28.09.2015 Views

post-office_2015_09_28_13_06_12_737

  • No tags were found...

You also want an ePaper? Increase the reach of your titles

YUMPU automatically turns print PDFs into web optimized ePapers that Google loves.

گیارہ ہتھیار اور منشی گاہیں<br />

ممصود حسنی


'<br />

'<br />

گیارہ ہتھیار اور منشی گاہیں<br />

باالدستی'‏ زورزبردستی اور دھکہ شاہی کے لیے'‏<br />

گیارہ لسم کے ہتھیار درکار ہوتے ہیں۔<br />

مال و منال کی فراوانی -1<br />

کہو کچھ کرو کچھ -2<br />

باسلیمہ سچ مارنے کا ڈھنگ -3<br />

سنے اور جانے بغیر فیصلہ یا معمول جواب دینے -4<br />

کا علم<br />

باجواز اپنی منوانے کی شکتی -5<br />

بااعتماد اور فرض شناس مخبر میسر ہوں -6<br />

لوگوں کے معاملہ میں ' ضرورت سے زیادہ -7<br />

بےحس اور اپنے معاملہ میں'‏ ضرورت سے زیادہ<br />

باحس ہوں<br />

میں نہ مانوں کے گر خوب جانتے ہوں -8<br />

سو کے ممابلہ میں ایک سو دس جواذ ملکیت میں -9<br />

رکھتے ہوں<br />

بدعنوانی کو عنوانی اور ان کے کارناموں کے -10


گن لکھار اور ڈگاگزار موجود ہوں<br />

چپ اور متواتر چپ کی چادر اوڑھے رکھنا کے -11<br />

ہنر سے بہرہ ور ہوں۔<br />

اس طور کے گیارہ پتے'‏ اگر ہاتھ میں ہوں گے تو<br />

مات کھانے کا'‏ سوال ہی نہیں اٹھتا۔ مات اسی ولت ہو<br />

گی'‏ جب ان میں سے'‏ دو ایک کی کمی ہو گی یا وہ کم<br />

زور ہوں گے۔ حال کیا'‏ ماضی کے حکمرانوں اور ان<br />

کی بغل بچہ منشی شاہی'‏ ان اعلی اور بااصول<br />

خصوصیات کی حاملہ رہی ہے۔ لہذا یہ سب روایت میں<br />

چال آتا ہے۔ آج کی منشی گاہیں کوئی نیا نہیں کر رہیں۔<br />

پردھان منشی نگر کے باسیوں کے پاس'‏ روز اؤل<br />

سے یہ گیارہ ہتھیار موجود رہے ہیں۔ ولت کے ساتھ'‏<br />

انہیں جال ملتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پھنے خاں<br />

سے پھنے'‏ ان کے سامنے کسکتا تک نہیں۔ پیٹھ<br />

پیچھے تو لوگ'‏ شاہوں کے بھی گنہگار ہوتے رہتے<br />

ہیں۔ بات تو تب ہے'‏ جب کوئی منہ کے سامنے اپنا ان<br />

دھوتا منہ کھولے۔ یوں للہ بازیاں کھائے گا'‏ جیسے<br />

مکی کے دانے'‏ کڑاہی میں پھڑکتے اور تڑپتے ہیں'‏<br />

بآلخر پھال ہو کر رہتے ہیں۔


ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں کے مصداق'‏ ماتحت<br />

چھوٹے بڑے منشی ہاؤس'‏ بڑی دیانت داری اور اصول<br />

پرستی سے'‏ پردھان منشی نگر کے اصول ہائے ہائے<br />

زریں<br />

۔۔۔۔۔۔ ہائے ہائے کتابت کی غلطی ہے'‏ اسے اصول ہا<br />

پڑھا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

پر عمل درامد کرتے آ رہے ہیں۔ وہ ان گیارہ ہھتیاروں<br />

کو چمکا کر'‏ گرہ میں رکھتے ہیں۔ ملک کی دن دوگنی<br />

اور رات چوگنی ترلی میں'‏ جہاں اور عناصر کا ہاتھ<br />

ہے'‏ وہاں کاغذی کاروائی میں'‏ ان اداروں کی'‏ شبانہ<br />

کپتی روز خدمات اور محنت کو'‏ نظر انداز نہیں کیا جا<br />

سکتا'‏ جو آلو کو الو بنا دینے میں'‏ کمال کی مہارت<br />

رکھتے ہیں۔ مخبرین دس باغیوں کے ساتھ'‏ نوے اپنے<br />

مخالفیں کو بھی'‏ پھٹے چڑھاتے آ رہے ہیں۔ چلو جو<br />

بھی سہی'‏ حمی سچی بات تو یہی ہے'‏ کہ اس ممدس<br />

اور عزت مآب نگر اور دیگر ہاؤسز کے'‏ دس باغی تو<br />

ٹھکانے لگاتے ہیں۔<br />

ان کے کار ہائے نمایاں کی فہرست بڑی لمبی چوڑی<br />

ہے'‏ اسے رلم کرنے کے لیے'‏ اگر آسمان کاغذ'‏ سمندر


سیاہی اور موجود ارض ہا کے درخت'‏ للم بن جائیں'‏<br />

تو بھی رلم نہ ہو پائیں گے۔ ہر کارنامہ اپنے باطن<br />

میں'‏ شوخی اور چٹانی سختی رکھتا ہے۔ چوری خور<br />

مورکھ'‏ زیادہ تر شاہوں کی'‏ خصیہ اٹھائی میں<br />

مصروف رہا ہے۔ ادھر اس کی بہت کم توجہ گئی ہے۔<br />

اسی طرح ماہرین لسانیات نے بھی'‏ انہیں بری طرح<br />

نظر انداز کیا ہے۔ بدلسمتی سے'‏ میں ماہر لسانیات<br />

نہیں'‏ ورنہ اپنی بمیہ سانسیں'‏ ان کی تحریررات کے<br />

لسانی مطالعہ میں گزارتا۔<br />

نامہ بر سے'‏ لوگوں کو گلہ ہی رہا ہے۔ غالب ایسا<br />

فراخ دل اور سمندر فکر'‏ تحفظات کا شکار تھا۔ اب<br />

دیکھیے'‏ کہاں میں جدید عہد کا آدمی'‏ جس کی گھڑی<br />

پر چھے اور عملی طور پر'‏ آٹھ بج رہے ہیں۔ آج<br />

سرکاری پترکدے بڑے جدید ہو گیے ہیں۔ اس کے<br />

باوجود'‏ لوگوں کی ترجیح میں غیرسرکاری پتر گاہیں<br />

ہیں'‏ حاالں کہ وہ سرکاری کی نسبت کہیں رلم دراز<br />

ہیں۔<br />

یہ کچھ ہی دنوں کی بات ہے'‏ مجھے ردی کاغذوں<br />

میں'‏ ایک تحریر ملی'‏ جس پر مرلوم ہے


محترم پوسٹ ماسٹر صاحب<br />

اسالم آباد<br />

.................<br />

از راہ کرم پٹرول پمپ کے سامنے لیٹربکس کو لفل تو<br />

لگائیے تا کہ خطوط محفوظ رہ سکیں۔<br />

مخلص<br />

ولار .....<br />

ڈی۔ '85 جی۔ -6 4<br />

'<br />

اسالم آباد<br />

9 فروری 1967<br />

یہ خط اسالم آباد کے کسی غیر مصروف'‏ بےفضول<br />

نکتہ چیں اور دفتر شاہی کے صدیوں پر محیط مزاج<br />

سے ناآشنا'‏ شخص کا لگتا ہے۔ خط کھال النے کا گلہ<br />

تو بہت پرانا ہے۔ بازور اور باحیثیت لوگ یا مہذب اور<br />

مستعمل زبان میں'‏ وڈیرا کہہ لیں'‏ ٹیل اٹھائیکر ساتھ<br />

رکھتے تھے۔ اب چوں کہ ٹیل رکھنے اور اسے چکنے<br />

کا دور نہیں رہا۔ دوسرا آج ٹیل کیئر یعنی ٹی سی کی<br />

معنویت ہی بدل گئی ہے۔ اب تفاخر کے اظہار کے لیے'‏


گال کھال اور ٹانگیں چوڑی کرکے'‏ چلنے کا رواج<br />

ترکیب پا گیا ہے۔ پوسٹ بکس کا بال تالہ ہونا اور پٹ<br />

کھلے ہونا'‏ محکمہ ہذا کی بلند اطواری اور باحیثیت<br />

مزاجی کا غماز ہے۔<br />

اس خط یا درخواست کے آخر میں'‏ سرخ روشنائی میں<br />

کوئی حکم تو درج نہیں ہاں البتہ'‏ اسی تاریخ میں<br />

lock applied<br />

درج ہے ۔ یہ واضح نہیں کہ پوسٹ بکس کو تاال لگایا<br />

گیا یا درخواست گزار کی زبان بند کر دی گئی۔<br />

1967<br />

میں بازوری کی کیفیت'‏ آج سے لطعا مختلف نہ تھی۔<br />

وہ لوگ بھی'‏ درج باال ہتھیاروں سے'‏ لیس تھے۔ آج<br />

کو'‏ درج باال ہتھیار وراثت میں ملے ہیں۔ مشین گن اور<br />

سٹین گن 1914 میں استعمال میں آئی تھیں۔ مشین گن<br />

کے لیے'‏ پان سات لوگ ہوا کرتے تھے۔ یہ جدید اور<br />

ٹیڈی ہو گئی ہے'‏ اس لیے اسے اٹھانے کے لیے'‏ ایک<br />

آدمی ہی کافی ہوتا ہے۔ گویا مشین گن کل بھی تھی'‏ آج<br />

بھی ہے۔


نامہ ہاؤس سے'‏ میرا خادمی و مخدومی کا تعلك'‏ کل<br />

بھی تھا'‏ آج بھی بھی ہے۔ میں نے'‏ ان کی کوتاہی کو<br />

اپنی کوتاہی سمجھ کر درگزر کی کٹیا میں'‏ پناہ لی ہے۔<br />

ایک بار'‏ درخواست گزاری کی حمالت'‏ مجھ سے بھی<br />

سرزد ہوئی۔ ہوا یہ کہ میں نے'‏ اپنے بیٹے کو کچھ<br />

اشیاء کا پارسل'‏ وزنی تین کلو آٹھ سو نوے گرام'‏<br />

سرکاری ڈاک سے'‏ اسٹریلیا بھجوایا'‏ رولتا کھلتا'‏<br />

میرے پاس بالخریت آ گیا۔ سلیز ٹوٹی ہوئی تھیں۔<br />

اسٹریلین ڈاک ہاؤس یا اس سے متعلمہ کسی اتھارٹی<br />

کی'‏ مہر ثبت نہ تھی۔ میں نے ڈاک پر خرچ آنے والے<br />

روپے کی'‏ واپسی کے لیے بڑے ہی مودبانہ<br />

اور عاجزانہ انداز میں'‏ درخواست گزاری۔<br />

2685<br />

پارسل کھوال تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔<br />

اس مینبھیجے گیے سامان کی بجائے بانٹیوں'‏<br />

سالنٹیوں'‏ گولیوں وغیرہ کے خالی کور اور پنے<br />

پائے گیے۔ نہایت بوسیدہ اور پرانے مردانہ کپڑوں کے<br />

جوڑے دستیاب ہوئے۔ میں نے هللا کا الکھ شکر ادا کیا<br />

کہ یہ پارسل میرے بیٹے'‏ بہو اور پوتی تک نہیں<br />

پہنچا۔


پیرہ نمبر 4<br />

درخواست بنام پوسٹ ماسٹر جنرل<br />

مورخہ -5-<strong>13</strong> 2011<br />

میں نے دوبارہ سے سامان خریدا اور<br />

LEOPRDS COURIER SERVICES PVT. LTD<br />

سے اسی ایڈریس پر بھیجا۔ پارسل پوری خیر خریت<br />

کے ساتھ'‏ تھوڑے ہی دنوں میں'‏ منزل ممصود تک جا<br />

پہنچا۔ میں نے هللا کا شکر ادا کیا۔ چوں کہ یہ پرائیویٹ<br />

سروس تھی اور مجبورا زیادہ پیسے بھرے تھے'‏ اس<br />

لیے هللا کا شکر ادا کیا'‏ ورنہ سرکاری شکریہ'‏ مجھے<br />

شرک کی دہلیز کے اس بار کر دیتا۔<br />

دو سرکاری چھٹیاں ملیں۔<br />

ڈویژنل سپرنٹڈنٹ پوسٹل سروسز کے آخری جملے<br />

میں مشورہ دیا گیا<br />

It is requested to kindly take up the matter<br />

with the Ausralian <strong>post</strong>al Authorities, for<br />

this purpose, if admissionable as per rules.<br />

اس جملے کو الئك توجہ نہ سمجھا گیا۔ آفس آف دی


کنٹرولر آئی ایم او الہور نے کچھ یوں کاروائی فرمائی<br />

As regards the sender claim regarding<br />

booking charges, it is also not justified from<br />

any angle. As the booking charges were<br />

paid by the sender for the transmission of<br />

the parcel to Australia and our department<br />

has no fault for return of this parcel from<br />

Australia<br />

گویا سرکاری ڈاک سے'‏ عدم رابطہ کے سبب'‏ بیرون<br />

ملک پارسل بھجوانا'‏ کھلی حمالت سے کم نہیں۔ میری<br />

سادگی دیکھیے'‏ میں سرکاری چٹھیوں کو'‏ اپنے نام<br />

سمجھ رہا تھا اور یہی سمجھ رہا تھا کہ انہوں نے<br />

ہتھیار نمبر‎11‎ پھیکتے ہوئے'‏ پہلی درخواست پر<br />

کاغذی کاروائی بھی کی ہے اور درخواست کا جواب<br />

بھی دیا ہے۔ ہاں البتہ'‏ دوسری درخواست کو ہتھیار<br />

نمبر 11 سے بال تکبیر ذبح کر دیا گیا ہے۔ جب غور<br />

کیا تو معلوم ہوا مجھے تو کبھی جواب ہی نہیں دیا گیا۔<br />

یہ سب تو ان کی اپنی گٹ مٹ تھی۔ مجھے تو محض<br />

اطالعی نمول بھیجی گئی تھیں۔ ہتھیار نمبر 11 کی<br />

عزت'‏ احترام اور ولار'‏ پورے پہار کے ساتھ اپنی جگہ


پر موجود تھا۔ ہاں البتہ حسب ضابطہ اور لانون چپ<br />

کے تحت میں بال تکبیر ذبح ہو گیا تھا۔

Hooray! Your file is uploaded and ready to be published.

Saved successfully!

Ooh no, something went wrong!