنے<br />

کے لیے ہے۔<br />

عین لانون لدرت کے مطابك'‏ وہ فنا سے گزرتے ہیں'‏<br />

تو فمط چوری خور مورکھ کا لکھا بالی رہ جاتا ہے۔<br />

اکثر اولات وہ لکھا'‏ متنازعہ ہو جاتا اور عمومی


حلموں کی تمسیم کا باعث بنتا ہے'‏ جو آتے یگوں میں'‏<br />

آتی نسلوں کے لیے نمصان کا باعث بنتا ہے۔ یہ<br />

چاروں آواگونی ہیں'‏ نئے انداز اور نئے روپ کے<br />

ساتھ نمودار ہو جاتی ہیں'‏ تاہم چلن اور اطوار میں<br />

تبدیلی نہیں آتی۔ حجاج سفاک تھا'‏ لیکن چرچل اس<br />

سے کسی طرح پیچھے نہ تھا۔ مسڑ چہاڑی کا ذکر<br />

امریکی ہونے کے باعث'‏ نہیں کیا جا سکتا۔ جب کوئی<br />

نئی لوم'‏ ہیرو کے مرتبے پر فائز ہو گی'‏ تو گزرا کل<br />

آتے لوگوں کے لیے'‏ محض داستان ہو کر رہ جائے<br />

گا۔ ہوسکتا ہے'‏ نئے کے چکر میں پرانے کو بھول<br />

جائیں'‏ تاہم مورکھ کی لکھتوں کے باعث'‏ تنازعہ کا<br />

دروازہ ضرور کھل جائے گا۔۔ ناظر مٹی میں مل کر<br />

مٹی ہو چکے ہوں گے۔ کسی عارضی اور مصنوعی و<br />

جعلی لوت کو'‏ بما نہیں۔ لارون اس لیے یاد میں ہے'‏<br />

کہ اس کا پاال'‏ هللا کے منتخب شخص کے ساتھ تھا۔<br />

طالت کی بات اپنی جگہ'‏ اس کے خصوصی بلکہ<br />

عمومی کنکبوتی بھی'‏ انہیں وی آئی پیز کہا جاتا ہے'‏<br />

مذکوران سے کہیں زیادہ زہریلے ہوتے ہیں۔ ان کا ڈسا<br />

پانی بھی مانگ نہیں پاتا۔ بجلی پانی گیس کے بل کیا<br />

ہوتے ہیں'‏ سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ عید پر لربانی کے


بکرے'‏ تحفہ میں مل جاتے ہیں۔ ہر چھوٹے موٹے<br />

تہوار پر'‏ سو طرح کے مہنگے تحفے بال طلب کیے'‏<br />

ان کی دہلیز چڑھنے کا اعزاز حاصل کرتے ہیں۔ تہوار<br />

چڑھانے واال'‏ اس میں فخر محسوس کرتا ہے اور خود<br />

کو'‏ کنکبوتی کا اپنا آدمی سمجھنے لگتا ہے۔ یہ سوچ<br />

اسے'‏ انھی پانے پر مجبور کر دیتی ہے۔<br />

جنسی تسکین کے لیے'‏ انہیں لڑکی پٹانے کے لیے'‏<br />

کسی طرح کا'‏ ویل نہیں کرنا پڑتا اور اس ذیل میں جیب<br />

ہلکی کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بستر نواز'‏ انہیں<br />

ہر لسم کی محتاجی سے'‏ بچائے رکھتے ہیں۔ یہ ہی<br />

نہیں'‏ ورائٹی صاحب کے مزاج کے مطابك'‏ بدلتے<br />

رہتے ہیں۔<br />

لفافہ کلچر'‏ ان ہی کی دین ہے۔ لفافہ اپنی کارگزاری کا<br />

جواب نہیں رکھتا۔ یہ لفافے ہی کا کمال ہے'‏ کہ ڈی<br />

میرٹی کے جملہ داغ دھبے'‏ مٹا دیتا ہے۔ میرٹ کو<br />

ڈی میرٹ کرنے کے'‏ سارے گن'‏ اس کے گرد رلص<br />

کرتے ہیں۔ لفافہ بردار کو اگر مسکراہٹ میسر آ جائے'‏<br />

تو گویا اس کے بھنے اگ پڑھتے ہیں'‏ ورنہ<br />

سپلیمنٹری لفافہ پیش کرنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔


منشی گاہوں میں بھی'‏ کنکبوتی موجود ہوتے ہیں.‏ یہ<br />

بڑی'‏ بلکہ بہت بڑی شے ہوتے ہیں۔ یہ تو یہ'‏ ان کے<br />

معاون پی یو سی طراز'‏ بڑے بلند مرتبے پر فائز ہوتے<br />

ہیں۔ یس کو نو اور نو کو یس میں بدلنے کے ہر گر'‏<br />

سے والف ہوتے ہیں۔ گویا آسمان سے ٹاکی اتارنا اور<br />

لگانا'‏ ان پر ختم ہے۔<br />

خواتین اپنے آپ میں'‏ بڑی شے'‏ بنتی ہیں لیکن نخرہ<br />

بازی میں'‏ ان کے عشر عشیر بھی نہیں ہوتیں۔ ہوٹل<br />

کے کھانے'‏ انہیں اور ان کی گھر والیوں کو'‏ بڑے ہی<br />

خوش آتے ہیں۔ گرہ خود سے کھانا'‏ رزق حرام کے<br />

زمرے میں آتا ہے۔ سامیاں اپنے اپنے عاللے کی<br />

سوغات'‏ النا نہیں بھولتیں۔ میں میں کرنے کے ساتھ<br />

ساتھ کھانے کا اہتمام بھی کرتی ہیں۔ ان کے گھر<br />

والوں کے لیے'‏ الگ سے شاپر تیار کرواتی ہیں۔ گویا<br />

وی آئی پیز کے ماحت ہونے کے سبب'‏ داسوں گھی<br />

میں اور سر کڑاہے میں رہتا ہے۔ گھر کی کسی تلخی<br />

کا غصہ نکالنے کے لیے'‏ سامیاں لدم بوس ہوتی رہتی<br />

ہیں۔


کہا جاتا ہے'‏ زندگی کرنا آسان نہیں'‏ ان طبموں میں'‏<br />

اس ممولے کا دور تک اتہ پتا نہیں ملتا۔ ہاں آخرالذکر<br />

طبمے پر'‏ بعد از ریٹائرمنٹ اطالق کیا جا سکتا ہے۔ یہ<br />

طبمے'‏ چوں کہ تعدادی حوالہ سے'‏ زیادہ نہیں ہیں'‏<br />

لہذا تعدادی حوالہ سے زیادہ پر'‏ اس کا اطالق ہوتا<br />

ہے۔ وہ ناصرف غیر محفوظ ہوتے ہیں'‏ بل کہ ان گنت<br />

معاشی معاشرتی اور دفتری مسائل میں'‏ گھرے ہوتے<br />

ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ دہلیز کے اندر'‏ چھے ستمبر کی<br />

کیفیت طاری رہتی ہے۔ نہ جی سکتے ہیں اور زندگی<br />

جیسی بھی سہی'‏ انہیں مرنے نہیں دیتی۔ گویا<br />

نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن<br />

میں اسالمی جمہوریہ پاکستان کے حوالہ سے بات<br />

نہیں کر رہا۔ یہاں مسلمان الامت پذیر ہیں۔ یہ ملک اپنی<br />

بنیادوں میں پروفسر اصغر سودائی کا یہ نعرہ رکھتا<br />

ہے۔<br />

پاکستان کا مطلب کیا ال الہ اال هللا<br />

یہاں کی طالتیں اور ان کے کنکبوتی بھی بااصول اور<br />

مجوزہ شرع پر کار بند ہیں۔<br />

اصولی طور پر کچھ حاصل کرنے کے لیے کچھ دینا تو


پڑتا ہی ہے۔<br />

دراصل میں ہی بےاصوال تھا'‏ جو بالچہڑے'‏ اپنے ایم<br />

فل االونس کی حصولی کا 1997 سے منتظر رہا۔ بعد<br />

از ریٹائرمنٹ بھی درخواستیں گزارتا رہا۔ میں خواہش<br />

مند تھا'‏ کہ اس ممدس بارگاہ کا اعتراض کردہ خط ہی<br />

میسر آ جاتا'‏ تا کہ تبرکا تعویز بنا کر'‏ گلے میں ڈال<br />

لیتا۔ بالشبہ وہاں کی حرف کاری'‏ میرے لیے اعزاز<br />

خسروی سے'‏ کسی طرح کم نہ ہوتی۔ میں اپنی<br />

درخواست بازی پر نہایت شرمندہ ہوں۔ ویسے بےلیے'‏<br />

یہ دے بھی دیا جاتا'‏ تو حاتم کی روح اس لطف و عطا<br />

پر'‏ شرمندہ و نادم ہوتی۔ میرا یہ بمایا'‏ ان کے<br />

پوٹیکدے پر مہینے میں اٹھنے والے خرچے کا'‏ عشر<br />

عشیر بھی نہ ہے۔

Hooray! Your file is uploaded and ready to be published.

Saved successfully!

Ooh no, something went wrong!