02.06.2015 Views

زیبن سے زکرا تک

زیبن سے زکرا تک مقصود حسنی maqsood5@mail2world.com


زیبن سے زکرا تک



مقصود حسنی

maqsood5@mail2world.com

SHOW MORE
SHOW LESS
  • No tags were found...

You also want an ePaper? Increase the reach of your titles

YUMPU automatically turns print PDFs into web optimized ePapers that Google loves.

<strong>زیبن</strong> <strong>سے</strong> <strong>زکرا</strong> <strong>تک</strong><br />

ممصود حسنی<br />

maqsood5@mail2world.com<br />

<strong>زیبن</strong> <strong>سے</strong> <strong>زکرا</strong> <strong>تک</strong>


<strong>زیبن</strong> دیہاتی عورت تھی۔ مزاجا سادہ'‏ شاکر اور واجبی<br />

چہرے مہرے کی عورت تھی۔ حاالت کا گلہ شکوہ تو<br />

جی<strong>سے</strong> جانتی ہی نہ تھی۔ جب <strong>تک</strong> ماں باپ کے گھر رہی'‏<br />

ان کی خدمت کرتی رہی۔ وہ کوئی آسودہ حال لوگ نہ تھے'‏<br />

لیکن محنت مزدوری <strong>سے</strong>'‏ مناسب اور گزارے موافك<br />

زندگی بسر کر رہے تھے۔ پھر اس کی شادی صفدر <strong>سے</strong> ہو<br />

گئی'‏ جو اس <strong>سے</strong> عمر میں بیس سال چھوٹا تھا۔ پہلے کچھ<br />

سال'‏ ناگواری میں گزرے۔ <strong>زیبن</strong> نے ہر حال میں'‏ گزارے<br />

<strong>سے</strong> کام لیا۔ ایک روز جب صفدر کام پر جا رہا تھا'‏ چلتے<br />

چلتے رستے میں اس نے سوچا'‏ عمر کے زیادہ ہونے اور<br />

واجبی چہرے مہرے <strong>سے</strong>'‏ کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ خود تو<br />

بھاگ کر نہیں آئی تھی۔ اس کےابا نے'‏ ا<strong>سے</strong> پسند کیا تھا۔<br />

اس میں ابا کا بھی کوئی لصور نہ تھا۔ سادہ اور پرانی<br />

وضح کے شخص تھے'‏ انہوں نے شرافت کو معیار بنایا<br />

تھا۔ <strong>زیبن</strong> کے شریف ہونے پر شبہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔<br />

صفدر نے اس سوچ کے بعد اپنا چلن ہی بدل دیا۔ اب صفدر<br />

وہ صفدر ہی نہ رہا۔ اس نے <strong>زیبن</strong> کو ہر طرح <strong>سے</strong> خوش<br />

رکھنے کی کوشش کی اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھا۔<br />

<strong>زیبن</strong> کے چہرے پر دنوں میں ہی روانی آ کئی۔ خوشی ملے<br />

تو آدمی پھر <strong>سے</strong> جوان ہو جاتا ہے۔ آدمی شاکر ہو جائے<br />

تو هللا کی طرف <strong>سے</strong> برکتیں اور رحمتیں نازل ہونا شروع


'<br />

ہو جاتی ہیں۔ گھر میں سکون نے ڈیرا جما لیا۔ کام میں بھی<br />

برکت نازل ہونا شروع ہو گئی۔ زندگی کی ہر ضرورت کے<br />

لیے وسائل میسر ہونے لگے۔ بالشبہ ان پر یہ هللا کا بہت<br />

بڑا احسان تھا۔ جی<strong>سے</strong> جی<strong>سے</strong> آسودگی نازل ہوتی گئی<br />

وی<strong>سے</strong> وی<strong>سے</strong> صفدر میں نرمی اور حلیمی کا اضافہ ہوتا<br />

مزاج میں لناعت فمیری اور درویشی داخل ہوتی گئی۔ گیا۔<br />

صفدر بنیادی طور پر'‏ میٹرک تھا۔ اس سلوک'‏ محبت اور<br />

باہمی اتفاق کے نتیجہ میں'‏ اس نے پرائیویٹ امیدوار کے<br />

طور پر'‏ ایم اے اردو اور پھر ایم اے سیاسیات کیا۔<br />

هللا کے احسان <strong>سے</strong> <strong>زیبن</strong> حاملہ ہو گئی۔ حمل کے آخری<br />

ایام میں حسب روایت وہ میکے چلی گئی۔ هللا نے انہیں<br />

ایک چاند <strong>سے</strong> بوبی <strong>سے</strong> نوازا۔ اس امر کی اطالع صفدر<br />

کو کر دی گئی۔ وہ اڑتا ہوا سسرال پہنچا۔ اتفاق <strong>سے</strong> اس کی<br />

ہم شیر نسبتی کے ہاں بھی ان ہی ایام میں بیٹا پیدا ہوا۔<br />

صفدر جب وہاں پہنچا تو دونوں بچوں کو ایک جگہ لٹا دیا<br />

گیا۔ صفدر <strong>سے</strong> کہا اپنا بیٹا اٹھا لے۔ صفدر نے دونوں<br />

بچوں کو ایک نظر دیکھا۔ یہ یمینا بہت بڑا امتحان تھا۔ بچے<br />

چند دنوں کے تھے۔ پھر ا<strong>سے</strong> یوں محسوس ہوا جی<strong>سے</strong><br />

ایک بچے کی آنکھوں میں سوال گردش کر رہا ہو‘‏ ابو<br />

مجھے نہیں پہچان پا رہے میں آپ کا بیٹا ہوں۔ صفدر نے


فورا اس بچے کو اٹھا لیا۔ سب حیران رہ گیے۔ انہوں نے<br />

تم نے ا<strong>سے</strong> کی<strong>سے</strong> پہچانا ہے۔ صفدر مسکرایا اور کہا<br />

بچے نے مجھے بتایا ہے۔ سب پکار اٹھے خون‘‏ خون کو<br />

پہچان ہی لیتا ہے۔<br />

گھر میں خوشیوں بڑھ گیئں۔ صفدر نے اپنے اس الڈلے<br />

بیٹے کا نام کنور عباس رکھا۔ کنور کے لریب آنے<br />

<strong>سے</strong>صفدر اور <strong>زیبن</strong> دلی اور ذہنی طور پر اور لریب آ گئے۔<br />

وہ ایک دوسرے محبت ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کی<br />

عزت بھی کرنے لگے۔ کنور بڑے اچھے ممدر لے کرآیا تھا<br />

هللا کے احسان کا دروازہ مذید کھال ا<strong>سے</strong> پنجاب سول<br />

سکریریٹ میں'‏ باطور اسسٹنٹ مالزمت بھی مل گئی۔۔<br />

جائنگ کے بعد اس کی گورنر انسپکشن ٹیم میں باطور<br />

برانچ سپرنٹنڈنٹ تعیناتی ہو گئی۔ وہ بڑی رلم اکٹھی کر<br />

سکتا تھا لیکن اس نے اپنے باپ بابا شکرهللا کی ہدایت پر<br />

حرام کی طرف دیکھنا بھی جرم عظیم سمجھا اور عجز کو<br />

شعار بنا لیا۔<br />

'<br />

زندگی آسانی اور خوشیوں کی چھاؤں میں بسر ہو رہی<br />

تھی۔ ننھا کنور گھر کی رونك اور روشنی تھا۔ جب وہ<br />

چھوٹی چھوٹی شراتیں کرتا دونوں میاں بیوی کھل کھل<br />

جاتے۔ باپ بیٹا ایک دوسرے <strong>سے</strong> جدا ہونا پسند نہیں


کرتے تھے۔ صفدر جب گھر واپس آتا کنور اس کے ساتھ<br />

رہتا۔ کنور اور صفدر ایک دوسرے کے عشك کی ڈور میں<br />

بند چکے تھے۔ صفدر کی ساری دوستیاں کنور میں سمٹ<br />

آئی تھیں۔ هللا نے ایک اور احسان کیا۔ کنور کے بعد حسن<br />

مثنی کی آمد ہو گئی۔ <strong>زیبن</strong> اور صفدر هللا کے اس احسان پر<br />

پھولے نہ سمائے۔<br />

یہ چار جنوری ١٩٨٤ کی منحوس اور بدنصیب شام تھی۔<br />

<strong>زیبن</strong> کی طبیعت خراب ہو گئی۔ وہ ڈاکٹر رضا ہاشمی کے<br />

پاس دوڑا آیا۔ ڈاکٹر رضا ہاشمی صفدر کا پرانا دوست تھا۔<br />

اس نے پوری حمیفت سن کر دوا دے دی اور ا<strong>سے</strong> تسلی<br />

بھی دی۔ وہ رات بھاگ دوڑ میں گزر گئی۔ آخر <strong>زیبن</strong> نے کہا<br />

میرے پیو سیہڑیا نہ کھپ'‏<br />

ولت آ پہنچا ہے۔ میرے پاس<br />

بیٹھ جا۔<br />

صفدر ذہنی طور پر مفلوج ہو گیا تھا۔اس کے سامنے ساری<br />

کھیڈ ختم ہو رہی تھی۔ ا<strong>سے</strong> کی<strong>سے</strong> چین آ جاتا۔ صبح کے<br />

پانچ بج رہے تھے۔ وہ ڈاکٹر رفیك کو لے کر آ گیا۔ اس نے<br />

<strong>زیبن</strong> کی طرف دیکھا۔ <strong>زیبن</strong> کی آخری سانس تھی۔ <strong>زیبن</strong> نے<br />

یہ سانس ضائع نہ ہونے دی۔ اس نے صفدر کی طرف<br />

زخمی مسکراہٹ <strong>سے</strong> دیکھا اور تیرہ سال کا ساتھ چھوڑ


کر خالك حمیمی <strong>سے</strong> جا ملی۔ وہ رویا چالیا مگر کچھ بھی<br />

نہ ہو سکا۔ چار دن کے بچے <strong>سے</strong> ممتا کی آغوش چھن<br />

چکی تھی۔ موت کے سامنے کب کسی کی چلی ہے۔ وہ تو<br />

خود امر ربی کی زنجیروں میں جکڑی ہوتی ہے۔ هللا کی<br />

حکمتوں کو کب کوئی پا سکا ہے۔<br />

صفدر حساس فریضہ انجام دے رہا تھا۔ پریشان تھا کہ<br />

دونوں بچے چھوٹے ہیں کس کے پاس چھوڑے۔ ای<strong>سے</strong><br />

ولت میں سارے رشتے بےگانے ہو جاتے ہیں۔ اس کی<br />

بڑی ہم شیر نسبتی حنیفاں بی بی حسن مثنی کو لے گئی۔<br />

حاالت نے اس کنبے کو بکھیر کر رکھ دیا۔ <strong>زیبن</strong> کیا گئی<br />

سارا سکون اور چین بھی چال گیا۔ اس طرح تو زندگی نہیں<br />

گزر سکتی تھی۔ <strong>زیبن</strong> کبھی واپس نہ آنے کے لیے چلی<br />

گئی تھی ورنہ وہ تو میکے میں بھی‘‏ اتنی دور ہونے کے<br />

باوجود‘‏ دو چار روز <strong>سے</strong> زیادہ وہاں نہ رہی تھی۔ اب تو<br />

کئی دن ہو چلے تھے لیکن اس کی واپسی ابھی <strong>تک</strong> نہ<br />

ہوئی تھی۔ وہ تو اتنے دن رہنے والی نہ تھی۔ بےچاری<br />

کتنی مجبور ہو گی ورنہ اب <strong>تک</strong> واپس آ گئی ہوتی۔<br />

عالم شاہ اپنے داماد صفدر اور بچوں کے لیے سخت<br />

پریشان تھے۔ وہ اس کے دکھ <strong>سے</strong> باخوبی والف تھے۔<br />

انہوں نے اپنی بڑی بیٹی حنیفاں بی بی کو راضی کر لیا کہ


وہ اپنی بیٹی انور صفدر کے نکاح میں دے دے۔ صفدر کا<br />

دل بجھ گیا تھا۔ <strong>زیبن</strong> سی عزت محبت اور خدمت کوئی نہ<br />

دے سکے گا۔ اس حمیمت کے باوجود اس نے عالم شاہ<br />

کے فیصلے پر سر بہ خم کر دیا۔ اس کے دل <strong>سے</strong> <strong>زیبن</strong> کی<br />

جدائی کا غم محو ہی نہیں ہو رہا تھا۔ اس میں انور<br />

بےچاری کا تو کوئی لصور نہ تھا۔ وہ دو بچوں پر آ رہی<br />

تھی اس لیے ہم دردی کی مستحك تھی۔ صفدراپنے دونوں<br />

بچوں کو اپنے سامنے دیکھنے کا خواہش مند تھا۔ پھر اس<br />

نے خود کو ذہنی طور پر نئے سیٹ اپ کے لیے تیار کرنا<br />

شروع کر دیا۔<br />

اسی دوران حسن مثنی بیمار پڑ گیا۔ حنیفاں بی بی ا<strong>سے</strong><br />

صفدر کے پاس لے آئی۔ صفدرنے اس بچے کو اپنی عمر<br />

رسیدہ ماں کی آغوش میں ڈال دیا۔ اس کے پاس کوئی<br />

دوسرا رستہ ہی نہ تھا۔ اس عمر رسیدہ عورت نے‘‏ جی<br />

بسم هللا کرکے ا<strong>سے</strong> سینے <strong>سے</strong> لگا لیا۔ صفدر کی فیملی<br />

اتنی مختصر نہ تھی کہ بچے کی نگہداشت نہ ہو پاتی مگر<br />

کون کسی کی سر دردی مول لیتا ہے۔ دادی نے دل و جان<br />

<strong>سے</strong> اپنی بوڑھی اور کم زور ہڈیوں کی پرواہ کیے بغیر<br />

بچے کی خدمت کی۔<br />

صفدر کے بڑے بھائی منظور حسین'‏ شروع <strong>سے</strong>


خودغرض'‏ مطلب پرست'‏ زوجہ دار اور طوطا چشم رہے<br />

تھے'‏ نے اپنے بڑے بیٹے'‏ خالد کی اس بازار کے رہائشی<br />

پیدائشی'‏ باظاہر شریف'‏ مادری سوسائٹی کے گھرانے کی<br />

لڑکی بشری <strong>سے</strong>'‏ منگنی کر رکھی تھی۔ باہر اس گھرانے<br />

کی بڑی شوشا تھی'‏ لیکن اندرون خانہ یہ خوش حال<br />

گھرانہ نہ تھا۔ خوشی دمحم کی پہلی بیوی <strong>سے</strong>'‏ تین لڑکے<br />

ریاض'‏ ارشد اور اصغر تھے۔ دوسری بیوی <strong>سے</strong>'‏ پانچ<br />

لڑکیاں رضیہ'‏ نجمہ'‏ سعیدہ'‏ ناصرہ اور بشری'‏ جب کہ دو<br />

لڑکے حسن اور انور تھے۔ پہلی بیوی کے تینوں بیٹے'‏<br />

موجودہ ماں اور اس کی اوالد کے حسن سلوک <strong>سے</strong> متاثر<br />

ہو کر'‏ راہ فرار اختیار کر چکے تھے۔<br />

اسی حسن سلوک کا شکار خوشی دمحم بھی ہو گیے تھے۔<br />

نتیجہ کار'‏ ولت <strong>سے</strong> بہت پہلے اگلے جہاں جا ب<strong>سے</strong><br />

تھے۔ یہ خاتون باظاہر سادہ تھی لیکن اپنی اصل میں باراں<br />

تالی تھی۔ آسمان پر ٹاکی لگانے اور اتارنے میں ثانی نہ<br />

رکھتی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ لگاتی کم'‏ اتارتی زیادہ تھی۔<br />

لگانا گناہ کبیرہ جانتی تھی۔<br />

گھر کے جملہ اخراجات بڑی لڑکی رضیہ اٹھا رہی تھی۔<br />

حسن اور انور بہن کی کمائی کے عادی ہو چکے تھے۔ بہن<br />

کی کمائی کے سفید استری شدہ کپڑوں میں انہیں رہنا


خوش آتا تھا۔ کام <strong>سے</strong> زیادہ وہ سہولتوں اور آسائشوں کی<br />

دستیابی کے دل دادہ تھے۔<br />

نجمہ کی شادی گاؤں کے رہائشی زاہد <strong>سے</strong> کر دی گئی۔<br />

اس نے اس مادری سوسائٹی کی خاتون کو بس میں کرنے<br />

کی ہر ممکنہ کوشش کی لیکن پوتڑوں میں ملی عادات کب<br />

ختم ہوتی ہیں۔ آخر ا<strong>سے</strong> ہی زیر ہونا پڑا۔ تین بچے پیدا<br />

ماں ہو لئے۔ ہوئے ان میں <strong>سے</strong> ایک مر گیا۔ بالی دو<br />

کے لدموں پر<br />

سعیدہ المعروف ہیما مالنی نے ایل ایچ وی کورس میں<br />

داخلہ لے کر خوب موج میلہ کیا۔ یہ کام تو اس نے میٹرک<br />

میں ہی شروع کر دیا تھا۔ کورس کرنے کے بعد ا<strong>سے</strong><br />

ہسپتال میں مالزمت مل گئی۔ معمولی سی کوشش <strong>سے</strong> ڈاکٹر<br />

نسیم گرفت میں آ گیا۔ کئی ایک تو یوں ہی رہے تاہم بنک<br />

آفیسر یسین خصوص کے درجے <strong>سے</strong> نیچے نہ آ سکا۔ پھر<br />

اس نے نسیم <strong>سے</strong> فراغت حاصل کر لی۔ تجمل پر گرفت<br />

مضبوط ہو گئی۔ اداؤں کا یہ ممتول کئی سال چال۔ اس <strong>سے</strong><br />

دو لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ وہ گریب بھی بنک آفیسر یسین کی<br />

بلی چڑھ گیا۔


اوروں کے ساتھ ہیلو ہائے کے ساتھ'‏ ماسٹر کئی ماہ<br />

الامت پذیر رہا۔ اس بےچارے'‏ مگر بےدرمے کو حسن نے<br />

چلتا کی۔ بدکار تو وہ تھی ہی'‏ بدکار عورتوں کی معاون<br />

ہونے کے سبب خوب مال کمایا۔ ان گنت معصوم بچوں کو<br />

زندگی کا پہال سانس <strong>تک</strong> نہ لینے دیا۔ ابارشن کاری <strong>سے</strong><br />

خوب مال کمایا۔<br />

صفدر نے اس کا گھر آباد رکھنے اور بچیوں کی ہم دردی<br />

میں'‏ تجمل کو کئی ماہ اپنے ہاں رکھا.‏ ۔صفدر کو یہ خدا<br />

ترسی مہنگی پڑی۔ وہ آنے والے پہاجیوں کی راہ میں روڑا<br />

بنتا تھا۔ یسین کے معاملہ میں منہ کھولتا تھا۔<br />

سارے بہن بھائی سرکاری بجلی کا ڈٹ کر استعمال کرتے<br />

تھے لیکن سعیدہ نے تو کسریں ہی نکال دیں۔ اس کے پاس<br />

مال اور مسکراہٹوں کی کمی نہ تھی۔ حج کرنے بعد ڈنگ<br />

پہلے <strong>سے</strong> بھی سخت گیر ہو گیا۔ سعیدہ کی دونوں لڑکیاں<br />

اپنی ماں کے نمش لدم پر چلیں اور کافی نام کمایا۔<br />

ناصرہ‘‏ نجمہ اور ہیما مالنی کے ہاں الامت پذیر تھی۔ اتنی<br />

ہنر افروز بہنوں کے ساتھ رہتے ہوئے الیاس اس کی گرفت<br />

<strong>سے</strong> کی<strong>سے</strong> نکل سکتا تھا۔ کوشش کے باوجود مال نواز


'<br />

اسامی کے نکاح میں نہ آ سکی۔ طفیل عرف تھیال یبل<br />

ناصرہ کے نکاح میں آگیا۔ ناصرہ نجمہ اور ہیما مالنی نے<br />

ا<strong>سے</strong> بچوں بڑوں کا مذاق بنا دیا۔ اس طرح وہ کنبہ میں<br />

وچاری لرار پائی۔<br />

وچاری ہونے کے سبب چوری چھپے سہی'‏ اس کا ملن<br />

الیاس <strong>سے</strong> رہا۔ هللا نے وچاری کو ایک لڑکا اور ایک لڑکی<br />

عنایت کی۔ سعیدہ نے ضد میں دونوں کیس میل ڈاکٹر <strong>سے</strong><br />

کرائے۔<br />

حسن کی شادی اچھرہ کے ایک شریف اور صاحب حثیت<br />

گھرانے کی بی اے بی ایڈ لڑکی طلعت نورین <strong>سے</strong> ہوئی۔<br />

بالشبہ وہ ایک نیک اور شریف عورت تھی۔ جنت <strong>سے</strong><br />

جہنم میں آ بسی۔ ساس ہی کچھ کم نہ تھی اوپر <strong>سے</strong> پانچ<br />

ساس نما نندوں میں آ گھری۔ اس کی تنخواہ <strong>سے</strong> گھر چل<br />

رہا تھا۔ دکھ اور کرب نے ا<strong>سے</strong> کینسر ای<strong>سے</strong> مرض میں<br />

مبتال کر دیا۔ اس نے آخری دموں <strong>تک</strong> نوکری نبھائی اور<br />

گھر کا کام کاج بھی کیا۔ آخر کب <strong>تک</strong>‘‏ موت نے ا<strong>سے</strong> دکھ<br />

اور مشمت <strong>سے</strong> نجات دال دی۔ پنشن اور دیگر سروس<br />

واجبات حسن کے ہاتھ لگے۔ پہلے مانگنے <strong>سے</strong> ملتا تھا<br />

اب وہ مختار کل تھا۔ کفن دفن پھر چالیسواں وغیرہ کے<br />

اخراجات مرحومہ کے بھائیوں نے اٹھائے۔ اب وہ وچاروں<br />

کی لسٹ میں آ گیا۔


اس کا عمد ایک مالزم خاتون <strong>سے</strong> ہوا۔ بعد میں پتا چال کہ<br />

وہ پرائیویٹ مالزم تھی۔ نکاح کے بعد اس نے پرائیویٹ<br />

مالزمت چھوڑ دی۔ حسن نے اس جرم کی پاداش میں<br />

بدکرداری کا الزام لگا کر اپنے نکاح <strong>سے</strong> فارغ کر دیا۔<br />

نکاح کی خبر سرکار کے علم میں نہ آنے کے سبب پنشن<br />

کا من وسلوی تاحال جاری و ساری ہے۔<br />

حسن بیوی کی موت پر'‏ اس کے بھائیوں نے روٹی دی۔ ہر<br />

کوئی اپنی اپنی فیملی کو کھانا تمسیم کر رہا تھا۔ حسن اپنی<br />

فیملی کو کھانا تمسیم کر رہا تھا۔ تھوڑی دیر پہلے وہ اپنے<br />

جیون ساتھی کو'‏ جو مرتے دم <strong>تک</strong> کفالت کرتی رہی تھی‘‏<br />

کی موت پر دکھ یا پریشانی کے دور <strong>تک</strong> آثار نہ تھے۔<br />

ا<strong>سے</strong> اگر کوئی فکر تھا'‏ تو اپنے بھائی اور بہنوں کی<br />

بھوک کا فکر تھا۔ اس نے پیٹ بھر کر کھایا۔ وچاری ناصرہ<br />

نے'‏ دو ڈونگے بوٹیاں اپنے پرس میں بھرتی کر لیں۔ حسن<br />

نے دیکھ لیا تھا۔ اس کے چہرے پر سومنات کے فاتح کی<br />

سی مسکراہٹ'‏ بکھر بکھر رہی تھی۔ چوری'‏ چشمی بھوک<br />

اور ہیرا پھیری کی عادت'‏ ا<strong>سے</strong> گٹھی میں ملی تھی۔ پھر یہ<br />

عادت اس کے بچوں کو ماں کے ورثہ میں مل گئی۔


اس گھر کی بدلسمتی دیکھیے نہ انہیں کوئی داماد اچھا مال<br />

اور نہ کوئی اچھی بہو ملی۔ ہاں وہ سب بہن بھائی زمین<br />

کی اعلی اور افضل ترین مخلوق تھے۔<br />

هللا <strong>سے</strong> یہ دعا ہے ان سی بیویاں اور سالے سالیاں کسی<br />

جہنمی کو بھی نہ دے۔<br />

بشری کے رشتہ کے سلسلہ میں نخرہ نخری کر رہے<br />

تھے۔ رضیہ اپنی زبان درازی و زبان طرازی کے سبب<br />

چھتیس سال کی ہو جانے کے باوجود کنواری بیٹھی<br />

تھی۔ منظور حسین نے بھائی کی بلی چڑھا کر مالی جتنے<br />

کی ٹھان لی تھی.‏ صفدر نے انور <strong>سے</strong> اپنی نسبت آگاہ کیا۔<br />

غرض کی آنکھیں کچھ نہیں دیکھتیں۔ اس نے اپنے طور<br />

پر ہی منگنی طے کر دی۔ اس کاربد میں کہانیاں سنا سنا کر<br />

مائی باپ کو بھی گرفت میں لے لیا۔<br />

صفدر نے الکھ سمجھایا اور ان لوگوں کی اصلیت <strong>سے</strong> بھی<br />

آگاہ کیا کہ وہ اپنی فطرت اور معاشرت میں اچھے نہیں<br />

ہیں۔ وہ سادات میں <strong>سے</strong> نہیں ہیں بلکہ فاطمہ اور محسن<br />

کے لاتل کی نسل <strong>سے</strong> ہیں لیکن منظور حسین ان کی<br />

ظاہری چمک دمک اور ناز نخروں کی گرفت میں آ چکا تھا۔


اپنے بیٹے خالد کے جوڑوں میں بیٹھا ہی‘‏ بھائی کو بھی<br />

لے ڈوبا۔ خالد کی بشری <strong>سے</strong> شادی کے لیے اس نے<br />

بھائی کو بلی کا بکرا بنانے کی ٹھان لی تھی۔ اپنے اس<br />

ممصد کے لیے ہر حیلہ حربہ استعمال کیا۔ صفدر کسی<br />

لیمت پر انور <strong>سے</strong> زیادتی نہیں کرنا چاہتا تھا انور<br />

بےلصور تھی۔<br />

ا<strong>سے</strong> آخر اس جرم کی کیوں سزا دی جاتی۔ دوسری طرف<br />

منظور حسین ان کو زبان دے چکا تھا۔ رضیہ چھتیس سال<br />

کی ہو گئی تھی۔ رضیہ تمریبا چودہ سال <strong>سے</strong> اس کنبہ کی<br />

کفالت کر رہی تھی۔ عمر بڑی ہو جانے کے سبب لوگ باتیں<br />

بنانے لگے تھے۔ انہیں باتوں کی تو رائی بھر پرواہ نہ<br />

تھی۔ وہ جانتے تھے کہ بہن کی کمائی تو آنی ہی آنی ہے۔<br />

ساتھ میں بہنوئی کی کمائی میں <strong>سے</strong> بھی حصہ آئے گا۔<br />

بہت سی مجبویوں کی وجہ <strong>سے</strong> صفدر کو ہتھیار ڈالنا ہی<br />

پڑے۔ خاتون چوں کہ نخرے دار تھی۔ اس حوالہ <strong>سے</strong><br />

صفدر کو بصد مجبوری بہتر رہائش کا بندوبست کرنا پڑا۔<br />

انور نے کسی کام کے سلسلہ میں پچیس ہزار روپے لیے۔<br />

انور تو سراپا فراڈ تھا کام کیا ہونا تھا۔ اس نے رشتے کا<br />

رائی بھراحترام نہ کیا۔ وہاں تو یہ نظریہ پروان چڑھا تھا کہ<br />

بہن اور بہنوئی ہوتے کس لیے ہیں۔ رضیہ نے رکھ رکھاؤ


اور بھرم کے لیے دس ہزار دے دیا۔ پانچ ہزار مائی نے دیا<br />

جو رضیہ کا دیا ہوا تھا۔ اس طرح صفدر کے سر <strong>سے</strong><br />

پندرہ ہزار اتر گیے۔<br />

<strong>زیبن</strong> کی سوئی سالئی <strong>تک</strong> ناصرہ لے گئی۔ وہ <strong>زیبن</strong>‘‏ جس<br />

<strong>سے</strong> صفدر محبت کرتا تھا‘‏ کی کوئی نشانی گھر میں نہ<br />

رہنے دینا چاہتی۔ بچے باطور نشانی بچے تھے کنور ساتھ<br />

تھا اور باطور مالزم موجود تھا۔ اس <strong>سے</strong> اس نے تپڑیاں<br />

<strong>تک</strong> پھرائیں۔ چھوٹے کو ایک لمحہ کو بھی گود میں نہ لیا۔<br />

صفدر نے یہ زہر بچوں کے لیے پیا تھا۔ حسن مثنی ڈھائی<br />

سال بعد هللا کو پیارا ہو گیا۔ یہ صدمہ صفدر کو آدھا کر گیا۔<br />

بڑے کے ساتھ بھی ناروا سلوک ہو رہا تھا۔<br />

رضیہ نے چھوٹے <strong>سے</strong> کنور کو'‏ صفدر کی بہن ممسوم<br />

اختر کے ہاں چھوڑنے کا منصوبہ بنا لیا.‏ صفدر تذبذب کی<br />

صلیب پر لٹکا ہوا تھا۔ یہاں وہ بامشمت جیل کاٹ رہا تھا۔<br />

اس معاملے پر بحث بھی ہوئی۔ صفدر بہرصورت کنور<br />

کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنا چاہتا تھا۔ اس نے بہن<br />

کے کان میں پھونک دیا صاف انکار کر دے۔ اس انکار کا<br />

بھگتان بڑا مہنگا رہا۔


صفدر حاالت کے ہاتھوں مجبور تھا۔ کیا کرتا‘‏ بھائی کا کیا<br />

ا<strong>سے</strong> بھگتنا ہی تھا۔ ناصرہ کو طالق ہونے کو تھی۔ اس پر<br />

جس شخص کے حوالہ <strong>سے</strong> شک کیا جا رہا تھا وہ ایسا نہ<br />

تھا۔ اصل کا نام <strong>تک</strong> نہیں لیا جا رہا تھا۔ صفدر نے اس کا<br />

گھر بچانے کے لیے مسجد میں بیٹھ کر حلف دیا۔ ناصرہ<br />

کو صفدر نے'‏ الیاس وغیرہ <strong>سے</strong> غیر شرعی میل ماللات<br />

<strong>سے</strong> منع کیا توا<strong>سے</strong> گندے خان دان کا کہا گیا۔<br />

ولت ان ہی حاالت میں گزرتا گیا۔ مردانہ ہارمون ہونے اور<br />

یوٹرس میں رسولی کے سبب چار سال <strong>تک</strong> اوالد <strong>سے</strong><br />

محرومی کا دکھ برداشت کرنا پڑا۔ آخر ڈیٹ آنا بھی بند ہو<br />

گئی۔ صفدر نے یہ سب برداشت کیا۔ وہ کسی نئے رپھڑ<br />

میں نہیں پڑنا نہیں چاہتا تھا۔ حاالت نے اس میں دکھ<br />

برداشت کرنے کی صالحیت پیدا کر دی تھی۔ برداشت کے<br />

سوا اس کے پاس کوئی رستہ موجود نہ تھا۔<br />

وہ ہر حال میں کنور کے مستمبل کو بہتر کرنے کا خواہش<br />

مند تھا۔ اس نے ساری توجہ اس ممصد پر مرکوز کر دی۔<br />

صفدر نے کنور کے مستمبل کے لیے بیمہ کرایا۔ رضیہ کو<br />

معلوم ہو گیا گھر میں لیامت ٹوٹ پڑی۔ صفدر نے رضیہ<br />

کا بھی بیمہ کرایا اور پھر اس کھیل کو ہی ختم کر دیا۔ وہ<br />

چھوٹے چھوٹے معامالت میں اس معصوم بچے <strong>سے</strong> ممابلہ


کرنے لگی۔<br />

رضیہ کنور کی ضد میں اپنی بہن نجمی کے دونوں بچوں<br />

کو تعلیم کی خاطر گھر میں لے آئی۔ صفدر نے انہیں باپ<br />

کی شفمت <strong>سے</strong> نوازا۔ بعد ازاں وہ اپنے ماموں زاد کی بیٹی<br />

شبانہ کو بھی لے آئی۔ اس کے دوسرے ماموں کے بیٹے<br />

کو بھی لے آئی۔ صفدر نے سب بچوں کو ناصرف لبول کیا<br />

بلکہ پیار بھی دیا۔<br />

صفدر کے بہن بھائی رضیہ کی زبان <strong>سے</strong> بےزار اور ناالں<br />

تھے اس لیے انہوں نے اس کے ہاں آنا جانا ہی بند کر دیا۔<br />

صفدر نے رضیہ کے بہن بھائیوں کو اپنا سمجھتے ہوئے<br />

ان کی ہر غمی خوشی میں حصہ لیا۔ ان کے بچوں کی<br />

شادی پر بڑھ چڑھ کر خرچ کیا۔<br />

رضیہ کی ماں نے اندر خانے اپنی چھوٹی بیٹی بشری <strong>سے</strong><br />

رضیہ کی ایما کے ساتھ منصوبہ بنایا کہ وہ حاملہ ہے اگر<br />

بیٹی ہوئی تو رضیہ کو دے دینا۔ اس طرح صفدر کے<br />

مستمبل کا رستہ بند ہو جائے گا جب کہ وہ اس حوالہ <strong>سے</strong><br />

کسی لسم کا اردہ ہی نہ رکھتا تھا۔ سوئے اتفاق بشری کے<br />

ہاں بیٹی پیدا ہوئی جو حسب پروگرام رضیہ کی گود میں


ڈال دی گئی۔ صفدر بچی کو پا کر خوش ہو گیا۔ زندگی میں<br />

خوشیاں آ گئیں۔ صفدر نے بچی پر ہر خوشی نچھاور کر<br />

دی۔<br />

محکمہ میں ہر روز کی پھڈے بازی اور بچی کی پرورش<br />

کے لئے رضیہ نے پنشن لے لی۔ صفدر کو اس <strong>سے</strong> کیا<br />

فرق پڑنا تھا۔ دونوں کی کمائی کا بڑا حصہ وچاروں کی<br />

فالح وبہبود اور جان بنانے پر خرچ ہو جاتا تھا۔ وہ اس<br />

خدمت کو حمیر اور ناکافی سمجھ رہی تھی۔ رہائشی مکان<br />

جو صفدر نے خرید کیا تھا'‏ بار بار اور ہر کسی <strong>سے</strong> کہتی<br />

پنشن میں ملنے والی رلم <strong>سے</strong> خرید کیا گیا ہے۔ کتنا بڑا<br />

جھوٹ اور مذاق تھا۔ وہ تو پلے <strong>سے</strong> ماچس کی ڈبیا<br />

منگوانا گناہ کبیرہ سمجھتی تھی۔<br />

رضیہ کو اس مد میں 369000 روپے ملے جس میں<br />

<strong>سے</strong> دو الکھ لومی بچت میں رکھ دئے۔ ایک الکھ بشری<br />

کو دے دئے کہ ذاتی مکان کی خریداری میں کم پڑ گئے<br />

تھے۔ عدم ادائیگی کی صورت میں ا<strong>سے</strong> ہارٹ اٹیک کا<br />

احتمال تھا۔ وچارے انور نے گھر کا ڈیڑھ مرلہ کا مکان<br />

گروی رکھ دیا تھا۔ اس ذیل میں سرکاری بیلف آ پہنچا تھا۔<br />

رضیہ سمیت وچاری ناصرہ اور وچاری بشری کے عالوہ<br />

تمام بہنوں نے بیس بیس ہزار ڈال کر وچارے حسن کی مدد


کی جو ان دنوں وہاں الامت رکھتا تھا۔ پندرہ ہزار کا ٹی وی<br />

جب کہ ڈھائی ہزار کی ٹرالی خرید لی۔ ذاتی خریدداری بھی<br />

کی۔ تاہم اس ضمن میں وچاری ناصرہ کو نظرانداز نہ کیا<br />

گیا۔<br />

رضیہ کو خوش رکھنے کے لیے ہر طریمہ اور ہر حربہ<br />

استعمال کیا۔ ا<strong>سے</strong> سوا سولہ تولے زیور بنا کر دیا۔ پوری<br />

تنخواہ اس کی ہتھیلی پر رکھتا معمولی سی تبدیلی کے سوا<br />

کچھ نہ ہوا۔ کنور ان ناسازگار حاالت میں تعلیم حاصل کرتا<br />

رہا۔ هللا نے اس میں تعلیم حاصل کرنے کا جنون رکھ دیا۔<br />

ردعمل میں وہ تعلیم کی جانب مڑ گیآ۔ هللا نے اس پراحسان<br />

کیا اور اس نے معاشیات میں ماسٹر کر لیا۔ بعد ازاں<br />

اسالمک یونی ورسٹی <strong>سے</strong> معاشیات میں ہی ایم فل کر لیا۔<br />

ا<strong>سے</strong> فنانس ڈویژن میں مالزمت مل گئی۔ صفدر کو اس کی<br />

هللا کے احسان <strong>سے</strong> کامیابیوں کی بےحد خوشی ہوئی اور<br />

اس نے اطمنان کا سانس لیا۔<br />

معمول مالزمت مل جانے پر رضیہ کو ماں کا رشتہ یاد آ<br />

گیا۔ اس نے کنور کی شادی اپنی بہن کی بیٹی <strong>سے</strong> کرنے کا<br />

فیصلہ کر لیا۔ پہلے تو صفدر یہ کہہ کر ٹالتا رہا کہ کنور<br />

ذرا مضبوط ہو جائے پھر اس معاملے کو طے کر لیں گے۔<br />

مگر کہاں گھر میں ہر ولت کل کل رہنے لگی۔


صفدر افسانہ نگار تو تھا ہی اس نے ایک کردار تخلیك کیا۔<br />

ثمرین جو بہت بڑے گھرانے کی تھی <strong>سے</strong> اپنے تعلك کو<br />

عام کر دیا۔ اس نے معروف کیا کہ ثمرین دو بیٹیوں کی ماں<br />

ہے۔ رضیہ جانتی تھی کہ بچے صفدر کی سب <strong>سے</strong>بڑی<br />

کمزوری ہیں۔ اس حوالہ <strong>سے</strong> اس معاشمے سچ مان لیا گیا۔<br />

وہ صاحب للم تھا'‏ مالزم بھی تھا پارٹ ٹائم بھی کچھ نا<br />

کچھ کرتا رہتا تھا۔ مزاجا عاشك مزاج نہ تھا۔ اس کے<br />

نزدیک یہ عشك وغیرہ'‏ ولت کے ضیاع اور دماغ کے بخار<br />

کے سوا کچھ نہیں۔ اس نے ایک دوست کے بیٹے کو کہہ<br />

رکھا تھا کہ مس بل کر دیا کرے<br />

وہ مس کال دے دیتا پھر یہ جھوٹ موٹھ کی خودکالمی<br />

کرتا رہتا۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ کہیں <strong>سے</strong> فون آ جاتا۔ وہ<br />

پھر بھی نہ سمجھ سکی کہ سب یوں ہی جا رہا ہے۔ اس<br />

ڈرمے <strong>سے</strong> یہ فائدہ ضرور ہوا کہ توجہ بٹ گئی بلکہ اصل<br />

معاملہ ہی ختم ہو گیا۔ ادھر معاملہ ختم ہوا ادھر ڈرامہ بھی<br />

اپنے منطمی انجام کو پہنچ گیا۔ ہاں البتہ یہ عمیدہ راسخ ہو<br />

گیا کہ صفدر کی زندگی میں ثمرین نام کی خاتون آئی تھی۔<br />

رضیہ جب <strong>تک</strong> رات کو دودھ نہ پیتی'‏<br />

ا<strong>سے</strong> نیند نہ آتی


تھی۔ ماں کے ہاں آنے والے دودھی <strong>سے</strong> دودھ لگوایا ہوا<br />

تھا۔ گھر پر رکھی نوعمر مالزمہ روزانہ دودھ لے آیا کرتی<br />

تھی۔ شاید اس روز ماں گھر پر نہ تھی۔ مولع <strong>سے</strong> فائدہ<br />

اٹھاتے ہوئے انور نے نوعمر مالزمہ پھاڑ ڈالی۔ ساری رات<br />

ہسپتال میں گزری۔ بلیڈنگ رکنے کا نام نہ لے رہی تھی۔<br />

صفدر سخت برہم ہوا۔ غصہ میں آ کر اس نے کاروائی<br />

کرنے کا اظہار کیا۔ ہیما مالنی نے بھائی کے ڈیفنس میں<br />

کہا پہلے صفدر کر چکا تھا حاالں وہ تو ا<strong>سے</strong> اپنے بچوں<br />

کی طرح سمجھتا تھا۔ ا<strong>سے</strong> موصوفہ کے اس بیان پر سخت<br />

رنج ہوا۔ بجائے انور پر ناراض ہونے کے ا<strong>سے</strong> شہ دی<br />

گئی۔<br />

صفدر کی ماں آخری بیمار پڑی۔ صفدر ا<strong>سے</strong> اپنے گھر لے<br />

آیا۔ رضیہ <strong>سے</strong> دیکھ بھال کی درخواست کی۔ مگر کہاں'‏<br />

سسرالی تو ا<strong>سے</strong> زہر لگتے تھے۔ صفدر رات کو اٹھ اٹھ کر<br />

انہیں پیشاب وغیرہ کراتا۔ وہ ا<strong>سے</strong> اپنے لئے اعزاز<br />

سمجھتا تھا۔ مائی باپ کی خدمت اونچے نصیبے والوں کو<br />

میسر آتی ہے۔باپ کی بات اور تھی کہ وہ مرد تھا۔ یہ ماں<br />

تھی لیکن تھی تو عورت ذات۔ وہ طہارت کرتے شرمندگی<br />

اور پشیمانی میں غرق ہو جاتا۔ بیٹے کے گھر <strong>سے</strong> رخصت<br />

ہونا انہیں خوش نہ آتا تھا۔ باامر مجبوری صفدر انہیں بڑی<br />

بہن کے ہاں چھوڑ آیا۔


رضیہ کی وچاری ماں باراں تالی آخری بیمار پڑی تو وہ<br />

ا<strong>سے</strong> خذمت کے لئے گھر لے آئی۔ جلد سونے کی عادی<br />

رات دیر <strong>تک</strong> جاگتی پاس بیٹھتی۔ حاجات میں معاونت پر<br />

کراہت محسوس نہ کرتی۔<br />

وچاری ناصرہ اپنے ڈنگ کی کرختگی کے زعم میں ڈینگی<br />

کو ڈنگ بیٹھی۔ پلیٹ لٹ تینتیس پر آ گئے۔ تھیال یبل ا<strong>سے</strong><br />

صفدر کے گھر چھوڑ کر چال گیا۔ آفرین ہے رضیہ نے<br />

خدمت میں کوئی دلیمہ اٹھا رکھا۔ صفدر نے اس کا معالجہ<br />

کیا اور وہ کافی دنوں بعد چنگی بھلی ہو گئی۔<br />

اس کا لڑکا میٹرک نہیں کر پا رہا تھا۔ صفدر نے ناصرف<br />

امتحانی فییس وغیرہ اددا کی بلکہ ا<strong>سے</strong> پڑھایا بھی۔ بنیادی<br />

طور پر اس کا رجحان چوری اور سونے کی طرف تھا'‏ اس<br />

لئے کامیابی <strong>سے</strong> دور ہی رہا۔<br />

ایک مرتبہ وچاری نجمہ عرف نجمی کے ہاں صفدر ہوریں<br />

چند گھنٹوں کے لئے ٹھہرے ہوئے تھے۔ ناصرہ ڈنگی<br />

شریف بھی آئی ہوئی تھی۔ وچارہ حسن بھی آیا ہوا تھا۔ پتا


نہیں ا<strong>سے</strong> یہ کیوں سوجھا کہ اس نے حسن <strong>سے</strong> کہہ دیا<br />

کہ صفدر تمہیں گالیاں نکال رہا ہے۔ حیرت یہ کہ حسن ایسا<br />

منہ پھٹ اور بدتمیز خاموش رہا۔ گھر آ کر اس بات کا خوب<br />

چرچا ہوا۔ صفدر نے لرآن اٹھا کر اپنی صفائی دی کہ یہ تو<br />

غیر منطمی سی بات ہے۔ آخر وہ اس کو کیوں گالیاں دے<br />

گا۔ کوئی وجہ بھی تو ہونی چاہیے۔ یمین کرنے کی بجائے<br />

ڈنگی شریف کو سچا کیا گیا'‏ کہ وہ غلط کہہ ہی نہیں<br />

سکتی۔<br />

تھیلے یبل کے چھوٹے بھائی طالب نے اس کی حالت پر<br />

ترس کھاتے ہوئے الہور میں پانچ مرلہ زمین دی اور کہا<br />

کہ اڑھائی مرلہ میں رہائشی مکان بنا لو بالی اڑھائی مرلہ<br />

میں درس بنا لو۔ ڈنگی شریف نے اس شیشے میں اترے<br />

اترائے <strong>سے</strong> پانچوں مرلے اپنے نام کروا لئے۔ مکان<br />

وغیرہ بنانے میں رضیہ نے تعاون کیا۔<br />

جب طالب کو اس بدمعاشی کا پتا چال تو اس نے احتجاج<br />

کیا۔ جس پر سابمہ پیر موجودہ سید حاجی وچارے حسن<br />

نے خوب زبان درازی و زبان طرازی کی۔ یہ بھی کہا کہ<br />

اس کا ایک لڑکا ہے اور وہ بھی حرامدا اے'‏ اس کے لئے<br />

ترلے لیتا ہے۔ اس کے وہم وگمان میں بھی نہ رہا کہ اس<br />

کی بہن شادی <strong>سے</strong> پہلے اور شادی کے بعد بھی الیاس


وغیرہ کے ساتھ رنگ رلیاں مناتی آ رہی ہے۔<br />

نیت اچھی ہو تو تھوڑے میں برکت پڑ جاتی ہے ورنہ دنیا<br />

کی بادشاہی بھی مل جائے تو آنکھ سیر نہیں ہوتی۔<br />

رضیہ نے عمرہ کرنے کا پروگرام بنایا۔ صفدر کہوتے <strong>سے</strong><br />

کہا کہ ساری بہنیں عمرہ پر جا رہی ہیں میں بھی جانا<br />

چاہتی ہوں پیسوں کی کمی ہے۔ صفدر کہوتے کو خلوص<br />

اور احترام حرم میں یہ بھی یاد نہ رہا کہ پنشن کے پی<strong>سے</strong><br />

کہاں گئے جو وہ سالوں <strong>سے</strong> لے رہی ہے۔ اس نے گھر یا<br />

صفدر کہوتے پر ایک اکنی <strong>تک</strong> کبھی خرچ نہیں کی۔ ا<strong>سے</strong><br />

یہ بھی یاد نہ رہا کہ ایک بار ا<strong>سے</strong> سخت ضرورت آ پڑی<br />

تھی تو رضیہ نے صاف انکار کر دیا تھا۔ پھر کئی دن بعد<br />

کہا ناصرہ کے لئے بیس ہزار زکوات نکالی ہے۔ یہ بیس<br />

ہزار رو دھو کر دے ہی دئے۔<br />

اس نے رضیہ کو عمرہ کے لئے پینتیس ہزار روپے دئے<br />

ساتھ لے جانے کے لئے پچیس ہزار دئے۔ جب واپسی ہوئی<br />

تو دل و جان <strong>سے</strong> خیرممدم کیا۔ رضیہ نے بڑی ایمان داری<br />

<strong>سے</strong> بائیس ہزار واپس کر دئے۔


اس نے ماں کو بھی عمرہ کروایا۔ نام سعیدہ کا دیا۔ اس<br />

سعیدہ کا جو جوں مار کر نہ دینے والی رہی ہے۔ ا<strong>سے</strong> لینا<br />

آتا تھا دینا اس نے سیکھا ہی نہ تھا۔ ایک بار کچھ لے گئی<br />

تو واپسی کا درروازہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیتی۔ مہمان<br />

نواز بال کی تھی۔ مہمان کو دروازے کے اندر طہارت کدے<br />

کے لریب کرسی بچھا کر دیتی۔ چائے پانی کے لئے مہمان<br />

خود ہی ہوٹل کی راہ لیتا۔ ہاں جنسی تسکین کے امین کو<br />

ذاتی کمرے میں بڑی عزت اور احترام <strong>سے</strong> بٹھاتی۔<br />

صفدر کہوتہ ایسوسی ایٹ پروفیسر ریٹائر ہوا۔ رضیہ نے<br />

تمام سلے ان سلے کپڑے اپنے وچاروں کو دے دئے۔مولف<br />

یہ اختیار کیا اس کے اتنے زیادہ کپڑے تھے ہی کب۔<br />

دوسرا اس نے کپڑے کیا کرنے ہیں۔ گھر پر ہی تو بیٹھے<br />

رہنا ہے۔ صفدر کہوتہ لنڈے <strong>سے</strong> دو جوڑے لے آیا اور ان<br />

ہی <strong>سے</strong> کام چالنے لگا۔<br />

صفدر نے پچاس سال لکھنے پڑھنے کا کام کیا۔ اس نے<br />

تمریبا سترہ فیلڈز میں کام کیا۔ اس کے کام پر چار ایم فل<br />

اور ایک بی اے آنرز کا ممالہ ہو چکا تھا۔ ایک ہو رہا تھا۔<br />

وہ خود اپنے کام کی جمع بندی کے ساتھ ساتھ نادر


مخطوطوں پر کام کر رہا تھا۔ اس نے اس نادر خزانے کو<br />

محفوظ کرنے کے لئے گیلری بنانا چاہی اور تخمینے کے<br />

لئے مستری کو بالیا۔ رضیہ صحن میں چہاٹا کھول کر بیٹھ<br />

گئی اور خوب تماشا بنایا۔ پھر صفدر نے انہیں ڈبوں میں<br />

بند کرکے ایک صندوق میں بند کرکے رکھ دینے کا فیصلہ<br />

کیا۔ اچانک وچارہ حسن اور اس کی بیٹی آ ٹپکے۔ دیر <strong>تک</strong><br />

بیٹھ کر چلے گئے۔ صبح رضیہ بہن کے گھر چلی گئی۔<br />

اسٹریلیا <strong>سے</strong> کنور نے ٹیلی فون پر بتایا کہ وہ ناراض ہو<br />

کر گئی ہیں۔ صندوق جگہ گھیرے گا وہ وہاں چھنیاں<br />

کولیاں اور لکڑیاں رکھنا چاہتی تھی۔ اس میں تماشا بننے<br />

اور بنانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ منع کرتی صفدر کہوتہ<br />

منع ہو جاتا۔<br />

صفدر کی بہن نصرت شگفتہ اس کی اوالد کی کمی اور ابتر<br />

حالت <strong>سے</strong> پریشان تھی۔ اس نے امام مسجد کی ان پڑھ اور<br />

طالق یافتہ بیٹی کا رشتہ تالشا۔ صفدر اس رشتے کے لئے<br />

تیار نہیں ہو رہا تھا۔ ا<strong>سے</strong> منانے میں سال <strong>سے</strong> زیادہ<br />

عرصہ لگ گیا۔ رشتہ ہو گیا۔ حرامدہ'‏ کنجر'‏ انترا'‏ سکھ'‏<br />

کافر وغیرہ <strong>زکرا</strong> کا <strong>تک</strong>یہءکالم تھا۔ صفدر نے اس کے باپ<br />

کو بالیا اور کہا'‏ خدا کے لئے ا<strong>سے</strong> لے جاؤ۔ دس دن بعد'‏<br />

اس کی بہن واپس چھوڑ گئی۔ حیرت انگیز افالہ ہوا۔ هللا<br />

نے صفدر کو حیدر امام <strong>سے</strong> نوازا۔ رضیہ نے ا<strong>سے</strong> شریک


لرار دیا۔ کنور جس کا ا<strong>سے</strong> شریک کہا جا سکتا ہے حیدر<br />

امام کو پا کر خوش تھا۔ اصل میں وہ شریک وچارے حسن<br />

اور حسن زادے کا تھا۔<br />

سوال یہ تھا صفدر نے خود کفیل ہوتے اتنی بےبسی اور<br />

بےچارگی کی زندگی کیوں گزاری۔ اس <strong>سے</strong> سوال کیا گیا<br />

اس نے اتنی بےبسی اور بے چارگی کی زندگی کیوں<br />

گزاری۔ اس نے جوابا کہا یہ نبیوں پیروں فمیروں <strong>سے</strong> یہ<br />

ہی کچھ کرتی آئی ہیں میں بھال کس کھیت کی مولی ہوں۔<br />

اگر میں تصادم کی راہ اختیار کرتا تو بیالیس کلو <strong>سے</strong> زیادہ<br />

کام کس طرح کر پاتا۔ یہاں کچھ رہنے کا نہیں۔ یہ چھنیاں<br />

کولیاں یہاں ہی پڑی رہ جائیں گی۔ ہو سکتا ہے میرا ناچیز<br />

کام آتی نسلوں کے کام کا نکلے اور اس عہد کی گواہی<br />

ثابت ہو۔ اس نے یہ بھی کہا پی<strong>سے</strong> یا چھنیوں کولیوں <strong>سے</strong><br />

کبھی دل چسپی نہیں رہی اور نہ ہے۔ یہ سب نہ میرا تھا<br />

اور نہ میرا ہے۔ هللا میرے میرے کنور اور حیدر کو سالمت<br />

رکھے۔ انہیں آپسی محبت <strong>سے</strong> نوازے۔اس کا کہنا کہاں <strong>تک</strong><br />

درست ہے سردست کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اس کا فیصلہ<br />

آتا ولت ہی کرے گا۔

Hooray! Your file is uploaded and ready to be published.

Saved successfully!

Ooh no, something went wrong!