15.08.2015 Views

ghazlain_2015_08_14_17_57_05_912.pdf

  • No tags were found...

You also want an ePaper? Increase the reach of your titles

YUMPU automatically turns print PDFs into web optimized ePapers that Google loves.

لند رفتہممصود حسنیتم لیے پھرتے ہو دستار فضیلتلوگ رہتے ہیں یہاں سربریدہمیں اپنی نظموں کو ہی'‏ سب کچھ سمجھ رہا تھا۔


ماضی کے کہے بالافیہ کالم کو'‏ بچگانہ کوششسمجھ کر نظر انداز کرتا آ رہا تھا۔ بہت سا کالمردی کی نذر ہو گیا'‏ کچھ بچوں کے کاؼذی ہوائیجہاز اور کشتیاں بنانے کے کام آ گیا۔ ایک دن ایککاؼذ جس کا کاؼذی بیڑی کے طور پر استعمال ہوچکا تھا'‏ دیکھنے کا اتفاق ہو گیا.‏ اس پر یہ شعر‏.رلم تھاتم لیے پھرتے ہو دستار فضیلتلوگ رہتے ہیں یہاں سربریدہاس شعر کو پڑھ کر'‏ احساس ہوا کہ میری سوچؼلط تھی۔ پھر میں برانے کالم کو جمع کرنے کاارادہ کیا۔ کچھ کم تین سو شعر جمع کر پایا ہوں بالتبدیلی پیش کر رہا ہوں۔ میں نے درست کیا یا ؼلط'‏احباب بہتر فیصلہ کر سکیں گے۔فانیممصود حسنی


ؼزلنہ دیکھ لہرآلود نظروں سےیہ دل ہے سنگ دشت نہیںویران ہے پروانوں کی دنیایہ سایہء زلؾ ہے موت نہیںاے لاتل حسرت رحم کربےرحم دمحم کی امت نہیںسحر کر گئی تری بےرحم ادااسیر زلؾ کو ہوس تخت نہیں...............ؼزلہر آنسو ؼم زندگی کا راز ہوتا ہےجو بہہ گیا دل کی آواز ہوتا ہےتکمیل عشك ابتدائے ضبط وجنوںآئینہءدل سنج گداز ہوتا ہےہر صدؾ کی لسمت میں گوہر کہاںہزار پرند میں اک شہباز ہوتا ہے


جو پی گیا کیؾ و مستی کے ساعروہ نؽمہ بے صدا'‏ بےساز ہوتا ہےجون‎27‎‏'‏1968.............ؼزلمری خوابیدہ امیدوں کو جگایا کیوں تھادل جالنا تھا اگر تو دل لگایا کیوں تھامجھے گرانا تھا اپنی نگاہوں سے اس طرحتو مرے عشك کو سینے سے لگایا کیوں تھاعمر بھر پاس نہ آنے کا ارادہ تھا اگرمجھے اپنے عشك میں دیوانہ بنایا کیوں تھایاس کی نیند سالنا تھا اگر مجھ کومری امید کی راتوں کو جگایا کیوں تھاولولہ اپنی محبت کا گرانا تھا اگر اس طرححوصلہ مری خفتہ امیدوں کو دالیا کیوں تھالب پر مہر سکوت لگانی تھی اگر اس طرحمجھے نؽمہءامید آخر سنایا کیوں تھابادہء عشك میں تلخی ہی سہی میاں زاہد


پہلے اس جام کو ہونٹوں سے لگایا یوں تھافروری '23 1970..................ؼزلہر جفا کو ہم تری ادا سمجھےاس زبان بندی کو حیا سمجھےدل کی خبر نہیں مجھ کو ستمگردم جو بچا اسے تری عطا سمجھےدل کا کھال ؼنچہ دکھ جاگ اٹھااپنی اسے آج لبول دعا سمجھےخوب ہوا جو مال جام لہو مجھ کوگھر میں بہتی اسے گنگا سمجھےہم اس بزم میں اسے دانا سمجھیںدہر میں گر برا ہو جو برا سمجھےتیر فکر ہو گر پار سینے سے آجہم اسے تحفہ عید میں مال سمجھےاگست '2 1969...............ؼزل


عزم آہن پختہ یمین اور عشك حسینہوں باہم تو بنتا ہے هللا کا سپاہیجو کھو گیا ہنگام سود و زیاں میںمٹ جاتا ہے منزل عشك کا وہ راہیدل مومن ذوق نظارہ سے لبریز ہوتو مٹ جاتی ہے میں ہوں کی سیاہیفروری '4 ` 1969.................ؼزلان آنکھوں کا یہ کمال تھاہر جواب‘‏ خود اک سوال تھاکہنے کو عاشك تھے بہت وہاںاویس تھا ان میں نہ کوئی بالل تھاہوا میں لہو کی خوشبو بس گئی تھیصبح کی آؼوش میں سویا زوال تھاشہر اخالص کے لیٹرے خدا ہوئےامیر شہر کی نظر کا کیسا کمال تھا


٢-٥-١٩٨٨...........ؼزلجب سے بھوک کے لفظ پڑھے تھے اخباروں میںڈھونڈ رہا ہوں سایہ اپنا گلیوں میں بازاروں میںمیں تو سورج بن کر چمکوں گا ہراک پلچاہے چن دو تم مجھ کو پتھر کی دیواروں میںدل میں آگ لگی من بوجھل بوجھل سا ہےکاش میں شامل ہو جاؤں کونجوں کی ڈاروں میںجانے کس جانب سے آ جاتا ہے چہرا تیراجب بھی درد کہانی چھڑتی ہے یاروں میںسب رنگ موسم کے زاہد کو شوبھا دیتے ہیںپھول بن کر جب زخم کھلتے ہیں بہاروں کے29-10-1970.............حریت کی راہ پر چلنے والو


ہر پل نیا ایک پھندا ہو گاشہادت کے در وا ہوں گےضمیر جس لوم کا زندہ ہو گاحرص کی راہ میں کھوج عدل کیتملید مؽرب دھندا ہو گاگر اسالم نہ آیا بستی میںکائی دھوپ سرکنڈا ہو گاخواب ؼفلت سے جاگو ورنہپیٹھ تمہاری کفر کا ڈنڈا ہو گابھیک کا طوق نہ لے کر جاناحضور خدا کے شرمندہ ہو گاہتھیلی پر سر رکھنے واالآج بھی زندہ کل بھی زندہ ہو گاعمل میں جتنی تاخیر کرو گےدل مردہ ذہن پرگندہ ہو گاامسال کعبہ میں پھر حسنیآلا ہو گا نہ بندہ ہو گا29-10-1970............


ؼزلمؽرب جب سے ہمارا خدا ہوا ہےدشمنوں میں ہر چند اضافہ ہوا ہےہر کوئی حصول زر میں لگا ہوا ہےدوست بھی دشمن کا ہم نوا ہوا ہےعیش و طرب کی خاطر آج ابن آدملرض کے جہنم کا ایندھن بنا ہوا ہےمرے دور کے بےحس انسانوں نےخودی بیچ دینے کا عہد کیا ہوا ہےظالم عزت و تولیر کا مستحك ٹھہرا ہےمظلوم پا بہ زنجیر رکھا ہوا ہےکون بولے اس بےحجاب حمام میںہر کسی کے منہ میں زیرہ بھرا ہوا ہےبوری کے اندر کیا ہے کوئی کیا جانےبوری کا منہ ٹھیک سے سال ہوا ہے‎7‎جون 1978...........ؼزل


موچی ہیں درزی ہیں یا نائی ہیںسوچو ہم بھی توتمہاے بھائی ہیںلدرت ہے اس مالک دوجہان کیکچھ بن گیے پہاڑ کچھ رائی ہیںکچھ امن کے داعی ہیں ان میںکچھ مردہ ضمیر کچھ سراپا لڑائی ہیںبات کریں جو روٹی کی اس دور میںوہ دیوانے ہیں پاگل ہیں سودائی ہیں1970..........ؼزلایمان ان کا تھا حاصل دین ان کی ملکیتدولت ان کا ہے حاصل ایمان کی جاگیریںادھر پہنے ہے ہزار سوٹ اور نیچے کارادھر ؼریب پہنے ہے کھدر کی لیریںکھانے کو ملتا نہیں سوکھا ٹکڑا ؼریب کوکھاتے ہیں وہ زردے پالؤ اور کھیریںمفت بکتا ہے اب کہ خون ؼریب کا


کھوٹی ہوئی ہیں ان کے ماتھے کی لکیریںؼریب کی دنیا میں اندھیرے ہیں زاہد‏'ورنہ لوم بدلے تو بدل جاتی ہیں تمدیریں'‏1970.............کانٹوں کی سیج پر پڑی حیا دیکھخون میں ڈوبی ہوئی فضا دیکھآباد تھیں کل تک جو بستیاںآج بہتا واں خون کا دریا دیکھکل تک رواں تھا جو لافلہآج وہ سر بازار لٹا دیکھتل گئی شرافت اہل مؽرب کے ترازو پرگویا آج پھر منصور سولی چڑھا دیکھ............راہ میں کھڑی ظلم کی دیوار دیکھپیارے تیل دیکھ تیل کی دھار دیکھڈوب گئی آواز ؼم میں ناصح کیاسے دیکھ اے دیدہءبیدار دیکھ


.....................پا اپنی حمیمت کو اور چھوڑ دے خزاں سےدوستینہ بھول اس بات کو چمن اجڑ گیا تو بلبل چلیجائے گیفروری‎1‎‏.‏1970...........اب تو ہوش میں آؤ اجاال سحر ہو گیاچراغ دیں لے کر کرو تالش جو کھو گیاہوتا وہ برباد ہے جو میٹھی نیند سو گیاوہ پھل کاٹ دو اب جو بےکار ہو گیاجون '6 1969........................زندگی کی تاریک راہوں میںاک دیا اب بھی ٹمٹماتا ہےاے ہوائے یاس اسے گل کر دے


ڈھل چکی رات کون آتا ہے1970........................حیا زمانے کی آنکھ میں نہ دیکھیجو بچ گئی وہ پھنستی دیکھییہ کھلتی ہوئی جوانی سدا کب ہےخوشی میں ہنستی دکھ میں روتی دیکھاگست '2 1969.................تاریکی میں ڈوب جانے والےکب صبح کی روشنی تک ہیںعمر بھر دکھ جن کا ممدر رہازندہ دکھ کی روشنی تک ہیں.......................لہو کی تمازت کیا روک سکے گیبرؾ بھی آگ اگلنے لگی ہےکھل اٹھے تھے بہاروں کے نام سے


اب کہ ہوا ایسی چلی ہے...............................بخدا ترے آنچل میںلوس لزاح سمٹ آئی ہےادھر سے موت کل ہیسسکیوں کی خبر الئی ہےموت سے نہ بچ پاؤ گےسو کی میں نے ایک سنائی ہے.................دشت و بیابان کبھی المکانی پھرےفطرت عشك نہیں کہ چاک دامانی پھرےاڑتا ہے جو حك و انصاؾ کی ہواؤں میںوہ وارث عظمت کیوں بےسروسامانی پھرے....................جی بھر جی لینے دو مجھے اے خداکہیں کوئی حسرت گناہ نہ رہ جائےبند کر دو سب رستے اس مجرم کے لیے


کہیں کوئی گوشہء پناہ نہ رہ جائےفروری '6 1966........................ان کے نہ آنے سے محفل سنساں رہی برسوںجب وہ آئے دلوں کی روشنی لے کر چلے گیےتو والؾ نہیں مزاج یار سے ارے نادانتبھی تو وہ ہر بار خوشی لے کر چلے گیےمارچ '7 1967........................تم لیے پھرتے ہو دستار فضیلتلوگ رہتے ہیں یہاں سربریدہ.................اس دنیا میں نہ کوئی ہم راز رکھودل کی موسیمی میں نہ بگڑا ساز رکھو...............ہر لمحہ بےکار گزرا بےزار گزرا


ولت دید ترا بڑا انتظار گزرا..............چپہ چپہ خون سے رنگ دیں گے اے استبداد کےناخداجاں سے بھی عزیز ہے ہم کو مشت خاک مسجدالصیاب بھی موجود ہیں محمود و ٹیپو اپنے نئے روپمیںہاتھ میں شمشیر رہے گی ہوتی نہیں روح جب تلکجداجوالئی '4 1968................باؼبان مار کر مالی کی خدمت کرحاتم چھوڑ کر خالی کی خدمت کرشرم کر'‏ شرم کر'‏ شرم کرہوش میں آ اے بھولے انساںستمبر‎3‎‏'‏ 1969


......................یہ آرزو یہ خلش نظر یہ بےلراریزاہد بنیں گے یادگار سینے کے زخم................چار سو کعبہ ہی کعبہ ہے گر نیت ایاز ہودل پاک ہو صاؾ ہو نماز'‏ نماز ہولوح وللم عرش و فرش کی بھال کیا حمیمتمیں نہ رہے یا میں تو کا ہم راز ہو..............درد دل میں شدید ہوتا ہےرفتہ رفتہ مزید ہوتا ہےکرب وبال ہو جب زندگی کی فضالمحہ لمحہ یزید ہوتا ہے............گال گھونٹ دے شرافت کاکام تمام کر دےصدالت کا


زنجیر فرنگ پہن لے بےچوں وچرالبول کر'‏ دے وہ جو تجھ کو سزاناشاد ہے آزادی سے یہ انساناس کے للب میں پوشیدہ ہے زندان................تدبیر چھوڑ تمدیر کا بن ؼالمتا کہ باطل کا اونچا ہو نامبےکار ہے اپنے ہاتھوں کچھ کرنابرابر ہے ترے لیے جینا اور مرنا1970..............تم نہ آؤ گے تو کیا گردش فلک رک جائے گیجنوں بھی وہی رہے گا عشك بھی وہی رہے گا.........................واعظ بوال 'ادب بھئی ممام بندگی ہے


'ناصح بوال اب تو شراب سے منہ پھیر لےزاہد بوال...........................‏ کافر ہے توسالی بوال پی اور عذاب سے منہ پھیر لےملے مے چھوڑنے پر جو تجھ کو ثواب‏'عالل ہے تو اس ثواب سے منہ پھیر لےاگست '5 1968............................جا فمہا سے کہہ دو میاں ناصحزیارت حسن بھی اک عبادت ہے...........................صفیں گھس گئیں مسجد کی مرے سجدوں سےتشنگی بڑھتی گئی جوں جوں سجدے لمبے ہوئےاکتوبر1970 '22............ؼزلاب بھی ولت ہے ہوش میں آ


بڑھ اور دریا کی طؽییانی نہ دیکھچونک اٹھے روح اخوت دل شکستہاللہ و نرگس کی پشیمانی نہ دیکھلٹ کر متاع دین و ایمان جو ملےاک نظر بھی ایسی سلطانی نہ دیکھتیرا لہو برق تجلی سے کم نہیںتو کوہ فاراں کی میزبانی نہ دیکھبڑھ اور رکنے نہ پائے سفینہءعشكبحر رنج والم کی روانی نہ دیکھ..............جو زخم کھا کر زخم کھانے کی رکھے ہؤشانداز تو اس کے تڑپنے کا ذرا دیکھ.............ہائے دو لطرے پانی کےحسین ابن علی نے مانگے تھےتڑپے کربل میں وہ چھوٹےبھولے بھالے اور معصوم بچےفوج یزید پہرے پر کھڑی تھی


'صبر' بولے حسینفروری '3 1967.............میرے بچے''خیر سے ان کا نامہ مرے نام آیا ہےکچھ پیام الفت'‏ کچھ سالم آیا ہےسمجھا سالی کی نظر عنایت ہوئی ہےبھول کر محفل کو شاید کوئی جام آیا ہے............چمن کی ہر کلی مسکرا رہی ہےفضا خوشی کے ترانے سنا رہی ہےپتے پتے بوٹے بوٹے کو صبح سے آجنسیم سحر میٹھی لوریاں سنا رہی ہےاس رنگ محفل میں جانے کیوںخزاں بھی مسکرائے جا رہی ہےمارچ '23 1967............


ؼزلمتاثرہ اختر شیرانی گائیک حبیب ولی دمحممیں ہنگام خزاں تو عشك تپاںمیں خون آرزو تو جان آرزوتو تعمیر گلستان میں ازلی پشیماںتو جان آرزو میں خون آرزوآنکھیں خوں بار ہیں دل ہے داؼداربےکار ہیں سالی ترے جام وسبوتو رونك حیات تجھ سے درخشاں کائناتمیں خون آرزو تو جان آرزوزندگی چھن گئی لٹ گئی ہرخوشیہائے ظالم تو نے بدلی نہ اپنی خواک نظر دیکھ پاتے الشہءارمان کومٹ نہیں سکتی حشر تلک یہ آرزو.............ؼزل


نہ شگفت خیال نہ کوئی عمدہ کشا مالطعنہءخودسری اور نوحہءبےصدا مالٹپک اٹھیں اللہ و گل سے خون کی بوندیںعجب کھیل ہے یہ زندگی جو مال بےوفا مالٹکرا گیا دل کا سفینہ اک معصوم سی کلی سےکھو بیٹھا ہوش و حواس ؼم دل ایسا مالاندھیر ہے ترے مےخانے میں اے بخیل سالیلحن سروش دی ان کو مجہ کو للب نالہ سرا مالجنوری '29 1971..................چلو اچھا ہوا جو ارمانوں کو دفنا دیا تو نےورنہ کون پشیمان الش پہ ماتم کرتا پھرے................اک حشر بپا ہے تسنیم و کوثر میںنہ جوش رہا ہے آوازہء گیرودار میں.................ہم دل کے ہاتھوں مجبور ہیں


کیا سر دید کی لیمت نہیںداغ حسرت دل پہ نمش ہےچھوڑ زاہد چل یاں عزت نہیںفروری‎12‎‏'‏1966.............ؼزلپی پی آنسو جگر ہو گیا کبابگل کا یوں ہی لٹ گیا شبابمرجھا گئی چمن کی ہر کلیعاشك کا جینا ہو گیا عذابگناہوں کی کھیتی کا ہوں میں مالیکہاں تک خدا لے گا مجھ سے حسابرگوں میں مری جو بہتا ہے لہوشراب سے مل کر بن گیا شرابتری محفل میں کیوں چال آتاہوتا زاہد اگر گھر کا نوابجوالئی '27 1968...............


ؼزلمیں بےنماب کر دوں گا فسانہءظلم و ستمآن رہ جائے اپنی جان رہے نہ رہےسربازار پڑی ہے الش حیا بےگور و کفنلوگ لیتے ہیں گل'‏ گلستان رہے نہ رہےسراب فرنگ سے کچھ ایسا چھایا جمودبولے خریدو اسے'‏ ایمان رہے نہ رہےخار کو تو سمجھا ہے ؼنچہ اپنے من کاخار ہی رہے گا وہ خزاں رہے نہ رہے'اکتوبر '25 1969.............ملتی سستے داموں شہرت بھی خصلت فرعونیبھیلعنت بھی محرومی الفت بھی دولت لہرمانی بھیگریب کے چہرے سے نوچ لو گوشت کے ٹکڑےکفن اتار لو نہ چھوڑو یہ مردے لبرستانی بھی............


ؼزلآنسو بہہ گیے مرے ان کی مرلد پر جا کر یوںگناہ کیا ہو جیسے میں نے کبھی ان کی وفا کاساحل پر آ کر بھی یاس نے نہ چھوڑا مجھ کوکسی نے خوب کہا ہے'‏ مڑتا نہیں رخ ہوا کاحجاب ہے یا فریب نظر ہے آخر کچھ تو ہےہوتا اثر کیوں نہیں ترے دل پر مری دعا کامجھ سے بےرخی کب تلک برتو گے جان منمرے اشک بن سکتے ہیں طوفان بال کاکھاریاں جوالئی 3' 1969...........جال دل سما کر تری اداؤں میںصال یہ مال ہم کو دل جالنے کایہ کہاں کا انصاؾ ہے اے ظالمان کو سینے لگاؤ ہمیں حکم سولی لٹکانے کا...........


دست اجل میں ہے زندگیؼم مال لٹ گئی ہر خوشیبھیگی بھیگی فضاؤں میںمرے آنسوؤں کی بھی ہے نمی.............جل گیا دل اس کھوکھلی آزادی کے نام سےاس سے تو اچھی ہیں ؼالمی کی زنجیریںسب اہل دل اجل نے ہم سے چھین لیےاب تو رہ گئی ہیں چلتی پھرتی تصویریں1966 جون‎1‎‏'‏............موت کی نیند سال کر پکارتے ہیں مجھےسود کیا'‏ بےکار بت وہ اٹھا سینے لگا لےآج ان کو سزا ملی جب ذکر اپنا چالساؼر من جب تک ؼم کے گیت گا لےجوالئی‎12‎‏'‏ 1966............


جال دل سما کر ان شوخ اداؤں میںخدایا اپنے بندوں کو حسینوں سے بچا لےجفا کو وفا چھپنے کو حیا سمجھ بیٹھے تھےزخم دل کے'‏ چن کے مٹا کر اب اٹھا لےکھاریاں1969............مری بات کو پائے گا دیوانہجل بجھا جیسے شمع پہ پروانہنہ پھوڑ سر اپنا سنگ یار سےپھٹ جائے گا سر بنے گا افسانہدیکھے بہت سپنے پیار کے ہم نےکھلی آنکھ تو دیکھاوہی ویرانہمر رہا ہے تری راہوں میں زاہدسمجھ لو اسے حمیر سا نذرانہکھاریاں1969............ؼزل


سالیا خدارا جوش میں آوہی جام گردش میں الجام میں مہ کی کرنیں مالفمط دو بوند پر نہ ٹرخافسانہءماضی چھیڑ ذراذرا ساز ہستی چھیڑ کربزم ظلم میں حشر اٹھاسالیا خدارا جوش میں آوہی جام گردش میں الکلیوں نے چٹکنا سیکھ لیاستاروں نے چمکنا سیکھ لیاشعلوں نے بھڑکنا سیکھ لیاسالیا خدارا جوش میں آوہی جام گردش میں الوہ سحر کیا جس کی شام نہ ہووہ کام کیا جو سر عام نہ ہووہ مذہب کیا جو اسالم نہ ہووہ بندہ کیا خدا کا ؼالم نہ ہووہ سجدہ کیا خدا ہم کالم نہ ہوسالیا خدارا جوش میں آ


وہی جام گردش میں الجنوری '29 1971..............ؼزلاے حسرت نگاہ رو کہ شعلے برسیں تری آہ سےنشیمن کسی کا جلے یا بچے تجھے کیا تری بالسےمر چکا ہے خدا شاید ؼریب کا اس دور میں یاروسکوں لوٹا ہے حضرت شاہ نے بار ہا نئی ادا سےگرج کے بولے میاں ناصح گوشہءدستر خواں سےخاموش'‏ یہ شکوہ کیوں ٹپکتا ہے تری ہر آہ سےاتنی پال دے کہ ہوش نہ رہے مجھ کو بھوک وپیاس کیورنہ مانگنی پڑے گی کوئی دعا مجھ کو اپنے خداسےپاش پاش ہوا چاہتا ہے مرا ہر سپنا بزم اہل ثروتمیںنالہ و ماتم پھر خون کے آنسو ٹپکے مری ہر آہ


سےآ کہ نہ دیر کر'‏ بیٹھے ہیں ہم صبر و رجا کے دوراہے پرچپکے سے زاہد بوال برسوں سے ٹلتی آئی لضاسےجنوری‎1‎‏'‏ 1971..................ؼزللممان نے بنی نوع انسان سے کہاآبلہ پائی ہے اب کہ ممدر تراؼرق طوفاں ہوا ترا جذب وخلوصنہ سجدہ و اعتکاؾ نہ زہد وتماشبان عشك آج بےوضو بےنمازابرار کہن ہوا مصیبت میں مبتاللٹ گئی سربازار متاع زیستہوا نؽمہءعشك بےساز بے صداطفل مکتب کے سر پر رکھی دستار علمسگ دامن کے ہاتھوں شیر مرا


بادہ وصراصی ہوئے ہیں ترے رفیك سفرتو ہی بتا کیوں گرائے وہ برق تجلیخاموش تھے سخن نیوش ذہن فرسودہآخر سناتا میں کس کو ال الہ اال هللاتیػ ہستی پیر کلیسا نے توڑ ڈالیاب کون انکشاؾ ہست و بود کرے گاکھڑے حیراں ہیں حضرت ختم الرسلزبان پر کلمہء توحید دل کافر ترااب امید بنات العرش کیوں کرنہ ترا دین رہا ہے ناہی تری دنیااک تول تلتے ہیں اب تو لعل وسنگشرط انصاؾ اٹھی ہے اچھا رہا نہ برانؽمہء نوبہار ترے نصیب میں کہاںمؽرب کے چرنوں میں ہے تری اناچھین لی مال نے لوم کی تاب گفتارحاضر تھے مسجد میں مدعیان تموینہ ڈھانپ سکا تو اپنے من کی برہنگیاک شعلہ آتش نمرود سے الجھ گیا تھایہ خبث کی تونس یہ رلص بسمل عشرتیہ ظلم وستم کا بےبصر طوفان امڈا ہوا


تو ڈھونڈ رہا ہے عشرت بستر کا ناشتہاس نے پہاڑوں میں سونا ڈھونڈ لیاشیخ بابصر سے اہل زر کو کیا حاصلپڑھیں گے مالں شکم سے باب صبرورضاجنوری '27 1971..............ؼزلتڑپتی دیکھی کربل میں الش حسینالشے پہ خوں کے آنسو بہائے بہناہل حك نے سنی یہ نداسر کٹا کر حسین نے لیا دین بچانبی کے نور نظر علی کے لخت جگرتڑپے کربل میں عباس واکبرہوا معلوم ممام حسین اہل صفا کودیکھ لیا حسین جب نیزے چڑھاکربل میں لٹ گیا نبی کا ہنستا چمناشکوں میں ڈوب گیے کوہ و دمنبن گیا گدا جو در حسین کا


ؼم کے دریا میں وہ ڈوب گیابےکل ہو کر اشکوں میں بھیگ گیافروری‎2‎‏'‏ 1967...........ؼزلمیں وہ راہرو ہوں جس کی کوئی منزل ہی نہیںمیں وہ دل ہوں جو کسی کے لیے دھڑکتا ہی نہیںجو زخم کھائے تھے کبھی اب وہ رنگ الئے ہیںبےکسی کا مزار ہوں جس پر کوئی دیا جلتا ہی '‏'نہیںکئی بار ان کے میکدے کی میں زینت بنا ہوںلوٹ جاؤ'‏ اب میں وہ جام ہوں جو چھلکتا ہی نہیںچلتا رہا لڑتا رہا بھوک کے سنگدل طوفانوں سےمیں وہ کارواں ہوں جو چلتا ہے مگر رکتا ہی نہیںاکتوبر‎7‎‏'‏ 1967.............اپنے زخموں کو پاال ہے خون جگر سے


برامید ہوں محبت مری رنگ الئے گیرات کے سائے ہیں یادوں کا بھنور ہےآہ مری فلک چیر کر عرش تک جائے گی...............ؼزلارمانوں کا الشہ ہوں سہارا نہ دورحم کے لابل نہیں میں رحم نہ کروتنہائی ممدر ہے بدنصیب پتنگا ہوںشمع نہ بجھاؤ خدارا مجھے جلنے دویہ بیگانگی وہ وعدے'‏ چہ معنی داردمر رہا ہے ییمار تمہارا کچھ تو خبر لوہمیں ممصود نہیں دنیا کی یہ ہما ہمییہ ہی تمنا کافی ہے ہم ہوں تمہارا در ہودسمبر‎29‎‏'‏ 1970.............شرافت دیانت سربازار نیالم کرنے والوسیرت صدالت کا سودا سرعام کرنے والو


چوس کر ؼریب کا خون بیٹھے آرام کرنے والواپنے چھوڑ کر ؼیروں سے کالم کرنے والوشرق کے اہل حیا کو تمہاری کوئی ضرورت نہیںمؽرب کے کسی گٹر میں ڈوب مرو ڈوب مرواکتوبر '25 1969.........بیٹی حوا کی ہاں بیٹی بےنماب ہے آجنہ حیا کا آنچل نہ عصمت مآب ہے آجوہ ہی بیٹی فیشن کی دلدادہ ہے آجبےحیائی کے لیے رہتی آمادہ ہے آجبے محابہ گفتگو کرتی ہے ہر کسی سےدیکھ کے روتے ہیں والدین بےبسی سےگلی گلی کوچہ کوچہ عصمت کرے ہے تباہنہ رخ پہ آنچل رہا ہے نہ رہی معصوم نگاہحوا کی بیٹی آج ؼارت گر ایماں ہےدل کشی اہل ذوق کی عشرت کا ساماں ہے


جنوری '30 1971............اٹھوآس کے دیپ جالنے نکلوجگانے نکلوسیکھ کے کچھ سکھانے نکلومٹانے نکلواپنا گیت کوئی سنانے نکلوتم مالنے نکلوبستی دل کی بسانے نکلوآزمانے نکلوآگ حك کی تم جگانے نکلوشمع دین تم جالنے نکلوجاگ کر ابکفر کو تمبچھڑوں کوبخت اپنے تمگلہ دین کا تم چرانے نکلوہیں جو منانے نکلوگروں کو تم اٹھانے نکلوتم منانے نکلوآس کے دیپ جالنے نکلوروٹھ گیےبات حك کی


جاگ کر اب تم جگانے نکلواپریل '29 1966.................ؼزلیہاں کا ہر باسی اک لٹیرا ہےاس نگری میں اندھیرا ہی اندھیرا ہےپیتا ہے کوئی انسانیت کا لہو دوستوکہنے کو نیا دور ہے نیا سویرا ہےگو ایک ہی ڈالی کا ثمر ہیں ہم سبان کا آسمان پر اپنا زمین پر بسیرا ہےان کی آنکھوں میں سکوں کی روشنی ہےاپنی دنیا میں لگایا بھوک نے ڈیرا ہےلوگ دن کے اجالوں میں لوٹ لیتے ہیںآہ بستا یہاں اجالوں میں کاال سویرا ہےاگست‎27‎‏'‏ 1976.................نیل گگن پہ بادل چھایا


پھر بھی پیا موہے گھر نہ آیاآنکھ برسی برکھا برساموہا دل دید کو ترسامیں جھٹ ندیا کنارے آئیمیں نے پیار کی ریت نبھائیسورج نے جب آنکھ چرائیمیں ہولے ہولے گھر آئیجگ سارے آنکھ اٹھائیپیا سمجھا ہوں میں ہرجائیدل میں پیار کی آگ چھپائیمیں نے پیار کی ریت نبھائیپیار کے سب بندھن توڑ کرہم سے یوں مکھ موز کرتجھے موہا پیار پکارےآجا رے نہ جارے چھوڑ کرنیل گگن پہ بادل چھایاپھر بھی پیا موہے گھر نہ آیا5-8-68..........


ؼزلنہ جل شمع کی لو ہے ناپیدار سوچتو سالی اور عشك کا ساالر سوچتو گل ہے ذرا اپنی خوش بو دیکھتو تاریخ ہے نیا کردار سوچنہ جا کوئے ظلم میں اے شیخہر لدم پہ بار بار سوچگو تو اب لب شہرت آ چکا ہےتو کیا ہے اپنا ولار سوچاپنے ہی ہاتھوں نہ چڑھ زاہداب فرنگی سولی بھی ہے نوکدار سوچ1970..............ؼزلہر کرن بن گئی دشمن جس رخ بھی بیٹھےحسرت وصال لے اٹھے سایہءدیوار سے ہماب کہ بیچ دی ہے خود داری بھی ہم نے


سو بار چڑھا دو ڈرتے نہیں دار سے ہمیہ آئین وفاداری نہیں اے ستم گرجب نکلے رو کر نکلے کوچہءیار سے ہمتیرے حسن پہ کون مرتا ہے اے ناداںمتاثر ہوئے ہیں فمط تیرے کردار سے ہمدیوانے کو گل سے کیا لگاؤ ذرا سوچو تواے شباب مصر پیار کرتے ہیں خار سے ہمبلبل کو ہو گی محبت گل سے ہمیں اس سے کیاپیار کرتے ہیں بورے گل زار سے ہمموالں کو ہو گی جنت سے محبت زاہدبار بار گزریں گے دشت پرخار سے ہمحیرانی ہوتی ہے عالم رنگ و بو دیکھ کرپہنچ جائیں گے کیا'‏5-3-1970.............اسی رفتار سے ہمنہ کسی فالسفر سے کھل سکا نمطہءوہمسب نے اس پر خوب ڈھایا ظلم و ستماک معمولی بات کا بڑھ گیا طول و عرضچھوڑو یہ لیس بخت کے ہیں پیچ وخم


جون '13 1967..........نہ مدعا دل نہ آرزو منزل نہ مسکراہٹیںکتنی بے کیؾ گزری ہے اپنی یہ زندگی..............بزم ستم کو ہم نے برسوں روشنی بخشیخود فمط اک کرن کے لیے ترستے رہے................مرغ سحر نے کہا اٹھ کہ ولت نماز ہےکانٹؤں سے جو کھیلے وہی بندہ بندہ نواز ہے.................کیوں چھیڑا ہے تو نے حال ؼم ؼربتؼیرت نسیم سحر ذرہ ذرہ خاک...............حسرت سکوں نہ جام و سبو کی تمنا


خط ایسا کھینچا ہے ؼم زندگی کے درمیاںشمع بجھ گئی پروانہ پرنور ہوا ہےاب دیوار نہ رہی روشنی کے درمیان.............اے دل فطرت شناس سر نہ جھکاتو جھکا تو گردش کائنات رک جائے گی.............جب یاد آتی ہے پائمال آرزوں کیہم آس کے دیپ بجھا دیتے ہیں.................ؼزلہر دور میں موجود رہے ہیں یزید و نمرودانسان وہی ہوتے ہیں بس انداز بدل جاتے ہیںنگاہ منصور صبر شبیر ہو تو بنتا ہے مسلماںکچھ عجب نہیں اہل نظر سر دار مچل جاتے ہیںتکمیل امر زہر پیتے ہی پہنچ گیا بام عرش پروہاں جانے سے مرغ حرم کے پر جل جاتے ہیں


سرمد ہو کہ منصور اپنی اصل میں ایک ہی تھےمےخانہ وہی رہتا ہے مگر مےخوار بدل جاتےہیںاگست '8 1971...............اس دنیا میں نہ کوئی ہم راز رکھودل کی موسیمی میں نہ بگڑا ساز رکھوایسے کب سنورتے ہیں دل کے نموشاس کے بنو زمانے پر نہ کبھی ناز رکھو........دو جام لہو ان اہل سفر کوجو ہوس منزل لیے جاتے ہیںبےہوش ہے مدہوش نہیںجو جل جاتے ہیں وہ یہ پاتے ہیںفروری‎1‎‏'‏ 1971..........پھوٹا ہے ناسور بن کر زخم جگرسزا ملی ہے مجھ کو گناہ کیے بؽیر


مئی '25 1965...........لے جاؤ پر مے ختم نہ ہونے پائےشرط کر لیں گے اب کہ خریدار سے ہممہر و مہ جھک جائیں گے اے وائے ناکامیدوستی کر لیں گے جب دیدہء بیدار سے ہم..............بربادی الفت کا ارماں نہیں دل میں مرےڈرتا ہوں ساز ؼم دل سے نہ بچھڑ جائےآنکھ میں سیری خوں کے اشکوں کی تھیہنستا نہیں سر کا طوفاں کہیں بپھر نہ جائےفروری‎23‎‏'‏ 1970............تمہارا وفا سے کوئی رشتہ نہیں ہےوہ بھی کہہ دے جو ابھی کہا نہیں ہے...............مجھے اپنی رسوائی کا کچھ ؼم نہیں


دکھ تو یہ ہے کہ اس نے تعالب چھوڑ دیا...............مرے تلفظ پہ اسے اعتراض تھاخود فیل کو وہ پھیل کہتا رہا..............پتھروں کے دیس سے اب تم نکل ہی جاؤکرچیاں پس جائیں گی بےحسی کے کھرل میں..............ؼزلاس محفل میں زلؾ یار کی بات کی ہم نےپردہ رخ سے اٹھا اور ڈس گئی ناگن بن کرکوئے صنم کی جب ہوا ملی مرے دامن تر کواتر گئی دل میں وہ سین کی تان راگن بن کرکیا کیا امیدیں دل میں لیے بیٹھے تھے ہمان کو دی خوشی'‏ ہم نے لیے ؼم دامن بن کررو رو کر ہو گئی حالت ؼیر مری'‏ اب آ جاؤ


آؤ گی پھر نہیں مانوں گا آنا چاہے حاجن بن کر.............وہ نام کیا جو بدنام نہ ہووہ کام کیا جو سر عام نہ ہومہر و محبت کا زمانہ بیت گیایا مجھ کو کوئی اور راہ بتا............ؼزلکچھ لوگ آتش گل دیکھ کرجیتے ہیں رات دن آہ کیے بؽیرکچھ کلیاں بنتی ہیں دستار کی زینتکچھ مرجھا جاتی ہیں آہ کیے بؽیرمری مرلد پہ آ کر دو پھول ہی چڑھا دواو دنیا تم پر مرتا رہا ہوں ارادہ کیے بؽیرجنوری‎1‎‏'‏1967..............

Hooray! Your file is uploaded and ready to be published.

Saved successfully!

Ooh no, something went wrong!