27.07.2015 Views

مقصود حسنی سے ایک انٹرویو

مقصود حسنی سے ایک انٹرویو مہر افروز پیش کار شہلا ڈاکٹر کنور عباس حسنی اسٹریلیا

مقصود حسنی سے ایک انٹرویو

مہر افروز

پیش کار
شہلا ڈاکٹر کنور عباس حسنی
اسٹریلیا

SHOW MORE
SHOW LESS
  • No tags were found...

You also want an ePaper? Increase the reach of your titles

YUMPU automatically turns print PDFs into web optimized ePapers that Google loves.

ممصود <strong>حسنی</strong> <strong>سے</strong> <strong>ایک</strong> <strong>انٹرویو</strong><br />

مہر افروز<br />

پیش کار<br />

شہال ڈاکٹر کنور عباس <strong>حسنی</strong><br />

اسٹریلیا<br />

مہرافروز.............‏ <strong>ایک</strong> تعارؾ<br />

نام<br />

ولدیت<br />

آپ کا تحریری کام اب تک<br />

مطبوعہ کتب<br />

اسناد عطیات انعامات پہچان


پہچان<br />

تحمیمی مماالت جو ہوئے<br />

آپ نے کتنی زبانوں میں تخلیمی کام کیا ہے<br />

زبانیں<br />

آپ کو مسٹر اردو کا خطاب دیا گیا ہے کس بنیاد پر اور<br />

وجہ کیا تھی<br />

آپ نے اپنا جانشین چھوڑا ہے ؟<br />

اگر ہے تو کون ہے تا کہ آپ کے بعد ان <strong>سے</strong> رجوع<br />

‏.کیا جا سکے<br />

حموق<br />

اپنے معاصرین کے بارے میں دوچار جملے<br />

آپ نے اپنا <strong>ایک</strong> برلی کتب خانہ بنایا ہے ابوزر ؼفاری<br />

‏.کتب خانے کے نام <strong>سے</strong> اس پر تفصیلی روشنی ڈالیں<br />

ترویج و نفاذ اردو کے سلسلے میں خدمات


بیدل حیدری صاحب <strong>سے</strong> آپ کے تعلمات اور دونوں<br />

کے درمیاں کے رشتوں نے زبان کو کیا دیا<br />

بیدل حیدری کے خطوط پر دو چار جملے<br />

نئی جنریشن <strong>سے</strong> اپ کیا تولعات رکھتے ہیں<br />

اردو کے ضمن میں<br />

آپ نے تاریخ اور موہنجودارو کی تالش پر بہت کام کیا<br />

ہے اس کے تعلك <strong>سے</strong> بتاییں آپ کے کام کا ذخیرہ<br />

کہاں ہے کوئی تاریخ دان آپ کی کھوج کو کہاں پا<br />

سکتا اور فیض یاب ہوسکتا ہے۔<br />

آپ نے ادویات ج<strong>سے</strong> ہندوستان میں ایوروید اور<br />

یونانی طریمہ عالج کہا جاتا ہے اس پر کافی تحمیك<br />

اور ریسرچ کی ہے اس پر تفصیلی روشنی ڈالیں<br />

آپ آدم علیہ السالم کو پہلی تخلیك نہیں مانتے اپنے<br />

اس نظریے کی وضاحت کریں اور اس کے لیے کچھ<br />

ثبوت بھی دیں


ؼالبیات پر آپ کے کام کا ہلکا خاکہ دیں<br />

ؼالب کا آپ نے پنجابی میں ترجمہ کیا ہے اس کا<br />

محرک کیا تھا<br />

البالیات پر آپ کے کام کا ہلکا سا خاکہ<br />

فرانسیسی زبان میں آپ نے کن ادیبوں کا ترجمہ کیا<br />

ہے ؟<br />

ادب کی تعریؾ آپ کے نزدیک کیا ہے<br />

پنجابی کےاردو زبان پر اثرات<br />

پنجابی زبان کے اردو پر اثرات منفی اور مثبت دونوں<br />

پر روشنی ڈالیں<br />

انسان اور انسانی رویے<br />

آپ کا تعلك <strong>ایک</strong> صوفی بزرگ خاندان <strong>سے</strong> ہے


تصوؾ پر تفصیل <strong>سے</strong> روشنی ڈالیں<br />

آپ نے کہا ہے اور لکھا بھی ہے کہ پنجاب کے<br />

خانماہی نظام نے اردو ادب کی ترویج میں بہت بڑا<br />

کردار ادا کیا ہے اس پر تفصیلی روشنی ڈالیں<br />

آپ نے افسانے کثرت <strong>سے</strong> لکھے ہیں اور سماج کو<br />

آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے<br />

آپ نے نثری نظموں پر بھی کام کیا ہے.....نثری نظم<br />

کی ادبی حیثیت کیا ہے<br />

ہائیکو کی ادبی حیثیت<br />

تخلیمی عمل کیا ہے<br />

تنمید کا ادب میں کیا ممام ہے<br />

کیا تنمید ادب پاروں کی لدر تعین کرتی ہے<br />

<strong>ایک</strong> ادیب,‏ شاعر اور صوفی کے نظریہ تخلیك و خلك<br />

میں اور تجربے میں کیا فرق ہے<br />

ادب کی ترویج کے لیے کون اہم ہے لاری کہ لکھاری


<strong>ایک</strong> ادیب شاعر اور نماد کی اصل ذمہ داری کیا ہے<br />

ارسطو کے مطابك تخلیك کاری کے دوران جذبات کا<br />

تشنج رفع ہو جاتا ہے اس بات کو اس نے کتھارسس<br />

کہا ہے .<br />

کیا یہ سچ تک پہنچنے کی <strong>ایک</strong> کوشش کی جانب<br />

اشارہ ہے ؟؟؟<br />

جب کہ میں سمجھتا ہوں کہ انیسویں اور بیسویں<br />

صدی میں بعدازاں برلی ترلی میں لاری اور لکھاری<br />

کو مزید لریب کیا اور دونوں طرؾ کے علوم <strong>سے</strong><br />

استفادہ ہوا تو ای<strong>سے</strong> نعروں کا جواب کیا ہو جو کسی<br />

بھی علم کو مؽربی کہہ کر رد کریں ؟؟<br />

کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ ادب کا یہ دور بدگمانی<br />

کنفیوژن اور بےسمتی کا دور ہے کیونکہ ہمارے پاس<br />

کوئی تحریک یا محرک نہیں ہے جس کے تحت بڑا<br />

ادب تخلیك کیا جاسکتا ہے.....‏ اس <strong>سے</strong> آپ کہاں تک<br />

متفك ہیں اور اس بے سمتی کے دور میں ہمیں بہ<br />

‏...حیثیت محافظ اور محبان اردو کیا کرنا ہے<br />

کیا اردو مر رہی ہے


نہیں تو اس کی ترلی کے امکانات پر روشنی ڈالیں<br />

اگر<br />

انشائیوں پر روشنی ڈالیں کیا اردو انشائیوں کے رخ<br />

اور معیار <strong>سے</strong> آپ مطمن ہیں؟<br />

دنیا کی دیگر زبانون کے ادب کے ممابل اردو ادب کا<br />

ممام<br />

ہمارے نوآموز افسانہ نگار آتے ہی منٹو اور عصمت<br />

بننے کے شائك ہیں اور وہ اسلوب کی ننگے پن کو<br />

مزید ننگا کرتے چلے جاتے ہیں اور بعد ازاں تمام<br />

عمر اسی کنوئیں میں بھٹکتے رہتے ہیں ‏.عورت کو<br />

عالمت بنا کر اگر عصمت اور منٹو نے بات کی تو وہ<br />

اس ولت ہندوستان میں آزادی نسواں کی تحریک کا<br />

ابتدائی زمانہ تھا ‏..اگر منٹو کے ہاں،‏ کالی شلوار،‏<br />

عشمیہ کہانی،‏ سودا بیچنے والی،‏ بدصورتی،‏ بھنگن،‏<br />

جانکی،‏ ٹھنڈا گوشت،‏ یا موزیل جی<strong>سے</strong> افسانے لکھے<br />

ہیں جو عورت کے بے باک کرداروں کی نفسیات <strong>سے</strong>


!<br />

جڑے ہیں تو منٹو نے ٹوبہ ٹیک سنگھ،‏ اور لانون<br />

ج<strong>سے</strong> افسانے بھی لکھے ہیں جن کا رنگ آہنگ اور<br />

موضوع مختلؾ ہے ہمارا افسانہ موضوعی اعتبار<br />

<strong>سے</strong> ابھی بھی انگیہ ‏..چولی ‏..اور ننگے پن میں<br />

پھنسا ہے<br />

اردو افسانہ بھی عالمی ادب میں سر نکال سکے ؟؟<br />

عالمت تجرید ‏..فینسی ‏..یا جادوئی عالمت نگاری کون<br />

سا ہتھیار کارآمد ہو گا ؟؟؟؟<br />

خرمن کے توسط <strong>سے</strong> اردو دنیا اور ساری دنیا کے<br />

انسانوں کے لیے آپ کا پیؽام کیا ہے ؟<br />

مہرافروز.............‏ <strong>ایک</strong> تعارؾ


اشفاق عمر<br />

صدر،‏ دمحم عمر ایجوکیشنل ریسرچ سینٹر،‏ مالیگاوں۔<br />

09970669266<br />

مہرافروز کا اصل نام پٹھان افروزہ خانم ہے لیکن اردو<br />

دنیا میں وہ مہر افروز کے نام <strong>سے</strong> مشہور ہوئیں۔وہ<br />

عصر حاضر کی نامور افسانہ نگار ہیں۔<br />

مہرافروزکا جنم جنوبی ہندوستان کی ریاست کرناٹک<br />

کے جنگالتی مؽربی ساحلی ضلع کاروار کے کارخانوں


کے شہر ڈانڈیلی میں ہوا۔ اسی ممام پر ان کی پرورش<br />

اور تعلیم و تربیت کا عمل مکمل ہوا۔ انہوں نے بانگور<br />

نگر ڈگری کالج ، ڈانڈیلی <strong>سے</strong> انگریزی ادب میں بی<br />

اے ‏)آنرز ‏(کی ڈگری حاصل کی اور حکومت کرناٹک<br />

کے محکمہ تعلیمات میں مالزمت اختیار کی۔ انہوں نے<br />

کئی مضامین جی<strong>سے</strong> اردو ‏‘ہندی ‏‘عربی ‏‘انگلش<br />

اورتعلیمات میں پوسٹ گریجویشن اور ایم فل کرتے<br />

ہوئے اپنی تعلیم جاری رکھی۔ ۔<br />

وہ آج حکومت کرناٹک اور برٹش لونصل آؾ سدرن<br />

انڈیا کے مابین رابطہ کار کے عہدے پر فائز ہیں<br />

اورریاست میں انگریزی زبان کی تعلیمی تربیتوں کی<br />

ذمہ داریاں بحسن و خوبی نبھا رہی ہیں۔وہ حکومت<br />

کرناٹک کی تعلیمی نصابی کمیٹی اور ادارہ برائے<br />

تدوین ِ درسی کتب کی رکن بھی ہیں۔ مہر افروز تعلیم ،<br />

طریمہ تعلیم اور بچوں کی اکتسابی نفسیات پر<br />

‎48‎کتابوں کی خالك ہیں۔ یہ سارے کام انہوں نے<br />

حکومت کرناٹک کے محکمہ تعلیمات کے تحت انجام<br />

دیے ہیں۔<br />

اردو زبان کی متوالی مہرافروز نے حاالں کہ انگریزی


”<br />

ذریعہ تعلیم <strong>سے</strong> اپنی تعلیم مکمل کی مگر اردو زبان<br />

ان کی رگوں میں لہو بن کر دوڑتی رہی۔ ان کی<br />

اردوزبان میں پہلی تخلیك تیرہ سال کی عمر میں<br />

سامنے آئی جو اس ولت ادارہ الحسنات <strong>سے</strong> شائع<br />

ہونے والے بچوں کے رسالے نور میں شائع ہوئی۔ ان<br />

کا ادبی سفر اس ولت کے عام چلن کے مطابك<br />

افسانوں <strong>سے</strong> شروع ہوا جو پوپ کہانی،‏ منی افسانہ،‏<br />

افسانچہ کہالتا تھا۔ ان کے افسانوں کی جھولی میں دو<br />

سو <strong>سے</strong> زیادہ افسانے جمع ہوچکے ہیں۔ چونکانے<br />

والی بات یہ ہے کہ اس تعداد <strong>سے</strong> زیادہ انہوں نے<br />

تعلیمی اور دیگر مضامین تحریر کیے ہیں۔ یہ مضامین<br />

ان کے ادبی سفر کے سنگ میل ہیں۔<br />

مہر افروز نے شاعری کے میدان میں بھی طبع آزمائی<br />

کی ۔وہ <strong>ایک</strong> کامیاب شاعرہ کی شناخت رکھتی ہیں۔ آزاد<br />

نظموں اور ؼزلوں پر مشتمل مہر افروز کی شاعری<br />

ان کی اندرون ‏ِذات حساسیت کی عکاس ہے۔ ان کے<br />

افسانوں کا مجموعہ”‏ ٹوٹتی سرحدیں “، ؼزلوں کا<br />

انتخاب عکس ‏“اور مضامین کا مجموعہ زیر طبع<br />

ہیں۔<br />

حکومت کرناٹک نے مہر افروز،‏ دی کوسٹل جنگل گرل<br />

کی شاہکار کتاب کو”سپرش کے نام <strong>سے</strong> شائع کیا<br />


ہے۔ یہ کتاب مخصوص ضروریات کے حامل بچوں کی<br />

تعلیمی ضروریات،‏ ان میں موجود کمیاں اور ان کے<br />

نفسیاتی محرکات کا احاطہ کرتی ہے ۔ پچھلے سال ان<br />

کی ہدایت اور نگرانی میں نامی اسی کتاب<br />

پر <strong>ایک</strong> ڈاکیومینٹری فلم بنی جو ریاستی سطح پر<br />

ممبول ہوئی اور اس کی اثرپذیری دیکھتے ہوئے ا<strong>سے</strong><br />

مرکزی حکومت کے متعلمہ محکمہ کے سپرد کیا گیا۔<br />

فلم سازی کا کام مہر افروز کا شوق نہیں بلکہ جنون<br />

ہے۔<br />

دور درشن کے لیے بننے والی حکومتی پروگراموں<br />

کی ڈاکیومینٹیشن کے لیے انھوں نے نہ صرؾ ہدایت<br />

کاری،‏ فوٹوگرافی اور ایڈیٹنگ کا کام کیا ہے بلکہ<br />

ڈاکیومینٹری فلموں کو اپنی آواز بھی دی ہے ۔سب<br />

<strong>سے</strong> اہم بات تو یہ ہے کہ انہوں نے کرناٹک کے<br />

مسلمانوں کی پسماندگی پر جسٹس سچر رپورٹ کے<br />

لیے چودہ گھنٹے کی ڈاکیومینٹری فلم کی شوٹنگ کا<br />

کام مکمل کیا ہے۔<br />

1990<br />

<strong>سے</strong> 2002 تک مہر افروز آل انڈیا ریڈیو پر اردو<br />

پروگراموں کا حصہ رہی ہیں اور ریڈیو کے<br />

پروگراموں کی اینکرنگ بھی کرتی رہی ہیں۔ وہ<br />

” سپرش “


2002 <strong>سے</strong> 2008 تک بنگلور دوردرشن کے گیان<br />

درشن پروگرام میں پروگرامر اور اینکر کے فرائض<br />

انجام دیتی رہیں۔ وہ آل انڈیا ریڈیو مشاعروں کی الئیو<br />

اینکرنگ کا تجربہ بھی رکھتی ہیں۔ انجمن ترلی اردو<br />

ہند کی ممبر رہ چکی مہر افروز کے افسانے ہندوستان<br />

<strong>سے</strong> شایع ہونے والے رسائل اور اخبارات شمع ‏،روبی<br />

‏،نگار ‏،سیپ ، بیسویں صدی،‏ بتول،‏ پاکیزہ انچل،آجکل<br />

‏،ساالر ‏،سیاست ، سہارا وؼیرہ میں شائع ہوکر ممبول<br />

عام ہوچکے ہیں۔ ‎2010‎ءمیں مہر افروز نے ھدیٰ‏<br />

فاونڈیشن کے نام <strong>سے</strong> اپنے <strong>ایک</strong> ادارے کی بنیاد<br />

رکھی جو کرناٹک میں تعلیم نسواں اور فروغ اردو<br />

ادب کا محرک بنا ہواہے ۔ ھدیٰ‏ فاونڈیشن کے نام تحت<br />

وہ اپنی بالگ بھی چالرہی ہیں۔ ان دنوں وہ اپنی بالگ<br />

پر زیادہ فعال ہیں۔مہر افروزضلعی تعلیمی و تربیتی<br />

ادارہ<br />

(DIET)<br />

، دھارواڑ کے زیر نگرانی شائع ہونے <strong>ایک</strong> انگریزی<br />

تعلیمی سہ ماہی میگزین<br />

The Facilitator<br />

کی ادارت کا آٹھ سال کا تجربہ رکھتی ہیں۔ فی الولت<br />

وہ محترم سید تحسین گیالنی کی معاونت میں


انٹرنیشنل ادبی جریدہ ‏”خرمن ‏“کی ادارتی ذمہ داریاں<br />

سنبھال رہی ہیں۔ مہر افروز کر ناٹک میں فروغ<br />

اردو،فروغ تعلیم نسوان اور حموق نسواں کی روح<br />

رواں،پر عزم فعال شخصیت اور پر جوش ممررہ کے<br />

طور پر جانی جاتی ہیں۔<br />

مہر افروز کی ادبی خدمات پر جنوب کی چار یونی<br />

ورسٹیوں میں تحمیمی ممالوں میں آپ کو خصوصی<br />

طورپر شامل کیا گیا ۔<br />

فی الولت رانچی یونیورسٹی کی <strong>ایک</strong> ممالہ نگار ان کی<br />

شخصیت اور فن پر تحمیمی کام کررہی ہے۔<br />

‎2011‎ءمیں تصوؾ کے موضوع پران کا <strong>ایک</strong> تحمیمی<br />

کام منظر عام پرآیا تھا۔ فی الولت پاکستان کی لد آور<br />

ہستی جنا ب ڈاکٹر ممصود <strong>حسنی</strong> کی ادبی خدمات اور<br />

حیات پر ان کا تحمیمی کام جاری ہے۔ امید کہ آپ کا یہ<br />

ادبی سفر صدیوں کو محیط ہوگا۔<br />

ہللا کرے زور للم اور زیادہ


نام<br />

ممصود صفدر علی شاہ<br />

ابا نے نام ممصود علی شاہ<br />

صفدر کا اضافہ والدہ صاحب نے کیا<br />

ابتدائی للمی نام لاضی جرار <strong>حسنی</strong><br />

بعد ازاں<br />

ایم اے زاہد گیالنی<br />

ممصود ایس اے <strong>حسنی</strong>


ممصود <strong>حسنی</strong><br />

ولدیت<br />

سید ؼالم حضور<br />

ممام پیدایش<br />

لصور<br />

وطن<br />

لصور<br />

سلسلہ نسب<br />

<strong>حسنی</strong> سید'‏<br />

حضرت سیدنا حسن مثنیٰ‏ بن حضرت سیدنا امام<br />

حسن ع<br />

کی والدت باسعادت ٢١ رمضان المبارک ‎٢٩‎ھ کو مدینہ


منورہ میں حضرت اُم البشر بِنت ابو مسعود کے بطن<br />

<strong>سے</strong> ہوئی۔ حضرت سید نا حسن مثنیٰ‏ کی رحلت ‎٦٨‎ھ<br />

میں مدینہ منورہ میں ہوئی اور مزار الدس جنت البمیع<br />

مدینہ منورہ میں ہے۔<br />

شجرہ<br />

کتاب۔۔۔۔ کفایہ منصوری۔۔۔۔۔۔ کے حواشی پر حضرت سید<br />

علی احمد کے اپنے ہاتھ <strong>سے</strong> شجرہ لکھا مال ہے۔<br />

کفایہ منصوری'‏ سن اشاعت کیا ہے'‏ معلوم نہیں'‏ کیوں<br />

کہ دونوں اطراؾ کے صفحے موجود نہیں۔ کتاب کے<br />

صفحہ 201 پر 9 مئی 1894 کو'‏ درج ہے۔ اس کے<br />

دو مطلب ہو سکتے ہیں۔<br />

‎9‎مئی 1894 کو فالں کام ہوا۔ گویا یہ پہلے کا معاملہ<br />

ہے۔<br />

مئی 1894 کو فالں کام ہو گا یا کیا جائے گا۔ ایسی<br />

9 صورت میں آتے ولت کی بات ہے۔<br />

ہر دو صورتوں میں تعلك ماضی یا مستمل <strong>سے</strong> نہیں<br />

بنتا۔ دونوں خط <strong>ایک</strong> <strong>سے</strong> ہیں۔ شجرہ سیاہ روشنائی<br />

<strong>سے</strong> اس <strong>سے</strong> پہلے لکھا گیا ہے۔ ہر دو صورتوں میں<br />

کتاب کو 1894 کے بعد کی نہیں کہا جا سکتا۔ سوال


صرؾ اتنا بالی رہ جاتا ہے کہ اس تحریر کو حضرت<br />

سید علی احمد کی ہے کو کس بنیاد پر کہا جائے۔<br />

مختلؾ کتابوں پر حواشی درج ہیں۔ ان کے انگریزی<br />

اور اردو میں دست خط موجود ہیں۔<br />

کتاب۔۔۔۔ مفتاح الجنتہ ۔۔۔۔ مولوے کرامت علے مرحوم<br />

حنفی جونپوری'‏ دو مطبع آئین ھند دھلے طبع گردید۔<br />

طباعت کا سن کہیں درج نہیں۔<br />

کتاب کے آخری صفحے موجود نہیں۔<br />

کتاب صفحہ نمبر 2 پر درج ہے۔<br />

مالک ایں کتاب است سید علی احمد شاہ گیالنی۔ دعوے<br />

کند کازب شود۔<br />

مورخہ 18 پھاگن 1958 ۔<br />

کتاب کے صفحے کے نیچے بھی ان کے دست خط<br />

موجود ہیں۔ دونوں خط <strong>ایک</strong> ہیں۔ نام کا روال بنتا ہے۔<br />

دست خط <strong>سے</strong> احمد علی بنتا ہے۔ ممکن ہے وہ اسی<br />

طرح دست خط کرتے ہوں۔ والد صاحب کے سرکاری<br />

کاؼذوں اور شناختی کارڑ پر سید علی احمد شاہ درج<br />

تھا۔ شجرہ کا آؼاز بھی سید علی احمد شاہ <strong>سے</strong> ہوتا


ہے۔ دو جگہ انگریزی دست خط بھی سید علی احمد<br />

شاہ ہوئے۔ تحریر کا خط جگہ یہ ہی ہے۔<br />

اب شجرہ مالحظہ ہو۔


سید علی احمد شاہ<br />

سید عبدالرحمن شاہ<br />

سید ؼالم دمحم شاہ<br />

سید عنایت ہللا شاہ<br />

سید نور شاہ<br />

سید صید علی شاہ<br />

سید عبدالرحمن شاہ<br />

سید عظمت ہللا شاہ<br />

سید تاج دین شاہ<br />

سید دمحم دین شاہ<br />

سید انبیاء شاہ<br />

سید صدر دین شاہ<br />

سید برہان شاہ<br />

سید تاج الدین شاہ<br />

سید وہاب الدین<br />

سید جالل الدین شاہ<br />

سید داؤد شاہ<br />

سید صید علی شاہ<br />

سید ابو صالح سفر<br />

سید عبدالرزاق شاہ


سید عبدالمادر جیالنی<br />

معروؾ ؼوث اعظم<br />

سید ابو صالح جنگی<br />

سید عبدہللا شاہ<br />

سید یحی زاہد شاہ<br />

سید دمحم مورث شاہ<br />

سید داؤد شاہ<br />

سید موسی<br />

سید عبدہللا شاہ<br />

سید موسی الجون<br />

سید عبدہللا المحض<br />

سیدنا حسن مثنی<br />

سیدنا امام حسن ع<br />

'''''''''''<br />

سید علی احمد شاہ<br />

کے صاحب زادگان<br />

سید ملک شاہ'‏ سید فلک شیر شاہ'‏ سید ؼالم ؼنی شاہ'‏<br />

سید ؼالم حضور شاہ<br />

نوٹ<br />

سید ملک شاہ'‏ سید فلک شیر شاہ کے متعلك علم نہیں'‏


اگر ان کی اوالد میں <strong>سے</strong> کوئی یہ پڑھے تو میرے<br />

ساتھ رابطہ کرے۔ ان <strong>سے</strong> مل کر مجھے خوشی ہو<br />

گی۔<br />

بھائی<br />

سید منظورحسین<br />

سید محبوب حسین<br />

ممصود صفدر علی<br />

بہن<br />

سیدہ افضال اختر<br />

سیدہ ممسوم اختر<br />

سیدہ نصرت شگفتہ<br />

اوالدیں<br />

مہر افروز ۔۔۔۔۔۔ روحانی<br />

سید کنور عباس<br />

سید حسن مثنی ڈھائی عمر پا کر ہللا کو پیارے ہو


گیے<br />

سیدہ ارحا ممصود<br />

سید حیدر امام<br />

تعلیمی لابلیت<br />

بنیادی<br />

میٹرک<br />

اسالمیہ ہائی اسکول'‏ لصور'‏<br />

پاکستان<br />

پرائیویٹ<br />

ادیب فاضل کا برادرم سید نذیر حسین شاہ کے خط <strong>سے</strong><br />

سراغ ملتا ہے۔<br />

ایم اے اردو'‏ سیاسیات'‏ معاشیات'‏ تاریخ<br />

ایم فل اردو<br />

ممالہ بابا مجبور حیات اور شاعری<br />

نگران پروفیسر اختر علی میرٹھی پی ایچ ڈی تھے<br />

پی ایچ ڈی<br />

جاپانی میں آوازوں کا نظام<br />

ممالہ<br />

www.scribd.com


پر موجود ہے۔<br />

کچھ ترجمہ<br />

www.urdunetjapan.com<br />

پر پڑھا جا سکتا ہے۔<br />

نگران پروفیسر ماسی اکی اوکا پی ایچ ڈی تھے۔<br />

پوسٹ پی ایچ ڈی<br />

نشانیات ؼالب کا تفہیمی مطالعہ<br />

نگران پروفیسر الٹرن حمیدی<br />

www.scribd.com<br />

ممالہ پر موجود ہے۔<br />

ایم اے اردو کے حوالہ <strong>سے</strong> لیکچرر اردو بھرتی ہوا'‏<br />

اسی کی بنیاد پر دوبارہ باطور اسسٹنٹ پروفیسر<br />

سلیکشن ہوئی۔ باطور ایسوسی ایٹ پروفیسر۔۔۔وائیس<br />

پرنسپل کھیل کا اختتام ہوا۔<br />

ایم اے اردو کے سوا'‏ ان میں <strong>سے</strong> کسی گیڈر پروانے<br />

<strong>سے</strong>'‏ مالزمت'‏ ترلی یا االؤنس وؼیرہ'‏ کوئی فائدہ نہیں<br />

اٹھایا گیا اور ناہی اس لسم کی ضرورت محسوس<br />

ہوئی۔ پڑھنے لکھنے کے عمل میں'‏ یہ ؼرض شامل نہ<br />

تھی۔ اس کام میں'‏ شوق اورعادت کا عمل دخل رہا ہے۔


آپ کا تحریری کام اب تک<br />

کلو 68<br />

تکلفا درج کیا ہے'‏<br />

اس <strong>سے</strong> زیادہ کی تولع بعید از<br />

لیاس نہیں۔<br />

مطبوعہ کتب<br />

سپنے اگلے پہر ہاہیکو<br />

سورج کو روک لو نثری ؼزلیں<br />

اوٹ <strong>سے</strong> نثری نظمیں<br />

زرد کاجل افسانے<br />

وہ اکیلی تھی افسانے<br />

اصول اور جائزے<br />

جس ہاتھ میں الٹھی افسانے<br />

ؼالب اور اس کا عہد<br />

تخلیمی و تنمیدی زاویے<br />

اردو میں نئی نظم<br />

منیرالدین احمد کے افسانے-‏ تنمیدی جائزہ<br />

1986<br />

1991<br />

1991<br />

1991<br />

1992<br />

1992<br />

1993<br />

1993<br />

1993<br />

1993<br />

1995


شعریات خیام<br />

شعریات شرق و ؼرب<br />

تحریکات اردو ادب<br />

نمد و نمد مزاحیے<br />

اردو شعر۔ فکری و لسانی رویے<br />

لسانیات ؼلب<br />

بیگمی تجربہ مزاحیے<br />

ستارے بنتی آنکھیں ترک نظموں کے تراجم<br />

زبان ؼالب کا لسانی وساختیات مطلعہ<br />

1996<br />

1996<br />

1996<br />

1996<br />

1997<br />

1997<br />

1998<br />

1998<br />

2013<br />

اسناد عطیات انعامات پہچان<br />

میں نے کبھی سرکاری انعام واکرام کا سوچا تک نہیں<br />

اور ناہی'‏ اس ؼرض کے لیے لکھا یا لکھتا ہوں۔ اس<br />

کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتا۔ کون یہاں رہنے<br />

کا ہے۔ آدمی خود اپنا نہیں'‏ تو پھر چیزوں کی بھال کیا<br />

معنویت ہے۔<br />

پہچان<br />

پہچان'‏<br />

کیا ہونی ہے۔ گھر میں بیٹھا لکھتا پڑھتا رہتا


ہوں۔ اگر کوئی ایم فل یا پی ایچ ڈی <strong>سے</strong> متعلك آ جاتا<br />

ہے'‏ تو اپنی علمی بساط کے مطابك مدد کر دیتا ہوں'‏<br />

سو بسم ہللا کرتا ہوں۔<br />

دوسرا میں کون سا عالم فاضل ہوں'‏ جو پہچان بن<br />

پاتی۔<br />

صفر <strong>سے</strong> چال صفر پر کھڑا ہوں۔<br />

تحمیمی مماالت جو ہوئے<br />

جناب اسلم طاہر<br />

ممصود <strong>حسنی</strong>'‏ حیات اور ادبی خدمات<br />

جناب رانا جنید<br />

ممصود <strong>حسنی</strong> کے افسانے<br />

جناب لطیؾ اشعر<br />

ممصود <strong>حسنی</strong> کی ؼالب شناسی<br />

جناب ارشد شاہد<br />

ممصود <strong>حسنی</strong> دی پنجابی تے نما شاعری<br />

جناب نیامت علی مرتضائی<br />

انگریزی شاعری پر تحمیمی ممالے تحریر کر چکے<br />

ہیں۔<br />

دو صاحبان کو'‏ ایم فل کے لیے ٹاپک آالٹ ہو چکے


ہیں۔<br />

میرے علم کے مطابك جن مماالت میں ؼالب حصہ<br />

موجود ہے<br />

بلھے شاہ کی شاعری پی ایچ ڈی ڈاکٹر ریاض شاہ<br />

اردو انشائیہ یسین تبسم پی ایچ ڈی سطح کا ممالہ ہو<br />

رہا ہے<br />

مؽربی تلمیحات علی حسن چوہان پی ایچ ڈی سطح کا<br />

ممالہ ہو رہا ہے<br />

بیدل حیدری کی شاعری نوید صاحب ایم فل سطح کا<br />

ممالہ کر چکے ہیں<br />

لصور کا افسانوی ادب زیب النساء صاحبہ ایم فل سطح<br />

کا ممالہ کر چکی ہیں<br />

خلیل آتش کی شاعری زیب النساء صاحبہ ایم فل سطح<br />

کا ممالہ کر چکی ہیں<br />

اختر حسین جعفری کی شاعری ناہید صاحبہ ایم فل<br />

سطح کا ممالہ کر چکی ہیں<br />

لصور کی ادبی خدمات محبوب عالم صاحب ایم فل<br />

سطح کا ممالہ کر چکے ہیں<br />

االدب کی ادبی خدمات اشرؾ صاحب ایم فل سطح کا


ممالہ کر چکے ہیں<br />

آپ نے کتنی زبانوں میں تخلیمی کام کیا ہے<br />

اردو'‏<br />

انگریزی اور پنجابی<br />

زبانیں<br />

دسترس تو خیر'‏ کسی زبان پر حاصل نہیں۔ اردو اور<br />

پنجابی گزارے موافك سمجھ لیتا ہوں۔ ڈنگ ٹپاؤ لکھ<br />

بھی لیتا ہوں۔ کسی زمانے میں انگریزی کے لریب<br />

بھی رہا ہوں۔ اب یہ کم زور گزرے <strong>سے</strong> زیادہ نہیں<br />

رہی۔<br />

پشتو پوٹھوہاری'‏ سرائیکی'‏ عربی'‏ فارسی'‏<br />

گوجری'میواتی'‏ ہندکو وؼیرہ اچھی لگتی ہیں۔ جاپانی<br />

کا۔۔۔کامی سان۔۔۔ کے عالوہ کوئی لفظ یاد نہیں رہا۔<br />

ہر معاملے میں ولت'‏ صحت اور زوجہ ماجگان دیوار<br />

چین بنے رہتے ہیں۔


'<br />

روٹی پی<strong>سے</strong>'‏ جائیداد اور لکیر میرے لیے محض<br />

زندگی کا معاملہ رہے ہیں۔ آگہی اور یہ متوازی نہیں<br />

چل سکتے۔ روٹی کو جینے کا ذریعہ سمجھا ہے۔ روٹی<br />

کو زندگی کا محور اور ممصد نہیں بنایا۔ چھینوں<br />

کولیوں لکڑیوں <strong>سے</strong> نہ دل چسپی تھی اور نہ ہے۔<br />

لکیر کے فمیروں کا حشر پڑھ چکا ہوں اور دیکھنے<br />

بھی آتا رہتا ہے۔ اسی لیے آگہی ہی کو سب کچھ<br />

سمجھا ہے۔<br />

ہللا کا ان حد شکر گزار ہوں کہ اپنے لدموں پر چلتا<br />

ہوں<br />

آپ کو مسٹر اردو کا خطاب دیا گیا ہے کس بنیاد پر اور<br />

وجہ کیا تھی<br />

یہ ٹائیٹل فورم پاکستان نے دیا تھا۔<br />

حال ہی میں فورم اردو تہذیب والوں نے رائیٹر کنگ کا<br />

ٹائیٹل دیا ہے۔ بس یہ سب'‏ ان کی محبت کا اعجاز ہے'‏<br />

ورنہ میں اپنی علمی گربت کو خوب خوب جانتا ہوں۔<br />

آپ نے اپنا جانشین چھوڑا ہے ؟


جی ہاں<br />

اگر ہے تو کون ہے تا کہ آپ کے بعد ان <strong>سے</strong> رجوع<br />

‏.کیا جا سکے<br />

مجھے نہیں معلوم'‏ میرے ان ٹوٹے پھوٹے لفظوں کی<br />

کوئی حیثیت بھی ہے یا ہو گی۔<br />

اگر ہوگی تو یہ چیزیں مہر افروز <strong>سے</strong> دستیاب ہو<br />

سکیں گی۔<br />

ہر چھوٹی موٹی چیز مہر افروز'‏ جو میری بیٹی ہے'‏<br />

کو منتمل کر دوں گا۔<br />

اپنی بیٹی ارحا ممصود کو'‏ ڈبوں کو محفوظ کرنے کی<br />

درخواست کی ہے۔ وہ اپنی آپی مہر افروز <strong>سے</strong> رابطے<br />

میں رہے گی۔<br />

پروفیسر یونس حسن اور پروفیسر نیامت علی'‏ مجھے<br />

اور میرے ناچیز کام <strong>سے</strong>آگاہ ہیں'‏ ان <strong>سے</strong> بھی<br />

معاونت مل سکے گی۔<br />

حموق


جملہ ادبی اشیاء اور معامالت کے حموق میرے<br />

بچوں:‏ مہر افروز'‏ کنور عباس'‏ ارحا ممصود اور حیدر<br />

امام کے نام پر محفوظ ہیں۔ وہ جس طرح چاہیں گے'‏<br />

کرنے کا حك رکھیں گے۔ کنور عباس'‏ ارحا ممصود<br />

اور حیدر امام میں <strong>سے</strong> کوئی'‏ کسی نوعییت کا معاملہ<br />

کرنے <strong>سے</strong> پہلے'‏ اپنی آپی مہر افروز <strong>سے</strong> مشاورت<br />

کرے گا۔ ان چاروں کے عالوہ'‏ اگر کوئی حموق حاصل<br />

ہونے کا دعوی کرتا ہے یا کرے گا تو سراسر درروغ<br />

گوئی <strong>سے</strong> کام لے رہا ہو گا۔ اس کے خالؾ'‏ یہ حسب<br />

ضابطہ اور حسب ضروت کاروائی کرنے کے مجاز<br />

ہوں گے۔<br />

باور رہے'‏ یہ سب میں نے بمائمی ہوش و حواس<br />

تحریر کیا ہے۔<br />

ہللا انہیں سالمت اور اپنی پناہوں میں رکھے۔<br />

اپنے معاصرین کے بارے میں دوچار جملے<br />

میرے سب اپنے<br />

اپنی اپنی سطع پر خوب صورت ادب کی کاشت میں<br />

مصروؾ ہیں۔ پروفیسر تبسم کاشمیری پی ایچ ڈی ہوں


کہ سرور عالم راز'‏ پروفیسر سعادت سعید پی ایچ ڈی<br />

ہوں کہ پروفیسر نجیب جمال پی ایچ ڈی'‏ پروفیسر ؼالم<br />

شبیر رانا پی ایچ ڈی ہوں کہ پروفیسر اختر شمارپی<br />

ایچ ڈی ‏'پروفیسر گوہر نوشاہی پی ایچ ڈی ہوں کہ<br />

پروفیسر مظفر عباس پی ایچ ڈی ‏'پروفیسر دمحم امین<br />

پی ایچ ڈی ہوں کہ پروفیسرعبدالعزیز ساحر پی ایچ<br />

ڈی'‏ مبارک علی پی ایچ ڈی ہوں کہ پرفیسر ظہور احمد<br />

چوہدری پی ایچ ڈی بڑے کام کے لوگ ہیں۔ ہللا انہیں<br />

سالمت رکھے۔<br />

پروفیسر ولار احمد رضوی پی ایچ ڈی'‏ پروفیسر رب<br />

نواز مائل'‏ ڈاکٹر اسلم ثالب مالیر کوٹلہ اور آشا پربھات<br />

سیتا مڑھی ہللا کرے حیات ہوں۔<br />

وفا راشدی پی ایچ ڈی'‏ ڈاکٹر بیدل حیدری'‏ پروفیسر<br />

صابر آفالی پی ایچ ڈی'‏ البال سحر انبالوی'‏ پروفیسر<br />

سید معین الرحمن پی ایچ ڈی'‏ پروفیسر خواجہ حمید<br />

یزدانی پی ایچ ڈی'‏ مہر کاچیلوی وؼیرہ بہت بڑے لوگ<br />

تھے۔ ادبی جن تھے۔<br />

ہللا انہیں جنت نصیب کرے۔


آپ نے اپنا <strong>ایک</strong> برلی کتب خانہ بنایا ہے ابوزر ؼفاری<br />

‏.کتب خانے کے نام <strong>سے</strong> اس پر تفصیلی روشنی ڈالیں<br />

اس میں میری اور میرے متعلك ہی چیزیں'‏ رکھی<br />

جائیں گی۔ اب تک اس میں 223 چیزیں رکھ دی گئی<br />

ہیں۔ ان میں <strong>سے</strong> اکثر چیزیں'‏ مختلؾ فورمز پر موجود<br />

ہیں۔ <strong>ایک</strong> ہی تھریڈ میں'‏ زیادہ چیزیں نہیں رکھی جا<br />

سکتیں۔ کتابی صورت میں'‏ <strong>ایک</strong> جگہ زیادہ مواد رکھا<br />

جا سکتا ہے۔ صرؾ.....آنچل جلتا رہے گا....‏ کو ہی<br />

لے لیں'‏ اس میں اکسٹھ افسانے ہیں۔ ہللا نے چاہا تو<br />

ڈبوں میں بند مواد نیٹ پر منتمل کردیا جائے گا۔<br />

ترویج و نفاذ اردو کے سلسلے میں خدمات<br />

تحریک نفاذ اردو پاکستان کے تحت اپنی سی خدمات<br />

انجام دی<br />

اس ذیل میں ادارہ علم و ادب پاکستان کے ساتھ رہا<br />

اور لرارداد پیش کیں<br />

اردو سوسائٹی پاکستان لائم کی۔ اردو کی ترویج ونفاذ<br />

کے لیے لراردادیں منظور کروائیں۔ ممتدرہ لوتوں اور<br />

حکام باال کو درخواستیں گزاریں۔ علمائے پاکستان <strong>سے</strong>


فتوے لیے۔ وفالی شرعی عدالت اور وفالی محتسب کی<br />

خدمت میں درخواستیں گزاریں۔ مضمون لکھے اور<br />

لکھوائے گیے۔ اردو <strong>سے</strong> متعلك جواس فانی نے<br />

مضمون لکھے کی ادھوری سی فہرست مالحظہ ہو۔<br />

اردو کی ترویج کاترجیحی بنیادوں پر اہتمام الزم ہے<br />

معروضی حاالت کے تجزیے کی اساس<br />

اردو کو اپنا ممام کیوں نہیں مال<br />

انگریز کی اردو نوازی کیوں<br />

اردو کا تاریخی سفر<br />

سرسید اور اردو زبان<br />

اردو اور عصری تماضے<br />

اردو عالم اسالم کی ضرورت<br />

اردو عالم انسانی کی ضرورت کیوں<br />

اردو مسلمانوں کی زبان<br />

انگریزی کو اختیاری زبان کا درجہ دیا جائے<br />

انگریزی زبان۔۔۔۔۔ فروغ کی<strong>سے</strong> ہو<br />

اردو کی ترلی آج کی ضرورت<br />

اردو پر چند اعتراض اور ان کے جواب<br />

اردو <strong>سے</strong> نفرت <strong>ایک</strong> نفسیاتی عارضھ<br />

اردو برصؽیر کے مسلمانوں کی زبان


اردو دنیا کی دوسری بڑی زبان<br />

انگریزی۔۔۔۔۔ ممبولیت میں کمی کیوں<br />

انگریزی لومی ترلی کی راہ پتھر<br />

اردو کی مختصر کہانی<br />

انگریزی کے اردو پر لسانی اثرات<br />

انگریزی اور اردو کا محاورتی اشتراک<br />

اردو میں مستعمل زاتی آوازیں<br />

اردو ہے جس کا نام<br />

اردو کی چار آوازوں <strong>سے</strong> متعلك مختصر گفتگو<br />

مفرد اور مرکب آوازوں <strong>سے</strong> متعلك مختصر گفتگو<br />

اردو میں رومن خط کا مسلہ<br />

زبانیں ضرورت اور حاالت کی ایجاد ہیں<br />

لومی ترلی اپنی زبان میں ہی ممکن ہے<br />

اردو اور سائینسی علوم کا اظہار<br />

اردو'‏ حدود اور اصالح زبان<br />

انگریزی آج اور آتا کل<br />

انگریزی کی بہترین زبان نہیں ہے<br />

بیدل حیدری صاحب <strong>سے</strong> آپ کے تعلمات اور دونوں<br />

کے درمیاں کے رشتوں نے زبان کو کیا دیا<br />

میں اپنی کسی تحریر میں عرض کر چکا ہوں'‏ کہ بیدل


حیدری آج کی توانا آواز ہیں اور آج بھی'‏ میرا اس پر<br />

اصرار ہے۔ وہ آج کے بہت <strong>سے</strong>'‏ لدآور شعرا کے<br />

استاد ہیں۔ ان پر ایم فل کا ممالہ ہو چکا ہے۔<br />

انہوں نے زبان کو لوچ'‏ شیفتگی'‏ شگفتگی'‏ حسن'‏<br />

درد'‏ نئے استعارے'‏ عالمتیں'‏ تشبیہں'‏ چلن'‏ گرج'‏<br />

لفظوں کو نئے مفائیم'‏ لفظوں کا نیا استعمال'‏ نئے<br />

مرکبات ؼرض بہت کچھ دیا ہے۔<br />

رہ گئی میری بات'‏ ان کی محبت'‏ شفمت اور پذیرائی<br />

ہمیشہ میرے ساتھ رہی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے'‏ کہ زبان<br />

کو کوئی ڈھب کی چیز دینے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ ہللا<br />

اس ذیل میں ضرور آسانیاں پیدا کرے گا۔<br />

مشترکہ کیا دینا ہے۔ میں رائی'‏ وہ پہاڑ تھے۔ ہاں ان<br />

کی کتاب۔۔۔۔ میری نظمیں۔۔۔۔ کا حرؾ آؼاز لکھنے کا<br />

انہوں نے مجھے اعزاز بخشا۔ میں نے بڑی دیانت<br />

داری <strong>سے</strong>'‏ ان کی نظموں پر'‏ اظہار خیال کیا۔ دو<strong>ایک</strong><br />

مضمون اور بھی لکھے۔ ہو سکتا ہے'‏ وہ تنمیدی ادب<br />

میں کسی کام کے نکلیں۔


انہوں نے کچھ لوگوں کی کتابوں پر پیش لفظ لکھنے<br />

کا حکم دیا ‏'جو میں نے اپنی ناچیز بساط کے مطابك<br />

لکھے۔<br />

ایوان ادب ملتان کی طرؾ <strong>سے</strong>۔۔۔۔۔ بیدل حیدری<br />

ایواڈ....‏ دینے کا اعالن کیا گیا۔<br />

انہوں نے بھی میری شاعری اور تنمید پر<br />

خامہءعنتری اٹھایا.‏ بالشبہ'‏ وہ سب بڑے کام کا ہے<br />

اور تنمیدی ادب میں خوب صورت اضافے کے مترادؾ<br />

ہے۔<br />

ؼرض اردو ادب کو'‏ جو دیا انہوں نے ہی دیا'‏<br />

اور میری ادبی حیثیت کیا۔<br />

میں کیا<br />

بیدل حیدری کے خطوط پر دو چار جملے<br />

ڈاکٹر بیدل حیدری مرحوم کے کافی خط تھے'‏ جن میں<br />

<strong>سے</strong>'‏ تیس چالیس کے لریب'‏ مل پائے ہیں۔ ان کے<br />

ہاتھ کی لکھی کچھ ؼزلیں بھی ملی ہیں'‏ جو ابوزر<br />

برلی کتب خانے میں رکھ دی گئی ہیں۔


نئی جنریشن <strong>سے</strong> اپ کیا تولعات رکھتے ہیں<br />

اردو کے ضمن میں<br />

ہماری نئی نسل'‏ بال کی ذہین ہے۔ اپنی الگ <strong>سے</strong> سوچ<br />

رکھتی ہے۔ یہ انگلی پکڑ کر چلنے والی نہیں۔ کچھ<br />

کرنے اور اس کے عملی اظہار کا جذبہ رکھتی ہے۔<br />

سلیمہ'‏ طور اور چلن ولت سکھا دیتے ہیں۔<br />

سرکاری سطع پر'‏ چیلیوں'‏ چمٹوں اور گماشتوں کی<br />

پذیرائی ہوتی آئی ہے۔ آج'‏ گزرے کل <strong>سے</strong> مختلؾ نہیں۔<br />

تنگی'‏ سختی اور اپنے وسائل میں کام کرنے والے<br />

بہت رہے ہیں۔ آج کی نسل بھی'‏ ان ہی حاالت <strong>سے</strong><br />

دوچار ہے۔ کوئی بات نہیں'‏ وہ اپنے محدود اور<br />

محدود ترین وسائل میں بھی'‏ وسائل والوں <strong>سے</strong> زیادہ<br />

اور بہتر کرے گی۔<br />

میں انٹرنیٹ کے مختلؾ فورموں پر'‏ کچھ ناکچھ رکھتا<br />

رہتا ہوں۔ نئی نسل کی مختلؾ نوعیت کی چیزیں دیکھتا<br />

ہوں'‏ تو ان کی ذہانت دیکھ کر'‏ خوش ہوتا ہوں۔


پورے اعتماد <strong>سے</strong> کہا جا سکتا ہے'‏ کہ راستی پر<br />

رہنے کی صورت میں'‏ نئی اپنے <strong>سے</strong> پہلوں <strong>سے</strong> بہتر<br />

اور زیادہ کام کر سکے گی۔<br />

ان شاءہللا<br />

صرؾ اتنی گزارش کروں گا'‏ ہر حال اور ہر معاملہ<br />

میں برداشت اور صبر کو شعار بنائیں۔ ان <strong>سے</strong> بڑھ کر<br />

کوئی دولت نہیں۔<br />

دوسری گزارش یہ ہے'‏ کہ پلیز زندگی کے ہر موسم<br />

میں'‏ سفر جاری رکھیں۔ زندگی گنتی کے لمحوں پر<br />

مشتمل ہے۔ اس کے بعد'‏ لیامت تک آرام ہی کرنا ہے۔<br />

جو کرنا ہے'‏ آج اور ابھی کرو۔ جو کرو'‏ اچھے کے<br />

لیے کرو۔<br />

گنتی کے لمحے'‏ دشمنیوں اور بےجا عیاشی میں'‏<br />

گزارنے کے متحمل نہیں ہیں۔<br />

آپ نے تاریخ اور موہنجودارو کی تالش پر بہت کام کیا<br />

ہے اس کے تعلك <strong>سے</strong> بتاییں آپ کے کام کا ذخیرہ<br />

کہاں ہے کوئی تاریخ دان آپ کی کھوج کو کہاں پا


سکتا اور فیض یاب ہوسکتا ہے۔<br />

میں نے صرؾ لصور کے حوالہ <strong>سے</strong> ہی کام کیا ہے<br />

اس کا کتابی حوالوں <strong>سے</strong> کوئی تعلك نہیں۔ اس کام پر<br />

چار سال لگائے۔ لصور کا چپہ چپہ خود دیکھا ہے۔<br />

جہاں الجھاؤ کی صورت پیدا ہوئی وہاں بار بار گیا<br />

ہوں۔<br />

ہڈیاں دبے درختوں کے ٹکڑے برتنوں کے ٹکڑے<br />

مالحظہ کیے ہیں۔ سیکڑوں تصاویر لی ہیں۔ ماہرین اور<br />

تعمیر <strong>سے</strong> متعلك مستریوں <strong>سے</strong> تعمیر وؼیرہ کے<br />

حوالہ <strong>سے</strong> تبادلہءخیال کیا۔ متعلمہ عاللہ کے بزرگ<br />

ترین <strong>سے</strong> معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔<br />

کتابوں کا بھی مطالعہ کیا۔ یہ سب نیٹ کے مختلؾ<br />

فورمز مثال<br />

اردو نیٹ جاپان<br />

فرینڈز کارنر<br />

پیؽام<br />

فری ڈم یونی ورسٹی<br />

وؼیرہ وؼیرہ<br />

پر رکھا تاہم کچھ برق کتب کی شکل میں محفوظ کرنے


کی کوشش کی ہے۔<br />

آپ نے ادویات ج<strong>سے</strong> ہندوستان میں ایوروید اور<br />

یونانی طریمہ عالج کہا جاتا ہے اس پر کافی تحمیك<br />

اور ریسرچ کی ہے اس پر تفصیلی روشنی ڈالیں<br />

مخدومی و مرشدی حضرت لبلہ والد صاحب بیمار<br />

پڑے۔ کینسر ڈیکلیر ہوا۔ گنتی کے بارہ دن عاللت میں<br />

رہے۔<br />

تیرویں دن'‏ خالك کے حضور پیش ہو گیے۔ کچھ دن<br />

بعد پتا چال'‏ کہ انہوں نے دن'‏ وار اور تاریخ کا تو'‏<br />

اعالن کر دیا تھا.‏ جاتے ہوئے'‏ آنے والوں <strong>سے</strong> تعارؾ<br />

کرایا).......‏ ان میں'‏ دادا حضور لبلہ علی احمد شاہ<br />

بھی تھے'‏ لیکن وہ ہمیں دکھ نہیں رہے تھے۔ ہم وجود<br />

خاکی میں تھے'‏ کی<strong>سے</strong> دیکھ پاتے۔ لابل ؼور بات یہ<br />

ہے'‏ کہ ان لمحوں میں'‏ لبلہ ابا حضور بھی تو وجود<br />

خاکی میں تھے.....)‏ اور چلتے بنے۔ ہللا نے'‏ انہیں<br />

آخری لمحوں تک'‏ کسی کا محتاج نہ کیا۔ ہللا انہیں اپنی<br />

محبت <strong>سے</strong> سرفراز فرمائے۔<br />

ان کا جانا'‏<br />

مجھے ادھورا اور تنہا کر دینے کے


مترادؾ تھا۔ میں نے'‏<br />

کینسر پر کام کرنا شروع کر دیا۔<br />

<strong>ایک</strong> عرصہ کے نچوڑ کو<br />

Cancer is not a mysterious disease<br />

کے نام <strong>سے</strong> کاؼذ پر منتمل کر دیا۔ اس کا کچھ<br />

ترجمہ'‏ اردو نیٹ جاپان پر موجود ہے۔ میری سالےہار'‏<br />

اس مرض کا شکار ہو گئی۔ خدا لگتی یہ ہی ہے'‏ کہ<br />

بڑے پائے کی خاتون تھی۔ ڈاکٹر نے فمط تیس دن<br />

دیے۔ میں نے'‏ اس پر تجربہ شروع کیا۔ چار سال <strong>سے</strong><br />

زیادہ زندہ رہی۔ میرے منع کرنے کے باوجود'‏ اپریٹ<br />

کرا لیا گیا۔ وہ ہللا کو پیاری ہو گئی۔ ہللا ا<strong>سے</strong> ؼریك<br />

رحمت کرے۔<br />

میری سالی ڈینگی کا شکار ہوئی۔ ا<strong>سے</strong> بھی ولت دے<br />

دیا گیا۔ میں نے اپنا اٹکل پچو شروع کر دیا۔ آج دو<br />

ڈھائی سال ہو گیے ہیں'‏ چنگی بھلی ہے۔<br />

ڈینگی پر مضمون اردو نیٹ جاپان پر موجود ہے<br />

میرا مولؾ یہ تھا اور ہے'‏ کہ مریض کا عالج وہاں<br />

کے عاللے اور وہاں کی اشیاء <strong>سے</strong> کیا جائے۔<br />

معمولی اشیاء کو معمولی نہ سمجھا جائے۔<br />

ڈاکٹر لصابی اطوار چھوڑ کر'‏ مسیحائی کا بھرم رکھیں۔


چیک نہیں کیا جاتا'‏ پرچی پر ٹسٹ لکھوائی وصول کر<br />

لی جاتی ہے۔<br />

بالی جیب کا کباڑہ'‏ ٹسٹوں والے کر دیتے ہیں۔<br />

دوسروں کی زندگی کو بھی'‏ اپنی زندگی کا سا سمجھا<br />

جائے۔<br />

خیر چھوڑیے'‏ اس طرح کی اور بہت سی باتیں ہیں۔<br />

کچھ اور بھی لکھا ہے تو یاد میں نہیں آ رہا۔<br />

آپ آدم علیہ السالم کو پہلی تخلیك نہیں مانتے اپنے<br />

اس نظریے کی وضاحت کریں اور اس کے لیے کچھ<br />

ثبوت بھی دیں<br />

حضرت آدم ع <strong>سے</strong> حضرت موسی ع تک 3500 سال'‏<br />

جب کہ آج تک 3000 سال بنتے ہیں۔ تحمیك کاروں<br />

نے ہزاروں سال پرانی انسانی استعمال کی چیزیں<br />

دریافت کی ہیں۔<br />

حضرت آدم ع نبی تھے'‏ وہ کن پر نبی تھے۔ المحالہ<br />

پہلے <strong>سے</strong> لوگ موجود ہوں گے۔<br />

عوج بن عنك'‏ حضرت آدم ع کے عہد میں موجود تھا'‏<br />

اس نے 3500 سال عمر پائی۔ وہ حضرت موسی ع


کے ہاتھوں لتل ہوا۔ گویا حضرت آدم ع <strong>سے</strong> پہلے<br />

آدمی موجود تھا۔<br />

آپ کریم <strong>سے</strong> <strong>ایک</strong> روایت منسوب ہے۔ آپ کریم <strong>سے</strong><br />

پوچھا گیا:‏ آدم <strong>سے</strong> پہلے زمین پر کون تھا'‏ آپ کریم<br />

نے فرمایا آدم.‏ پوچھنے کا عمل 19' 52 یا ستر <strong>سے</strong><br />

زائد مرتبہ رہا۔ اس کے بعد آپ کریم نے فرمایا جان<br />

یعنی جنات<br />

ؼالبیات پر آپ کے کام کا ہلکا خاکہ دیں<br />

لؽات ؼالب<br />

استاد ؼالب کے کچھ اُردو تراجم<br />

اصطالحات ؼالب کے اصطالحی مفاہیم<br />

ؼالب شخص کا شاعر مضامین<br />

تلمیحات ؼالب کی شعری تفہیم<br />

ؼالب کے ہاں مہاجر اور مہاجر نما الفاظ کے استعمال<br />

کا سلیمہ<br />

ؼالب کے کرداروں کا تفہیمی ونفسیاتی مطالعہ<br />

نشانیات ‏ِؼالب کا ساختیاتی مطالعہ<br />

ؼالب شناسی کے چند لسانی زاویے<br />

مترادفات ؼالب<br />

......


ؼالب باغ میں<br />

زبان ؼالب<br />

شعر ؼالب اور میری معروضات<br />

زندہءجاوید ؼالب ۔ممالہ<br />

لسانیات ؼالب-‏‎1‎ مضامین<br />

لسانیات ؼالب مطبوعہ کتاب<br />

ؼالب اور اس کا عہد مطبوعہ کتاب<br />

نشانیات ؼالب تحمیمی مطالعہ مطبوعہ کتاب<br />

ؼالب کا آپ نے پنجابی میں ترجمہ کیا ہے اس کا<br />

محرک کیا تھا<br />

بہت <strong>سے</strong>'‏ تراجم میری نظر <strong>سے</strong> گزرے ہیں۔ زیادہ تر<br />

لفظی ترجمے کیے گیے ہیں۔ فکر کو دوسرے نمبر پر<br />

رکھا گیا ہے۔ ترجمہ بامحاورہ ہونے کے ساتھ ساتھ'‏<br />

فکر کا اجاگر ہونا'‏ پہلی ترجیع رہنی چاہیے۔ فکر کا<br />

پس دیوار رہنا'‏ درست نہیں'‏ ای<strong>سے</strong> تراجم کو کامیاب<br />

تراجم کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ میں نے'‏ اسی نظریے<br />

کو لے کر'ؼالب کے ستر کے لریب اشعار کے'‏ پنجابی<br />

تراجم کیے ہیں۔ نئے انداز کے نام <strong>سے</strong>'‏ ؼالب کے<br />

اشعار کو آزاد نظم کے انداز میں'‏ درج کیا ہے۔ اس


<strong>سے</strong> شعر کو پڑھنے میں مدد ملے گی۔<br />

خیام کی چوراسی رباعیات کے'‏ اردو میں'‏ سہ مصرعی<br />

تراجم کیے ہیں۔ اس کی حیات کے ساتھ'‏ زبان پر بھی<br />

گفت گو کی ہے'‏ تا کہ ا<strong>سے</strong> اور اس کی فکر کو'‏<br />

سمجھنے میں مدد مل سکے۔<br />

ترکی نظموں کے تراجم انگریزی <strong>سے</strong> کیے ہیں۔<br />

نظمیں پروفیسر نوریہ بلیک'‏ سلجوق یونی ورسٹی'‏<br />

ترکی نے مہیا کی تھیں۔ ‏.......ستارے بنتی آنکھیں۔۔۔۔۔<br />

نام <strong>سے</strong> کتاب بھی شائع ہوئی۔ وہاں بھی میں نے فکر<br />

کے لریب رہنے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر ترکمان اور<br />

نوریہ بلیک کو دکھائے'‏ انہوں درست لرار دینے کے<br />

ساتھ ساتھ پسند بھی کیا۔ یاد رہے یہ وہاں اردو کے<br />

استاد تھے۔<br />

لراتہ العین طاہرہ کی ؼزلوں کے انگریزی اور پنجابی<br />

ترجمے کیے۔ پروفیسر صابر آفالی پی ایچ ڈی نے<br />

انہیں دیکھا اور پسند کیا۔<br />

فینگ سیو فینگ'‏<br />

ہنری النگ فیلو یا پھر ولیم بلیک


کی نظموں کے اردو تراجم کرتے ولت فکر کو پہلی<br />

ترجیع میں رکھا۔<br />

نوٹ:‏ ؼالب کے عالوہ بھی'‏ کچھ دوسرے شعرا کے<br />

شعروں کا پنجابی میں ترجمہ کیا ہے۔<br />

البالیات پر آپ کے کام کا ہلکا سا خاکہ<br />

البال کے متعلك بھی لکھتا رہا ہوں۔ چند اک عنوان<br />

درج ہیں۔ بالی کے لیے'‏ ڈبے پھرولنا پڑیں گے'‏ جس<br />

کے لیے ولت درکار ہے۔<br />

البال الہور میں<br />

البال کی یورپ روانگی <strong>سے</strong> پہلے کے احوال و آثار<br />

البال کا فلسفہءخودی<br />

البال اور مؽربی مفکرین<br />

البال اور ؼزالی کی فکر کا تمابلی جائزہ<br />

البال کا شاہین<br />

البال کا فلسفہءعشك<br />

اکبر البال اورمؽربی آزادی<br />

مطالعہءالبال کے چند ماخذ<br />

البال کی نظم ۔۔۔۔۔ میں اور تو....‏ کے حواشی


مطالعہءشعرالبال اور میری چند معروضات<br />

کالم البال<br />

مسلمان البال کی نظر میں<br />

البال اور تحریک آزادی<br />

البال کے کالم میں دعوت آزادی<br />

البال اور تسخیر کائنات کی فالسفی<br />

البال اور ربط ملت کی اصطالح<br />

البال کا نظریہءلومیت<br />

البال کے سیاسی'‏ معاشی اور اخاللی نظریات<br />

البال اور عصبت کی اصطالح<br />

فرانسیسی زبان میں آپ نے کن ادیبوں کا ترجمہ کیا<br />

ہے ؟<br />

کسی فرانسیسی شاعر کا ترجمہ نہیں کیا۔ ہاں شارل<br />

بودلیئر وؼیرہ کو تراجم کے حوالہ <strong>سے</strong> پڑھا اور<br />

مضامین لکھے ہیں۔<br />

ادب کی تعریؾ آپ کے نزدیک کیا ہے<br />

لفظ ادب عزت'‏<br />

احترام ۔ تہذیب'‏ سلیمہ۔ پاس'‏<br />

لحاظ


وؼیرہ کے لیے مخصوص ہے۔ اصطالح میں نظم ونثر<br />

کے لیے مخصوص ہے۔ لسانی حوالہ <strong>سے</strong>'‏ ادب لفظوں<br />

کی نشت و برخواست کے سلیمے <strong>سے</strong> عبارت ہے۔<br />

سٹریٹ <strong>سے</strong> یہاں آ کر'‏ محاورہ اور روزمرہ بےسرا<br />

نہیں رہتا۔ زبان بےسلیکگی <strong>سے</strong> نکل آتی ہے اور<br />

ا<strong>سے</strong> ولار میسر آتا ہے۔ ا<strong>سے</strong> ادب کا لسانی کلچر<br />

دستیاب ہوتا ہے۔ زبان'‏ عموم <strong>سے</strong> خصوص میں داخل<br />

ہو جاتی ہے۔ ا<strong>سے</strong> نکھار اور <strong>ایک</strong> ڈھب ملتا ہے۔<br />

یہ ہی کلیہ طور اور سلیمہ فکر پر اپالئی ہوتا ہے۔<br />

ادب'‏ پڑھنے لکھنے والے کو'‏ پڑھا لکھا سمجھا جاتا<br />

ہے۔ پڑھے لکھے اور ان پڑھ میں یہ ہی فرق ہے'‏ کہ<br />

پڑھا لکھا باسلیمہ ہوتا ہے۔ پڑھ لکھ کر'‏ عملی طور<br />

باسیمہ نہیں ہو پاتا'‏ تو دونوں میں رائی بھر فرق نہیں<br />

رہ جاتا۔ دوسری سطع پر'‏ وہ ان پڑھ <strong>سے</strong> آگہی کے<br />

معاملہ میں'‏ آگے ہوتا ہے۔ منفی و مثبت کی تمیز و<br />

امتیاز <strong>سے</strong> بہرہ ور ہوتا ہے۔ اگر ادب لکھنے اور<br />

پڑھنے <strong>سے</strong>'‏ یہ عناصر'‏ میسر نہیں آتے'‏ تو اس<br />

لکھے اور پڑھے کو ادب کا نام نہیں دیا جا سکتا۔<br />

گویا ادب شخص کو سلیمہ'‏ تمیز و امتیاز سکھاتا ہے۔


ادیب اور شاعر'‏ اپنے سماج اور اس <strong>سے</strong> متعلك<br />

شخص اور اس کے معامالت کو اجاگر کرتا ہے۔ اس<br />

کی نظریں باریکیوں <strong>سے</strong> منفی اور مثبت کو تالش التی<br />

ہیں اور پھر اپنی تالش کو ادبی سلیمے <strong>سے</strong> پیش کر<br />

دیتا ہے۔ ادیب اور شاعر'‏ اپنے عہد کے نبض شناس<br />

ہوتے ہیں۔ اس کا کہا جہاں لطؾ فراہم کرتا ہے'‏ وہاں<br />

آتے کل کے لیے'‏ شہادت بن جاتا ہے۔<br />

پنجابی کےاردو زبان پر اثرات<br />

جیسا کہ عرض کر چکا ہوں'‏ یہ آل ہند کی زبان ہے<br />

اور پورے برصؽیر کے استعمال میں ہے۔ مخلتؾ<br />

زبانیں بولنے والوں نے'‏ اس میں ادب کاشت کیا ہے۔<br />

صاؾ ظاہر ہے'‏ کہ متعلمہ عاللہ کی بولی یا زبان'‏ اس<br />

پر اثرانداز ہوتی آئی ہے۔ پشاور'‏ الہور'‏ ملتان'‏ کراچی'‏<br />

رام پور'‏ گلبرگہ'‏ ڈھاکہ'‏ فیض آباد'‏ دلی'‏ چتوڑ وؼیرہ<br />

کی اردو پر وہاں کی ممامی بولیوں اور زبانوں کے<br />

اثرات مرتب ہوئے۔ امیر خسرو'‏ نظام رام پوری'‏ سائیں<br />

سچل سرمست'‏ ؼالب وؼیرہ کی اردو <strong>ایک</strong> سی نہیں۔<br />

ممامی زبانیں اثر مرتب کرتی ہیں۔ یہ فطری سی بات<br />

ہے۔ اردو نے بھی تو ممامی زبانوں پر'‏ اثرات کیے۔۔ یہ


لین دین'‏ کہیں بھی یک طرفہ نہیں۔ میرے مضمون<br />

رحمان بابا کی پشتو شاعری میں بھی تو یہ ہی باتیں<br />

ہوئی ہیں۔ اردو نے'‏ اگر پنجابی <strong>سے</strong> اثرات لیے ہیں'‏<br />

تو پنجابی پر بھی اپنے اثرات مرتب کیے ہیں۔<br />

پنجابی زبان کے اردو پر اثرات منفی اور مثبت دونوں<br />

پر روشنی ڈالیں<br />

کسی زبان کا'‏ کسی دوسری زبان <strong>سے</strong>'‏ اثر لینا ؼیر<br />

صحت بات نہیں۔ اس <strong>سے</strong>'‏ استعمال کی زبان کے<br />

ذخیرہءالفاظ میں'‏ اضافہ ہوتا اور ابالغ کا دائرہ وسیع<br />

ہوتا چال جاتا ہے۔ یہ الفاظ معنوی اور ہئتی تبدیلوں<br />

<strong>سے</strong> دوچار ہوکر'‏ نئے نحوی سیٹ اپ کے مطابك<br />

استعمال ہوتے ہیں۔ زبان خالص کرنے کا عمل زبان کو<br />

سمندر <strong>سے</strong> کنویں میں تبدیل کرنے کے مترادؾ ہے<br />

اور یہ ممکن بھی نہیں۔ سٹریٹ لکھنے والوں کی<br />

ماتحت نہیں'‏ ہاں البتہ لکھنے والے'‏ سٹریٹ <strong>سے</strong><br />

مواد لیتے ہیں۔<br />

انسان اور انسانی رویے


انسان جب<br />

زمین کا حسن'‏ رنگینیاں'‏ آسائشی لوازمات'‏ سامان<br />

وؼیرہ ‏'عیش وعشرت'‏ سہولتیں'‏ اشیائے خوردنی<br />

دیکھتا ہے'‏ تو دم بخود رہ جاتا ہے۔ ان تمام چیزوں<br />

میں'‏ ممناطیسی لوت ہوتی ہے'‏ جو اس کی رؼبت کا<br />

سبب بنتی ہے۔ اشتیاق'‏ ا<strong>سے</strong> خود فراموشی کی دلدل<br />

میں دھکیل دیتا ہے۔ وہ ان کے حصول کی فکر میں<br />

مبتال ہو جاتا ہے۔ پہلے بمدر ضرورت'‏ پھر زیادہ <strong>سے</strong><br />

زیادہ اور اس کے بعد سب پر'‏ بالشرک ؼیرے لبضے<br />

کا جنون طاری ہوتا ہے.‏ سکندر پر بھی یہ ہی خبط<br />

طاری ہوا تھا۔ اس کے اس خبط نے'‏ پوری دنیا کو<br />

بےسکون کر دیا۔ اس <strong>سے</strong> لوگوں کی سوچیں'‏ اسی<br />

دلدل میں پھنسی رہتی ہیں۔ مزید کے بعد مزید کی<br />

سوچ'‏ منفیت کے دروازے کھولتی ہے۔ یہ ترکیبیں اور<br />

منصوبے بنانے پر مجبور کرتی ہے۔ حصول کی سوچ<br />

کے تناسب <strong>سے</strong>'‏ رویے تشکیل پاتے ہیں۔<br />

پہلے <strong>سے</strong> موجود ماحول'‏ حاالت'‏ اطوار وؼیرہ بھی<br />

اسی لماش کے ہوتے ہیں۔ ان <strong>سے</strong> اثر لینا'‏ فطری سی<br />

بات ہے۔<br />

اس کی مختلؾ صورتیں ولوع پذیر ہوتی ہیں۔ مثال


<strong>ایک</strong> برتن <strong>سے</strong>'‏ دوسرے برتن میں دودھ ڈاال جاتا<br />

ہے۔ پہلے برتن کے ساتھ لگے دودھ کے حصول کے<br />

لیے'‏ پانی ڈال کر برتن کو اچھی طرح ہال کر'‏ یہ ہنگال<br />

دودھ میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ اس پر خالص ہونے<br />

کا لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے۔ جب کہ اس دودھ کو<br />

خالص نہیں کہا جا سکتا۔<br />

دودھ میں نل یا کنویں کا پانی مال کر'‏ دودھ کو زیادہ<br />

کرنے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے۔<br />

دودھ کو زیادہ کرنے کے لیے جوہڑ جس میں جانور<br />

ؼسل صحت فرماتے ہیں بالتکلؾ مال دیا جاتا ہے۔<br />

دودھ بنانے کے لیے'‏ کییکل استعمال کیا جاتا ہے۔ آج<br />

تو دودھی دودھ بنانے لگے ہیں۔ اس میں سرؾ اور<br />

بال صفا جیسی چیزیں ڈالتے ہیں۔ افسوس ناک بات تو<br />

یہ ہے'‏ کہ ا<strong>سے</strong> بھی دودھ کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ وہ<br />

جو جانتا ہے'‏ ا<strong>سے</strong> دودھ کہہ کرپی<strong>سے</strong> وصولتا ہے۔<br />

اصل دودھ اپنی حیثیت میں بڑے کمال کی چیز ہے۔<br />

توانائی فراہم کرتا ہے۔


ہنگال یا نلکے کا پانی داخل کر دیا جائے'‏ تو وہ خالص<br />

نہیں رہتا'‏ لیکن یہ خطرناک نہیں ہوتا۔ ہاں خالص کی<br />

سی توانائی <strong>سے</strong> محروم رکھتا ہے۔<br />

اب جب اس میں'‏ گندے پانی کی مالوٹ کی جائے گی'‏<br />

تو یہ ناصرؾ توانائی <strong>سے</strong> مرحوم ہو جائے گا'‏ بلکہ<br />

خوؾ ناک ہو جائے گا۔ ہاں اس <strong>سے</strong> انکار نہیں کہ اس<br />

میں دودھ بھی ہے۔<br />

ان میں <strong>سے</strong> کوئی دودھ'‏ اپنی اصل فطرت پر نہیں۔<br />

موجودہ دودھ فطرت ثانیہ پر ہے۔ فطرت ثانیہ کسی<br />

سطع پر درست نہیں ہو سکتی۔<br />

خودساختہ سراب نما دودھ کی اپنی الگ <strong>سے</strong> فطرت<br />

ہے۔ اس کی فطرت <strong>سے</strong>'‏ آلودہ کی موجودہ فطرت کا<br />

بھی تماضا نہیں کیا سکتا۔ وہ دودھ ہی نہیں تو تماضا<br />

کیسا۔ اصل تو بڑی دور کی بات ہے۔<br />

انسانی رویے اس مثال کے مماثل رہے ہیں۔ ادیب<br />

شاعر بھی'‏ ان رویوں کو للم بند کرتے ہیں۔ وہ خود<br />

بھی کسی ناکسی سطع پر'‏ ان میں <strong>سے</strong> کسی <strong>ایک</strong> پر<br />

ہوتے ہیں'‏ اس حوالہ <strong>سے</strong> ؼیرجانبدار ہو کر بھی'‏


ؼیرجانبدار نہیں رہ پاتے۔ جو بھی سہی'‏ ان کے ہاں<br />

آج کی شہادتیں موجود ہوتی ہیں۔ جنھیں آتا کل'‏ تالش<br />

ہی لیتا ہے۔ آج بھی لاری'‏ بولت مطالعہ'‏ اپنی فطرت پر<br />

ہوتا ہے.‏ دوران مطالعہ محبت نفرت'‏ خوشی دکھ'‏ ہم<br />

دردی سفاکی وؼیرہ کیفیات <strong>سے</strong> دوچار ہوتا ہے۔<br />

آپ کا تعلك <strong>ایک</strong> صوفی بزرگ خاندان <strong>سے</strong> ہے<br />

تصوؾ پر تفصیل <strong>سے</strong> روشنی ڈالیں<br />

تصوؾ'‏ ایسا پوشیدہ پچیدہ یا الجھا ہوا فلسفہ نہیں ہے<br />

جو اس کی تہ در تہ گھتیاں سلجھائی جائیں۔<br />

آپ پر باور رہنا چاہیے'‏ کہ میں کوئی صوفی نہیں ہوں'‏<br />

ہاں ان کا ادنی سا خادم ضرور ہوں یا ایسا سمجھتا<br />

ہوں۔ درویشی کوئی مذاق یا کھیل نہیں'‏ مجھ نمانے<br />

اور معمولی <strong>سے</strong> بندے کی'‏ بھال اس فیلڈ میں'‏ کیا<br />

حیثیت اور اولات ہو سکتی ہے۔ آپ کے حکم کی تعمیل<br />

میں'‏ جو سمجھ پایا ہوں'‏ عرض کیے دیتا ہوں۔<br />

سادہ سی بات ہے ہاں عمل اتنا آسان نہیں۔ اس کا<br />

بنیادی اصول۔۔۔۔ میں ناہیں سبھ توں۔۔۔۔ ہے۔<br />

کچھ لائم بالذات نہیں۔ اس کی ہیت میں تبدیلیاں آتی<br />

رہتی ہیں۔ آخر اس کی موجودہ حالت ختم ہو جاتی ہے۔


انسان جملہ مخلولات <strong>سے</strong> معتبر ہے۔ سولہ کروڑ<br />

سپرمز میں <strong>ایک</strong> یا دو بعض مخصوص صورتوں میں<br />

زیادہ یوٹرس میں داخل ہو پاتے ہیں۔ معتبر ہونے کے<br />

سبب عشك میں مبتال ہوتا ہے۔ کسی اور مخلوق کے<br />

نصیب میں عشك نہیں ہوتا۔ براق ہی کو لے لیں۔ <strong>ایک</strong><br />

ممام پر جا کر ا<strong>سے</strong> اپنی فنا کی فکر الحك ہو گئی۔<br />

اس نے یہ باطور براق فریضہ انجام دیا۔<br />

حضور کریم اس پر سوار تھے'‏ ؼیر انسان تھا نشہ<br />

کی کیفیت <strong>سے</strong> دوچار نہ ہوا۔<br />

بالل'‏ سلیمان فارسی'‏ اویس کرنی ہوتے تو عشك کے<br />

سبب صورت حال مختلؾ ہوتی۔<br />

حضور ملنے ک<strong>سے</strong> جا رہے ہیں۔ اس <strong>سے</strong> ملنے کے<br />

لیے ایسی ہزاروں جانوں کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے۔<br />

وہ انسان نہیں تھا اس لیے اس حوالہ <strong>سے</strong> سوچ ہی<br />

نہیں سکتا تھا۔ یہ کام حضرت منصور یا حضرت<br />

سرمد ہی کر سکتے تھے۔<br />

عشك کی دو سطعیں ہیں۔<br />

زندگی اسی طور اور انداز <strong>سے</strong> کرنا ہے جس طور اور<br />

انداز <strong>سے</strong> گزارنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہللا مالوٹ'‏


چوری'‏ زنا'‏ جھوٹ'‏ بےایمانی'‏ ہیرا پھیری'‏ رشوت'‏<br />

امانت خوری وؼیرہ <strong>سے</strong> منع کرتا ہے'‏ لہذا انہیں کرنا<br />

ہی نہیں۔<br />

کسی بھی صورت'‏ حالت'‏ کیفیت'‏ مولع'‏ ضرورت وؼیرہ<br />

پر'‏ ہللا کے حکم'‏ جو حضور کریم کے ذریعے شخص<br />

تک پہنچا ہے'‏ <strong>سے</strong> انحراؾ یا اس کے برعکس کرنے<br />

یا کہنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ اگر کرتا یا کہتا ہے'‏ تو<br />

وہ ۔۔۔۔ میں ناہیں سبھ توں۔۔۔۔ <strong>سے</strong> متعلك نہیں ہوتا۔ وہ<br />

اس دائرے <strong>سے</strong> باہر ہو جاتا ہے<br />

عشك کی دوسری سطح پر'‏ انسان خود تو عامل ہوتا<br />

ہی ہے'‏ دوسروں کو عمل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ<br />

کام انبیاء کرام اور حسین ابن علی <strong>سے</strong> لوگ ہی کر<br />

سکتے ہیں۔ وہ احکام ہللا کی عمل داری کے لیے کسی<br />

بھی سطح پر جا سکتے ہیں۔<br />

وہ مجسم امر ربی ہوتے ہیں۔<br />

<strong>ایک</strong> صوفی اورعموم میں فرق ہوتا ہے۔ عموم اچھا<br />

کام جنت میں ملنے والے فروٹ'‏ شراب طہور اور<br />

حوروں کے لیے کرتے ہیں۔ صوفی تو پہلے ہی ہللا کی


محبت کے نشہ <strong>سے</strong> سرشار ہوتا ہے۔ فروٹ'‏ شراب<br />

طہور اور حوریں اس کے کام کی چیزیں نہیں ہوتیں۔<br />

ہللا کی محبت ان پر ؼالب رہتی ہے۔<br />

ا<strong>سے</strong> ہللا <strong>سے</strong> ہللا ہی درکار ہوتا ہے۔<br />

ؼالب نے بھی اسی حوالہ <strong>سے</strong> کہا ہے۔<br />

بسکہ مشکل ہے ہر کام آساں ہونا<br />

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا<br />

یہ سب کہہ دینا آسان ہے لیکن اس پر عمل درآمد<br />

لطعی آسان نہیں۔ ہر دو صورتوں <strong>سے</strong> متعلك عشاق<br />

بہت کم دیکھنے سننے کو ملتے ہیں۔ کسی بھی حلوہ'‏<br />

کھیر اور لیگ خور <strong>سے</strong> اس نوع کی تولع حمالت <strong>سے</strong><br />

زیادہ نہیں۔ دونوں کی ترجیعحات <strong>ایک</strong> دوسرے <strong>سے</strong><br />

لطعی مختلؾ ہیں۔ عشك کاروبار نہیں۔ ثواب کے لیے<br />

کیا کھلی سودا گری ہے۔<br />

ؼالب ذہن میں پھر آ ٹپکا ہے۔<br />

طاعت میں تا رہے نہ مے و انگبیں کی الگ<br />

دوزخ میں ڈال دے کوئی لے کر بہشت کو


آپ نے کہا ہے اور لکھا بھی ہے کہ پنجاب کے<br />

خانماہی نظام نے اردو ادب کی ترویج میں بہت بڑا<br />

کردار ادا کیا ہے اس پر تفصیلی روشنی ڈالیں<br />

برصؽیر دنیا کا خوب صورت ترین عاللہ ہے۔ یہاں<br />

انبیاء کرام'‏ تبلیػ و اصالح کے لیے'‏ تشریؾ التے<br />

رہے ہیں۔ اصحابہ کرام'‏ یہاں کے گوشے میں پہنچے<br />

ہیں۔ انہوں نے;‏ پورے خلوص'‏ محبت اور خوش دلی<br />

<strong>سے</strong>'‏ تبلیػ و اصالح کا کام کیا۔ صالحین کی تعداد بھی<br />

گنتی میں نہیں آتی۔ الریب فی'‏ یہ بہت بڑے لوگ تھے۔<br />

یہ زمین اور مال ومنال پر لبضہ جمانے کے لیے نہیں<br />

آئے تھے۔ انہیں بال تفریك و امتیاز'‏ انسان کی اصالح<br />

و فالح درکار تھی۔ جب کوئی کارخیر کرتا یا اس جانب<br />

مائل ہوتا'‏ تو ان روح میں'‏ خوشی کا نشہ اتر جاتا اور<br />

روح کو شانتی ملتی۔<br />

ان بندگان باصفا نے'‏ رشد و ہدایت کا سلسلہ کہنے کی<br />

حد تک محدود نہیں رکھا۔ یہ کام تحریری طور بھی کیا۔<br />

بہت کم ریکارڈ میں آ سکا ہے۔ کچھ گردش زمانہ کی<br />

نذر ہو گیا۔ کچھ ان کے اپنوں کی الپرواہی کا شکار ہو<br />

گیا۔ میں ان کی نظم و نثر پر کام کرنا چاہتا تھا۔ سب پر


ممکن نہیں'‏ سوچا پنجاب کے کچھ صالیحین پر کام<br />

کرتا ہوں لیکن نہ کر سکا۔ خاکہ بنایا تھا'‏ جو نیٹ پر<br />

رکھ دیا ہے شاید کوئی صاحب اس جانب توجہ دیں۔<br />

اردہ رکھتا ہوں'‏ لیکن توفیمات تو'‏ میرے ہللا کے پاس<br />

ہیں۔<br />

اردو کی ترلی میں پنجاب کے خانماہی دبستان کا حصہ<br />

link:<br />

http://online.fliphtml5.com/nnkq/sxut/<br />

آپ نے افسانے کثرت <strong>سے</strong> لکھے ہیں اور سماج کو<br />

آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے<br />

لکھنے کی ابتدا'‏ میں نے افسانے <strong>سے</strong> کی۔ جنت<br />

مکانی بابا جی حضرت لبلہ سید ؼالم حضور'‏ شاعری<br />

کرتے تھے اور کبھی کبھی'‏ مجھ ناچیز فانی کو بھی<br />

سناتے۔ انھیں دیکھ اور سن کر'‏ شوق پیدا ہوتا اور<br />

میں بھی کہنے کی جسارت کرتا۔ کبھی <strong>ایک</strong> شعر اور<br />

کبھی پان سات شعر ہو جاتے۔ بالاعدہ نظم۔۔۔۔۔ کیچڑ کا


کنول۔۔۔۔۔ ہوئی۔ روڑی پر پڑا <strong>ایک</strong> بچہ دیکھ کر اور<br />

لوگوں کی ناپسندیدہ باتیں سن کر'‏ بڑا ہی ڈسٹرب ہوا۔<br />

یہ بہت پہلے کی بات ہے۔ اس حادثے کی بازگشت ۔۔۔۔۔<br />

جس ہاتھ میں الٹھی۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔شیدا حرامدا۔۔۔۔۔۔ میں<br />

سنائی دیتی ہے۔<br />

شعر کبھی کبھی اورافسانہ زیادہ تر لکھتا۔ اکثر ایسا<br />

محسوس ہوا ہے'‏ وہ کہ والعہ میرے ساتھ گزرا ہو۔<br />

میرے نزدیک'‏ انسان معتبر رہا ہے۔ انسان کے ساتھ<br />

جہاں بھی ناگوار صورت پیش آئے تڑپ تڑپ جاتا ہوں۔<br />

کم زور شخص رہا ہوں۔ ہاں ہاتھ بڑا ساتھ دیتے رہے<br />

ہیں۔ دعا کے لیے اٹھے ہیں'‏ ساتھ میں'‏ للم کاؼذ کا<br />

بھی سہارا بنے ہیں ۔<br />

پرانی شاعری کے کچھ پرزے ملے ہیں۔ افسانے تعداد<br />

میں زیادہ تھے۔ 1984 میں مطبوعہ افسانوں کی <strong>ایک</strong><br />

فائل'‏ کوئی صاحب لے گیے۔ اس کی واپسی نہ ہوئی۔<br />

کچھ کا خطوط <strong>سے</strong> سراغ مال ہے۔ میری کسی بات<br />

<strong>سے</strong> اتفاق کرنا یا نہ کرنا الگ <strong>سے</strong> بات ہے'‏ اتنا<br />

ضرور ہے'‏ کہ جو اور جیسا میں نے محسوس کیا'‏<br />

ا<strong>سے</strong> کاؼذ پر منتمل کر دیا ہے۔ اس لیے انہیں میری


ذات کا تجربہ کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ گویا یہ<br />

افسانے کم'‏ ذات کا تجربہ زیادہ ہیں۔


یہ تحریر بہت پہلے'‏ کسی ادبی رسالے میں بھی شائع<br />

ہوئی تھی۔ میں نے خود کو اس بچے کی جگہ پڑا<br />

محسوس کیا۔ انسان کیسا ہے<br />

گناہ بھی کرتا ہے<br />

اور<br />

بےگناہ کا لتل بھی۔<br />

آپ نے نثری نظموں پر بھی کام کیا ہے.....نثری نظم<br />

کی ادبی حیثیت کیا ہے<br />

نثری نظم پر میں نے لبل از ولت'‏ ایم فل کے لیے<br />

ممالہ لکھا۔ کام مکمل ہو گیا۔ میں نے سوچا'‏ یہ کام تو<br />

ہو گیا ہے'‏ ا<strong>سے</strong> کتابی شکل دے دیتا ہوں۔۔ جب ولت<br />

آئے گا کسی اور ٹاپک پر ممالہ لکھ لوں گا۔ <strong>ایک</strong> آدھ<br />

اضافے کے بعد میں نے ا<strong>سے</strong>۔۔۔۔۔۔ اردو میں نئی<br />

نظم۔۔۔۔۔ کے نام <strong>سے</strong> کتابی شکل دے دی۔ پروفیسر ولار<br />

احمد رضوی پی ایچ ڈی نے'‏ پیش لفظ تحریر فرمایا۔<br />

کتاب پسند کی گئی اور تبصرے بھی ہوئے۔


میں نے نثری نظمیں بھی لکھیں۔ رسائل میں شائع<br />

ہوئیں۔ بعد ازاں انہیں کتابی شکل دے گئی۔ پروفیسر<br />

آؼا سہیل پی ایچ ڈی'‏ پروفیسر ابوسعید نور الدین پی<br />

ایچ ڈی'‏ فرمان فتح پوری پی ایچ ڈی'‏ وفا راشدی پی<br />

ایچ ڈی'‏ پروفیسر صابر آفافی پی ایچ ڈی'‏ پروفیسر<br />

دمحم امین پی ایچ ڈی'‏ ڈاکٹر بیدل حیدری وؼیرہ نے<br />

اپنی خوب صورت اور شفیك آراء <strong>سے</strong> نوازا۔ بعد ازاں<br />

بھی نثری نظمیں لکھتآ رہا۔ ان کی تعداد کئی سو ہو<br />

گی۔ میری پنجابی اور انگریزی نظمیں بھی'‏ اسی طور<br />

کی ہیں۔<br />

صرؾ دو نظمیں باطور نمونہ مالحظہ ہوں۔<br />

بے انت سمندر<br />

‘<br />

آنکھ میں پانی<br />

آب کوثر<br />

شبنم<br />

گل کے ماتھے کا جھومر<br />

جل جل کر<br />

دھرتی کو جیون بخشے


گنگا جل ہو کہ<br />

زم زم کے مست پیالے<br />

دھو ڈالیں کالک کے دھبے<br />

جل اک لطرہ ہے<br />

جیون بے انت سمندر<br />

چل'‏<br />

دمحم کے در پر چل<br />

اک پل<br />

آکاش اور دھرتی کو<br />

اک دھاگے میں بن کر<br />

رنگ دھنک اچھالے<br />

دوجا پل<br />

جو بھیک تھا پہلے کل کی<br />

کا<strong>سے</strong> <strong>سے</strong> اترا<br />

ماتھے کی ریکھا ٹھہرا<br />

کرپا اور دان کا پل<br />

پھن چکر مارا<br />

گرتا ہے منہ کے بل<br />

سلوٹ <strong>سے</strong> پاک سہی<br />

پھر بھی


حنطل <strong>سے</strong> کڑوا<br />

اترن کا پھل<br />

الفت میں کچھ دے کر<br />

پانے کی اچھا<br />

حاتم <strong>سے</strong> ہے چھل<br />

ؼیرت <strong>سے</strong> عاری<br />

حلك میں ٹپکا<br />

وہ لطرہ<br />

سمراط کا زہر<br />

نہ گنگا جل<br />

مہر محبت <strong>سے</strong> بھرپور<br />

نیم کا پانی<br />

نہ کڑا نہ کھارا<br />

وہ تو ہے<br />

آب زم زم<br />

اس میں رام کا بل<br />

ہر فرزانہ<br />

عہد <strong>سے</strong> مکتی چاہے<br />

ہر دیوانہ عہد کا بندی<br />

مر مٹنے کی باتیں<br />

ٹالتے رہنا


کل تا کل<br />

جب بھی<br />

پل کی بگڑی کل<br />

در نانک کے<br />

بیٹھا بےکل<br />

وید حکیم<br />

مالں پنڈٹ<br />

پیر فمیر<br />

جب تھک ہاریں<br />

جس ہتھ میں ولت کی نبضیں<br />

چل'‏ دمحم کے در پر چل<br />

پابند شاعری بھی پرانے پرزوں <strong>سے</strong> ملی ہے۔ صرؾ<br />

<strong>ایک</strong> شعر دیکھیے۔<br />

تم لئے پھرتے ہو دستار فضیلت<br />

رہتے ہیں لوگ یہاں سربریدہ<br />

1-2-1970<br />

اس نظم کے بابے ایڈگر ایلن پو کو شارل بودلیئر نے<br />

دریافت کیا۔ بودلیئر نے اس لماش کی نظمیں لکھیں


جن کا ترجمہ ۔۔۔۔۔ پیرس کا کرب۔۔۔۔۔ کے نام <strong>سے</strong> لئیك<br />

بابری پی ایچ ڈی نے کیا۔<br />

کچھ لوگوں نے ا<strong>سے</strong>'‏ کسی نثری ٹکڑے کو اوپر<br />

نیچے لکھ دینا'‏ نثری نظم سمجھا.‏ یہ سوچ یکسر<br />

باطل ہے۔نثری کے ساتھ نظم کا الحمہ موجود ہے۔ نثر<br />

اور نظم میں انتر ہے۔ نثر نظم نہیں'‏ اسی طرح نظم نثر<br />

نہیں۔ دونوں کا الگ <strong>سے</strong> طور'‏ چلن اور سلیمہ ہے۔<br />

شعر میں یہ امور موجود ہوتے ہیں۔<br />

فکری اورصوتی آہنگ<br />

تبسم<br />

چنچل پننا<br />

حسن شعرہا کا التزام۔ تشبیہ'‏ استعارہ'‏ عالمتیں'‏<br />

تلمیحات اورشعری صنعتوں کا فطری اہتمام<br />

poetic شعریت<br />

ؼنا<br />

کم لفظوں میں بہت زیادہ کہہ دیا جاتا ہے<br />

کوملتا'‏ ریشمیت'‏ نزاکت'‏ والہانہ پن وؼیرہ<br />

لفظوں کی نشت و برخواست نثر <strong>سے</strong> لطعی ہٹ کر اور<br />

الگ تر


میں اپنے کہے کی سند میں فمط <strong>ایک</strong> مثال پیش کرنے<br />

کی جسارت کرتا ہوں۔<br />

اگر یہ شاعری نہیں تو نثر بھی نہیں ہے۔<br />

دیکھ کے چاند مرے آنگن کا<br />

جانے کیوں پھیکا پڑ جائے ہے<br />

چنچل روپ بہاروں کا<br />

یہ صنؾ شعر ہے۔ اس میں شعری زبان ہے۔ معامالت<br />

اور آج کی شعبہ ہائے زندگی <strong>سے</strong> متعلك شہادتیں ہیں۔<br />

آتا ولت ا<strong>سے</strong> کی<strong>سے</strong> نظر انداز کر سکے گا۔<br />

۔۔۔۔۔۔ سورج کو روک لو۔۔۔۔۔۔ نثری ؼزلوں پر مشتمل'‏<br />

<strong>ایک</strong> مجموعہ شائع ہوا۔ یہ <strong>ایک</strong> تجربہ تھا'‏ جو نثری<br />

ہائیکو ۔۔۔۔سپنے اگلے پہر کے۔۔۔۔۔ کی طرح اکلوتا ہی<br />

رہا۔ نمطہءنظر یہ تھا کہ<br />

‏.ؼزل کی <strong>ایک</strong> مخصوص زبان ہے<br />

اسلوب تکلم دیگر اصناؾ شعر <strong>سے</strong> الگ تر ہے۔<br />

آہنگ و رنگ دیگر اصناؾ شعر <strong>سے</strong> مختلؾ ہے۔<br />

ان تینوں بنیادی امور کے تحت'‏ نثری ؼزل پیش کی


جائے۔ میری ان کاوش ہا کو پسند کیا گیا۔ باطور نمونہ<br />

<strong>ایک</strong> شعر مالحظہ ہو۔<br />

سورج کو روک لو<br />

شہر عشك کو جانے واال<br />

کوئی سر سالمت نہیں رہا<br />

کہیں دو کہیں چار مصرعے ہیں۔<br />

ہائیکو کی ادبی حیثیت<br />

ہائیکو اردو شاعری میں'‏ اب بالاعدہ صؾ ادب کی<br />

حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ اس کے اصول وضوابط طے<br />

کر دیے گیے ہیں۔ سب <strong>سے</strong> بڑی بات تو یہ ہے کہ اس<br />

نے یہاں کے اطور'‏ مزاج اور فکر اختیار کر لی ہے۔<br />

اس لیے یہ بالی رہے گی۔ اس پر کام ہوا ہے'‏ اور ہوتا<br />

رہے گا۔ ہاں اصل حیرت کی بات تو یہ ہے'‏ کہ مؽرب<br />

کی کچھ اصناؾ کے تجربے کیے گیے۔ انہیں پذیرائی<br />

حاصل نہیں ہو سکی'‏ جب کہ ہائیکو یہاں اجنبی نہیں<br />

رہی۔<br />

نثری ہائیکو


نثری ہائیکو میرے سوا کسی نے لکھے ہی نہیں۔ یہ<br />

میں نے 1986 میں لکھے تھے .... سپنے اگلے پہر<br />

کے۔۔۔ مجموعہ بھی شائع ہوا تھا۔ ستر <strong>سے</strong> زائد<br />

لوگوں نے آراء دیں۔ <strong>ایک</strong> ایم فل کی آسائنمنٹ ہوئی۔<br />

رنگ ادب کراچی نے'‏ پورا کا پورا مجموعہ شائع کر<br />

دیا۔ سندھی'‏ پنجابی'‏ انگریزی پشتو'‏ انگریزی میں<br />

ترجمے ہوئے۔ پروفیسر علی حسن چوہان'‏ اپنے پی<br />

ایچ ڈی ممالے میں اس میں <strong>سے</strong>'‏ مؽربی تلمیحات<br />

شامل کر رہے ہیں۔<br />

ان تمام باتوں کے باوجود یہ حمیمت اپنی جگہ پر<br />

موجود ہے'‏ کہ اردو شاعری میں نثری ہائیکو رواج<br />

نہیں پا سکے۔<br />

کل کو ان کی ادبی حیثیت کیا ہو۔ اس کا فیصلہ تو کل<br />

ہی کرے گا۔ ہاں اندازتا اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے'‏ کہ<br />

آج کی شہادت اور اپنی الگ <strong>سے</strong> زبان کی وجہ <strong>سے</strong><br />

شاید ا<strong>سے</strong> نظرانداز نہ کیا جائے۔<br />

شاید....‏ سپنے اگلے پہر کے۔۔۔ کو اکلوتا ہونے کی<br />

حیثیت رہے۔<br />

دو ہائیکو مالحظہ ہوں۔<br />

رنگوں کا پابند مصور<br />

جیون کا حسین تصور


کی<strong>سے</strong> دیکھ سکے گا<br />

۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />

پیدا میں جب ہوا<br />

وڈیرا<br />

مرے حصہ روٹی کھا چکا تھا<br />

تخلیمی عمل کیا ہے<br />

تخلیك مشکل ترین'‏ لیکن پرلطؾ اور تسکین بخش<br />

عمل ہے۔ اس کی چار صورتیں ہو سکتی ہیں۔<br />

ا۔ موجود اور مستعمل میں<br />

اس کی کسی کجی یا ادھورے پن کی بناء پر .1<br />

دوبارہ <strong>سے</strong> تشکیل دینا۔<br />

‏.مزید بہتر اور فائدہ مند بنانا .2<br />

ہئیتی تبدیلی ال کر پہلے <strong>سے</strong> بہتر اور خوب .3<br />

صورت بنانا۔<br />

مزید اورالگ ترتصرؾ نکالنا اور نئے کے .4<br />

مطابك'‏ تبدیلی یا تبدیلیاں النا<br />

'<br />

'<br />

ب۔ معلوم اور موجود'‏ لیکن ؼیر متشکل کو ہنر اور<br />

سلیمہ مندی <strong>سے</strong>'‏ اس <strong>سے</strong> مناسبت رکھتی ہئیت کے


ساتھ'‏<br />

تشکیل دینا۔ اس <strong>سے</strong> لطؾ میسر ہو اور وہ کسی<br />

ناکسی سطع پر افادیت کا سبب بھی بنے۔<br />

ج۔ معلوم'‏<br />

لیکن ؼیر موجود کو دریافت کرکے'‏<br />

اور استفادے کی راہ نکالنا<br />

تصرؾ<br />

د۔ ؼیر معلوم کو دریافت کرنا اور آگاہی دینا۔<br />

اس کے استعمال کی صورتوں <strong>سے</strong> آگاہ کرنا اور<br />

تصرؾ کی صورت نکالنا'‏ اس <strong>سے</strong> آگے اور بعد کی<br />

کی بات ہے۔<br />

تنمید کا ادب میں کیا ممام ہے<br />

عمومی سطع پر ڈرامہ وؼیرہ دیکھ کر'‏ اس پر تبصرہ<br />

کیا جاتا ہے اور یہ زبانی کالمی کی بات ہوتی ہے۔ بات<br />

نہ ہونے کی صورت میں'‏ اس کی معنویت ہی صفر ہو<br />

کر رہ جاتی ہے۔ نماد'‏ جہاں اس تخلیك کے فکری'‏<br />

ہئیتی امور پر گفتگو کرتا ہے'‏ وہاں <strong>ایک</strong> رائے بھی<br />

فراہم کرتا ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ وہ'‏ فن پارے کی<br />

ادبی لدر متعین کرتا ہے۔ باریکیوں کی نشاندہی کرکے


مطالعے کا سلیمہ سکھاتا ہے۔ تخلیك میں محض کیڑے<br />

نکالنا'‏ تنمید نہیں'‏ بلکہ لفظ تنمید کے ساتھ زیادتی ہے۔<br />

دوسری طرؾ یہ رائیٹر کو بھی محتاط روی اختیار<br />

کرنے پر مائل رکھتی ہے اور ا<strong>سے</strong> بےسرا ہونے<br />

<strong>سے</strong> بچاتی ہے۔<br />

کیا تنمید ادب پاروں کی لدر تعین کرتی ہے<br />

نماد دراصل مطالعے کا سلیمہ سکھاتا ہے۔ عام لاری<br />

کی جہاں نظر نہیں جاتی'‏ اس کی چلی جاتی ہے۔ ا<strong>سے</strong><br />

تخلیك کے باطن میں گھس کر'‏ پوشیدہ امور پر روشنی<br />

ڈالنی چاہیے۔ ٹوٹل پورا کرنا یا ڈگری کے حصول کے<br />

لیے'‏ کہے گیے کو دہرانا تنمید نہیں'‏ تنمید کے ساتھ<br />

مذاق کے مترادؾ ہے۔<br />

لصور میرا پیدائشی شہر ہے'‏ اس کو جاننے کے لیے'‏<br />

موجود کتب کو پڑھا'‏ جب چار سال گراونڈ مطالعہ میں<br />

صرؾ کیے'‏ بہت کچھ برعکس نکال۔<br />

کوئی شکاگو میں بیٹھا لکھتا ہے'‏ وہ المحالہ'‏ کتابوں<br />

کا سہارا لے گا'‏ حوالہ سازی اس کی مجبوری ہو گی۔


گراونڈ مطالعہ اس <strong>سے</strong> لطعی الگ بات ہے۔ نماد'‏<br />

تنمدی کتب کو <strong>ایک</strong> طرؾ رکھ دے'‏ شعر یا نثر پارے<br />

میں'‏ جو نظرآئے'‏ وہ ہی لکھے۔ اپنا بندہ ہے'‏ اپنی<br />

ٹاہنی کا ہے'‏ اس حوالہ <strong>سے</strong> لکھنا'‏ دیانت کو پامال<br />

کرنا اور فن تنمید کا ستیاناس مارنا ہے۔ کون ہے'‏<br />

دیکھنے کی ضررت نہیں'‏ جو لکھا ہے'‏ دیکھنا<br />

ضروری ہے۔<br />

اگر کیڑے نکالنا طے کر لیا ہو'‏ تو اس <strong>سے</strong> بہتر یہ ہی<br />

ہے'‏ کہ تنمید کا فریضہ انجام نہ ہی دیا جائے۔ یہ فن<br />

تنمید پر احسان عظیم ہو گا۔<br />

لسانیات <strong>سے</strong> متعلك ہنرکار صرؾ اس کے لسانی<br />

پہلووں کو مدنظر رکھے۔ اسی حوالہ <strong>سے</strong> اس کی<br />

خوبیوں خامیوں کو اجاگر کرے۔ سماجیاتی'‏ نفسیاتی<br />

اسلوبیاتی وؼیرہ لسانیات کے مطالعے کےساتھ ساتھ<br />

لفظی'‏ حرفی'‏ اصطالحی اور نحوی امور کو نظر انداز<br />

نہ کرے۔ ممکن ہے تخلیك کار<br />

کسی نئی اصطالح کا استعمال کر گیا ہو۔<br />

کوئی نیا لفظ استعمال میں آ گیا ہو۔<br />

کسی مستعمل لفظ کا نیا استعمال ہو گیا۔


کسی لفظ کو نئے معنوں میں استعمال کر دیا گیا ہو۔<br />

مستعمل لفظ کا نیا روپ سامنے آ جائے۔<br />

ممکن ہے کوئی نیا محاورہ ترکیب پا گیا ہو۔<br />

کسی دوسری زبان کا محاورہ کسی بھی شکل میں<br />

استعمال میں آ گیا ہو۔<br />

مستعمل محاورے کو نئی شکل دے دی گئی ہو۔<br />

کوئی نیا مرکب لفظ یا نیا مرکب تشکیل پا گیا ہو۔ مثال<br />

ہائیدان'‏ کوڑا دان'‏ سرد صدا<br />

گویا اس تحریر میں بہت سی چیز دستیاب ہو سکتی<br />

ہیں۔<br />

ہر دو طرح کے امور'‏ دیانت داری <strong>سے</strong> انجام پانے کے<br />

بعد ہی'‏ اس تحریر کی لدرولیمت کا اندازہ لگایا جا<br />

سکتا ہے۔ پہلے <strong>سے</strong> موجود میں'‏ اس کی ادبی حیثیت<br />

کا تعین کیا جا سکتا ہے۔<br />

<strong>ایک</strong> ادیب,‏ شاعر اور صوفی کے نظریہ تخلیك و خلك<br />

میں اور تجربے میں کیا فرق ہے<br />

ؼیر صوفی شاعر اور ادیب'‏ دل چسپی پیدا کرنے کے<br />

لیے'‏ مبالؽے اور لگی لیپٹی <strong>سے</strong> کام لیتے ہیں۔ صوفی


شاعر اور ادیب'‏ جو اور جیسا کی پیش کشش کے<br />

لیے'‏ وجدانی اور والہانہ پن کی تکنیک <strong>سے</strong> کام لیتے<br />

ہیں۔ ان کی تان'‏ ذات باری پر جا کر ٹوٹتی ہے۔ شخصی<br />

بےراہ روی کی نشان دہی میں'‏ لحاظ اور مروت <strong>سے</strong><br />

صوفی دور رہتا ہے۔<br />

معاملہ وہ ہی رہتا ہے'‏ لیکن ؼیر متعلك اور ؼیر<br />

مستعمل طور اور چلن اختیار کرنا'‏ تجربہ ہے۔ ا<strong>سے</strong><br />

رواج ملنا دوسری بات ہے<br />

کسی دوسری زبان کی صنؾ متعارؾ کرانا بھی تجربہ<br />

ہے۔<br />

ذات پر گزرنا اور ا<strong>سے</strong> بیان کرنا'‏ تجربہ ہے۔ صوفی<br />

کے ہاں یہ چیز ہوتی ہے۔ دیکھی اور سنی کہنا'‏<br />

تجربے <strong>سے</strong> الگ تر ہے۔<br />

ادب کی ترویج کے لیے کون اہم ہے لاری کہ لکھاری<br />

دونوں اس ذیل میں اہم ہیں تاہم ادب اور زبان کی ترلی<br />

کے لیے تخلیك کار کا ہونا بڑا اہم ہے۔ ہو سکتا ہے


'<br />

آتے ولتوں میں ا<strong>سے</strong> سنجیدہ لاری نماد اور ماہر<br />

لسانیات میسر آ جائے۔ نئی اور پرانی تخلیمات کبھی<br />

بھی الیعنی نہیں ہوتیں۔<br />

تیس سال پہلے'‏ میں نے دیوان ؼالب کا مصور ایڈیشن<br />

نمش چؽتائی'‏ ساڑھے تین سو روپے میں خریدا۔<br />

مختصر تنخواہ پانے والے کے لیے'‏ یہ کھلی حمالت<br />

تھی۔ حاالں کہ بازار میں پان سات روپے میں مل سکتا<br />

تھا۔ اصل اہمیت اس کی لدامت اور اس پر موجود للمی<br />

تحریر کی تھی۔ یہ باظاہر عام تحریر'‏ اٹھائس جون<br />

انیس سو اکاون دو بجے بعد دوپہر کی ہے۔<br />

دوسری بڑی بات یہ نسخہ بہت کم لوگوں کے پاس گا۔<br />

تیسری سب <strong>سے</strong> بڑھ کر بات'‏ متنی تحمیك کے لیے یہ<br />

نسخہ بڑے کام ہے۔<br />

ڈائری ذاتی چیز ہے۔ کسی لاری کے لیے نہیں لکھی<br />

جاتی بلکہ چھپا کر رکھی جاتی ہے۔ لاری ا<strong>سے</strong> بھی<br />

میسر آ جاتے ہیں۔ یہ ذاتی چیز بھی فکری'‏ اسلوبی<br />

اور لسانیاتی حوالہ <strong>سے</strong> الیعنی اور بےمعنی نہیں<br />

ہوتی۔<br />

یہ ہی صورت حال خطوط کی ہے۔<br />

<strong>ایک</strong> بھی لاری نہ ہو'‏ تب بھی تخلیك کار کو'‏ اپنا کام


جاری رکھنا چاہیے۔<br />

<strong>ایک</strong> ادیب شاعر اور نماد کی اصل ذمہ داری کیا ہے<br />

ادیب اور شاعر کا فرض بنتا ہے'‏ کہ وہ لکھنے میں<br />

کسی بھی صورت اور حالت میں'‏ خیانت نہ کریں۔ ان کا<br />

لکھا کل کو'‏ آج کی'‏ شہادت بنے گا۔ چوری خور<br />

مورکھ'‏ شاہوں کے بےسروپا اور حمیمت <strong>سے</strong> بعید<br />

لصے کہانیاں لکھتے آئے ہیں۔ مستری شاہ جہاں کا<br />

ہی چرچا ملے گا۔ ہنرمند مشمتی اور معامالت کو فنانس<br />

کرنے والے'‏ دور تک دیکھائی نہیں دیں گے۔<br />

ادیبوں شاعروں کو'‏ شاہی گماشتگی زیب نہیں دیتی۔<br />

چند لمموں کے لیے'‏ ضمیر کے خالؾ جانا'‏ اچھا نہیں۔<br />

جو اور جیسا ہے'‏ لکھنا ہی'‏ ان کا کرتوے ہے۔ مورکھ<br />

کے لکھے پر رحمان بابا کا یہ شعر ہر حوالہ <strong>سے</strong><br />

بھاری رہے گا۔<br />

مجنوں کا کوئی کیا حال پوچھے<br />

یہاں ہر گھر صحرا کا نمشا ہے<br />

عصمت کا افسانہ۔۔۔۔۔۔ ننھی کی نانی۔۔۔۔۔ باظاہرعریانی<br />

کو اجاگر کرتا ہے'‏ لیکن اپنی اصل میں'‏ عاللے کے


معتبر شخص کے'‏ شیطان چہرے <strong>سے</strong>'‏ نماب سرکاتا<br />

ہے۔ لوگ جن کی چمچمہ گیری کرتے ہیں'‏ وہ باطنی<br />

سطح پر'‏ کس لدر پلید اور بدلماش ہیں'‏ اس افسانے<br />

‏.کے مطالعہ <strong>سے</strong>'‏ باخوبی اندازہ ہو جاتا ہے<br />

ارسطو کے مطابك تخلیك کاری کے دوران جذبات کا<br />

تشنج رفع ہو جاتا ہے اس بات کو اس نے کتھارسس<br />

کہا ہے .<br />

ارسطو نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ یہ عام سی بات ہے<br />

اور ہمیشہ <strong>سے</strong> چلی آتی ہے.‏ کہہ دینے <strong>سے</strong> من کا<br />

بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ خوشی بھی شیئر کرکے سکون<br />

ملتا ہے باصورت دیگر بےچینی اور بےکلی میں'‏<br />

ہرچند اضافہ ہوتا چال جاتا ہے۔ تخلیك کار بھی'‏ اول تا<br />

آخر انسان ہوتا ہے'‏ اس لیے ا<strong>سے</strong> اس دائرے <strong>سے</strong><br />

باہر نہیں کیا جا سکتا۔<br />

تخلیك کار اور <strong>ایک</strong> عام شخص میں فرق یہ ہوتا ہے'‏<br />

کہ <strong>ایک</strong> عام شخص اپنی ذات تک محدود رہتا ہے۔ ذات<br />

<strong>سے</strong> متعلمین یا متعلمات کا دکھ سکھ بھی محسوس<br />

کرتا ہے لیکن ذات کی سطح کا نہیں۔ وہاں کم یا کم


<strong>سے</strong> زیادہ کی صورتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ کہیں<br />

صرؾ زبان کی حد تک دکھ سکھ محدود رہتا ہے۔<br />

تخلیك کار کی ذات کا دکھ سکھ کائنات کی طرؾ سفر<br />

کرکے ذات کی طرؾ لوٹ آتا ہے۔ اسی طرح کائنات کا<br />

دکھ سکھ اس کی ذات کی طرؾ مراجعت کرتا ہے۔<br />

کائنات کا دکھ سکھ اس کی ذات کا دکھ سکھ بن جاتا<br />

ہے۔ کوئی شعر یا نثر پارہ اٹھا کر دیکھ لیں اس <strong>سے</strong><br />

الگ صورت نہ ملے گی۔<br />

کیا یہ سچ تک پہنچنے کی <strong>ایک</strong> کوشش کی جانب<br />

اشارہ ہے ؟؟؟<br />

یہاں بھی دو صورتیں رہتی ہیں۔ عموم کہہ دینے <strong>سے</strong>'‏<br />

حامی پیدا کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ کر لینے یا<br />

بچ نکلنے کی کوئی ترکیب تالشتے ہیں۔<br />

تخلیك کار کا اپنی ذات <strong>سے</strong> بھی'‏ معاملے کے حوالہ<br />

<strong>سے</strong>'‏ مکالمہ ومخاطبہ رہتا ہے۔ معاملے کی ذیل میں'‏<br />

وہ اوروں <strong>سے</strong> بھی مختلؾ حوالوں <strong>سے</strong>'‏ کتھارسز<br />

کرتا ہے۔ جب تک وہ کسی نتیجے تک نہیں پہنچ جاتا'‏<br />

بےچین وبےکل رہتا ہے۔ کاؼذ پر منتمل ہو جانے تک'‏


اس پر کرب ؼالب رہتا ہے۔<br />

مخصوص نظریات کے حامل'‏ معاملے کے اپنے نظریہ<br />

میں ڈھل جانے اور ٹھیک <strong>سے</strong> فٹ ہو جانے تک'‏<br />

بےکل رہتے ہیں۔ اوروں <strong>سے</strong> کتھارسز بھی اسی طور<br />

<strong>سے</strong> کرتے ہیں۔ مشاہدات کا معاملہ اس <strong>سے</strong> الگ نہیں<br />

رکھتے۔<br />

اوروں <strong>سے</strong> کتھارسز بگاڑ کا بھی سبب بن سکتے<br />

ہیں۔ عین ممکن ہے'‏ ذات کا مکالمہ و مخاطبہ درست<br />

سمت پر جا رہا ہو۔ اس حوالہ <strong>سے</strong>'‏ کچھ نیا اور الگ<br />

<strong>سے</strong> بھی سامنے آ سکتا ہے۔ کتھارسز کی صورت<br />

میں'‏ اصل ہی ؼائب ہو سکتا ہے۔ معاملہ'‏ متعلمہ اور<br />

مطلوبہ ہیئت <strong>سے</strong> ہٹ سکتا ہے'‏ جس <strong>سے</strong> تبدیلی اور<br />

لطؾ افروزی کو ضعؾ پہنچ سکتا ہے۔ تحریر عام<br />

سی.‏ کی سطح پر آ سکتی ہے۔<br />

جب کہ میں سمجھتا ہوں کہ انیسویں اور بیسویں<br />

صدی میں بعدازاں برلی ترلی میں لاری اور لکھاری<br />

کو مزید لریب کیا اور دونوں طرؾ کے علوم <strong>سے</strong><br />

استفادہ ہوا تو ای<strong>سے</strong> نعروں کا جواب کیا ہو جو کسی


بھی علم کو مؽربی کہہ کر رد کریں ؟؟<br />

آپ کا کہنا سولہ آنے درست ہے۔ اس ذیل میں'‏ میری<br />

درج باال معروضات کا مطالعہ فرما لیں'‏ ممکن ہے<br />

کسی کام کی نکلیں۔<br />

کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ ادب کا یہ دور بدگمانی<br />

کنفیوژن اور بے سمتی کا دور ہے کیونکہ ہمارے پاس<br />

کوئی تحریک یا محرک نہیں ہے جس کے تحت بڑا<br />

ادب تخلیك کیا جاسکتا ہے.....‏ اس <strong>سے</strong> آپ کہاں تک<br />

متفك ہیں اور اس بے سمتی کے دور میں ہمیں بہ<br />

‏...حیثیت محافظ اور محبان اردو کیا کرنا ہے<br />

‏'یہ دور<br />

جس میں ہم سانس لے رہے ہیں'‏ پر ہی مولوؾ نہیں'‏<br />

پوری دنیا کا کم زور طبمہ'‏ جو تعدادی اعتبار <strong>سے</strong><br />

زیادہ رہا ہے'‏ بھوک پیاس اور ننگ کے ساتھ ساتھ'‏<br />

بدگمانی'‏ بےیمینی'‏ بےاعتباری اور تذبذب کا شکار<br />

رہا ہے۔ موجودہ صورت حال'‏ کوئی نئی نہیں۔ چوں کہ<br />

یہ طبمہ ریکارڈ میں نہیں آیا'‏ اس لیے اس طبمے کے<br />

احوال'‏ ہم پر کھل نہیں سکے۔ انہیں ہر لمحہ یہ ہی


خوؾ رہا ہے'‏ جانے کب کوئی اپنا یا پرایا'‏ ان کا<br />

سکون ؼارت کر دے گا۔ کسی درندے کا خوؾ کم'‏ ان<br />

کا خوؾ زیادہ رہتا تھا۔ مزید کی ہوس'‏ انہیں ؼارت<br />

گری پر مجبور کرتی رہی ہے۔ انسانی خون بےحیثیت<br />

رہا ہے۔ فاتح کی صورت میں'‏ اس کے لصیدے کہے<br />

جاتے رہے ہیں.‏ ان کا کیا'‏ لصیدہ خواہوں کو کبھی<br />

نظر آیا ہی نہیں۔<br />

دنیا کے کسی ملک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں'‏ یہ کم<br />

زور اکثریتی طبمہ کہیں نظر نہیں آئے گا۔ جہنمی<br />

نمائندے مورکھ نے شاہ اور اس کے جھولی چکوں کو<br />

ہی فوکس کیا ہے۔ ان کے وہ وہ گن للمبند کیے ہیں'‏<br />

جن <strong>سے</strong> ان کا کبھی واسطہ ہی نہیں رہا۔ ان کی<br />

سفاکی'‏ بےرحمی'‏ بدمعاشی اور بدتہذیبی کبھی نظر<br />

آئی ہی نہیں۔ یہ مورخی فرشتے'‏ کھانے کے میز پر'‏<br />

بوٹیوں کے لیے'‏ تلواریں نکال لیتے تھے۔ تنمید کرنے<br />

والے جان <strong>سے</strong> جاتے تھے۔ جہوٹھی چوری خور<br />

مورخ سچ کہنے والوں کو مجرم لرار دیتا آیا ہے۔<br />

سوال پیدا ہوتا ہے'‏ کہ راجدھانیوں میں صرؾ بادشاہ<br />

اور ان کے چمچے ہی رہتے تھے۔ جو اچھا ہوتا تھا'‏


ان <strong>سے</strong> ہی ہوتا تھا۔ ملک میں اچھا کرنے واال کوئی<br />

اور نہ تھا۔ آج جب میڈیا ترلی کر گیا ہے اور بہت <strong>سے</strong><br />

انکشافات ہوتے رہتے ہیں'‏ اس کے باوجود تاریخ'‏<br />

ممتدرہ طبمے کی ہی لکھی جائے اور کم زور طبمہ'‏<br />

جو کارنامے انجام دیتا آ رہا ہے'‏ خورد بین <strong>سے</strong> بھی<br />

نہ دیکھا جا سکے گا۔ ان معروضات کے تناظر میں یہ<br />

دور کے سراب <strong>سے</strong> باہر آئیے۔ جو آج ہو رہا ہے'‏ یہ<br />

ہی کچھ پہلےہوتا رہا ہے۔<br />

تحریکوں وؼیرہ <strong>سے</strong> ادب پیدا نہیں ہوتا۔ ڈاڈازم'‏<br />

سوئیلزم'‏ وجودیت'‏ عالمتی تحریک'‏ مارکس کے<br />

فلسفے پر استوار ترلی پسند تحریک'‏ شعور کی رو<br />

وؼیرہ نے محدودیت کے سوا دیا ہی کیا ہے۔ کچھ بھی<br />

تو نہیں۔<br />

بڑے ادب کا'‏ ان <strong>سے</strong> کوئی تعلك واسطہ ہی نہیں۔<br />

سچے اور کھرے شاعر ادیب کا ان <strong>سے</strong> کیا لینا کیا<br />

دنیا۔ بڑا ادب وہ ہی ہے'‏ جو اپنے عہد کا نمائندہ ہو۔<br />

ادیب شاعر پابندیوں <strong>سے</strong> باہر رہتے ہوئے'‏ ادب کاشت<br />

کرئے۔ ہر والعہ یا معاملہ اپنی زبان'‏ اپنی ہئیت اور<br />

چلن رکھتا ہے۔ سلیمہ شعار شاعر اور ادیب'‏ ا<strong>سے</strong> اس


کے مزاج اور ضرورت کے مطابك للم بند کر دے۔ ادب<br />

پارہ'‏ اپنی ضرورت کے مطابك اطوار اختیار کر لے۔<br />

لکھنے واال خوب خوب جانتا ہوتا ہے'‏ کہ بات کس<br />

طرح کرنی ہے۔ خوؾ ناک باتوں کے لیے زبان'‏<br />

عالمتیں اور استعارے ازخود جنم لیتے رہتے ہیں۔<br />

مستعمل اور متحرک زبان'‏ اپنا تحفظ خود کرتی ہے۔<br />

لکھنے کے عادی اور زبان <strong>سے</strong> محبت کرنے والے'‏<br />

دیانت داری <strong>سے</strong> لکھتے رہتے ہیں۔ ہر اچھا برا لکھا'‏<br />

زبان کا اثاثہ ہوتا ہے۔ کرنے کا کام یہ ہے'‏ کہ لکھے<br />

کو ڈمپ کرنے کی بجائے'‏ منظرعام پر الیا جائے۔ ہر<br />

تحریر زبان کو کچھ نا کچھ دیتی ہے۔<br />

والعہ'‏ معاملہ'‏ حادثہ اور اس کے خالؾ عموم یا<br />

متعلمین کا ردعمل'‏ لکھنے والے کی ذہنی سمت کا<br />

تعین کر لیتا ہے۔ پہلے <strong>سے</strong> طے شدہ سمت'‏ تکرار کا<br />

سبب بنتی ہے'‏ جو ادب کی تخلیمی صحت کے لیے'‏<br />

کسی طرح درست نہیں۔ ہاں راستی کی ذہنیت'‏ آئینہ<br />

دکھانے کا فریضہ ازخود انجام دے دیتی ہے۔<br />

لٹریچر <strong>سے</strong> متعلك چیزیں تو حیثیت اور معنویت


رکھتی ہی ہیں'‏ دوسری تحریریں'‏ جنھیں ہم بےکار<br />

سمجھ کر پھینک دیتے ہیں'‏ معنویت <strong>سے</strong> تہی نہیں<br />

ہوتیں۔ اس لیے اپنی اور اپنے بڑوں کی چزیں'‏ ردی<br />

مت چڑھائیے۔ کمرہ'‏ گیلری یا کوئی جگہ چھنیووں'‏<br />

کولیوں اور لکڑیوں کے لیے صاؾ مت کیجیے'‏ وہاں<br />

پڑا تحریری اثاثہ محفوظ کر لیجیے۔ چھنیاں'‏ کولیاں<br />

اور لکڑیاں اور مل جائیں گی'‏ لیکن یہ اثاثہ ملنے کا<br />

نہیں۔ یمینا یہ زبان کی بہت بڑی خدمت ہو گی۔<br />

کیا اردو مر رہی ہے<br />

کوئی بھی زبان مرتی نہیں'‏ زندہ رہتی ہے۔ اس کی دو<br />

صورتیں ہیں۔<br />

کسی زبان کا <strong>ایک</strong> شخص بھی زندہ ہے'‏ تو جان<br />

رکھیے'‏ وہ زبان زندہ ہے۔ کوئی شخص'‏ کسی دوسری<br />

زبان کے عاللہ میں'‏ پچاس برس جو نصؾ صدی<br />

ہوتے ہیں'‏ رہ لے'‏ وہ شعوری اور الشعوری سطعوں<br />

پر'‏ وہاں کی زبان کا'‏ نہ ہو سکے گا۔ حاالں کہ پورا دن<br />

اس کا واسطہ'‏ اس زبان کے لوگوں <strong>سے</strong> رہے گا۔ وہاں<br />

کی کسی خاتون <strong>سے</strong> شادی ہو جانے کی صورت میں<br />

بھی'‏ ان کا نہ ہو سکے گا۔ بچے اس <strong>سے</strong> پیار کرنے


کے باوجود'‏<br />

اس کی زبان کے نہ ہو سکیں گے۔<br />

وہ کسی زبان کا تنہا آدمی'‏ اپنی ہی زبان میں سوچے<br />

گا۔ اپنی ہی زبان میں'‏ ہر نوع کی یادوں <strong>سے</strong> رشتہ<br />

استوار رکھے گا۔ اب وہ بولے'‏ لکھے اور پڑھے گا<br />

اس زبان میں'‏ لیکن سوچے اور سمجھے گا'‏ اپنی<br />

زبان میں۔ اس کا سوچ اس تک ہی محدود نہ رہے گا'‏<br />

ان حاالت میں'‏ وہ اپنی زبان کے لوگوں کا نمائندہ ہو<br />

گا.‏ اس کا سوچ'‏ وہاں کی زبان پر'‏ فکری اور لسانی<br />

حوالہ <strong>سے</strong>'‏ اثر انداز ہو گا۔ وہ وہاں تنہا نہیں رہ رہا ہو<br />

گا'‏ جو اس کا سوچ'‏ اس تک محدود رہے گا۔ اس کا<br />

سارا دن'‏ بیسیوں طبموں کے لوگوں میں گزرے گا۔ ان<br />

<strong>سے</strong> گفتگو اور لین دین رہے گا۔ اس کا سوچ'‏ جو اس<br />

کی زبان میں ہو گا'‏ بالواسطہ سہی'‏ اس زبان کے<br />

لوگوں پر'‏ فکری اور لسانی حوالہ <strong>سے</strong> اثر انداز ہوگا۔<br />

لکھنے کی صورت میں'‏ بات'‏ سونے پر سہاگے کے<br />

مترادؾ ہو گی۔<br />

اس شخص کے مر جانےکے بعد'‏ اس کا سوچ'‏ اس<br />

سماج اوراس سماج کی زبان میں'‏ باطور بازگشت زندہ<br />

رہے گا۔ باور رہنا چاہیے'‏ ہر زبان کا'‏ اپنا ذاتی کلچر


ہوتا ہے وہ کسی ناکسی حوالہ <strong>سے</strong> برلرار رہتا ہے۔<br />

یونانی'‏ ایرانی'‏ پرتگالی'‏ ترکی'‏ انگریز وؼیرہ چلے<br />

گیے۔ امریکی انگریز کے عالوہ سب کی علم داری<br />

بھی ختم ہو گئی۔ اس کے باوجود ان زبانوں کے الفاظ<br />

آج بھی اس زبان میں مستعمل ہیں۔ مثال<br />

آخر عربی<br />

دیسی صورت آخر آنا بھی مستعمل ہے<br />

اسامی عربی<br />

واحد مستعمل ہے<br />

آباد فارسی<br />

آبرو فارسی<br />

مرکب عزت آبرو<br />

آواز ترکی<br />

مرکب اونچی آواز'‏ بلند آواز'‏ با آواز بلند<br />

باجی ترکی<br />

مرکب باجی جان<br />

جان عربی'‏ فارسی<br />

جان پنجابی میں احترام کا الحمہ'‏ اس کی روح میں<br />

فارسی مفہوم موجود ہے۔<br />

جاپانی میں مترادؾ سان ہے۔<br />

مرکب باجی جان


ایلچی ترکی<br />

مرکب شاہ کا ایلچی<br />

اسرائیل عبرانی<br />

انجیل عبرانی<br />

اسوخودوس یونانی<br />

مرکب جوارش اسوخودوس<br />

طلسم یونانی<br />

مرکب طلسم ہوشربا<br />

انگریزی کے بےشمار لفظ اس زبان میں مستعمل ہیں۔<br />

ان زبانوں <strong>سے</strong> متعلك لوگ کب کے جا چکے ہیں لیکن<br />

ان کی زبان کے لفظ یہاں کی زبانوں میں مستعمل ہیں۔<br />

اردو کے حوالہ <strong>سے</strong>'‏ لمر نموی کا کہنا مالحظہ ہو۔<br />

اردو کے بارے میں شکوک کا <strong>ایک</strong> طویل سلسلہ چل<br />

نکال ہے۔ نجانے کیوں ہر کہہ و مہہ کو یہ فکر الحك<br />

ہو گئی ہے۔ اگرچہ اردو کو بچثیت زبان کوئی خطرہ<br />

نہیں۔۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔ انشاءہللا۔۔۔۔۔ زندہ رہے گی۔۔۔۔۔۔اس کی<br />

حیات جاوداں کا <strong>ایک</strong> اور ثبوت تو یہ ہے کہ امریکہ<br />

۔۔۔۔۔۔۔یعنی ممالک متحدہ امریکہ کی یونیورسٹی آؾ<br />

منے سوٹا میں اردو زبان کا شعبہ لائم ہو گیا ہے<br />

جہاں اردو کی ابتدائی تعلیم <strong>سے</strong> انتہائی تعلیم تک


حاصل کرنے کا انتظام ہے۔۔۔۔۔ اور طالب علموں کی<br />

<strong>ایک</strong> مناسب تعداد اردو زبان سیکھنے میں مشؽول<br />

ہے۔۔۔۔۔۔ <strong>ایک</strong> اور یونیورسٹی میں بھی اردو کے<br />

شعبے کا عنمریب فیصلہ ہونے کو ہے انشاءہللا۔<br />

ریشہءحنا ص<br />

الالہ زار اکیڈمی'‏ الہور<br />

7<br />

1994<br />

کچھ لفظوں کے مفاہیم بدل جاتے ہیں۔ اردو میں<br />

مختلؾ زبانوں کے لفظ دیکھ کر'‏ ا<strong>سے</strong> مختلؾ زبانوں<br />

کے لوگوں کے ملنے کو'‏ وجہءتشکیل لرار دیا گیا۔<br />

اردو مختلؾ زبانوں کے لوگوں کے ملنے <strong>سے</strong> وجود<br />

میں نہیں آئی اور ناہی اس طور <strong>سے</strong>'‏ زبانیں وجود<br />

حاصل کرتی ہیں۔ اردو تو آل ہند کی زبان رہی ہے۔ اس<br />

کا حلمہ'‏ پورا برصؽیر رہا ہے۔ ا<strong>سے</strong> کئی نام اور رسم<br />

الخط ملتے آئے ہیں۔ ؼالب کے ہاں اس کا نام ریختہ<br />

ہے.....اظہار دمحمی'‏ منظور دمحمی۔۔۔۔ فمیر فضل حك تاجر<br />

کتب ابن حاجی مولوی عالؤالدین مرحوم'‏ ساکن پتوکی<br />

نوآباد ضلع الہور'‏ جب پتوکی بنا'‏ اس ولت شائع ہوئی۔<br />

اس کا تعلك انگریز عہد ہی <strong>سے</strong> ہے اور یہ یمینا ؼالب<br />

کے بعد کی بات ہے.‏ اس مختصر سی شعری کتاب کے<br />

صفحہ گیارہ پر'‏ موجود کالم کو ریختہ کہا گیا ہے۔ گویا


یہ نام'‏ تاریخ کے کل پرسوں <strong>سے</strong> تعلك رکھتا ہے۔<br />

ریختہ کے عالوہ بھی'‏ کئی نام ریکارڈ میں ملتے ہیں۔<br />

ویدوں میں'‏ اس زبان کے لفظ موجود ہیں۔ بہت <strong>سے</strong><br />

آثار لدیمہ برباد ہو گیے یا کر دیے گیے'‏ جو محفوظ<br />

رہے'‏ ان میں <strong>سے</strong> جو کتبے ملے'‏ ان کا رسم الخط<br />

پڑھا نہیں جا سکا۔ یہ تو بڑی پرانی بات ہے'‏ اردو کا<br />

رومن رسم الخط صرؾ انگریزی جاننے والوں کے<br />

لیے'‏ کارآمد ہے'‏ دوسرے ا<strong>سے</strong> پڑھ نہیں سکتے۔ یہ<br />

ہی صورت دیوناگری والوں کے لیے اردو'‏ جب کہ<br />

اردو والوں کے لیے دیوناگری کی ہے۔ آج یہ تین رسم<br />

الخط رکھنے والی زبان ہے۔ کی<strong>سے</strong> مر جائے گی۔ یہ<br />

ہزاروں سال <strong>سے</strong> زندہ ہے'‏ اور زندہ رہے گی۔<br />

ان شاءہللا<br />

اردو رسم الخط <strong>سے</strong> وابستہ یہ لدیمی زبان'‏ اپنا وجود<br />

مستحکم کر چکی ہے۔ میں بات تحریری صورت کی کر<br />

رہا ہوں۔ بولے جانے کے حوالہ <strong>سے</strong> بات اس <strong>سے</strong><br />

الگ تر ہے۔ دنیا کا ایسا کون سا عاللہ ہے'‏ جہاں یہ<br />

بولی اور سمجھی نہیں جاتی۔ کنیڈا'‏ امریکہ یہاں تک<br />

کہ برطانیہ میں اس زبان کو بولنے اور سمجھنے


والے'‏ بلکہ شعر و نثر لکھنے اور تحمیمی و تنمیدی<br />

کام کرنے والے'‏ میری بات کی تصدیك کریں گے۔<br />

نہیں تو اس کی ترلی کے امکانات پر روشنی ڈالیں<br />

اگر<br />

دنیا بھر میں'‏ اس زبان <strong>سے</strong> متعلك لوگ'‏ اپنی سطع پر<br />

بال کسی اللچ'‏ محض اپنے ذوق کی تسکین کے لیے'‏<br />

شعر و نثر اور تحمیمی و تنمیدی کام کر رہے ہیں۔<br />

بعض حاالت میں'‏ احباب نوازی کے تحت ہی سہی'‏<br />

زبان کو نئے لفظ اور ان کا استعمال مل رہا ہے۔<br />

جامعات میں کام ہو رہا ہے۔<br />

ترلی کے سارے کام'‏ انگریزی والوں نے ہی نہیں<br />

کیے۔ آج انٹرنیٹ'‏ سب <strong>سے</strong> بڑی ترلی کا کام سمجھا جا<br />

رہا ہے۔ اس کا موڈھی'‏ کون ہے بتایا جائے'‏ کیا وہ<br />

انگریز تھا۔ منفی سہی'‏ اس میں وائرس چھوڑنے<br />

والےانگریزی والے ہی ہیں۔<br />

گماشتگی اور ترلی کی آڑ میں'‏ اسکولوں میں<br />

انگریزی کو ترجیح دی جا رہی ہےاور اردو کے


خالؾ'‏<br />

مایوسی پھیالئی جا رہی ہے۔ بال شبہ یہ سازشی<br />

عمل ہے۔<br />

کیا انگریزی عہد <strong>سے</strong> پہلے لوگ بھوکے مرتے<br />

تھےؼیر ترلی یافتہ تھے ۔ اشیا کے نام نہ تھے۔ بس<br />

اس کے پیچھے احساس کہتری ہے اور کچھ نہیں۔ دنیا<br />

کی مضبوط ساؤنڈ سسٹم'‏ لچک پذیری اور نئے الفاظ<br />

گھڑنے اور لفظوں کو نئی اشکال دینے کی ماہر زبان<br />

کو نظرانداز کیا جا رہا تو یہ بڑے افسوس اور دکھ کی<br />

بات ہے۔ ا<strong>سے</strong> کبھی سرکاری سرپرستی میسر نہیں<br />

آئی اس کے باوجود کبھی تہی دست اور تہی دامن نہیں<br />

رہی۔ دھیرے دھیرے اور طور پر سہی'‏ یہ آگے بڑھتی<br />

رہے گی۔<br />

میرے لفظوں میں عصبت کا عنصر محسوس ہوتا ہے۔<br />

بنیادی طور پر'‏ میں کہنا یہ چاہتا ہوں'‏ ہر نوع کی<br />

ترلی'‏ کسی <strong>ایک</strong> زبان والے کی جھولی میں ڈال دینا'‏<br />

درست نہیں۔ اور زبانیں بولنے والوں کی فکر اور<br />

محنت کو بےنام کر دینا'‏ سراسر زیادتی کے مترادؾ<br />

ہے۔


انشائیوں پر روشنی ڈالیں کیا اردو انشائیوں کے رخ<br />

اور معیار <strong>سے</strong> آپ مطمن ہیں؟<br />

انشائیے کا اصل کمال یہ ہے'‏ کہ تلخ <strong>سے</strong> تلخ بات<br />

بھی'‏ ہلکے پھلکے انداز میں'‏ پکا سا منہ بنا کر'‏ دی<br />

جاتی ہے۔ مزاحیے میں طنز شامل ہوتی ہے اور وہ<br />

چوٹ اور پھبتی کے لریب چال جاتا ہے۔<br />

اب تھوڑا ثمالت داخل ہو رہی ہے۔ کہیں کہیں اکتاہٹ کا<br />

عنصر بھی شامل ہو گیا ہے۔ شاید یہ حاالت کی<br />

جبریت کا نتیجہ ہے۔ ممکن ہے'‏ آتے ولتوں میں'‏ یہ<br />

اپنی اصل پر نہ رہے۔ جو بھی سہی'‏ زبان کو <strong>ایک</strong><br />

الگ <strong>سے</strong> ذائمہ ضرور میسر آ رہا ہے۔<br />

دنیا کی دیگر زبانون کے ادب کے ممابل اردو ادب کا<br />

ممام<br />

اردو ادب کے ممام کا تعین اس ولت ممکن جب<br />

موازناتی کام سامنے آئے گا۔ آج ہر زبان کے ساتھ یہ<br />

ہی معاملہ درپیش ہے۔ تاہم لسانیاتی حوالہ <strong>سے</strong> شاید<br />

یہ دنیا کی تمام زبانوں <strong>سے</strong> بڑھ کر ہو۔<br />

اس میں آوازیں زیادہ ہیں۔


سابمے الحمے زیادہ ہیں<br />

لچک پذیری میں اپنا جواب نہیں رکھتی۔<br />

جذب و اخذ کی زیادہ صالحیت رکھتی ہے۔<br />

ہر انداز'‏ لہجہ'‏ اسلوب اور چلن اختیار کرنے میں'‏<br />

دوسری زبانوں <strong>سے</strong> کہیں بہتر اور بڑھ کر ہے۔<br />

اشکالی تبدلیاں کرنے میں کمال کی صالحیت رکھتی<br />

ہے۔ مثال<br />

عطانا'‏ وصولنا'‏ تالشنا<br />

تھیکنا'‏ ایڈوائسنا'‏ کرپٹنا<br />

وؼیرہ وؼیرہ<br />

ہمارے نوآموز افسانہ نگار آتے ہی منٹو اور عصمت<br />

بننے کے شائك ہیں اور وہ اسلوب کی ننگے پن کو<br />

مزید ننگا کرتے چلے جاتے ہیں اور بعد ازاں تمام<br />

عمر اسی کنوئیں میں بھٹکتے رہتے ہیں ‏.عورت کو<br />

عالمت بنا کر اگر عصمت اور منٹو نے بات کی تو وہ<br />

اس ولت ہندوستان میں آزادی نسواں کی تحریک کا<br />

ابتدائی زمانہ تھا ‏..اگر منٹو کے ہاں،‏ کالی شلوار،‏<br />

عشمیہ کہانی،‏ سودا بیچنے والی،‏ بدصورتی،‏ بھنگن،‏<br />

جانکی،‏ ٹھنڈا گوشت،‏ یا موزیل جی<strong>سے</strong> افسانے لکھے<br />

ہیں جو عورت کے بے باک کرداروں کی نفسیات <strong>سے</strong>


!<br />

جڑے ہیں تو منٹو نے ٹوبہ ٹیک سنگھ،‏ اور لانون<br />

ج<strong>سے</strong> افسانے بھی لکھے ہیں جن کا رنگ آہنگ اور<br />

موضوع مختلؾ ہے ہمارا افسانہ موضوعی اعتبار<br />

<strong>سے</strong> ابھی بھی انگیہ ‏..چولی ‏..اور ننگے پن میں<br />

پھنسا ہے<br />

لکیر کی اہمیت کا میں منکر نہیں۔ لکیر کے فمیر'‏ بلکہ<br />

مرید کائنات کا سارا حسن'‏ اسی میں دیکھتے ہیں۔ اس<br />

کی پوجا پاٹ کو'‏ ممصد حیات سمجھتے ہیں۔ ان کے<br />

لیے جائز اور ناجائز لکیریں'‏ مساوی حیثیت کی حامل<br />

ہوتی ہیں۔ فرق صرؾ نظریے کا ہے'‏ آلہءتخلیك<br />

سمجھنا اس کے احترام'‏ جب کہ آلہء نشاط سمجھنا'‏<br />

اس کی توہین و تذلیل کے زمرے میں آتا ہے۔<br />

اردو ادب پر ہی مولوؾ نہیں'‏ دنیا کے ہر ادب میں'‏ یہ<br />

عنصر نظر آئے گا۔ اس عہد کا نمبردار ادب'‏ اس طرح<br />

کے لوازمات <strong>سے</strong> خالی نہیں۔ اس کے لیے صرؾ'‏ ڈی<br />

ایچ الارنس کی مثال ہی کافی ہے۔<br />

اس ذیل میں'‏ بعض حاالت کو'‏ پس پشت ڈاال نہیں جا<br />

سکتا۔ بکسر میں'‏ شجاع الدولہ کی شکست کے بعد'‏


صرؾ لکھنو اور فیض آباد ہی نہیں'‏ پورے اودھ میں<br />

لکیر کی فمیری پروان چڑھی۔ آصؾ الدولہ اور واجد<br />

علی کے دور میں'‏ بچاؤ اور پناہ کا یہ ہی رستہ نظر<br />

آیا۔<br />

دمحم شاہی دور'‏ اس حوالہ <strong>سے</strong> پیک پر تھا۔ سلیم اور<br />

سلیم کا عہد بھی'‏ رنگین تھا۔ مورکھ کا لکھا'‏ چٹا<br />

جھوٹ ہے۔ برطانیہ میں صرؾ وکٹوریہ کا عہد<br />

صالوت کے الئك ہے۔ ؼالبا چار سو کتابوں کے ترجم<br />

ہوئے۔<br />

ذرا ؼور کیجیئے'‏ عورت بےلباس کیوں ہوئی۔ جوان<br />

لوگ'‏ لڑائیوں میں مر کھپ گیے۔ بوڑھے ہی رہ گیے<br />

تھے۔جنسی تسکین کے لیے'‏ ان کی توجہ اسی طور<br />

<strong>سے</strong>'‏ حاصل کی جا سکتی تھی'‏ پھر یہ رویہ مستمل ہو<br />

گیا۔<br />

ان تمام باتوں کے باوجود'‏ اس نہج کی تحریروں میں<br />

بھی'‏ کہیں ناکہیں اور کسی ناکسی سطع پر'‏ شخصی<br />

نفسیات اور سمماجی ناہمواری کی'‏ نشاندہی ضرور<br />

ہوئی ہے۔


اردو افسانہ بھی عالمی ادب میں سر نکال سکے ؟؟<br />

یہ عالمی افسانے <strong>سے</strong> کسی طرح پیچھے نہیں۔ آج<br />

تک'‏ اس ذیل میں موازناتی کام ہوا ہی نہیں۔ جب کام ہی<br />

نہیں ہوا'‏ تو پیچھے آگے کی بات ہی نہیں کی جا<br />

سکتی۔ ؼیرمعروؾ اور نامعلوم کو <strong>ایک</strong> طرؾ رکھیے'‏<br />

بہت <strong>سے</strong> معروؾ افسانہ نگاروں کے سارے افسانے<br />

منظر عام پر نہیں آ سکے۔ اس بات کے تحت بھی کم<br />

تر یا بڑھ کر کی بات نہیں کی جا سکتی۔ اس ذیل میں'‏<br />

ترجمے کے عمل کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔<br />

عالمت تجرید ‏..فینسی ‏..یا جادوئی عالمت نگاری کون<br />

سا ہتھیار کارآمد ہو گا ؟؟؟؟<br />

ہر افسانہ'‏ اپنا طوراور اپنی ہئیت لے کر جنم لیتا ہے.‏<br />

اس طوراور ہیئت میں ہی'‏ اس کا اظہار مناسب ہوتا<br />

ہے۔ کوئی مخصوص طور اور چلن'‏ اس پر ٹھونسنا'‏<br />

اس کی ترلی کی راہ میں دیوار کھٹری کرنے کے<br />

مترادؾ ہے۔ انداز پالٹ پر انحصار کرتا ہے اور یہ'‏


اس کی ذاتی ضرورت اور فطرت پر استوار ہونا<br />

چاہیے'‏ ورنہ وہ'‏ وہ نہیں رہے گا'‏ جو وہ اپنی اصل<br />

میں ہے۔<br />

اردو دنیا اور ساری دنیا کے انسانوں کے لیے آپ کا<br />

پیؽام کیا ہے ؟<br />

زبانوں کے حوالہ <strong>سے</strong>'‏ انسانی تمسیم درحمیمت زبانوں<br />

کی'‏ توہین و تذلیل کے<br />

‏.مترادؾ ہے<br />

زبانیں بڑی ملن سار ہوتی ہیں۔ <strong>ایک</strong> زبان'‏ دوسری<br />

زبان کو لبولتے'‏ شرمندگی'‏ توہین یا تذلیل محسوس<br />

نہیں کرتی۔ اس کا عملی تجزیہ'‏ رحمان بابا کے کالم<br />

<strong>سے</strong> پیش کر چکا ہوں۔<br />

زبانوں کے حوالہ <strong>سے</strong>'‏ کوئی الگ <strong>سے</strong> دنیا'‏ وجود<br />

حاصل نہیں کرتی۔ زبان تو محض رابطے اور اظہار کا<br />

ذریعہ ہے۔ جو بھی ا<strong>سے</strong> استعمال ۔۔۔۔۔۔ سوچنا'‏<br />

سمجھنا'‏ سننا'‏ بولنا'‏ لکھنا'‏ پڑھنا۔۔۔۔۔۔ میں التا ہے'‏ یہ<br />

اسی کی ہے۔ دونوں کو <strong>ایک</strong> ساتھ چلنا ہے'‏ تاہم زبان<br />

کو'‏ شخص کی انگلی پکڑنا ہوتی ہے۔ اگر شخص اس


کی انگلی پکڑے گا'‏ تو اس کے استعمال <strong>سے</strong> لاصر<br />

وعاجز رہے گا۔<br />

اماں چوچی ڈو۔<br />

او زئی خان کدھر کو جاتی ہے۔<br />

ہم ٹمہاڑا کے واسٹے کوشش کرے گا۔<br />

باجار <strong>سے</strong> باریک پن کا چارجل لیتے آنا۔<br />

ان میں <strong>سے</strong> کوئی جملہ'‏ نالابل تفہیم نہیں ہے۔ یہ زبان<br />

دنیا کے ہر کونے میں استعمال ہوتی ہے اور اس ولت'‏<br />

استعمال کی دوسری بڑی زبان ہے'‏ ہاں اپنے ساؤنڈ<br />

سسٹم کے حوالہ <strong>سے</strong>'‏ دنیا کی سب <strong>سے</strong> بڑی زبان<br />

ہے۔ سو ہاتھ رسا سرے پہ گانٹھ'‏ زبانوں کے حوالہ<br />

<strong>سے</strong>'‏ کوئی دنیا تشکیل نہیں پاتی۔ استعمال کنندہ دوئی<br />

کا'‏ اپنی فکر کے حوالہ <strong>سے</strong>'‏ دروازہ کھولتا ہے۔ ا<strong>سے</strong><br />

تو دونوں کی چاکری کرنا ہے۔ مثال<br />

حضرت عیسی ع مصلوب ہوئے۔<br />

حضرت عیسی ع مصلوب نہیں ہوئے۔<br />

حضرت عیسی ع طبعی موت مرے۔<br />

گویا تفریك کا دروازہ استعمال کرنے واال'‏ اپنے نظریہ'‏<br />

ضرورت اور مفاد کے لیے کھولتا ہے۔


کوئی بھی'‏ دوسری زبان میں'‏ اس زبان کے بے بدل<br />

عالم <strong>سے</strong> بڑھ کر'‏ عالم ہو سکتا ہے۔ اس کی <strong>ایک</strong> نہیں<br />

بیسیوں مثالیں موجود ہیں۔ مثال<br />

نظیری کو اپنی زبان پر بجا فخر اور اپنی شاعری کے<br />

ہر سمم <strong>سے</strong> پاک ہونے کا بھی بجا ناز تھا۔ یہ سودا<br />

کے زمانے میں دلی گیے اورمشاعروں میں شرکت کی<br />

اس شہرت کے ساتھ کہ ان کے کالم کو درست نہیں کیا<br />

جا سکتا۔ گویا نظیری نے جو شعر کہا وہ شعر عجم بن<br />

گیا۔ لیکن ان کے اس زعم کو بھی شکست کا منہ<br />

دیکھنا پڑا۔<br />

نظیری نے اپنی ؼزل کا مطلع پڑھا<br />

سیہ چوری بدست آں نگار نازنین دیدم<br />

بہ شاخ صندلیں پچیدہ مارے آتشیں دیدم<br />

لوگ پھڑک اٹھے۔۔۔۔۔۔۔ محفل صدا ہائے تحسین و آفریں<br />

<strong>سے</strong> گونج اٹھی۔۔۔۔ دیر تک مرحبا و واہ واہ ہوئی۔۔۔۔۔<br />

داد بھی اور بیداد بھی ہوئی۔<br />

لیکن اس سرد فضا میں <strong>ایک</strong> سودا تھے جو خاموش<br />

تھے۔ نظیری نے ان کی طرؾ داد طلب نظروں <strong>سے</strong>


دیکھا تو سودا نے عرض کیا۔ کہ اگر اجازت ہو تو اس<br />

مطلع کو ذرا سا درست کر دیں۔۔۔۔۔<br />

محفل کو تو جی<strong>سے</strong> سانپ سونگھ گیا۔ نظیری پر<br />

جی<strong>سے</strong> برق المع ٹوٹ پڑی۔<br />

نظری ۔۔۔۔۔ استاد نظیری۔۔۔۔۔ فارسی ادب کا اپنے عصر<br />

کا فاضل ترین'‏ لادر ترین شاعر اور سودا اس کے<br />

کالم کو درست کرنے کا ادعا لے کر اٹھے۔۔۔۔۔۔۔<br />

ساری محفل کی نظریں سودا پر جم گئیں۔ نظیری<br />

تصویر حیرت بن کر انہیں دیکھنے لگے۔<br />

باالخر کسی نے تماضا کیا۔ حضور آپ اس شعر کو کس<br />

طرح بدلنا مناسب جانتے ہیں۔<br />

سودا نے مودبانہ اجازت چاہی۔ نظیری نے <strong>ایک</strong><br />

بےخودی کے عالم میں ان کو اجازت دی۔۔۔۔۔۔۔۔ سودا<br />

نے مطلع اس طرح پڑھا<br />

سیہ چوری بہ دست آں نگارے<br />

بہ شاخ صندلیں پچیدہ مارے<br />

<strong>ایک</strong> لمحہ سکون کے بعد جو داد و تحسین کا شور<br />

اٹھا تو جی<strong>سے</strong> چھتیں اڑا دی گئیں۔<br />

ریشہء حنا لمر نموی اللہ زار اکیڈمی الہور ص 4'


5<br />

سنائیے کیا کہتے ہیں۔ اس <strong>سے</strong> بڑھ کر <strong>ایک</strong> اور<br />

انکشاؾ'‏ یہ اردو تحریر'‏ اول تا آخر فارسی بولنے<br />

والی خاتون'‏ شیرین زاد بہنام'‏ تہران۔ ایران کی ہے۔<br />

اصل فساد کی جڑ اور انسانی تمسیم کرنے والے چار<br />

طبمے ہیں۔<br />

پہلی دنیا ممتدرہ طبمے کی ہے۔<br />

ممتدرہ طبموں <strong>سے</strong> میری اپیل ہے'‏ کہ انسان پر اب<br />

رحم کریں۔ وہ روز اول <strong>سے</strong> پس رہا ہے۔<br />

یہ اپنی روش نہیں بدلیں گے۔ گریب کے لہو پسینے<br />

کی کمائی <strong>سے</strong>'‏ تاج محل اور نور محل تعمیر کرتے<br />

آئے ہیں اور کرتے رہیں گے۔<br />

ہاں یہ تو کر سکتے ہیں'‏ کہ فوج'‏ جو انسان کی<br />

حفاظت کے لیے ہوتی ہے'‏ کو بچوں'‏ بوڑھوں'‏<br />

عورتوں اور ان کم زور جوانوں'‏ جن کی کمائی ہڑپنے<br />

کے لیے فوج بھیجتے ہو'‏ کو لتل نہ کریں بلکہ ہر<br />

حوالہ <strong>سے</strong>'‏ ان کی حفاظت کا حکم دیں۔


علمی وادبی سرمایہ'‏ یہ کہہ کر کہ دشمن کا ہے'‏ ؼارت<br />

کرنے کی اجازت نہ دیں'‏ بلکہ سختی <strong>سے</strong> منع کر دیں۔<br />

لفظ انسان کی ملکیت ہے۔ ا<strong>سے</strong> کسی خاص لوم'‏<br />

عاللہ'‏ نسل وؼیرہ <strong>سے</strong> منسوب نہیں کیا جا سکتا۔<br />

خریدداری <strong>سے</strong> پہلے ہی'‏ سو کو 75.76 میں نہ بدل<br />

دو۔ خریدداری پر ہی ٹیکس لگاؤ۔ ا<strong>سے</strong> بھی مناسب<br />

اور واجب بناؤ۔<br />

یہاں کب کوئی رہا ہے۔ یہاں کا یہاں ہی رہ جائے گا۔<br />

دوسری دنیا اہل ثروت کی ہے۔<br />

خدا کے لیے'‏ اپنے کاموں کو ان کا واجب مناسب یا<br />

ان کی کار کا'‏ جو اور جتنا بھی بنتا ہے'‏ دے دو۔ اس<br />

میں ڈنڈی نہ مارو۔ ان کی کار کا'‏ کار کے مطابك بنتا<br />

عوضانہ'‏ ان کا اوران کے بچوں کا پیٹ بھرنے کے<br />

لیے'‏ کافی ہوتا ہے۔<br />

تیسری دنیا گماشتگان کی ہے۔ ان <strong>سے</strong> استدعا ہے<br />

ہللا ہی ایسا رب ہے کہ اس سا روٹی دینے واال کوئی<br />

نہیں۔


چوپڑی'‏ مگر جھوٹی کے حصول کے لیے'‏ جھوٹ<br />

<strong>سے</strong> کام نہ لو۔<br />

سرکاری چوری خور مورکھ'‏ شاعر'‏ ادیب یا صحافی<br />

اگر سچ نہیں لکھ سکتا'‏ جھوٹ بھی نہ لکھے۔ یمین<br />

رکھیے'‏ ہللا کے ہاں <strong>سے</strong>'‏ روٹی ضرور ملے گی۔<br />

ہللا تو انسان کو'‏ اس کے اندر روٹی فراہم کرنے پر<br />

لادر ہے۔<br />

چوتھی دنیا'‏ مذہبی طبمے کی ہے۔<br />

ان <strong>سے</strong> دست بستہ استدعا ہے'‏ کہ روٹی اور آسائش<br />

کے لیے'‏ انسانی تمسیم کا کھیل ختم کر دو۔ تم لوگ<br />

مذہب <strong>سے</strong> متعلك ہو'‏ کہ ہللا'‏ کرت ہار'‏ یزداں'‏ گاڈ'‏<br />

بھاگوان'‏ خداوند ہی رزق رساں ہے۔ جو جیسا ہے'‏<br />

ویسا ہی بتاؤ۔ طالت کے ہاتھ میں کھلونا بن کر'‏ اس<br />

کی مرضی کا نہ کہو۔ ؼلط سلط کہہ کر'‏ سمراط اور<br />

منصور <strong>سے</strong> لوگ'‏ ضائع نہ کرو۔ یہ ملنے کے نہیں'‏<br />

نایاب ہیں۔ یاد رکھو'‏ یہ اچھے لفظوں <strong>سے</strong> یاد کیے<br />

جاتے رہیں گے۔<br />

طالت کے نشہ میں سرشار لوگ'‏ مٹ جائیں گے۔ ان<br />

کی لبروں پر رات کو کتے'‏ افیونی'‏ چرسی اور جہاز


الامت کریں گے۔ ان کی نسل <strong>سے</strong> کوئی'‏ ان کی لبروں<br />

پر بکھری ؼالظت کو'‏ صاؾ کرنے نہیں آئے گا۔ ان<br />

کے چھوڑے پر'‏ وہ عیش کریں گے۔ یہ انہیں یاد تک<br />

نہ ہوں گے۔ آسمانی مخلوق بھی'‏ ان پر لعنتیں برساتی<br />

رہے گی۔<br />

یہ پہچان لیے جائیں گے'‏ کہ تاج محل کی تعمیر'‏<br />

انسانیت کی خدمت نہیں'‏ اس کی گھٹیا فکر کی عیاشی<br />

تھی۔<br />

دنیا کا کم زور طبمہ'‏ جو مفلس اور لالش ہے۔ تعداد<br />

میں زیادہ ہے'‏ <strong>سے</strong> میری گزارش ہے۔ کہ<br />

وہ صرؾ اور صرؾ اور ہر حالت میں'‏ ہللا کے حضور<br />

ہاتھ اٹھائے۔ اس <strong>سے</strong> بڑھ کر'‏ عطا کرنے واال بھال اور<br />

کون ہو سکتا ہے۔ ہللا کے حضور اٹھے ہاتھ'‏ بابرکت<br />

اور حسن وجمال میں اپنی مثال نہیں رکھتے۔ ڈٹ کر<br />

محنت کریں اور اس <strong>سے</strong> میسر کو'‏ اپنے لیے کافی<br />

سمجھیں۔ یاد رکھیں حالل کا <strong>ایک</strong> لممہ'‏ لارون کے<br />

خزانے <strong>سے</strong> کہیں بڑھ کر ہے۔<br />

تجزیہ کر دیکھیں'‏<br />

بیگانی کمائی کےمرؼے کی ٹانگ


پر مشتمل لممہ'‏ بےرحم ہوتا ہے اور بائیس اؤنس<br />

<strong>سے</strong> زیادہ'‏ کھا لیا جاتا ہے۔<br />

انتشار خون کا سبب بنتا ہے۔<br />

گرمی پیدا کرتا ہے۔<br />

زیادہ مصالحے ہونے کے باعث'‏ اعصاب کو نمصان<br />

پہنچاتا ہے۔ حرکت اور حرارت للب بڑھ جاتی ہے جس<br />

<strong>سے</strong> انتشار و فشار کے مولعے بڑھ جاتے ہیں۔<br />

معدے کو زیادہ مشمت میں ڈالتا ہے۔<br />

موٹاپے کو <strong>ایک</strong> طرؾ رکھیے'‏ نالص اور ضرورت<br />

<strong>سے</strong> زائد چکنائی'‏ جسم میں کوئی بھی اور کسی ولت<br />

بھی خرابی پیدا کر سکتی ہے۔<br />

اب کم زور کے پودینے'‏ سبز مرچ'‏ لہسن اورادرک کی<br />

چٹنی پر ؼور کر دیکھیں.‏ لہسن اور ادرک کو الگ کر<br />

دیں۔ صرؾ پودینے اور سبز مرچ پر ہی ؼور کر لیں۔<br />

سبز مرچ کا فمط <strong>ایک</strong> بیج'‏ معدے کی حفاظت کے لیے<br />

کافی ہوتا ہے۔ سستی سبزیوں پر ؼور کر دیکھیں۔<br />

افادیت میں مرؼے کی ٹانگ <strong>سے</strong> بڑھ کر ہیں۔<br />

گریب کو کبھی کبھار گوشت میسر آتا ہے۔ اس میں'‏<br />

آلو یا سستی سبزی کی آمیزش کر دی جاتی'‏ جس


<strong>سے</strong> سالن متوازن ہو جاتا ہے۔ بوٹی بھی صرفے کی<br />

حصہ میں آتی ہے۔<br />

کدو'‏ پالک'‏ بیگن'‏ پالک وؼیرہ فوالد کا گھر ہیں۔ پانی<br />

کی کمی بھی دور ہو جاتی ہے۔<br />

گاجر سیب <strong>سے</strong> کسی طرح کم نہیں۔<br />

بیر بڑی زبردست چیز ہے۔<br />

گھڑے کا پانی'‏ فلٹرڈ فریج میں رکھے پانی <strong>سے</strong>'‏ ہزار<br />

گنا اچھا اور صحت کے لیے بہتر ہے۔<br />

گریب کی یہ روکھی سوکھی امیر کی چوپڑی <strong>سے</strong>'‏<br />

کہیں اچھی اور بہتر ہے۔ اس میں محنت کا نشہ بھی<br />

شامل ہوتا ہے۔ اس لیے ا<strong>سے</strong>'‏ کسی بھی موڑ پر'‏ منہ<br />

<strong>سے</strong> ناشکری کا کوئی کلمہ نہیں نکالنا چاہیے۔<br />

ناشکری بدترین بیماری اور زحمت ہے۔

Hooray! Your file is uploaded and ready to be published.

Saved successfully!

Ooh no, something went wrong!