زیبن سے زکرا تک
زیبن سے زکرا تک مقصود حسنی maqsood5@mail2world.com
زیبن سے زکرا تک
مقصود حسنی
maqsood5@mail2world.com
- No tags were found...
Create successful ePaper yourself
Turn your PDF publications into a flip-book with our unique Google optimized e-Paper software.
کرتے تھے۔ صفدر جب گھر واپس آتا کنور اس کے ساتھ<br />
رہتا۔ کنور اور صفدر ایک دوسرے کے عشك کی ڈور میں<br />
بند چکے تھے۔ صفدر کی ساری دوستیاں کنور میں سمٹ<br />
آئی تھیں۔ هللا نے ایک اور احسان کیا۔ کنور کے بعد حسن<br />
مثنی کی آمد ہو گئی۔ <strong>زیبن</strong> اور صفدر هللا کے اس احسان پر<br />
پھولے نہ سمائے۔<br />
یہ چار جنوری ١٩٨٤ کی منحوس اور بدنصیب شام تھی۔<br />
<strong>زیبن</strong> کی طبیعت خراب ہو گئی۔ وہ ڈاکٹر رضا ہاشمی کے<br />
پاس دوڑا آیا۔ ڈاکٹر رضا ہاشمی صفدر کا پرانا دوست تھا۔<br />
اس نے پوری حمیفت سن کر دوا دے دی اور ا<strong>سے</strong> تسلی<br />
بھی دی۔ وہ رات بھاگ دوڑ میں گزر گئی۔ آخر <strong>زیبن</strong> نے کہا<br />
میرے پیو سیہڑیا نہ کھپ'<br />
ولت آ پہنچا ہے۔ میرے پاس<br />
بیٹھ جا۔<br />
صفدر ذہنی طور پر مفلوج ہو گیا تھا۔اس کے سامنے ساری<br />
کھیڈ ختم ہو رہی تھی۔ ا<strong>سے</strong> کی<strong>سے</strong> چین آ جاتا۔ صبح کے<br />
پانچ بج رہے تھے۔ وہ ڈاکٹر رفیك کو لے کر آ گیا۔ اس نے<br />
<strong>زیبن</strong> کی طرف دیکھا۔ <strong>زیبن</strong> کی آخری سانس تھی۔ <strong>زیبن</strong> نے<br />
یہ سانس ضائع نہ ہونے دی۔ اس نے صفدر کی طرف<br />
زخمی مسکراہٹ <strong>سے</strong> دیکھا اور تیرہ سال کا ساتھ چھوڑ